اہلِ فلسطین کی نصرت کے درست راستے

’’قومی کانفرنس: فلسطین اور امتِ مسلمہ کی ذمہ داری‘‘ سے خطاب جو مجلسِ اتحادِ امت پاکستان کے زیراہتمام ۱۰ اپریل ۲۰۲۵ء کو پاک چائنا فرینڈشپ سنٹر، اسلام آباد میں منعقد ہوئی۔

معزز سامعین گرامی قدر، میں اپنی تقریر کی ابتدا فلسطین کی مسجد اقصیٰ کی اس پکار سے کرنا چاہتا ہوں کہ آج مسجد اقصیٰ پھر کسی صلاح الدین ایوبیؒ کی منتظر ہے، آج مسجد اقصیٰ پھر کسی عمرؓ کی منتظر ہے، مسلمانو اٹھو زمانہ تمہارے قدموں کی چاپ کا منتظر ہے   ؎

فضائے  بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی

آندھی بن کر نکلو، طوفان بن کر چھا جاؤ، بکھرے ہوئے ذرات ہو تو مل جاؤ کہ صحرا نظر آئے، بکھرے ہوئے قطرات ہو تو مل جاؤ کہ دریا نظر آئے۔ کیا آندھی بن کر نکلنے کے لیے تیار ہو؟ ہاتھ اٹھا کر وعدہ کرو، آندھی بن کر نکلنے کے لیے تیار ہو؟ صلاح الدین ایوبیؒ کی للکار بننے کے لیے تیار ہو؟ عمرؓ کی یلغار بننے کے لیے تیار ہو؟ 

اور یہ جو پراپیگنڈا کیا جاتا ہے، چار باتیں کہنا چاہتا ہوں صرف، اور اپنی بات کو ختم کروں گا۔ اسرائیل کو شکست نہیں دی جا سکتی، اسرائیل کو شکست نہیں دی جا سکتی، یہ پراپیگنڈا تاتاریوں کے دور میں بھی ہوا تھا، مسلمانوں کے اندر یہ سوچ اور فکر پیدا کی گئی،  تاتار کو شکست نہیں دی جا سکتی۔ امام ابن تیمیہؒ نے اس وقت یہ کردار ادا کیا ، مسلمان حکمرانوں کے گھروں کے اندر، درباروں کے اندر، ان کے محلوں کے اندر جا جا کے یہ بات کہی، آپ کو کس نے مغالطہ ڈال دیا کہ تاتاریوں کو شکست نہیں دی جا سکتی۔ 

آج وقت آ چکا ہے کہ امت کے یہ اکابرین مولانا فضل الرحمٰن، مفتی منیب، مفتی تقی عثمانی، اسی طرح ابن تیمیہؒ کے کردار کو دہراتے ہوئے حکمرانوں کو اس بات کا پیغام دیں، اللہ کی قسم، اللہ کی قسم، اگر تم آگے لگ جاؤ اور  اگر تم ہمیں جہاد کا میدان کھول دو، تو اللہ کے فضل و کرم سے چند دنوں کے اندر اسرائیل کو شکست ہو سکتی ہے۔  مجھے ایک بات بتائیے، یہ کونسا فلسفہ ہے، اسرائیل کو شکست نہیں ہو سکتی۔ آج علماء کو مل بیٹھ کے۔ 

