جنگِ عظیم ثانی کے بعد جو عالمی نظام (نیو ورلڈ آرڈر یا جس کو امریکی Rule-based order کہتے ہیں) وجود میں آیا، اُس میں پانچ بڑوں کے ہاتھوں میں گویا دنیا کے باقی ممالک کی قسمت دے دی گئی۔ یہ ممالک تھے: امریکہ، روس، برطانیہ، فرانس اور چین۔ ان میں چین کو چھوڑ کر بقیہ چار اِس جنگ کے فاتحین تھے۔
برطانیہ نے اپنے مقبوضات میں غیر منصفانہ تصفیے کیے جس میں تقسیمِ ہند کے علاوہ فلسطین کی تقسیم اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ذریعہ کروا کر اسرائیل کی ایک ناجائز ریاست مشرقِ وسطیٰ میں بنا دی، اور یوں نہ صرف مغربی سامراج کی ایک چوکی قائم کر دی بلکہ اُس کے ذریعہ اِس خطہ میں ایک مسلسل نزاع کی بنیاد رکھ دی۔ برطانیہ عظمیٰ کا زوال ہوا اور اُس کی جگہ بتدریج امریکہ نے لے لی۔ امریکہ سرمایہ دارانہ قوتوں کا بڑا نمائندہ بن کر سامنے آیا جس کا مقابلہ سوویت روس کر رہا تھا اور اس بلاک کے ساتھ بھی یوروپ و ایشیا کے بہت سے ممالک آگئے۔ لیکن دنیا کے بعض ممالک نے ان دونوں بلاکوں کے ساتھ چلنا پسند نہیں کیا اور ناوابستہ ممالک کی تنظیم وجود میں آئی جس میں کبھی ہندوستان کے وزیراعظم جواہرلال نہرو اور مصر کے صدر جمال عبد الناصر نے کلیدی رول ادا کیا تھا۔
امریکہ سپر پاور بنا اور جلد ہی اس نے برطانیہ عظمیٰ کی جگہ لے لی۔ یعنی وہ امریکی صہیونی لابی (AIPAC امیرکن اسرائیلی پبلک افیئرس کمیٹی، ماونٹ ورنن، واشنگٹن، ڈی سی) اور ورلڈ جیوز کانگریس کے زیر اثر ایک صہیونی مقتدرہ بن گیا۔ اِس لابی کی جڑیں امریکی ثقافت، تعلیمی اداروں، بزنس و تجارت، میڈیا، سیاست اور امریکی اسلحہ مارکیٹ میں اتنی دور تک اور اتنی گہرائی سے پیوست ہیں کہ اِس کے بغیر کوئی امریکی حکومت نہ بن سکتی ہے اور نہ ہی چل سکتی۔
دل چسپ بات یہ ہے کہ اِس کی جڑیں بیک وقت دو بڑی سیاسی پارٹیوں رپبلکن اور ڈیموکریٹس دونوں میں ہیں۔ اور جو امریکی سیاست داں اس کے چنگل سے نکلنا چاہتا ہے یا اس کے خلاف جانے کی ہمت کر پاتا ہے اُس کا سیاسی کیریر ہی ختم کر دیا جاتا ہے۔ اس کی عبرت انگیز کہانی سابق امریکی سینیٹر پال فنڈلے کی کتاب They Dare to Speak میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے جس کا اردو ترجمہ بھی ہو گیا ہے۔ صہیونی لابی کے زیر اثر موجودہ امریکی سیاسی نظام پر صیہونی ایسے مسلط ہیں کہ چاہے ڈیموکریٹ برسر اقتدار آئیں یا رپبلکن، اسرائیل امریکہ سے جو چاہتا ہے وہ منوا لیتا ہے۔ چنانچہ جوبائڈن نے خود اپنے صہیونی ہونے کا اعتراف کیا تھا۔ اُس کا وزیرخارجہ بلنکن یہودی تھا، اُس کا وزیردفاع بھی صیہونی تھا۔ یہی وجہ تھی کہ جوبائڈن کی حکومت نے غزہ کو مکمل طور پر تباہ و برباد کرانے میں اپنا پورا حصہ ڈال دیا۔
اس کے بعد ٹرمپ حکومت میں آتے ہیں اور نہلے پر دہلا رکھ دیتے ہیں کہ غزہ کو پوری طرح فلسطینیوں سے خالی کرا کر وہاں ایک ساحلی تفریح گاہ (Riviera) بنانے کا ظالمانہ و سفاکانہ منصوبہ پیش کر رہے ہیں۔ شخصی طور پر ہو سکتا ہے کہ ٹرمپ کوئی نظریاتی کمٹمنٹ صہیونیت کے لیے نہ رکھتے ہوں مگر اُن کی ٹیم پوری طرح ایپیک کے ہاتھوں میں کھیل رہی ہے۔1
ٹرمپ چونکہ ایک نرگسی شاہانہ مزاج رکھتے ہیں اس لیے ممکن ہے کہ وہ سفاکیت کے پتلے نتن یاہو کو اُس کی اوقات میں رکھیں، مگر ان کی ٹیم کام وہی کر رہی ہے اور کرے گی جو بہرطور اسرائیل کے حق میں ہو گا۔ امریکی ماہر معاشیات پروفیسر جیفری شاس یہی کہتے ہیں۔2
ظلم و جبر، رعونت، عیاری اور سوداگری جب جمع ہو جائیں تو وہاں عقل و منطق کام نہیں کرتی۔ یہ آمرِ مطلق جب کہتا ہے کہ غزہ اب ایک ڈیمولیشن سائٹ بن گیا ہے اور رہنے کے قابل نہیں رہ گیا تو کوئی اُس کو بتانے والا نہیں کہ جناب والا آپ ہی نے تو ایسا کرایا ہے۔ دس ہزار ملین ڈالر کے بم آپ نے ہی تو اسرائیل کو فراہم کیے جس نے ان کا بے دریغ استعمال کر کے آج غزہ کو قبرستان میں بدل دیا ہے۔ پریزیڈنٹ یوکرین زیلنسکی اپنے آپ میں کیسا ہی آدمی ہو اُس نے کم از کم ’بادشاہ کو ننگا‘ بتانے کی جرأت تو دکھائی۔ خلیج کے مالدار عرب جاگیردار تو ٹرمپ کے ایک اشارہ پر ہزاروں ٹریلین ڈالرز امریکہ میں انویسٹ کرنے کی دوڑ میں لگ گئے ؏
حمیت نام ہے جس کا، گئی تیمور کے گھر سے
