اظہر نیاز: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ میں ہوں اظہر نیاز اور پروگرام ہے ہمارا ’’میں نے پاکستان بنتے دیکھا‘‘ ۔ ہمارے آج کے مہمان ہیں جناب پروفیسر خورشید احمد صاحب، ہمارے لیے بہت ہی سعادت کی بات ہے، انہوں نے بہت ہی مصروف وقت سے ہمارے لیے وقت نکالا، میں سر آپ کا بہت نہایت ممنون ہوں، آپ نے وقت دیا، آپ کی صحت بھی ٹھیک نہیں تھی لیکن اس کے باوجود بھی آپ نے وقت دیا جس کے لیے میں آپ کا جتنا بھی شکریہ ادا کروں کم ہے۔
پروفیسر خورشید احمد: جزاک اللہ جی، بس ٹھیک ہے، میں حاضر ہوں۔
اظہر نیاز: ۲۳ مارچ ۱۹۳۲ء غالباً آپ کی جو ہے تاریخِ پیدائش ہے اور دلی وہ جگہ ہے۔ جب پاکستان بنا تو اس وقت آپ تھے کوئی۔
پروفیسر خورشید احمد: میں پندرہ سال (کا تھا)۔
اظہر نیاز: پندرہ سال، آپ کو تو اچھی طرح یاد ہو گا۔
پروفیسر خورشید احمد: ہر چیز، ہر چیز، بالکل۔
اظہر نیاز: تو ہمارے لیے تو یہ بڑی سعادت کی بات ہے کہ آپ وہ شخصیت ہیں جو یہ کہہ سکتے ہیں کہ میں نے پاکستان بنتے دیکھا۔
پروفیسر خورشید احمد: کوئی شبہ نہیں، میں نے بنتے بھی دیکھا اور ایک نوجوان کی حیثیت سے اس میں حصہ بھی لیا۔
اظہر نیاز: اچھا اب پہلے تو میں تھوڑا سا آپ کے بچپن کے حوالے سے، دلی اس وقت کیسا تھا؟
پروفیسر خورشید احمد: دلی، ہندوستان کا قلب، مسلمانوں کی سلطنت کا دارالخلافہ تقریباً ایک ہزار سال رہا ہے۔ اور ہماری تہذیب، ہماری تاریخ، ہماری روایات، ان کا امین تھا۔ اور گو مسلمان اکثریت میں نہیں تھے، دلی کی آبادی کا تقریباً ایک تہائی مسلمان تھے، لیکن اس کے چپے چپے پر مسلمان تہذیب، اسلامی روایات کی چھاپ تھی۔ البتہ سوسائٹی میں سب موجود تھے، متمول طبقہ، اعلیٰ تعلیم یافتہ، کرخندار جو دلی کی روایتی آبادی کہی جاتی تھی، اپنے زبان کے اعتبار سے وہ بڑے معتبر تھے لیکن ان کا خاص انداز تھا۔ دلی میں (پنجابیوں) کی ایک بڑی آبادی تھی، جن کا اوریجن پنجاب سے تھا لیکن وہ سیٹلڈ دلی میں تھے۔ تو دلی کو سیاسی، معاشی، ادبی، تہذیبی، ہر اعتبار سے مرکز کہا جا سکتا ہے۔
اور پھر یہ زمانہ جسے میں نے بہرحال دیکھا بھی اور ایک حد تک شریک بھی ہوا، وہ بڑا ہنگامہ خیز زمانہ تھا۔ میرا اپنا گھرانہ الحمد للہ ایک اچھا متمول گھرانہ تھا، اعلیٰ تعلیم یافتہ میری فیملی کے ممبر تھے، ہماری عورتوں کی بھی تعلیم کا رواج تھا۔ میری والدہ نے، جو دلی کا سب سے اچھا انگلش میڈیم سکول تھا، اس سے میٹرک کیا تھا، میرے والد نے علی گڑھ یونیورسٹی سے بی اے کیا تھا، میں نے خود اپنی پوری تعلیم جو ہے، وہ کسی privileged ادارے میں نہیں، پرائمری سکول سے شروع کیا میں نے، اس کے بعد پھر قرول باغ جہاں ہم رہتے تھے، مڈل سکول سے مڈل کیا۔ اور مڈل کے بعد پھر میں اینگلوعریبک سکول اجمیری گیٹ۔
اظہر نیاز: اچھا سر، میں چاہوں گا کہ تھوڑا سا اسکولنگ جو ہے، ہمارے اس وقت کی سکولنگ ہے، اس زمانے میں آپ پرائمری میں جا کر داخل ہوئے سکول میں، پانچویں جماعت تک آپ گھر ہی پڑھتے رہے ؟
پروفیسر خورشید احمد: بالکل، میرے زمانے میں چار سال تک پرائمری ہوا کرتی تھی، بعد میں پانچ ہوئی ہے، اور پرائمری کا باقاعدہ امتحان ہوتا تھا، اس کے بعد مڈل تھا۔ تو پانچ سے آٹھ تک مڈل میں، اور پھر نو، دس اور گیارہ سیکنڈری سکول، یہ تھا ہمارا، اس کے بعد پھر کالج۔
اظہر نیاز: اسکول یاد ہے آپ کو پہلا اپنا، کون سا تھا، کیسا تھا، اس کے ٹیچر۔
پروفیسر خورشید احمد: خوب اچھی طرح، پرائمری سکول جو تھا، وہ بہت سمپل لیکن صاف ستھرا، اور پرائمری سکول کے جو ہمارے استاذ تھے، وہ میرے استاذ سے زیادہ اَتالیق بھی تھے، ماسٹر اکرم عثمانی، حافظ قرآن تھے، پانی پت سے ان کا تعلق تھا، ابتدائی تعلیم ہم نے ان کی زیرنگرانی شروع کی۔ قرآن کی تعلیم گھر پر رہی۔ اس کے بعد پھر جب مڈل سکول میں آیا ہوں، تو یہ مڈل سکول مکس تھا، اس میں مسلمان بھی تھے، ہندو بھی تھے، مسٹر پٹیل ہمارے ہیڈماسٹر تھے، کرشن چندر ہمارے انگریزی کے استاذ تھے۔
اظہر نیاز: اچھا معروف کرشن چندر جو ہیں، یا اور آدمی؟ ایک بہت مشہور آدمی بھی ہیں۔
پروفیسر خورشید احمد: نہیں نہیں، وہ نہیں۔ اور مولانا احتشام الحق تھانویؒ وہاں پر فارسی کے استاذ تھے، اور مولانا ادریس ؒ عربی کے استاذ تھے۔ احتشام صاحب اردو بھی پڑھاتے تھے، فارسی بھی پڑھاتے تھے۔ میں نے ان سے فارسی پڑھی ہے چند دن، دو ہفتے، پھر میں عربی میں آگیا، لیکن وہ میرے استاذ رہے ہیں، یہ مڈل سکول میں ہمارے۔ تو آٹھویں تک میں نے وہاں تعلیم پائی۔ یہ اس حیثیت سے بڑا اچھا تھا کہ ایک طرف ہمارا اپنا یعنی مذہبی اور دینی تشخص تھا، لیکن ساتھ ہی ہمارا اٹھنا بیٹھنا ہندوؤں میں، سکھوں میں۔ عیسائی بہت کم تھے، یعنی دری جسے کہتے ہیں، وہ بھی بہت کم تھے، لیکن ایک دو طالب علم۔
لیکن میں آپ کو بتلاؤں کہ گو اچھے استاذ ہندوؤں میں بھی تھے، اور میں نے تعلیم کی حد تک ان میں تعصب نہیں دیکھا، لیکن اپنی ذاتی زندگی میں اور معاملات کے اندر بلاشبہ ہم اور وہ بالکل دو مختلف دنیائیں تھیں، ہمارے لیے مسلمان پانی الگ ہوتا تھا، ہم لوگ ساتھ کھانا نہیں کھا سکتے تھے ، تو فطری طور پر مسلمان طلبہ مسلمانوں میں ہی زیادہ اٹھتے بیٹھتے تھے، لیکن ایک انٹریکشن رہتا تھا۔
لیکن پھر جب میں اینگلو عریبک کالج میں آگیا، اسکول میں آگیا، تو وہ دراصل پھر پورا مسلمانوں کا ادارہ تھا اور یہ تاریخی ادارہ تھا، جس طرح علی گڑھ، اسی طرح سر سید نے دلی میں یہ قائم کیا تھا۔ تو میرے زمانے میں اینگلو عریبک ہائر سیکنڈری سکول اجمیری گیٹ، جہاں میں پڑھتا تھا، یہ ہمارے گھر سے کوئی تقریباً ساڑھے تین چار میل کے فاصلے پر تھا۔ اسی طریقے سے اینگلو عریبک دریا گنج کے علاقے میں بھی تھا۔
