وائیٹ ہاؤس کا موقف
مائیکل جارج: نیٹلی برانڈ وائٹ ہاؤس سے ہمارے ساتھ شامل ہو رہی ہیں اس سلسلہ میں۔ نیٹلی، صبح بخیر، مارکیٹوں میں اتنے اتار چڑھاؤ کی صورتحال میں صدر اپنے ٹیرفس (اعلان کردہ محصولات) کے بارے میں کیا کہہ رہے ہیں؟
نیٹلی برانڈ: صبح بخیر مائیکل، جی ہاں، صدر اپنی ٹیرفس کی حکمتِ عملی کا مضبوطی سے دفاع کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ یہ امریکہ اور دیگر ممالک چین اور یورپی یونین وغیرہ کے درمیان بڑے تجارتی خسارے کو دور کرنے کے لیے ہے۔ صدر نے مارکیٹ پر دباؤ ڈالا ہے، آپ کو معلوم ہے مارکیٹ میں وہ گراوٹ جو ہم نے گزشتہ ہفتے بڑے ٹیرفس کے اعلان کے بعد دیکھی، ان سے ایک رپورٹر نے ایئرفورس ون پر واشنگٹن واپس جاتے ہوئے یہ بھی پوچھا کہ کیا کوئی ایسی خاص لمٹ ہے جس سے آگے وہ مارکیٹوں کے حوالے سے نہیں جانا چاہیں گے؟ انہوں نے یہ کہا:
’’میں نہیں چاہتا کہ کچھ بھی نیچے جائے، لیکن بعض اوقات کسی چیز کو ٹھیک کرنے کے لیے دوا لینی پڑتی ہے۔ ہمارے ساتھ دوسرے ممالک نے بہت برا سلوک کیا ہے کیونکہ ہماری قیادت بے وقوف تھی جس نے ایسا ہونے دیا۔‘‘
صدر نے امریکہ سے باہر چلی جانے والی ملازمتوں اور صنعتوں کے بارے میں بھی بات کی۔ انہوں نے کہا کہ ان کا مقصد یہاں انہیں واپس لانا، سرمایہ کاری واپس لانا، اور ان ٹیرفس کے ذریعے آمدنی میں اضافہ کرنا ہے۔ اور انہوں نے کہا کہ مارکیٹ میں جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں اس کے باوجود بالآخر صورتحال سیدھی ہو جائے گی۔ لیکن مائیکل، اس کے باوجود معاشی ماہرین، کاروباری اداروں اور تجارتی تنظیموں کو خدشہ ہے کہ یہ محصولات تجارتی جنگ کو مزید بڑھانے کا باعث بن سکتے ہیں۔
مائیکل جارج: میرے خیال میں بہت سے امریکی جاننا چاہتے ہیں کہ یہ سلسلہ کب تک چلے گا۔ کیا صدر اس نتیجے کو حاصل کرنے کے لیے دوسرے ممالک سے بات چیت کر رہے ہیں؟
نیٹلی برانڈ: جی ہاں، انتظامیہ کے اعلیٰ عہدیداروں نے بتایا ہے کہ گزشتہ ہفتے کے اعلان کے بعد 50 سے زائد ممالک نے رابطہ کیا ہے۔ صدر ایشیا اور یورپ کے رہنماؤں سے بات کر رہے ہیں۔ لیکن بنیادی طور پر انتظامیہ اور صدر کا کہنا ہے کہ ٹیرفس (کا مسئلہ) کم از کم چند ہفتوں کے لیے موجود رہے گا۔
جیسا کہ میں نے کہا، ان کا مقصد عالمی تجارتی نظام کو دوبارہ ترتیب دینا ہے۔ اور جبکہ ماہرینِ معیشت پُرامید ہیں کہ معاہدے وجود میں آئیں گے، صدر نے ایئر فورس ون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ تب تک معاہدے نہیں کریں گے جب تک کہ امریکہ اور ان ممالک کے درمیان تجارتی خسارے کی (کمی کی) طرف پیشرفت نہ ہو، وہ ممالک جو تجارتی خسارے کے اعداد و شمار کی فہرست میں سب سے اوپر ہیں۔ لہٰذا، بہت کچھ سامنے آنا باقی ہے۔ یاد رہے، نئے دوطرفہ ٹیرفس اس ہفتے کے دوران 9 اپریل کو نافذ ہونے والے ہیں۔
مائیکل جارج: ٹھیک ہے، وائٹ ہاؤس سے نیٹلی برانڈ، ہمارے ساتھ شامل ہونے کے لیے شکریہ۔
www.youtu.be/3glJdm0ILYc
وزیر اعظم سنگاپور کی تقریر
