پروفیسر خورشید احمدؒ کی رحلت: صدی کا بڑا انسان
آمد: ۲۳ مارچ ۱۹۳۲ — رفت: ۱۳ اپریل ۲۰۲۵ء

تیرہ اپریل کو جماعتِ اسلامی پاکستان کے سب سے بزرگ رہنما، ادیب و مصنف و مفکر اور بانئ جماعت مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کے فکری جانشین پروفیسر خورشید احمد لیسٹر (یوکے) میں 93 سال کی عمر میں رحلت کر گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ وہ طویل عرصہ سے بیمار تھے پھر بھی ان کے گہر بار قلم سے وقفہ وقفہ سے مختلف تحریریں آتی رہتی تھیں۔ وہ صدی کے آدمی تھے۔ انہوں نے مولانا مودودی کی صحبتیں پائی تھیں بلکہ عرصۂ دراز تک ان کے دست راست رہے تھے۔ مولانا مودوی کی کئی ابتدائی تحریروں کی دوبارہ تدوین و ترتیب کا شرف بھی انہیں حاصل ہوا۔ مثلاً مولانا مودودی کی تقسیمِ ہند سے پہلے کی مشہور کتاب ’’مسلمان اور سیاسی کشمکش‘‘ (سہ جلد) کو انہوں نے ’’تحریکِ آزادئ ہند اور مسلمان‘‘ کے نام سے مدون کیا اور اس پر ایک بہترین مقدمہ لکھا۔ اسی طرح مولانا کی کئی اور سیاسی تحریروں کی تدوینِ جدید کر کے اس کو اسلامی ریاست کے نام سے شایع کرایا۔ اور جماعتِ اسلامی کی تاریخ پر ان کی کتاب ’’تحریکِ اسلامی: ایک تاریخ، ایک داستان‘‘ ہی اصل اتھارٹی کی حیثیت رکھتی ہے۔

پروفیسر خورشید احمد 23 مارچ 1932ء کو دہلی میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی اور انٹر تک تعلیم دہلی کے قدیم ذاکر حسین کالج میں حاصل کی، اور پاکستان بننے کے بعد ان کا خاندان مملکتِ خداداد میں منتقل ہو گیا۔ تھوڑے دنوں ان کا قیام لاہور میں رہا جہاں انہوں نے پہلے گورنمنٹ اسلامیہ کالج میں بزنس اور اقتصادیات کی تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد کراچی چلے گئے، وہاں 1950ء میں سندھ یونیورسٹی سے بی اے اور بعد میں ایم اے اسلامیات کیا اور اس کے علاوہ انہوں نے 1954ء میں کراچی یونیورسٹی سے معاشیات کی اعلیٰ ڈگری حاصل کی اور اسی یونیورسٹی میں لیکچرر تعینات ہوئے۔ یاد رہے کہ انہوں نے 1958ء میں ایل ایل بی بھی کیا تھا۔ اس طرح قانون، معاشیات اور اسلامیات میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور پھر تینوں میدانوں میں بہت کچھ لکھا بھی۔

تحریکی زندگی کی ابتداء جماعت کی طلبہ تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ میں شمولیت سے ہوئی جس کے وہ ناظمِ اعلیٰ بھی رہے۔ اور انہوں نے جمعیت کو ملک میں طلبہ کی ایک بڑی اور منظم اسلامی قوت بنانے میں بڑا کردار ادا کیا۔ 1956ء میں باضابطہ جماعتِ اسلامی پاکستان میں شامل ہو گئے اور تاوفات اس کے فعال رکن رہے اور خاصے عرصہ تک جماعت کے نائب امیر کے فرائض بھی انجام دیے۔

طالب علمی ہی میں مولانا مودودی کی رہنمائی میں اسلامی لٹریچر کی تصنیف و تالیف اور مختلف جرائد و رسائل کی ادارت کے فرائض انجام دینے لگے تھے اور جمعیت کے انگریزی آرگن پندرہ روزہ ’’اسٹوڈنٹس وائس‘‘ کے ایڈیٹر رہے تھے۔ مزید برآں انہوں نے ’’اقبال ریویو‘‘ اور ’’دی وائس آف اسلام‘‘ میں بھی ادارت کی خدمات انجام دیں۔

