’’آسان تفسیرِ قرآن‘‘

پیش لفظ

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

بندے کے حاشیۂ خیال میں کبھی نہیں آیا تھا کہ میں کوئی مفصل تفسیر لکھنے کی جرأت کروں۔ اس کی پہلی وجہ تو تفسیر کی نزاکتوں کا ادراک تھا، اور اپنی کم علمی کے ساتھ اس نازک اور مقدس کام کے لئے اپنے آپ کو نااہل پاتا تھا۔ دوسری بڑی وجہ یہ تھی کہ بفضلہ تعالیٰ ہمارے اکابر کی متعدد تفسیریں پہلے سے موجود ہیں۔ اور ان میں میرے والد ماجد (فداہ نفسی) حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب قدس سرہ کی تفسیر ’’معارف القرآن‘‘ اس قدر جامع اور عام فہم ہے کہ اُس نے لوگوں کا یہ عذر تقریباً‌ ختم کر دیا تھا کہ اکابر کی تفسیریں اُن کی سمجھ سے باہر ہیں۔ اس تفسیر میں ایک مسلمان کی زندگی کے مختلف شعبوں میں قرآنی ہدایات اور ان کے معارف کو جس دقتِ نظر اور تفصیل سے بیان فرمایا گیا ہے وہ اپنی نظیر آپ ہے۔ چنانچہ الحمد للہ تعالیٰ یہ تفسیر پورے عالمِ اسلام میں نہایت مقبول ہوئی۔ اور اس کا فائدہ بہت عام ہوا، اور انگریزی، فارسی، بنگالی، پشتو، سندھی، ٹامل وغیرہ زبانوں میں اس کا ترجمہ قرآنی ہدایات کا فیض پھیلا رہا ہے۔ اس کے بعد مجھ جیسے نااہل کے لئے کوئی تفسیر لکھنے کی ضرورت بھی معلوم نہیں ہوتی تھی، بلکہ یہ ایک جسارت معلوم ہوتی تھی۔

البتہ انگلش میڈیم اسکولوں اور سرکاری اسکولوں کے انحطاط نے یہ مشکل ضرور پیدا کر دی ہے کہ ان کا رابطہ فصیح اور معیاری اردو سے بڑی حد تک کٹ گیا ہے۔ اس لیے کبھی کبھی یہ خیال ضرور آیا کہ جہاں آج کے لوگوں کو بات سمجھنے میں دشواری ہوتی ہے، وہاں کچھ تشریحی نوٹ بڑھا دیئے جائیں، خود حضرت والد صاحب قدس سرہ نے ’’عوارف القرآن‘‘ کے نام سے ’’معارف القرآن‘‘ کی تلخیص و تسہیل کا ایک سلسلہ شروع فرمایا تھا جو تھوڑا سا ہوا، پھر نا مکمل رہ گیا۔

اُدھر قرآنِ کریم کے مروّجہ تراجم بھی بہت سے لوگوں کے لیے سمجھ سے باہر ہو گئے تھے، اس لیے مجھ پر اصرار تھا کہ میں قرآن کریم کا کوئی آسان اور سلیس ترجمہ لکھوں، چنانچہ قرآن کریم کے انگریزی ترجمے (The Noble Quran) کے بعد میں نے ’’آسان ترجمۂ قرآن‘‘ کے نام سے ایک ترجمہ شائع کیا جو بفضلہ تعالیٰ بحیثیت مجموعی پسند کیا گیا، لیکن وہ ترجمہ ہی تھا، کوئی تفسیر نہیں تھی، صرف کہیں کہیں وضاحت کے لیے تشریحی نوٹ لکھے گئے تھے۔