جناب اسپیکر! کچھ عرصہ سے یہ بات ہمارے علم میں ہے کہ دنیا تبدیلی سے دوچار ہو رہی ہے، مانوس علامات مدھم ہو رہی ہیں، اور نئے عالمی نظام کے خدوخال ابھی تک واضح نہیں ہوئے۔ اس لیے ہم ایک عبوری دور میں ہیں جو غیر یقینی ہے، غیر مستحکم ہے اور مسلسل ناپائیدار ہو رہا ہے۔
امریکہ کی طرف سے ’’یومِ آزادی ٹیرفس‘‘ (درآمدی ٹیکس) کے حالیہ اعلانات اس تلخ حقیقت کی تصدیق کرتے ہیں۔ قواعد پر مبنی عالمگیریت اور آزاد تجارت کا دور ختم ہو چکا ہے۔ یہ ایک بڑا موڑ ہے، ہم عالمی معاملات میں ایک نئے مرحلے میں داخل ہو رہے ہیں جو زیادہ من مانی والا، تحفظ پسندانہ اور خطرناک ہے۔
دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد تقریباً 80 سالوں تک امریکہ دنیا کی آزاد منڈی کی معیشتوں کا محور رہا۔ اس نے آزاد تجارت اور کھلی منڈیوں کی حمایت کی اور کثیر الجہتی تجارتی نظام کی تعمیر کے لیے کوششوں کی قیادت کی۔ اس WTO (ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن) کے نظام نے دہائیوں پر مشتمل عالمی ترقی اور استحکام کا آغاز کیا۔ اس نے تجارت کو قابلِ فروغ بنایا اور لاکھوں لوگوں کو غربت سے نکالا۔ اس نے دنیا کو فائدہ پہنچایا اور امریکہ کی اپنی اقتصادی قوت میں حصہ ڈالا۔ صورتحال یہ ہے کہ امریکہ اب بھی بے مثال اقتصادی طاقت سے لطف اندوز ہو رہا ہے۔ اور حقیقت میں امریکہ کوویڈ وبا سے دیگر ترقی یافتہ معیشتوں کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے بحال ہوا۔ وہ ترقی یافتہ صنعتی دنیا میں اپنے تمام بڑے حریفوں سے آگے نکل چکا ہے۔
لیکن تمام امریکی اپنی معیشت کے بارے میں ایسا محسوس نہیں کرتے ہیں۔ وہاں ایسے ویران شہر ہیں جو کبھی امریکہ کے پھلتے پھولتے صنعتی مراکز ہوا کرتے تھے۔ ایسے کارکن ہیں جن کی ملازمتیں غائب ہو گئی ہیں اور جن کی آمدنی جمود کا شکار ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ امریکی معیشت بنیادی طور پر ختم چکی ہے۔ یہ عدمِ اطمینان 1990ء کی دہائی میں ہی نظر آ رہا تھا جب مظاہرین نے سیاٹل میں WTO کے اجلاس میں خلل اندازی کی۔ 2008ء کے عالمی مالیاتی بحران کے بعد اور حال ہی میں کوویڈ وبا کے بعد مایوسیوں میں اضافہ ہوا۔
واضح رہے کہ عالمی اقتصادی نظام میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔ سنگاپور اور بہت سے دوسرے ممالک نے تبدیلیوں کا مطالبہ کیا ہے اور ہم WTO میں ہم خیال ممالک اور شراکت داروں کے ساتھ مل کر اس کے طریقہ ہائے کار میں اصلاحات کے لیے کام کر رہے ہیں۔
امریکہ کے لیے ایک بڑی تشویش چین ہے۔ یہ احساس کہ امریکہ نے چین کو WTO میں شامل ہونے کی اجازت دے کر کچھ زیادہ ہی کر دیا ہے، اور یہ کہ چین غیر منصفانہ بنیادوں پر مقابلہ کرتا ہے، مثال کے طور پر، اپنی کمپنیوں کو بھاری سبسڈی دے کر، بغیر ٹیکس کا نظام قائم کر کے، اور امریکی فرموں کے لیے مارکیٹ تک رسائی کو محدود کر کے۔ ان خدشات کو WTO کے فریم ورک کے اندر حل کیا جانا چاہیے۔ خاص طور پر (اس تناظر میں کہ) ماضی میں چین عالمی معیشت کا صرف 5 فیصد تھا، تب کیے گئے تجارتی انتظامات اور مراعات کو اپ ڈیٹ کیا جانا چاہیے، کیونکہ اب چین عالمی جی ڈی پی کا 15 فیصد ہے۔ اور اگر اختلافات ہیں تو انہیں WTO کے تنازعات کے تصفیے کے نظام کے ذریعے حل کیا جانا چاہیے، جو کہ جامد ہو چکا ہے اور اسے فوری طور پر بحال کرنے اور اس کی اصلاح کرنے کی ضرورت ہے۔