انہوں نے ’سنتِ یوسفی’ بھی ادا کی جب 1964ء میں صدر ایوب خان کی حکومت نے جماعتِ اسلامی پر پاپندی لگائی اور جماعتِ اسلامی کے امیر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی سمیت جماعت کی مرکزی شوریٰ اور عاملہ کے ارکان کو بھی گرفتار کر لیا گیا تھا۔ ان میں خورشید صاحب بھی شامل تھے اور انہوں نے زمانۂ جیل کی آپ بیتی کو ’’تذکرۂ زندان‘‘ کے نام سے کتاب میں ادبی انداز سے بیان کیا ہے۔

پروفیسر خورشید احمد نے بڑا شاداب اور زرخیز قلم پایا تھا۔ خاص طور پر مختلف بڑی شخصیات کی وفیات، عالمی سیاست و معیشت، پاکستان کی داخلی سیاست، اسلامی تحریکات کی پیشرفت وغیرہ پر ان کا قلم موتی لٹاتا تھا۔ مذہبی فکر میں وہ مولانا مودودی کے سچے وفادار تھے، اور فکرِ مودودی کے سب سے بڑے شارح و ترجمان۔ اس پہلو سے یکسو ہو کر انہوں نے دوسرے موضوعات کو اپنے غور و فکر کا مرکز بنایا۔

سنہ 1990ء میں ان کو مسلم دنیا کے سب سے بڑے اعزاز فیصل ایوارڈ سے بھی نوازا گیا، یہ مشترکہ ایوارڈ تھا اور ان کے شریکِ انعام شام کے علی طنطاوی تھے۔ پاکستان میں مولانا مودودی کے بعد غالباً وہ دوسرے آدمی ہیں جنہیں یہ انعام ملا ہے۔ فیصل ایوارڈ کے علاوہ حکومتِ پاکستان نے ان کی خدمات کے اعتراف میں انھیں 2010ء میں اعلیٰ سول ایوارڈ نشانِ امتیاز عطا کیا۔

جنرل محمد ضیاء الحق کے دور میں جب جماعتِ اسلامی حکومت کا حصہ بنی تھی وہ وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اور ترقی بھی رہے۔ پھر 1985ء اور 1997ء نیز 2002ء تک مختلف وقفوں میں برابر سینٹ کے رکن منتخب ہوتے رہے اور 18 سال تک ایوانِ بالا میں خدمات انجام دیتے رہے اور اس کی قائمہ کمیٹی برائے امور اقتصادی و منصوبہ بندی کے چیئرمین کے طور پر کام بھی کیا اور سینٹ میں مثالی کارکردگی پر وہ کئی بار بہترین پالیمنٹیرین بھی قرار دیئے گئے۔

پروفیسر خورشید احمد نے مولانا علی میاں کی تحریروں سے بھی فیض اٹھایا تھا اور صاحبِ تدبر قرآن مولانا امین احسن اصلاحی سے بھی خصوصی استفادہ کیا تھا۔ مولانا اصلاحی جب مولانا مودودی سے اختلاف کر کے جماعت چھوڑ گئے تب بھی خورشید صاحب ان کو ایک محسن و مربی کی حیثیت سے یاد کرتے رہے یہاں کہ جب مولانا اصلاحی کی وفات ہوئی تو مارچ و اپریل 1988ء کے ترجمان القرآن کے دو شماروں میں ان کا ذکرِ خیر کیا اور ان کے تعلق سے اپنی یادداشتیں اور جماعت سے وصل و فصل کی داستان بڑے خوبصورت انداز میں لکھی۔ جماعت سے نکلنے کے بعد مولانا اصلاحی نے فکرِ مودودی پر جو مدلل تنقیدیں کیں اور انہوں نے جمہور سے ہٹ کر بھی اپنی تحقیقات تدبرِ قرآن اور دوسری کتابوں میں پیش کیں، جن کے بارے میں خورشید صاحب نے یہ تبصرہ کیا تھا کہ میرا دماغ تو ان کو تسلیم کرتا ہے مگر دل نہیں مانتا۔