امام احمد بن حنبلؒ کا ایک واقعہ آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ جب اذان ہوتی تھی مسجد کی، جیل کے باہر سے، امام احمد بن حنبلؒ اٹھتے تھے، وضو کرتے تھے، جیل کے دروازے پر پہنچ جاتے تھے۔ اہلکار روکتے تھے اور پھر وہ واپس آجاتے تھے۔ پھر اذان ہوتی، پھر وضو کرتے، پھر جاتے۔ اہلکار کہتے ہیں آپ  اتنا عرصہ بیت گیا ہے ہر اذان کے اوپر اٹھتے ہیں اور دروازے پر آتے ہیں، ہم آپ کو واپس بھیج دیتے ہیں۔ تو امام احمد بن حنبلؒ کے اس جملے کو اگر امت یاد کر لے تو اللہ کی قسم آج تو بچوں کے چیتھڑے اڑ رہے ہیں، ہم اس فرض کو، اس واجب کو بھی ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ امام احمد بن حنبلؒ نے کہا، میں جتنی چیز کا مکلف ہوں، اذان ہو گی، اگر مجھے پکارا جائے گا، رب تعالیٰ کی آواز  میرے کانوں میں گونجے گی، حی علی الصلوٰۃ اور حی علی الفلاح کی آواز آئے گی، میں جیل کے دروازے پر جاؤں گا۔ او مسلمانو، کمزور مسلمانو، مسجد اقصیٰ پکار رہی ہےاور میرے اور آپ کے اوپر اتنا بھی واجب نہیں کہ ہم حکمرانوں کے دروازوں کے سامنے کھڑے ہو کر ان کے مردہ ضمیروں کو جگائیں کہ نکلو۔

اللہ کے بندو! تیار ہو کہ نہیں؟ حکمرانوں کے دروازوں پر جانے کے لیے تیار ہو کہ نہیں؟ جہاد مینڈیٹ ہے۔ بعض لوگ عجیب باتیں کرتے ہیں، عجیب و غریب فلسفہ، سوشل میڈیا کے حوالے سے بھی چند باتیں ضرور کرنا چاہتا ہوں۔ مولوی صاحب، جہاد کا فتویٰ کب دیں گے؟ مولوی صاحب، جہاد کا فتویٰ کب دیں گے؟ اللہ کے بندو چودہ سو سال پہلے اللہ نے جہاد کو واجب قرار دے دیا،  رسول اللہ نے فرض قرار دے دیا، دوبارہ فتویٰ لینے کی ضرورت ہے؟ یہ مولویوں سے کون سا فتویٰ مانگتے ہیں؟ یہ مولوی اور علماء کا تمسخر، یہ جو لبرل اور سیکولر لوگ ہیں نا، اس طرح اڑاتے ہیں۔ خود موم بتی مافیا جو اونٹ کے پاؤں کے کٹنے کے اوپر تو چیخ و پکار کرتی ہے، آج مسجد اقصیٰ کے اندر  بچوں کے چیتھڑے اڑے ہیں، کہاں ہیں انسانی حقوق کی تنظیمیں؟ یہ اسلام آباد انسانی حقوق کی تنظیموں کا گڑھ ہے۔ کہاں ہے موم بتی مافیا؟ کہاں ہیں انسانیت کے چیمپئن؟ کیا غزہ کے اندر،  مسجد اقصیٰ کے اندر انسان نہیں مر رہے؟ مولوی صاحب کب فتویٰ دیں گے؟ مولوی نے جیسے فتویٰ دینا ہے تو موم بتی مافیا نے سب سے پہلے جا کر جہاد شروع کر دینا ہے۔ یہ ان کی اصلیت ہے، یہ ہم سے فتوے مانگتے ہیں۔ 

فتوے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دے چکے، اللہ کا حکم آ چکا ہے، علماء کی جو بات ہے وہ انہوں نے نہیں سمجھنی۔ اگر یہ چاہتے ہیں کہ علماء پرائیویٹ جہاد کا اعلان کر دیں، یہاں سے ہم لشکر کشی کر دیں تو علماء اس چیز کے قائل نہیں ہیں، یہ جہاد فرض ہوا ہے کن کے اوپر؟ مسلمان حکمرانوں کے اوپر فرض ہوا ہے۔ 

اور دوسری بات یہ بھی میں کہنا چاہتا ہوں، میرے بھائیو، اللہ کے بندو، اللہ کے بندو، یہ جو پاکستان کے اندر مختلف برانڈز ہیں، مختلف فرنچائزز ہیں، اور میں (مجلس) اتحادِ امت کی کمیٹی کو  یہ بھی مطالبہ کرتا ہوں کہ ایک کمیٹی بنائی جائے۔ دو المیے ہیں اس بارے میں۔ 

