جہاد فرض ہے اور مسلم حکومتوں کے پاس کئی راستے ہیں

’’قومی کانفرنس: فلسطین اور امتِ مسلمہ کی ذمہ داری‘‘ سے خطاب جو مجلسِ اتحادِ امت پاکستان کے زیراہتمام ۱۰ اپریل ۲۰۲۵ء کو پاک چائنا فرینڈشپ سنٹر، اسلام آباد میں منعقد ہوئی۔

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم الحمد للہ رب العالمین والصلوٰۃ والسلام علیٰ سیدنا و نبینا و حبیبنا و شفیعنا و مولانا محمد خاتم النبیین وامام المرسلین وعلیٰ اٰلہ واصحابہ اجمعین وعلیٰ کل من تبعھم باحسان الیٰ یوم الدین اما بعد۔

حضرات علماء کرام، زعماء ملت اور معزز حاضرین! 

السلام علیکم ورحمۃ اللہ تعالیٰ وبرکاتہ

آج اللہ تبارک و تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہم ایک مرتبہ پھر قضیۂ فلسطین کے سلسلہ میں اسلام آباد میں جمع ہیں اور اللہ تبارک و تعالیٰ کے فضل و کرم سے تمام مکاتبِ فکر کے علماء، دینی جماعتوں کے سربراہان اور ملت کے اصحابِ فکر ایک مرتبہ پھر اسلام آباد میں آپ حضرات کی خدمت میں فلسطین کا قضیہ لے کر آئے ہیں۔

مجھے اس لحاظ سے شرمندگی محسوس ہو رہی ہے کہ آج سے سال بھر پہلے کنونشن سنٹر میں ہم نے ایک ایسا ہی اجتماع منعقد کیا تھا، اور اس میں بھی ہمارے ملک کے چیدہ چیدہ اصحابِ فکر جمع تھے، اس میں بھی ہم نے یہ اعلان کیا تھا کہ ہم اہلِ فلسطین کے ساتھ ہیں، اس میں بھی ہم نے یہ اعلان کیا تھا کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اہلِ فلسطین کی مدد، جسمانی، مالی، جانی، ہر طرح کی مدد ، جس کی استطاعت میں ہو، وہ اس کا فریضہ ہے۔

اس کا تقاضہ تو یہ تھا کہ آج ہم یہاں جمع ہونے کے بجائے غزہ کے میدان میں جمع ہوئے ہوتے، لیکن ہماری شامتِ اعمال ہے کہ آج سال بھر گزرنے کے بعد بھی اب ہم اسی کانفرنس کے طریقے کو اختیار کرنے پر مجبور ہیں۔ اور کوئی عملی قدم ان مجاہدین کی امداد کے لیے ابھی تک ہم نہیں اٹھا سکے جو بیت المقدس کے دفاع کے لیے، امتِ مسلمہ کے دفاع کے لیے، اسلام کی غیرت کے دفاع کے لیے، اپنی جان کی بازی لگائے ہوئے ہیں۔

آج سے سال پہلے جب ہم جمع تھے تو اس جہاد کا آغاز تھا، بیچ میں ایسا وقت آیا کہ دوستوں کے بیچ میں پڑنے کے نتیجے میں جنگ بندی کا معاہدہ ہوا اور قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ ہوا۔ اس بندی کے معاہدے کے نتیجے میں غزہ کے بے گناہ شہریوں پر جو آفت کے پہاڑ توڑے جا رہے تھے، بمباری کی جو بارش ہو رہی تھی، وہ کچھ دیر کے لیے بند ہوئی۔ لیکن یہ وہ لوگ ہیں جن کو نہ کسی انسانی قدر کا پاس ہے، نہ کسی عقیدے کا پاس ہے، نہ کسی اخلاق کی قدر کا پاس ہے، نہ ان کو کسی معاہدے اور کسی وعدے کا احساس ہے۔ ساری دنیا کے سامنے غیر ملکی ضمانتوں کے ساتھ کیے ہوئے معاہدے کو توڑ کر آج یہ پھر دوبارہ ان معصوم بچوں پر، عورتوں پر، بوڑھوں پر، مسجدوں پر، ہسپتالوں پر بمباری کر کے اس کو ملبے کا ڈھیر بنا رہے ہیں۔ اور یہ وہ ہیں جن کے بارے میں قرآن کریم نے فرمایا تھا ’’وان نکثوا ایمانھم من بعد عہدھم وطعنوا فی دینکم فقاتلوا ائمۃ الکفر انھم لا ایمان لھم‘‘ (التوبۃ ۱۲) یہ وہ لوگ ہیں کہ جن کے بارے میں قرآن نے کہا تھا کہ جب یہ اپنے عہد و پیمان کے باوجود اس سے پیچھے پھریں ’’فقاتلوا ائمۃ الکفر‘‘ تو ان کفر کے اماموں کے ساتھ قتال کرو۔ جہاد نہیں، قتال فرمایا ۔ ’’فقاتلوا ائمۃ الکفر انھم لا ایمان لھم‘‘۔