اب صدر ٹرمپ نے پہ در پہ دنیا کے بہت سے ملکوں پر ٹریڈ ٹیرف لگا دیے ہیں اور ایک نئی سرد جنگ چھیڑ دی ہے۔ ٹرمپ اور ان کے حامیوں کا خیال یہ ہے کہ دنیا امریکی دولت کا استحصال کرتی آئی ہے، یوروپ نے اور دوسرے ملکوں نے امریکی دولت اور مراعات سے بہت فائدہ اٹھایا ہے جس کی وجہ سے خود امریکیوں کی نوکریاں، مواقع اور مراعات خطرہ میں پڑ گئے ہیں۔ اس لیے معاملہ ریورس کر کے اب دنیا کے ان ملکوں کو بھی امریکہ کو کچھ دینا چاہیے۔
یہ تاریخ کا پہیہ الٹا چلانے کے مترادف ہے۔ امریکہ کے سسٹم کو گھن لگ چکا ہے، ملمع کاری سے اس کا کوئی مداوا نہیں ہو سکے گا۔ کٹی ناک کی پلاسٹک سرجری سے اصل خوبصورتی واپس نہیں ملا کرتی۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ دنیا میں سب سے زیادہ مقروض ملک ہے، ڈالرکی داداگیری (Bretton Woods) سے اس معیشت کو سہارا دے کر رکھا گیا تھا۔ مگر اب چین امریکہ کا سب سے بڑا معاشی مد مقابل بن کر کھڑا ہو گیا ہے، اور نئی کرنسیاں ڈالر کی جگہ لے لیں گی۔
بائڈن انتظامیہ کا خیال تھا کہ روس مغرب کے لیے بڑا خطرہ ہے، یوروپ میں بھی ایسا ہی سمجھا جاتا ہے۔ جغرافیائی طور پر یوروپ و ایشیا دونوں کا حصہ ہوتے ہوئے بھی روس آرتھوڈکس مسیحیت کا نمائندہ ہونے کی بنیاد پر مذہبی و فکری طور پر کبھی بھی بازنطینی یوروپ کا حصہ نہیں بن پایا۔ بیسویں صدی کی شروعات میں زار ملوکیت کے بندے تھے، مغرب میں لبرل جمہوریت کی لہر آرہی تھی، پھر زار کے سقوط کے بعد روس بڑی تیزی سے کیمونزم کی گود میں جا گرا اور سرمایہ دار مغرب نے اس کو نظری طور پر اپنا سب سے بڑا دشمن قرار دے کر اس سے جنگ چھیڑ دی۔ مغربی کیپیٹل ازم نے افغان جہاد کا استحصال کر کے کیمیونزم کو شکست دے دی اور سوویت روس کے ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے۔
مگر تھوڑے ہی عرصہ کے بعد روس پھر اٹھ کھڑا ہوا، اب اس میں اور مغرب میں دوبارہ مفادات کی جنگ شروع ہو گئی ہے۔ اس لڑائی میں روس کو مردِ آہن ولادمیر پیوتن کی مدبرانہ قیادت حاصل ہے جبکہ یوروپ قیادت کے نام پر بانجھ ہو چکا ہے کہ وہ چھ دہائیوں سے امریکہ کے پیچھے چلتا آیا ہے۔ بائڈن نے ناٹو کے ذریعہ روس کا ناطقہ بند کرنے کی کوشش کی تو روس نے یوکرین پر حملہ کر کے ناٹو کو روک لیا۔
مگر اب ٹرمپ نے یوروپ کے اِس گیم کو پلٹ دیا ہے، اُس کی ڈاکٹرین یہ ہے کہ روس مغرب کا دشمن نہیں بلکہ بڑا چیلنج چین ہے۔ چین معیشت میں، AI ٹیکنالوجی میں اور سفارت کاری میں امریکہ کو ٹکر دے رہا ہے۔ آج افریقہ، ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ میں چین کے سفارتی اور تجارتی اثرات بڑھ رہے ہیں، چین اور روس کا بھی اتحاد مضبوط ہے جس میں صدر ٹرمپ سیندھ لگانا چاہتے ہیں۔
اس جنگ میں یوکرین مغرب اور امریکہ پر اندھا دھند بھروسہ کرنے کی قیمت ادا کر چکا ہے۔ سوویت روس کے بکھر جانے کے بعد یوکرین کے پاس ایٹمی ہتھیاروں کا ذخیرہ رہ گیا تھا، امریکہ اور مغرب نے اس کو سمجھایا اور یقین دہانی کروائی کہ تمہیں کسی سے خطرہ ہو گا تو ہم تمہارے تحفظ کی گارنٹی دیتے ہیں، اپنا ایٹمی ذخیرہ ہمارے حوالہ کردو۔ اُس نے کر دیا اور اب نتیجہ یہ کہ یوکرین کے بڑے حصہ پر روس قابض ہو چکا ہے۔ امریکہ اس کو بے یارومددگار چھوڑ کر محاذ سے پیچھے ہٹ گیا ہے اور یوروپ میں اتنی سکت نہیں کہ وہ بغیر امریکہ کے روس کا مقابلہ کر لے۔ اور اسی سے سبق لے کر ایران کو اپنے ایٹمی پروگرام سے دستبردار نہیں ہونا چاہیے۔
بہرحال ٹرمپ کی ٹریڈوار سے دنیا میں جو معاشی بھونچال آرہا ہے، ڈالر کی قیمت گر رہی ہے، اسٹاک مارکیٹ کا گراف نیچے آرہا ہے، امریکہ اور دوسری جگہوں پر معاشی مندی کا خطرہ منڈلا رہا ہے، چین پوری طرح مقابلہ میں اترچکا ہے، امریکہ کے روایتی حلیف کناڈا، فرانس اور یوروپی یونین وغیرہ بھی ٹیرف کا جواب دینے کے لیے تیاری میں ہیں۔ اس سے عالمی طور پر نئی صف بندیاں ظہور میں آئیں گی اور امریکی یونی پولر ورلڈ (یک قطبی دنیا) کا خاتمہ ہوگا۔
