بیت المقدس پر اسرائیلی جارحیت اور اقوامِ متحدہ کی ذمہ داری
پچھلی نشست میں ہم نےاس پر گفتگو کی تھی کہ بیت المقدس کے متعلق بین الاقوامی قانون کی رو سے کیا اصول ہیں اور ان اصولوں کی روشنی میں اس تنازع کی کیا حیثیت بنتی ہے۔ اب ہم اس پر گفتگو کریں گے کہ بین الاقوامی قانون اور خود اقوام متحدہ کے منشور کی رو سے اقوام متحدہ کی اس ضمن میں کیا ذمہ داریاں بنتی ہیں اور کیا اس نے وہ ذمہ داریاں پوری بھی کی ہیں یا نہیں کیں۔
ہم بات اس سے شروع کریں گے کہ دوسری جنگِ عظیم کے اختتام پر جب نیا عالمی نظام تشکیل پایا اور اس مقصد کے لیے اقوام متحدہ کی تنظیم بنائی گئی اور اس کے منشور پر جنگ کی جو فاتح طاقتیں تھیں ان کا اتفاق ہوا۔ تو اس منشور کی رو سے اس عالمی نظام میں بنیادی اہمیت حاصل ہو گئی اقوام متحدہ کی تنظیم کے اندر سلامتی کونسل کی۔ سکیورٹی کونسل کی یہ ذمہ داری طے پائی اس منشور کی رو سے، اقوام متحدہ کے چارٹر کی رو سے، کہ اس نے بین الاقوامی امن کی حفاظت کرنی ہے، اور اگر کہیں امن کو نقصان پہنچے تو بین الاقوامی امن کو واپس ری سٹور ہے، بحال کرنا ہے۔
to maintain and restore international peace یہ بنیادی ذمہ داری قرار پائی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی کہ ایک تو جنگ ہونے نہیں دینی، بین الاقوامی امن کو نقصان نہ پہنچے، اور اگر کہیں جنگ ہو تو پھر واپس امن بحال کرنا، یہ سلامتی کونسل کی ذمہ داری ہے۔ اس مقصد کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو اختیارات دیے گئے اور ذمہ داریاں اس پر عائد کی گئیں چارٹر کے چیپٹر سیون کے تحت، باب ہفتم کی رو سے۔ لیکن بابِ ہفتم تک جانے سے پہلے میں اقوام متحدہ کے منشور کی جو دفعہ 2 ہے، آرٹیکل 2، اس میں سے کچھ اہم نکات آپ کے سامنے رکھنا چاہوں گا۔
سب سے پہلے میں حوالہ دوں گا آرٹیکل 2 سب آرٹیکل 3 کا، یعنی دفعہ 2 ذیلی دفعہ 3، جس میں یہ قرار پایا ہے کہ اقوام متحدہ کی جتنی بھی رکن ریاستیں ہیں، تمام ممبر سٹیٹس، وہ آپس کے تنازعات پر اَمن ذرائع سے حل کریں گے، یہ ان کی ذمہ داری ہے، یہ ان کا فریضہ ہے۔ یہ ایجابی پہلو سے positively ان پر ذمہ داری عائد کی گئی۔ negatively سلبی پہلو سے آرٹیکل 2(4) میں، دفعہ 2 ذیلی دفعہ 4 میں یہ قرار پایا کہ کوئی ریاست کسی دوسری ریاست کی علاقائی سالمیت کے خلاف، یا اس کی سیاسی خودمختاری کے خلاف، یا اقوام متحدہ کے مقاصد کے خلاف طاقت کا استعمال نہیں کر ےگی، نہ ہی اس کی دھمکی دے گی۔ یعنی آرٹیکل 2 (3) میں قرار پایا، تمام تنازعات پر امن ذرائع سے حل کریں گے، آرٹیکل 2(4) میں قرار پایا کہ طاقت کا استعمال نہیں کریں گے، دھمکی نہیں دیں گے۔ جنگ کو، یو کہیں، اس پر ایک مستقل پابندی عائد کی گئی۔ پھر آگے آرٹیکل 2 سب آرٹیکل 7 میں،دفعہ 2 ذیلی دفعہ 7 میں یہ قرار پایا کہ کوئی ریاست کسی دوسری ریاست کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرے گی۔
(۱) پر امن ذرائع سے تنازعات حل کریں گے (۲) جنگ نہیں کریں گے (۳) اور ایک دوسرے کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کریں گے۔
اندرونی معاملات میں مداخلت (کے حوالے سے) اقوام متحدہ پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرے گی، لیکن اس سے ایک استثنا ہے اور وہ آرٹیکل 39 کے تحت ہے، دفعہ 39 جہاں سے اقوام متحدہ کے چارٹر کا ساتواں باب شروع ہوتا ہے۔ اس کی طرف میں آؤں گا لیکن میں پہلے سلامتی کونسل کی کمپوزیشن کے متعلق، اس کے اسٹرکچر کے متعلق کچھ باتیں عرض کروں۔
جیسے ہم جانتے ہیں اس وقت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پندرہ ارکان ہیں، جن میں پانچ مستقل ہیں اور دس کا انتخاب دو سال کے لیے جنرل اسمبلی کرتی ہے۔ یہ جو پانچ مستقل ارکان ہیں ان کے پاس vetoکا اختیار بھی ہے ، یعنی فیصلہ مسترد کرنے کا اختیار۔ یہ پانچ ریاستیں امریکہ، روس، فرانس، برطانیہ اور چین، ان کو یہ اختیار کیوں دیا گیا، یہ تسلیم کیوں کیا گیا ان کے لیے؟ یہ اصل میں دوسری جنگِ عظیم میں فتح پانے والی اقوام تھیں۔ اور چونکہ نیا نظام انہوں نے بنانا تھا تو انہوں نے آپس میں یہ طے کیا کہ ہم میں سے کسی ایک کو بھی کسی فیصلے پر اعتراض ہو تو اقوام متحدہ کی تنظیم وہ فیصلہ نافذ نہیں کرے گی۔ اور یوں ہم بڑی جنگ سے، آپس میں لڑنے سے بچ جائیں گے۔ تو یہ جو ویٹو کی طاقت ہے، یہ ان بڑی ریاستوں کو آپس میں جنگ سے روکنے کے لیے، یوں کہیں کہ ان کو دیا گیا۔ اس کا کوئی تعلق ظاہر ہے انصاف کے ساتھ حقوق کے ساتھ نہیں ہے۔ اور کہا گیا کہ یہ امن کو یقینی بنانے کے لیے ہے نہ کہ انصاف کو یقینی بنانے کے لیے۔ حالانکہ یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ انصاف یقینی نہ ہو تو امن بھی یقینی نہیں ہو سکتا۔