لیکن آج صورتحال یہ ہے کہ مراکش سے لے کر انڈونیشیا تک پھیلے ہوئے عالمِ اسلام اور اس کی حکومتیں یہ سارا نظارا اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے اور تماشائی بنی ہوئی ہیں، اور یہ تماشائی بن کر حالات کا جائزہ لے رہی ہیں، مذمتی بیانات جاری کر رہی ہیں، اور مذمتی بیانات بھی معدودے چند ملکوں نے جاری کیے ہیں، ورنہ بیشتر وہ ہیں کہ جو اپنے بچوں کو ذبح ہوتے ہوا دیکھ کر، ان کو خون میں لت پت دیکھ کر ان کی حمیت نہیں جاگتی، ان کی غیرت کو کوئی چیز نہیں جگاتی، بیشتر تو وہ ہیں۔ الحمد للہ ہمارا ملک اس میں شامل نہیں ہے، کم از کم زبانی طور پر اس مذمت کر چکا ہے۔ لیکن بات ہماری مذمت کی نہیں ہے، بات یہ ہے کہ آج غزہ کو قبضہ کرنے کے لیے، نہ صرف قبضہ کرنے کے لیے بلکہ اس کو مسلمانوں کا قبرستان بنانے کے لیے ، اور امتِ اسلامیہ کو ذبح کرنے کے لیے ارادے ظاہر کیے جا رہے ہیں۔

ٹرمپ صاحب کہہ رہے ہیں کہ غزہ کو ہم ان فلسطینیوں سے خالی کریں گے، وہ فلسطینی جو صدیوں سے اس جگہ آباد ہیں، ان کو خالی کریں گے، ان کو خالی کر کے وہاں پر تفریح گاہیں بنائیں گے، وہاں پر عیاشی کے اڈے قائم کریں گے۔ یہ کہتے ہوئے ان کو شرم نہیں آتی؟ یہ وہ ہیں جنہوں نے بچوں کی اور عورتوں کی حرمت کے نعرے لگا کر مسلمانوں کو بدنام کیا۔ جو خواتین کی تعلیم کے نام پر فحاشی اور عریانی کو فروغ دے رہے ہیں۔ لیکن ان کو وہ خواتین نظر نہیں آتیں جن کے دودھ پیتے بچوں کو ان سے چھین لیا گیا، جن کے سامنے ان کے بچوں کو ذبح کیا جا رہا ہے، وہ نظر نہیں آتیں؟ وہ ہزارہا انسان جو اس بربریت والی بمباری کا نشانہ بنے ہیں وہ ان کو نظر نہیں آتے۔ اور ایسا لگتا ہے کہ دوبارہ منتخب ہونے کے بعد وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ پوری دنیا پر میری بادشاہت قائم ہو گئی ہے۔ اور اس کے نتیجے میں وہ کینیڈا کو، وہ گرین لینڈ کو، وہ پانامہ کو، وہ غزہ کو، وہ فلسطین کو، سب کو اپنی ملکیت سمجھتے ہیں اور پھر ملکیت سمجھنے کا دعویٰ کر رہے ہیں۔

ٹرمپ صاحب! ایک دن آپ کو بھی موت آنے والی ہے، ایک دن آپ کو بھی مرنا ہے۔ اور خدائی آپ کے ہاتھ میں نہیں آگئی ہے۔ یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ملک ہے، یہ اللہ تعالیٰ کی زمین ہے ’’ان الارض للہ یورثھا من یشاء من عبادہ‘‘ (الاعراف ۱۲۸)۔ آپ کے ارادے آپ کے عزائم مسلمانوں کے خلاف کوئی ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ آپ کے دل میں مسلمانوں کا بغض ہے۔ آپ کے دل میں مسلمانوں کے ساتھ کینہ ہے۔ آپ کسی مسلمان کی جان کو، اس کے مال کو، اس کی عزت کو، کسی قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھتے۔ آپ صرف اس شخص کی جان کو سمجھتے ہیں جس کی چمڑی گوری ہو، جو یورپ کا یا امریکہ کا باشندہ ہو۔ اور جن کی چمڑی گوری نہیں ہے وہ آپ کے نزدیک غلام ہیں اور ان کے ساتھ آپ کا برتاؤ غلاموں جیسا برتاؤ ہے۔ لیکن یاد رکھو کہ غلام بھی، جب اللہ تبارک و تعالیٰ ان کو طاقت دیتا ہے تو بڑے بڑے فرعونوں کا تختہ الٹ دیتے ہیں۔

آج اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے جس استقامت کا جس بہادری کا جس شجاعت کا مظاہرہ حماس کے جانبازوں نے کیا ہے وہ بذاتِ خود ایک تاریخ بن رہی ہے۔ بے شک پچپن ہزار سے زیادہ مسلمان شہید ہو گئے، بے شک ان میں عورتیں بھی بچے بھی شامل ہیں، لیکن حماس کے لیڈروں، حماس کے قائدین کو دیکھو کہ وہ آج بھی اپنے موقف سے ایک انچ پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں۔ ان کی آنکھوں کے سامنے موت ناچ رہی ہے لیکن اس کے باوجود وہ اپنے موقف سے ایک انچ ہٹنے کو تیار نہیں ہیں۔

