اقوامِ متحدہ کی بے بسی، مسلم حکومتوں سے نا امیدی، اسرائیل کا معاشی بائیکاٹ

آصف محمود: السلام علیکم جی آصف محمود حاضر خدمت ہے، ناظرین، فلسطین کے اوپر بات کریں گے، کیا کرنا چاہیے؟ کیا کیا جا سکتا ہے؟ شرعی نقطۂ نظر کیا ہے؟ انٹرنیشنل لاء کیا کہتا ہے؟ سیاست کیا کہتی ہے؟ ان  ساری چیزوں کے اوپر اِن سارے پہلوؤں کے اوپر آج ہم بات کرنے کی کوشش کریں گے۔

  1.  ڈاکٹر محمد مشتاق احمد خان صاحب ہمارے ساتھ تشریف رکھتے ہیں، استاد ہیں، دانشور ہیں، انٹرنیشنل لاء کے ایکسپرٹ ہیں، ڈاکٹر صاحب آپ کا بہت شکریہ۔ 
  2. اجمل بلوچ صاحب، صدر ہیں آل پاکستان انجمنِ تاجران کے، آج میں دیکھ رہا تھا فلسطین کے حوالے سے احتجاج میں بھی شامل تھے، دھرنے میں بھی شامل تھے، ہمارے ساتھ بھی تشریف رکھتے ہیں، بلوچ صاحب آپ کا بہت شکریہ۔ 
  3. مولانا زاہد الراشدی صاحب معروف عالمِ دین ہیں، ان سے ہم سیکھیں گے، سمجھیں گے کہ اس کے بارے میں شرعی رہنمائی کیا ہو سکتی ہے۔ 

زاہد الراشدی صاحب آپ کا، ڈاکٹر مشتاق صاحب آپ کا، اجمل بلوچ صاحب آپ کا، میں سب کا شکرگزار ہوں کہ آپ تشریف لائے۔ 

ڈاکٹر مشتاق صاحب، آپ سے آغاز کرتے ہیں۔ ایک تو یہ ہے کہ ہم سب ظاہر ہے کہ اپنی اپنی جگہ پر دکھی ہیں، لیکن کچھ لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ جو ایک پریکٹیکل اپروچ ہے اس کے ساتھ چلیں گے تو بات بنے گی، محض جذباتیت سے تو کچھ نہیں ہو گا، کیونکہ فرق بہت زیادہ ہے طاقت کا۔  آپ کیسے دیکھ رہے ہیں، جذباتی حدود کہاں ختم ہوتی ہیں؟ اور مصلحت کی حدود بھی تو ظاہر ہے کہیں ختم ہونی چاہئیں نا، کوئی راستہ تو نکلنا چاہیے۔ 

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد: جی بالکل، دیکھیں، میری ناقص رائے میں تو یہ سوال غلط طریقے سے فریم کیا جاتا ہے جب یہ کہا جاتا ہے کہ ہمیں عملیت پسندی اختیار کرنی چاہیے اور جذباتیت سے گریز کرنا چاہیے، یہ اپروچ بنیادی طور پر غلط ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان ایک اخلاقی وجود رکھتا ہے اور وہ محض مشین نہیں ہے۔  یعنی میں نے کچھ دن پہلے چیٹ جی پی ٹی اور دیگر اے آئی (مصنوعی ذہانت کے)  جو ٹولز ہیں ان کو استعمال کرتے ہوئے کچھ مشقیں کیں، کچھ ایکسرسائزز کیں، کچھ ایکسپیری منٹس کیں، تو ان میں اس طرح کی بحث بھی آ گئی کہ کیا مثال کے طور پر جو اے آئی ہے، اس کو ندامت محسوس ہوتی ہے، کیا اس کو گِلٹ محسوس ہوتی ہے، کیا اس کو روحانی تسکین ہوتی ہے؟ ظاہر ہے کہ نہیں ہوتی۔ 

چند سال پہلے جنیوا میں جنگ کے قانون کے متعلق دنیا بھر سے یونیورسٹی پروفیسرز کو اکٹھا کیا گیا تھا، میں بھی اس میں گیا تھا، تو اس میں ہم جنگ کے دوران میں اے آئی کے استعمال پر بات کر رہے تھے، اور پھر اس میں آپ کیسے انسانیت کی حدود اور اخلاقی حدود کی پابندی کروائیں گے۔ ہمیں معلوم نہیں تھا کہ کچھ ہی عرصہ میں یہ چیزیں ہماری پریکٹیکل لائف میں اور غزہ میں ہم دیکھیں گے کہ وہ استعمال ہو رہی ہیں۔ 

اس وقت بھی ایک بنیادی سوال یہی تھا کہ انسانیت کے تقاضوں کی پابندی تو آپ انسانوں سے کرتے ہیں۔ وہ جو فٹ بال میچز میں بھی اور کرکٹ میچز میں بھی آپ کہتے ہیں کہ ایمپائر سے غلطی ہوئی کیونکہ وہ جو ہیومن فیکٹر ہے وہ تو اس میں ہوتا ہے۔ اچھا وہ ہیومن فیکٹر صرف غلطی میں نہیں ہوتا، وہ ندامت کے پہلو سے بھی ہوتا ہے، وہ پشیمانی کے پہلو سے بھی ہوتا ہے، اور وہ روحانی تسکین کے پہلو سے بھی ہوتا ہے۔ اس لیے خالص عقلی بنیاد پر اور جذبات سے بالکل ماورا ہو کر کوئی فیصلہ کبھی نہیں کیا جا سکتا۔ 

آصف محمود: یعنی کہیں کہیں جذباتی ہونا چاہیے۔ 

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد: یہ ہونا بھی چاہیے اور یہ لازماً‌ ہوتے ہیں۔

آصف محمود: میں نے یہ عقل کا بھاشن چونکہ آج تواتر کے ساتھ سنا ہے اس لیے میں نے آغاز اسی سے کیا ہے کہ میں آپ سے اس کے اوپر رائے لے لوں۔ کہیں کہیں تھوڑا سا جذباتی ہونا چاہیے۔ 

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد: بالکل، اقبال نے کہا تھا  ؎ ’’بہتر ہے دل کے ساتھ رہے پاسبانِ عقل، لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے‘‘۔ تو یہ عین عقل کا تقاضا ہوتا ہے۔ 

آصف محمود: اچھا، جذبات اور عقل اور اس کے ساتھ انٹرنیشنل لاء۔ ڈاکٹر صاحب، دنیا میں انٹرنیشنل لاء نام کی کوئی چیز اب باقی ہے؟  یا international law means no law   (اس کا مطلب لا قانونیت ہے) ؟ اس پر آپ کا بھی بڑا کام ہے، میرے جیسا طالب علم بھی اس پر لکھتا ہے، لیکن اب لوگ آگے سے سوال پوچھتے ہیں کہ یہ کن چیزوں میں وقت ضائع کر رہے ہو؟ اقوام متحدہ کی، انٹرنیشنل لاء کی اب عملاً‌ کوئی افادیت نہیں رہی، بلکہ بعض لوگ تو  یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اقوامِ متحدہ کے متبادل کسی فورم کے بارے میں بھی اب سوچ لینا چاہیے۔ 

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد: بالکل، یعنی یہ جو آخری بات ہے اس سے تو مجھے اتفاق ہے کہ اقوامِ متحدہ بلکہ پورا جو عالمی، بین الاقوامی نظام جس طرح وجود میں آ چکا ہے دوسری جنگِ عظیم کے بعد،   اب ہم اس کے آخری مرحلے پر ہیں اور یہ دنیا اب تبدیلی ہونی ہی ہونی ہے۔ یعنی غزہ سے پہلے اور غزہ کے بعد یہ  اب دو الگ ادوار ہیں، اس میں تو مجھے بالکل ان لوگوں سے اتفاق ہے، بلکہ آپ کا جو کالم آج پبلش ہوا ہے بہت ہی زبردست، اس میں بھی یہ جو آپ کا تھیسس ہے مجھے اس سے بالکل اتفاق ہے کہ اقوامِ متحدہ اب اپنی موت کے قریب پہنچ چکی ہے، بس صرف اس کا اعلان باقی ہے۔ 

البتہ یہ بات کہ بین الاقوامی قانون۔ دیکھیں، بین الاقوامی قانون جو ہمارے سامنے جس طرح کتابوں میں بیان کیا جاتا ہے اور جس طرح دنیا کے سامنے پیش کیا جاتا ہے، تو وہ قانون تو ظاہر ہے بنایا مغربی طاقتوں نے تھا اور ایک مخصوص اس کا سیاسی تاریخی پس منظر تھا۔ اور پھر بالخصوص دوسری جنگِ عظیم کے بعد چونکہ وہ فاتح اقوام تھیں دوسری جنگِ عظیم میں جنہوں نے فتح حاصل کی، تو نظام بھی ان کی مرضی کا بنا۔ اس لحاظ سے تو ٹھیک ہے کہ  وہ اب قصۂ پارینہ بننے جا رہا ہے۔ لیکن یہ کہ بین الاقوامی قانون بالخصوص جنگ میں کیا جائز ہے اور کیا ناجائز ہے، یا کرنا ہے کیا نہیں کرنا، یہ تمام انسانوں کا مشترکہ ورثہ ہے، آفاقی چیزیں ہیں۔ 

دیکھیں، اسلام، یہودیت، مسیحیت، تمام مذاہب ، یہاں تک کہ وہ مذاہب جن کو ہم غیر سماوی مذاہب کہتے ہیں ان کی تعلیمات بھی آپ دیکھیں، کون کہے گا آپ کو کہ جو نہتا ہے اس کو بھی آپ نشانہ بنائیں، جو بچے ہیں معصوم، ان کو بھی  نشانہ بنائیں، ہسپتالوں کوبھی نشانہ بنائیں وغیرہ۔ یہ کچھ چیزیں ہیں جو آفاقی حیثیت رکھتی ہیں اور ان کو دنیا نے معاہدات کی صورت میں باقاعدہ مدون بھی کیا۔ تو اب ان کی پامالی ہوتی ہے، خلاف ورزی ہوتی ہے، تو یہ کہنا کہ یہ سرے سے بےمعنی ہو گئی ہیں، میرے خیال میں یہ اپروچ مناسب نہیں ہے۔ یوں کہنا چاہیے، کیونکہ ہمارے پاس تو اسٹینڈرڈ یہ ہے کہ بھئی آپ لوگوں نے معاہدات بنائے ہیں آپ نے ان میں یہ چیزیں لکھی ہیں آپ اپنے ہی بنائے ہوئے معاہدات کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ یہ ہمارے پاس اخلاقی بنیاد ہے۔