لیکن امریکہ جو اَب کر رہا ہے وہ اصلاح نہیں ہے، وہ اس نظام کو ہی مسترد کر رہا ہے جسے اس نے خود بنایا تھا۔ امریکہ نے تقریباً تمام ممالک کے لیے درآمدات پر 10% کا عمومی ٹیرف نافذ کیا ہے۔ اس کے علاوہ اس نے منتخب ممالک پر 50% تک زیادہ ٹیرف بھی لگائے ہیں، خاص طور پر وہ ممالک جن کا امریکہ کے ساتھ تجارتی سرپلس ہے (جو برآمد زیادہ کرتے ہیں اور درآمد کم)۔ انتظامیہ کے مطابق امریکہ کے تجارتی عدمِ توازن کو ٹھیک کرنے کے لیے یہ وسیع ٹیرف ضروری ہیں۔
حالانکہ تجارتی خسارہ ہونا کوئی ایسی بڑی بات نہیں ہے، اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ امریکی صارفین دنیا سے جتنا خرید رہے ہیں، امریکہ سے دنیا اس سے کم خرید رہی ہے۔
اس کے علاوہ توجہ صرف اشیاء کی تجارت پر مرکوز کی گئی ہے، جو صرف ایک جزوی تصویر پیش کرتی ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ اپنے بہت سے تجارتی شراکت داروں کے ساتھ سروسز کے شعبے میں سرپلس رکھتا ہے۔ وہ سافٹ ویئر سروسز، تعلیم، تفریح، مالیات اور کاروباری سروسز برآمد کرتا ہے، لیکن اس حقیقت کو مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا ہے۔
سنگاپور کے معاملے میں، امریکہ کے ساتھ ہمارا FTA (فری ٹریڈ ایگریمنٹ) ہے۔ ہم امریکی درآمدات پر صفر ٹیرف لگاتے ہیں اور درحقیقت ہمارا امریکہ کے ساتھ تجارتی خسارہ ہے، یعنی ہم ان سے جتنا خریدتے ہیں وہ ہم سے اس سے کم خریدتے ہیں۔ اگر ٹیرف واقعی دو طرفہ ہوتے اور ان کا ہدف بس وہی ممالک ہوتے جن کا تجارتی سرپلس ہے، تو سنگاپور کے لیے ٹیرف صفر ہونا چاہیے تھا، لیکن پھر بھی ہم پر 10 فیصد ٹیرف لگایا جا رہا ہے۔ ہم امریکہ کے اس اقدام سے بہت مایوس ہیں، خاص طور پر دونوں ممالک کے درمیان ہماری گہری اور دیرینہ دوستی کو دیکھتے ہوئے یہ وہ اقدامات نہیں ہیں جو کسی دوست کے ساتھ کیے جاتے ہیں۔
امریکہ کے ٹیرف میں اضافے کا بوجھ ایشیا پر پڑ رہا ہے جہاں چین سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے، اور اس بار اسے 34 فیصد ٹیرف کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اور یہ پچھلے دو مہینوں میں لگائے گئے 20 فیصد ٹیرف میں اضافہ اور پہلی ٹرمپ انتظامیہ کے 20 فیصدکے علاوہ ہے۔ اس طرح مجموعی طور پر چینی مصنوعات پر اوسط امریکی ٹیرف اب 60 فیصد سے تجاوز کر گیا ہے۔ جنوب مشرقی ایشیا میں ٹیرف کی شرحیں 10 سے 49 فیصد تک ہیں۔
یہ اقدامات عالمی معیشت کو کمزور کرنے کا عمل تیز کریں گے۔ سرمایہ اور تجارت، اقتصادی کارکردگی کی بنیاد پر فروغ پانے کے بجائے سیاسی صف بندی اور تزویراتی تحفظات کی بنیاد پر طے پانا شروع ہو جائیں گے۔
متعدد اراکین نے سنگاپور میں مخصوص صنعتوں پر ٹیرف کے اثرات کے بارے میں پوچھا ہے۔ ہم صورتحال کا بغور جائزہ لے رہے ہیں، لیکن ہماری زیادہ تر تشویش ان کاروباروں کو درپیش براہ راست اثرات نہیں ہیں، بلکہ عالمی تجارتی نظام اور عالمی معیشت کے لیے وسیع تر مضمرات ہیں۔ تو آئیے میں وضاحت کرتا ہوں۔
