فلسطین پاکستان کا اساسی مسئلہ ہے

’’قومی کانفرنس: فلسطین اور امتِ مسلمہ کی ذمہ داری‘‘ سے خطاب جو مجلسِ اتحادِ امت پاکستان کے زیراہتمام ۱۰ اپریل ۲۰۲۵ء کو پاک چائنا فرینڈشپ سنٹر، اسلام آباد میں منعقد ہوئی۔

الحمد للہ الحمد للہ وکفیٰ وسلام علی عبادہ الذین اصطفی لا سیما علی سید الرسل و خاتم الانبیاء وعلی آلہ وصحبہ و من بھدیھم اھتدی، اما بعد فاعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم بسم اللہ الرحمٰن الرحیم یا أیہا الذین آمنوا إن تطیعوا الذین کفروا یردوکم علیٰ أعقابکم فتنقلبوا خاسرین بل اللہ مولاکم وہو خیر الناصرین صدق اللہ العظیم۔

حضرات گرامی قدر، اکابر علماء کرام، میرے بزرگو، دوستو اور بھائیو، آج کا یہ اجتماع نہایت مختصر نوٹس پر بلایا گیا اور ظاہر ہے کہ جو صورتحال فلسطین میں اور غزہ میں برپا ہوئی اس کا تقاضا تھا کہ بغیر کسی مہلت کے ہم فوری طور پر اکٹھے ہوں اور اہلِ فلسطین کے ساتھ اہلِ غزہ کے ساتھ اپنی یکجہتی کا اظہار کریں اور دنیا کو یہ پیغام دیں کہ پاکستان کا مسلمان ہو یا عالم اسلام کا کوئی فرد آج وہ اپنے فلسطینی بھائیوں کے شانہ بشانہ کھڑا ہے۔

جیسے کہ حضرت شیخ مفتی محمد تقی عثمانی صاحب نے ارشاد فرمایا اور ان سے قبل حضرت گرامی مفتی منیب الرحمٰن صاحب دامت برکاتہم نے اجلاس کا جو اعلامیہ پیش کیا جس میں صراحت کے ساتھ فلسطینیوں کے شانہ بشانہ میدان جنگ میں شامل ہونے کا فتویٰ جاری کیا، یہ صرف پاکستان کے مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ عالمِ اسلام کے لیے ہے اور آج آپ کا یہ اجتماع صرف ایک روایتی قسم کا اجتماع نہیں ہے بلکہ ان حالات میں اس کی جو اہمیت ہے تاریخ کبھی اس کو نظر انداز نہیں کر سکے گی، جو اعلان کرتا ہے کہ فلسطینیوں کے شانہ بشانہ عملی جہاد میں شریک ہونا اب امت پر فرض ہو چکا ہے لیکن تکلیف ما لا یطاق تو ہے نہیں جہاں جہاں کا مسلمان جس جس راستے سے وہاں شریک ہو سکتا ہو مسلمان پر فرض ہے کہ ان حالات میں اپنے فلسطینی بھائیوں کے شانہ بشانہ صہیونی جارحیت کا مقابلہ کریں۔

اسرائیل ایک ریاستی دہشت گرد ہے، اسرائیل آج کا قاتل نہیں ہے یہ یہود انبیاء کے قاتل ہیں، ان کی تاریخ قتل و غارت گری ہے، ان کے علاوہ ان کا کوئی مشغلہ نہیں اور اللہ رب العزت نے ان کے چہرے سے نقاب اٹھایا  کلما أوقدوا نارا للحرب أطفأہا اللہ   جب بھی انہوں نے جنگ کی آگ بھڑکائی اللہ نے بجھائی یعنی جب وہ جنگ کی آگ بھڑکانے کا سوچتے تھے سازش کرتے تھے تو اس سازش کو اللہ ناکام بنا دیتا تھا۔ اور میں تو بڑے صاف الفاظ میں کہنا چاہتا ہوں کہ میرے ضمیر نے قابیل کو نہیں بخشا، میرے ضمیر نے قابیل کو نہیں بخشا، میں کیسے صلح کر لوں قتل کرنے والوں سے۔ آج بھی وہ قاتل ہیں اور اپنی قتل و غارتگری کی تاریخ کو تسلسل دے رہے ہیں۔