اب دنیا میں نیا سیاسی سیناریو یہ ابھرتا دکھائی دے رہا ہے کہ ترکی بلقان کے خطہ میں ایک پاور رہے گا، ناٹو کا حجم کم ہو گا اور اس کا دائرہ سکڑ جائے گا، چین اور روس کا اتحاد مزید قوت حاصل کرے گا، مشرقِ وسطی میں اسرائیل اب پہلے سے کہیں زیادہ بالادست قوت بن چکا ہے۔ اب وہ لبنان، سیریا میں مزید علاقے ہڑپ کر چکا ہے جبکہ گولان کی اونچائیوں کو وہ پہلے ہی اسرائیل میں ضم کر چکا ہے، مغربی کنارہ میں بھی توسیع کر رہا ہے۔ بظاہر وہ اپنی جگہ رہے گا کیونکہ عرب ملکوں کی بزدلی اور حماقت سے ایران نے جو مزاحمت کا محور کھڑا کیا تھا وہ اب بہت کمزور ہو چکا ہے۔ ایران کے لیے فی الحال survive کر جانا ہی بنیادی مسئلہ ہے، اپنا اثر و رسوخ دوبارہ قائم کرنے میں اس کو دیر لگے گی۔
عقل و منطق کے لحاظ سے بھی ٹرمپ کی بُدھی پھِری ہوئی ہے، اُن کو سفارتی آداب کی بھی کوئی سمجھ نہیں۔ پہلے اُس نے ایران کو چاروں طرف سے B-2 بمبار طیاروں اور ہنری ٹرومین جیسے جنگی جہاز بردار بیڑوں سے گھیر لیا، اُس کے بعد ایران کو کہہ رہا ہے کہ آؤ ہمارے ساتھ ہماری شرائط پر بات کرو۔ اس محاذ پر سعودی عرب، روس اور چین کی ایران کو حمایت اور بولڈ ڈپلومیسی ہی اس کو بچا سکتی ہے، ورنہ اسرائیل تو اس کی نیوکلیر صلاحیت برباد کرنے پر بالکل تلا ہوا ہے۔
اسرائیل نے غزہ، مغربی کنارہ اور لبنان و شام میں سب کو برباد کر ڈالا ہے۔ امریکہ کی زبردست معاشی و فوجی امداد نے اُس کو خطہ میں سب سے بڑی پاور بنا دیا ہے۔ترکی اس کو روک سکتا تھا مگر وہ صرف زبانی جمع خرچ کرتا رہا، غزہ کو تو چھوڑیے شام میں اپنے مفادات کا تحفظ بھی وہ لفظی گولہ باری سے کرنے کی کوشش کر رہا ہے، جبکہ اسرائیل شام پر سینکڑوں فضائی حملے کر کے اس کو دہائیوں پیچھے پہنچا چکا ہے۔ شام و ترکی کو اپنے دفاع میں فوجی قوت سے جواب دینا تھا جو اُن سے اب تک نہیں ہو پایا ہے۔ سب امریکہ و اسرائیل کی دھمکیوں سے خوف زدہ ہیں۔ ترکی نے عملاًً کچھ نہیں کیا یہاں تک کہ اسرائیل سے سفارتی و تجارتی تعلقات بھی نہیں توڑے۔ اسی طرح مصر، اردن اور متحدہ عرب امارا ت اور بحرین نے بھی۔ حالانکہ ان ممالک کو اسرائیل سے کچھ ملنے والا نہیں مگر کرسی چلے جانے کا خطرہ ہے کیونکہ ان میں سے بیشتر نے اپنے ممالک میں امریکی فوجیوں کو خود ہی بٹھا رکھا ہے۔ ایسے میں یمن کی پامردی لائقِ صد ستائش ہے۔
نتیجہ یہ ہے کہ نتن یاہو کو داخلی طور پر جو بھی چیلنج ہوں، خارجی طور پر اب اس کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے، خطہ میں وہ سب کو کاٹ کھانے کے لیے دوڑتا ہے اور سبھی ملک اُس سے بری طرح ڈرے ہوئے ہیں۔ اسلام پسند میڈیا نے یہ پروپیگنڈا کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا کہ اسرائیل کو شکست ہوئی اور حماس کو فتح مبین۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ اسرائیل نے اپنے جنگی مقاصد حاصل نہیں کیے یعنی حماس کا خاتمہ اور اپنے قیدیوں کو چھڑانا وغیرہ۔ مگر یہ صرف الٹی منطق ہے، پورے خطہ پر اسرائیل کی وحشیانہ کشت و خون کی دہشت بیٹھ گئی ہے۔ حزب اللہ اور حماس کی کمر اس نے توڑ دی ہے، دونوں کی ٹاپ قیادت کو ختم کر دیا ہے اور اب عسکری قوت بھی بس دکھانے کی رہ گئی ہے، جوابی کاروائیوں کی سکت اب ان میں نہیں ہے۔ اسرائیل نے یہ جنگ AI اور ائرفورس سے لڑی ہے جس کا کوئی توڑ سارے عرب ممالک کے پاس بھی کچھ نہیں ہے۔ رہ گئے حماس کے پاس اسرائیلی یرغمالی تو وہ اس کے لیے مسئلہ ہی نہیں۔ اور حماس کے خاتمہ سے بھی بڑھ کر اُس نے غزہ ہی کا خاتمہ کر دیا ہے اور اب امریکہ کے تعاون سے عملاً فلسطینیوں کا وہاں سے انخلا شروع کروایا جا چکا ہے جس کی پہلی کھیپ انڈونیشیا جا چکی ہے۔ غالباً مصر اور اردن خفیہ طور پر امریکہ سے اس ڈیل میں شامل ہو چکے ہیں، اور جن لوگوں سے اس کی شدید مخالفت کا اندیشہ تھا وہ مصر میں تو پہلے ہی سے کالعدم ہیں اور اب اردن میں بھی ان پر پابندی کی تیاری ہو رہی ہے۔
عالمی اداروں کا سقوط
