المیۂ فلسطین اور قومی کانفرنس اسلام آباد کا اعلامیہ

المیۂ فلسطین اور امتِ مسلمہ کی ذمہ داری

سات اکتوبر 2023ء سے تقریبا ڈیڑھ سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے، امریکہ اور اہلِ مغرب کی مکمل اشیرباد، تائید و حمایت اور مادی و عسکری امداد کے ساتھ اسرائیل غزہ کے فلسطینیوں پر اس صدی کے سب سے ہیبتناک، المناک اور اذیتناک مظالم ڈھا رہا ہے۔ تقریباً پچپن ہزار مرد، خواتین، بچے اور بوڑھے جامِ شہادت نوش فرما چکے ہیں، دو لاکھ کے لگ بھگ شدید زخمی ہیں۔ ان کا شہری ڈھانچہ کارپیٹ بمباری کے ذریعے زمین بوس کر دیا گیا ہے۔ ہسپتال، تعلیمی ادارے اور خیمہ بستیاں بھی محفوظ نہیں رہیں۔ حربی امداد تو دور کی بات ہے، خوراک اور طبی امداد کی ترسیل پر بھی پابندی عائد ہے۔ بچے بِلَک بِلَک کر اور تڑپ تڑپ کر جان دے رہے ہیں۔

اہلِ مغرب کے منافقین جو آج تک دنیا کو حقوقِ انسانی، حقوقِ نسواں، حقوقِ اطفال، حقوقِ حیوانات، جنگلی حیات اور ماحولیاتی تطہیر کے درس دیتے رہے ہیں، یہ سب مظالم ان کی نظروں کے سامنے ہیں، لیکن اہلِ غزہ ان تمام حقوق سے محروم ہیں۔ اقوامِ متحدہ اور دیگر عالمی ادارے یا تو بے بس ہیں یا حقائق سے آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں۔ انسانیت کا عالمی ضمیر مر چکا ہے اور نفرت و درندگی کا مجسمہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ مظلوم فلسطینیوں کو غزہ خالی کرنے کی کبھی دھمکی اور کبھی ترغیب دے رہا ہے۔ اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو حالیہ صدیوں میں انسانیت کا سب سے بڑا قصاب بن کر دندنا رہا ہے اور امریکی صدر اسے ان مظالم پر داد و تحسین دے رہا ہے۔

ایسے حالات میں قرآنِ کریم نے امتِ مسلمہ پر بھاری ذمہ داری عائد کی ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

’’اور ( اے مسلمانو!) آخر تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں جنگ نہیں کرتے، حالانکہ کمزور مرد، عورتیں اور بچے (پکار پکار کر) کہہ رہے ہیں، اے ہمارے رب! ہمیں ظالموں کی اس بستی سے نکال دے اور ہمارے لیے اپنے پاس سے کوئی کارساز بنا دے اور کسی کو اپنے پاس سے ہمارا مددگار بنا دے‘‘ (النساء: 75)۔

غور کا مقام ہے کہ یہ کارساز اور مددگار کس نے بننا تھا؟ یہ تو امتِ مسلمہ اور ملتِ اسلامیہ نے بننا تھا۔ کم و بیش ستاون مسلم ممالک دنیا کے نقشے پر موجود ہیں، نیز پونے دو، دو ارب مسلمان دنیا میں موجود ہیں، لیکن مظلوم فلسطینیوں کی داد رسی کے لیے لبّیک کہنے والا اور آگے بڑھ کر مدد کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ فلسطین کے اردگرد مسلم اور عرب ممالک ہیں، مگر وہ فلسطینیوں کی عملی مدد کے لیے آگے بڑھنے کو تیار نہیں ہیں۔ مسلم ممالک کی تنظیم ’’او آئی سی‘‘ یقیناً‌ موجود ہے، مگر اس کی اعانت کا سارا اثاثہ چند بے جان اور قوتِ ایمانی سے عاری قراردادیں ہیں اور بس۔