اول، دوطرفہ ٹیرف بنیادی طور پر WTO کے قواعد کو مسترد کرنا ہے۔ WTO کے کثیر الجہتی تجارتی نظام کے بنیادی ستونوں میں سے ایک اصول ’’پسندیدہ ترین قوم‘‘ یا MFN ہے۔ بظاہر اس کا مطلب ایسی قوم کو خصوصی مراعات دینا لگتا ہے، درحقیقت اس کا مطلب الٹ ہے، کہ ہر رکن کو دوسرے تمام اراکین کے ساتھ مساوی سلوک کرنا چاہیے۔ دوسرے لفظوں میں، اگر کوئی ملک کسی تجارتی شراکت دار کو زیادہ سازگار شرائط فراہم کرتا ہے، یا اضافی پابندیاں عائد کرتا ہے، تو اسے دوسرے تمام WTO اراکین کے ساتھ بھی ایسا ہی کرنا چاہیے۔ MFN کے اصول میں کچھ استثنیٰ اور مستثنیات ہیں، مثال کے طور پر آزاد تجارتی معاہدوں کی اجازت دینا، لیکن یہ اصول طویل عرصے سے کثیر الجہتی تجارتی نظام کی بنیاد رہا ہے۔ یہ مساوی میدان کو یقینی بناتا ہے، امتیازی سلوک کو روکتا ہے، اور بڑے یا چھوٹے ممالک کو عالمی منڈیوں میں منصفانہ طور پر مقابلہ کرنے کے قابل بناتا ہے۔ اس نے 100 سے زائد WTO اراکین کے درمیان آزاد تجارت قائم کرنے میں مدد دی ہے، جن میں سے ہر ایک کے مختلف اقتصادی، سیاسی اور سماجی رجحانات ہیں۔
امریکہ کا نیا ٹیرف نظام MFN اصول کی مکمل تردید ہے۔ یہ یکطرفہ ترجیحات پر مبنی ہر ملک کے ساتھ الگ تجارتی تعلقات کا سلسلہ ہے۔ اگر دوسرے ممالک بھی امریکہ کی طرح کا نقطہ نظر اپناتے ہیں تو قواعد پر مبنی تجارتی نظام ختم ہو جائے گا۔ یہ تمام ممالک کے لیے پریشانی کا باعث بنے گا، لیکن سنگاپور جیسے چھوٹے ممالک کو زیادہ دباؤ کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ چھوٹے ممالک کے پاس دو طرفہ (بغیر تنظیمی قواعد) مذاکرات میں سودے بازی کی طاقت محدود ہوتی ہے۔ اس طرح بڑی طاقتیں شرائط کا تعین کریں گی اور ہمارے لیے محدود اور نظر انداز ہونے کا خطرہ پیدا ہو جائے گا۔
دوم، ایک بڑی عالمی تجارتی جنگ کے امکانات بڑھ رہے ہیں۔ سنگاپور نے جوابی ٹیرف نہ لگانے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ ایسا کرنے سے سنگاپوریوں کی قیمت خرید میں اضافہ ہوگا۔ لیکن ضروری نہیں کہ دوسرے ممالک بھی انہی تحفظات کو پیش نظر رکھیں، ان کے تصورات اور خیالات مختلف ہو سکتے ہیں۔ چین نے پہلے ہی امریکی سامان پر جوابی ٹیرف عائد کر دیے ہیں۔ یورپی یونین جیسے دوسرے ممالک اپنے اگلے اقدامات پر غور کر رہے ہیں۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ نئے ٹیرف دراصل دوسرے شعبوں میں مفادات کے حصول کے لیے امریکہ کا مذاکراتی حربہ ہیں۔ 1971ء میں صدر رچرڈ نکسن نے یہی کیا تھا۔ انہوں نے جرمنی اور جاپان پر دباؤ ڈالنے کے لیے درآمدات پر 10 فیصد سرچ چارج لگایا تاکہ وہ اپنی کرنسیوں کی قدر کم کریں، اور جب انہوں نے ایسا کر دیا تو ٹیرف ہٹا دیے گئے۔
اگرچہ ممالک کے پاس بڑے ٹیرف کے نافذ ہونے سے پہلے مذاکرات کرنے اور امریکہ سے کچھ رعایت حاصل کرنے کا کچھ موقع ہے، اور یہ ممکن ہے کہ کچھ شرحوں کو کم کر دیا جائے، لیکن ہمیں حقیقت پسندانہ ہونا پڑے گا، ایک بار جب تجارتی پالیسیاں نافذ ہو جائیں تو وہ برقرار رہتی ہیں، انہیں واپس کرنا بہت مشکل ہوتا ہے، چاہے ان کے نفاذ کی اصل وجہ موجود نہ رہے، چاہے کچھ جزوی مسائل بالآخر طے پا جائیں۔