پھر مزید یہ ہوا کہ، دوسری جنگ عظیم میں تو یہ طاقتیں آپس میں مل کر ایک مشترک دشمن کے خلاف لڑ رہی تھیں، ہٹلر، مسولینی وغیرہ کے خلاف، لیکن دوسری جنگ عظیم کے بعد ان کے آپس کے بھی بہت سارے جو مسائل تھے وہ سامنے آئے، تو ایک سرد جنگ بھی شروع ہو گئی کہ لڑ بھی نہیں رہے لیکن ایک مسلسل ٹینشن اور کانفلِکٹ کی سچویشن بھی موجود ہے۔ تو اس کے بعد کچھ ریاستیں ایک بلاک میں شامل ہو گئیں، کچھ دوسری بلاک میں شامل ہو گئیں۔ اب ان بڑی طاقتوں نے اپنی اور اتحادی ریاستوں کو بھی بچانے کے لیے ویٹو کا استعمال شروع کیا۔ اور ہم سب جانتے ہیں کہ ویٹو کا استعمال سب سے زیادہ امریکی ریاست نے قابض اسرائیلی طاقت کے لیے کیا ہے۔ یوں یہ جو ویٹو کا اختیار ہے، یہ سب سے بڑی رکاوٹ بن گیا اصل جو اسکیم تھی اس کو نافذ کرنے کی راہ میں۔
اب آئیے سلامتی کونسل کے اختیارات کی طرف اور اس کی ذمہ داریوں کی طرف، جو بابِ ہفتم ہے اقوامِ متحدہ کے چارٹر کا۔ اس میں جو پہلی دفعہ ہے آرٹیکل 39، اس میں تین اسباب ذکر کیے گئے ہیں کہ ان میں سے کوئی ایک سبب بھی موجود ہو تو پھر سلامتی کونسل یہ کاروائی کر ےگی، جس کو collective use of force کہتے ہیں، یعنی اقوامِ متحدہ کی چھتری تلے مشترکہ طور پر طاقت کا استعمال جارح ریاست کے خلاف، یا اس ریاست کے خلاف جو سسٹم کو ڈسٹرب کر رہی ہے۔ تین اسباب، ان میں سے کوئی ایک بھی موجود ہو۔
ایک کو کہا گیا ہے threat to international peace بین الاقوامی امن کو خطرہ ہو۔ ابھی جنگ شروع ہوئی نہیں ہے لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ اگر ہم نے نہیں روکا تو بہت بڑی تباہی پھیلے گی، تو فوری طور پر preemptively ہمیں ایکٹ کرنا چاہیے اور اس کو روکنے کی کوشش کرنی چاہیے، جیسے میں نے کہا کہ سلامتی کونسل کی ذمہ داری ہے امن کو برقرار رکھنے کی۔ تو جب اسے محسوس ہو کہ کہیں سے امن کے خلاف کچھ ہو رہا ہے تو اس کو روکنے کی اور فوری طو رپر روکنے کی ذمہ داری سلامتی کونسل کی ہے۔ اس کے بعد breach of international peace کہ امن کی خلاف ورزی ہو گئی۔ یا act of aggression جارحیت کا ارتکاب کیا کسی ریاست نے۔ تو ان تین صورتوں میں کوئی ایک بھی صورت ہو تو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل پھر اس پر کاروائی کر سکتی ہے بلکہ اس کو کرنی چاہیے۔
عارضی طور پر کچھ اقدامات دفعہ 40 کے تحت لیے جا سکتے ہیں فوری نوعیت کے، لیکن اگر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل ضروری سمجھے تو وہ متعلقہ ریاست پر پابندیاں عائد کر سکتی ہے، اقتصادی پابندیاں، ان کے ساتھ خریدو فروخت اور ان کی تجارت وغیرہ پر مختلف پابندیاں لگا سکتی ہے، جیسے وقتاً فوقتاً مختلف ریاستوں پر عائد ہوتی رہی ہیں۔ یہ دفعہ 41 کے تحت ہوتا ہے۔ دفعہ 42 کی رو سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اس ریاست کے خلاف طاقت کا استعمال بھی کر سکتی ہے جو بین الاقوامی امن کے لیے خطرہ ہو، یا جس نے بین الاقوامی امن کی خلاف ورزی کی ہو، یا جارحیت کا ارتکاب کیا ہو۔
اب اس مقصد کے لیے دفعہ 43، آرٹیکل 43 کے تحت یہ قرار پایا تھا کہ اقوام متحدہ کی جتنی بھی ممبر اسٹیٹس ہیں، ان میں سے ہر اسٹیٹ اقوام متحدہ کو اپنی فوج کا کچھ حصہ دے گا اور اس کے ساتھ باقاعدہ معاہدہ کرے گا، اور اس طرح ایک بین الاقوامی فوج وجود میں آئے گی۔ ایسا عملاً ہو نہیں پایا اور سلامتی کونسل کے کمانڈ کے تحت باقاعدہ کوئی بین الاقوامی فوج ہو، یہ خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکا۔ پہلی دفعہ اس سسٹم کو دیکھا گیا 51-1950ء میں کوریا کی جنگ کے موقع پر، جب شمالی کوریا کو روس سپورٹ کر رہا تھا اور امریکہ اور اس کے اتحادی چاہتے تھے کہ شمالی کوریا کے خلاف کاروائی ہو۔ تو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں شمالی کوریا کے خلاف قرارداد منظور ہو گئی کیونکہ روس اس وقت بائیکاٹ کر رہا تھا، سلامتی کونسل میں نہیں بیٹھا تھا، تو سلامتی کونسل نے اس کی عدم موجودگی میں قرارداد منظور کی کہ شمالی کوریا نے جنوبی کوریا کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کیا ہے۔ لیکن اس کے بعد جب اس کےخلاف طاقت کے استعمال کے متعلق قرارداد آئی تو روس نے اس قرارداد کو ویٹو کر دیا، روس واپس آ گیا تھا اور اس نے اس قرارداد کو ویٹو کر دیا۔
اب یہاں معلوم ہو گیا کہ سسٹم کام نہیں کر رہا۔ تو امریکی تو بڑے چالاک ہیں، انہوں نے ایک اور راستہ تلاش کر لیا بلکہ یوں کہیں devise کر لیا، گڑھ لیا ، کیونکہ چارٹر میں اس کا کوئی ذکر صراحتاً نہیں تھا۔ امریکیوں نے یہ کہا کہ چارٹر میں یہ ذکر ہے کہ بین الاقوامی امن کو برقرار رکھنا اور اس کو بحال کرنا یہ primary responsibility ہے سلامتی کونسل کی۔ تو انہوں نے کہا کہ اس سے یہ معلوم ہوا کہ اگر وہ نہیں کر سکے تو کوئی اور بھی کر سکے گا، یعنی اس کی sole responsibility نہیں ہے، صرف سلامتی کونسل کی ذمہ داری نہیں ہے، primarily اسی کی ہے، لیکن اگر وہ نہیں کر سکے تو پھر ہم جنرل اسمبلی کی طرف جائیں گے۔ جنرل اسمبلی میں تمام ممبر سٹیٹس موجود ہوتے ہیں، کسی کے پاس ویٹو کا اختیار نہیں ہوتا۔ تو امریکی آئے جنرل اسمبلی میں، ایک قرارداد انہوں نے وہاں پیش کی، اس قرارداد کو کہا جاتا ہے uniting for peace resolution کہ ہم سارے اکٹھے ہو رہے ہیں امن کے لیے، امن کے لیے متحد ہو رہے ہیں۔ یہ جو ریزولوشن تھی اس کے تحت ایک دفعہ پھر یہ قرار پایا کہ شمالی کوریا نے جارحیت کا ارتکاب کیا ہے اور اس کے خلاف کاروائی ہونی چاہیے۔ اب اس کے بعد امریکہ نے اپنے ساتھ اتحادیوں کو ملا لیا اور شمالی کوریا کے خلاف جنگی کاروائی شروع کی۔ حالانکہ چارٹر کے تحت یہ اختیار سلامتی کونسل کا تھا، لیکن سلامتی کونسل کو تو روس نے بلاک کر دیا تھا ویٹو کے ذریعے۔ اب جنرل اسمبلی نے قرارداد منظور کی اور اس قرارداد کی روشنی میں امریکہ نے کہا چونکہ جنرل اسمبلی نے کہہ دیا ہے کہ بین الاقوامی امن کی بحالی ضروری ہے، تو اب ہم اس بحالی کے لیے آگے بڑھ رہے ہیں اور جو ہمارے ساتھ اتحادی ہیں وہ شامل ہو جائیں۔ روس ظاہر ہے اس کی مخالفت کر رہا تھا، چین مخالفت کر رہا تھا، اور وہ جنگ ایک خاص مرحلے کے بعد روک دی گئی کیونکہ ظاہر ہے جب ایک جانب روس ہو دوسری جانب امریکہ ہو تو ایک خاص حد کے بعد انہوں نے رکنا ہی تھا۔
اچھا، اس طرح کا مرحلہ 1956ء میں بھی آیا جب مصر کے جمال عبد الناصر نے سوئس کینال کو قومیانے کا اعلان کیا، نیشنلائز کرنے کا اعلان کیا تو فرانس نے اور برطانیہ نے کہا کہ اس کینال پر تو 1969ء تک ہمارا حق ہے اور ہم اپنا حق زبردستی چھینیں گے، اور اسرائیل بھی ان کے ساتھ شامل ہو گیا کیونکہ اس نے کہا کہ سوئس کینال کو اگر مصر نے قومیا لیا تو ہماری تجارت کے لیے اور ہماری معیشت کے لیے بڑا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔ تو ان تین ممالک نے، برطانیہ، فرانس اور اسرائیل نے مل کر سوئس کینال کو چھڑانے کے لیے اور اس پر قبضے کے لیے حملہ کیا۔ اس موقع پر جب سلامتی کونسل میں قرارداد آئی تو اس کو برطانیہ اور فرانس دونوں نے ویٹو کر دیا۔ اور دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکہ اسرائیل کے خلاف قرارداد لے آیا جنرل اسمبلی میں uniting for peace resolution ایک دفعہ پھر۔ اور جنرل اسمبلی نے ریزولوشن منظور کی اور اسرائیل کی مذمت بھی ہوئی اور چونکہ ایک بہت بڑی تعداد نے اس قرارداد کے حق میں ووٹ دیا اسرائیل کےخلاف، برطانیہ کے خلاف، فرانس کے خلاف، بہت زیادہ جنرل اسمبلی میں باتیں بھی ہوئیں، تو یوں کہیں ایک بین الاقوامی پریشر ڈیویلپ ہوا اور برطانیہ، فرانس اور اسرائیل کو اپنی فوجیں واپس بلانی پڑیں۔ اور یہاں سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اب برطانیہ اور فرانس کی وہ حیثیت نہیں رہی جو دوسری جنگِ عظیم تک تھی۔ اور اب آگے کی جتنی بھی کہانی تھی بین الاقوامی تعلقات کی تو اس میں اصل اہمیت روس اور امریکہ کو حاصل ہو گئی۔ بہرحال یہ طریقہ یوں کہیں کہ جو سرد جنگ کا دور تھا، اس میں اپنایا گیا uniting for peace کا۔
1989ء میں جب روس نے افغانستان سے اپنی فوجیں واپس بلائیں اور اس کو ایک ہزیمت اٹھانی پڑی، بڑی ہزیمت، اور اس کے بعد دیکھا گیا کہ روس اب چونکہ انتشار کی طرف جا رہا تھا، امریکہ نے موقع غنیمت جانا اور اس نے بین الاقوام معاملات میں اپنا کردار مزید آگے بڑھانا شروع کیا۔ اس موقع پر جب عراق نے کویت پر قبضہ کیا اگست 1990ء میں تو سلامتی کونسل نے عراق کے خلاف اسی چیپٹر کے تحت قرارداد منظور کی کہ اس نے جارحیت کا ارتکاب کیا ہے، اس سے کہا گیا کہ فوجیں واپس کر لے اور کویت سے واپس چلا جائے۔ عراق واپس نہیں گیا تو جنوری 1991ء میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو سلامتی کونسل نے باقاعدہ منظوری دے کر عراق پر حملے کی اجازت دے دی۔ اس کو کہا جاتا ہے authorization of the use of force کہ کچھ ریاستوں نے آپس میں اتحاد بنا لیا جس کو coalition of the willing کہا جاتا ہے کہ جو ریاستیں اتحا دبنانے کے لیے راضی تھیں انہوں نے آپس میں اتحاد بنا لیا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی اپنی فوج تو ہے نہیں، تو ہمارا جو اتحا دہے وہ یہ ذمہ داری اٹھانے کے لیے تیار ہے، لیکن ہمارے پاس اختیار نہیں، جس کے پاس اختیار ہے اس کے پاس طاقت نہیں، جس کے پاس طاقت ہے اس کے پاس اختیار نہیں، تو سلامتی کونسل نے قرارداد منظور کر کے اس اتحاد کو اپنا اختیار تفویض کر دیا، ڈیلیگیٹ کر دیا، آتھورائز کر دیا ان کو۔ اس کو کہا جاتا ہے authorization of the use of force۔