احتجاج کی ایک صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ مسلم ممالک اتفاقِ رائے سے ان عالمی تنظیموں کی رکنیت سے باہر نکل آئیں یا ان کا بائیکاٹ کریں۔ اور سب سے مؤثر طریقہ یہ ہے کہ اپنی تنظیم قائم کریں، اسلامی کانفرنس کی تنظیم کو مؤثر بنائیں، حادثات و سانحات اور مظالم کے سدباب کے لیے اپنا اجتماعی فنڈ قائم کریں۔ مسلم ممالک اپنے اجتماعی تحقیقی اور ایجاداتی ادارے قائم کر سکتے ہیں۔ علامہ اقبال نے کہا تھا:

نہیں ہے ناامید اقبالؔ اپنی کشت ویراں سے
ذرا نَم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی

اسلامی تعلیمات کی رو سے عملی اعانت کی ذمہ داری بالترتیب ’’الاقرب فالاقرب‘‘ پر عائد ہوتی ہے، لیکن قریب والے ہوں یا دور والے ہوں، دینی و مِلی بے حمیّتی میں سب برابر ہیں۔ سوشل میڈیا پر ایک ننھے سے پھول سے بچے کی تصویر دیکھی، اس پر عمارت کا ملبہ گرنے ہی والا تھا کہ ایک کتے نے اسے اپنے منہ میں پکڑا اور ملبے تلے دفن ہونے سے بچا لیا۔ کسی نے اس اندوہناک منظر کو دیکھ کر سوشل میڈیا پر یہ جملہ لکھا: ’’اس دور کے مسلمانوں سے تو یہ کتا ہی بہتر ہے۔‘‘

بعض حضرات سوشل میڈیا پر گھنٹوں اور منٹوں کے حساب سے پوسٹیں لگا رہے ہیں، ارسال کر رہے ہیں، یقیناً‌ وہ یہ سمجھتے ہوں گے کہ دوسروں کے ضمیروں کو جھنجھوڑ کر وہ اپنے فریضے سے عہدہ برآ ہو رہے ہیں، لیکن مظلوموں کو تو عملی مدد کی ضرورت ہے۔ ایک جواں عمر عرب کو سنا: وہ علماء کو منافق گردان رہا تھا۔ اتفاق سے اس نے حکمرانوں کو مخاطب نہیں کیا۔ احادیثِ مبارکہ کی رو سے اہلِ اقتدار اور حکمرانوں کی ذمہ داری عملی اقدامات کرنا ہوتی ہے اور علماء کی ذمہ داری صدائے احتجاج بلند کرنا اور حکمرانوں اور عوام کو ان کی ذمہ داریوں سے آگاہ کرنا ہے۔ مسلم حکومتوں اور حکمرانوں پر تو ہمارا بس نہیں چلتا، پس بہتر ہے کہ ایک دوسرے کو ملامت کرنے کے بجائے عملی اقدامات کریں اور اس کی چند صورتیں درجِ ذیل ہیں:

  1. مالی وسائل جمع کریں اور مظلومین و متاثرین تک بحفاظت ان کی ترسیل کا انتظام کریں۔
  2. خالص غذائی اجناس اور بچوں کے لیے دودھ اور دیگر سامانِ ضرورت کا اہتمام کریں۔
  3. بچوں اور خواتین سمیت ہر عمر کے لوگوں کے لیے ملبوسات کی ترسیل کا انتظام کریں۔
  4. کاررواں کی شکل میں بڑے کنٹینروں پر موبائل ہسپتال روانہ کریں، ان میں میڈیکل و پیرا میڈیکل سٹاف، آپریشن تھیٹر، ایکسرے و ٹیسٹنگ لیبارٹری اور تمام ضروری ادویات شامل ہوں۔
  5. ہمیں کامل امید ہے کہ اگر ڈاکٹروں کو رضاکارانہ بنیاد پر اس مہم میں شرکت کی دعوت دی جائے تو وہ اپنی خدمات فراہم کرنے کو اپنے لیے سعادت سمجھیں گے۔