ایسے سخت اقدام سے پیدا ہونے والی غیر یقینی صورتحال عالمی اعتماد اور ترقی کو کمزور کرے گی، سابقہ کیفیت کو بحال کرنا بہت مشکل ہوگا، اور بالخصوص ایسا نہیں لگتا کہ 10 فیصد کی بین الاقوامی شرح پر مذاکرات کی گنجائش موجود ہے، یہ کسی بھی ملک کے تجارتی توازن یا موجودہ تجارتی انتظامات سے قطع نظر کم از کم ٹیرف معلوم ہوتا ہے۔
مزید یہ کہ ایسی دیگر قوتیں بھی ہیں جو ٹیرف کا یہ سلسلہ اپنا سکتی ہیں۔ خاص طور پر بہت سے یورپی ممالک اپنی اہم صنعتوں جیسے الیکٹرک گاڑیاں، گرین ٹیکنالوجیز، اور سیمی کنڈکٹرز کو چین کے مقابلے سے بچانے کے لیے فکرمند ہیں۔ وہ چین یا دیگر ممالک کی طرف سے درآمدات کا ڈھیر نہیں لگانا چاہتے۔ مغرب میں اپنی مقامی صنعتوں کی کارکردگی مضبوط کرنے اور عالمی رسد پر انحصار کم کرنے کے لیے ایک بڑھتا ہوا دباؤ موجود ہے، خاص طور پر تزویراتی صنعتوں میں۔
اس لیے امریکہ کی طرف سے ٹیرف میں اضافے کا یہ حالیہ سلسلہ عالمی سطح پر مزید اضافے کا آغاز ثابت ہو سکتا ہے۔ اور ہم نے یہ پہلے بھی ہوتے دیکھا ہے۔ امریکہ نے 1930ء میں ’’سموتھ ہولی ایکٹ‘‘ کے ذریعے وسیع پیمانے پر ٹیرف میں اضافہ کیا۔ بہت سے ممالک نے احتجاج کیا اور متعدد نے اپنی تجارتی پابندیوں اور ٹیرف کے ذریعے جوابی کارروائی کی۔ یہ سلسلہ کساد بازاری میں اضافے اور طوالت کا باعث بنا۔ آج کا یہ خطرہ کچھ حوالوں سے اور زیادہ ہو سکتا ہے۔ نئے امریکی ٹیرف اگر مکمل طور پر نافذ کیے جاتے ہیں تو ’’سموتھ ہولی‘‘ کے ٹیرف سے زیادہ ہیں۔ 1930ء کی دہائی کے مقابلے میں تجارتی سرگرمیاں اب امریکی اور عالمی معیشت کا بہت بڑا حصہ ہے، سپلائی چینز بھی اس وقت کے مقابلے میں زیادہ مربوط ہیں، اس لیے تجارتی بہاؤ میں کسی بھی قسم کی رکاوٹ کا دنیا پر وسیع اثر پڑے گا۔
اب میں تیسرے نکتے پر آتا ہوں جو کہ عالمی معیشت پر اس کے اثرات ہیں۔ ٹیرف سے کاروباروں اور صارفین کے اعتماد کو پہلے ہی ٹھیس پہنچی ہے، بین الاقوامی تجارت اور سرمایہ کاری کو نقصان پہنچے گا۔ ہمارے اقتصادی اداروں نے ٹیرف کے اعلان کے بعد متعدد بین الاقوامی اداروں اور مقامی کاروباروں سے رابطہ کیا۔ یہاں تک کہ وہ لوگ جو براہ راست ٹیرف سے متاثر نہیں ہوئے ہیں، وہ بھی اپنے صارفین کی طرف سے کاروبار کم ہونے کے بارے میں فکر مند ہیں۔ کچھ لوگوں نے نئے منصوبوں کو روک دیا ہے اور ٹیرف کے مکمل مضمرات کا جائزہ لے رہے ہیں۔
یہ ردعمل یہاں کی کمپنیوں کے ہیں، لیکن مجھے یقین ہے کہ دیگر (ممالک کی کمپنیوں کے) دفاتر میں بھی یہی کچھ زیر بحث ہے۔ حالیہ دنوں میں ہم نے عالمی اسٹاک مارکیٹوں میں تیز منفی ردعمل دیکھا ہے۔ فوری طور پر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس کے اثرات اصل معیشت میں پھیل جائیں گے، لیکن منفی خطرات واضح طور پر بڑھ رہے ہیں۔