اور قرول باغ میں جہاں ہم رہتے تھے اس کے قریب جامعہ ملیہ بھی تھی۔ اور جامعہ ملیہ کا جو دسویں تک تعلیم (کا سلسلہ تھا) وہ یہاں تھا، اور دسویں تک اور اس سے آگے تک پھر اوکھلے میں، وہاں سے کوئی تقریباً سات آٹھ میل دور، اپنا بہت بڑا خوبصورت کیمپس تھا …… ڈاکٹر ذاکر حسین اس کے ہیڈ تھے، جامعہ ملیہ کے۔ ڈاکٹر محمود حسین کے بڑے بھائی۔
اور جامعہ میں مسلمان طلبہ کے کمپی ٹیشن ہوا کرتے تھے، خاص طور سے ایک محمد علی ٹرافی کمپی ٹیشن تھا، مولانا محمد علی جوہرؒ کے نام پر۔ اور میں جب پرائمری میں تھا یعنی چوتھی جماعت میں، اس وقت سے ہم اس میں شرکت کرتے تھے۔ سال میں تین دن کا وہ پروگرام ہوتا تھا، اس میں کیمپنگ بھی تھی، اس میں ڈیبیٹس بھی تھیں، ایکسٹمپورز بھی تھے، نظم پڑھنے کا مقابلہ بھی ہوتا تھا، اور میں نے ایکسٹمپور سپیچز کے اندر اور نظم پڑھنے کے اندر، مناظرہ کہتے تھے اس کو، ان سب میں شرکت کی۔
میرے خیال سے تعلیم کا معیار بہت اچھا تھا، آج میں دیکھتا ہوں تو، کوالٹی کے اعتبار سے ۔ اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ استاذ اور طالب علم کا جو پرسنل ریلیشن شپ تھا، وہ صرف علم کا ٹرانسفر نہیں تھا بلکہ ایک اٹیچمنٹ تھی۔ شخصیت سازی اور پھر استاذ کی عزت و احترام۔ یعنی ماسٹر اکرم کے بارے میں میں کہہ سکتا ہوں کہ ماں باپ کے بعد سب سے بڑا انفلوئنس میری زندگی میں انہی کا رہا ہے۔ اور پھر چونکہ میرے والد صاحب کا ایک خاص تصور بھی تھا، تو انہوں نے ان کے لیے گھر ہمارے گھر کے پاس لے کر دیا ہوا تھا۔ اور اسکول کے شام کے اوقات میں وہ ہمارے ساتھ اٹھتے بیٹھے، ہمیں پڑھاتے بھی تھے، اور کھیل کے لیے بھی وہی ساتھ لے کر جاتے تھے۔ تو اس طرح گویا کہ ایک (اظہر نیاز: فیملی جو ہے) ایزیکٹلی، وہ ریلیشن شپ تھا۔ اور یہ سلسلہ میرا جب میں مڈل تک تھا، اس وقت تک کا رہا ہے۔ اس کے بعد پھر زیادہ انڈیپنڈنس ہو گئی تھی۔
میرے والد صاحب علمی اعتبار سے بھی ایک بڑا ستھرا ذوق رکھتے تھے۔ مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کے پرانے ترین دوستوں میں سے تھے۔ ہندوستان کی جو سیاسی قیادت تھی ان سب کے ڈائریکٹ تعلقات تھے ان سے۔ مولانا محمد علی جوہرؒ سے، مولانا ابوالکلام آزادؒ سے، مولانا شوکت علیؒ تھے۔ مولانا شوکت علیؒ ہمارے گھر بھی آتے تھے۔
اظہر نیاز: یہ میں چاہ رہا تھا پوچھنا کہ بچپن میں بلکہ جوانی کہیں، گھر میں آپ کے، آپ کے بڑے بھائی تھے، والد تھے، تو جو پاکستان موومنٹ چل رہی تھی اس وقت۔
پروفیسر خورشید احمد: جی میں اس طرف آتا ہوں ابھی۔ یعنی میرے والد صاحب بہت ایکٹِو تھے سیاست میں، خلافت کی موومنٹ میں بھی تھے ایکٹو، اور جتنی بھی علمی شخصیات تھیں ان سے تعلقات رہتے تھے۔ ’’نگار‘‘ جب نیاز فتح پوری نے نکالا ہے تو اس کے بانی احباب میں سے تھے۔ ’’بزمِ نگار‘‘ نگار نے اس کو کہا تھا۔ اور پہلے سال کا نگار جب مکمل ہوا ہے تو اس پر انہوں نے ایک تصویر بھی چھاپی تھی جس میں میرے والد کی تصویر بھی تھی۔ اس زمانے میں میرے والد نے نگار میں مارکس (Marx) اینگلز (Engels) پر مضامین لکھے ہیں، مطبوعہ موجود ہیں۔ مولانا مودودیؒ کے مضامین بھی نگار میں اس زمانے میں آتے تھے۔ تو مجھے بڑا اچھا ماحول دینی اعتبار سے بھی اور ادبی اعتبار سے بھی ملا۔
مسلم لیگ میں میرے والد بہت ایکٹِو تھے اور دلی کی ورکنگ کمیٹی کے ممبر تھے وہ۔ آل انڈیا مسلم لیگ کونسل کے ممبر تھے جس میں دلی سے غالباً پندرہ افراد کی نمائندگی تھی، ان پندرہ میں سے ایک میرے والد صاحب بھی تھے۔
اظہرنیاز: ما شاء اللہ۔
پروفیسر خورشید احمد: پاکستان کا جو ریزولوشن تھا ۳ جنوری والا، امپیریل ہوٹل میں آل انڈیا مسلم لیگ کونسل کا اجلاس ہوا تھا، اس میں میرے والد شریک تھے، اور میں خود بھی اس میں ایک ینگ رضاکار کی حیثیت سے کام کر رہا تھا۔ میں بھی، میرے بڑے بھائی ایڈمرل ضمیر اور چھوٹے بھائی ممتاز طارق، ہم تینوں نے شرکت کی۔ اسی طرح مسلم لیگ کے جو بھی اجتماعات ہوتے تھے، ریلیز ہوتی تھیں، الیکشن کمپین ۱۹۴۶ءکی، اس وقت میں چودہ سال کا تھا۔ ڈاکٹر عبد الغنی دلی سے ہمارے کینڈیڈیٹ تھے، ان کے لیے دن رات ہم نے کام کیا۔
اظہر نیاز: قائد اعظم کو دیکھنے کا موقع آپ کو (ملا)؟
پروفیسر خورشید احمد: قائد اعظم کو نہ صرف دیکھنے کا موقع ملا، سننے کا موقع ملا، بلکہ جب دلی میں اپریل ۱۹۴۶ء لیجسلیٹرز کنونشن ہوئی، جس میں مرکزی اور صوبائی سطح پر جتنے لوگ بھی منتخب ہوئے تھے انتخابات میں ۴۶۔۱۹۴۵ء کے، تو بہت اہم کنونشن تھا یہ۔ اور جتنا اہم ۱۹۴۰ء کا ریزولوشن ہے، اتنا ہی اہم یہ اپریل ۱۹۴۶ء کا ریزولوشن ہے کہ جس میں پاکستان کا نام، اور پاکستان ہم کیوں قائم کر رہے ہیں، اور اس کے بعد حلف نامہ کہ ہم وفادار رہیں گے اس کے اور سرِمو انحراف نہیں کریں گے۔ اور یہ حلف نامہ جو لکھا گیا تھا، اس کے اوپر قرآن پاک کی جو آیت تھی وہ ’’ان صلاتی و نسکی و محیای ومماتی للہ رب العالمین‘‘ (الانعام ۱۶۲) کہ میری زندگی اور موت اور میری عبادت اور میری قربانی اللہ کے لیے ہے۔ اور چند ارکان نے اس پر اپنے خون سے دستخط کیے تھے۔