آصف محمود: اس سے پہلے کہ میں آگے بڑھوں، ایک سوال اس گفتگو میں سے اور بھی آ گیا تھوڑا سا، اس پر بھی بات کرتے ہیں کہ اقوامِ متحدہ اگر متروک ہونے جا رہی ہے اور  عملاً‌ فرسودہ ہو چکی ہے اور نیا فورم، آپ نے کہا کہ دنیا بدلنے جا رہی ہے، تو اس بدلتی دنیا میں ہم کہاں ہوں گے؟ یعنی لیگ آف نیشنز میں بھی ہم کہیں نہیں تھے، لیگ آف نیشنز فارغ ہوئی، اقوامِ متحدہ بنی، اس میں بھی ہم کہیں نہیں تھے۔ اب اگر اقوامِ متحدہ بھی فارغ ہوتی ہے اور ایک نیا ادارہ بنتا ہے تو مجھے تو لگ رہا ہے کہ ہم اس میں بھی کہیں نہیں ہوں گے، ہم نے پھر بھی مزارع بن کر ہی شاید رہنا ہے۔ 

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد: بڑی حد تک یہ خدشہ ہے مجھے بھی، اور ظاہر ہے پریشانی کی بات تو ہے کہ ہم کس قطار شمارمیں ہیں۔ لیکن بہرحال بہت زیادہ مایوس ہونے کی میرے خیال سے ضرورت نہیں ہے کیونکہ مسلم امہ کے نام سے جو لوگ مذاق اڑایا کرتے تھے امہ کہاں ہے، اب دیکھیں فلسطین کے مسئلے پر چاہے مسلمان ہندوستان میں ہو، پاکستان میں ہو،  امریکہ میں ہو، یورپ میں ہو، وہ تڑپ رہا ہے اور وہ آواز اٹھا رہا ہے، کہیں اسے طریقہ نہیں سوجھ رہا کہ وہ کیا کرے، کہیں وہ کوارڈینیٹڈ ایفرٹ نہیں ہے، لیکن دکھ تکلیف ہر جگہ ہے۔ 

دوسری بات یہ ہے کہ پہلی جنگِ عظیم میں وہ فاتح تھے اور پوری دنیا پر ان کا غلبہ تھا۔ دوسری جنگِ عظیم میں بھی صورتحال یہ تھی۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ یوکرین کی وجہ سے روس اور یورپ آپس میں لڑ پڑے ہیں۔ اس کی وجہ سے امریکہ کی پچھلی انتظامیہ نے جس طرح انویسٹ کیا، ٹرمپ اس سے پیچھے جا رہا ہے، تو یورپ اور امریکہ کے درمیان بھی خلیج بڑھ چکی ہے۔ امریکہ اور چین کے درمیان بھی مسائل بڑھ رہے ہیں ۔ بظاہر تو دنیا بہت بڑی تبدیلی کی طرف جا رہی ہے جس میں بہت زیادہ تخریب کے امکانات بھی ہیں، لیکن اس میں بہرحال ہمارے لیے کرنے کے امکانات بھی ان شاء اللہ زیادہ پیدا ہو جائیں گے۔ 

آصف محمود: اجمل صاحب! میں نے آپ کو آج دھرنے میں دیکھا تو مجھے تھوڑی سی حیرت ہوئی، میں معافی چاہتا ہوں، مجھے بدگمانی نہیں کرنی چاہیے، ایک جنرل پرسیپشن میں ہے کہ تاجر فلسطین کے اوپر نکل آئے، میں نے بہت ساروں کو شرم بھی دلائی کہ دیکھو یار پاکستان انجمن تاجران کاصدر بھی دھرنے میں کھڑا ہوا ہے ، یہ تو ایک انسانی مسئلہ ہے نا، اس کو صرف آپ مولویوں کے ساتھ تو بریکٹ نہیں کر سکتے، مجھے آپ سے اب سمجھنا یہ ہے، پوچھنا یہ ہے کہ تاجر برادری کے تو دنیا بھر میں تعلقات ہوتے ہیں، تو کیا راستہ نکل سکتا ہے کہ غزہ تک کوئی چیز پہنچائی جائے، یہ چیزوں کو بھیجنے، چیزوں کو منگوانے میں جو  آپ لوگوں کی ایکسپرٹیز ہیں ہمیں تو پتہ ہی نہیں ہیں، اس کی بلاکیڈ ہے،اندر کوئی چیز نہیں جا سکتی، تو کوئی صورت نکل سکتی ہے ایسی؟  

اجمل بلوچ: بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارا بارڈر فلسطین کے ساتھ نہیں لگتا، افغانستان کے ساتھ لگتا ہے۔ دنیا کو پتہ ہونا چاہیے۔  میں ذرا تھوڑی سی ہٹ کر بات کروں گا کہ افغانستان میں سارے نیٹو ممالک، بیالیس لوگ آئے تھے، ہر چیز لے کر، الحمد للہ پاکستان کا بارڈر ان کے ساتھ، میں سچ بول رہا ہوں ،  سچ بولنا چاہیے کہ ان کو شکست ہوئی اور وہ یہاں سے۔ انہوں نے کہا تھا افغانستان ختم کر دیں گے ہم، اس وقت کے امیرکن صدر کی آپ سن لیں بات، بش تھے یا کوئی بھی تھا، اس نے کہا تھا افغانستان کو ختم کر دینا ہے، لیکن ایسا نہیں ہوا ہے۔ الحمد للہ آج وہ سب سے دنیا کی بہترین حکومت چلا رہے ہیں وہاں پر۔ 

فلسطین کے اندر دیکھیں، ایک معاہدہ طے پایا ہے کہ غزہ کے لوگ واپس آجائیں، ان کو واپس لا کر مارا گیا ہے۔ ایک معاہدہ قرآن مجید میں ہے، پہلے بھی کیا تھا، ڈاکٹر صاحب  بہتر بتا سکتے ہیں، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ انہوں نے معاہدہ توڑ دیا ہے ان سے جنگ کرو۔ جو معاہدہ توڑ دے اس سے جنگ ہوتی ہے۔  قرآن مجید میں اگر لکھا ہے تو پھر یہ سچ ہے، پھر کسی انسان کی یا کسی دانشور کی یا کسی عالم سے ہمیں  پوچھنے کی ہمیں ضرورت نہیں ہے کہ قرآن میں لکھا ہے کہ جو معاہدہ توڑ دے۔  کتنا ظلم کیا ہے انہوں نے معاہدہ توڑ کے کہ جنگ بندی کی ، ان لوگوں کو واپس بلایا اور ان کو مارنا شروع کر دیا۔ 

بات یہ ہے،  میں تو گلہ کروں گا عربوں سے، ان کا بارڈر عربوں کا بارڈر ہے۔ عرب، دیکھیں،  قرآن وہاں نازل ہوئے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم وہاں آئے، تمام پیغمبر وہاں پہ آئے ، تمام صحابہؓ وہاں پہ تھے، جن کی بائیس بائیس لاکھ مربع میل پر حکومت تھی، خانہ کعبہ وہاں پہ ہے،  مسجدِ اقصیٰ وہاں پہ ہے، او  بھائی عربو! تمہاری زبان بھی وہی ہے، تم سمجھ سکتے ہو کہ وہ اس وقت کس مصیبت میں ہیں، اور تم کوئی ٹس سے مس نہیں ہو رہے۔ کل میں غزہ کی ایک خاتون کی  دعا سن رہا تھا کہ وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کہہ رہی تھی کہ ان کی شفاعت نہ کرنا عربوں کی۔ یہ چھوٹی سی بات نہیں ہے کہ اللہ کے سچے رسول! ان کی شفاعت نہ کرنا اللہ سے۔ تو خدا کے لیے عربوں کو کچھ سوچنا چاہیے،  یار آپ لڑ نہیں سکتے تو ان سے بات تو کر دیں یار، ان کا تیل بند کر دیں، وہ آپ کی بات سنیں گے۔ آپ تیل بھی انہیں دیے جا رہے ہیں، باتیں بھی ساری انہی کی مانے جا رہے ہیں، پھر ہم اسلام لے کے بیٹھے ہوئے ہیں۔ 

دیکھیں، اللہ کے رسول جب نکلے تھے، ظلم وہ کر رہے ہیں، اللہ کا حکم ہے کہ جب وہ آپ سے لڑنے آئے ہیں تو ان کے حملوں کو روکو۔ اللہ نے یہ تو نہیں کہا کہ پہلے جا کر ان سے لڑ جاؤ، جب وہ آپ پر حملہ کریں تو ان کے حملوں کو روکو۔ ان کو چاہیے کہ ان کے حملوں کو روکیں۔ اور اگر یہ روک نہیں سکتے تو ان کو تیل پانی تو دے دیں، ان کو روٹی تو دے دیں، ان کو دلاسہ تو دے دیں ، آپ آواز بھی نہیں بلند کر رہے۔ میں تو کل بھی ڈی چوک میں تھا، عربوں سے گلہ کیا میں نے کہ بھئی خدا کا واسطہ کچھ تو خیال کر لو، تمہاری زبان ہے، تمہارے پاس قرآن ہے، تمہارے پاس رسول ہے، تمہارے پاس خانہ کعبہ ہے۔

 اور جب اس وقت بھی لوگوں نے کہا، اے اللہ کےسچے رسول! ہم حاجیوں کو پانی پلائیں گے، ہم خانہ کعبہ کی صفائی کریں گے، تو اللہ تعالیٰ نے وحی اتار دی کہ اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم! ان کو چھوڑ دیں، یہ صفائی کر لیں اور حاجیوں کو پانی پلائیں، ہمیں ان سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ آج بھی عربوں کا وہی حال ہے کہ یہ لوگوں کو حج کرا رہے ہیں، یہ عمرہ کرا رہے ہیں اور مسلمان ذبح ہو رہے ہیں۔ جو حالت وہاں پہ ہو رہی ہے بچوں کی عورتوں کی بزرگوں کی، مریضوں کے ساتھ ظلم ہو رہا ہے، یار تم کیا کر رہے ہو؟ کل اللہ کے پاس کیا جواب دیں گے؟ 

میں تاجر ہوں، میں نے اعلان کیا ہے پورے پاکستان میں، کہ ہم جو مصنوعات ، تاجروں سے اپیل کی ہے کہ جن مصنوعات سے فائدہ اسرائیل کو ہوتا ہے وہ بند کر دیں یار بیچنا، اس کو باہر پھینک دیں، ایسے سمجھیں کہ ہمارا نقصان ہو گیا تھا۔ 

آصف محمود: کیا آپ انجمنِ تاجران کی طرف سے ایک فہرست جاری کر دیں گے؟  کچھ لوگ پوچھتے ہیں کہ کون سی ہماری چیزیں ہیں، کون سی باہر کی چیزیں ہیں، تو اگر آپ بھی اس کا اعلان کر دیں تو لوگوں کو ذرا سمجھ آجائے گی۔ 