اس موقع پر بعض حضرات نے مشورہ دیا کہ آج کل لوگ کتابیں پڑھنے سے زیادہ سمعی آلات مثلاً آڈیو سننے کو آسان سمجھتے ہیں اور اس کا ریکارڈ لگا کر سفروں کے درمیان بھی سن سکتے ہیں، لہٰذا آڈیو ریکارڈنگ کے ذریعے اگر کوئی درسِ قرآن آجائے تو فائدے کی امید ہے۔ اس تجویز کے پیشِ نظر بندہ نے تجربۃً‌ یہ ریکارڈنگ شروع کر دی۔ شروع میں اسے کتابی شکل میں لانے کا ارادہ نہیں تھا، لیکن متعدد احباب نے جن میں جناب رشید سلیم صاحب نہایت نمایاں ہیں، یہ زور دیا کہ اس ریکارڈنگ کو ضبطِ تحریر میں لا کر اسے شائع کیا جائے، چنانچہ سورۂ فاتحہ کی تفسیر اسی طرح الگ شائع ہوئی۔ اب جناب رشید سلیم نے اسی تفسیر کی تکمیل اور بہتر اشاعت کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا۔

مجھے تأمل اس لیے تھا کہ ریکارڈنگ میں خطابی انداز از خود تصنیف کرنے سے مختلف ہوتا ہے، نیز اس میں بہت سی باتیں مکرر بھی آجاتی ہیں، چنانچہ جناب رشید سلیم صاحب نے میرے ایک قابل ساتھی مولانا راشد حسین صاحب کو اس کام کے لیے تیار کیا کہ انہوں نے تقریروں کو بڑی حد تک تحریری اسلوب میں تبدیل کیا، اور پھر مجھے پورا کام دکھایا جس پر میں نے نظر ثانی کی اور بہت سی تبدیلیاں کیں، بالآخر یہ مسودہ تیار ہو گیا جو بحیثیتِ مجموعی ایک کتابی تفسیر کی شکل میں آگیا۔

سورۂ فاتحہ کے بعد سورۂ بقرہ کی ضخیم جلد آپ کے سامنے آرہی ہے، اس پر میں نے تین بار نظر ڈالی ہے اور جہاں کوئی اشکال تھا یا بات مکمل نہ تھی اس کو مکمل کیا ہے۔

اس سارے کام کا سہرا برادرِ مکرم جناب رشید سلیم صاحب اور میرے عزیز بھائی مولانا راشد حسین صاحب کے سر ہے جنہوں نے اس کتاب کی اشاعت کو اپنا مقصدِ زندگی بنا لیا، پہلے میرے جو درس ریکارڈنگ کی شکل میں تھے، انہیں لفظ بہ لفظ قلم بند کروایا، پھر میری ہدایات کے مطابق ان کو خطابی شکل سے کتابی شکل دی اور مجھے مسودہ دکھایا۔ میں نے اس کے ایک ایک لفظ اور ایک ایک فقرے کو پڑھ کر اس میں جوہری تبدیلیاں کیں، اور بہت سے مضامین ازسرِنو لکھے۔

مولانا راشد حسین صاحب نے اس ترمیم شدہ مسودے کو نہ صرف ترتیب دیا، بلکہ اس میں جن آیات و احادیث یا فقہی مسائل کے حوالوں کی ضرورت تھی ان کی تخریج کر کے حواشی میں ان کا اضافہ کیا۔ نیز جہاں ضرورت سمجھی، قوسین میں الفاظ کی تشریح بھی کی، اور مضامین پر عنوانات قائم کئے۔ اس کے بعد پھر آخری نظر کے لیے مجھے یہ مرتب شدہ مسودہ دیا۔ میں نے اسے ایک بار پھر مکمل پڑھا۔ ما شاء اللہ اب کام ایسا ہو گیا تھا کہ بہت کم مقامات پر مجھے مزید ترمیم کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اس طرح سورۂ بقرہ بفضلہٖ تعالیٰ پوری ہو گئی اور اب اس انداز میں آپ کے سامنے ہے کہ گویا یہ خود میری لکھی ہوئی ہے۔