آپ کو معلوم ہے کہ یہ دوبارہ بد عہدی کس طرح شروع ہوئی۔ ایک معاہدہ ہوا تھا، ساری دنیا کے ساتھ معاہدہ ہوا تھا، اور اس ساری دنیا کے معاہدے کے اندر یہ بات طے ہوئی تھی قیدیوں کا تبادلہ ہو گا، تبادلے کی شرح بھی متعین ہو گئی تھیں۔ اب یہ مطالبہ ہے کہ ہمارے ان پچاس قیدیوں کو اس معاہدے سے ہٹ کر یعنی مفت ان کو آزاد کرو، ورنہ ہم تمہارے شہریوں پر بمباری کریں گے۔ اس معاہدے کے خلاف پچاس قیدیوں کو، معاہدے سے باہر ان کو مفت آزاد کرو ورنہ تمہارے اوپر بمباری کی جائے گی۔ اس بنیاد پر، بد عہدی پر مبنی بمباری کی جا رہی ہے اور ساری دنیا خاموش تماشائی بن کر دیکھ رہی ہے۔ انڈونیشیا سے لے کر مراکش تک، ہم جو کلمہ لا الہ الا اللہ کے قائل ہیں ، اس کے نام لیوا ہیں، وہ یہ سارا منظر آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔

میں آج کی اس محفل میں پہلے ہی شرمندگی کا اظہار کر چکا ہوں کہ اب تک ہمارا جو کچھ جمع خرچ ہے وہ کچھ مالی مدد کی حد تک ہے، کچھ سامانی مدد کی حد تک ہے، اور ہم نے اپنی حکومتوں سے کھل کر یہ مطالبہ اب تک نہیں کیا کہ آج آپ کے اوپر جہاد فرض ہو چکا ہے۔ ساری اسلامی حکومتوں کے پر جہاد فرض ہو چکا ہے۔ اپنے حسبِ استطاعت ہر مسلمان حکومت پر جہاد فرض ہے۔ اب صرف زبانی جمع خرچ سے ہم اللہ کے سامنے کوئی جواب دینے کے قابل نہیں ہیں۔ اب صرف زبانی مذمتوں سے ہم اپنی ذمہ داری سے عہدہ برآ نہیں ہو سکتے۔ تمام مسلمان حکومتوں پر درجہ بدرجہ یہ جہاد فرض ہے۔ آنکھوں سے اپنے سامنے پچپن ہزار سے زائد کلمۂ توحید کے ماننے والوں کو ذبح ہوتے دیکھ کر بھی اگر ان پر جہاد فرض نہ ہو ۔ پھر ان کے اسلحہ کس کام کے، ان کی فوجیں کس کام کیں، اگر وہ اپنے مسلمانوں کو اس ظلم و ستم سے نجات نہ دلا سکیں؟

یہاں ایک مغالطہ پیش کیا جاتا ہے، اور وہ مغالطہ پھیلایا جا رہا ہے، بڑے پیمانے پر پھیلایا جا رہا ہے۔ قرآن کریم کہتا ہے ’’وان استنصروکم فی الدین فعلیکم النصر‘‘ جب لوگ تم سے دین کے معاملے میں مدد مانگیں، تمہارے اوپر مدد کرنا فرض ہے۔ ’’فعلیکم النصر‘‘ یہ قرآن کہتا ہے۔ لیکن آگے قرآن نے کہا ہے ’’اِلا علیٰ قوم بینکم و بینھم میثاق‘‘ (الانفال ۷۲) البتہ اگروہ مدد ایسی قوموں کے خلاف ہو جن کے اور تمہارے درمیان معاہدہ ہے، تو پھر اپنے مظلوم مسلمانوں کی اس وقت مدد نہیں کر سکتے۔ اس کو خوب سمجھ لیجیے۔ یہ آیتِ کریمہ درحقیقت نازل ہوئی ہے اس وقت جب کہ نبی کریم سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تبارک و تعالیٰ کے حکم سے مکہ مکرمہ کے مسلمانوں پر یہ فرض کر دیا تھا کہ وہ ہجرت کریں، مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ آئیں۔ ہجرت فرض ہو گئی تھی اور اس ہجرت نہ کرنے پر قرآن کریم میں بڑی سخت وعیدیں نازل ہوئی تھیں۔ کہا گیا تھا کہ جو ہجرت نہیں کر رہے وہ اللہ کے حکم کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ جو مکہ مکرمہ میں بیٹھے ہیں اور ان پر ظلم و ستم ہو رہا ہے، اس کے باوجود وہ اگر ہجرت نہیں کرتے تو وہ مجرم ہیں۔ ان مجرم مسلمانوں کے بارے میں قرآن نے کہا تھا کہ اگر وہ، اے مسلمانو، تم سے مدد مانگیں تو تمہارے اوپر مدد کرنا فرض ہے۔ یعنی اگر کوئی ایسی قوم ان پر ظلم کر رہی ہو کہ جن سے تمہارا کوئی معاہدہ نہیں ہے، تو تمہارے اوپر نصرت کرنا فرض ہے۔ لیکن اگر کسی ایسی قوم کے خلاف وہ تمہیں دعوت دے رہے ہیں جس کے ساتھ تمہارا معاہدہ ہے تو پھر ان کی مدد نہیں کی جائے گی۔ قرآن یہ کہتا ہے۔ 