اجمل بلوچ: جی جی کر دوں گا، میں نے اعلان کیا ہے کل ڈی چوک میں۔جاری کرنی چاہیے کہ وہ ظلم کر رہے ہیں ہمارے اوپر اور ہم اسی کی چیزیں اس کو فائدہ پہنچانے کے لیے کوک بھی پی رہے ہیں اور بھی کئی چیزیں۔ او بھئی خدا کا واسطہ ہے ہم ان چیزوں کو چھوڑ دیں نا ، بھوکے تو نہیں مر جائیں گے۔ 

آصف محمود:مولانا زاہد الراشدی صاحب، میں آپ کی طرف آتا ہوں، ذرا رہنمائی فرمائیے، لوگ یہ جاننا سمجھنا چاہ رہے ہیں کہ مسلم ممالک کمزور بھی ہیں، مسلم ممالک اس پوزیشن میں بھی نہیں ہیں کہ جو سوپر پاور سے ٹکرا سکیں، لیکن مسلم ممالک بالکل خاموش بھی ہیں، اس سے بھی ظاہر ہے بہت تکلیف اور صدمے کی کیفیت ہے۔ تو ان حالات میں شرعی رہنمائی کیا ہے؟ مسلم ممالک کو اس وقت کیا کرنا چاہیے؟ عام آدمی کو اس وقت کیا کرنا چاہیے؟ بائیکاٹ بھی ہو رہا ہے مولانا صاحب، لیکن بائیکاٹ کے ساتھ کچھ تشدد کی چیزیں بھی سامنے آ رہی ہیں، تو اس سارے معاملے میں آپ ہمارے رہنمائی فرمائیے کہ دینی احکام کیا ہیں؟ 

مولانا زاہد الراشدی: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ بہت بہت شکریہ، گزارش یہ ہے کہ شرعی پوزیشن تو یہ ہے کہ ایک مسلم آبادی پر حملہ ہوا ہے اور مسلسل جاری ہے، وہ ذبح ہو رہے ہیں وہ جل رہے ہیں وہ مر رہے ہیں، اور اس پوزیشن میں جو فقہاء نے ہمیشہ لکھا ہے   کہ باقی مسلمانوں پر ان کو چھڑانا اور ان کے وطن کی آزادی کے لیے ، ان کی خودمختاری کے لیے  اور ان کے تحفظ کے لیے خود میدان میں آنا ، یہ فرض ہو جاتا ہے۔ ’’الاقرب فالاقرب‘‘  قریب کے لوگ جیسے ابھی میرے بھائی فرما رہے تھے کہ عربوں کی ذمہ داری سب سے زیادہ ہے، اس کے بعد ہماری ذمہ داری ہے۔ شرعی پوزیشن تو یہ ہےکہ جہاد، جیسے کل ہماری قومی فلسطین کانفرنس میں تمام دینی مکاتب فکر کی متحدہ قیادت نے اعلان کیا کہ جہاد اصولاً‌ تو فرض ہو گیا ہے۔  قرآن پاک کہتا ہے کہ ’’مالکم لا تقاتلون فی سبیل اللہ والمستضعفین من الرجال والنساء‘‘ (النساء ۷۵) یہ کمزور لوگ دہائی دے رہے ہیں اور ہم تماشائی بنے ہوئے ہیں، شرعی پوزیشن تو یہ ہے کہ جہاد تو اصولاً‌ فرض ہو چکا ہے، اس کا اعلان بھی ہمارے پاکستان کی حد تک قومی دینی قیادت نے کر دیا ہے۔ لیکن جہاد کرنا تو ریاستوں نے ہے، حکومتوں نے ہے، فوجیں موجود ہیں، ریاستیں موجود ہیں۔ یہ تو اس کا شرعی پہلو ہے، اب یہ کب آپس میں بیٹھتے ہیں۔ مجھے سب سے بڑا گلہ یہ ہے کہ او آئی سی (اسلامی تعاون تنظیم) اور عرب لیگ اپنی ذمہ داریاں سمجھنے کے لیے،  طے کرنے کے لیے بیٹھنے کو تیار نہیں ہیں، یہ انتہا کی بے حسی ہے کہ اکٹھے بیٹھنے کو اور سوچنے کو تیار نہیں، نہ عرب لیگ  تیار ہے، نہ او آئی سی تیار ہے کہ ہم بیٹھیں ہماری ذمہ داری کیا ہے۔ 

سیاسی طور پر دیکھیےمیں نہیں سمجھتا کہ عالمِ اسلام کمزور ہے،  ٹھیک ہم ہتھیار میں ٹیکنالوجی میں کمزور ہیں، لیکن آج بھی دنیا میں مذہب کے اعتبار سے   سیاسی وحدت اگر کسی میں ہے تو مسلمانوں میں ہے۔ تین سو سال کی فکری جنگ میں مسلمانوں کو ان کے مذہب سے دستبردار نہیں کروایا جا سکا۔ سب محاذوں پر مغرب نے فتح پائی ہے لیکن مسلمان کی کمٹمنٹ قرآن پاک کے ساتھ، جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ، دین کے ساتھ،  کعبہ کے ساتھ آج بھی کمزور نہیں ہے۔ یہ ہماری کمٹمنٹ جو ہے ، اللہ کی ذات کے ساتھ، قرآن پاک کے ساتھ، جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی کے ساتھ اور بیت اللہ کے ساتھ،  یہ کمٹمنٹ اتنی بڑی قوت ہے کہ اگر ہم اس کو منظم کر سکیں اور اس کو صحیح طور پر اپنے دینی مفاد کے لیے ملی مفاد کے لیے متحرک کر سکیں تو اس سے بڑی طاقت کوئی نہیں ہے۔ 

ہم نے ہمیشہ نظریاتی قوت سے، عقیدے کی قوت سے ، اسباب کی قوت پر فتح پائی ہے، کوئی بھی تاریخ کا موقع دیکھ لیں، بدر میں کیا ہوا تھا، خندق میں کیا ہوا تھا، ہماری قوت ہمیشہ ایمان اور کمٹمنٹ اور دینی جذبات، یہ رہے ہیں۔ وہ آج بھی موجود ہیں، کمزوری حکمرانوں اور ریاست کے ذمہ دار حضرات کی ہے کہ وہ اس کی طرف آنے کو تیار نہیں ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ او آئی سی، عرب لیگ اور دینی قیادتیں آج بھی منظم ہو کر مسلمانوں کو متحد کر لیں تو ہم باقی اسباب پر، میں کمزوری کا انکار نہیں کر رہا، اپنی کمزوریوں کو تسلیم کرتا ہوں، لیکن اپنی وحدت کی قوت سے، اپنی کمٹمنٹ کی قوت سے ہم ان پر قابو پا سکتے ہیں۔  لیکن سوال قابو پانے کا نہیں، کیا ہم قابو پانے کے لیے سوچنے کو تیار ہیں؟ کیا اس کے لیے کوئی فورم بیٹھنے کو تیار ہے؟ ہمیں سب سے پہلے اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا چاہیے، ہمیں سے مراد دینی قیادت بھی، سیاسی قیادت بھی، حکمران بھی، ہمارے عسکری رہنما بھی پوری دنیا کے مسلمانوں کے، جتنی بھی عسکری قیادتیں ہیں، ہمیں اپنے آپ کو سیریس تو کرنا چاہیے۔ میرا سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ ہم سیریس نہیں ہیں۔

آصف محمود: اچھا مولانا صاحب، ایک اور ایشو پر رہنمائی کیجیے گا کہ کچھ صاحبِ علم یہ رہنمائی دیتےہیں اور اس سے آدمی اچھا خاصا کنفیوژ ہو جاتا ہے، وہ یہ کہتے ہیں کہ اگر آپ کے پاس جوابی طاقت نہ ہو دشمن سے ٹکرانے کی، ظالم سے ٹکرانے کی، تو پھر اگر آپ ٹکرائیں گے تو اس سے آپ کی مصیبتوں کا دورانیہ بڑھ جائے گا، اور آپ مسلمانوں کو مزید عذاب سے دوچار کر دیں گے، اس لیے جب تک آپ کے پاس برابر کی قوت نہیں ہے تب تک آپ صبر کریں، اور ان کا یہ کہنا ہے کہ یہی شرعی حکم بھی ہے۔ 

مولانا زاہد الراشدی: یہ دانشور حضرات  بہت لیٹ یہ بات کر رہے ہیں، ان کو یہ مشورہ بدر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دینا چاہیے تھا کہ جب آپ کے پاس برابر کی قوت نہیں ہے تو کیوں سامنے آئےہیں؟ ان کو یہ مشورہ خلافتِ راشدہ کے دور میں رومی سلطنت کے مقابلے پر ، بہت لیٹ آئے ہیں یہ، یہ مشورہ اس وقت ہونا چاہیے تھا۔  ہم تو ہمیشہ اسباب کی کمزوری کے باوجود ٹکرائے ہیں، اپنے سے دس گنا طاقتوں سے ٹکرائے ہیں، ہم نے فتح پائی ہے، ہم اپنی روایات کو بھول کر چند مفروضوں پر کیوں کھڑے ہیں؟ یہ مفروضے ہیں۔ ہماری پوری  تاریخ دیکھ لیجیے، یہاں  برصغیر میں مسلمان حکومت قائم ہوئی ہے، یہ طاقت کے توازن پہ قائم ہوئی ہے یا برابر کی قوت پر قائم ہوئی ہے؟ یا خلافتِ راشدہ کے دور میں فارس کی سلطنت کو ہم نے شکست دی ہے، روم کو شکست دی ہے، کیا یہ طاقت کے مقابلے (توازن) پر تھی؟ یہ مفروضات ہیں میرے بھائی۔ یہ بات نہیں۔ ایمان، وحدت اور اللہ کی مدد کے وعدے پر یقین، یہ ہماری قوت ہے اور یہ آج بھی موجود ہے اگر ہمیں اس پر یقین آ رہا ہو۔ یہ فلسفہ کہ برابر کی طاقت ہو تو ٹکراؤ، یہ فلسفہ ہماری پوری چودہ سو سال کی تاریخ سے ٹکراتا ہے۔ 

آصف محمود: مولانا یہ جو بائیکاٹ کی بات چل رہی ہے، اس میں اب کہیں کہیں کچھ کچھ شہروں میں تشدد کی خبریں بھی آ رہی ہیں، اس پہ کیا رہنمائی کریں گے آپ؟