جیسا کہ شروع میں بتایا جا چکا ہے کہ موجودہ سیاسی دنیا جنگِ عظیم دوم کے فاتحین کی دنیا ہے، ان فاتحین نے ہی اقوام متحدہ کو کھڑا کر کے اپنے بنائے ہوئے نظام کو حتمی شکل دی۔ اقوام متحدہ کے تحت اور بہت سے سیاسی، ثقافتی، ماحولیاتی اور معاشی ادارے بنائے گئے۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک قائم کیے گئے۔ حقوق انسانی کی تنظیمیں قائم کی گئیں۔ عالمی عدالتِ انصاف (ICJ) اور انٹرنیشنل کریمنل کورٹ (ICC) بنائی گئیں۔ اقوام متحدہ اور اس کے اِن اداروں کے اخراجات امریکہ ہی پورے کرتا آیا ہے لہٰذا منطقی طور پر اقوام متحدہ اپنے تمام اداروں سمیت امریکہ کی دست نگر بن کر رہ گئی۔ خود امریکہ نے اپنے ہی بنائے ہوئے ہومین رائٹس اداروں کی سب سے زیادہ خلاف ورزیاں کیں۔ اقوام متحدہ میں اسرائیل کے حق میں اس کا مسلسل ویٹو اس کو ننگِ اخلاقیات بنانے کے لیے کافی ہے۔ حیرت انگیز طور پر اُس نے خود کو اور اسرائیل کو عالمی فوجداری عدالت اور عالمی اٹامک انرجی اور ماحولیات کے معاہدوں سے مستثنیٰ رکھا۔ الغرض اتنے سارے استثناءات کے ساتھ وہ دنیا کے پولیس مین کی طرح باقی دنیا سے معاملہ کرتا آیا ہے۔
البتہ بہت چھوٹی اقوام نے بھی جب جب راہِ عزیمت اختیار کی تو اُس کو ناکوں چنے چبوا دیے۔ ویتنام، صومالیہ اور حال ہی میں افغانستان، تینوں جگہ اُس کی رُسوائی ہوئی، اسی طرح حوثیوں کا غریب اور تباہ حال یمن بھی اس کی ایک مثال ہے۔ اِس لیے یہ کہنا ہمارے خیال میں درست نہیں کہ امریکہ بہادر سے دنیا میں کوئی لڑ نہیں سکتا اور کوئی جیت نہیں سکتا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اُس کے فوجی اڈے، بحری بیڑے اور ایٹمی ذخیرے اب اس کے لیے ہی بوجھ بن رہے ہیں۔ دنیا کے ملکوں میں اس کی مداخلتوں کا معاشی حجم اتنا بڑھ گیا ہے کہ ان کے اخراجات پورے کرنے کے لیے اُسے مختلف کمپنیوں سے قرض لینے پڑ رہے ہیں جن میں چین کی کمپنیاں بھی ہیں۔
صدر ٹرمپ کی ٹیرف وار کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ وہ اس طرح امریکی اکانومی کو ڈوبنے سے بچانے کی کوشش کر رہے ہیں کیونکہ گرتی معیشت کے ساتھ دنیا میں اس کی داداگیری کو برقرار نہیں رکھا جا سکتا۔ مگر ماہرینِ معیشت کا کہنا ہے کہ ان کو معیشت کی کوئی سمجھ نہیں ہے اور آخری تجزیہ میں وہ اس کے معاشی زوال کا سبب بن کر رہ جائیں گے۔ جو لوگ ان کی ٹیم میں شامل ہیں وہ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ہیں، خود کوئی اہلیت نہیں رکھتے۔ ان کے مقابلہ میں ولادمیر پوتن زیادہ شاطر کھلاڑی ہیں جو ابھی تک ٹرمپ کے بھلاؤں اور رجھاؤوں میں نہیں آئے ہیں اور یوکرین کو شکست دینے کے قریب پہنچ رہے ہیں۔ غریب یوکرین پس گیا ہے۔ ٹرمپ کی نگاہیں یوکرین کی معدنیات (Gas and minerals) پر ہیں جن پر زیلنسکی پر دباؤ ڈال کر معاہدہ کروایا جا رہا ہے۔ یوروپ والے اُس کو بچانا چاہتے ہیں مگر امریکہ کے بغیر روس کے آگے کھڑے ہونے کی سکت نہیں رکھتے۔
دنیا میں کل بھی جس کی لاٹھی اُس کی بھینس (Might is right) کا قانون چل رہا تھا، آج بھی وہی دنیا کی حقیقت ہے۔ سیکولر ویلوز، ہیومن رائٹس، روشن خیالی سب کھوکھلے نعرے ہیں۔ اسی لیے قرآن پاک نے انسانوں کی اس نفسیات کے مد نظر حکم دیا تھا کہ ’’واعدوا لہم ما استطعتم من قوۃ‘‘ ان کے مقابلہ میں جتنی قوت حاصل کر سکتے ہو کرو (انفال: ۶۰)۔
امریکہ اور مغرب کی جمہوریت نوازی اور حقوقِ انسانی کا بھرم بھی ٹوٹ چکا ہے۔ مغرب کے تقریباً تمام بڑے شہروں میں اتنے بڑے بڑے مظاہرے غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے خلاف ہوئے ہیں جن میں کروڑوں لوگ نکل کر آئے مگر ان ملکوں میں مسلط صہیونی ٹولوں نے اس رائے عامہ کی سِرے سے کوئی پرواہ ہی نہیں کی نہ ان کو کوئی اہمیت دی اور اسرائیل کی بے لگام اور اندھی حمایت جاری رکھی۔ لہٰذا جس قدر جلد امریکہ کو زوال ہو گا اُسی قدر دنیا کے دبے کچلے لوگوں کا بھلا ہو گا اور اسرائیل کو بھی نکیل ڈالی جا سکے گی۔ سردست تو ایسا بہت جلد ہوتا نظر نہیں آتا کیونکہ مشرقِ وسطیٰ کے عرب حکمران وسائل ہوتے ہوئے بھی بے حوصلہ اور بے تدبیر ہیں اور کوئی بھی عملی قدم اٹھانے کی صلاحیت سے یکسر عاری۔ ان کی کانفرنسیں اور بیانات بس عالمی برادری کی دہائی پر ختم ہو جاتے ہیں جس کا عنقاء کی طرح کوئی وجود ہی نہیں ہے۔
امریکی زوال، نوم چامسکی کی نظر میں