میں اس میں ایک ورکر کی حیثیت سے شریک تھا، دن رات، اور نوجوانوں کی طرح، کیونکہ ہمارے اپنے سکول میں ہو رہی تھی۔ اور یہ وہ موقع تھا جب قائد اعظم سے میں نے ان کے آٹوگراف لیے (ورنہ تو ہم نے انہیں) دور سے ہی دیکھا ہے۔ اور سب آٹوگراف لے رہے تھے آٹوگراف بکس کے اوپر، تو میں نے یہ جدت کی تھی کہ آٹوگراف بک پر دستخط لیے اور میں قائد اعظم کا ایک فوٹو لے گیا، اور میں نے وہ ان کو دیا اس پر آٹو گراف کرنے کے لیے، تو انہوں نے آٹوگراف کرنے سے پہلے آنکھ اٹھا کر میری طرف دیکھا اور پھر دستخط کر دیے۔ وہ ہمارے پاس ہے کہیں محفوظ۔ تو مطلب کہ میں نے اتنے قریب سے دیکھا ہے قائد اعظم کو۔
اظہر نیاز: ما شاء اللہ، تو وہ کہیں نکالیے گا جی۔ اس طرح سے آپ کی جو ایجوکیشن ہے وہ مڈل تک اور میٹرک تک، پھر کالج جو ہے۔
پروفیسر خورشید احمد: دسویں جماعت تک میں نے پڑھا تھا، گیارہویں میں تھا، گیارہویں کا امتحان میں نہیں دے سکا تھا، اس لیے کہ پھر آزاد ہو گئے تھے۔ تو مجھے سکول نے آفیشلی جو مارکس شیٹ کہتے تھے اس کو، وہ انہوں نے سائن کر کے مہر لگا کر دی تھی، جس کی بیس پر پھر میں نے پاکستان میں اپنی تعلیم جاری رکھی۔ تو میری گیارہ سال تعلیم دلی میں ہوئی ہے، بارہویں سال لاہور میں ہوئی ہے، اور اس کے بعد سے میں نے کراچی میں تعلیم حاصل کی ہے۔
اظہرنیاز: اچھا میں جاننا چاہوں گا کہ آپ کا گھرانہ تو ما شاء اللہ اس طرح سے بہت ہی ایکٹِو اس میں شامل تھا، مسلم لیگ جو ہے وہ کس طرح کا پاکستان چاہتی تھی؟
پروفیسر خورشید احمد: دیکھیے، بڑا بنیادی سوال ہے آپ کا۔ اور مجھے اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ مسلم لیگ کا جو نقطۂ آغاز ہے، وہ ہے مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ۔
یعنی بریفلی آپ یوں سمجھیں کہ برطانوی اقتدار کو جنہوں نے چیلنج کیاوہ مسلمان تھے۔ تحریکِ مجاہدین گو بالاکوٹ میں تھی لیکن اس کی تنظیم پورے ہندوستان میں تھی۔ یعنی صوبہ سرحد جو اس وقت تھا، اس سے لے کر بنگال تک، اور اللہ تعالیٰ غلام رسول مہر کو اجر دے، انہوں نے یہ پوری تاریخ لکھی ہے جو ڈاکومنٹڈ موجود ہے۔ پھر ۱۸۵۷ء کا واقعہ ہوا جس میں گو غیر مسلم بھی شریک تھے لیکن اس میں لیڈرشپ، قربانیاں اور عظیم اکثریت مسلمانوں کی تھی۔
لیکن اس کے بعد پھر مسلمانوں نے محسوس کیا کہ ہم قوت سے مقابلہ نہیں کر سکیں گے، عدمِ مساوات ہے قوت کی۔ تو ایک طرف انہوں نے کوشش کی کہ جو کچھ اسلامی تہذیب اور علوم ہیں ان کو محفوظ کر لیں، یہ کام دینی مدارس نے کیا اور اس میں دیوبند، مظاہر العلوم، ندوہ، ہر ایک نے اپنا اپنا کردار ادا کیا۔
دوسرا ردعمل سرسید مرحوم کا تھا، جنہوں نے کہا کہ انگریز سے لڑنا فائدہ مند نہیں ہے، مفاہمت کا راستہ اختیار کرو، انگریزی تعلیم حاصل کرو، ٹیکنالوجی پر عبور حاصل کرو، اور مسلمان اپنی قوت بنائیں۔
لیکن عام مسلمانوں کا ذہن ان دونوں چیزوں کے ساتھ ساتھ یہ تھا کہ ہم اس ملک میں ایک ہزار سال تک فرمانروا رہے ہیں، اور وہ ذہناً انگریز کی حکمرانی کو اور بالادستی کو قبول نہیں کر رہے تھے۔ اس کا ایک دم مظاہرہ ہوا خلافت کی تحریک میں۔ اور یہ تاریخ کا ایک عجوبہ ہے کہ خلافت کی تاریخ کا ڈائریکٹ فائدہ ہندوستان کے مسلمانوں کو نہیں پہنچنا تھا۔ برطانیہ، جو اُن پر حکمران تھا اور سلطنتِ عثمانیہ کے مقابلے پر تھا، لڑ رہا تھا ان سے، یورپی اقوام جو فوج کشی کر رہے تھے ان کے اوپر، لیکن مسلمانوں نے دولتِ عثمانیہ کے مسلمانوں کا ساتھ دیا اور خلافت کی موومنٹ نے بالکل نیا جذبہ بغاوت کا، اسلامیت کا پیدا کیا۔ ۱۳۔۱۹۱۲ء سے لے کر ۲۴۔۱۹۲۳ء تک یہ تحریک، یعنی برصغیر کی آزادی کی تحریک بھی تھی اور مسلمانوں کی بیداری کی تحریک بھی تھی۔
۱۹۰۵ء میں بنگال کی تقسیم کا واقعہ ہوا ہے اور اس تقسیم کا فائدہ مسلمانوں کو پہنچ رہا تھا، لیکن ہندوؤں نے اسے رزِسٹ کیا۔ اور یہ وہ پوائنٹ ہے جہاں مسلمانوں نے یہ محسوس کیا کہ انہیں اپنے حقوق کے لیے، اپنے تہذیبی تشخص، دینی تشخص کی حفاظت کے لیے کچھ نہ کچھ سیاسی کام کرنا ہو گا، لیکن مکمل آزادی ان کے سامنے اس وقت نہیں تھی۔
کانگریس، آپ کو پتہ ہے کہ انگریزوں نے قائم کی تھی، ایک سیاسی محاذ بنانے کے لیے۔ اور مسلم لیگ کے قیام کرنے والوں میں بھی وہی لوگ آگے آ گئے تھے جو انگریزوں کے ساتھ تعاون کر رہے تھے، لیکن اس کے ساتھ انہوں نے یہ ضرور رکھا کہ مسلمانوں کے مفادات کا تحفظ کریں۔ اس لیے ۱۹۰۶ء میں مسلم لیگ قائم ہوئی ڈھاکہ میں۔ اور پھر اس وقت کے بعد ان کا اصل اِمفَسِس یہ رہا ہے کہ مسلمان پسماندہ نہ رہیں، اور چونکہ نظر آ رہا تھا کہ مغربی جمہوریت یہاں آ رہی ہے تو اس میں اکثریت کی حکمرانی ہو گی۔ اور مسلمانوں کی برصغیر میں صرف ایک چوتھائی آبادی تھی، تو فطری طور پر وہ دیکھ رہے تھے کہ تین چوتھائی ہم پر غالب رہیں گے۔ لیکن اس کے باوجود علیحدگی کا کوئی تصور نہیں تھا۔
خلافت کی تحریک نے مسلمانوں کو یہ احساس دیا کہ ہم تعداد میں چاہے کم ہیں لیکن پولیٹیکلی ہم اتنے مضبوط ہیں، موبلائزڈ ہیں، اور پھر اسے آپ چاہے تھیوریٹیکل بات کہیں، لیکن تاریخ میں ہوتا یہی رہا ہے کہ بیرونی قوت کبھی گئی ہے، تو جس قوت سے انہوں نے اقتدار چھینا تھا، وہی وہاں آیا کرتے تھے، وہی بادشاہ، وہی فیملی۔ تو مسلمانوں کے ذہن میں بھی یہ بات تھی کہ ہمیں ہوں گے۔ لیکن خلافت کی تحریک سے جس طرح کانگریس نے غداری کی۔ اور سول ڈِس اوبیڈیئنس کی موومنٹ، یا نان کواپریشن کی موومنٹ۔ چوراچوری کے مقام پر ایک حادثہ ہوا، اور یوں لٹرلی گاندھی نے اس کو کال آف کر دیا۔ اس سے مسلمان شاک ہوئے۔ انہیں نظر آیاکہ ہندوؤں اور کانگریس کے مقاصد الگ ہیں، ہمارے الگ ہیں۔