تو بعض لوگ اس استثنا کو آڑ بنا کر یہ پروپیگنڈا کر رہے ہیں اور علمی دنیا میں یہ پروپیگنڈا پھیلایا جا رہا ہے کہ چونکہ مسلمان ممالک کے معاہدے ہیں غیر مسلم ملکوں کے ساتھ، اس لیے اگر مسلمانوں پر ظلم ہو رہا ہے اور وہ قومیں ان پر ظلم کر رہی ہیں جن کے ساتھ ہمارے معاہدے ہیں تو ہمیں پھر ان کی مدد کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ خوب سمجھ لیجیے کہ یہ محض ایک دھوکہ ہے۔ اولاً‌ تو اس لیے کہ اسرائیل کے ساتھ ہمارا کوئی معاہدہ نہیں ہے۔ پاکستان کا یا اکثر بیشتر مسلمانوں ملکوں کا اسرائیل کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں۔ ہم نے اسرائیل کو تسلیم کرنے سے انکار کیا۔ ہمارے پاکستان کے بانی نے پاکستان بننے سے پہلے اسرائیل کے وجود کو ’’ولد الحرام‘‘ قرار دیا تھا ’’ناجائز بچہ‘‘ قرار دیا تھا۔ اور آج بھی ہم اسی موقف پر قائم ہیں، آج بھی اس موقف پر قائم ہیں۔ اسرائیل کتنا طاقتور ہو جائے، اسرائیل کے پاس کتنے اسلحہ آجائیں، اسرائیل کو امریکہ کی جتنی حمایت حاصل ہو جائے، ہمارا یہ موقف تبدیل نہیں ہو گا، نہیں ہو گا، نہیں ہوگا۔ 

لہٰذا اول تو ہمارا اسرائیل سے کوئی معاہدہ نہیں، اور جب اسرائیل سے معاہدہ نہیں ہے،سارے معاہدات توڑ کر اس وقت ہمارے بچوں کو وہ قتل کرنے پر آمادہ ہے اور یہ چاہتا ہے، جان بوجھ کر نسل کشی کا اور قتلِ عام کا اقدام کر رہا ہے۔ امریکہ کا وزیر خارجہ، اس سے لوگوں نے پوچھا کہ آپ اسرائیل کی حمایت کرتے ہو، جبکہ وہ ہزارہا انسانوں کے قتلِ عام کا مرتکب ہو چکا ہے؟ تو کہتا ہے کہ چاہے وہ سارے مسلمانوں کو قتلِ عام کر دے ہم اس کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے۔ یہ اعلان برملا اس نے کیا ہے۔ وزیرخارجہ نے برملا یہ اعلان کیا ہے۔ لعنت ہو اس اعلان پر، لعنت ہو اس اعلان پر۔ وہ کہتا ہے ہم اسرائیل کا ساتھ نہیں چھوڑ سکتے، ہم کہتے ہیں ہم فلسطین کا ساتھ نہیں چھوڑ سکتے۔ ہماری گردنیں اڑا دو ہمارے گھر تباہ کر دو لیکن ہم فلسطین کی حمایت سے دستبردار نہیں ہو سکتے۔ اور جب ہمارا کوئی معاہدہ نہیں تو قرآن کا یہ حکم ہم پر فرض ہے ’’ان استنصروکم فی الدین فعلیکم النصر‘‘۔

اور اگر اقوامِ متحدہ کی بات کرتے ہو، وہ اقوامِ متحدہ جو تمہارے ہاتھ کا کھلونا ہے، وہ اقوامِ متحدہ جو تم نے صرف اپنے مفاد کی خاطر بنائی ہے، جس کا کوئی کام تمہارے مفادات کی خدمت کرنے کے سوا نہیں ہے، اس اقوامِ متحدہ کی بات کرتے ہو؟ تو اس اقوامِ متحدہ نے ۱۹۶۷ء میں متفقہ قرارداد منظور کی کہ اسرائیل نے بیت المقدس پر جو قبضہ کیا ہے، اور اس وقت جو نئے اس نے قبضے کیے ہیں، اور یہودیوں کو وہاں پر بسانے کے جو اقدامات کیے ہیں، وہ غیر قانونی ہیں، ضابطے کے خلاف ہیں۔ یہ اعلان، تمہاری خود اپنی پیدا کردہ اقوامِ متحدہ کی قرارداد ہے یہ، کہ وہ ظالم ہے، وہ غاصب ہے، بیت المقدس پر اس کا قبضہ غیر قانونی ہے۔