ایک صدی قبل کرہ ارض پر اسرائیل نامی کسی بھی ریاست کا وجود تک نہیں تھا۔ جناب رسول اللہ ﷺ نے صرف خیبر سے نہیں نکالا بلکہ اعلان فرمایا  اخرج الیہود من جزیرۃ العرب  کہ یہود کو جزیرہ عرب سے باہر نکال دو۔ فلسطین ارضِ عرب ہے اور ارضِ عرب پر ان کو قبضہ کرنا، وہاں ریاست بنانا، وہاں آبادی کرنا، اس کا کوئی حق اسلام کے دائرے میں ان کے لئے موجود نہیں ہے۔ کیا کیا قصے دنیا میں پھیلائے جا رہے ہیں، فلسطینیوں نے تو خود زمینیں بیچی، فلسطینیوں کے مرضی سے بیچی ہوئی زمینوں پر یہ آباد ہو گئے، اب گلا کس سے؟ آپ ذرا ریکارڈ درست کیجئے! 1917ء میں جب بالفور اسرائیلی ریاست کی تجویز پیش کر رہا تھا اور قرارداد دے رہا تھا، اس وقت پورے فلسطین کی سرزمین کے صرف دو فیصد علاقے پر یہودی آباد تھا، صہیونی آباد تھا، 98 فیصد علاقے پر صرف مسلمان فلسطینی آباد تھا۔ اور جب 1948ء میں اسرائیل کی ریاست کا باقاعدہ اعلان کیا تو 1947ء کے اعداد و شمار دیکھئے فلسطین کی سرزمین پر یہودیوں کی آبادکاری صرف 6 فیصد علاقے پر ہے، 94 فیصد علاقہ صرف فلسطینیوں کا تھا۔ پھر کہتے ہیں اسرائیل کو مسلمانوں نے خود جگہ دی، کیوں جھوٹ بولتے ہو، کیوں تاریخ کو جھٹلاتے ہو؟

اور ہم پاکستان کے موقف کو بھی جاننا چاہتے ہیں جو پاکستان کی اساس کا حصہ ہے کہ 1940ء کی قراردادِ پاکستان، اسی میں کہا گیا کہ فلسطین کی سرزمین پر یہودی بستیوں کا قیام، یہ ناجائز قبضہ ہے۔ اور بانی پاکستان نے کہا تھا کہ ہم فلسطینیوں کے شانہ بشانہ کھڑے رہیں گے۔ اور پھر جب اسرائیل وجود میں آیا تو پاکستان نے کہا کہ یہ برطانیہ کا ناجائز بچہ ہے۔ یہ پاکستان کا موقف ہے ان کے بارے میں، بعد میں نہیں، قیامِ پاکستان کی اساس کا حصہ ہے۔ اور جب اسرائیل وجود میں آیا تو اسرائیل کے پہلے صدر نے جو اپنا خارجہ پالیسی بیان دیا، اپنے خارجہ پالیسی بیان میں اس نے واضح طور پر آنے والے وقت میں اپنے اہداف کا تعین کیا اور کہا کہ کرہ ارض پر نمودار ہونے والی نوزائیدہ مسلم ریاست کا خاتمہ، یہ اسرائیل کا ہدف ہوگا۔ نوزائیدہ مسلم ریاست صرف اور صرف پاکستان کی ریاست تھی۔

آج پاکستان کو جس جہت سے بھی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے اس کے پیچھے یہودی سازشیں کار فرما ہوتی ہیں اور پھر ہمارے ملک میں ایسے ایسے فلاسفر وجود پاتے ہیں، ایسے ایسے فلاسفر اٹھتے ہیں، صاحب! ہم نے تو ملک کو چلانا ہے، پچیس کروڑ آبادی کی معیشت کا مسئلہ ہے، جب تک ہم یہود کے ساتھ اسرائیل کے ساتھ تعلقات بہتر نہیں کریں گے پاکستان کی معیشت کیسے چلے گی، پاکستان کی معیشت کیسے چلے گی! یہ سنی سنائی بات نہیں کر رہا ہوں آپ سے! یہ کوئی ایسی بات نہیں کر رہا ہوں کہ سیاسی دنیا میں خبریں چلتی ہیں میرے کان تک بھی کوئی بات پہنچ گئی۔ یہ وہ باتیں میں آپ سے کہہ رہا ہوں جو یہ طبقہ براہ راست مجھ سے کہہ چکا ہے، براہ راست مجھ سے کہہ چکا ہے۔ اور جب یہ حالات پیدا ہوئے ٹی وی پر یہ لوگ آکر فلسفے جھاڑتے تھے، فلسفے بگھارتے تھے۔ پھر ہمیں سیمینار بھی کرنے پڑے، کراچی میں ملین مارچ بھی کرنا پڑا اور اللہ کے فضل سے ہم نے ان کا ایسا منہ بند کیا کہ ان شاء اللہ پھر دوبارہ یہ منہ نہیں کھل سکے گا۔