تو آپ یہ دیکھیے، ۱۹۰۶ء سے لے کر ۱۹۲۸ء تک کوشش مسلمان کرتے رہے کہ ہندوؤں کے تعاون سے کوئی ایسا راستہ اختیار کریں جس میں مسلمانوں کے حقوق محفوظ ہو سکیں۔ سیپریٹ الیکٹرویٹس، ویٹیج یعنی مسلمانوں کو ان کی تعداد سے زیادہ ہر جگہ ان کو، اور سب سے اہم پھر یہ کہ فیڈریشن، یونیٹی حکومت نہ ہو، تاکہ جن علاقوں میں صوبوں میں مسلمان اکثریت میں ہیں وہاں فیڈرلی وہ اپنی اکثریت کا فائدہ اٹھا کر اپنے معاملات کے بارے میں زیادہ اہم سیاسی کردار ادا کر سکیں۔ یہ پوری چیز رہی ہے۔
قائد اعظم نے بہت کوشش کی ہے، ان کے چودہ نکات ۱۹۱۴ء کے جو ہیں، ان کا فریم ورک یہی ہے۔ لیکن ۱۹۲۸ء میں سائمن کمیشن کی رپورٹ جب آئی ہے، اور پنڈت نہرو نے جو اس پر ردعمل کا اظہار کیا ہے، اس نے مسلمانوں کو بالکل یکسو کر دیا کہ ہندوؤں کے ساتھ مل کر ان کی دین، ان کی تہذیب، ان کی زبان، ان کی ثقافت، ان کی معیشت، ان کے سیاسی مفادات، یہ محفوظ نہیں رہ سکتے۔
یہی وہ پس منظر ہے جس میں ۱۹۳۰ء میں اقبال نے کہا کہ تقسیم ہو، اور جن علاقوں میں مسلمان کی اکثریت ہے وہاں انہیں اختیار ملے، اور …… Centralization of Islam in the sub continent ۔ ۱۹۳۰ء سے لے کر ۱۹۴۰ء تک، پھر تقسیمِ ملک، یا Reordering and restructuring of the political landscape حالانکہ کچھ لوگوں نے تقسیم کی بات اس سے پہلے شروع کردی تھی، اور غالباً ۲۵۔۲۴۔۱۹۲۳ء کے دوران بہت سے لوگوں نے اس قسم کے …… تحریکِ خلافت سے متعلق تھے (علی) برادرز، تو انہوں نے تقسیم کا منصوبہ پیش کیا تھا۔ لیکن یہ پیریڈ ذہنی خلفشار کا تھا، یکسوئی نہیں تھی۔ ۱۹۳۰ء میں یہ بات بالکل واضح ہو گئی کہ اب مسلمان اور ہندو ساتھ ساتھ سیاسی اعتبار سے نہیں رہ سکتے، مسلمانوں کو کوئی نیا راستہ نکالنا پڑے گا۔
اظہر نیاز: جیسے ابھی کہا جاتا ہے کہ ہم اکٹھے ہی رہتے تو کیا تھا، Why Pakistan کا سوال جو آتا ہے کہ کیوں پاکستان؟ تو غالباً یہاں سے۔
پروفیسر خورشید احمد: ایگزیکٹلی، یہی وہ مقام ہے جہاں یہ۔ یعنی دیکھیے Total migration of population تو ممکن نہیں تھا لیکن مسلمانوں کی کوشش یہ تھی کہ ان کو اتنا سیاسی اقتدار رہے۔ کانگریس کی پوری پالیسی یہ تھی کہ صرف کانگریس ریپریزنٹ کرتی ہے، اور چونکہ وہ ہندو میجارٹی ہے، ہندو لیڈرشپ، ہندو مفادات، چند مسلمان ان کے ساتھ ضرور تھے، اس لیے متحدہ قومیت کا تصور انہوں نے پیش کیا جسے مسلمان امت نے کبھی قبول نہیں کیا۔
مولانا مودودیؒ نے بھی اسی کانٹیکسٹ میں ۳۹۔۱۹۳۸ء میں تین اسکیمز پیش کی تھیں اور سر شریف الدین پیرزادہ کی جو کتاب ہے Evolution of Pakistan اس میں اس نے یہ پوری ہسٹری پیش کی ہے، ایک اچھی کتاب ہے اس پر وہ۔ بہرحال قصہ مختصر، ۱۹۳۰ء کے بعد مسلمانوں کے لیے یہ بات بالکل واضح ہو گئی کہ ان کے لیے اور کوئی راستہ نہیں ہے کہ وہ تقسیم کریں ملک کو، جن علاقوں میں انہیں اکثریت حاصل ہے، وہاں کےمسلمانوں کو اپنا اقتدار مل سکے۔
یہ پھر ۲۳ مارچ ۱۹۴۰ء کو مسلم لیگ یکسو ہوئی ہے۔ اس سے پہلے مسلم لیگ مسلمانوں کی ایک نمائندہ جماعت تو تھی لیکن مسلمان عوام، ان کا موبلائزیشن نہیں تھا، جینٹری تھی، اور وہ لوگ بھی تھے جو انگریزوں کے ساتھ تعاون چاہتے تھے، ہندوؤں سے تعاون چاہتے تھے کوئی نہ کوئی راستہ نکالنا، وہ بھی تھے جو اس پر پریشان تھے اور یہ چاہتے تھے کہ نہیں ہمیں اپنی آئیڈنٹٹی کو محفوظ رکھنا ہے۔
تو میری نگاہ میں ۱۹۳۰ء کا جو عشرہ ہے اس پہلو سے فیصلہ کن ہے۔ اقبال نے جو تصور دیا وہ آہستہ آہستہ پختہ ہوا۔ اور اسی زمانے میں پھر مسلم لیگ نے بھی اس کو اپنایا۔ سب سے پہلے مسلم لیگ کی صوبہ سندھ کی برانچ نے یہ ریزولوشن پاس کیا کہ تقسیم ہونی چاہیے اور پاکستان بننا چاہیے۔
پاکستان کا لفظ بھی گو چودھری رحمت علی نے استعمال کیا تھا، مسلم لیگ نے آفیشلی اسے استعمال نہیں کیا تھا، حتیٰ کہ ۱۹۴۰ء کی قرارداد میں بھی لفظ پاکستان نہیں ہے، اس کے بعد آیا ہے۔
اظہر نیاز: جب قائد اعظم نے کہا کہ چلیں پاکستان ہے تو پھر پاکستان ہی سہی۔
پروفیسر خورشید احمد: بالکل، آفیشلی تو مسلم لیگ کی تقاریر میں قراردادوں میں ۱۹۴۱ء کے بعد سے پاکستان (کا نام) آنا شروع ہوا ہے۔ اور ۱۹۴۶ء کی قرارداد میں آفیشلی، لیجسلیٹرز (کنونشن) میں بہت کلیئرلی آیا ہے کہ پاکستان، اور ایک ملک، دو نہیں۔
تو یہ ہے وہ پس منظر۔ جہاں تک میرا تعلق ہے، میں گو شروع ہی سے اِنوالو رہا ہوں سیاست کے اندر اپنے گھرانے کی وجہ سے، لیکن بہرحال بچہ تھا میں پہلے، بچوں کی انجمن، ادبی ایکٹیویٹیز زیادہ تھیں، سپورٹس۔ لیکن ۴۲۔۱۹۴۱ء سے ایک سیاسی شعور پیدا ہونا شروع ہوا۔ ۱۹۴۲ء میں جب کانگریس نے بائیکاٹ کی مہم کی ہے، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ کس طرح ایجیٹیشن ہوتے تھے، اور ہم اس میں شریک نہیں ہوتے تھے لیکن دیکھتے تھے۔ اور انگریزوں نے اسے کنٹرول کرنے کے لیے جس طرح فائرنگ کی، میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھی ہے وہ۔
۱۹۴۳ء کا جو دلی میں اجتماع تھا مسلم لیگ کا، وہ میرے لیے سیاسی زندگی کا آغاز ہے اور اس وقت میں گیارہ سال کا تھا۔ اس میں پہلی مرتبہ میں نے شرکت کی ہے ایک والنٹیئر کی حیثیت سے۔ پھر اس کے بعد انتخابی مہم شروع ہوئی ہے ۱۹۴۵ء میں۔ اس میں ایکٹِولی انوالو ہوا ہوں میں اور نوجوانوں کے ساتھ۔ اور ہمارے سکول کے بچے بہت ایکٹِو تھے اس کے اندر، ہم نے بزمِ ادب وہاں بنائی ہوئی تھی، میں اس بزمِ ادب کا سیکرٹری تھا` اور جو صاحب بعد میں جسٹس نعیم الدین سپریم کورٹ کے جج بنے ہیں، یہ اس کے پریزیڈنٹ تھے۔ ہماری ٹیم تھی۔ اور نام بزمِ ادب تھا لیکن ہم اسی کے ذریعے سے پولیٹیکل ایکٹیویٹی میں حصہ لیا کرتے تھے۔
اظہر نیاز: اور جو ماحول تھا یعنی مسلمان جتنے بھی تھے، دلی میں تو خاص طور پر مسلمان بہت زیادہ ہوں گے تعداد میں اس وقت۔