مولانا زاہد الراشدی: تشدد تو خیر نہیں ہونا چاہیے لیکن پر امن بائیکاٹ۔ یہ بائیکاٹ سنتِ رسولؐ بھی ہے ، جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بائیکاٹ بھی ہوا ہے اور حضورؐ نے بھی بائیکاٹ کیا ہے۔ معاشی جنگ ایک مستقل جنگ ہے، اس میں قانونی اور اخلاقی حدود کو سامنے رکھتے ہوئے اس کمپین کو زیادہ سے زیادہ آگے بڑھانا چاہیے اور اس کو منظم کرنا چاہیے، میں سمجھتا ہوں کہ یہ آج کی (بلکہ) ہر دور کی معاشی قوت رہی ہے، اس کو ہم صحیح طور پر مینج کریں اور اس کو طریقے سے منظم کر کے لوگوں کو تیار کریں۔ اس میں تشدد کو میں درست نہیں سمجھتا، لیکن بہرحال ہمیں اپنا کردار تو ادا کرنا چاہیے، تاجروں کو بھی، علماء کو بھی، اور لوگوں کو بھی۔

آصف محمود: مولانا صاحب میں واپس آپ کی طرف آؤں گا، دوسرے مہمانوں کا موقف لے لیں۔ ایک سوال میں بلوچ صاحب سے پوچھنا چاہ رہا ہوں۔ بائیکاٹ پر  بعض لوگ یہ بھی پوچھتے ہیں کہ ہم بائیکاٹ تو کرنے کو تیار ہیں لیکن جو ہماری مقامی مصنوعات ہیں اس میں اگر خالص دودھ ہے تو وہ پھر کم از کم خالص تو ہو۔ پہلے خالص دودھ ہوتا تھا، پھر لکھا ہوا ہوتا تھا کہ ٹیکے سے بھی پاک خالص دودھ، اور پھر بھی وہ خالص نہیں ہوتا۔ یہ جو ہماری ایتھکس ہیں ہمارے کاروباری طبقے کی، ظاہر ہے آپ برا نہیں منائیں گے، ہم سب کا یہی حال ہے، پورے ملک کا یہی حال ہے، صرف آپ کا نہیں ہے۔  یہ شکوہ لوگوں کا کہاں تک ہے کہ بھئی ہم تو چاہتے ہیں کہ ہم مقامی مصنوعات لیں لیکن مقامی مصنوعات کا معیار ٹھیک نہیں ہے، پرائس بہت زیادہ ہے۔  حالانکہ یہ کوئی کوالٹی کا موقع نہیں ہے، یہاں تو اگر ناقص بھی ہے تو میری رائے میں وہی لینا چاہیے، یہ بحث ہی سرے سے نہیں ہے کہ اس وقت کوالٹی کیا ہے۔ لیکن ایک شکوہ تو ہے، تو کیا وجہ ہے کہ ہم اچھا متبادل نہیں دے پاتے؟

اجمل بلوچ: ہمیں اصل میں مغرب نے ا پنی چیزوں سے دور کر کے، اور انہوں نے کہا یہ جو ڈبے میں دودھ  ہو گا یہ جو ڈبے میں دہی ہو گی، یہ سب سے اچھا ہو گا، ہمارے لوگوں نے اس کو کھانا۔ میں دعوے سے کہہ رہا ہوں، جو ڈبے میں دہی کھاتا ہے وہ زیادہ ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے، جو ڈبے کا دودھ پیتا ہے وہ بڑے ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے۔ جو عام آدمی ہے، جو ستارہ مارکیٹ سے دودھ لے کر پیتا ہے وہ کبھی ڈاکٹر کے پاس نہیں گیا۔ یہ پیدا کر دیا گیا ہے یقین کریں، ایسا ہے نہیں۔ میں عام آدمی ہوں، عام زندگی گزارتا ہوں، یقین کریں جتنی عام زندگی میں گزارتا ہوں، میرے گھر میں ایک سالن پکتا ہے، او یار کچھ بھی نہیں ہوتا ہے، یہ ہمارے ذہنوں میں ڈال دیا گیا ہے کہ ہم دودھ میں پانی ڈالتے ہیں ہم فلاں کرتے ہیں۔ دیکھیں جو ایسا کرتا ہے وہ مسلمان نہیں ہے، وہ تاجر نہیں ہے اگر کوئی پانی ڈالتا ہے اگر کوئی ملاوٹ کرتا ہے ، ہو سکتا ہے دنیا میں اور بھی لوگ کرتے ہوں۔ یہ جو ہمیں پلاتے ہیں مغربی ڈبے، ان میں ملاوٹ نہیں ہوتی ہے؟ ان میں کیا ہوتا ہے، مجھے کوئی بتا سکتا ہے کہ یہ خالص بھینس کا دودھ ہوتا ہے؟ یہ خالص گائے کا دودھ ہوتا ہے؟ 

آصف محمود: وہ کہتے ہیں کہ یہ تو وہائٹنر ہوتا ہے۔

اجمل بلوچ: اور سر یہ نہیں ہوتا، یہ ظلم ہوتا ہے اور اس کا فائدہ اسرائیل کو ہوتا ہے، ہم یہ پی کر بیمار بھی ہوتے ہیں ، فائدہ اسرائیل کو پہنچاتےہیں۔ 

آصف محمود: اچھا ایک اور چیز سمجھائیں، بعض لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم جو چیزوں کا بائیکاٹ کر رہے ہیں، یہ  اصل میں جن کے لیے ہم بائیکاٹ کر رہے ہیں انہیں تو کوئی نقصان نہیں پہنچ رہا، اس میں اجمل بلوچ جیسے دوست کاروبار کر رہے ہیں، یہ مقامی لوگ ہیں، لہٰذا بائیکاٹ نہ کریں، نقصان مقامی لوگوں کا ہی ہو رہا ہے، باہر کی قوتوں کا تو نہیں ہو رہا۔ یہ بھی جھوٹ ہے، اس میں کوئی صداقت ہے؟

اجمل بلوچ: دیکھیں بات یہ ہے کہ لوگ باتیں کرتے رہیں۔ میں اپنے تاجروں سے، پورے پاکستان میں سو کروڑ سے زیادہ تاجرہے، دیکھیں وہ مسلمان تاجر ہے، وہ اس بات کو سمجھتا ہے کہ مجھے۔ دیکھیں، اس کا مال اس کی جان عزیز نہیں ہے اللہ کی راہ سے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کے لیے، یا اللہ کی راہ میں لڑنے کے لیے، یا اللہ کی راہ میں مدد کرنے کے لیے، یہ کوئی چیزیں نہیں ہیں یقین کریں، ان ساری چیزوں کو سائیڈ پہ رکھا جا سکتا ہے، پھینکا جا سکتا ہے۔ کیا وہ لوگ بھوک سے مر گئے تھے؟ آج تک کوئی بھوک سے مرا ہے؟ 

ہمارے ذہنوں میں یہ بات ڈال دی گئی ہے کہ ہم اگر یہ مال نہیں بیچیں گے تو پتہ نہیں کمزور ہو جائیں گے۔ پچھلے تین سالوںمیں کیا ہو گیا ہے؟ کوئی امپورٹ نہیں ہے ہماری، ہمارے پاس پیسےہی نہیں ہیں، ہمارے پاس ڈالر ہی نہیں ہیں، نہیں ہیں نا، تو اگر امپورٹ نہیں ہوئی ہیں چیزیں تو ہم مر گئے ہیں؟ 

آصف محمود: امپورٹ نہیں ہے، ڈالر نہیں ہے، باہر سے چیزیں نہیں آئیں تو اس سے کچھ مقامی معیشت بہتر ہوئی ہے، مقامی تاجروں نے اپنی کچھ چیزیں ، موقعے سے فائدہ اٹھایا ہے؟ 

اجمل بلوچ: بالکل اٹھایا ہے، دیکھیں، آج جو کچھ ہو رہا ہے، جو کچھ چل رہا ہے، جو کچھ لوگ کھا پی رہے ہیں، کچھ تو ہو رہا ہے نا۔ ایویں تو نہیں ہو گیا خدا نخواستہ۔ اس سے فائدہ ملکی چیزوں کو ہوا ہے، اور اگر یہ ایسا کر لیں گے۔  دیکھیں بات یہ ہے میں کہتا ہوں جی ہم بھوکے مر جائیں، ہمیں درخت کے پتے کھانے پڑیں، ہم ان کو نہ نفع پہنچائیں جو ہمیں ذبح کر رہے ہیں، جو ہمارے مسلمانوں کو مار رہے ہیں، ہمیں یہ قربانی دینا ہو گی کسی بھی صورت میں۔ 

آصف محمود: اور آپ کے تاجر بھی اس بات سے متفق ہیں؟

اجمل بلوچ: میں کہتا ہوں عربوں کے علاوہ، عرب نزدیک بیٹھے ہیں نا، وہ جنگ کریں، قرآن کہتا ہے وہ جنگ کریں، وہ لڑیں، ان کی مدد کریں۔  ہم  کم از کم ان کا بائیکاٹ تو کریں۔ ہم اپنی چیزیں توڑنا شروع کر دیتے ہیں، یہ میری اپیل ہے کہ اپنی چیزیں نہ توڑو، اپنی چیز کو آگ نہ لگاؤ، ان کی جو چیزیں ہیں ان کو پرے پھینک دو بھئی۔ 

آصف محمود: ان کو لینے سے انکار کر دو۔

اجمل بلوچ: ہاں، ان کو لینے سے انکار۔ نہ کھاؤ نہ بیچو۔ نقصان نہیں ہو گا۔ میں حلف دے کر کہتا ہوں کہ جو ذہنی طور پر کہے گا میں مسلمان ہوں، علامہ اقبال نے بھی کہا ہے کہ دین ہاتھ سے دے کر اگر آزاد ہو ملت تو مسلمان کا اس میں خسارہ ہے۔ 

آصف محمود: ایسی تجارت میں مسلمان کا خسارہ ہے۔ ڈاکٹر مشتاق صاحب میں آپ کی طرف آتا ہوں۔ آپ نے کچھ بڑے اچھے سوالات مرتب کیے ایک دون پہلے، مجھے آپ سے یہ پوچھنا تھا کہ اس میں، جس طرح زاہد الراشدی صاحب نے بھی کہا،    تقی عثمانی صاحب نے بھی کہا کہ جہاد اب واجب ہو چکا ہے۔ دو سوال ہیں جو میرے ذہن میں آئے۔ 

ایک تو یہ ہے کہ اگر ہمارے علماء کرام کو ساٹھ ہزار لاشوں کے بعد خبر ملی ہے کہ جہاد واجب ہو چکا ہے، تو پھر حکمرانوں کو تو کم از کم بیس پچیس سال مزید لگیں گے یہ سمجھنے میں کہ جہاد واجب ہو چکا ہے۔ لہٰذا یہ بڑا بنیادی سوال ہےکہ اس کنونشن کا اور اس کنونشن میں ’’جہاد واجب ہو چکا ہے‘‘  کا شانِ نزول کیا ہے؟ ڈیڑھ سال کے بعد اگر آپ  کو خبر ملی ہے ، ساٹھ ہزار لوگ قربان کرنے کے بعد۔ ایک سوال تو یہ ہے۔ 