شخصیات پر لکھنے کا ایک خاص ملکہ ان کو حاصل تھا۔ مولانا علی میاں کی وفات پر بھی انہوں نے ایک جاندار مضمون تحریر کیا جسے ندوہ کے ترجمان ’’تعمیرِ حیات‘‘ نے مولانا علی میاں پر اپنے خصوصی نمبر میں بھی شایع کیا۔ مولانا مودودی اور مولانا علی میاں ندوی کے درمیان تقابل کرتے ہوئے وہ کہا کرتے تھے کہ مولانا مودودی عقل کو اپیل کرتے ہوئے دل میں سما جاتے ہیں جبکہ مولانا علی میاں ندوی دل کے راستہ سے انسان کے اندر داخل ہوتے اور دماغ کو متاثر کرتے ہیں۔

راقم کا خیال ہے کہ جماعتِ اسلامی میں مولانا مودودی کے بعد اصل اوریجنل تھنکر دو ہی ہوئے ہیں: ایک پروفیسر نجات اللہ صدیقی اور دوسرے پروفیسر خورشید احمد۔ خورشید صاحب کے علمی اور محبت بھرے روابط مشہورِ عالم مسلم اسکالر و محقق ڈاکٹر محمد حمید اللہ رحمہ اللہ سے بھی رہے جن کی وفات پر انہوں نے جس طرح ان کو یاد کیا وہ ایک اعلیٰ درجہ کی تحریر ہے۔

انہوں نے چھوٹی بڑی کوئی ستر کتابیں تصنیف کیں جن میں اردو اور انگریزی دونوں شامل ہیں۔ راقم نے ان کی تحریریں اردو اور انگریزی دونوں میں پڑھی ہیں۔ وہ اردو کے ساتھ ہی انگریزی بھی شگفتہ اور شستہ لکھتے تھے اور انہوں نے مولانا مودودی کی کئی کتابوں کا انگریزی میں ترجمہ کیا ہے۔ مغرب میں جن لوگوں نے جماعتِ اسلامی و فکرِ مودودی کا وسیع پیمانہ پر تعارف کروایا ان میں سرفہرست پروفیسر خورشید احمد ہیں۔ انہوں نے ہی پہلی بار ’’ادبیاتِ مودودی‘‘ لکھی اور مولانا مودودی کو اردو کا ایک صاحبِ اسلوب ادیب و نثرنگار قرار دیا اور ایک نئے دبستان کا بانی۔ اس کے بعد دوسرے لوگوں نے اس بات کو کہنا شروع کیا۔

وہ پہلے کافی عرصہ تک ’’چراغِ راہ‘‘ کراچی کے مدیر اور پھر ’’عالمی ترجمان القرآن‘‘ کے مدیر رہے، ان کی تحریریں بڑی دل چسپی اور شوق سے پڑھی جاتی تھیں۔ نائن الیون کے بعد امریکہ کے عالمی کردار اور مسلمان ملکوں میں اس سے اضطراب و بے چینی کے اسباب پر ان کی ایک کتاب بہت مقبول ہوئی جس کا عنوان ہے ’’امریکہ: مسلم دنیا کی بے اطمینانی (۱۱ ستمبر سے پہلے اور بعد)‘‘۔ ان کا اسلوبِ تحریر بڑا رواں دواں، بہت معلوماتی، مؤثر اور تجزیاتی ہے۔

ان کے ایک شاگرد جناب عارف الحق عارف کے بقول: ’’اگرچہ وہ کئی سالوں سے صاحب فراش تھے اور خود لکھ نہیں سکتے تھے لیکن ان کا ذہن پوری طرح طرح حاضر اور چاک و چوبند کام کر رہا تھا اور ان کی یادداشت حیرت انگیز طور پر تازہ رہتی تھی کہ وہ اس حال میں بھی ماہ نامہ ترجمان القرآن کے لئے اشارات اسی طرح قلمبند کرتے تھے جس طرح وہ پہلے ہمیشہ علمی حوالوں اور واقعات کی ترتیب کے ساتھ سپرد قلم کرتے تھے‘‘۔