اور میں آج بھی حکمرانوں کو کہنا چاہتا ہوں، ہمارے ملک کی حکومت عجیب ہے، پھٹی ہوئی قمیص ہے۔ پی ڈی ایم حکومت کر رہی ہے، صدر اپوزیشن میں ہے۔ اور بجائے اس کے کہ وہ اپنے صدر کی مانیں، پتہ نہیں کس کی مان رہے ہیں۔

ان حالات میں قیامِ پاکستان کے مقصد کو بھی سمجھنا چاہیے، مسلم امہ کے نام پر وجود میں آنے والی ریاست پوری دنیا کے مسلمانوں کی جنگ لڑنے کی ذمہ دار ہے۔ اگر پاکستان آج فلسطین کی مسلمانوں کی جنگ نہیں لڑتا تو پھر وہ قیامِ پاکستان کے مقصد کی نفی کر رہے ہیں۔ پھر مسلم لیگ حکومت کرے لیکن میں اس مسلم لیگ کو کہنا چاہوں گا کہ آپ ہی تو ہیں جو قائد اعظم محمد علی جناح کے موقف کو جھٹلا رہے ہیں۔ واضح موقف ہونا چاہیے! ڈرنا کیا ہے؟

اور قرآن کریم ہمارا رہنماء ہے۔ جب اللہ رب العزت نے مکہ مکرمہ میں مشرکین کے داخلے پر پابندی لگا دی۔  یا أیہا الذین آمنوا إنما المشرکون نجس فلا یقربوا المسجد الحرام بعد عامہم ہذا ۔ سوال پیدا ہوا یا نہیں؟ کہ یہ تو تجارتی مرکز ہے، یہاں تو دنیا کا مال آتا ہے، یہاں خرید و فروخت ہوتی ہے، یہاں کی معیشت متاثر ہو جائے گی۔ تو اللہ رب العزت نے کیا فرمایا؟  وإن خفتم عیلۃ فسوف یغنیکم اللہ من فضلہ إن شاء  اگر تمہیں بھوک پیاس کا خطرہ ہو جائے، تجارتی نقصان ہو جائے گا، معاشی بربادی ہو جائے گی، تو ہمارے فلسفی لوگ پھر اپنا فلسفہ بگھارتے ہیں، یہ مولوی صاحبان صدیوں پرانی باتیں کرتے ہیں، ان کو کیا پتا ہے حالات کا، دنیا کے حالات۔

یہ آج کی باتیں نہیں ہیں، یہ اس وقت مکہ میں بھی ہوئی لیکن اللہ نے فرمایا  إن اللہ علیم حکیم ۔ تم کیا مجھے سمجھاؤ گے؟ میں خود جانتا ہوں۔ پھر فلسفے ۔۔۔ صاحب اس کی ذرا حکمتِ عملی دیکھئے، حکمتِ عملی کے لحاظ سے عقلی لحاظ سے ہمیں سوچنا چاہیے، گہرائی کے ساتھ سوچنا چاہیے، یہ لوگ تو سادے لوگ ہیں سادی گفتگو کرتے ہیں، اللہ نے کہا  إنی علیم حکیم ۔ وہ حکمت والا بھی تو میں ہوں! تم سے زیادہ حکمت جانتا ہوں۔ میں ہی تو علیم ہوں۔ میں ہی تو حکیم ہوں۔ تو اللہ تعالیٰ کے علم اور اللہ تعالیٰ کی حکمت اس وقت بھی یہی تھی کہ اس کے حکم کو مانو اور اس خطے پر غیر مسلموں کا داخلہ بند کر دو۔ اور اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو جزیرۃ العرب سے نکالا تو ہمیں کبھی اس خوف میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے کہ پھر اس کا تو ہمیں معاشی نقصان ہوگا۔ میں اس معیشت پر لعنت بھیجتا ہوں جو یہودیوں کے رحم و کرم پر ہوں گے۔