پروفیسر خورشید احمد: جی میں نے کہا نا کہ تقریباً %30 آبادی تھی۔
اظہر نیاز: تو کیا Atmosphere تھا کہ جس طرح سے ابھی ہم جب دیکھتے ہیں، میں انصار ناصری صاحب کی کتاب پڑھ رہا تھا ’’پاکستان زندہ باد‘‘ انہوں نے لکھا ہے گلیوں میں نعرے لگ رہے تھے۔
پروفیسر خورشید احمد: بالکل، ایک عجیب کیفیت تھی۔
اظہرنیاز: خاص طور پر میں جاننا چاہتا ہوں جی کہ آپ نے جو یہ نعرہ ہے کہ ’’پاکستان کا مطلب کیا؟‘‘، آپ نے کب سنا یہ؟
پروفیسر خورشید احمد: میں نے یہ سنا الیکشن کے موقع پر ۴۶۔۱۹۴۵ء۔ ہم خود کہتے تھے یہ کہ
’’پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الٰہ الا اللہ‘‘
’’مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ‘‘
’’بن کے رہے گا پاکستان، لے کے رہیں گے پاکستان‘‘
تو یہ ساری چیزیں ہم نے ۔
اظہر نیاز: …… کیونکہ ابھی بہت سارے لوگ اس کو کہتے ہیں، نہیں یہ تو بعد میں اس کو گڑھ لیا گیا ہے، پاکستان بننے سے پہلے تو یہ نعرہ۔
پروفیسر خورشید احمد: یہ قطعاً غلط ہے، غالباً یعنی پنجاب کی کسی جگہ کے ایک صاحب تھے جنہوں نے یہ سب سے پہلے انٹرڈیوس کیا ہے اور انہیں پچھلے سال انتقال کے بعد پاکستان کا کوئی اعزاز بھی ملا ہے۔ تو یہ ۱۹۴۳ء میں آیا ہے لیکن میں نے خود اس کو ۱۹۴۵ء کے آخیر میں سنا بھی ہے لگایا بھی ہے۔
تو آپ کے اس سوال کا جواب یہ ہے کہ مسلم لیگ کی جدوجہد کا آغاز تو ہوا تھا مسلمانوں کے سیاسی اور معاشی اور ثقافتی تہذیبی حقوق کے تحفظ کے لیے، ایک اسپیس پولیٹیکل پیدا کرنے سے۔ لیکن پھر انہیں احساس ہوا کہ نہیں، یہ ساتھ رہ کر حاصل نہیں ہو سکتا۔ اگر آپ مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی اور کونسل کی قراردادیں اور …… دیکھیں تو آپ یہ پائیں گے کہ ۱۹۳۶ء کے بعد سے آئیڈیالوجیکل رنگ بڑھنا شروع ہوا ہے اور ۱۹۴۰ء کے بعد بہت نمایاں ہوا ہے یہ۔
اس موقع پر انہوں نے کمیٹیاں قائم کی ہیں کہ تعلیم میں کیا اصلاحات ہونی چاہئیں؟ اسلام کا سیاسی نظام کیا ہے؟ اس کے لیے کمیٹی نواب چھتاری کی دعوت کے اوپر بنائی گئی مسلم لیگ کی طرف سے آفیشلی۔ اور مولانا سید سلیمان ندویؒ کو دعوت دی گئی کہ وہ اس کے صدر ہوں۔ مولانا مودودیؒ، مولانا عبد الماجد دریابادیؒ، ندوہ کے ایک مولانا تھے، اور صوبہ بنگال سے ایک صاحب تھے، یہ پانچ افراد پر مشتمل کمیٹی بنی، اس کی ایک میٹنگ ہوئی لکھنؤ کے اندر۔ اور پھر جو اس میں ڈسکشن ہوا تھا اس کی روشنی میں ایک کتاب ’’اسلام کا سیاسی نظام‘‘ تیار ہوئی۔
اس کے علاوہ مولانا اشرف علی تھانویؒ نے اپنی فراست سے محسوس کر کے یہ بات کہی کہ مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ اور اسلام کی قوت کے لیے مسلم لیگ جو جدوجہد کرے گی یہ ضروری ہے۔ اور ان کا انتقال تھا جس کے اوپر مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی نے یا کونسل نے آفیشلی قرارداد پاس کی ہے اور یہ کہا ہے کہ آج ہمارا سب سے بڑا حامی جو ہے وہ اللہ کو پیارا ہوا ہے۔ تو علماء نے اس میں شرکت کی، لیکن جو دینی رنگ تھا اس کا وہ نمایاں ہوا ہے ۴۵۔۱۹۴۴ء۔
پھر اسی زمانے میں چونکہ کانگریس کو سپورٹ کر رہے تھے جمعیۃ علماء ہند، تو اس کے مقابلے میں جمعیۃ علماء اسلام وجود میں آئی۔ ان کا پہلا کنونشن ۱۹۴۵ء میں ہوا ہے جس میں تقریباً تین ہزار علماء نے شرکت کی ہے۔ مولانا شبیر احمد عثمانیؒ، مولانا ظفر احمد عثمانیؒ، مولانا آزاد سبحانیؒ، مولانا اکرم خانؒ، مفتی شفیعؒ، مولانا عبد الحامد بدایونیؒ، یہ تمام لوگ اس کے اندر۔ تو پھر اس پوری ان کی شرکت سے دینی ( رنگ) بڑھتا گیا۔
اور پھر انتخاب کے موقع پر تو سچی بات یہ ہے کہ ہم نے وہ جذبہ دیکھا ہے لوگوں کے اندر کہ جس کا ہم تصور نہیں کر سکتے۔ یعنی میں خود تو اس کا گواہ نہیں ہوں لیکن پروفیسر شرافت ہاشمی جو میرے سینئر استاذ تھے اردو کالج کے اندر، اور یعنی کہ پاکستان (کی تحریک میں) سرگرم تھے، انہوں نے مجھے خود بتایا ہے کہ الیکشن میں ایک گاؤں سے لوگ آئے اور وہ کفن کا کپڑا ساتھ لے کر آئے۔ انہوں نے کہا کہ ہم اس لیے آئےہیں ، ہم اب واپس نہیں جا سکتے اپنے گاؤں میں، ہم جائیں گے تو ہمیں مار دیا جائے گا، لیکن ہم ووٹ دیں گے پاکستان اور اسلام کے لیے۔ یہ جذبہ تھا لوگوں کا۔ تو جو موبلائزیشن ہوا عوام کے اندر اسی پر ہوا ہے۔
اور اس معنی میں قائد اعظم بالکل یکسو تھے، اس لیے کہ قائد اعظم کا خود ذہنی سفر ہے، ۱۹۳۶ء کے بعد وہ آہستہ آہستہ اس طرف آئے ہیں، اور ۱۹۳۹ء میں انہوں نے ایک بڑی انسپائرنگ تقریرکی ہے کونسل میں۔ انہوں نے کہا، اللہ نے مجھے سب کچھ دیا ہے، دولت بھی دی ہے، عزت بھی دی ہے، سیاست میں میرا مقام ہے، لیکن میں چاہتا ہوں کہ میں اسلام اور مسلمانوں کی خدمت کروں، اور جس وقت میں اللہ کے حضور حاضر ہوں تو یہ گواہی دی جا سکے کہ جناح نے اسلام کے لیے اپنی جدوجہد کی ہے۔ یہ ان کے الفاظ تھے۔ ایک سو تین تقاریر ہیں ان کی تقسیم سے پہلے، اور تیرہ ہیں قیامِ پاکستان کے بعد۔ جس میں انہوں نے کلیئرلی یہ کہا ہے کہ پاکستان کا مقصد ایک نظریہ۔ اپنے دین اپنی ثقافت اپنے قانون اور اپنی شریعت کا تحفظ۔ ہم ایک جدا قوم ہیں عقیدے کی بنیاد پر، نظریۂ حیات کی بنیاد کے اوپر، اور اس طرزِ زندگی کی حفاظت کے لیے، اور اپنے دین اور اپنی ثقافت اور اپنے مفادات کے مطابق اپنے کلچر کے مطابق زندگی گزرنے کے لیے ہم ایک ملک قائم کر رہے ہیں۔
اظہر نیاز: ہاں ان سے کئی مرتبہ پوچھا گیا کہ یہاں کا قانون کیا ہو گا تو انہوں نے۔