نوم چامسکی موجودہ دور کے ایک اہم امریکی مفکر ہیں، ان کا اصل میدان تو لسانیات ہے لیکن انہوں نے موجودہ عالمی سیاست، معیشت اور نظامِ تہذیب کے سلسلہ میں بھی بڑا کام کیا ہے۔ حقیقی دانشوری کی عین روایت کے مطابق وہ سرمایہ دارانہ اور جابر نظامِ حاضر کے مخالف اور امریکی اسٹیبلشمنٹ کے شدید ناقد ہیں۔ اپنی گفتگوؤں، مذاکروں، انٹرویوز اور پبلک لیکچروں کے ذریعہ امریکہ اور مغرب کے عوام میں شعور پیدا کرنے کی کوششوں میں ان کا اہم رول ہے۔ راقم سطور نے کچھ عرصہ پہلے ان کی ایک کتاب Understanding Power پڑھی تھی3۔ مناسب معلوم ہوا کہ اردو قارئین کو بھی اس فکر انگیز مطالعہ میں شریک کیا جائے اور مصنف کے بعض اہم خیالات و تصورات کی اپنے الفاظ میں تلخیص کر دی جائے۔ اسی احساس کی بنیاد پر آئیندہ سطور میں ان کے بعض نکات کو پیش کیا جا رہا ہے۔ یہ ذہن میں رہے کہ یہ خیالات اب سے تین دہائیوں قبل ظاہر کیے گئے تھے۔
امریکہ اور یوروپ کا اتحاد و اختلاف
موجودہ صورت حال میں امریکہ اور یوروپ کے درمیان بھی واضح اختلافات اور ٹریڈوار کے امکانات نظر آرہے ہیں، چامسکی نے اس بارے میں بہت پہلے کہا تھا کہ:
یہ ایک امریکی زمینی و سیاسی روایت رہی ہے کہ امریکہ یوروپ سے الگ تھلگ رہ کر ’’جزیرۂ قوت‘‘ بنے اور بنا رہے۔ خود یورپ اور برطانیہ کی اپنی سیاسی ریت یہی رہی ہے کہ برطانیہ نے ہمیشہ اپنے آپ کو یوروپ سے الگ تھلگ رکھنے اور ’’مرکز قوت‘‘ بننے کی کوشش کی ہے۔ اسی برٹش پالیسی کی نقل امریکہ کا یورپ کے تئیں رویہ ہے۔ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ برطانیہ اپنی پوری تاریخ میں اس بات کی کوشش کرتا رہا ہے کہ یوروپ کو متحد ہونے سے روکے۔ اس دلیل سے کہ ہم پورے یورپ کی ایک منفرد قوت ہیں۔ اگر یوروپ متحد ہوتا ہے تو ہم مشکل میں پڑ جائیں گے۔ یہی نظریہ امریکہ کا ایشیا اور یوروپ کے اتحاد کے سلسلہ میں رہا ہے۔ اس کی دلیل بھی یہی ہے کہ ان دونوں کے اتحاد کے نتیجہ میں ہم دنیا میں دوسرے درجہ کی طاقت بن کر رہ جائیں گے اور جب تک یہ دونوں متحد نہیں ہوتے ہمارا نسبۃً چھوٹا نظام برقرار اور دنیا پر مسلط رہے گا۔ (صفحہ 59 کتاب مذکور)
امریکی معیشت
نوم چامسکی کہتے ہیں:
امریکہ سب سے زیادہ مالدار اور سب سے زیادہ غریب ملک ہے۔ یہاں معاشی اتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں۔ 1930ء میں ایسا ہی ایک اتار آیا تھا۔ اور آج (15 اپریل 1989ء) پھر عام امریکی آدمی معاشی تنگی کا شکار ہے۔ لیکن یہ مایوسی پہلے سے کہیں زیادہ سخت ہے۔ 1930ء میں آئے ڈیپریشن اور آج کے ڈیپریشن میں یہی فرق ہے کہ اس وقت بے روزگاری شدید تھی لیکن پھر بھی ہر آدمی کا حوصلہ برقرار تھا، مستقبل کی امید تھی۔ لیکن اِس وقت ایک عام مایوسی چھائی ہوئی ہے اور یہ احساس عام ہے کہ اب کچھ نہیں کر سکتے۔ اس وقت ہمارے دیہات میں اسکولی بچے یا استاد بھوکے اسکول نہیں جاتے تھے، استادوں کو یہ خوف نہ تھا کہ وہ ہال میں جائیں گے تو کوئی نشہ کا عادی طالب علم انہیں شوٹ کر دے گا۔ آج کی صورتِ حال بالکل مختلف ہے۔ (ملاحظہ ہو صفحہ 45)
(یہ واضح رہے کہ اپنے نظامِ سیاست سے مایوسی نے ہی عام امریکی ووٹر کو اس جانب راغب کیا کہ وہ نئے تجربہ کی طرف جائیں اور ٹرمپ کو اپنا صدر منتخب کریں۔غ)
دوسری جنگ عظیم کے دوران امریکہ نے بنیادی طور پر اپنے آپ کو ایک عالمی معاشی نظام کی حیثیت دی تھی اور وہ ایک ’’ورلڈ بینکر‘‘ کا رول ادا کر رہا تھا۔ خاص طور پر 1944ء میں اقوام متحدہ کی مانیٹری اور فینانشل بریٹن وڈس کانفرنس میں امریکہ نے اپنی شناخت عالمی معاشی چودھری کے بطور کرائی۔ چنانچہ امریکن ڈالر محفوظ عالمی کرنسی قرار دیا گیا، جو سونے کے مقابل تھا۔ جبکہ دوسرے ملکوں کی کرنسیاں ڈالر کے مقابلہ میں متعین ہو رہی تھیں۔ 1950ء اور 1960ء کی دہائیوں میں جو خاص معاشی افزونی دیکھنے میں آئی اس کے پس پشت یہی سسٹم کام کر رہا تھا۔ لیکن 1970ء کی دہائی میں بریٹن وڈس والا یہ نظام پائیدار نہ رہ سکا۔ اور معاشی طور پر امریکہ اتنا مضبوط نہیں رہ سکا کہ وہ ورلڈ بینکر کا رول نبھائے۔ جس کی خاص وجہ ویت نام جنگ میں اس کے زبردست اخراجات تھے۔ لہٰذا اس وقت صدر رچرڈ نکسن نے اس پورے سسٹم کو ہی بدلنے کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ 1970ء کی دہائی میں انہوں نے امریکہ سے سونے کے معیار کو ختم کر دیا، امپورٹ ڈیوٹیز میں اضافہ کیا اور بتدریج اس پورے نظام کو ختم کر دیا۔ اور جب عالمی سطح کا یہ ریگولیٹری ضابطہ ختم ہوا تو بڑے پیمانے پر کرنسیوں کے مقابل اصل زر کی بجائے زر کا تخمینہ سسٹم شروع ہوا جو آج تک چل رہا ہے۔ (صفحہ 379)