مجلسِ اتحادِ امت پاکستان کی جانب سے آج (جمعرات دس اپریل) کو ’’پاک چائنا فرینڈشپ سنٹر‘‘ اسلام آباد میں ’’فلسطین اور امتِ مسلمہ کی ذمہ داری‘‘ کے عنوان سے قومی کانفرنس منعقد ہو رہی ہے، اس میں تمام دینی تنظیمات کے قائدین خطاب فرمائیں گے اور اتفاقِ رائے سے کوئی قابلِ عمل لائحہ عمل ترتیب دیں گے۔ امید ہے کہ اس اجتماع سے کوئی خیر کی صورت برآمد ہو گی۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

  1. ’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ وہ خود اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اسے مصیبت میں بے یار و مددگار چھوڑتا ہے، جو (کسی مشکل میں) اپنے مسلمان بھائی کی حاجت روائی کرے گا، (جب وہ مصیبت میں مبتلا ہوگا) تو اللہ تعالیٰ اس کی حاجت روائی فرمائے گا، اور جو اپنے مسلمان بھائی سے کسی مصیبت کو دور کرے گا، تو (اس کے انعام کے طور پر) اللہ تعالیٰ قیامت کی مصیبتوں میں سے اس کو کسی مصیبت سے نجات عطا فرمائے گا، اور جو کسی مسلمان (کے عیوب) کی پردہ پوشی کرے گا تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس (کے عیوب) کی پردہ پوشی فرمائے گا‘‘ (صحیح مسلم: ۶۵۷۸)۔
  2. ’’ایک دوسرے سے محبت کرنے، ایک دوسرے پر رحم کرنے اور ایک دوسرے کے ساتھ شفقت کے ساتھ پیش آنے میں مومنوں کی مثال ایک جسم کی سی ہے کہ جب (جسم کے) ایک عضو کو تکلیف ہو تو سارا جسم بیداری اور بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم: ۶۵۸۶)۔
  3. ایک مومن دوسرے مومن کے لیے دیوار کی مانند ہے کہ جس کی اینٹیں ایک دوسرے کے لیے تقویت کا باعث بنتی ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے (دونوں ہاتھوں کی) انگلیوں کو ایک دوسرے کے اندر داخل کر کے اس کی عملی مثال پیش کی‘‘ (بخاری: ۲۴۴۶)۔
  4. ایک وقت آئے گا کہ دیگر قومیں تم پر ایسے ہی ٹوٹ پڑیں جیسے کھانے والے دسترخوان پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ کسی نے پوچھا: کیا ہم اس وقت تعداد میں کم ہوں گے؟ آپؐ نے فرمایا: (نہیں) بلکہ تم اس وقت بہت ہو گے، لیکن تم سیلاب کی جھاگ کے مانند ہو گے، اللہ تعالیٰ تمہارے دشمن کے دلوں سے تمہارا رعب نکال دے گا، اور تمہارے دلوں میں وہن ڈال دے گا۔ کسی نے پوچھا: یا رسول اللہؐ! وہن کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: دنیا کی محبت اور موت کا ڈر‘‘ (سنن ابی داؤد: ۴۲۹۷)۔
www.dunya.com.pk

قومی کانفرنس اسلام آباد کا اعلامیہ

سرورق: مجلسِ اتحادِ امت پاکستان کے زیر اہتمام ’’قومی کانفرنس‘‘ بعنوان ’’فلسطین اور امتِ مسلمہ کی ذمہ داری‘‘۔ اعلامیہ۔ جمعرات ۱۰ اپریل ۲۰۲۵ء ۔ پاک چائنا فرینڈ شپ سنٹر، اسلام آباد۔

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

آج پاک چائنا فرینڈ شپ سنٹر اسلام آباد میں مجلس اتحادِ امت پاکستان کے زیر اہتمام ’’فلسطین اور امتِ مسلمہ کی ذمہ داری‘‘ کے عنوان سے قومی کانفرنس منعقد ہوئی، اس میں پاکستان بھر سے دینی جماعتوں اور دینی تنظیمات کے صفِ اول کے قائدین شریک ہوئے۔ اجلاس میں اتفاقِ رائے سے مندرجہ ذیل اعلامیہ کی منظوری دی گئی:

★ امریکہ اور اہلِ مغرب کی آشیرباد اور مکمل مادی، مالی اور حربی امداد کے ساتھ اسرائیل نے غزہ کے مظلوم فلسطینیوں پر رواں صدی کے سب سے تباہ کن مظالم ڈھائے ہیں، ماضی قریب کی تاریخ میں پوری دنیا میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ بچوں، عورتوں، بوڑھوں اور جوانوں سمیت تقریبا 55 ہزار افراد شہید ہو چکے ہیں، کم و بیش 2 لاکھ افراد شدید زخمی اور معذور ہو چکے ہیں اور 70 فیصد سے زائد علاقہ ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکا ہے، شہری خدمات کا پورا ڈھانچہ تباہ و برباد ہو چکا ہے، بیشتر اسپتال، تعلیمی ادارے، انتظامی اور رفاہی خدمات کے ادارے تباہ ہو چکے ہیں۔ یہ محض ایک جنگ نہیں، بلکہ فلسطینیوں کی کھلی اور منظم نسل کشی (Genocide) ہے۔

ایسا لگتا ہے عالمی ضمیر مر چکا ہے، اپنے وطن کی آزادی و خود مختاری کے لیے جدوجہد کرنے والوں کو دہشت گرد اور قاتلوں، ظالموں اور جابروں کو حق پر مبنی قرار دیا جا رہا ہے۔ اقوام متحدہ، سلامتی کونسل غیر مؤثر ہو چکے ہیں، امریکہ غیر مشروط جنگ بندی کی ہر قرارداد کو ویٹو کر رہا ہے۔ حقوقِ انسانی، حقوقِ نسواں، حقوقِ اطفال، عالمی عدالتِ انصاف اور دیگر عالمی ادارے مفلوج اور بے بس ہو چکے ہیں۔

ایسی صورت حال میں شرعاً‌ ’’الاقرب فالاقرب‘‘ کے اصول پر تمام مسلم حکومتوں پر جہاد فرض ہو چکا ہے جس کے نتیجے میں فلسطینیوں کی نصرت امتِ مسلمہ پر واجب ہو چکی ہے، قرآنی آیات، احادیثِ مبارکہ اور مسلّمہ فقہی اصول اس پر شاہد عدل ہیں۔

وَمَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَآءِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَآ أَخْرِجْنَا مِنْ هَذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ أَهْلُهَا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ وَلِيًّا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ نَصِيرًا (النساء 75)

مسلم حکمران اور پوری امت اس کے لیے عند اللہ جوابدہ ہو گی اور اللہ کریم کے ہاں اس حوالے سے کوئی عذر قابلِ قبول نہیں ہو گا۔

★ اقوام متحدہ اپنی قراردادوں کے ذریعے 1967 میں بیت المقدس اور دیگر مقبوضہ فلسطینی علاقوں پر اسرائیل کے قبضے کو ناجائز، غاصبانہ اور غیر قانونی قرار دے چکی ہے۔ اسلام اور مسلّمہ عالمی قوانین کی رو سے اپنے وطن کی آزادی کے لیے جدوجہد کرنا فلسطینیوں کا شرعی، قانونی اور اخلاقی حق ہے۔ عالمی عدالتِ انصاف غزہ میں اسرائیلی مظالم کو نسل کشی قرار دے چکی ہے اور جو ممالک اس وقت اسرائیل کی تائید و حمایت اور پشت پناہی کر رہے ہیں، وہ سب عالمی معاہدات اور عالمی میثاق کو توڑنے کے مجرم ہیں۔ لہٰذا فلسطین کے معاملے میں کوئی معاہدہ کسی مسلمان ملک کے لئے اس جہاد میں شرکت سے مانع نہیں ہے۔ لیکن یہ واضح رہے کہ اہلِ فلسطین کی مدد کے نام پر مسلم ممالک میں اصلاحِ احوال اور تبدیلی کے لیے حکومتوں کے خلاف مسلح جدوجہد فساد فی الارض اور غیر شرعی، غیر آئینی اور غیر قانونی فعل ہے اور بغاوت کے زمرے میں آتا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ایسی کارروائیوں کا نتیجہ ہمیشہ امت میں تفریق اور زوال کا باعث بنا ہے۔

ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ 

  • اسلامی کانفرنس کی تنظیم فلسطینیوں کی بحالی کے لئے فوری فنڈ قائم کرے اور متاثرین تک اس کی ترسیل کا انتظام کرے۔
  • جن مسلم ممالک نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی و تجارتی تعلقات قائم کر رکھے ہیں، وہ غیر مشروط جنگ بندی تک ان تعلقات کو منقطع کریں، اپنے سفراء کو واپس بلائیں اور اسرائیلی سفراء کو ملک بدر کریں۔
  • جو عالمی ادارے اپنے فرائض ادا نہیں کر رہے، مسلم ممالک ان کی رکنیت سے عارضی طور پر دستبردار ہو جائیں۔
  • اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس فوراً‌ طلب کیا جائے اور چونکہ پاکستان اس کا عارضی ممبر ہے، اس لئے وہ پہل کرے۔
  • اصولاً امتِ مسلمہ کی ترجمانی اور اس کے مطالبات کی تکمیل متعلقہ مسلم حکومتوں کی ذمہ داری ہے، لیکن جب تک مسلم حکومتیں اپنی ذمہ داری سے عہدہ برآ نہیں ہوتیں، امتِ مسلمہ کا فرض ہے:
    • (الف)    قابلِ اعتماد رفاہی اداروں کے ذریعے فلسطینیوں کی بڑھ چڑھ کر مالی امداد کریں۔
    • (ب) تحریر، تقریر اور پُر امن اجتماعات اور احتجاجی جلوسوں کے ذریعے دنیا کو اپنے جذبات سے آگاہ کریں۔
    • (ج) غزہ کے محصورین کے لئے غذائی سازوسامان، ان کے حالات کی مناسبت سے ملبوسات فراہم کریں۔
    • (د)   کنٹینروں کے کانوائے پر مشتمل گشتی اسپتال قائم کریں جو ادویہ، آپریشن تھیٹر، لیبارٹری، طبی آلات، ایکسرے، الٹراساونڈ اور سٹی اسکین، نیز میڈیکل اور پیرا میڈیکل اسٹاف پر مشتمل ہو۔ ’’ڈاکٹرز وِداؤٹ بارڈرز‘‘ کی تنظیم کو حرکت میں لائیں۔ اعلیٰ مہارت کے سرجن، فزیشن اور ٹیکنیشن اپنی مفت خدمات پیش کریں۔
    • (ھ) جو کاروباری ادارے اسرائیل کے ساتھ کاروبار کر رہے ہیں، پُر امن طریقے سے ان کی مصنوعات کا عالمی سطح پر بائیکاٹ کریں۔ جو کاروباری ادارے اپنے سٹور یا کمپنیوں سے ایسی مصنوعات نہ ہٹائیں، ان کے مالکان کا بھی پُر امن بائیکاٹ کیا جائے۔
    • (و) آئندہ جمعۃ المبارک کو ’’یومِ مظلومین و محصورینِ فلسطین‘‘ کے عنوان سے منائیں اور ملک بھر میں پُرامن مظاہرے کریں اور ریلیاں نکالیں۔
    • (ز) عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لئے جدید الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے تمام دستیاب پلیٹ فارمز کو استعمال کریں۔
    • (ح) مظلوم و محصور فلسطینیوں کے حق میں متفقہ آواز بلند کرنے اور عالی ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لئے غیر سرکاری سطح پر کل جماعتی کانفرنس بلائی جائے تاکہ کسی کے پاس عدمِ شرکت کا کوئی جواز نہ رہے، اگر کسی اور نے پہل نہ کی تو مجلس اتحادِ امت پاکستان اس کی بابت حکمتِ عملی ترتیب دے گی۔