پروفیسر خورشید احمد: انہوں نے کہا کہ جو قانون اسلام نے ہمیں دیا ہے، قرآن کا جو قانون ہے، یہی ہمارا قانون ہے اور وہ آج بھی اتنا ہی ویلِڈ ہے جتنا تیرہ سو سال پہلے تھا۔ انہوں نے یہ بھی کہا میں کوئی عالمِ دین نہیں ہوں لیکن بہرحال میں نے اپنے دین کا اتنا مطالعہ کیا ہے اور میں یہ جانتا ہوں کہ اسلام ایک مکمل نظامِ زندگی ہے، وہ مغرب کا جو تصور ہے مذہب کا، اس معنی میں کوئی مذہب نہیں ہے کہ جو صرف فرد اور اللہ کے تعلق کا نام ہے، بلکہ اس کا تمام انسانوں، انسان کی پوری زندگی، اس کے سارے معاملات سے تعلق ہے۔ اور بڑی پیاری بات انہوں نے حیدر آباد دکن میں وہاں کی عثمانیہ یونیورسٹی کے طلبہ سے بات کرتے ہوئے کہی کہ اسلام کے سیاسی نظام کا جو بنیادی اصول ہے، وہ یہ ہے کہ حاکمیت اللہ کی ہے، اور عوام کے نمائندے فیصلہ کریں گے لیکن ان حدود کے اندر کریں گے جو قرآن و سنت نے مرتب کیے ہیں، وہ خود یہ فیصلہ نہیں کر سکتے کہ حق اور ناحق کیا ہے۔ یہ (ویلیوز) جو اللہ اور اس کے رسول نے دی ہیں، ہمارا کام یہ ہے کہ ہم اس کے مطابق کام کریں، اس کو ڈیویلپ کریں، اس کے تقاضوں کو سمجھیں، لیکن فریم ورک وہ ہے۔ تو صاف لفظوں میں یہ بات کہی۔
اظہر نیاز: اچھا ان کی ایک تقریر کو لے کر عام طور پر کہا جاتا ہے کہ جی انہوں نے یہ تقریر کی جس میں کہا گیا کہ یہ اقلیتوں کو سارے حقوق دیے جائیں گے، اور اس کو سیکولر ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
پروفیسر خورشید احمد: یہ قائد اعظم کے ساتھ میرا خیال یہ ہے کہ اس سے بڑا ظلم نہیں ہو سکتا۔ گیارہ اگست ۱۹۴۷ء کی تقریر ہے جس کا ایک خاص پس منظر ہے۔ پس منظر یہ ہے کہ ہندو مسلم فسادات ہو رہے تھے، اَسی ہزار سے ایک لاکھ مسلمان اس وقت تک شہید کیے جا چکے تھے، اور اس کے بعد تقریباً دو ڈھائی لاکھ ہوئے۔ یعنی کم از کم، کم از کم بھی تین سے چار لاکھ مسلمان شہید ہوئے ہیں اور تقریباً ڈیڑھ دو کروڑ کی نقل مکانی ہوئی ہے۔ یہ تھا وہ پس منظر۔
اور جہاں تک اقلیتوں کے حقوق کا تعلق ہے، قائد اعظم نے ہمیشہ جہاں یہ کہا کہ پاکستان کا قیام اسلامی نظریہ اور اسلامی نظامِ زندگی کا قیام ہے، وہیں یہ بھی کہا کہ اسلام غیر مسلموں کے حقوق کا تحفظ کرتا ہے اور انہیں شہریت کے پورے حقوق حاصل ہوں گے۔ اگر آپ ۱۹۴۶ء کی قرارداد دیکھیں تو جہاں اس وقت پاکستان کا پورا وژن دیا گیا ہے، وہیں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس میں جو بھی غیر مسلم ہوں گے جو ریاست کے ساتھ وفادار ہوں گے ان کے حقوق کا تحفظ ہو گا۔ یہی چیز وہ ہے جیسے میثاقِ مدینہ میں خود نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینے کے یہودیوں کو اور عیسائیوں کو دیا تھا۔ تو گیارہ اگست کی تقریر میں ریاست کی کیا نیچر ہو گی، اس کا کوئی ذکر نہیں ہے، اس میں ذکر اس بات کا ہے کہ غیر مسلموں کے حقوق کا تحفظ ہو گا اور شہریت میں سب شریک ہوں گے، وہ برابر کے شہری ہوں گے، اور یہ اسلام نے ان کو حق دیا ہے۔
اور یہی وجہ ہے کہ اس تقریر کے تین دن کے بعد جب چودہ اگست کو قائد اعظم نے حلف لیا، لارڈ ماؤنٹ بیٹن آیا تھا، تو اس نے چھیڑنے کے لیے، میرا خیال سے تو، یہ بات کہی کہ غیر مسلموں کے حقوق کا تحفظ ہونا چاہیے اور اس سلسلہ میں شہنشاہ اکبر نے بڑی اونچی مثال قائم کی ہے۔ تو قائد اعظم نے برملا اسی وقت کہا کہ اکبر نہیں ہمارے لیے صحیح مثال نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم کی ہے، یہی ہمارا ماڈل ہے۔
تو وہاں مسئلہ شہریت کا تھا، اور اس تقریر میں قائد اعظم نے خود یہ کہا ہے کہ، چونکہ یہ پیپرڈ تقریر نہیں ہے، آف ہینڈ بات کر رہے ہیں وہ۔ سب سے پہلے انہوں نے کرپشن کو لیا، نیپوٹزم کو لیا، (پرووِنشلزم) کو لیا، تفریق لوگوں کے درمیان۔ اور پھر اس کے بعد انہوں نے یہ کہا کہ میں اشوؤر کرنا چاہتا ہوں کہ غیر مسلموں کو برابر کے حقوق حاصل ہوں گے۔ اور حکومت جو ہے وہ محض، کوئی مسلمان ہے یا ہندو ہے، اس بنیاد پر ان میں معاملات نہیں کرے گی، اور یہ خالص اسلام کا اپنا اصول ہے۔ لیکن اس کے ساتھ قائد اعظم نے، ریاست کیا ہو گی، ریاست کا دستور کیسا ہو گا۔
حد یہ ہے کہ جب امریکہ کو قائد اعظم نے ان کے یومِ آزادی پر بیان دیا، تو اس میں کہا ہے کہ پاکستان کا دستور کیا ہو گا، یہ دستورساز اسمبلی طے کرے گی، لیکن میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ وہ ان اصولوں پر مبنی ہو گا جو جمہوریت کے اصول ہیں اور جو اسلام نے ہم کو دیے ہیں۔
اظہر نیاز: اچھا، اتنے لوگ جو ہیں شہید ہو گئے، اتنی قربانیاں ہم نے دیں پاکستان حاصل کرنے کے لیے، کیا ان ساری قربانیوں کو اب ہمارے ادب میں، میڈیا میں ، نصاب میں ریفلیکٹ ہونا چاہیے یا ہمیں کسی مصلحت کی خاطر اس کو ذرا سا پیچھے کر دینا چاہیے؟
پروفیسر خورشید احمد: یہ بہت بڑی ٹریجڈی ہے کہ ہم اپنی تاریخ، جو قربانیاں دی ہیں، یعنی نئی نسلوں کو وہ منتقل نہیں کر رہے۔ اور میری نگاہ میں اس وقت جو ملک میں کنفیوژن پایا جاتا ہے، اس کی بنیادی وجہ یہی ہے۔ اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ہر سطح پر، ہمارے نصاب میں، ہمارے میڈیا میں، محض چودہ اگست منانا اصل چیز نہیں ہے، چودہ اگست کا پیغام ہی یہ ہے کہ آپ سمجھیں کہ تحریکِ پاکستان تھی کیا؟ کیوں اتنی قربانیاں مسلمانوں نے دیں؟