(واضح رہے کہ اب معیشت کے کئی ماہرین اور سیاسی تجزیہ نگار ڈالر کی موت اور اس کے نتیجہ میں امریکہ کے زوال کی خبر دے رہے ہیں۔غ)
1990ء کی دہائی میں ایک لیکچر میں چامسکی سے سوال کیا گیا کہ بیسویں صدی کی آخری دو دہائیوں میں ملٹی نیشنل سرمایہ امریکہ کے اندر زیادہ استعمال کیا گیا ہے کہ ایسا لگنے لگا کہ امریکہ بین الاقوامی سرمایہ کاری کے اداروں اور تنظیموں کے رحم و کرم پر قائم ایک کالونی بن کر رہ گیا ہے۔ عالمی منظر نامہ میں اس ظاہرہ (Phenomenon) کے بارے میں ان کا کیا خیال ہے۔ تو چامسکی نے سائل کے اس خیال سے اتفاق کیا۔ انہوں نے کہا: ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم کو (بشمول میرے) الفاظ کے استعمال میں محتاط ہونا چاہئے۔ ہم ریاستہائے متحدہ جیسے الفاظ کیوں بولتے ہیں۔ کیوں کہ، فی الواقع ریاستہائے متحدہ یا برطانیہ یا جاپان جیسے ناموں کا کوئی وجود (آزاد ملک کے بطور) نہیں ہے۔ (یہ سب اصلاً کارپوریٹ مفادات کی کالونیاں ہیں) یہ تو ممکن ہے کہ ریاستہائے متحدہ میں رہنے والوں کو قابو میں کر لیا جائے۔ لیکن امریکہ میں قائم کارپوریٹ مفادات کو ’’قابو‘‘ نہیں کیا جا سکتا۔ کبھی کبھی آپ سنتے ہوں گے کہ ’’امریکہ زوال پذیر‘‘ ہے۔ اگر آپ دیکھیں کہ دنیا کے مینوفیکچرنگ پروڈکشن میں امریکہ کا کتنا حصہ ہے تو یہ کہنا سچ ہوگا کہ وہ زوال پذیر ہے۔ لیکن اگر آپ یہ دیکھیں کہ دنیا کی صنعتی پیداوار میں امریکہ میں واقع عالمی کارپوریشنوں کا حصہ کتنا ہے تو یہ کہنا درست نہ ہوگا کہ امریکہ زوال پذیر ہے۔ اس کے برعکس وہ بالکل ٹھیک چلتا ہوا محسوس ہوگا۔ یہ الگ بات ہے کہ اب پیداوار زیادہ تر تیسری دنیا میں ہو رہی ہے۔ البتہ امریکہ کے جغرافیائی وجود کے بارے میں آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ روبہ زوال ہے۔ یعنی آپ کی یہ بات اس معنی میں صحیح ہے کہ امریکہ کی بیشتر آبادی کو استعمار زدہ تیسری دنیا کی سی صورت حال سے دوچار کر دیا گیا ہے۔ تاہم دنیا کو کنٹرول کرنے اور امورِ عالم کو چلانے میں یہ چیز زیادہ معنی نہیں رکھتی (کیوں کہ یہ کام امریکی عوام نہیں بلکہ کارپوریٹ ادارے کرتے ہیں) اسی طرح ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ دنیا میں ایک اور عامل ہے۔ اور وہ ہے کارپوریشن اور ان کے چلانے والے سرمایہ دار۔ ان کے شکار بالعموم تیسری دنیا کے لوگ ہیں اور یہ مافیا گروپوں کے ذریعہ اپنے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔ (صفحہ 398)
(یاد رہے کہ اب اس طرح کے خیالات امریکہ اور یوروپ کے کئی اور مصنفین بھی پیش کر رہے ہیں اور ایشیا میں بھی ایسے مفکرین کی کمی نہیں جو امریکہ کے زوال کی پیش قیاسیاں کر رہے ہیں۔غ)
امریکہ اور ماحولیاتی بحران
دنیا میں اس وقت جو عالمی ماحولیاتی بحران درپیش ہے اور بڑی طاقتیں اس کے لئے جس حد تک ذمہ دار ہیں اس سلسلہ میں نوم چامسکی کہتے ہیں:
میرے خیال میں دو بڑی چیزیں پیش آنے والی ہیں۔ ایک عالمی معیشت میں تبدیلی، دوسری بڑھتا ہوا ماحولیاتی بحران جس کو اب زیادہ نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ اگر اسے مزید نظر انداز کیا گیا تو یہ عالمِ انسانیت کے لئے خطرہ ہوگا۔ ماحولیات کے مسئلہ میں حقیقت یہ ہے کہ موجودہ سرمایہ دارانہ حالات کے تحت، جس میں کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ فوائد سمیٹنے کا رجحان ہوتا ہے، آپ آخرکار عالمی ماحولیات کو تباہ کر دیں گے۔ صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لئے بڑے پیمانہ پر سماجی تبدیلیوں کی ضرورت ہو گی۔ اب تمام انسانوں کو یہ سمجھنے کا وقت آگیا ہے کہ حرص و آز پر مبنی معاشی نظام دنیا کے لئے تباہ کن ہے۔ چند ہی دنوں میں آپ اوزون کی سطح تباہ کر کے دنیا کو غیر قابلِ رہائش بنا لیں گے۔ لہٰذا اگر انسانوں کو زندہ رہنا ہے تو انہیں بہت بڑی سماجی و نفسیاتی تبدیلیاں پیدا کرنی ہوں گی۔ آگے وہ کہتے ہیں: اسی اثناء میں امریکہ بھی ایک مقابل بلاک کو مضبوط بنا رہا ہے۔ شمالی امریکہ میں فری ٹریڈ معاہدے وجود میں آرہے ہیں۔ جن سے کناڈا اس کے لئے معاشی کالونی اور شمالی میکسیکو سستی لیبر منڈی میں تبدیل ہو کر رہ جائیں گے۔ ان کے علاوہ دوسرے ایشیائی علاقائی بلاک بھی ہیں جو ابھی معاشی وسائل کے لحاظ سے کافی پیچھے ہیں اس لئے ان کا موازنہ کرنا ابھی مشکل ہے۔