پریشان کن بات صرف ٹیرف ہی نہیں ہیں، جو کہ اپنی جگہ نقصان دہ ہیں، بلکہ یہ حقیقت بھی ہے کہ تحفظ پسندی کی یہ نئی لہر غیر متوقع اور غیر مستحکم ہے۔ تحفظ پسندی پہلے ہی بری چیز ہے، غیر مستحکم تحفظ پسندی اس سے بھی بدتر ہے۔ کاروبار نہیں جانتے کہ کیا توقع کرنی ہے، بہت سے لوگ خوفزدہ ہیں کہ بدلتے ہوئے قوانین کی وجہ سے وہ اپنے اثاثوں کے ساتھ پھنس جائیں گے۔ اور یہ ساری صورتحال بہت غیر یقینی ماحول پیدا کرتی ہے جو امریکہ اور عالمی معیشت دونوں کو کساد بازاری کی طرف لے جا سکتا ہے۔
اس کے نتائج معیشت سے کہیں آگے ہیں۔ دو طرفہ تعاون اور گہری شراکت داری سے منہ موڑنے والے ممالک کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ اس کے بجائے ہمیں ’’میں پہلے‘‘ اور ’’ہار جیت‘‘ کی بڑھتی ہوئی ذہنیت نظر آ رہی ہے جس میں ہر ملک اپنی فکر کرے گا۔ کچھ لوگ دوسروں کے سر پر اپنی مرضی پوری کرنے کی غرض سے جارحانہ یا جبر کے ذرائع استعمال کرنے کے لیے بھی تیار ہیں، جبکہ عالمی ادارے کمزور ہو رہے ہیں اور تعاون کے دیرینہ اصول ٹوٹ رہے ہیں۔
ایک بڑی تشویش امریکہ اور چین کے تعلقات ہیں۔ امریکہ چین کو ایسا تزویراتی حریف اور خطرہ سمجھتا ہے جس سے ابھی نمٹنا اس کے نزدیک ضروری ہے کہ امریکہ کو ابھی بھی برتری حاصل ہے۔ چین کا کہنا ہے کہ وہ ٹیرف جنگ، تجارتی جنگ، یا کسی بھی قسم کی جنگ کے لیے تیار ہے۔ امریکہ نے اب چین پر اضافی 50 ٹیرف کی دھمکی دی ہے، اور چین کا کہنا ہے کہ وہ آخر تک لڑے گا۔ جبکہ باہمی بات چیت کے ایسے ذرائع کم ہیں جو تعلقات کو سنبھالنے کے لیے محفوظ فریم ورک فراہم کر سکیں۔ چنانچہ اگر تنازعات بڑھتے ہیں اور امریکہ چین تعلقات کو غیر مستحکم کرتے ہیں تو دنیا کے لیے اس کے نتائج تباہ کن ہوں گے، ہمیں ذہنی طور پر تیار رہنا چاہیے۔
قابلِ یقین اور قواعد پر مبنی نظام، جسے ہم کبھی جانتے تھے، اب وہ مدھم ہو رہا ہے۔ نیا دور زیادہ اتار چڑھاؤ والا ہوگا جس میں بار بار اور غیر متوقع جھٹکے اور زیادہ آئیں گے۔ ہمیں مضبوطی سے کھڑے ہونے اور اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے تیار رہنا چاہیے، چاہے بیرونی ہوائیں کیسی ہی چلیں۔
سنگاپور کے لیے یہ سب کیا معنی رکھتا ہے؟ قریبی مدت میں ہمیں عالمی سطح پر تجارت کے کم ہونے کا خدشہ ہے، جس کا مطلب ہے کہ ہماری اشیاء اور خدمات کی بیرونی مانگ کم ہو جائے گی۔ ہماری معیشت کے برآمداتی حوالوں سے قائم شعبے ان اثرات کا زیادہ تر بوجھ برداشت کر لیں گے۔ ان میں مینوفیکچرنگ، خاص طور پر الیکٹرانکس اور سیمی کنڈکٹرز جیسے شعبے، بائیو میڈیکل سائنس، جن کی امریکہ کو برآمدات زیادہ ہیں، تھوک پیمانے کی تجارت اور ٹرانسپورٹ متاثر ہوں گے۔ عالمی سطح پر غیر یقینی اور مایوسی کی صورتحال سے سروسز کی کچھ صنعتیں بشمول فنانس اور انشورنس بھی متاثر ہوں گی۔
سنگاپور اس سال کساد بازاری کا شکار ہو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی، لیکن مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری ترقی نمایاں طور پر متاثر ہوگی۔ ہم نے اصل میں 2025ء کے لیے GDP کی شرح نمو 1 سے 3 فیصد تک پیشگوئی کی تھی۔ MTI (وزارت تجارت اور صنعت) ترقی کی پیشگوئی کا دوبارہ جائزہ لے رہی ہے اور ممکنہ طور پر اسے کم کر دے گی۔ سست ترقی کا مطلب ملازمین کے لیے ملازمت کے مواقعوں اور اجرت میں اضافوں کی کمی ہو گی۔ اور اگر مزید کمپنیوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے یا وہ اپنا کاروبار واپس امریکہ منتقل کرتی ہیں تو زیادہ بیروزگاری ہو گی اور ملازمتوں کا نقصان ہوگا۔