لہٰذا ہمارا اس کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں ہے۔ اور اس معاملے میں چونکہ امریکہ بھی یہ سب باتیں دیکھنے کے باوجود، اور عالمی عدالت کا فیصلہ سننے کے باوجود، جو یہ کہہ رہا ہے کہ میں ہمیشہ اس کا ساتھ دیتا رہوں گا، اور جو انجام اس کا ہو گا وہ میرا بھی ہو گا۔ جو یہ کہہ رہا ہے۔ وہ معاہدہ اپنا توڑ چکا، وہ اپنے معاہدہ کے توڑنے کا مجرم ہے۔ لہٰذا یہ قرآن کریم کی جو آیت ہے ’’اِلا علیٰ قوم بینکم و بینھم میثاق‘‘ اس کا ہم سے کوئی تعلق اس معاملے میں نہیں ہوتا۔ ہر معاہدہ وہ اپنے قول سے بھی اور اپنے عمل سے بھی توڑ چکے ہیں، اب کوئی معاہدہ نہیں ہے۔ لہٰذا اب امتِ مسلمہ کے حکمرانوں پر یہ فرض ہے کہ جتنی ان کی استطاعت ہے اس استطاعت کے مطابق وہ اہلِ فلسطین کا ساتھ دیں اور اسرائیل کا مقابلہ کریں۔

آپ ذرا غور تو کرو، اسرائیل کیا ہے؟ ایک چھوٹی سی پٹی ہے دنیا کے نقشے پر۔ بتیس دانتوں کے درمیان ایک زبان ہے۔ چاروں طرف مسلمان ملک حاوی ہیں، اور اس میں ایک جو چھوٹی سی زبان ہے، وہ امریکہ کی پشت پناہی سے، امریکہ کے اسلحہ کے بل پر، امریکہ کی حمایت کے بل پر، وہ ان سارے مسلمان ملکوں کو مرعوب/ ملغوب کیے ہوئے ہے۔ اس کے سوا اور کیا کہیں جو رسول کریم سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا کہ ایک وقت ایسا آجائے گا کہ مسلمانوں کی حالت (ایسی ہو جائے گی) مسلمان جہاد چھوڑ دیں گے۔ صحابہ کرامؓ نے پوچھا، یا رسول اللہ! کیا ان کی تعداد کم ہو جائے گی، اس لیے جہاد چھوڑ دیں گے؟ آپؐ نے فرمایا، نہیں۔ ان کی تعداد بہت ہو گی ’’ولکنکم غثاء کغثاء السیل‘‘ وہ ایسے ہوں گے جیسے کہ سیلاب میں پھیلتے ہوئے تنکے ہوتے ہیں۔ ان کی تعداد بہت ہے لیکن وہ کسی سیلاب کا رخ موڑنے کے قابل نہیں ہوتے۔ ایسے ہو جائیں گے۔ صحابہ کرامؓ نے پوچھا، یا رسول اللہ! کیسے؟ صحابہ کرامؓ کو یہ تصور کرنا مشکل تھا کہ کوئی شخص مسلمان ہو ، لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کو مانتا ہو اور پھر بھی وہ جہاد کو چھوڑ دیں گے۔ پوچھا ، یا رسول اللہ! یہ کیوں ہو گا، کیسے ہو گا؟ فرمایا کہ دنیا کی محبت اور موت کا خوف۔ دو چیزیں جب آ جائیں گی، دنیا کی محبت اور موت کا خوف، تو پھر مسلمان جہاد چھوڑ بیٹھے گا، اور جہاد چھوڑ بیٹھے گا تو اس کی تعداد جتنی بھی ہو جائے، وہ سیلاب میں بہتے ہوئے تنکوں کی طرح ہو گی۔ آج یہ منظر ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں ، گویا کہ نبی کریم سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشینگوئی جو فرمائی تھی اس کا مظاہرہ ہمیں اپنی آنکھوں سے آج کے حالات میں نظر آ رہا ہے۔