پہلا المیہ یہ ہے،  فرانس گستاخی کرتا ہے،  ساری پروڈکٹس فرانس کی ہو جاتی ہیں۔ نیدرلینڈز سے گستاخی ہوتی ہے، ساری پروڈکٹس نیدرلینڈز کی ہو جاتی ہیں۔ ڈنمارک گستاخی کرتا ہے،  ساری پروڈکٹس ڈنمارک کی ہو جاتی ہیں۔ آج کل ہر پروڈکٹ اسرائیل کی ہو گئی ہے۔ ایک کمیٹی بیٹھے، جو حقیقت میں اسرائیل کی پروڈکٹس ہیں، ان کے بار ےمیں فیصلہ کیا جائے۔ ڈنمارک کے اندر گستاخانہ خاکے چھپے، یہ ساری پروڈکٹس جی ڈنمارک کی ہیں۔ فرانس میں گستاخانہ خاکے چھپے، یہ جی ساری پروڈکٹس فرانس کی ہیں۔ اب اسرائیل کے ساتھ تنازعہ ہے، ساری پروڈکٹس اسرائیل کی ہو گئی ہیں۔ اللہ کے بندو، جو پروڈکٹس اسرائیل کی ہیں، یہ لوگ بیٹھیں، ماہرین کی کمیٹی یہاں علماء تشکیل کریں، اور جو حقیقی پروڈکٹس ہیں ان کا بائیکاٹ کیا جائے۔ 

اور بائیکاٹ کا مطلب حملے نہیں ہیں، جلاؤ گھیراؤ نہیں ہے، اللہ کے بندو، یہ بات بھی ذہن نشین رکھو۔ کل میں نے ایک ٹی وی کے اوپر یہ کہہ دیا کہ یہ جو کے ایف سی یا مختلف برانچوں کو جلانا، اسلام کے اندر تو دورانِ جہاد عورتوں، بچوں، املاک کو، درختوں کو جلانے کی اجازت نہیں ہے، یہ تو ہمارے پاکستانی بھائیوں کی انویسٹمنٹ ہے، ان کا بائیکاٹ ہو گا، ان کو جلایا نہیں جائے گا۔ ان کا کیا ہو گا؟ بائیکاٹ ہو گا۔ اگر اسرائیلی پروڈکٹس ہیں، جو ان کا بائیکاٹ علماء کریں۔

اور آخر میں ایک تجویز ہے وہ میں دینا چاہتا ہوں ۔ یہ علماء امت بیٹھے ہیں، ایک کمیٹی بنائیں کہ آئی ٹی کے ماہرین۔  سوشل میڈیا پر آج آپ اس کانفرنس کا کوئی کلپ چلائیں گے، آپ کی آئی ڈی بلاک ہو جائے گی۔ فلسطین کے اندر جو مظالم آپ دکھائیں گے، آئی ڈیز بلاک، پیج اڑ گئے۔ اس کا مقابلہ کس نے کرنا ہے؟ یہ جو سوشل میڈیا کی دہشت گردی ہے، آپ کی آواز کو اٹھانے ہی نہیں دیا جاتا۔ وہ جو ویڈیو ہے جہاں پر بچوں کے چیتھڑے اڑے ہیں، وہ جس بندے نے آئی ڈی سے لگائی ہے اس کی آئی ڈی بلاک ہو جاتی ہے۔ 

تو اس کا حل یہ ہے کہ پاکستان کے جو حکمران ہیں آگے بڑھیں، جو گرے ٹِک ویری فیکیشن ہوتی ہے، اس کے اوپر اگر یہ پوسٹیں لگیں گی تو ان کو اڑایا نہیں جا سکتا۔ لیکن ہمارے حکمران بھی بڑے سیانے ہیں۔ عمران خان صاحب کا دور تھا، شہباز شریف صاحب ہر روز یہ مفلر پہن کر اسمبلی میں تشریف لے آتے تھے۔ آج اپنی حکومت ہے اور فلسطین کے حق میں، اقصیٰ کے حق میں زبان سے بات نکالنا بھی گوارا نہیں ہے۔  اللہ کے بندو! 