1990ء کی دہائی میں اس کی اور بھی کئی مثالیں ملتی ہیں کہ سلامتی کونسل نے ریاستوں کے کسی اتحاد کو باقاعدہ طور پر طاقت استعمال کرنے کی منظوری دی ہو اور اختیار اس کو تفویض کیا ہو۔ بلکہ یہ بھی ہوا کہ نیٹو کا جو اتحاد ہے، جو یورپی اقوام کا اتحاد ہے امریکہ کی سربراہی میں، اس نے جب سربیا میں بمباری کی تو اس وقت اس نے بمباری کی جب اس کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ابھی منظوری نہیں دی تھی کیونکہ روس اس کی راہ میں رکاوٹ بن گیا تھا، لیکن نیٹو نے کہا کہ وہاں انسانیت خطرے میں ہے اور ہم وہاں جا کر لوگوں کو بچانے کے لیے بمباری کریں گے چاہے آپ ہمیں اجازت دیں یا نہ دیں۔ اس کو ایک برطانوی پروفیسر نے نام دیا ہے bombing in the name of humanity انسانیت کےنام پر بمباری۔ تو انہوں نے انسانیت کو بچانےکے لیے یہ نعرہ بلند کیا کہ ہم وہاں جا کر humanitarian intervention کر رہے ہیں، انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ہم جائیں گے اور ہم وہاں لوگوں کو بچائیں گے۔ انہوں نے جب حملے شروع کیے ،اس کے بعد امریکہ اور روس کا اور دیگر طاقتوں کا آپس میں ایک سمجھوتہ بھی ہوا تو پھر سلامتی کونسل نے منظوری بھی دے دی، یہ وقوعے کے بعد منظوری تھی، یعنی انہوں نے طاقت استعمال کر لی تھی، اس کے بعد سلامتی کونسل نے اس کی منظوری دے دی۔
یہ سلسلہ نائن الیون تک چلتا رہا، نائن الیون کے بعد تو امریکہ نے پورا سسٹم ہی تلپٹ کر کے رکھ دیا اور سب کچھ اقوامِ متحدہ اور سلامتی کونسل اور ان کو بائی پاس کر کے یوں کہیں اپنی مدد آپ کے تحت ساری کاروائی کی، دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ کا سلسلہ شروع کیا، اور دہشت گردی کے خلاف ایک عالمی اتحاد بنایا، اور کہا کہ یہ ایسی جنگ ہے جس کے لیے سرحدیں بے معنی ہیں، اور یہ نہ ختم ہونے والی جنگ ہے وغیرہ وغیرہ۔
اس وقت اس ساری بحث کی روشنی میں، میں آپ کے سامنے یہ نکتہ رکھناچاہ رہا تھا کہ اقوام متحدہ کے چارٹر کی رو سے یہ ذمہ داری سلامتی کونسل کی ہے کہ وہ ریاستِ اسرائیل، جو قابض ہے، جو جارح ہے، اس کو روکے اور اس کےخلاف کاروائی کرے، اور اگر سلامتی کونسل کو بلاک کر دیا جاتا ہے ویٹو کے ذریعے، جیسے امریکہ نے کر دیا ہے، تو پھر دوسرا راستہ جنرل اسمبلی کا ہے کہ وہاں سے آپ uniting for peace resolution کی طرز پر قرارداد لا سکتے ہیں، لیکن وہ صرف ایک قرارداد ہی ہو گی، اس کے بعد اصل میں عملدرآمد کے لیے ایسی ریاستوں کا اتحاد چاہیے ہو گا جو اسرائیل کے خلاف کاروائی کے لیے تیار ہوں۔ کیا ایسا اتحاد بن سکتا ہے، یا بننا چاہیے؟ کیا سلامتی کونسل اسے آتھورائزیشن دے گی، یا نہیں دے گی، یا اسے دینی چاہیے؟ یہ الگ مستقل سوالات ہیں، ان پر ہم الگ سے بحث کر سکتے ہیں، لیکن اس وقت آپ کے سامنے یہ پوزیشن رکھنی تھی کہ ذمہ داری اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی کی ہے، وہ اگر اپنی ذمہ داریاں نہیں پوری کر رہے تو پھر کیا کیا جائے گا، اس پر ان شاء اللہ ہم اگلی نشست میں گفتگو کریں گے، بہت شکریہ۔
youtube.com/watch?v=ZV8Q573BkFY
بیت المقدس پر اسرائیلی جارحیت کے خلاف مسلمان ریاستوں کے لیے قانونی امکانات
اب ہم اس موضوع پر گفتگو کریں گے کہ اگر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل یا اس کے دیگر ادارے جارح اسرائیل کو روکنے میں ناکام رہے یا اس میں دلچسپی کا اظہار نہ کریں تو پھر بین الاقوامی قانون کی رو سے دیگر ریاستوں کو انفرادی سطح پر یا اجتماعی سطح پر اور کونسے راستے دستیاب ہیں، کونسے آپشنز ان کے پاس اویلیبل ہیں جن کو استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس ضمن میں ظاہر ہے ہم مسلمانوں کی ذمہ داری سب سے زیادہ ہے اور ہمارے لیے تو قرآن کریم کا حکم ہے:
’’اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم۔ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ وما لکم لا تقاتلون فی سبیل اللہ والمستضعفین من الرجال والنسآء والولدان الذین یقولون ربنآ اخرجنا من ھذہ القریۃ الظالم اھلھا واجعل لنا من لدنک ولیا واجعل لنا من لدنک نصیرا‘‘ (النساء 75)
(آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں ان بے بس مردوں، عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو کمزور پا کر دبا لیے گئے ہیں اور فریاد کر رہے ہیں کہ خدایاہم کو اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں اور اپنی طرف سے ہمارا کوئی حامی و مددگار پیدا کر دے۔)
تو یہ تو ہم پر ذمہ داری ہے کہ وہ مظلوم لوگ جو پکار پکار کر اللہ تعالیٰ سے مدد کی طلب کر رہے ہیں اور مسلسل ظلم کا شکار ہیں، ہم ان کے لیے کیوں نہیں لڑ رہے؟ یہ تو ہماری ذمہ داری ہے۔ اب اس ذمہ داری کو پورا کرنے کے لیے موجودہ سسٹم کے اندر ہمارے پاس کیا امکانات موجود ہیں، ان پر گفتگو ضروری ہے۔
انفرادی طور پر بھی کوئی ریاست اگر اس پوزیشن پر ہے بالخصوص جو پڑوس کی ریاستیں ہیں، ان پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے، فقہاء کرام نے بھی ذکر کیا ہے کہ اگر ایک علاقے کے لوگ، اپنی حفاظت کے لیے ان کے پاس وسائل نہیں ہیں، وہ اتنی استطاعت نہیں رکھتے، تو دفاع کی ذمہ داری ان کے قریب کے لوگوں پر آتی ہے، پھر ہوتے ہوتے دائیں بائیںٖ مشرق مغرب ہر طرف جو دیگر مسلمان ہیں ان پر یہ ذمہ داری بتدریج عائد ہوتی جاتی ہے۔ اسی طرح کن کے پاس وسائل زیادہ ہیں، کون زیادہ بہتر پوزیشن پر ہے تو اس لحاظ سے اس پر ذمہ داری بھی زیادہ عائد ہوتی ہے۔ تو اگر قریب کی ریاستیں مثال کے طور پر یہ موقف اپنائیں کہ فلسطین، بیت المقدس، القدس اور وہاں کے مظلوم لوگ، یہ ہمارے لیے پرایا جھگڑا نہیں ہے، یہ ہمارے لوگ ہیں اور ہمارے دل ان کے ساتھ دھڑکتے ہیں، اور یہ ہماری ریاست کے لیے بہت زیادہ اہمیت رکھتے ہیں، اور اس وجہ سے خوا یہ ہماری ریاست کی سرحدوں سے باہر ہوں ، جغرافیائی حدود سے باہر ہوں، لیکن ان کا تحفظ ہماری ذمہ داری ہے، تو اس تصور کے لیے بین الاقوامی قانون میں گنجائش موجود ہے۔