لیکن میرے بھائیو! میں صرف مایوس کرنے کی بات نہیں کر رہا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اور خود نبی کریم سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے، آپؐ نے ہمیں مایوسی کا درس نہیں دیا، آپؐ نے ہمیں امیدیں دلائی ہیں، آپؐ نے ہمیں یہ وعدہ کیا ہے، اور یہ وعدہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا وعدہ ہے کہ آج کے بعد ایک ایسا وقت آنے والا ہے کہ جو پہلی امتوں کی طرح کا خیر القرون والا زمانہ ہو گا۔ فرمایا ’’مثل امتی مثل المطر‘‘ میری امت کی مثال بارش کی سی ہے، ’’لا یدری اولہ خیر ام آخرہ‘‘ یہ پتہ نہیں چلتا کہ اس کا پہلا حصہ زیادہ بہتر تھا یا آخری والا حصہ زیادہ بہتر ہو گا۔ تو وہ وقت تو آنے والا ہے، آئے گا، ضرور آئے گا، اللہ کا وعدہ، اللہ کے رسول کا وعدہ، وہ وقت تو ضرور آئے گا جب خیر القرون کا دور لوٹے گا، جب پورے عالم پر اسلام ہی سرفراز ہو گا۔ ’’ھو الذی ارسل رسولہ بالھدیٰ و دین الحق لیظہرہ علی الدین کلہ ولو کرہ المشرکون‘‘ (الصف ۹)کوئی جتنا بھی اس کو برا سمجھے لیکن وہ وقت آنے والا ہے، آنے والا ہے۔ ہم اس وقت کے آنے کے درمیان کے لوگ ہیں۔ یہ ہم بے شک ایک تاریک رات سے گزر رہے ہیں لیکن تاریک رات میں بھی جو چراغ جلا دے گا، جو جس طرح کا چراغ جلا دے گا، وہ اس قافلے کا ساتھی بن جائے گا جو آخر القرون کے اندر اول القرون کی یاد دلانے والا ہے۔

اگر ہم اپنا فریضہ ادا کرتے رہیں، ہم سے جو اللہ اور اس کے رسول کا مطالبہ ہے اس کو پورا کرتے رہیں، تو ہم چھوٹے چھوٹے چراغ ہیں، چھوٹے چھوٹے چراغ ہیں، یہ روشنی دیتے رہیں گے، یہ روشنی دیتے رہیں گے، یہاں تک کہ صبح کا اجالا نمودار ہو جائے گا۔ اور ہم یہ کہہ سکیں گے کہ

ہمیں   خوشی   ہے   کہ   ہم     ہیں     چراغِ      آخرِ     شب
ہمارے          بعد           اندھیرا            نہیں           اجالا          ہے 

لہٰذا اپنے کو کمزور نہ سمجھو ’’لا تھنوا ولا تحزنوا‘‘ کمزور نہ پڑو، غم نہ کرو ’’انتم الاعلون ان کنتم مومنین‘‘ (اٰل عمران ۱۳۹) اگر تم واقعی مومن ہو گے، تم ہی تم سربلند ہو گے ’’انتم الاعلون ان کنتم مومنین‘‘۔

لہٰذا آج کے اعلامیہ میں، جو ابھی آپ کے سامنے حضرت مولانا مفتی منیب الرحمٰن صاحب دامت برکاتہم العالیہ نے پڑھ کر سنایا، اس میں الحمد للہ ایک واضح راہِ عمل دی گئی ہے۔ مسلم حکمرانوں کو بھی، اور ان کو متنبہ کیا گیا ہے کہ آپ کے سر پر یہ ذمہ داری آ گئی ہے، پہلے اس کا ادراک تھا یا نہیں تھا، اب ادراک ہو جانا چاہیے، اور وہ اس ذمہ داری کو ادا کریں۔ حکومتوں کے پاس ہزار راستے ہوتے ہیں۔ یہ نہ سمجھا جائے کہ میں یہ کہہ رہا ہوں کہ وہ آج ہی جا کر کوئی ایٹمی حملہ کر دیں، لیکن ان کے ذہن میں یہ بات پختہ ہونی چاہیے کہ جہاد ہمارا فریضہ ہے۔ ہماری افواج کا جو موٹو ہے وہ تین چیزیں ہیں: ایمان، تقویٰ اور جہاد۔ یہ موٹو ہے ہماری افواج کا۔ جب یہ موٹو ہے تو پھر پوچھو ان لوگوں سے جو جہاد کا فتویٰ دے رہے ہیں، ان سے پوچھو کہ آج جہاد کا وقت ہے یا نہیں ہے۔ اگر ہے اور آپ کو اس بات کا ادراک ہو جاتا ہے کہ واقعتاً‌ جہاد کا وقت ہے تو آپ کے پاس جہاد کے لیے ہزار راستے ہیں۔ آپ نے وہ راستے مختلف مواقع پر استعمال کیے ہیں، آپ نے بوسنیا میں استعمال کیے ہیں، آپ نے مختلف مقامات پر استعمال کیے ہیں، آپ کے پاس آج بھی راستے موجود ہیں، اور مجھ سے زیادہ آپ جانتے ہیں کہ کیسے راستے ہو سکتے ہیں۔ لہٰذا ان کو اختیار کرنا آپ کا فریضہ ہے، یہ پوری قوم آپ سے منتظر ہے اس بات کی کہ آپ اس فریضے کو ادا کریں۔