(صدر ٹرمپ کا کناڈا کو امریکہ کا ۵۱ واں صوبہ بنانے اور پناما کنال پر قبضہ کرنے کی بات کو اسی سیاق میں سمجھنا چاہیے۔غ)
امریکہ اور اقوامِ متحدہ
امریکہ کے بجائے کیا اقوامِ متحدہ کوئی مثبت کردار دنیا میں ادا کر سکتی ہے؟ اس سوال کے جواب میں نوم چامسکی کہتے ہیں:
یقیناً اقوام متحدہ ایک مثبت رول ادا کر سکتا ہے اگر بڑی طاقتیں اسے ایسا کرنے دیں۔ ہوتا یہ ہے کہ جہاں بڑی طاقتیں تھوڑا بہت کچھ کرنا چاہتی ہیں اور اس کے لئے کسی ادارے کی ضرورت پڑتی ہے تو اقوام متحدہ ان کے لئے مفید ہوتا ہے۔ لیکن اگر یہ طاقتیں، مثلاً امریکہ، کچھ نہ کرنا چاہیں تو پھر اقوام متحدہ بے کار ہو جاتا ہے وہ کچھ نہیں کر سکتا۔ اچھا اگر یو این او میں سیکیوریٹی کونسل نہ ہو، یا 5 طاقتوں کو ویٹوپاور نہ دیا جائے تو؟
(واضح رہے کہ سلامتی کونسل میں 15 سیٹیں ہوتی ہیں جن میں 5 ارکان مستقل ہیں یعنی امریکہ، برطانیہ، فرانس اور چین، بقیہ 10 ارکان میعادی اور غیر مستقل ہوتے ہیں۔ سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل درآمد کے لئے پانچوں کی منظوری ضروری ہوتی ہے، اگر کوئی ایک بھی راضی نہ ہو (یعنی ویٹو کر دے) تو ان پر عمل درآمد نہیں ہو سکتا۔ جبکہ جنرل اسمبلی ایک خطابی پلیٹ فارم ہے اس کو کوئی تنفیذی قوت حاصل نہیں ہے۔ اسرائیل کے معاملہ میں یہ قانون بھی توڑ دیا گیا کیونکہ اسرائیل کا قیام سلامتی کونسل کی منظوری سے نہیں بلکہ جنرل اسمبلی کے ذریعہ کروایا گیا تھا۔غ)
چامسکی کہتے ہیں کہ بڑی طاقتیں سلامتی کونسل یا ویٹوپاور کو ختم ہونے نہیں دیں گی کیونکہ وہ اپنے معاملات میں کوئی مداخلت برداشت نہیں کرتیں۔ مثلاً امریکہ کی مثال لیجئے جو 1970ء سے لے کر اب تک سلامتی کونسل کی قراردادوں کو ویٹو کرنے میں سب سے آگے رہا ہے۔ اقوام متحدہ کوئی اقدام کرنا چاہے اور امریکہ اسے پسند نہ کرتا ہو تو امریکہ اس سے سرد مہری برتے گا۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ کام نہ ہو سکے گا کہ اقوام متحدہ خود سے کچھ نہیں کر سکتا۔ یہاں اس بات کا جائزہ لینا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ اقوام متحدہ کے سلسلہ میں امریکہ کا رویہ اب تک کیا رہا ہے۔ 1940ء کی دہائی میں امریکہ تنہا اسے چلاتا رہا۔ امریکہ احکام جاری کرتا اور طاقت کے دوسرے محور ممالک کو (اقوام متحدہ کے ذریعہ) ان پر عمل کرنا ہوتا۔ اسی لئے دوسری جنگِ عظیم کے بعد جب باقی دنیا دبی کچلی اور بھوک سے مر رہی تھی، اس وقت امریکہ میں سب لوگ اقوام متحدہ کو پسند کرتے اور اس کی مدح سرائی کرتے کیونکہ وہ ہمیشہ ہمارے ساتھ چلتا تھا اور جیسے ہم چاہتے تھے ویسے ہی سب لوگ (ارکان اقوام متحدہ) ووٹ دیتے تھے۔
آگے نوم چامسکی نے لکھا ہے کہ اس وقت صرف روس ہمیشہ نفی میں ووٹ دیتا تھا اور امریکہ میں سارے لوگ سائنس داں، اساتذہ، صحافی اور ماہرین اجتماعیات سب روس کے اس رویہ کو اس کی پیدائشی (بالیشوک) منفی ذہنیت کا عکاس قرار دیتے اور عوامی سطح پر اس کے خلاف زبردست پروپیگنڈہ کیا جاتا، رائے عامہ کو اس کے خلاف بھڑکایا جاتا، اس پر مضامین شائع ہوتے اور ان مفروضوں کو لوگ سنجیدگی سے لیا کرتے۔
وہ مزید لکھتے ہیں: اس کے بعد وقت کے ساتھ ہی اقوام متحدہ پر امریکی اجارہ داری کم ہونی شروع ہو گئی، کم از کم بولنے کی حد تک۔ تیسری دنیا کے بہت سے ممالک اقوام متحدہ میں داخل ہوئے، بطور خاص صدی (بیسویں) کی چھٹی دہائی میں۔ اور یہ نتیجہ تھا استعماریت کے خاتمہ کا۔ جس سے بہت سے ملک آزاد ہوئے۔ اور اس کے بعد آپ کو محسوس ہوگا کہ امریکہ کا رویہ یو این او کے تئیں زیادہ سے زیادہ منفی ہوتا چلا گیا۔ امریکہ نے اسے کنٹرول سے باہر سمجھنا شروع کر دیا، اب اقوام متحدہ میں اکثریت کی رائے کو تحکم قرار دیا جانے لگا، جبکہ پہلے اسی کو جمہوریت سمجھا جاتا تھا۔ حتیٰ کہ 1970ء کے آس پاس امریکہ اقوام متحدہ میں اکثریت سے منظور کردہ قراردادوں کو ویٹو کرنے لگا۔ یہ قراردادیں جنوبی افریقہ، اسرائیل، اور تخفیف اسلحہ سے متعلق ہوا کرتی تھیں۔