پروفیسر خورشید احمد نے کئی سالوں تک تدریس بھی اور کئی یونیورسٹیوں میں پڑھایا، جن میں کراچی یونیورسٹی کے علاوہ اسلام آباد کی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، جہاں وہ بین الاقوامی انسٹیٹیوٹ آف اکنامکس کے چیئرمین رہے، اور کنگ عبد العزیز یونیورسٹی جدہ، جس کے وہ وائس پریزیڈنٹ رہے، شامل ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستان کے معروف عالمِ دین مفتی محمد تقی عثمانی نے بھی ان سے معاشیات پڑھی تھی۔

خورشید صاحب ان چھ لوگوں میں شامل تھے جو مولانا مودودی کے بے حد قریب رہے اور ان سے خصوصی استفادہ و تربیت پائی، جن میں:

اول شاعر و ادیب و انشاء پرداز اور خطیب نعیم صدیقی جو مولانا مودودی کے نمبر ایک ترجمان اور دفاع کرنے والے تھے۔ بعد میں جماعت کے امیر قاضی حسین احمد سے اختلافات کے نتیجہ میں وہ جماعت سے الگ ہو گئے تھے اور انہوں نے ’’تحریکِ احیاء فکرِ مودودی‘‘ قائم کی تھی جو غالباً ان کے انتقال کے ساتھ ہی ختم ہو گئی۔

دوسرے خرم جاہ مراد جنہوں نے مولانا مودودی کے علاوہ مولانا اشرف علی تھانوی کی تحریروں سے خاص طور پر استفادہ کیا۔

تیسرے پروفیسر عبد الحمید صدیقی نے مدتوں ترجمان القرآن کے اشارات لکھے اور مولانا مودودی کی زندگی میں لکھے۔

چوتھے خورشید صاحب کے ہم درس و ہم مشرب انگریزی کے ادیب ظفر اسحاق انصاری تھے جو قائد اعظم کے پرائیویٹ سیکریٹری اور اعلیٰ پائے کے دانشور مولانا ظفر احمد انصاری کے بیٹے تھے۔ ظفر اسحاق انصاری نے ’’تفہیم القرآن‘‘ کو انگریزی میں منتقل کیا ہے۔ راقم نے 2011ء میں انٹرنیشنل اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے ادارہ تحقیقِ اسلامی کی عالمی سیرۃ کانفرنس میں شرکت کے لیے جب پاکستان کا سفر کیا تھا تو اس وقت ادارہ تحقیقِ اسلامی کے سربراہ پروفیسر ظفر اسحاق انصاری ہی تھے۔ اس موقع پر ان سے نیاز حاصل ہوئی۔ بڑے خلیق، متواضع اور نفیس انسان تھے۔

اس حلقہ کی پانچویں کڑی ڈاکٹر اسرار احمد تھے جو متحرک تحریکی آدمی اور خطیب تھے مگر جماعت کی انتخابی سیاست سے غیر مطمئن ہو کر جلد ہی اُس سے نکل آئے تھے اور اپنی الگ جماعت تنظیمِ اسلامی قائم کر لی تھی۔

اسی کہکشاں کے چھٹے ستارے پروفیسر خورشید احمد تھے۔ مولانا مودودی کے مکاتیب میں خورشید صاحب کے نام جو مکتوبات ہیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ مولانا ان پر بہت زیادہ اعتماد کرتے تھے اور ان کو بہت عزیز رکھتے تھے۔