فی الحال اس سال کے بجٹ میں اعلان کردہ اقدامات کسی بھی قلیل مدتی دباؤ کو سنبھال لیں گے۔ ہمارے پاس گھرانوں اور افراد کے لیے اقدامات کا ایک جامع پیکیج ہے۔ انہیں CDC واؤچرز، SG60 واؤچرز، اور U-Save ریبیٹس (ری فنڈ) ملیں گے، تاکہ ان کے زندگی کے اخراجات میں مدد کی جا سکے۔ اور زیادہ کمزور طبقات کے لیے ComCare امداد میں اضافے جیسے مخصوص اقدامات ہیں۔ ہم SkillsFuture میں سرمایہ کاری کے ذریعے ملازمین کی بھی مدد کر رہے ہیں، اور جو لوگ بے روزگار کر دیے جاتے ہیں انہیں سکلز فیوچر کے تحت ملازمت کی تلاش پروگرام کے ذریعے اپنے پیروں پر واپس کھڑے ہونے میں مدد ملے گی، جو کہ اس مہینے کے آخر میں شروع ہو گا۔
ہم نے بجٹ میں کاروباروں کی مدد کے لیے بھی اقدامات شروع کیے ہیں۔ کارپوریٹ انکم ٹیکس ریبیٹس کے ذریعے قلیل مدتی امدادی اقدامات کے ساتھ ساتھ ان کی پیداواری صلاحیت اور مسابقت کو بڑھانے اور نئی منڈیوں کی طرف رخ کرنے کے لیے اسکیمیں بھی موجود ہیں۔ ہماری اقتصادی ایجنسیاں ٹیرف سے متاثرہ فرموں سے بھی رابطہ کر رہی ہیں تاکہ ان کے ردعمل کو بہتر طور پر سمجھ سکیں اور دیکھ سکیں کہ ہم ان کی کس طرح مدد کر سکتے ہیں اور انہیں درپیش مخصوص مسائل میں کیسے ان کے کام آ سکتے ہیں۔
بہرحال صورتحال غیر یقینی ہے اور تیزی سے تبدیل ہو سکتی ہے۔ اس لیے ہم نائب وزیر اعظم گان کم یونگ کی سربراہی میں ایک ٹاسک فورس قائم کریں گے تاکہ کاروباروں اور ملازمین کو فوری غیر یقینی صورتحال سے نمٹنے، ان کی قوتِ بحالی کو مضبوط بنانے، اور نئے اقتصادی ماحول سے بہتر طور پر ہم آہنگ ہونے میں مدد ملے۔ ہماری اقتصادی ایجنسیوں کے علاوہ ٹاسک فورس میں سنگاپور بزنس فیڈریشن، سنگاپور نیشنل ایمپلائرز فیڈریشن، اور این ٹی یو سی (نیشنل ٹریڈ یونین کانگریس) شامل ہوں گے۔ ہم پیشرفت پر گہری نظر رکھیں گے۔ حکومت ضرورت پڑنے پر مزید اقدامات کرنے کے لیے تیار ہے۔ ہمارے پاس ایسا کرنے کے لیے وسائل موجود ہیں کیونکہ ہم نے دہائیوں سے مالیاتی نظم و ضبط اور سمجھداری کا مظاہرہ کیا ہے۔
اس نئے ماحول میں، سنگاپور کو عالمی نظام میں ایک اہم اکائی اور ایک قابل اعتماد کاروباری مرکز کے طور پر رہنے کے لیے اپنی کوششوں کو دوگنا کرنا ہو گا۔ ان ہم خیال شراکت داروں کے ساتھ ہم قریبی روابط قائم کریں گے جو کھلی اور آزاد تجارت کے ساتھ ہماری طرح کی وابستگی رکھتے ہیں۔
امریکہ نے ہو سکتا ہے کہ تحفظ پسند بننے کا فیصلہ کر لیا ہو، لیکن باقی دنیا کو اس راستے پر چلنے کی ضرورت نہیں ہے۔ کثیر الجہتی نظام کی بحالی کو یقینی بنانا اور اس کے حساس شعبوں کو برقرار رکھنا، جبکہ ایک ممکنہ نئے اور مختلف عالمی نظام کی بنیادیں رکھنا جو بعد میں قابل تشکیل ہو، ہم دیکھیں گے کہ کون سے شراکت دار اس مقصد کے لیے ہمارے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں۔ اور اسی لیے میں نے مختلف ممالک میں اپنے ہم منصبوں سے رابطہ کرنے اور ان سے ملنے کی کوشش کی ہے۔