خود پاکستان کو پاکستان بناؤ، خود پاکستان کو پاکستان بناؤ، پاکستان کے وسائل کو ملک کے لئے استعمال کرو، اپنے وسائل کو ملک کے لئے استعمال کرو۔ 77 سال ہم نے گزارے ہم نے اپنے وسائل کو استعمال نہیں کیا، ساری زندگی ہم نے بھیک مانگ کر گزاری ہے، قرضے مانگ کر گزارے ہیں۔ جب 77 سال تم نے پاکستان کو پاکستان نہیں سمجھا، پاکستان کے وسائل کو اپنے لئے استعمال نہیں کیا، تو پھر سمجھ لو کہ تمہارا دماغ تمہارا دل اندر سے آج بھی غلامانہ ہے اور تم کل بھی غلام تھے تم آج بھی غلامی کر رہے ہو۔

میں یہ بات کئی اجتماعات میں کر چکا ہوں اور آج پھر یاد دلانا چاہتا ہوں آپ کو کہ جنرل مشرف صاحب کے ساتھ ایک میٹنگ تھی، مجھے کہتا ہے آپ امریکہ کے خلاف جلوس جلسے نکال رہے ہیں، ہم امریکہ کی غلامی نہیں مانتے، مولانا صاحب مان لو ہم امریکہ کے غلام ہیں۔ یہ آرمی چیف کہہ رہا ہے مجھے، مان لو ہم غلام ہیں۔ آپ کیا یہ کہتے ہیں غلامی نہیں مانتے۔ میں نے کہا اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہم غلام ہیں، میں بھی مانتا ہوں غلام ہیں، آپ بھی کہتے ہیں، غلامی کو مانتا ہوں۔ لیکن ایک طبقہ وہ ہے جو غلامی کو قبول کر کے اس کے سامنے سرنگوں ہو جاتا ہے، اور ایک طبقہ وہ ہے جو غلامی کے سامنے ڈٹ جاتا ہے، سر اٹھا کے چلتا ہے گردن کٹوا دیتا ہے لیکن اس کے سامنے جھکنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ تو میں نے کہا جنرل صاحب! یہاں پر بات تقسیم ہو جاتی ہے، ایک آپ ہیں اور ایک آپ کے اکابر کی تاریخ، ایک میں ہوں اور ایک میرے اکابر کی تاریخ، تجھے اپنے آباؤ اجداد کی تاریخ مبارک، مجھے اپنے آباؤ اجداد کی تاریخ مبارک۔

میرے محترم دوستو، ان سارے حالات میں ہمیں اپنے فرض کو سمجھنا ہے۔ مسلمان کا مسلمان کے اوپر حق ہے۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:  المسلم أخو المسلم لا یظلمہ ولا یسلمہ ولا یخذلہ ولا یحقرہ  نا اس پر خود ظلم کرتا ہے نا کسی کے ظلم کی سپرد کرتا ہے۔ آج ہم امتِ مسلمہ کو اس کا بھولا ہوا سبق یاد دلانا چاہتے ہیں کہ فلسطینیوں کو آپ نے کس کے ظلم میں چھوڑ دیا ہے، کس کے حوالے کر دیا ہے؟ اور جب آپ ان کے حوالے کریں گے تو پھر مسلمان ہونے کا دعویٰ کیسے کرو گے؟

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:  مثل المؤمنین فی توادہم وتعاطفہم وتراحمہم کمثل الجسد الواحد إذ اشتکی عینہ اشتکی کلہ وإذ اشتکی رأسہ اشتکی کلہ وإذا اشتکی عضو تداعی لہ سائر الجسد بالسہر والحم  ایمان والوں کی مثال ایک دوسرے پر مہربان ہونے، ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی میں ایک دوسرے پر مہربان ہونے میں بالکل ایسی ہے جیسے ایک جسم، اگر جسم کے سر میں درد تو پورا جسم بے قرار، اگر اس کے آنکھ میں درد پورا جسم بے قرار، اگر جسم کے کسی حصے میں درد مچل رہا ہے ساری رات جاگتے بخار کی حالت میں گزر جاتی ہے۔