دوسرا یہ کہ نیشن سٹیٹس جب جنگ کرتی ہیں یا نہیں کرتی ہیں تو اس میں وہ ظاہر ہے علماء سے تو پوچھتے ہی نہیں ہیں، تو علماء نے تو اپنی ذمہ داری دیر سے ہی ادا کی لیکن کر دی، اس سے بھی ظاہر ہے کہ میسج جاتا ہے، ورنہ علماء تو امریکہ میں اور مصر میں ایسے بھی بیٹھے ہیں کہ جو کہہ رہے ہیں کہ جہاد یہاں پہ ہے ہی نہیں، موقع ہی نہیں ہے۔ تو یہ بھی غنیمت ہے، ہم انہیں اس پر بھی خراجِ تحسین ہی پیش کرتے ہیں ظاہر ہے۔ لیکن نیشن سٹیٹس تو شاید ان کی طرف سے ایسے کسی اعلان سے بے نیاز ہیں۔ یا کچھ اثر پڑتا ہے اس چیز کا؟ 

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد: دونوں سوالات بہت اہم ہیں اور آپ نے جو دوسرے سوال میں بعض ممالک کے علماء کی طرف اشارہ کیا تو مجھے بھی کہنے دیں۔  ہمارے زمانۂ طالب علمی میں ایک عرب ملک سے ہمارے بعض اساتذہ آتے تھے تو ان کے بارے میں ہمیں معلوم ہوا کہ وہ کسی پروگرام میں جاتے تھے اگر کہیں، جیسے ٹی وی پروگرام میں، کسی موضوع پر ان سے پوچھا جا رہا ہے، تو وہ جانے سے پہلے پوچھتے تھے ’’مخالف ام موافق؟‘‘  کیا ہم نے مخالفت کرنی ہے یا موافقت کرنی ہے، تو اس کے مطابق ہم رائے دے لیں گے۔ 

لیکن الحمد للہ کم از کم یہ جو خطہ ہے، اور پتہ نہیں (کیوں) ہمارے لوگوں میں ایک خودملامتی کی کیفیت ہوتی ہے کہ ہم اپنے لوگوں کو زیادہ برا بھلا کہتے ہیں۔  حالانکہ اس خطے کی تاریخ یہ رہی ہے، یہاں کے علماء کی، اچھے برے تو ہر جگہ ہوتے ہیں، اور تناسب بھی کہیں کم کہیں زیادہ ہوتا ہے، لیکن یہاں کے علماء کی ہمیشہ سے تاریخ یہ رہی ہے کہ انہوں نے اس کی پرواہ نہیں کی ہے کہ حاکمِ وقت کا موقف کیا ہے، بلکہ انہوں نے یہ کوشش کی ہے کہ جو دین کا صحیح موقف ہے وہ لوگوں کے سامنے رکھیں، چاہے اس کے نتیجے میں ان کو  کتنے ہی نتائج بھگتنے پڑیں۔   یہاں تک کہ ایک بڑے مشہور رائیٹر ہیں ڈاکٹر قاسم زمان، آکسفورڈ نے ان کی کتاب پبلش کی ہے، برصغیر کے علماء پر ان کا بڑا اعلیٰ معیار کا کام ہے، اس کتاب کا نام ہے 

The Ulama in Contemporary Islam: Custodians of Change

یعنی اس خطے میں اگر کوئی آپ تبدیلی لانا چاہتے ہیں تو اس تبدیلی کے کسٹوڈینز، اس کے محافظ اور نگران علماء ہیں۔ یعنی علماء کو ساتھ لے کر  آپ چلیں گے تو آپ ایک دور رس تبدیلی لا سکتے ہیں سسٹم میں بھی اور لوگ اس کو قبول بھی کر لیں گے۔ ورنہ آپ نے سرکاری جتنے بھی ادارے بنائے ہیں ، اور سرکاری مناصب پر جتنے بھی آپ نے علماء کو وہاں منصب دیے ہیں، ان کا  احترام اور مقام اپنی جگہ، لیکن عام آدمی کو، مسجد کے مولوی سے اور مدرسے کے مفتی سے بات آجائے تو وہ اسے مانتا ہے، سرکاری منصب پر بیٹھے آدمی سے آئے اس کو وہ نہیں مانتے۔ 

اس لیے یہ جو کل علماء کا کنونشن ہوا ہے، کانفرنس ہوئی ہے، میں تو اس سے بہت خوش ہوں کہ  الحمد اللہ اس میں کئی خوش آئند باتیں ہیں کہ تمام مکاتب فکر کے علماء آئے اور انہوں نے جو اعلامیہ جاری کیا،  بہت دقت کے ساتھ اسے مرتب کیا گیا ہے اور اس میں اہم ایشوز پر فوکس کیا گیا ہے۔ ان کا کام تو ڈکلیریشن ہے کہ حکمِ شرعی ہے کیا؟ اب اس کی تنفیذ، اصل میں یوں کہیں انہوں نے حکمرانوں کو ان کی ذمہ داری بھی یاد دلائی ہے، اور فواد چودھری جیسے لوگ اور بعض دیگر لوگ اگر مذاق اڑاتے ہیں کہ فلاں مولوی کیوں نہیں جا رہا، فلاں کیوں نہیں جا رہا وغیرہ، یہ تو غلط بات ہے۔  علماء کا کام یہ ہے کہ وہ آپ کو بتائیں کہ شرعی حکم کیا ہے۔ اب شرعی حکم میرے لیے کیا ہے، آپ کے لیے کیا ہے، مختلف جو پوزیشنوں پر جو لوگ بیٹھے ہوئے ہیں۔

آصف محمود: لیکن ڈاکٹر صاحب علماء سے تو ان کا شکوہ ہی یہی تھا کہ جہاد کرنا آپ کا کام نہیں ہے، آپ  کو صرف اصولِ شرعی بتانا ہے، باقی کرنا ریاست کا کام ہے۔

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد: لیکن مسئلہ یہ ہے جب وہ یہ کہتے تھے کہ آپ کا کام صرف اصولِ شرعی بیان کرنا ہے تو  وِد اِن بریکٹس ان کے ذہن میں یہ ہوتا تھا کہ وہ اصولِ شرعی جو ہماری خواہش کے مطابق ہو۔ یعنی ورنہ اگر انہیں واقعی صحیح اصولِ شرعی معلوم کرنا تھا تو ان کو تو اس کو ویلکم کرنا چاہیے تھا کہ علماء نے ہمیں ہماری دینی ذمہ داری یاد دلائی ہے۔   

اچھا، آپ کا دوسرا سوال نیشن سٹیٹس کے حوالے سے تھا۔ پاکستان باقی نیشن سٹیٹس سے بالکل مختلف ہے، اس کا آغاز بھی مختلف ہے، اس کی بنیاد بھی مختلف ہے، اور اس کاآئین بھی مختلف ہے، اس کا نظام بھی مختلف ہے۔ دیکھیں، پاکستان بننے سے بھی پہلے ۱۹۳۰ء کی دہائی سے دیکھیں مسلم لیگ کے ہر اجلاس میں آپ کو فلسطین کے حوالے سے خصوصی قرارداد ملتی ہے۔ قائد اعظم کے خطوط میں، ان کی سپیچز میں، فلسطین کا آپ کو خصوصاً‌ ذکر ملتا ہے۔ اچھا، پاکستان بننے کے بعد بھی ہم نے اپنے آئین میں بھی اور قراردادِ مقاصد میں بھی اور ہر جگہ ہم نے اسلام کی بات کی ہے اور یہ کہا ہے کہ یہاں جو سٹیٹ کی پالیسی ہو گی وہ اسلام کے اصولوں کے مطابق ہو گی، فارن پالیسی میں بھی ہم نے اس بات پر زور دیا ہے۔  

کچھ دیر پہلے مولانا صاحب نے ایک بہت اہم بات کہی کہ مسلمانوں کے ہاں دین ابھی تک ایک اہم فیکٹر ہے اور تین سو سال کی تاریخ اس پر شاہد ہے۔ میں اس کی تائید کرتے ہوئے برنارنڈ لوئس کی ایک بات کی طرف اشارہ کروں گا، برنارڈ لوئس آپ جانتے ہیں مشہور یہودی پروفیسر تھا، پہلے برطانیہ میں ملٹری انٹیلی جنس کے لیے بھی اس نے کام کیا دوسری جنگِ عظیم میں، پھر وہ امریکہ چلا گیا وہاں وہ نیو کنزرویٹوز کا گرو کہلایا، بش وغیرہ کا، سب کا۔ اچھا، اس کی کتابیں ہیں نائن الیون سے پہلے بھی نائن الیون کے بعد بھی۔ اس کی ایک بڑی مشہور کتاب ہے The Crisis of Islam کے نام سے۔ What Went Wrong ایک اور اس کی کتاب ہے۔ ان کتابوں میں وہ کہتا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ہمیں عیسائیت کے نام پر ریاستوں کی تنظیم نظر نہیں آتی، فلاں مذہب فلاں مذہب کے نام پر نہیں، لیکن اس جدید دنیا میں بھی آپ کو ستاون ریاستوں کا ایک پلیٹ فارم نظر آتا ہے، اس کو انہوں نے نام دیا ہے Organization of Islamic Cooperation ۔ ہم اسے مردہ گھوڑا کہیں، ہم اس پر لاکھ تنقید کریں، لیکن یہ بذاتِ خود ایک بڑی اچیومنٹ ہے کہ اس وقت بھی ستاون ریاستیں ایسی ہیں جو مسلمان ریاست کے طور پر مانتی ہیں کہ ہم مسلمان ریاستیں ہیں۔ 

آصف محمود: لیکن ڈاکٹر صاحب بات لوگ کہتے ہیں کہ یہ صفر جمع صفر اِز ایکول ٹو صفر والی بات ہے، یہ ستاون کی بجائے ایک سو ستاون بھی ہوں تو اگر ان کے پاس طاقت نہیں ہے تو انہوں نے مار ہی کھانی ہے۔ 