میں نے کل برطانیہ کے وزیر اعظم کیئر سٹارمر سے رابطہ کیا، اور آنے والے ہفتوں میں بات چیت کے چند مزید رابطے طے ہیں۔ وہ سب سنگاپور کے ساتھ مزید کام کرنے اور ڈیجیٹل اور گرین اکانومیز جیسے نئے شعبوں سمیت اقتصادی تعاون کو بڑھانے کے لیے پرجوش ہیں۔
ہم خاص طور پر آسیان (ASEAN) کے اندر اپنے تعاون اور انضمام کو مضبوط کریں گے۔ گزشتہ جمعہ کو میں نے ملائیشیا کے وزیر اعظم انور ابراہیم سے بات کی۔ ملائیشیا اس سال آسیان کا سربراہ بھی ہے۔ ہم نے اپنے خطے کو مزید پرکشش اور مسابقتی بنانے کے لیے آسیان کو منظم کرنے کی کوششیں تیز کرنے پر اتفاق کیا۔ اس ہفتے کے آخر میں اقتصادی وزراء کا ایک خصوصی آسیان اجلاس منعقد کیا جائے گا۔ وہ مزید ایسے طریقوں پر تبادلہ خیال کریں گے جن سے آسیان (کے ارکان) آسیان کی اندرونی تجارت کو مضبوط بنانے کے لیے مل کر کام کر سکتے ہیں، اور علاقائی اقتصادی انضمام کے ساتھ آسیان کی وابستگی کا مضبوط اظہار کر سکتا ہے۔ ایک گروپ کے طور پر آسیان باہمی دلچسپی کے شعبوں میں ہم خیال شراکت داروں کے ساتھ اپنے روابط مضبوط بنانا بھی جاری رکھے گا۔
جناب اسپیکر، ہم ایک تبدیل شدہ دنیا میں داخل ہو رہے ہیں، سنگاپور کے لیے اس بڑھتے ہوتے طوفان سے گزرنے کا واحد راستہ متحد رہنا، اپنے وسائل، اپنی قوتِ بحالی اور اپنے عزم کو مجتمع کرنا ہے۔ سنگاپور کو ان طوفانی پانیوں سے نکالنے اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے حکومت ہر ممکن کوشش کرے گی کہ کوئی پیچھے نہ رہے۔ ہم اپنی معیشت کو کھلا، اپنے معاشرے کو مربوط اور اپنے اداروں کو مضبوط رکھیں گے۔ ہم کاروباروں اور سرمایہ کاروں کے لیے معیارات کو بہتر کرنے کی نئی تجاویز تیار کریں گے۔ ہم ضرورت پڑنے پر جرأتمندانہ اور فیصلہ کن اقدامات کریں گے، تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ سنگاپور کامیابی حاصل کرتا رہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ سنگاپور اور سنگاپوریوں کے مفادات کو ہمارے ہر کام میں مرکزی حیثیت حاصل رہے گی۔ آگے کا راستہ زیادہ مشکل ہوگا، خطرات حقیقی ہیں، لیکن ہمارا عزم بھی اتنا ہی مضبوط ہے۔
60 سال پہلے جب ہم آزاد ہوئے تھے، اس کے مقابلے میں ہم کئی حوالوں سے بہتر پوزیشن میں ہیں۔ ہم نے ایک مشکل حالات کے لیے خاطر خواہ ذخائر تیار کر رکھے ہیں۔ ہم نے یکجہتی اور باہمی اعتماد پر مبنی ایک مضبوط اور مربوط ڈھانچہ بنایا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر ہمارے پاس ہماری ذہانت اور سوچ، ہماری ہمت اور حوصلہ ہے۔ اور ہمارے اعتماد نے ہمیں ہر بحران سے نکالا ہے اور آنے والے بحرانوں سے بھی نکالے گا۔
لہٰذا، جناب اسپیکر، میں اس ایوان اور ساتھی سنگاپوریوں سے کہتا ہوں کہ خوفزدہ نہ ہوں۔ پہلے سے کہیں زیادہ ہم پرعزم اور متحد رہیں گے، ہمارا چھوٹا سرخ نقطہ چمکتا رہے گا۔ سنگاپور ایک تاریک اور پریشان کن دنیا میں استحکام، مقصد اور امید کی علامت کے طور پر اپنی جگہ پر قائم رہے گا۔
شکریہ جناب والا۔