★ یہ اجلاس صدر امریکہ کے اس بیان کی شدید مذمت کرتا ہے، جس میں انہوں نے فلسطینیوں کو اپنا آبائی وطن غزہ چھوڑنے اور وہاں سے ہجرت کرنے کا کہا ہے، نیز اشاروں کنایوں میں غزہ پر قبضہ کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ ہم ببانگِ دہل کہنا چاہتے ہیں کہ اسرائیل سمیت پورا خطہ فلسطینیوں کا آبائی وطن ہے، اس پر ان کا قانونی اور فطری حق ہے، امریکہ چاہے تو اسرائیلیوں کو کہیں اور آباد کر سکتا ہے۔

www.fb.com/MuniburRehman55


مسئلہ فلسطین

(الشریعہ — مئی ۲۰۲۵ء)

ماہانہ بلاگ

شملہ معاہدے سے نکلنے کے فوائد
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

بھارت کا وقف ترمیمی ایکٹ: جب بیوروکریٹس موجود ہوں تو بلڈوزرز کی کیا ضرورت؟
الجزیرہ

پاکستان کا ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کا طریقہ خطرناک ہے۔
الجزیرہ

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ٹیرفس: وائیٹ ہاؤس کا موقف اور وزیراعظم سنگاپور کی تقریر
سی بی ایس نیوز
لارنس وانگ

جہاد فرض ہے اور مسلم حکومتوں کے پاس کئی راستے ہیں
مولانا مفتی محمد تقی عثمانی

المیۂ فلسطین اور قومی کانفرنس اسلام آباد کا اعلامیہ
مولانا مفتی منیب الرحمٰن

فلسطین پاکستان کا اساسی مسئلہ ہے
مولانا فضل الرحمٰن

امریکہ کا عالمی کردار، اسرائیل کی سفاکیت، اہلِ غزہ کی استقامت: ہماری ذمہ داری کیا ہے؟
حافظ نعیم الرحمٰن

فلسطینی پاکستان کے حکمرانوں سے توقع رکھتے ہیں
لیاقت بلوچ

اہلِ فلسطین کی نصرت کے درست راستے
علامہ ہشام الٰہی ظہیر

قومی فلسطین و دفاعِ پاکستان کانفرنس: تمام جماعتوں کا شکریہ!
مولانا قاری محمد حنیف جالندھری
مولانا حافظ نصر الدین خان عمر

فلسطین کے ہمارے محاذ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مولانا زاہد الراشدی کا ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن میرپور آزادکشمیر کے فلسطین سیمینار سے خطاب
مفتی محمد عثمان جتوئی

غزہ کی تازہ ترین صورتحال اور نیتن یاہو کے عزائم
مولانا فتیح اللہ عثمانی

حالیہ فلسطین جنگ میں شہید ہونے والے جرنلسٹس
الجزیرہ

’’میں نے پاکستان بنتے دیکھا‘‘
پروفیسر خورشید احمد
اظہر نیاز

پروفیسر خورشید احمدؒ کی رحلت: صدی کا بڑا انسان
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

پروفیسر خورشید: جہانگیر و جہانبان و جہاندار و جہاں آرا
ڈاکٹر شہزاد اقبال شام

پروفیسر خورشید احمدؒ کی وفات
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

’’آسان تفسیرِ قرآن‘‘
مولانا مفتی محمد تقی عثمانی

حکمران کے دس حقوق
مولانا مفتی عبد الرحیم
مفتی عبد المنعم فائز

رسالتِ محمدیؐ کی تئیس سالہ کامیاب تبلیغ
علامہ ڈاکٹر خالد محمودؒ

اسلامی نظریاتی کونسل، دستوری تاریخ کے آئینے میں
اسلامی نظریاتی کونسل

مطبوعات

شماریات

Flag Counter