(عراق پر جارج ڈبلیو بش نے حملہ بغیر کسی قانونی بنیاد کے کیا تھا، یہاں تک کہ اقوام متحدہ نے بھی اس کی اجازت نہیں دی تھی، مگر اُس نے اقوام متحدہ کو بائی پاس کر کے انفرادی طور پر یہ فیصلہ لے لیا تھا۔غ)
واضح رہے کہ جب امریکہ اکثریت کی رائے کو ویٹو کر رہا تھا اس وقت روس مین اسٹریم کے ساتھ ہوتا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ اس وقت نیویارک ٹائم میگزین میں امریکہ کے نمائندہ برائے اقوام متحدہ رچرڈ برنسٹان کا ایک مضمون شائع ہوا تھا۔ جس میں اس بات کا جائزہ لیا گیا تھا کہ دنیا امریکہ کے ساتھ کیوں نہیں چل رہی ہے۔ سارا زور اس پر دیا گیا تھا کہ لوگوں کو کیا ہوگیا ہے، وہ ہماری بات کیوں نہیں سمجھتے! اس کے بعد یو این او کی کمزوریاں بیان کی گئی تھیں۔ لیکن یہ سوال ایک بار بھی نہیں اٹھایا گیا کہ ہمیشہ ہی امریکہ اقوام متحدہ کی اکثریت کے خلاف کیوں جاتا ہے۔ میں ذرا بھی مبالغہ سے کام نہیں لے رہا ہوں مضمون بالکل اسی طرح کا تھا اور جو کچھ کہا گیا تھا بغیر کسی لاگ لپیٹ کے صاف صاف کہا گیا تھا۔ یہی معاملہ اقوام متحدہ کے عدالتی شعبہ ورلڈ کورٹ کے سلسلہ میں پیش آیا (جسے عام طور پر بین الاقوامی کورٹ آف جسٹس کہا جاتا ہے) جون 1986ء میں مذکورہ کورٹ نے امریکہ کے خلاف ایک قانون پاس کیا اور اسے حکم دیا کہ وہ طاقت کا ناجائز استعمال اور نکاراگوا کے خلاف ناجائز معاشی جنگ بند کرے۔ مگر امریکہ نے اس حکم کو فوراً نظر انداز کر دیا۔ اور محض ایک ہفتہ بعد ہی امریکی کانگریس نے نکاراگوا میں (امریکہ کے حمایت یافتہ) باغیوں کی امداد میں مزید 100 ملین ڈالروں کا اضافہ کر دیا۔ اور ایک بار پھر امریکہ کا میڈیا نیویارک ٹائمز واشنگٹن پوسٹ اور بین الاقوامی قانون کے بڑے بڑے ماہرین یک زبان ہو کر بولنے لگے کہ ورلڈ کورٹ نے امریکہ کے خلاف فیصلہ دے کر محض اپنا کریڈٹ کھویا ہے، اس لئے ہمیں اس پر کسی توجہ کی ضرورت نہیں۔ ورلڈ کورٹ کو زیبا نہیں دیتا کہ وہ امریکہ پر تنقید کرے (صفحہ 85، 86)
(یہ قابلِ ذکر ہے کہ امریکہ اب بھی یہی بدمعاشی کر رہا ہے چنانچہ اسرائیل کو عالمی عدالتِ انصاف لے جانے والے ملکوں کے خلاف امریکی انتظامیہ اور خود آئی سی سی پر اس وجہ سے پابندیاں لگانا کہ اس نے سفاک اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نتن یاہو کے خلاف گرفتاری کا وارنٹ جاری کیا تھا، اسی کا شاخصانہ ہے۔غ)
امریکہ اور ذرائع ابلاغ
ذرائع ابلاغ کے دو کردار ہیں۔ ایک یہ کہ وہ عوام کے ’جاننے اور سیاسی پراسس پر کنٹرول کے حق‘ کی حفاظت کرتا ہے۔ میڈیا کا یہی کردار عوام کے ذہنوں میں ہے۔ اور ذرائع ابلاغ کے لوگ بھی اسے مسلّمہ امر سمجھتے ہیں۔ ایک دوسرا تصور یہ ہے کہ میڈیا دنیا کی وہ تصویر پیش کرتا ہے جو مخصوص گروپوں کے سیاسی، معاشی اور سماجی مفادات کا تحفظ کرے۔ یہ مخصوص گروپ ہی قومی معیشت اور اس کے ذریعہ ملک کی سیاست کو کنٹرول کرتے ہیں (اسی لئے ہر ملک میں مین اسٹریم میڈیا دراصل کارپوریٹ میڈیا ہوتا ہے) نوم چامسکی نے میڈیا کے اس کردار پر بہت جم کر لکھا ہے، وہ مسلسل امریکہ کے قومی میڈیا کو اپنی شدید تنقیدوں کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔ بلکہ اس موضوع پر ان کی کئی کتابیں بھی منظر عام پر آچکی ہیں۔ ان کے مطابق: اسی پروپیگنڈا ماڈل کے مطابق میڈیا کارپورٹ گروپوں کے مفادات کا تحفظ یوں کرتا ہے کہ وہ مخصوص موضوعات کو لیتا ہے، موافق ایشوز کھڑے کرتا ہے اور معاملات کے تجزیے پیش کرتا ہے۔ اسی طرح دوسرے طریقے اپنا کر ان گروپوں کے تصورات کو فوکس کرتا ہے (صفحہ 15 تا 36)
چامسکی کے خیال میں امریکن میڈیا اشرافیہ کا ترجمان ہے۔ سی بی ایس اور نیویارک ٹائمز وغیرہ ملک کے بڑے کارپوریشنوں میں سے ہیں۔ ان کے لئے امریکن عوام اتنے اہم نہیں جتنے ’’جنرل موٹرز‘‘ وغیرہ اہم ہیں۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ امریکہ میں عوام اور میڈیا بالکل متضاد سمتوں میں چلتے ہیں۔ (صفحہ 19)
حوالہ جات
- https://tinyurl.com/trtworld-aipac-trump-cabinet
- https://tinyurl.com/trump-tariffs-jeffrey-sachs
- Understanding Power (انٹریوز اور گفتگوؤں کا مجموعہ، شائع کردہ دی نیوز پریس نیویارک 2002ء)