اقوام متحدہ کے وجود میں آنے سے پہلے بھی کئی ریاستیں اس طرح کے اقدامات کیا کرتی تھیں، اور اقوام متحدہ کے وجود میں آنے کے بعد بھی اس کی مثالیں ملتی ہیں۔ اس نظریے کو کہا جاتا ہے protection of interests abroad کہ میرے مفادات ہیں جو باہر ہیں، میری ریاستی حدود سے باہر ہیں، لیکن میں نے ان کی حفاظت کرنی ہے، میں اپنی ریاست کے دفاع میں اسے شامل سمجھتا ہوں۔
اس کی ایک مثال ابھی پچھلی نشست میں بھی ہم نے ذکر کی کہ جب مصر نے 1956ء میں سوئس کینال کو قومیانے کا اعلان کیا تو برطانیہ، فرانس اور اسرائیل نے اس کو اپنے آپ پر حملہ قرار دیا اور کہا کہ ہماری ملکی حدود سے باہر ہے یہ جگہ، لیکن ہم اپنی حفاظت کے لیے اور اپنے دفاع کے لیے وہاں جائیں گے اور حملہ کریں گے۔
اس کی ایک اور مثال بھی آپ کو ملتی ہے کہ جب اسرائیل کا ایک طیارہ ہائی جیک کر کے یوگنڈا لے جایا گیا تو پھر اسرائیل نے یوگنڈا میں جا کر وہاں آپریشن کیا اور ہائی جیکرز کو مارا اور اپنے شہریوں کو واپس لے آئے۔
اچھا اس کو تو آپ چلیں کہیں گے کہ وہ ان کے شہری تھے، لیکن یہ جو سوئس کینال والا ایشو تھا یہ شہریوں کا ایشو نہیں تھا بلکہ ایک زیادہ وسیع تصور تھا مفادات (کا)، ہمارے مفادات جن کا تحفظ ہم ضروری سمجھتے ہیں، چاہے وہ ملک کے اندر ہوں، چاہے وہ ملک کے باہر ہوں، ان کی حفاظت کے لیے ہم کہیں بھی جا سکتے ہیں۔ تو اگر کوئی ریاست یہ کرتی ہے تو اس کے لیے گنجائش بین الاقوامی قانون کے اس نظریے کے تحت موجود ہے جس کو کہا جاتا ہے protection of interests abroad ۔
اس کے علاوہ میں یہ ضرور اس میں اضافہ کرنا چاہوں گا کہ کوئی ریاست تنہا یہ اقدام کرے تو اس کے لیے بہت سارے، ظاہر ہے، مسائل ہو سکتے ہیں موجودہ سچویشن اور جو عالمی منظرنامہ ہے اس کو دیکھتے ہوئے، اس لیے زیادہ بہتر تو یہی ہو گا کہ مسلمان ریاستیں، یا کم از کم وہ ریاستیں جو اس میں حصہ لینا چاہتی ہیں اور اس میں زیادہ وہ کردار کر سکتی ہیں، وہ ریاستیں آپس میں مل کر humanitarian intervention کے نظریے سے فائدہ اٹھائیں یعنی انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ہم مداخلت کر رہے ہیں۔ جیسے پچھلی نشست میں، میں نے سربیا پر نیٹو کی بمباری کی مثال دی تھی، کہا کہ اصل ذمہ داری تو سلامتی کونسل کی ہے کہ وہ ظلم کا راستہ روکے، ظالم کا ہاتھ روکے، اور وہاں انسانیت خطرے میں ہے ان کو بچانے کے لیے اقدام کرے، لیکن سلامتی کونسل کو ویٹو (veto) نے معذور بنا دیا ہے، معطل کر دیا ہے اس کو، وہ کام نہیں کر سکتی، لیکن ہمارے پاس طاقت ہے، ہمارے پاس اختیار ہے، ہم لوگوں کو مرتا ہوا نہیں دیکھ سکتے، وہاں اتنا بڑا ظلم ہو رہا ہے، ہم یہ ظلم دیکھتے ہوئے کیوں منہ دوسری طرف پھیر لیں، بلکہ ہم جا کر ظالم کا ہاتھ روکیں گے۔
اس طرح کی اور بھی کئی مثالیں ماضی قریب میں ملتی ہیں، بلکہ اس کے ساتھ ایک اور نظریے کو آپ ملا کر اس پر غور کریں۔ اس نظریے کو کہا جاتا ہے responsibility to protect یعنی ایک وہ دور تھا جب ریاست کی ساورنٹی کو، اس کی خودمختاری کو، اس کے اقتدارِ اعلیٰ کو اس زاویے سے دیکھا جاتا تھا کہ ریاست کو اپنے لوگوں پر اپنے علاقے پر مکمل اختیار حاصل ہے، کوئی اور اس میں مداخلت نہیں کرے گا۔ لیکن پچھلے سو سوا سو سال میں جس طرح بین الاقوامی قانون میں ڈیویلپمنٹ ہوئی ہے، اس کے نتیجے میں اب ریاست کی ساورنٹی کو اس کی ذمہ داری قرار دیا جاتا ہے، کہ اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے علاقے میں اور وہاں موجود لوگوں کے حقوق کا تحفظ کرے۔ اب اگر کوئی ریاست اس ذمہ داری کو پوری نہیں کر رہی بلکہ الٹا وہ وہاں اپنے علاقے میں یا مقبوضہ علاقے میں لوگوں پر ظلم کر رہی ہے، تو جو بڑی طاقتیں ہیں، اصولاً تو چاہیے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کاروائی کرے، لیکن اس کو روک دیا گیا ہے اور وہ بالکل paralyze ہو کر رہ گئی ہے، تو ایسی صورت میں وہ بڑی طاقتیں جو طاقت بھی رکھتی ہیں، وسائل بھی رکھتی ہیں، جو ظالم کا ہاتھ روک بھی سکتی ہیں، وہ یہ ذمہ داری پوری کرنے کے لیے آگے بڑھیں، humanitarian intervention کو responsibility to protect کے ساتھ ملا کر دیکھیں تو جو ریاستیں یہ ذمہ داری پوری کر سکتی ہیں وہ آ کر یہ ذمہ داری اٹھائیں۔
