پاکستان شریعت کونسل کے امیر مولانا زاہد الراشدی نے کہا ہے کہ اقوام متحدہ کشمیر اور فلسطین کے بارے میں اپنے فیصلوں اور قراردادوں پر عملدرآمد کرانے میں ناکام ہو گئی ہے اس لیے مسلم ممالک کو کوئی متبادل راستہ ہی تلاش کرنا ہو گا اور اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کو خاموش تماشائی کا کردار ادا کرنے کی بجائے عالم اسلام کے مستقبل کے حوالے سے جلد از جلد کوئی متبادل لائحہ عمل طے کرنا چاہیے۔ وہ آج ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن میرپور آزادکشمیر کے زیر اہتمام ’’فلسطین سیمینار‘‘ سے خطاب کر رہے تھے جس کی صدارت بار کے صدر جناب چوہدری محمود پلاکوی نے کی۔
مولانا راشدی نے کہا کہ غزہ میں جنگ بندی کے معاہدہ کے بعد اور قیدیوں کا تبادلہ شروع ہو جانے کے بعد غزہ پر اسرائیل کے پے در پے حملے اور ہونے والی تباہی کر سراسر اسرائیلی درندگی کے سوا کوئی عنوان نہیں دیا جا سکتا جس کے لیے اس نے تمام اخلاقی، قانونی اور سیاسی حدود پامال کر دی ہیں اور امریکہ پوری ڈھٹائی کے ساتھ اس کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر اور فلسطین کے بارے میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قراردادوں اور عالمی عدالت کے فیصلوں کی پامالی کے بعد خود اقوام متحدہ کا کردار ایک سوالیہ نشان ہے جس کا جواب مغرب کو بہرحال دینا ہو گا اور تاریخ کبھی اسے معاف نہیں کرے گی۔
انہوں نے کہا کہ اس مرحلہ میں مسلم حکمرانوں کی مسلسل خاموشی اور او-آئی-سی کی بے حسی آج کی سب سے بڑی ڈھٹائی ہے، جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے، اور مسلم حکمرانوں کی اس مجرمانہ خاموشی اور بے حسی کے بعد عالم اسلام اور ملتِ اسلامیہ کے حوالہ سے دینی حلقوں اور علماء کرام کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے۔ اس لیے تمام مکاتب فکر کے علماء کرام کو باہمی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے امتِ مسلمہ کی راہ نمائی کے لیے آگے آنا چاہیے اور امتِ مسلمہ کو سنبھالنا چاہیے۔
مولانا راشدی نے آزادکشمیر کی عدالتوں میں جج صاحبان اور قاضی صاحبان کے مشترکہ فیصلوں کے ماحول پر خوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ علماء کرام اور وکلاء مل کر معاشرے کو سنبھالیں گے تو حالات میں بہتری آئے گی اور دونوں کا یہ مشترکہ ماحول ملک کے دیگر حصوں کے لیے بھی قابلِ تقلید ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہر طبقہ کو غزہ کے مظلوم مسلمانوں کی مدد کے لیے اپنی اپنی بساط کے مطابق کام کرنا چاہیے اور ایک دوسرے کی طرف دیکھنے کی بجائے جو بھی ماحول کے مطابق کیا جا سکتا ہے اس سے گریز نہیں کرنا چاہیے۔
(۸ اپریل ۲۰۲۵ء)