پاکستان میں انہوں نے اسلام آباد میں انسٹیٹیوٹ پالیسی اسٹڈیز بنایا جو ملک کا بڑا تھنک ٹینک ہے اور اس ادارہ سے کئی اعلیٰ درجہ کے جرنل شایع ہوتے ہیں۔ یوکے میں پروفیسر خورشید احمد نے اسلامک فاؤنڈیشن کی بنیاد رکھی جو آج اس ملک میں مسلمانوں کا بڑا دعوتی، سماجی اور تحقیقی ادارہ ہے اور ایک تِھنک ٹینک کے بطور کام کر رہا ہے۔ بین المذاہب مذاکرات کی طُرح بھی خورشید صاحب نے اس ادارہ کے ذریعہ ڈالی۔ اسی ادارہ نے مارک فیلڈ میں ایک اعلیٰ تعلیمی ادارہ بھی قائم کیا ہے جو مغرب میں اسلامی معاشیات اور فائنانس کی تعلیم دینے والا پہلا ادارہ ہے۔ یہ ادارے ملت کو اُن کی سب سے بڑی دَین ہیں اور ان کے لیے صدقۂ جاریہ۔ ان دونوں اداروں کے علاوہ وہ ملک و بیرونِ ملک کے متعدد اداروں، تنظیموں اور مجلات کے مشیر یا ایڈوائزری بورڈ کے رکن تھے۔

ہمارے ایک فاضل دوست جو اِن دنوں ترکی میں پڑھا رہے ہیں، انہوں نے بتایا کہ پروفیسر خورشید احمد پر ایک ترکی اسکالر نے، جو اس وقت جرمنی میں ہیں، پی ایچ ڈی کی ہے۔ مزید معلومات کرنے پر پتہ چلا کہ ان پر ملائشیا، ترکی اور جرمنی کی ممتاز جامعات میں پی ایچ ڈی کے مقالات لکھے گئے ہیں۔ 1970ء میں تعلیم پر لیسسٹر یونیورسٹی (برطانیہ) نے، 1982ء میں ان کی تعلیمی و تحقیقی خدمات کے اعتراف میں ملائے یونیورسٹی آف ملائشیا نے، اور 2006ء میں نیشنل یونیورسٹی ملائشیا نے انھیں اسلامی معاشیات پر پی ایچ ڈی کی اعزازی سندیں دیں۔

پاکستان ہی کے ایک بڑے قد کے عالم و دانشور ڈاکٹر محمود احمد غازی بھی ان کی تعریف میں رطب اللسان رہتے اور ان کو بھائی خورشید اور ’’مجاہد‘‘ کے لقب سے یاد کیا کرتے۔ کیونکہ وہ بے پناہ مجاہدہ کرتے تھے، ان کے ساتھ کام کرنے والوں کا کہنا ہے کہ وہ محض پانچ منٹ کا قیلولہ کر کے پھر کام میں لگ جاتے تھے۔

پروفیسر خورشید احمد 1970ء میں برطانیہ منتقل ہو گئے تھے جہاں لیسٹر میں ان کی رہائش گاہ تھی۔ انہوں نے لیسٹر یونیورسٹی کے شعبہ فلسفہ کو جوائن کر لیا تھا جس میں انہوں نے معاصر فلسفہ کی تعلیم کے فرائض انجام دیے۔ ایک صاحب نے لکھا ہے کہ جب مولانا مودودی نے جماعت کی امارت سے معذوری ظاہر کی تو کسی نے سوال کر دیا کہ مولانا آپ نے اپنے پیچھے قیادت کے لیے کسی کو تیار نہیں کیا؟ مولانا نے پُرمزاح جواب دیا: دو تیار کیے تھے ایک اللہ کو پیارے ہو گئے دوسرے لندن کو۔ (پہلے سے ان کی مراد خرم مراد تھے اور دوسرے سے خورشید صاحب)

خورشید صاحب تین بھائیوں میں منجھلے تھے۔ ان سے بڑے بھائی ضمیر احمد ایڈمیرل تھے اور چھوٹے بھائی ڈاکٹر انیس احمد اسلام آباد کی رفاہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر ہیں۔ خورشید صاحب کے تین بیٹے اور تین صاحبزادیاں ہیں۔ ان کی وفات پر پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف، ملائشیا کے وزیراعظم انور ابراہیم اور افغانستان کے رہنما فضل الہادی وزین نے ان کو خراجِ عقیدت پیش کیا۔