ہم کس طرح قرار کی زندگی گزار رہے! ہیں ہم کس طرح اطمینان کی زندگی گزار رہے ہیں! ہم کس طرح سکون سے سو رہے ہیں! اس احساس کو اجاگر کرنا ہے، اس احساس کو ہم نے بیدار کرنا ہے۔ الحمد للہ میرا اطمینان ہے امتِ مسلمہ آج ایک صف ہے، امتِ مسلمہ کے جذبات ایک ہیں، اور امتِ مسلمہ کے جذبات کے سامنے اگر کوئی رکاوٹ ہے تو امتِ مسلمہ کے حکمران ہیں، چاہے پاکستان کے حکمران ہوں اور چاہے دوسری اسلامی دنیا کے حکمران، وہ اپنے مفادات کیلئے سوچ رہے ہیں۔ کسی کا 2030ء کا ویژن ہے، کسی کا 2050ء کا ویژن ہے اور سارے ویژن انہوں نے اسرائیل کے ساتھ وابستہ کیے ہیں۔ یہ خس و خاشاک ہو جائیں گے، ان کے کوئی حیثیت نہیں ہوگی، ایک خواب ہوگا جو خوابِ پریشان ہی رہے گا جس کی تعبیر نہیں ہو سکے گی کبھی۔

اپنے فرض کو پہچانو! پاکستان، سعودی عرب، ترکی، مصر، ملیشیا، انڈونیشیا، یہ امتِ مسلمہ کے وہ بڑے ممالک ہیں کہ اگر وہ مل کر ایک متفقہ فیصلہ کر لیں کوئی امتِ مسلمہ کا حکمران ان کی مخالفت نہیں کر سکے گا۔ ان کو قیادت کرنی چاہیے! ان کو میدان میں آنا چاہیے! ہم ان کے احساس کو بیدار کر رہے، یہ مجلس کسی کے لعن طعن ملامت کے لیے نہیں ہے، یہ احساس کو بیدار کرنے کی ہے، امت کے اندر اس وقت بیداری کی ضرورت ہے۔

میں جانتا ہوں ہر جگہ پر کچھ مذہب بیزار بھی ہوتے ہیں، لفظ جہاد سن کر مذاق بھی اڑاتے ہیں، مسجد اقصیٰ کا نام لے کر مذاق بھی اڑاتے ہیں (کہ) پھر اسلام کو استعمال کر رہے ہیں۔ تو اسلام، بیت المقدس، آزادئ فلسطین، یہ ہمارا کارڈ نہیں ہے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے حکمرانوں کو بھی جگائیں، ان کو احساس دلائیں کہ امتِ مسلمہ آج آپ سے کیا تقاضہ کرتی ہے، امتِ مسلمہ کی آرزوئیں کیا ہیں، امتِ مسلمہ آپ سے کیا چاہتی ہے؟ اور اس طرح ہم بھی پھر آپ کو آرام سے سونے نہیں دیں گے، ہم بھی آرام سے سونے نہیں دیں گے۔ تو یہ جو دین بیزار قسم کے لوگ مذاق اڑاتے ہیں، پتہ نہیں کیا کیا کچھ کہتے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ کی بندگی کی بجائے امریکہ کی خدائی پہ یقین رکھتے ہیں، ہم تو چاہیں کہ تو بھی اللہ کے سامنے آجائے، انسان آزاد ہے۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ نے جب کسی مسئلہ پر اپنے ایک گورنر کو جھنجھوڑا تو آپ کے الفاظ کیا تھے،  متی استعبدتم الناس وقد ولدتہم أمہاتہم أحرارا  تم نے انسان کو کب اپنے غلام سمجھ رکھا ہے، ان کو تو اپنی ماؤں نے آزاد جنا ہے۔ تو آزادی یہ انسان کا پیدائشی حق ہے۔ اور یہ پیدائشی حق نا کشمیری سے چھینا جا سکتا ہے، نا فلسطینی سے چھینا جا سکتا ہے، نا دنیا کے کسی اور مسلمان سے چھینا جا سکتا ہے۔ تو اس محاذ پر ہم چل رہے ہیں اور جدوجہد کر رہے ہیں۔

معاہدہ ہوا، جنگ بندی ہوئی، تین مراحل میں اکتالیس اکتالیس دن کا معاہدہ۔ ایک معاہدہ سے دوسرے معاہدہ، دوسرے سے تیسرے معاہدے میں چلنا تھا، قیدیوں کی رہائی کے معاملات وغیرہ وغیرہ۔ اس بیچ میں کیا جواز تھا کہ آپ نے حملہ کیا دوبارہ! تم نے وعدہ خلافی کی، اپنی تاریخ دہرائی ہے، تم نے یہود و صہیون کا اصل چہرہ بے نقاب کیا ہے۔