آ تجھ کو بتاتا ہوں تقدیرِ امم کیا ہے
شمشیر و سناں اول، طاؤس و رباب آخر

آپ اپنے اکابرین کے ساتھ بیت المقدس کی جنگ لڑنے کے لیے تیار ہیں؟ ہاتھ اٹھا کر وعدہ کریں، جنگ لڑنے کے لیے تیار ہیں؟ اور میں جمعیت اہلِ حدیث کی طرف سے اعلان کرتا ہوں، آصف منیر صاحب اور پاکستان کے حکمران جہاد کا اعلان کریں، روٹ کا تعین کریں۔  افغانستان جو جہاد کی بنیاد کے اوپر حکومت بنی، شام جو جہاد کی بنیاد کے اوپر آج حکومتیں قائم ہیں، رستے بنانے ہوں بن سکتے ہیں اللہ کے فضل و رحمت سے۔ شام، افغانستان، پوری دنیا کے عرب ممالک اگر سنجیدگی سے غور کریں تو یہ  رستے جہادی قافلوں کے اللہ کی قسم بن سکتے ہیں۔ اور یہ بنیں گے تو جمعیت اہلِ حدیث دس ہزار نوجوان جہاد کرنے کے لیے اسرائیل کے خلاف تیار ہے، وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔ 

مسئلہ فلسطین

(الشریعہ — مئی ۲۰۲۵ء)

ماہانہ بلاگ

شملہ معاہدے سے نکلنے کے فوائد
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

بھارت کا وقف ترمیمی ایکٹ: جب بیوروکریٹس موجود ہوں تو بلڈوزرز کی کیا ضرورت؟
الجزیرہ

پاکستان کا ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کا طریقہ خطرناک ہے۔
الجزیرہ

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ٹیرفس: وائیٹ ہاؤس کا موقف اور وزیراعظم سنگاپور کی تقریر
سی بی ایس نیوز
لارنس وانگ

جہاد فرض ہے اور مسلم حکومتوں کے پاس کئی راستے ہیں
مولانا مفتی محمد تقی عثمانی

المیۂ فلسطین اور قومی کانفرنس اسلام آباد کا اعلامیہ
مولانا مفتی منیب الرحمٰن

فلسطین پاکستان کا اساسی مسئلہ ہے
مولانا فضل الرحمٰن

امریکہ کا عالمی کردار، اسرائیل کی سفاکیت، اہلِ غزہ کی استقامت: ہماری ذمہ داری کیا ہے؟
حافظ نعیم الرحمٰن

فلسطینی پاکستان کے حکمرانوں سے توقع رکھتے ہیں
لیاقت بلوچ

اہلِ فلسطین کی نصرت کے درست راستے
علامہ ہشام الٰہی ظہیر

قومی فلسطین و دفاعِ پاکستان کانفرنس: تمام جماعتوں کا شکریہ!
مولانا قاری محمد حنیف جالندھری
مولانا حافظ نصر الدین خان عمر

فلسطین کے ہمارے محاذ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مولانا زاہد الراشدی کا ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن میرپور آزادکشمیر کے فلسطین سیمینار سے خطاب
مفتی محمد عثمان جتوئی

غزہ کی تازہ ترین صورتحال اور نیتن یاہو کے عزائم
مولانا فتیح اللہ عثمانی

حالیہ فلسطین جنگ میں شہید ہونے والے جرنلسٹس
الجزیرہ

’’میں نے پاکستان بنتے دیکھا‘‘
پروفیسر خورشید احمد
اظہر نیاز

پروفیسر خورشید احمدؒ کی رحلت: صدی کا بڑا انسان
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

پروفیسر خورشید: جہانگیر و جہانبان و جہاندار و جہاں آرا
ڈاکٹر شہزاد اقبال شام

پروفیسر خورشید احمدؒ کی وفات
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

’’آسان تفسیرِ قرآن‘‘
مولانا مفتی محمد تقی عثمانی

حکمران کے دس حقوق
مولانا مفتی عبد الرحیم
مفتی عبد المنعم فائز

رسالتِ محمدیؐ کی تئیس سالہ کامیاب تبلیغ
علامہ ڈاکٹر خالد محمودؒ

اسلامی نظریاتی کونسل، دستوری تاریخ کے آئینے میں
اسلامی نظریاتی کونسل

مطبوعات

شماریات

Flag Counter