پروفیسر خورشید احمد کی رحلت ایک بڑے آدمی کی رحلت ہے اور امت کی سطح پر بڑا خسارہ۔ کسی عربی شاعر کا یہ شعر ان پر پوری طرح فٹ آتا ہے: وماکان قیس ہلکہ ہلک واحد ولکنہ بنیان قوم تہدما کہ ان کا جانا کسی ایک آدمی کا جانا نہیں بلکہ اس سے ایک قوم کی عمارت ڈھ گئی ہے۔ یعنی خورشید صاحب جیسے لوگوں کا خیر صرف جماعتی دائرہ تک محدود نہیں ہوتا بلکہ وہ پورے معاشرے کو محیط ہوتا ہے اور ایک عہد کو متاثر کرتا ہے، دوسرے لفظوں میں کہہ لیں کہ ؎

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

اللہ تعالیٰ امت کو ان کا نعم البدل عطا فرمائیں، آمین۔

شخصیات

(الشریعہ — مئی ۲۰۲۵ء)

ماہانہ بلاگ

شملہ معاہدے سے نکلنے کے فوائد
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

بھارت کا وقف ترمیمی ایکٹ: جب بیوروکریٹس موجود ہوں تو بلڈوزرز کی کیا ضرورت؟
الجزیرہ

پاکستان کا ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کا طریقہ خطرناک ہے۔
الجزیرہ

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ٹیرفس: وائیٹ ہاؤس کا موقف اور وزیراعظم سنگاپور کی تقریر
سی بی ایس نیوز
لارنس وانگ

جہاد فرض ہے اور مسلم حکومتوں کے پاس کئی راستے ہیں
مولانا مفتی محمد تقی عثمانی

المیۂ فلسطین اور قومی کانفرنس اسلام آباد کا اعلامیہ
مولانا مفتی منیب الرحمٰن

فلسطین پاکستان کا اساسی مسئلہ ہے
مولانا فضل الرحمٰن

امریکہ کا عالمی کردار، اسرائیل کی سفاکیت، اہلِ غزہ کی استقامت: ہماری ذمہ داری کیا ہے؟
حافظ نعیم الرحمٰن

فلسطینی پاکستان کے حکمرانوں سے توقع رکھتے ہیں
لیاقت بلوچ

اہلِ فلسطین کی نصرت کے درست راستے
علامہ ہشام الٰہی ظہیر

قومی فلسطین و دفاعِ پاکستان کانفرنس: تمام جماعتوں کا شکریہ!
مولانا قاری محمد حنیف جالندھری
مولانا حافظ نصر الدین خان عمر

فلسطین کے ہمارے محاذ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مولانا زاہد الراشدی کا ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن میرپور آزادکشمیر کے فلسطین سیمینار سے خطاب
مفتی محمد عثمان جتوئی

غزہ کی تازہ ترین صورتحال اور نیتن یاہو کے عزائم
مولانا فتیح اللہ عثمانی

حالیہ فلسطین جنگ میں شہید ہونے والے جرنلسٹس
الجزیرہ

’’میں نے پاکستان بنتے دیکھا‘‘
پروفیسر خورشید احمد
اظہر نیاز

پروفیسر خورشید احمدؒ کی رحلت: صدی کا بڑا انسان
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

پروفیسر خورشید: جہانگیر و جہانبان و جہاندار و جہاں آرا
ڈاکٹر شہزاد اقبال شام

پروفیسر خورشید احمدؒ کی وفات
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

’’آسان تفسیرِ قرآن‘‘
مولانا مفتی محمد تقی عثمانی

حکمران کے دس حقوق
مولانا مفتی عبد الرحیم
مفتی عبد المنعم فائز

رسالتِ محمدیؐ کی تئیس سالہ کامیاب تبلیغ
علامہ ڈاکٹر خالد محمودؒ

اسلامی نظریاتی کونسل، دستوری تاریخ کے آئینے میں
اسلامی نظریاتی کونسل

مطبوعات

شماریات

Flag Counter