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد: نہیں، اصل میں طاقت تو ہے،  مسئلہ یہ ہے کہ  at the helm of affairs  جو لوگ بیٹھے ہوئے ہیں کیا اس طاقت کا ان کو احساس ہے اور کیا اس طاقت کو وہ استعمال کرنا چاہتے ہیں؟ اپنے اندرونی مسائل سے نبرد آزما بھی ہیں، بہت سارے مسائل یقیناً‌ موجود ہیں، لیکن اس آرگنائزیشن آف اسلامک کواپریشن کے چارٹر میں ایک مستقل مسئلہ اس کے ایجنڈا پر موجود ہے، وہ القدس کا ہے،  اور اس میں یہاں تک تصریح کی گئی ہے کہ اس وقت تو اس آرگنائزیشن کا ہیڈکوارٹر عارضی طور پر جدہ میں ہے لیکن جب القدس کو ہم آزاد کرائیں گے تو  پھر مستقل وہی اس کا ہیڈکوارٹر ہو گا۔ یہ بہت بڑا اعلان ہے۔  میرے خیال میں ہمیں اس کو انڈرمائن کرنے کی بجائے اس کو مزید ری انفورس کرنے کی ضرورت ہے۔ 

آصف محمود:  جو علماء کی رائے آئی ہے اس کا کچھ اثر پڑے گا دنیا میں؟ 

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد: یقیناً‌ پڑے گا، دیکھیں مفتی تقی عثمانی صاحب کو صرف پاکستان میں ہی نہیں دنیا بھر میں۔ 

آصف محمود: ویسے دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستانی میڈیا سے زیادہ اسرائیلی میڈیا نے اس کو  (دکھایا ہے)۔

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد: ظاہر ہے ان کو تکلیف تو ہے، ان کو پتہ ہے، وہ بہت بڑی شخصیت ہیں اور عرب دنیا میں بھی ان کا بہت احترام کیا جاتا ہے، ان کی شخصیت بڑی قد آور ہے، فقہ میں، اسلامی قانون میں ان کو پوری دنیا اتھارٹی مانتی ہے۔ اس طرح باقی جو علماء کرام ہیں، تو اپنے حلقے میں بھی، پاکستان میں بھی، پاکستان سے باہر بھی۔ اور ویسے بھی دنیا بھر میں لوگ پاکستان کی طرف دیکھتے ہیں کہ یہاں سے کیا ہو گا۔ دیکھیں، مصر سے کیا جواب آئے گا،  وہاں کے علماء کا موقف کیا ہو گا؟ میں بھی جانتا ہوں، آپ بھی جانتے ہیں، لوگ پہلے سے پریڈِکٹ بھی کرتے ہیں کہ وہاں سے کیا ہو گا۔ لیکن سب کی نظر اس پر ہوتی ہے کہ پاکستان سے کیا کوئی آئے گا کچھ؟ اس وجہ سے یہاں جو خاموشی تھی وہ بڑی ہی اندوہناک تھی ، وہ خاموشی جو ٹوٹی ہے تو یہ بڑی خوش آئند بات ہے۔  

آصف محمود: مولانا زاہد الراشدی صاحب، دو سوال آپ کی خدمت میں رکھوں گا۔ ایک تو یہ کہ اگر اقوامِ متحدہ غیر فعال نظر آ رہی ہے تو پھر اسی اصول کا اطلاق او آئی سی پر بھی ہونا چاہیے۔ او آئی سی بھی اگر فلسطین پر نہیں بولتی تو پھر او آئی سی کے باقی رہنے کا بھی کوئی جواز نہیں ہے۔ ایک تو اس پہ رہنمائی فرمائیے گا۔ 

مولانا زاہد الراشدی: پہلی گزارش یہ ہے کہ میں اس سوال کے جواب سے پہلے آپ کی پہلی  بحث سے اصولی اختلاف کروں گا کہ علماء کو اب کیوں یاد آیا ہے؟ انہی علماء نے گزشتہ سال بھی اسی اسلام آباد میں کانفرنس کی تھی اور یہ ساری باتیں اسی لہجےمیں کہی تھیں،  اب تھوڑا سا لہجہ بڑھایا ہے، ورنہ پچھلے سال جو کانفرنس کنونشن سنٹر میں ہوئی تھی ، اس دفعہ چائنا سنٹر میں ہوئی ہے، آپ دونوں کی تقریریں پڑھ لیں، دونوں کا اعلامیہ پڑھ لیں، صرف اتنا فرق پڑا ہے میرے نزدیک کہ پچھلی کانفرنس میں علماء نے اپنی اور طبقات کی ذمہ داریاں بیان کی تھیں، اس دفعہ حکمران چونکہ ٹس سے مس نہیں ہوئے اس لیے انہوں نے حکمرانوں کو خطاب کیا ہے کہ جناب آپ کی بھی ذمہ داری بنتی ہے۔ اس بات سے تو میں اختلاف کروں گا کہ یہ پہلا موقع ہے، علماء کرام شروع سے کہہ رہے ہیں اور یہ دوسری کانفرنس ہے جو تسلسل ہے پچھلی کانفرنس کا۔ 

اس کے بعد میں عرض کرنا چاہوں گا کہ اقوامِ متحدہ کے ساتھ ہمارے تحفظات ہیں، اختلافات ہیں، میں اس پر ایک بات یاد دلانا چاہوں گا کہ اب سے پچیس سال پہلے پچاس سالہ تقریبات تھیں جب اقوامِ متحدہ کی تو مہاتیر محمد وزیر اعظم ملائیشیا جو بعد میں او آئی سی کے صدر بھی رہے، انہوں نے مسلم ممالک کے سامنے سوال اٹھایا تھا کہ ہمارے تحفظات ہیں، اقوامِ متحدہ کے معاہدات کے حوالے سے بھی، دینی تحفظات ہیں، تہذیبی تحفظات ہیں، سیاسی تحفظات ہیں، اور اقوامِ متحدہ کی جو فیصلے کی پاور کی قوت ہے، ویٹو پاور، اس پر بھی ہمارے تحفظات ہیں۔ میں چاہوں گا کہ مہاتیر محمد نے آج سے پچیس سال پہلے جو کمپین کی تھی اس کمپین کو دوبارہ سامنے لایا جائے۔ 

ہم یہ بات کافی عرصے سے کر رہے ہیں  اقوامِ متحدہ کی یہ جو متضاد پالیسیاں، دوغلا پن،  میں کم از کم لفظ یہی بولوں گا۔ دیکھیں، اتنا بڑا دوغلا پن کہ وہی اقوامِ متحدہ جو کشمیر میں ریفرنڈم نہیں کر وا رہی کہ یہ مذہب کے نام پر ہے، اسی نے مشرقی تیمور میں ایک ریفرنڈم کروایا ہے، اسی اقوامِ متحدہ نے جنوبی سوڈان میں مذہب کے نام پر ریفرنڈم کروایا ہے، یہ دوغلاپن اور متضاد پالیسیاں، ہمارے تحفظات پہلے سے موجود ہیں، اظہار کر رہےہیں، میں مہاتیر محمد کا بطور خاص حوالہ دینا چاہوں گا اور گولڈن جوبلی تقریبات کے حوالے سے جو ہمارا رویہ تھا اس حوالے سے۔

تو میں یہ عرض کروں گا کہ  ہمیں پہلے مرحلے پر اقوامِ متحدہ کے سامنے، او آئی سی اگر نہیں آتی تو مسلمان دینی قیادتیں، پرائیویٹ بھی اکٹھے ہو سکتے ہیں، ہم پہلے بھی ہوئے ہیں، تو ہمیں علماء کرام کو، دینی قوتوں کو، جو اپنے اس فریضے کو سمجھتے ہیں،  یہ آواز اجتماعی طور پر اٹھانی چاہیے کہ اقوامِ متحدہ کے معاہدات کے بارے میں بھی ہمارے تحفظات ہیں، اس کی بیلنس آف پاور کی قوت پر ہمارے تحفظات ہیں،  اور اس کے فیصلوں پر بھی ہمارے تحفظات ہیں، ہمیں یہ کمپین کرنا ہو گی، اگر حکومتیں نہیں کریں گی ان شاء اللہ ہم کریں گے، ہمیں یہ کرنا ہو گی، ان کے تضادات واضح کرنا ہوں گے، ان تضادات کو جب واضح کریں گے تو او آئی سی کو خود بخود واضح ہو جائیں گے۔

آصف محمود: مولانا زاہد الراشدی صاحب، ایک سوال اور کہ یہ جو فلسطین میں ظلم ہو رہا ہے، اس ظلم کے خلاف ہم نے دیکھا کہ ویسٹ میں مغرب میں لوگ نکلے، ہم نے دیکھا کہ خود یہودی نکلے اسرائیل کے خلاف، ایک یا دو نہیں بیسیوں مظاہرے خود یہودیوں نے اسرائیل کے خلاف کیے۔ لیکن مولانا زاہد الراشدی صاحب، ہم نے مسلمان معاشروں میں اس کے اوپر مظاہرے بہت کم سنے بہت کم دیکھے، اس کی کیا وجہ ہے؟ 

مولانا زاہد الراشدی: اس کی وجہ یہ ہے کہ ریاستوں نے جو رویہ اختیار کر رکھا ہے   انہوں نے عوام کو کنفیوژ کر رکھا ہے، ہمارے ریاستی رویے نے، تمام ممالک کے، ریاستی رویوں نے عوام کو کنفیوژ کر رکھا ہے، تھوڑا بہت جو ان کو حوصلہ ملتا ہے دینی قیادتوں کے حوصلے سے، جرأت سے اور استقامت سے کہ وہ اپنے موقف پر قائم ہیں، کوشش کیجیے کہ اس کو مزید قوت فراہم کیجیے تاکہ۔  امت کو سنبھالنا  مستقل کام ہے، ریاستوں کو سنبھالنا حکمرانوں کا کام ہے، امت کو سنبھالنا علماء کا کام ہے، اور وہ الحمد للہ میں سمجھتا ہوں کہ جس حد تک بھی ان کے بس میں ہے وہ کر رہےہیں۔ 

آصف محمود: اجمل صاحب، آپ کی طرف آتا ہوں میں۔ یہ جو بائیکاٹ ہو رہاہے، اس کا کچھ اثر بھی پڑ رہا ہے؟ 

کتنا   اثر پڑ رہا ہے،پڑ رہا ہے یا نہیں پڑ رہا، یہ آپ ہی بتا سکتے ہیں۔ 

اجمل بلوچ: بات یہ ہے کہ پڑے یا نہ پڑے، پڑے یا نہ پڑے، ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم ۔

آصف محمود: فرض تو بالکل بنتا ہے، لیکن ویسے ذرا لوگوں کو تسلی ہو جاتی ہے کہ بھئی کچھ فرق بھی پڑ رہے ہیں۔

اجمل بلوچ: میں تھوڑی سی ہٹ کر بات کرنا چاہتا ہوں۔ اب جیسے دیکھیں علماء کی بات ہوتی ہے، علماء کیوں دلیر ہوتے ہیں، کیوں دلیری سے ایسی بات کرتے ہیں؟ 