یعنی ایک تو میں نے یہ کہا کہ protection of interests abroad اس کے ساتھ آپ humanitarian intervention اور responsibility to protect کو بھی ملا سکتے ہیں۔ اس پر بھی یہ اعتراض ہو سکتا ہے کہ یہ تو بڑی طاقتوں کے چونچلے ہیں یا نخرے ہیں اور وہ یہ نخرہ اٹھا سکتے ہیں کیونکہ ان کے پاس طاقت ہے اور طاقت خود اپنے لیے دلیل ہوتی ہے، اور ہمارے خلاف تو پوری دنیا کھڑی ہو جائے گی۔ تو ایسا بالکل بھی نہیں ہے، ظاہر ہے انٹرنیشنل پالیٹکس کوئی اتنی آسان چیز نہیں ہے، سادہ چیز نہیں ہے کہ آپ یا اِدھر ہوتے ہیں یا اُدھر ہوتے ہیں، اس میں کئی امکانات ہیں، اور آپ ایسا کرنے کا سوچیں یا اعلان کریں یا اس کی پلاننگ کریں تو ظاہر ہے equation اچانک تبدیل ہو جاتی ہے اور بہت سارے امکانات مزید بھی پیدا ہو جاتے ہیں۔ لیکن پھر بھی اگر اس بات کو جوں کا توں ہم لے لیں تو ایک اور امکان موجود ہے جو باقاعدہ قانونی امکان ہے اور موجودہ معاصر بین الاقوامی قانونی نظام میں بھی اس کی گنجائش ہے اور اقوام متحدہ کے چارٹر میں بھی اس کی تصریح موجود ہے، اس کو کہا جاتا ہے ’’اجتماعی حقِ دفاع‘‘ right to collective self defense ۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کے چیپٹر سیون کا میں نے حوالہ دیا تھا کہ سلامتی کونسل کی ذمہ داری ہے جارح ریاست کو روکنے کی، لیکن جس ریاست پر حملہ ہوا ہو اس کو دفاع کا حق حاصل ہے۔ اور جس آرٹیکل کے تحت اقوام متحدہ کے چارٹر میں اس کے لیے دفاع کا حق تسلیم کیا گیا ہے، آرٹیکل 51، دفعہ اکیاون، اس میں یہ بھی صراحت کے ساتھ مذکور ہے کہ ریاست تنہا بھی اپنا دفاع کر سکتی ہے اور کئی ریاستیں مل کر بھی حقِ دفاع مشترکہ طور پر استعمال کر سکتی ہیں۔ اور اس کی ایک بڑی مثال نیٹو NATO کی تنظیم ہے North Atlantic Treaty Organization کی تنظیم جو ’’معاہدہ شمالی اوقیانوس‘‘ کے تحت وجود میں آئی، یورپ میں کمیونزم کو روکنے کے لیے امریکہ نے یہ تنظیم کھڑی کی۔ اور اس تنظیم کے معاہدے میں یہ طے پایا کہ کسی ایک ریاست پر حملہ ہو تو وہ سب پر حملہ تصور ہو گا۔ اسی طرح روس نے مشرقی یورپ میں اپنے اتحادیوں کو ملا کر ’’وارسا معاہدے‘‘ Warsaw Pact کے تحت ایک تنظیم بنائی۔ اس طرح امریکہ نے اور بھی تنظیمیں بنائیں CENTO اور SEATO کے نام سے۔
تو اس طرح مشترکہ دفاعی معاہدے کیے جا سکتے ہیں اور کسی ایک ریاست پر حملہ پھر اس معاہدے میں شامل تمام ریاستوں پر حملہ تصور ہوتا ہے۔ اور جو بین الاقوامی عدالتِ انصاف کا فیصلہ ہے Nicaragua vs US اس میں بھی اور دیگر مقدمات میں بھی یہ بات تسلیم کی گئی ہے کہ یہ ضروری نہیں کہ ہر ہر ریاست پر الگ الگ حملہ ہو، بلکہ اس معاہدے میں جو ریاستیں شامل ہیں ان میں سے کسی ایک پر بھی حملہ ہو تو باقی ریاستیں حقِ دفاع کا دعویٰ کر سکتی ہیں۔
اس لیے سب سے بہتر آپشن تو میرے نزدیک یہی مسلمان ریاستیں آپس میں اجتماعی دفاع کا معاہدہ کریں اور پھر اس میں خصوصی طور پر بیت المقدس اور القدس کی مرکزی حیثیت کو تسلیم کرتے ہوئے یہ قرار دیں کہ اس پر حملہ سب پر حملہ تصور ہو گا اور اس کا دفاع ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ یہ دینی لحاظ سے بہت بڑا اہم فریضہ ہے اور اس فریضے کے لیے بین الاقوامی قانون میں یہ طریقہ ہے معاہدات کا۔ اگرچہ معاہدے کی عدم موجودگی میں بھی ہم پر یہ ذمہ داری ہے کیونکہ القدس ہمارا ہے، بیت المقدس ہمارا ہے، اور ان پر حملہ ہم پر حملہ ہے، چاہے ہمارا ان کے ساتھ کوئی معاہدہ اس نوعیت کا ہو یا نہ ہو۔ لیکن معاصر بین الاقوامی نظام کی پیچیدگیوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے بہتر یہ ہو گا کہ ہم آپس میں اس طرح کا معاہدہ بھی کر لیں۔
اس کے علاوہ بھی بہت سارے آپشنز ہو سکتے ہیں۔ ایک اہم آپشن بین الاقوامی فوجداری عدالت کو استعمال کرنے کا ہے International Criminal Court جو 1998ء میں ایک معاہدے کے تحت وجود میں آئی، 2002ء سے اس نے کام شروع کیا ہے۔ اس بین الاقوامی فوجداری عدالت میں آپ کسی مخصوص فرد کے خلاف جنگی جرائم اور دیگر جرائم کے تحت مقدمہ دائر کر سکتے ہیں۔ مقدمہ دائر کرنے کے لیے تین طریقے ہیں:
(۱) یا تو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کسی بندے کے خلاف اس عدالت کو شکایت بھیج دے۔ ظاہر ہے سلامتی کونسل تو یہ نہیں کرنے والی۔
(۲) دوسرا طریقہ یہ ہے کہ وہ ریاستیں جنہوں نے اس عدالت کے منشور پر دستخط کیے ہیں اور اس کی توثیق کی ہوئی ہے، ان میں سے کوئی ریاست مقدمہ لے آئے کسی فرد کے خلاف، مثال کے طور پر کسی اسرائیلی کمانڈر کے خلاف یا وزیر اعظم کے خلاف کہ اس نے اتنا بڑا جرم کیا ہے، انسانیت کے خلاف جرائم کیے ہیں، یہ جو بچوں کا قتلِ عام ہے، یہ جو شہریوں پر مسلسل حملے ہیں، یہ جو مسلسل ظلم ہے۔ تو کوئی ریاست جس نے بین الاقوامی فوجداری عدالت کے منشور پر دستخط کیے ہوں، اس کی توثیق کی ہوئی ہو، وہ اس کے خلاف مقدمہ لائے۔ اس کا بہت بڑا اثر ہوتا ہے اور چاہے مقدمہ منطقی انجام تک نہ پہنچے یا اسے پہنچنے میں کئی سال لگ جائیں لیکن یہ مقدمہ اگر دائر ہو جائے تو اس کے اثرات بہت دوررس ہو سکتے ہیں۔ اور اہم بات یہ ہے کہ فلسطین سمیت کئی مسلمان ریاستیں اس وقت ایسی ہیں جنہوں نے بین الاقوامی فوجداری عدالت کے منشور پر دستخط بھی کیے ہیں، اس کی توثیق بھی کی ہوئی ہے، جیسے افغانستان ہے، بنگلہ دیش ہے، بوسنیا ہے، اور بھی ہیں، فلسطین بھی اس میں شامل ہے۔ تو اگر اس طرح کا مقدمہ آجائے تو ظاہر ہے اس کا بھی اپنا بہت بڑا اثر ہو سکتا ہے۔