اور ذرا آپ سوچیے کہ انہوں نے تو قربانیاں دی ہیں جنہوں نے پاکستان میں آنا تھا، یا پاکستان میں رہنا تھا، لیکن جو جانتے تھے کہ ہم پاکستان میں نہ جا سکتے ہیں نہ جائیں گے، لیکن انہوں نے بھی پاکستان بنانے کے لیے قربانیاں دیں، اپنا ووٹ دیا، سفر کیا، اور صرف اس بنیاد پر دیا کہ ہمیں چاہے مشکلات ہوں، ہماری چاہے دنیا عذاب بن جائے، لیکن اگر ایک خطۂ زمین ایسا ہے کہ جہاں اسلام کا بول بالا ہو سکے اور ایک مدینے کی ریاست قائم ہو سکے تو ہماری یہ قربانی جو ہے یہ ضروری ہے۔ کوئی ان کا موٹیویشن اس کے علاوہ نہیں تھا، اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے؟
اظہرنیاز: میں بات کرنا چاہ رہا تھا، قائد اعظم کی شخصیت پہ آپ نے بڑی اچھی گفتگو کی، ان کی جو ٹیم ہے، اس پہ جو میں نے سنا ہے کہ سردار عبد الرب نشتر جو ہیں وہ ان کی ٹیم کے سب سے اہم ان کے قریب ترین ساتھیوں میں سے ہیں، آپ کوئی وجہ بتا سکتے ہیں اس کی، کہ کیا وجہ تھی؟
پروفیسر خورشید احمد: سردار عبد الرب نشتر قائد اعظم کے بہت قریب تھے اور حقیقت یہ ہے کہ قائد اعظم کے وژن کے امین تھے۔ اسی طریقے سے محمد اسماعیل، وہ انڈیا میں رہے، پاکستان نہیں آئے، لیکن وہ قائد اعظم کے بہت قریب تھے، قائد اعظم بہت ان کی عزت کرتے تھے، اور حقیقت یہ ہے کہ وہ وژن کو پورے طریقے سے، اس کے علمبردار تھے۔ لیاقت علی خان بھی، تھوڑا سا ان کے اندر ایک ماڈرن پہلو تھا، لیکن بیسیکلی وہ کمٹڈ تھے اور انہوں نے ہمیشہ یہی بات کہی، امریکہ کے دورے میں بھی ان کی تقاریر کو آپ دیکھ لیجیے، قراردادِ مقاصد کو پیش کرتے وقت جو تقریر انہوں نے کی ہے، انہوں نے اپنا ذہن بہت کلیئرلی پیش کیا ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ قائد اعظم کی ٹیم میں بے شمار افراد وہ تھے جو یہ دیکھ کر، کہ ہوا کا رخ اُدھر ہے، شامل ہو گئے تھے، اور حقیقی تصور پاکستان کا ان کے رگ و پے میں نہیں سمایا تھا۔ …… کمٹڈ تھے بالکل۔
اس پہلو سے یعنی مراد یہ ہے کہ یہ ایک ٹریجڈی ہے اور اس میں جہاں یہ بہت بڑا معجزہ تھا کہ سات سال میں یہ تحریک کامیاب ہو گئی، وہیں اس کے اندر یہ تشویش کا پہلو بھی ہے کہ جو لوگ تحریک میں آئے تھے ان کی تربیت، ان کا اورینٹیشن، وہ نہیں ہو سکی۔ قائد اعظم فیتھ، یونیٹی، ڈسپلن، برابر کہتے رہے لیکن یہ ہےکہ نہ فیتھ اتر سکا، نہ ڈسپلن قائم ہو سکا۔ اور اسی کے ثمرات ہم دیکھ رہے ہیں کہ قائد اعظم کے انتقال کے بعد کس طریقے سے دوسرے لوگوں نے قبضہ کیا، اور بالآخر تو سارا قبضہ انہوں نے کیا جن کا کوئی دخل نہیں تھا۔ یعنی غلام محمد، جو بالکل دوسرا ذہن ہے۔ اسکندر مرزا، ایوب خاں، یعنی ان کا پاکستان کے تصور سے، پاکستان کی تحریک سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ قائد اعظم نے غلام محمد کو ایک ٹیکنوکریٹ کی حیثیت سے لیا تھا۔ اور اس وقت یہ تین افراد تھے جو بہت ایک دوسرے کے قریب بھی تھے، غلام محمد، چودھری محمد علی، اور زاہد حسین۔ ان میں سب سے اچھے زاہد حسین تھے، آئیڈیالوجی کے اعتبار سے بھی، اپنے کردار کے اعتبار سے بھی۔ چودھری محمد علی صاحبِ کردار آدمی تھے اور ان کا دین سے کمٹمنٹ تھا لیکن تھے بیوروکریٹ۔ اور غلام محمد کا کوئی دین سے تعلق نہیں تھا اور شاطر آدمی تھا جس نے مینی پولیٹ کیا۔ تو بدقسمتی سے غلام محمد اور اسکندر مرزا اور ایوب خاں کو اَپرہینڈ مل گیا۔
اور ساتھ ہی یہ بھی ایک حقیقت ہےکہ ہندوستان نے قیامِ پاکستان کو ایک لمحے کے لیے بھی قبول نہیں کیا تھا تو وہ اپنی ریشہ دوانیوں میں لگے رہے، جس میں یعنی معاشی، سیاسی، عسکری دباؤ، کشمیر کا مسئلہ، جوناگڑھ … پر قبضہ، حیدرآباد کا معاملہ، اور پھر مشرقی پاکستان میں ان کی ریشہ دوانیاں۔ اور اس میں بدقسمتی سے وہاں کے غیر مسلموں کا، کانگریس کا کردار۔
پھر مغربی پاکستان کے بھی بیوروکریٹس نے، حقیقت یہ ہے کہ یعنی آزادی کے بعد جو رویہ اختیار کرنا چاہیے تھا ایک دوسرے کے ساتھ، وہ نہیں اختیار کیا، بلکہ بیوروکریسی نے تحکمانہ انداز اختیار کیا، جس سے مشرقی پاکستان کے اندر ایک ردعمل پیدا ہوا اور ہم بگاڑ کی طرف بڑھتے چلے گئے۔
تو یہ سارے اسباب ہیں اس کے، اس میں نظریاتی، انتظامی، نئے ایکٹرز جو ریئل سٹیک ہولڈرز نہیں تھے، اور جو اس امانت کے صحیح امین نہیں تھے۔
اظہرنیاز: آپ نے ایک پرچہ نکالا ’’چراغِ راہ‘‘ اس کا ایک نظریۂ پاکستان نمبر تھا۔
پروفیسر خورشید احمد: جی، یہ ۱۹۶۳ء میں میں نے نکالا ہے اور یہ ایوب صاحب کےجواب میں ہی تھا، اس لیے کہ انہوں نے جو کوشش کی تھی کہ نظریہ اوجھل کیا جائے۔
اظہر نیاز: اس میں جو مضامین ہیں، ان مضامین کی آج کتنی ضرورت ہے نئی نسل کو؟
پروفیسر خورشید احمد: بے پناہ ضرورت ہے اور اس کے ایک حصے کو میں نے ’’پاکستان اور اسلامی نظریے‘‘ کے عنوان سے ایک نئی کتاب کی شکل میں مرتب کیا جو شائع ہو گئی ہے۔
اظہر نیاز: اچھا، ما شاء اللہ۔ آخر میں صرف میں چاہوں گا نئی نسل کے لیے اس پاکستان کے حوالے سے کوئی پانچ منٹ آپ کچھ کہنا چاہیں۔
پروفیسر خورشید احمد: پاکستان اللہ کا ایک انعام ہے، پاکستان ہماری ایک تاریخی اچیومنٹ، پاکستان ہمارے مستقبل کا نشان ہے، لیکن پاکستان محض ایک جغرافیائی حصے کا نام نہیں ہے، پاکستان نام ہے ایک وژن کا، ایک نظریے کا، ایک منزل کا، ایک تصورِ حیات کا، بلاشبہ اس کے لیے زمین کی ضرورت ہے، اس کے لیے وسائل کی ضرورت ہے، لیکن محض دو پیسے کمانے کے لیے نہیں، بلکہ جیسے قائد اعظم نے کہا کہ پاکستان ہم نے حاصل کیا ہے تاکہ اسلام کی تجربہ گاہ ہو، تاکہ یہاں وہ نمونہ بنا سکیں۔