جو دروس اب تک ریکارڈ ہو چکے ہیں، ان میں بفضلہٖ تعالیٰ سات پارے مکمل ہیں، سورۂ آل عمران، سورۂ نساء، سورۂ مائدہ اور سورۂ انعام کا بیشتر حصہ پورا ہو چکا ہے، اور ریکارڈنگ مزید جاری ہے۔ سورۂ بقرہ کے بعد باقی سورتوں پر مولانا راشد حسین صاحب مسلسل کام کر رہے ہیں۔ اور امید ہے کہ ان شاء اللہ تعالیٰ یہ کام بھی رفتہ رفتہ سامنے آتا رہے گا۔

حقیقت تو یہ ہے کہ قرآنِ کریم کے معارف و اسرار ایک ناپیدا کنار سمندر کی طرح ہیں، اور چودہ صدیوں سے اس سمندر سے موتی نکالے جا رہے ہیں، لیکن کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ اُس نے اس کلامِ الٰہی کے تمام گوشوں کا احاطہ کر لیا ہے۔ لیکن اپنی اپنی سمجھ اور اپنی اپنی سطح کے مطابق جو کوششیں ہوتی رہی ہیں، یہ کتاب بھی اسی طرح کی ایک کوشش ہے۔ اگر اس میں کوئی بات صحیح اور اچھی ہے تو محض اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہے، اور اگر کوئی بات خدانخواستہ غلط یا کمزور ہے تو وہ اس بندۂ عاجز کی نااہلی کی بنا پر ہے۔ لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اس کوشش کو اپنی بارگاہ میں شرفِ قبول عطا فرما کر اس بندۂ عاجز کی مغفرت کا ذریعہ بنا دے، اور یہ پڑھنے والوں کو فائدہ پہنچا کر قرآن کریم کی تعلیم عام کرنے میں مددگار ثابت ہو۔ آمین۔

بندہ محمد تقی عثمانی عفی عنہ

۵ رجب ۱۴۴۲ھ

۱۷ فروری ۲۰۲۱ء

دعا

یا اَرحم الراحمین…! میں اس عاجز وجود کے ساتھ آپ کے کلامِ مجید کا ترجمہ اور اس کی تشریح آپ کے اُن بندوں کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں جو آپ کے کلام کو سمجھنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ حقیقت میں آپ کے اس عظیم کلام کا ترجمہ اور تشریح کسی بندے کے بس کی بات نہیں۔ جب تک آپ کی توفیق شاملِ حال نہ ہو، کوئی بھی بندہ آپ کے کلام کی عظمت اور اس کی حقیقت کو اپنے ناقِص لفظوں میں بیان کرنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ اس کوشش اور کاوش کا اصل مقصود، محض آپ کی رضا کا حصول اور آپ کے کلام کو آپ کے بندوں تک پہنچانے کی نیت ہے۔

یا اللہ…! اسے شرفِ قبولیت سے نواز کر اس کا پورا پورا اجر عطا فرما۔

یا اَرحم الراحمین…! اپنے فضل و کرم سے مجھے اس کام میں اخلاص بھی عطا فرما اور اس کو ٹھیک ٹھیک اپنی رضا کے مطابق انجام دینے کی توفیقِ کامل بھی عطا فرما۔ آپ ہی انسان کو توفیق دینے والے ہیں اور آپ ہی اس کو ایسے کام کرنے کی صلاحیت عطا فرمانے والے ہیں، جو آپ کی رضا کے مطابق ہو۔ آپ کی توفیق کے بغیر کوئی کام نہیں ہو سکتا۔

اے اللہ…! اپنے فضل و کرم سے مجھے اس کی توفیق عطا فرما اور پڑھنے والوں کے لیے اس کو نافع و مفید بنا دے اور اس کو میرے لیے اپنی رضائے کامل کے حصول اور صدقۂ جاریہ کا ذریعہ بنا دے۔ آمین ثم آمین

میں قرآنِ کریم کی یہ ناچیز خدمت اس احساس کے ساتھ پیش کر رہا ہوں کہ اس بے مثال کلام کی خدمت کے لیے جس علم کی ضرورت ہے، میں اس سے تہی دامن ہوں، لیکن جس مالکِ کریم کا یہ کلام ہے، وہ جس ذرۂ بے مقدار سے جو کام لینا چاہے، لے لیتا ہے، لہٰذا اگر اس خدمت میں کوئی بات اچھی اور درست ہے تو وہ صرف اسی کی توفیق سے ہے اور اگر کوئی کوتاہی ہے تو وہ میری نا اہلی کی وجہ سے ہے۔