اور دوسرے عالمِ اسلام کے مسلمانوں حکمرانوں کو بھی آج کا یہ اجتماع یہ پیغام دے رہا ہے کہ وہ بھی اپنی ذمہ داری کو محسوس کریں اور ان مرتے ہوئے بچوں کا خوف کریں، ان مرتی ہوئی عورتوں کا، ان چلاتی ہوئی عورتوں کا، اس ڈاکٹر کا جو یہ پیغام بھیج رہا ہے کہ غزہ آخری سانس لے رہا ہے۔ ڈاکٹر یہ پیغام دے رہا ہے کہ غزہ آخری سانس لے رہا ہے، ہم نے تمہارا بہت انتظار کیا، تم نہیں آئے، اللہ حافظ۔ یہ پیغام ایک ڈاکٹر نے بھیجا ہے، میرے پاس موجود ہے۔

تو میرے بھائیو! کب تک ہم اس بے غیرتی کی زندگی گزاریں گے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں دینی ایمانی حمیت اور غیرت عطا فرمائے۔ اور آج جو اعلان کیا گیا ہے اس میں تمام قوم سے یہ اپیل کی گئی ہے کہ اس موضوع کو مرنے نہیں دینا، اس کو زندہ رکھنا ہے، اور زندہ رکھنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ آپ اسرائیل کے حامیوں کی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کریں، ہاتھ اٹھاؤ، مکمل بائیکاٹ۔ اسرائیلی مصنوعات ہی کا نہیں، اسرائیل کو مدد دینے والی مالی کمپنیوں کا بھی بائیکاٹ۔ اور جو اپنی دکانوں پر ایسی مصنوعات رکھے اس کا بھی بائیکاٹ۔

لیکن خوب سمجھ لو کہ اسلام ہمارے پاس اعتدال کا دین ہے، یہ محض جذبات میں آ کر توڑ پھوڑ کرنے والا دین نہیں ہے، یہ جذبات میں آ کر کسی کو نقصان پہنچانے والا دین نہیں ہے، لہٰذا یہ پتھر مارنا پتھر برسانا اور جا کر کسی کی جان کو کسی کے مال کو نقصان پہنچانا، یہ شریعت میں حرام ہے۔ لہٰذا احتجاج کرو بائیکاٹ کرو مگر پر امن طریقے پر کرو، اس کے اندر کوئی بداَمنی کا عنصر شامل نہیں ہونا چاہیے۔ اور یہ جو میں کہہ رہا ہوں حکمرانوں کو متنبہ کرو، ان کو آمادہ کرو کہ وہ اپنا فریضہ ادا کریں۔ یہ متنبہ کرنا بھی پُرامن طریقے سے ہونا چاہیے۔ جو لوگ اس نام پر اپنی مسلمان حکومتوں سے لڑنے پر آمادہ ہیں، جو اُن کے خلاف ہتھیار اٹھائے ہوئے ہیں، یہ کوئی قابلِ قبول طریقہ نہیں ہے، ہم بارہا اس کا اعلان کر چکے ہیں۔ لہٰذا جو کچھ کرنا ہو وہ پُر امن طریقے سے، ورنہ غزہ میں تو جو کچھ ہو رہا ہے وہ ہو رہا ہے، مسلمان ملکوں کے اندر اگر خانہ جنگی شروع ہو گئی تو مسلمان تتر بتر ہو جائیں گے۔ لہٰذا اس سے ہمیشہ پرہیز کیا جائے۔

آخری بات جو میں عرض کرنا چاہتا ہوں وہ یہ کہ اب کچھ عرصہ سے ایک عجیب ہوا چلی ہے، وہ ہے علماء کرام کو قتل کرنا، جگہ جگہ بے مقصد، کوئی بے ضرر انسان کہیں اللہ کا نام لے رہا ہے، کسی مسجد میں اللہ کا نام لے رہا ہے، کسی مدرسے میں پڑھا رہا ہے، اور اچانک لوگ آتے ہیں اور اس کو فائرنگ کر کے شہید کر دیتے ہیں۔ ابھی متعدد ہمارے علماء کرام اس میں حال ہی میں شہید ہوئے ہیں۔ رمضان کے مہینے میں جامعہ دارالعلوم حقانیہ جیسا عظیم ادارہ، اتنا بڑا عظیم ادارہ جس کو مولانا فضل الرحمٰن صاحب کہتے ہیں میرا مادرِ علمی ہے، اس مدرسہ کے اندر گھس کر اس کی مسجد کے پاس جا کر وہاں حضرت مولانا عبد الحق صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے پوتے، حضرت مولانا سمیع الحق صاحب شہید کے بیٹے، مولانا حامد الحق کو شہید کیا گیا، اور آج تک پتہ نہیں چلتا کہ وہ کون تھا، اس کا سر بھی مل گیا، اس کی سب چیزیں مل گئیں لیکن پتہ نہیں چلتا۔ تو یہ بھی تو درحقیقت ہم سے بدلہ لیا جا رہا ہے، ہم جو فلسطین کے نام پر آواز اٹھاتے ہیں، تو ہم سے یہ بدلہ لیا جا رہا ہے کہ تم بھی ہمارے نشانے پر ہو۔ لیکن ہماری حکومت اور ہماری ایجنسیاں ، ان کو تو کم از کم اس کا نوٹس لینا چاہیے ، اور جو لوگ اس سازش میں ملوث ہیں ان کو بے نقاب کر کے ان کو کیفرِ کردار تک پہنچانا چاہیے۔