اور ان شاء اللہ العزیز آج جمعرات ہے، اتوار کو 13 اپریل کو ان شاء اللہ کراچی میں اسرائیل مردہ باد کے عنوان سے ملین مارچ ہوگا ان شاء اللہ العزیز۔ اور کل جمعہ ہے میں پوری قوم سے کہتا ہوں، جماعت سے کہتا ہوں، تمام دینی تنظیموں سے کہتا ہوں، ان کے کارکنوں سے کہتا ہوں کہ ہر ضلعی ہیڈکوارٹر میں کل مظاہرے ہونے چاہئیں، ان شاء اللہ اسرائیلی مظالم کے خلاف اپنے فلسطینی بھائیوں کے ساتھ یکجہتی کے لیے۔ تو یہ متفقہ فیصلہ ہے۔ اور پھر کراچی کے جلسے میں ہم اگلے اقدام کا اعلان کریں گے۔ نہ آپ کو آرام سے بیٹھنے دیں گے نا خود آرام سے بیٹھیں گے ان شاء اللہ۔ پورے عزم کے ساتھ یہ جنگ ہم نے لڑنی ہے اور جو ہماری استطاعت میں ہے اللہ نے اسی حد تک ہمیں مکلف بنایا ہے، ان شاء اللہ اس میں کوئی کمی نہیں آنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہمارا حامی و ناصر ہو۔ آپ کا بہت بہت شکریہ۔ واٰخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔

www.teamjuiswat.com


فلسطین و اسرائیل

(الشریعہ — مئی ۲۰۲۵ء)

ماہانہ بلاگ

شملہ معاہدے سے نکلنے کے فوائد
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

بھارت کا وقف ترمیمی ایکٹ: جب بیوروکریٹس موجود ہوں تو بلڈوزرز کی کیا ضرورت؟
الجزیرہ

پاکستان کا ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کا طریقہ خطرناک ہے۔
الجزیرہ

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ٹیرفس: وائیٹ ہاؤس کا موقف اور وزیراعظم سنگاپور کی تقریر
سی بی ایس نیوز
لارنس وانگ

جہاد فرض ہے اور مسلم حکومتوں کے پاس کئی راستے ہیں
مولانا مفتی محمد تقی عثمانی

المیۂ فلسطین اور قومی کانفرنس اسلام آباد کا اعلامیہ
مولانا مفتی منیب الرحمٰن

فلسطین پاکستان کا اساسی مسئلہ ہے
مولانا فضل الرحمٰن

امریکہ کا عالمی کردار، اسرائیل کی سفاکیت، اہلِ غزہ کی استقامت: ہماری ذمہ داری کیا ہے؟
حافظ نعیم الرحمٰن

فلسطینی پاکستان کے حکمرانوں سے توقع رکھتے ہیں
لیاقت بلوچ

اہلِ فلسطین کی نصرت کے درست راستے
علامہ ہشام الٰہی ظہیر

قومی فلسطین و دفاعِ پاکستان کانفرنس: تمام جماعتوں کا شکریہ!
مولانا قاری محمد حنیف جالندھری
مولانا حافظ نصر الدین خان عمر

فلسطین کے ہمارے محاذ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مولانا زاہد الراشدی کا ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن میرپور آزادکشمیر کے فلسطین سیمینار سے خطاب
مفتی محمد عثمان جتوئی

غزہ کی تازہ ترین صورتحال اور نیتن یاہو کے عزائم
مولانا فتیح اللہ عثمانی

حالیہ فلسطین جنگ میں شہید ہونے والے جرنلسٹس
الجزیرہ

’’میں نے پاکستان بنتے دیکھا‘‘
پروفیسر خورشید احمد
اظہر نیاز

پروفیسر خورشید احمدؒ کی رحلت: صدی کا بڑا انسان
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

پروفیسر خورشید: جہانگیر و جہانبان و جہاندار و جہاں آرا
ڈاکٹر شہزاد اقبال شام

پروفیسر خورشید احمدؒ کی وفات
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

’’آسان تفسیرِ قرآن‘‘
مولانا مفتی محمد تقی عثمانی

حکمران کے دس حقوق
مولانا مفتی عبد الرحیم
مفتی عبد المنعم فائز

رسالتِ محمدیؐ کی تئیس سالہ کامیاب تبلیغ
علامہ ڈاکٹر خالد محمودؒ

اسلامی نظریاتی کونسل، دستوری تاریخ کے آئینے میں
اسلامی نظریاتی کونسل

مطبوعات

شماریات

Flag Counter