اسی مالک کریم کی بارگاہ میں یہ التجا ہے کہ وہ اس خدمت کو اپنے فضل و کرم سے قبول فرما کر اسے مسلمانوں کے لیے مفید اور اس ناکارہ کے لیے آخرت کا ذخیرہ بنا دے، آمین۔ وما توفیقی الا باللہ۔


رابطہ: مکتبہ معارف القرآن، کراچی

923122592838

mm.q@live.com



(نوٹ: یہ تحریر ۲۰۲۱ء کی ہے، اس کے بعد مزید جلدیں منظر عام پر آ چکی ہیں۔ ادارہ الشریعہ)


قرآن / علوم القرآن

مطبوعات

(الشریعہ — مئی ۲۰۲۵ء)

ماہانہ بلاگ

شملہ معاہدے سے نکلنے کے فوائد
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

بھارت کا وقف ترمیمی ایکٹ: جب بیوروکریٹس موجود ہوں تو بلڈوزرز کی کیا ضرورت؟
الجزیرہ

پاکستان کا ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کا طریقہ خطرناک ہے۔
الجزیرہ

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ٹیرفس: وائیٹ ہاؤس کا موقف اور وزیراعظم سنگاپور کی تقریر
سی بی ایس نیوز
لارنس وانگ

جہاد فرض ہے اور مسلم حکومتوں کے پاس کئی راستے ہیں
مولانا مفتی محمد تقی عثمانی

المیۂ فلسطین اور قومی کانفرنس اسلام آباد کا اعلامیہ
مولانا مفتی منیب الرحمٰن

فلسطین پاکستان کا اساسی مسئلہ ہے
مولانا فضل الرحمٰن

امریکہ کا عالمی کردار، اسرائیل کی سفاکیت، اہلِ غزہ کی استقامت: ہماری ذمہ داری کیا ہے؟
حافظ نعیم الرحمٰن

فلسطینی پاکستان کے حکمرانوں سے توقع رکھتے ہیں
لیاقت بلوچ

اہلِ فلسطین کی نصرت کے درست راستے
علامہ ہشام الٰہی ظہیر

قومی فلسطین و دفاعِ پاکستان کانفرنس: تمام جماعتوں کا شکریہ!
مولانا قاری محمد حنیف جالندھری
مولانا حافظ نصر الدین خان عمر

فلسطین کے ہمارے محاذ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مولانا زاہد الراشدی کا ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن میرپور آزادکشمیر کے فلسطین سیمینار سے خطاب
مفتی محمد عثمان جتوئی

غزہ کی تازہ ترین صورتحال اور نیتن یاہو کے عزائم
مولانا فتیح اللہ عثمانی

حالیہ فلسطین جنگ میں شہید ہونے والے جرنلسٹس
الجزیرہ

’’میں نے پاکستان بنتے دیکھا‘‘
پروفیسر خورشید احمد
اظہر نیاز

پروفیسر خورشید احمدؒ کی رحلت: صدی کا بڑا انسان
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

پروفیسر خورشید: جہانگیر و جہانبان و جہاندار و جہاں آرا
ڈاکٹر شہزاد اقبال شام

پروفیسر خورشید احمدؒ کی وفات
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

’’آسان تفسیرِ قرآن‘‘
مولانا مفتی محمد تقی عثمانی

حکمران کے دس حقوق
مولانا مفتی عبد الرحیم
مفتی عبد المنعم فائز

رسالتِ محمدیؐ کی تئیس سالہ کامیاب تبلیغ
علامہ ڈاکٹر خالد محمودؒ

اسلامی نظریاتی کونسل، دستوری تاریخ کے آئینے میں
اسلامی نظریاتی کونسل

مطبوعات

شماریات

Flag Counter