تو میرے بھائیو! میری بات شاید کچھ زیادہ لمبی ہو گئی لیکن بات ایسی ہے کہ دل بے چین ہے، دل بے چین ہے۔ اور میں تو پھر بھی کچھ تھوڑا بہت مسئلے سے تعلق رکھتا ہوں لیکن ایک عام چلتا ہوا آدمی بھی مجھ سے آ کر کہتا ہے کہ حضرت رات کو نیند نہیں آتی، جب میں غزہ کی تصویریں دیکھتا ہوں، غزہ کے اندر مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے اس کو دیکھتا ہوں، تو مجھے نیند نہیں آتی۔ عام انسانوں کے یہ جذبات ہیں، لہٰذا ان جذبات کی وجہ سے یہ اجتماع کرنا بھی ضروری سمجھا، اور اس کے ساتھ ان اعلانات کو بھی، جو ابھی آپ نے حضرت مولانا مفتی منیب الرحمٰن صاحب کی زبانی سنے ہیں۔ امید ہے کہ ان شاء اللہ یہ آواز بے اثر نہیں ہو گی، یہ آواز پھیلے گی، عالمِ اسلام میں پھیلے گی۔ اس کا اعلامیہ ان شاء اللہ عربی میں، اردو میں، انگریزی میں، ہر زبان میں ترجمہ کر کے ان شاء اللہ پھیلایا جائے گا۔ آپ حضرات اس کو پھیلانے میں ہماری مدد کریں گے؟ ان شاء اللہ۔ اللہ تعالیٰ آپ کا اور ہمارا حامی و ناصر ہو۔

وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔

www.facebook.com


مسئلہ فلسطین

(الشریعہ — مئی ۲۰۲۵ء)

ماہانہ بلاگ

شملہ معاہدے سے نکلنے کے فوائد
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

بھارت کا وقف ترمیمی ایکٹ: جب بیوروکریٹس موجود ہوں تو بلڈوزرز کی کیا ضرورت؟
الجزیرہ

پاکستان کا ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کا طریقہ خطرناک ہے۔
الجزیرہ

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ٹیرفس: وائیٹ ہاؤس کا موقف اور وزیراعظم سنگاپور کی تقریر
سی بی ایس نیوز
لارنس وانگ

جہاد فرض ہے اور مسلم حکومتوں کے پاس کئی راستے ہیں
مولانا مفتی محمد تقی عثمانی

المیۂ فلسطین اور قومی کانفرنس اسلام آباد کا اعلامیہ
مولانا مفتی منیب الرحمٰن

فلسطین پاکستان کا اساسی مسئلہ ہے
مولانا فضل الرحمٰن

امریکہ کا عالمی کردار، اسرائیل کی سفاکیت، اہلِ غزہ کی استقامت: ہماری ذمہ داری کیا ہے؟
حافظ نعیم الرحمٰن

فلسطینی پاکستان کے حکمرانوں سے توقع رکھتے ہیں
لیاقت بلوچ

اہلِ فلسطین کی نصرت کے درست راستے
علامہ ہشام الٰہی ظہیر

قومی فلسطین و دفاعِ پاکستان کانفرنس: تمام جماعتوں کا شکریہ!
مولانا قاری محمد حنیف جالندھری
مولانا حافظ نصر الدین خان عمر

فلسطین کے ہمارے محاذ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مولانا زاہد الراشدی کا ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن میرپور آزادکشمیر کے فلسطین سیمینار سے خطاب
مفتی محمد عثمان جتوئی

غزہ کی تازہ ترین صورتحال اور نیتن یاہو کے عزائم
مولانا فتیح اللہ عثمانی

حالیہ فلسطین جنگ میں شہید ہونے والے جرنلسٹس
الجزیرہ

’’میں نے پاکستان بنتے دیکھا‘‘
پروفیسر خورشید احمد
اظہر نیاز

پروفیسر خورشید احمدؒ کی رحلت: صدی کا بڑا انسان
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

پروفیسر خورشید: جہانگیر و جہانبان و جہاندار و جہاں آرا
ڈاکٹر شہزاد اقبال شام

پروفیسر خورشید احمدؒ کی وفات
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

’’آسان تفسیرِ قرآن‘‘
مولانا مفتی محمد تقی عثمانی

حکمران کے دس حقوق
مولانا مفتی عبد الرحیم
مفتی عبد المنعم فائز

رسالتِ محمدیؐ کی تئیس سالہ کامیاب تبلیغ
علامہ ڈاکٹر خالد محمودؒ

اسلامی نظریاتی کونسل، دستوری تاریخ کے آئینے میں
اسلامی نظریاتی کونسل

مطبوعات

شماریات

Flag Counter