تو نظریۂ پاکستان، تحریکِ پاکستان، اور پاکستان کا وجود اور پاکستان کا مستقبل میری نگاہ میں ایک دوسرے سے بالکل جڑے ہوئے ہیں۔ اور میرا پیغام یہی ہے کہ اس امانت کے آپ امین ہیں، لیکن آپ کے لیے ضروری ہے کہ اس کے اصل تصور، اس کے مشن اور منزل، اس کے وژن کو رگ و پے میں سما لیں، اور پھر اس کے لیے علمی، عملی، انفرادی، اجتماعی، انسٹیٹیوشنل، ہر سطح پر جدوجہد کریں۔ کامیابی کا انحصار جس چیز پر ہے اس میں پہلی چیز: ایمان، اللہ پر بھروسہ۔ دوسری چیز: منزل کا صحیح شعور، اس کا وژن۔ اور پھر تیسری چیز: اس کے لیے جدوجہد اور کوشش۔
یہ کہ میں ان چیزوں کو میں اچھا سمجھتا ہوں، گھر بیٹھا ہوا ہوں، اس سے کام نہیں ہو گا۔ تبدیلی کے لیے ہمیں اٹھنا پڑے گا، قربانی دینی ہو گی، جدوجہد کرنی ہو گی۔ تو یہ تینوں چیزیں (۱) ایمان، اللہ پر بھروسہ (۲) صحیح وژن (۳) اور پھر اس وژن کو حاصل کرنے کے لیے عملی جدوجہد ہر میدان میں۔ یہ ہے کرنے کا کام، اور مجھے یقین ہے کہ پاکستانی قوم میں بڑی جان ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’والذین جاھدو فینا لنھدینھم سبلنا‘‘ (العنکبوت ۶۹) جو ہماری طرف جدوجہد کرتے ہیں ہم ان کے لیے اس راستے کو آسان بنا دیتے ہیں۔ تو بس اس راستے پر آپ اٹھیے اور پھر دیکھیے اللہ تعالیٰ آپ کو کامیاب کرے گا اور آپ دنیا کے سامنے ایک اچھی مثال قائم کریں گے۔ وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔
اظہر نیاز: بہت شکریہ جی، آج ہم نے بھی پاکستان بنتے دیکھا، اللہ حافظ۔
www.youtu.be/Y7T7dfJb6iY
پاکستان کو سیکولر/سوشلسٹ ریاست بنانے کی کوشش کیسے ناکام ہوئی؟
۱۹۵۶ء کا جو دستور بنا اس دستور کا نفاذ بھی ۲۳ مارچ ۱۹۵۶ء کو ہوا۔ یہ ہماری تاریخ کا سب سے بڑا سانحہ ہے کہ ایوب خان نے اکتوبر ۱۹۵۸ء میں اس دستور کو منسوخ کر دیا۔ لیکن ۱۹۵۶ء کا دستور آج بھی Pacesetter ہے اور بعد کے جتنے دساتیر بھی بنے ہیں وہ اس سے ہٹ نہیں سکے، ہٹائے جانے کی ہر کوشش کے باوجود۔
ایوب نے جب دستور کو منسوخ کیا تو ساتھ ہی یہ اعلان بھی کیا ہے کہ اب پاکستان ایک سیکولر ریاست ہو گا، اسلامی ریاست نہیں ہو گا۔ بلکہ اسکندر مرزا نے تو یہاں تک کہا تھا کہ وہ سب لوگ جو اسلامی دستور کی بات کرتے ہیں ان کو کشتیوں میں بٹھا کر بحیرہ عرب میں ڈال دو۔ یہ اس کے الفاظ تھے۔ لیکن اللہ کا کرنا یہ ہوا کہ وہ تو یہیں رہے لیکن اسکندر مرزا کو ایک ماہ کے اندر ہی اس ملک سے جانا پڑا۔
پھر ایوب نے ۱۹۶۲ء میں جو I Muhammad Ayub Khan فیلڈ مارشل ایوب خان کے نام سے یہ دستور دیا تھا، آپ کو معلوم ہے کہ اس کا نام Islamic Republic of Pakistan کے بجائے Republic of Pakistan رکھا ۔اور اس میں سے قراردادِ مقاصد کے جو دینی پہلو تھے وہ نکال دیے گئے۔ اور ۱۹۵۶ء کے دستور میں جو یہ فقرہ تھا کہ کوئی قانون سازی قرآن و سنت کے خلاف نہیں ہو گی، یہ نکال دیا گیا۔ ۱۹۶۲ء میں اس نے دستور نافذ کیا ہے، اس کے تین مہینے میں اسمبلی بنی ہے، اور اس اسمبلی کے اندر جو پہلی Debate ہوئی ہے بڑی، وہ Political Parties Act پر ہوئی ہے۔ اور اس پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ میں اس اسمبلی نے لڑ کر یہ شق قانون کا حصہ بنائی کہ پاکستان کی ہر پولیٹیکل پارٹی کے لیے لازمی ہو گا کہ وہ اسلامک آئیڈیالوجی سے مطابقت رکھے اور اس کے خلاف کوئی اقدام نہ کرے۔ بڑی اس پر بحث ہوئی، سیکولر طبقے نے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا۔ اور واضح رہے کہ اس وقت جسٹس منیر لاء منسٹر تھے اور یہ پائلٹ (قیادت) کر رہے تھے اس لاء کو۔ اور شرمناک بات ہے، ہماری جوڈیشری کا اتنا اونچا فرد، اس شخص نے اپنی کتاب From Jinnah to Zia میں لکھا ہے کہ اسلامک آئیڈیالوجی اور پاکستان آئیڈیالوجی کا لفظ جنرل ضیاء الحق نے انٹروڈیوس کیا ہے۔ اور اس کے بعد سے لبرل لیفٹسٹ لابی (بائیں بازو کے لبرل) ہے جو یہ بکواس کرتی ہے۔
آپ ۱۹۶۲ء کی اسمبلی کی کاروائی نکال کر پڑھ لیں، میں نے اسے کوٹ کیا ہے ہر جگہ، اپنی حالیہ تقاریر کے اندر کہ اس شخص نے پہلے Oppose کیا اسلامک آئیڈیالوجی کے لفظ کو وہاں پر ، وہ اس قانون کا حصہ ہے، اور پھر جب اسمبلی نے اصرار کیا کہ نہیں، ہم یہ رکھیں گے، تو اس نے یہ کہا کہ میں بہت دکھی ہوں لیکن بہرحال میں نے غور کیا ہے اور آپ اگر اصرار کرتے ہیں تو ہم اس کو شامل کر لیتے ہیں۔ یہ اس کے الفاظ ہیں۔ یہ ہماری تاریخ کا حصہ ہے ۔
پھر اس کے بعد جب ۱۹۶۲ء کے دستور میں Amendment آئی ہے تو پہلی ترمیم یہ تھی کہ پاکستان کا نام اسلامک ریپبلک آف پاکستان ہو گا۔ قراردادِ مقاصد کو ان الفاظ کے ساتھ، جس میں وہ پاس ہوئی تھی، بحال کیا گیا۔ اور دستور کی یہ شق کہ قرآن و سنت کے خلاف قانون سازی نہیں ہو گی، یہ بحال کی گئی۔ یہ تینوں چیزیں ۱۹۶۴ء میں، جبکہ ہم جیل میں تھے، اس وقت اسمبلی نے منظور کیں۔ تو فرار کی پوری پوری کوششیں ہوئیں۔ ۱۹۵۶ء کا دستور آج بھی Prevail کر رہا ہے ان تمام (کوششوں کے باوجود)۔
پھر یہی چیز آپ کو ۱۹۷۳ء کے کانسٹیٹیوشن میں ملے گی، اس کا پہلا ڈرافٹ جو آیا ہے، اس میں اس کو Socialist Republic of Pakistan قرار دیا گیا ہے۔ اس کا آرٹیکل ۳ یہ تھا کہ State would be a socialist state۔ پیپلز پارٹی میجارٹی میں تھی لیکن اس زمانے کی اسمبلی کے لوگوں نے جس ہمت سے، اور عوام نے جو اُن کی تائید کی، اس پوری جدوجہد کا نتیجہ تھا کہ دستور ان تمام شقوں کو لایا جو ۱۹۵۶ء کے دستور میں تھیں، اس سے بہتر شکل میں لایا، اور Consensus کی شکل میں لایا، اور ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ۱۹۷۳ء کا دستور بنیادی طور پر ایک اسلامی دستور ہے، ایک جمہوری دستور ہے، ایک فلاحی دستور ہے، اور ایک وفاقی دستور ہے۔ یہ چاروں خوبیاں اس کے اندر ہیں۔