آصف محمود: سارے نہیں ہوتے، سارے نہیں ہوتے۔

اجمل بلوچ: ہو سکتا ہے سارے نہ کریں، لیکن میں چونکہ قرآن مجید کا طالب علم ہوں، پچھلے پچیس سال سے سمجھنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ میں نے یہ دیکھا ہے، جو ہسٹری ہے، جو تاریخ ہے، قرآن مجید سے دوری جو ہے، اس وجہ سے ہم کمزور ہو گئے ہیں۔ جب تک لوگوں نے، جو پہلے تھے، جب قرآن مجید کے نزدیک تھے، ہر جنگ جیتی ہے انہوں نے، کوئی ان کو شکست نہیں دے سکا،  یہ روٹی کو، یہ پانی کو، یہ معاشی حالات کو نہیں دیکھتے ہوتے تھے، یقین کریں  جب وہ دلیری کے ساتھ آگے بڑھتے تھے، اللہ ان کی مدد کرتا تھا۔ اللہ نے تین سو تیرہ کی مدد کی ہے۔ بات یہ ہے کہ ہم علماء کو بھی دیکھتے رہتے ہیں کہ وہ نکلیں گے تو ہم نکلیں گے۔ ہم قرآن مجید کو کیوں نہیں سمجھتے؟ 

دیکھیں پاکستان جب بنا، آپ ہسٹری پڑھ لیں، کہ مدرسوں سے نعرہ لگا، پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الٰہ الا اللہ۔ وہ اتنی آواز بلند ہوئی کہ لوگوں نے ایسے سمجھا کہ پاکستان کے اندر لا الٰہ الا اللہ ہے۔ کتنے لوگ شہید ہو گئے لیکن پاکستان بن گیا۔ ایک اور تاریخ ہے کہ پاکستان جونہی بنتا گیا، اسرائیل وجودمیں آگیا۔ اس سے پہلے اسرائیل کا کوئی وجود نہیں تھا، آپ پڑھ لیں، یہ ڈاکٹر اسرار صاحب بھی اس کی نشاندہی کرتے ہیں۔ بات یہ ہے کہ چھوڑ دیں معیشت کو، چھوڑے دیں سارے کام، آپ قرآن مجید کو اپنا لیں، قرآن مجید کا اردو ترجمہ، ہر مسلمان قرآن مجید کو سمجھ لے، خدا کی قسم یہ دنیا ہمیں کچھ نہیں کہے گی یہ پیچھے ہٹ جائے گی۔ اس وقت بھی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کیسے گئے تھے؟ ایک گھوڑے کے آگے آگے چل رہے تھے، ملازم اوپر بیٹھا تھا۔ فلسطین فتح ہو گیا تھا۔ او بھئی! کیا تھا؟ یہ قرآن مجید تھا۔ اللہ کی مدد اس کے ذریعے سے آتی ہے۔ یہ کتاب عربوں کو پتہ ہے۔ عربوں کو ہو کیا گیا ہے؟ عرب ہی تو دلیر ہوتے تھے، عرب ہی تو لڑتے ہوتے تھے۔ 

آصف محمود: غزہ میں عرب ہی لڑ رہے ہیں، اور ان شاء اللہ باقی بھی اٹھیں گے۔

اجمل بلوچ: میں جو باقی عرب بیٹھے ہوئے ہیں، اب ستاون اسلامی ممالک کے جو سربراہان ہیں وہ کمزور ہیں، اگر وہ دلیر ہوں، وہ قرآن مجید کو سمجھتے ہوں تو میرے خیال میں خالی ستاون ممالک کے حکمران آواز لگا دیں نا تو ان کو سننا پڑے گی۔ 

آصف محمود: ڈاکٹر صاحب، آپ فقہ کے استاد بھی ہیں۔ یہ ایک رائے آ رہی ہے مذہبی حلقے کی طرف سے، ایک مذہبی حلقے کی طرف سےیوں کہہ لیجیے کہ جی جب تک اتنی پرسنٹیج آپ کی نہیں ہو گی دشمن کو جواب دینے کی تب تک آپ نہ لڑیں، اگر آپ لڑیں گے تو اپنے ہی لوگ مروائیں گے۔ اور اگر آپ میں طاقت نہیں ہے تو پھر آپ صبر کریں، صبر بڑی اچھی چیز ہے۔ اور پھر وہ کہتے ہیں کہ جہاد ریاست کرے گی، اور ریاست کو تو جہاد کرنا ہی نہیں چاہیے، ریاست کو تو ویسے ہی جنگ کر لینی چاہیے، وغیرہ وغیرہ۔ 

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد: میں جانتا ہوں کہ آپ کن کے بارے میں یہ کہہ رہے ہیں اور جو استدلال میرے علم میں ہے۔ تو اس میں کئی مسائل ہیں دینی لحاظ سے، یعنی اس دلیل میں کافی سارے جھول پائے جاتے ہیں، خلا پائے جاتے ہیں۔ 

پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر ہم نے کسی کے ساتھ لڑنا ہو تو  چلیں ہم اس کو دیکھیں گے کہ بھئی لڑنے کی سکت ہم میں ہے یا نہیں، یا ہم ابھی لڑائی شروع کریں یا اس کو تھوڑا مؤخر کریں او رتھوڑی تیاری کر لیں۔ یہاں تو معاملہ یہ نہیں ہے، لڑائی تو ہم پر مسلط کی گئی ہے۔ اور سوال اب یوں ہونا چاہیے کہ جب آپ پر کوئی حملہ آور ہو تو آپ اس کا مقابلہ کریں گے یا لیٹ جائیں گے؟ اچھا ٹھیک ہے کہیں آپ کو حتی الامکان اپنی طاقت بچانی چاہیے اور اس کو ضائع نہیں کرنا چاہیے، غیر ضروری تصادم نہیں کرنا چاہیے۔ اور جہاں آپ سمجھتے ہیں کہ بات چیت ہو سکتی ہے  اور ہو سکتا ہم حملے کو تھوڑا ٹال دیں، جتنی آپ کوششیں کر سکتے ہیں وہ تو کریں، لیکن جب اس نے لڑنا ہی لڑنا ہے۔ 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک صحابی نے پوچھا، صحیح مسلم کی روایت ہے، کہ اگر کوئی بندہ آئے مجھ سے لڑے اور مجھ سے زبردستی میرا مال چھیننا چاہتا ہے تو میں اسے دوں؟ آپؐ نے فرمایا، نہیں، نہ دو۔ اس نے پوچھا، اگر وہ مجھ سے لڑے؟ آپؐ نے کہا تم بھی لڑو۔ اس نے پوچھا، اگر میں مال بچاتے ہوئے اسے قتل کر دوں؟ انہوں نے کہا، وہ جہنم میں ہو گا۔ اگر مجھے قتل کر دے؟ کہا، آپ جنت میں ہوں گے۔  اچھا اس طرح کی بہت ساری اور احادیث ہیں کہ جو مال بچاتے ہوئے قتل کیا گیا وہ شہید ہے، جو جان بچاتے ہوئے قتل کیا گیا وہ شہید ہے۔ اسی طرح اور قرآنی آیات اور احادیث جن میں کہا گیا ہے کہ مسلمان نے اس کو چھوڑنا نہیں ہے۔ اچھا پھر یہ جو مخصوص خطہ ہے جس کی ہم بات کر رہے ہیں، اس کے تو چھوڑنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ 

اور پھر کیا ہم نے اس لڑائی میں یہ دیکھنا ہے کہ اہلِ غزہ کی تعداد کتنی ہے اور ان کے خلاف لڑنے والوں کی تعداد کتنی ہے؟ یا یہ پوری امت کا مسئلہ ہے تو ہم نے پوری امت کی قوت کا حساب لگانا ہے؟ یعنی اس لحاظ سے بھی تو دیکھنا ہے نا۔  

آصف محمود: یہ بڑا اہم نکتہ ہے۔

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد: اور اہلِ غزہ نے دکھایا کہ ڈیڑھ سال تک انہوں نے جس طرح اس کو رزِسٹ کیا۔

آصف محمود: اگر اکیلا اسرائیل ہوتا تو غزہ والے اس کو تو لے گئے تھے، وہ تو پیچھے سے پورا ویسٹ سے اس کو (سپورٹ ہے)۔

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد: بالکل، اس کو ختم کر چکے ہوتے۔ اور اس کے باوجود بھی دیکھیں ڈیڑھ سال سے وہ جمے ہوئے ہیں، وہ مورچے پر بیٹھے ہوئے ہیں، وہ نہیں ہل رہے۔ اور ہم ان سے کہہ رہے ہیں یار لیٹ جاؤ اور بات کرو۔ اچھا، پھر یہ کہ جن سے بات کرنی ہے۔ آپ دیکھیں مصر نے ان کے ساتھ کیمپ ڈیوڈ معاہدہ کیا ۱۹۷۹ء میں، اس کو اب تک کیا ملا ہے؟ اچھا،  امارات والے اور دیگر ان کے ساتھ کچھ کر رہے ہیں۔ یہ بھی تو دیکھیں نا کہ جو آپ سے کہہ رہے ہیں آپ نے نہیں لڑنا اور بات ان کی ماننی ہے، تو ان کی جنہوں نے مانی ہے وہ کہاں بچ گئے ہیں؟ 

آصف محمود: وقت ختم ہو رہا ہے، زاہد الراشدی صاحب، میں آخر میں آپ کی طرف آتا ہوں، آپ نے کہا کہ علماء اپنے طور پر بھی بات کر سکتے ہیں اقوام متحدہ میں اصلاحات کے حوالے سے آپ نے کہا تھا کہ علماء اپنے طور پر بھی بروئے کار آ سکتے ہیں دنیا بھر کے۔ میرا آپ سے سوال ہے کہ جس طرح کا غزہ کا بلاکیڈ ہوا ہوا ہے، کیا اس میں بھی پوری اسلامی دنیا کے علماء مل کر، ساتھ ویسٹ کی سول سوسائٹی کے لوگوں کو بھی لے لیں، ظاہر یہ کوئی جہاد تو نہیں ہے کہ یہ ریاستیں ہی کریں، یہ تو ایک انسانی بنیادوں پر کوئی فریڈم فلوٹیلا کی طرح کا کوئی ایک امداد لے کر انسانی حقوق کے تحت غزہ کی طرف کوئی قافلہ جائے، علماء دنیا بھر کے اس کو دیکھیں، اس میں سول سوسائٹی کے لوگ بھی شامل ہوں،  اس میں صہیونیت کے خلاف بہت سارے یہودی بھی ہیں، وہ بھی  شاید آپ لوگوں کے ساتھ شامل ہوں، کوئی ایسی بڑی موو انسانی حقوق کے نام پر غزہ کو امداد پہنچانے کے لیے، ریاستیں نہیں کر رہیں تو کوئی سول سوسائٹی کی سطح پر علماء  کی سطح پر ہو سکتی ہے؟  