اس کے علاوہ بھی بہت سارے امکانات ہیں لیکن میں نے یہ چند امکانات آپ کے سامنے رکھنے اس لیے ضروری سمجھے کہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ بین الاقوامی قانون کی وجہ سے ہمارے ہاتھ پیر بندھے ہوئے ہیں اور ہم کچھ کر نہیں سکتے۔ ایک آخری بات میں عرض کرنا چاہوں گا اور وہ یہ کہ کیا یہ بہتر نہیں ہو گا، ہم مسلمان ریاستوں کو یہ سوچنا چاہیے کہ کیا یہ بہتر نہیں ہو گا کہ ہم بجائے اس کے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو درخواست کریں یا جنرل اسمبلی میں جا کر وہاں درخواست کریں، یا بین الاقوامی فوجداری عدالت کے سامنے درخواست کریں، کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ خود ہم نے اس طرح کی عدالت بنائی ہوئی ہوتی، یا اگر اب تک نہیں بنائی تو اب بنائیں، یا اس طرح کا فورم ہم نے پہلے نہیں بنایا تو اب بنائیں، جس کی طرف ہم اس طرح کے مقدمات بھیج سکیں، اور اس طرح کے مسائل ان فورمز پر اٹھا سکیں۔ Organization of Islamic Cooperation کو ہم نے بالکل عضوِ معطل بنا دیا ہے، اگر وہ کام نہیں کر رہی تو ہمیں متبادل کوئی نظام کھڑا کرنے کی طرف کیوں نہیں سوچنا چاہیے، یہ بھی دیکھیے کہ یہ جو تنظیم بنی تھی یہ بھی مسجدِ اقصیٰ پر حملے کے نتیجے میں بنی تھی۔ تو کیا پتہ یہ جو اس وقت ظلم ہو رہا ہے، اس کے نتیجے میں ہم کچھ اور کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔
(۳) اور ایک آخری بات جو میں کرنا بھول گیا تھا، ابھی یاد آ گئی ہے، اس کو میں پورا کروں کہ بین الاقوامی فوجداری عدالت میں مقدمہ دائر کرنے کا ایک تیسرا طریقہ بھی ہے، اور وہ یہ کہ اگر ریاستیں بھی وہاں مقدمہ نہیں لا رہیں تب بھی یہ ہو سکتا ہے کہ بین الاقوامی فوجداری عدالت کا جو پراسیکیوٹر ہے، اگر اس کے پاس اتنے شواہد آجائیں، اتنی شکایتیں آجائیں، اتنا مواد آجائے کہ وہ مجبور ہو جائے کہ ہاں اس بندے کے خلاف تو بہت زیادہ مواد آگیا ہے، اس پر مقدمہ چلایا جانا چاہیے، تو یہ ہم میں سے ہر فرد کر سکتا ہے۔ جس کے پاس شواہد موجود ہیں، بچوں پر حملوں کے اور اس طرح عام شہریوں پر حملوں کے اور دیگر مظالم کے، وہ ان کے شواہد اکٹھے کر کے، شکایات اکٹھی کر کے، باقاعدہ ہم ICC انٹرنیشنل کریمنل کورٹ کے پراسیکیوٹر کے آفس کو، یو کہیں، شکایات سے اور شواہد سے بھر دیں، تو وہ مجبور ہو کر بھی مقدمہ اٹھا سکتے ہیں۔ یہ بات میں نے اس لیے کی کہ ہم جیسے افراد جو انفرادی سطح پر کڑھتے ہیں دل میں اور سوچتے ہیں کہ ہم کچھ کر نہیں سکتے، تو کرنے کے ہمارے پاس بھی بہت سارے آپشنز ہیں۔ سوشل میڈیا کے مختلف فورمز بھی اویلیبل ہیں، ان کی اپنی رسٹرکشنز بھی ہیں لیکن امکانات بھی ہیں۔ تو بندہ سوچنے پہ آئے تو اللہ تعالیٰ بھی مزید راہنمائی فراہم کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔
youtube.com/watch?v=zvIpssf-U1c
اقوامِ متحدہ سے پہلے اور بعد کا عالمی نظام
ہمارے علمی حلقوں میں اس سوال پر شاید ہی کہیں بحث ہوتی ہو کہ جب مسلمانوں نے خلافت کا نظام قائم کیا تھا، تو وہ نظام کیسے کام کرتا تھا۔ مثلاً جب دور دراز علاقوں کے حکمران بغداد کے خلیفہ سے سند لیتے تھے اور جمعہ و عیدین کے خطبوں میں خلیفہ کا نام لیتے تھے، تو ان علاقوں کے حکمرانوں اور بغداد میں موجود خلیفہ کے تعلق کی آئینی و قانونی حیثیت کیا تھی؟ اس پہلو پر بھی شاید ہی کہیں گفتگو ہو کہ ’قرونِ وسطیٰ‘ میں یورپ میں جو نظام لایا گیا، اس میں دراصل اس نظام کی نقل کی کوشش کی گئی تھی۔
معلوم امر ہے کہ رومی سلطنت پانچویں صدی عیسوی میں تقسیم ہو گئی تھی اور رسول اللہ ﷺ اور خلفائے راشدین کے دور میں ساتویں صدی عیسوی میں مشرقی رومی سلطنت، جسے بازنطینی سلطنت کہا جاتا تھا، کا مسلمانوں کے ساتھ ٹکراؤ ہوا۔ اس ٹکراؤ کے نتیجے میں کئی ایسے علاقے جو پہلے بازنطینی سلطنت کے حصہ تھے، مسلمانوں کے زیرِ نگیں آگئے۔ ان میں سب سے زیادہ اہم شام و فلسطین کے علاقے تھے۔ مغربی روم کی حالت زیادہ بری تھی۔ خانہ جنگیوں اور اختلافات کے طویل سلسلے کے بعد بالآخر 25 دسمبر 800ء کو رومن کیتھولک چرچ اور مغربی یورپ کے سیاسی اشرافیہ نے مل کر ’مقدس رومی سلطنت‘ (Holy Roman Empire) کی بنیاد رکھی اور شارلیماں کو اس کا پہلا بادشاہ مانا گیا جو عباسی خلیفہ ہارون الرشید کا ہم عصر تھا ۔ اگر کسی کو مسلمانوں کے عالمی خلافت کے نظام کے متعلق تفصیلات چاہئیں اور متعلقہ مصادر تک رسائی نہ ہو تو وہ کم از کم اس مقدس رومی سلطنت کی تاریخ پڑھ سکتا اور اس کے نظام کا تجزیہ کر سکتا ہے۔ اس سلطنت اور مسلمانوں کی خلافت میں کئی جوہری فروق بھی تھے لیکن اپنی اساس میں اس کا سیاسی نظام دراصل خلافت کی نقل پر مبنی تھا۔