مولانا زاہد الراشدی: میری گزارش تو یہی ہے کہ یہ ہو سکتی بھی ہے اور ہونی چاہیے بھی، کہ ہم جو بات پاکستان کے دائرے میں کر رہے ہیں، دینی قیادتیں، اگر ہم تھوڑا سا آگے بڑھیں اور دوسرے ملکوں کی دینی قیادتوں سے بات کر کے رابطہ کر کے اس آواز کو عالمی سطح پر منظم کرنے کی کوشش کریں تو ہم اس آواز کو طاقتور بھی بنا سکتے ہیں اور یہ ہمیں کرنی چاہیے، ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ اگر یہ کام حکومتیں نہیں کر رہیں، ہم کر سکتے ہیں تو ہمیں وہ کرنا چاہیے۔ اور جب بین الاقوامی تنظیمیں اور بن سکتی ہیں جیسے ایمنسٹی انٹرنیشنل بنی ہے، تو ہم اس طرز کی اپنی کوئی تنظیم نہیں بنا سکتے؟ ہم اپنے بھائیوں کی مدد کے لیے کوئی منظم فورم تشکیل دے کر، علماء کی سطح پر، ہمارے پاس بہت اچھا میدان موجود ہے، چلو حرمین شریفین میں ہم اکٹھے ہوتے ہی ہیں، یا  اور کسی جگہ اکٹھے ہوں تو علماء کرام کو، دینی قوتوں کو، دینی سیاسی جماعتوں کو، بین الاقوامی سطح پر کوئی فورم تشکیل دینے کے لیے کردارا دا کرنا چاہیے، اور میرے خیال میں  یہی راستہ ان معاملات کو آگے بڑھائے گا، اس کے نتیجے میں شاید ہم کسی متبادل اقوام متحدہ کے تصور پر بھی پہنچ جائیں۔ 

آصف محمود: اچھا بلوچ صاحب، اس طرح کی کوئی ہو سکتی ہے موو تاجروں کی سطح پہ، علماء کی سطح پہ، کچھ تو ان تک کسی طریقے سے پہنچا یا جائے۔ 

اجمل بلوچ: دیکھیں میں تاجروں کے حوالے سے حاضر ہوں۔ ہر وقت علماء کے ساتھ ہوتا ہوں میں، جہاں بھی ان کی کوئی کانفرنس ہوتی ہے، کوئی احتجاج ہوتا ہے، اس حوالے سے دیکھیں ہمارا فرض ہے  بطور مسلمان، ہم کیوں دیکھتے رہتے ہیں کہ علماء ہی آگے ہوں، ہم کیوں نہیں خود آگے بڑھ جاتے ہیں؟ ہر مسلمان کو پتہ ہے کہ یہ ظلم ہو رہا ہے، ہر شخص کو پتہ ہے۔ جیسے میرے بھائی نے کہا، عیسائی اور یہودی بھی تو احتجاج کر رہے ہیں، وہ کیوں کر رہے ہیں کہ انسانیت کے ساتھ ظلم ہو رہا ہے، جو لوگ اس بات کو سمجھتے ہیں۔ بھئی ہمیں تو پتہ یہ ظلم ہو رہا ہے، ہم کیوں نہیں سارے نکل پڑتے ہیں؟ اور ہمارے مسلمان حکمران کیوں نہیں ایسا کرتے ہیں؟ ان کو کیوں سانپ سونگھ گیا ہے کہ بات بھی نہیں کرنے کے لیے تیار ہیں۔ 

آصف محمود: حکمرانوں کا تو خیر سب کو پتہ ہے کہ کیوں سانپ سونگھ گیا ہے۔ 

اجمل بلوچ: نہیں، اللہ کے ہاں یہ کیا جواب دیں گے؟ 

آصف محمود: ڈاکٹر مشتاق صاحب، کوئی فریڈم فلوٹیلا کی طرح کا موو ہو سکتا ہے؟ 

اجمل بلوچ: اچھا، اس میں ہم گئے تھے، یہ جو فریڈم فلوٹیلا ہے نا، یہ ہم نے سامان اکٹھا کیا تھا، ہمارے کچھ دوست گئے تھے، وہ قید ہو گئے تھے، اسرائیلیوں نے انہیں پکڑ کر بند کر دیا تھا۔ 

آصف محمود: ہاں وہ جو اس کے کیپٹن تھے جو شہید ہو گئے تھے، ان کے صاحبزادہ پاکستان جب تشریف لائے تو انہوں نے مجھے وہ گفٹ بھی کیا تھا وہ فریڈم فلوٹیلا۔ 

اجمل بلوچ: ہمارے طلعت حسین صاحب بھی تھے، ہمارے جو خبیب فاؤنڈیشن کے ندیم صاحب تھے، یہ بھی سارے  ۔

آصف محمود: ندیم صاحب کے ساتھ ہی ہماری ان سے ملاقات ہوئی تھی۔ ڈاکٹر صاحب!

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد: بالکل ہو سکتا ہے، اور میرے خیال میں جیسے مولانا صاحب نے بھی فرمایا۔

آصف محمود: دنیا بھر کی بار ایسوسی ایشنز یہ کر لیں، دنیا بھر کے قانون کے اساتذہ کر لیں، کچھ۔

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد: بالکل ہو سکتا ہے اور میرے خیال میں صرف آواز بلند کرنے کی ضرورت ہے باقی لوگ خود بخود اکٹھے ہو جائیں گے کیونکہ یہ جتنا بڑا ظلم ہو رہا ہے، جیسے میں نے کچھ دیر پہلے کہا، غزہ سے پہلے کی دنیا اور غزہ کے بعد کی دنیا ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہے۔ اب صرف اس کی ضرورت ہے کہ کوئی اس بات کو اٹھائے اور لوگوں کو منظم کرنے کی کوشش کرے، لوگ اکٹھے ہو جائیں گے۔ 

ایک بات آپ نے صبر کے متعلق کہی تھی، میں وہ بھول گیا تھا، ضروری ہے وہ، کہ صبر صرف جنگ سے گریز کا نام نہیں ہے، جنگ کے دوران میں جو تکلیف آپ کو پہنچتی ہے، اس پر ثابت قدم رہنا، اسے برداشت کرنا، اس کے لیے دل بڑا رکھنا، یہ بھی صبر ہے۔ جیسے تجارت پہ نقصان ہو، لیکن تاجروں کے رہنما فرما رہے ہیں کہ ہمیں وہ قابل قبول ہے، یہ صبر ہے۔ 

اجمل بلوچ: ’’یا ایھا الذین اٰمنوا استعینوا بالصبر والصلوٰۃ، ان اللہ مع الصابرین‘‘ (البقرہ ۱۵۳)۔

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد:  اور یہ کہ ’’ولنبلونکم بشیءٍ من الخوف والجوع ونقص من الاموال والانفس والثمرات‘‘ (البقرہ ۱۵۵)  یہ کچھ مال میں کچھ ثمرات میں کچھ جان میں کمی، یہ تو ہو گی، اس پر ثابت قدم رہیں، صبر یہ ہے۔ 

آصف محمود: بہت شکریہ، ڈاکٹر صاحب آپ کا ، بلوچ صاحب آپ کا، مولانا صاحب آپ کا بہت شکریہ، آپ ہمارے ساتھ شریکِ گفتگو رہے اور بہت اچھی رہنمائی فرمائی آپ نے اس اہم نکتے کے اوپر۔ بہت ساری چیزیں میرے جیسے طالب علم کے لیے بالکل نئی تھیں۔ اور یقیناً‌ آپ لوگوں میں سے بھی بہت سوں کے لیے بہت ساری چیزیں نئی ہوں گی، یہی چیزیں اصل میں سیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے اور یکسو ہونے کی ضرورت ہے، اجازت چاہتا ہوں آپ سے، اللہ حافظ۔ 

youtu.be/zOphMfpD9R8


فلسطین و اسرائیل

(الشریعہ — مئی ۲۰۲۵ء)

ماہانہ بلاگ

شملہ معاہدے سے نکلنے کے فوائد
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

بھارت کا وقف ترمیمی ایکٹ: جب بیوروکریٹس موجود ہوں تو بلڈوزرز کی کیا ضرورت؟
الجزیرہ

پاکستان کا ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کا طریقہ خطرناک ہے۔
الجزیرہ

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ٹیرفس: وائیٹ ہاؤس کا موقف اور وزیراعظم سنگاپور کی تقریر
سی بی ایس نیوز
لارنس وانگ

جہاد فرض ہے اور مسلم حکومتوں کے پاس کئی راستے ہیں
مولانا مفتی محمد تقی عثمانی

المیۂ فلسطین اور قومی کانفرنس اسلام آباد کا اعلامیہ
مولانا مفتی منیب الرحمٰن

فلسطین پاکستان کا اساسی مسئلہ ہے
مولانا فضل الرحمٰن

امریکہ کا عالمی کردار، اسرائیل کی سفاکیت، اہلِ غزہ کی استقامت: ہماری ذمہ داری کیا ہے؟
حافظ نعیم الرحمٰن

فلسطینی پاکستان کے حکمرانوں سے توقع رکھتے ہیں
لیاقت بلوچ

اہلِ فلسطین کی نصرت کے درست راستے
علامہ ہشام الٰہی ظہیر

قومی فلسطین و دفاعِ پاکستان کانفرنس: تمام جماعتوں کا شکریہ!
مولانا قاری محمد حنیف جالندھری
مولانا حافظ نصر الدین خان عمر

فلسطین کے ہمارے محاذ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مولانا زاہد الراشدی کا ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن میرپور آزادکشمیر کے فلسطین سیمینار سے خطاب
مفتی محمد عثمان جتوئی

غزہ کی تازہ ترین صورتحال اور نیتن یاہو کے عزائم
مولانا فتیح اللہ عثمانی

حالیہ فلسطین جنگ میں شہید ہونے والے جرنلسٹس
الجزیرہ

’’میں نے پاکستان بنتے دیکھا‘‘
پروفیسر خورشید احمد
اظہر نیاز

پروفیسر خورشید احمدؒ کی رحلت: صدی کا بڑا انسان
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

پروفیسر خورشید: جہانگیر و جہانبان و جہاندار و جہاں آرا
ڈاکٹر شہزاد اقبال شام

پروفیسر خورشید احمدؒ کی وفات
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

’’آسان تفسیرِ قرآن‘‘
مولانا مفتی محمد تقی عثمانی

حکمران کے دس حقوق
مولانا مفتی عبد الرحیم
مفتی عبد المنعم فائز

رسالتِ محمدیؐ کی تئیس سالہ کامیاب تبلیغ
علامہ ڈاکٹر خالد محمودؒ

اسلامی نظریاتی کونسل، دستوری تاریخ کے آئینے میں
اسلامی نظریاتی کونسل

مطبوعات

شماریات

Flag Counter