نقل بہرحال بمطابقِ اصل نہیں تھی اور اس کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ یہ تھی کہ مسلمانوں کے ہاں فقہاے کرام کی کاوشوں سے قانون کا تفصیلی ڈھانچہ مرتب ہو چکا تھا اور فقہی مذاہب نے تنازعات کے فیصلوں کو نہایت آسان کردیا تھا۔ چنانچہ نکاح، طلاق اور میراث سے لے کر تجارت اور معیشت کے پیچیدہ مسائل تک بالعموم لوگوں کو مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑا اور خواہ کوئی شخص فارس سے عرب آیا ہو، یا عرب سے ترکستان گیا ہو، قانونی نظام میں اسے وہی سہولت حاصل تھی جو اسے اپنے مقامی علاقے میں میسر تھی۔ یہ مسلمانوں کے ’بین الاقوامی نجی قانون‘ (private international law) کا کمال تھا ۔ مقدس رومی سلطنت میں اس سہولت کی عدم موجودگی بہت بڑا مسئلہ تھی۔ اس سلطنت کے زوال کے بعد اور اس کے مختلف عناصر کے باہم دست و گریباں ہونے اور نتیجتاً سارا نظام درہم برہم کرنے کے بعد سترھویں صدی عیسوی میں یورپ نے اس نظام کو ’معاہدۂ ویسٹ فالیہ‘ کے ذریعے تبدیل کیا ۔ اس معاہدے کی رو سے مقدس رومی سلطنت کے خاتمے کا اعلان کیا گیا اور اس کی مختلف اکائیوں کو مستقل ریاست کے طور پر تسلیم کیا گیا۔ اسی کو جدید ’قومی ریاست‘ کے نظام کا آغاز سمجھا جاتا ہے ۔
اس معاہدے کی رو سے جو خود مختار ریاستیں یورپ میں وجود میں آگئیں، ان کے اوپر کوئی بالادست طاقت موجود نہیں تھی۔ تاہم معاہدے میں یہ طے پایا تھا کہ کوئی بھی ریاست اس نظام کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرے گی تو دیگر ریاستیں مل کر اس کے خلاف کارروائی کریں گی۔ البتہ عملاً ’اپنی مدد آپ‘ کا اصول نافذ ہوگیا۔
بیسویں صدی کی ابتدا میں ایک نئے نظام کی تشکیل کے لیے پہلی کوشش ’مجلسِ اقوام‘ کی صورت میں کی گئی لیکن اس کی ناکامی کے بعد دوسری جنگِ عظیم کے خاتمے پر ’اقوامِ متحدہ کی تنظیم‘ وجود میں لائی گئی اور اس کی ’سلامتی کونسل‘ کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ کسی بھی ایسی ریاست کے خلاف فوجی اقدام کرے جس سے ’عالمی امن کو نقصان کا خطرہ‘ ہو ۔ اس کونسل میں پانچ ریاستوں کو ، جو دوسری جنگِ عظیم میں فاتح تھیں، مستقل رکنیت دی گئی اور انھیں ’نہ‘ کہنے کا حق بھی دیا گیا۔ اس نظام نے تین صدیوں قبل کے ’ویسٹ فالیہ نظام‘ کی جگہ لے لی۔
بیسویں صدی کی ابتدا میں اوپن ہائم نے بین الاقوامی قانون پر اپنی کتاب میں لکھا کہ اس قانون کا اطلاق صرف ’یورپی مسیحی اقوام‘ پر ہوتا ہے۔ امریکا کو اس نے مسیحی یورپ کی وسعت قرار دیا ۔ ایتھوپیا ، گو مسیحی ریاست تھی ، لیکن اوپن ہائم کے مطابق ابھی وہ تہذیب کی اس سطح تک نہیں پہنچی تھی کہ اسے مہذب اقوم کے ساتھ بیٹھنے کا حق ملتا! اس نے یہ بھی قرار دیا کہ اگر بین الاقوامی معاہدات یا رواج میں کسی مسئلے کے بارے میں رہنمائی نہ ملے ، تو اس خلا کو ’مسیحی اخلاقیات‘ کے اصولوں سے پر کیا جائے گا۔ غیر مسیحی اور غیر یورپی اقوام تک اس نظام کی توسیع کے لیے اوپن ہائم نے تین شرائط بیان کیں:
(۱) وہ قوم تہذیب کی ایک خاص سطح تک پہنچی ہوئی ہو؛
(۲) وہ قوم اس نظام میں آنے سے قبل اس کی شرائط تسلیم کر کے خود پر اس کے قانون کی پابندی لازم کرے؛ اور
(۳) اس نظام میں پہلے سے موجود اقوام بھی اس نئی قوم کو اپنے ساتھ شامل کرنے پر راضی ہو۔
یہ شرائط بین الاقوامی قانون میں اس تصور کی بنیاد بن گئیں جنھیں ’کسی ریاست کو تسلیم کرنا‘ کہا جاتا ہے۔ بعد میں اگر کسی قوم کو تسلیم کرنے کے متعلق اس نظام میں پہلے سے موجود اقوام کے درمیان اختلاف ہوا، تو تسلیم کرنے کی دو قسمیں مان لی گئیں: کسی ریاست کا وجود بطور امر واقعہ تسلیم کرنا (de facto recognition) اور کسی ریاست کے وجود کو قانوناً بھی جائز تسلیم کرنا (de jure recognition)۔ بعض اوقات یہ بھی ہوا کہ ریاست تو تسلیم شدہ ہے لیکن وہاں کی حکومت کو ناجائز مانا گیا۔
اقوامِ متحدہ کے قیام کے بعد ریاستوں نے اس کی رکنیت ضروری سمجھی۔ سویٹزرلینڈ بعض مخصوص قانونی اور تاریخی وجوہات کی بنا پر اس کی رکنیت سے گریز کرتا رہا لیکن آخرکار وہ بھی اس کا رکن بن گیا ۔ اب اقوامِ متحدہ کی رکنیت ایک طرح سے ’تسلیم کیے جانے‘ کی علامت ہوتی ہے، اگرچہ اس کے بعض ارکان نے ایک دوسرے کو تسلیم نہیں کیا۔ یہاں ٹھہر کر دو سوالات پر غور کی ضرورت ہے: ایک یہ کہ کیا اس تسلیم کیے جانے ، یا اقوام متحدہ کا رکن بننے ، میں آپ کو اس ’سند‘ سے مشابہت نظر آتی ہے جو بغداد کا خلیفہ، مثال کے طور پر، دہلی کے سلطان کو دیتا تھا؟ دوسرا یہ کہ خلافت کے عالمی نظام میں خلیفہ کی جو حیثیت تھی، کیا بیسویں صدی کے عالمی نظام میں میں وہ حیثیت اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کو دی گئی؟
سوویت یونین کے بکھر جانے، نائن الیون کے بعد کی دنیا اور انٹرنیٹ کے انقلاب کے بعد اقوامِ متحدہ تقریباً غیر متعلق ہوگئی ہے۔ قومی ریاستوں کا دور ختم ہو رہا ہے اور دنیا نئے عالمی نظام کی طرف بڑھ رہی ہے لیکن ہمارے دانشور ابھی تک قومی ریاست کے تصور میں ہی الجھے ہوئے ہیں۔
(روزنامہ ۹۲ نیوز، ۲۸ مارچ ۲۰۲۵ء)