فلسطین کے ہمارے محاذ

اسلام آباد کی قومی فلسطین کانفرنس اور ہماری ذمہ داری

(۱۴ اپریل پیر کو بعد نماز عصر جامع مسجد رحمانیہ ماڈل ٹاؤن ہمک اسلام آباد میں ہونے والی گفتگو)

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ دو روز قبل اسلام آباد میں ملک کے تمام مکاتبِ فکر کے سرکردہ قائدین مولانا مفتی محمد تقی عثمانی، مولانا فضل الرحمٰن، مولانا مفتی منیب الرحمٰن اور دیگر راہنماؤں نے غزہ کی آبادی پر اسرائیل کے وحشیانہ حملوں کی مذمت کرتے ہوئے شرعی طور پر عالمِ اسلام پر جہاد فرض ہونے کا جو اعلان کیا ہے اس کے بارے میں مختلف اطراف سے شکوک و شبہات کی بات کی جا رہی ہے، اس حوالہ سے چند معروضات پیش کرنا چاہتا ہوں۔

(۱) یہ کہا جا رہا ہے کہ غزہ کی جنگ ڈیڑھ سال سے جاری ہے اور ان علماء کرام کو اب جہاد کی بات یاد آئی ہے؟ یہ بات غلط ہے، انہی اکابر علماء کرام نے غزہ کی موجودہ جنگ کے آغاز میں بھی یہیں اسلام آباد میں اسی سطح پر جمع ہو کر یہی آواز لگائی تھی اور اس موقع پر بھی جہاد کی بات کی تھی۔ دو تین روز قبل کی حالیہ قومی فلسطین کانفرنس اسی کا تسلسل اور یاددہانی ہے۔ اور اس کی ضرورت اس لیے پیش آئی ہے کہ امتِ مسلمہ اور پاکستانی قوم کے مختلف طبقات اور عوام نے تو اس آواز پر لبیک کہا تھا اور بیداری پیدا ہوئی تھی مگر مسلم ممالک کی حکومتوں نے اس طرف توجہ نہیں دی اور مسلسل سرد مہری کا رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔ ان کو یاد دلانے کے لیے دوبارہ کانفرنس کرنا پڑی، خدا کرے کہ مسلم حکومتیں بھی اپنی ذمہ داری کا احساس کریں اور غزہ کے مظلوم عوام کو اسرائیلی درندگی سے نجات دلانے کے لیے اپنا فریضہ ادا کریں۔

(۲) یہ کہا جا رہا ہے کہ جہاد میں طاقت کا توازن دیکھنے کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ مغالطہ ہے جو بعض لوگوں کی طرف سے مسلسل پھیلایا جا رہا ہے۔ طاقت کا توازن وہاں دیکھا جاتا ہے جہاں کسی پر حملہ کرنا ہو کہ ہمارا حملہ کامیاب ہو گا یا نہیں۔ جہاں خود پر حملہ ہو وہاں طاقت کا توازن نہیں دیکھا جاتا اور جس پر حملہ ہو وہ خود کو بچانے کے لیے دفاع میں جو کچھ اس کے بس میں ہو وہ اس سے گریز نہیں کیا کرتا۔

پھر جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ بھی یہی ہے۔ بدر کی جنگ میں قوت کا پلڑا مشرکین کے حق میں تھا اور مسلمانوں کی ظاہری قوت برابر کی بھی نہیں تھی مگر یہ بات غزوہ بدر میں رکاوٹ نہیں بنی اور اللہ تعالیٰ نے انہیں کامیابی عطا فرمائی۔ خندق کی جنگ کے موقع پر جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کی مردم شماری کرائی تو حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کے ارشاد کے مطابق تمام موجود مسلمانوں کی تعداد پندرہ سو تھی۔ اسی افرادی قوت کے ساتھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف قبائل عرب کی اجتماعی قوت کا ایک ماہ تک سامنا کیا بلکہ اس کے بعد یہود کے قبیلہ بنو قریظہ پر خود آگے بڑھ کر محاصرہ کر کے انہیں جلاوطن بھی کر دیا۔ اس لیے یہ کہنا کہ قوت برابر کی نہ ہو تو مقابلہ نہیں کرنا چاہیے، محض مغالطہ ہے جس کو خواہ مخواہ پھیلایا جا رہا ہے۔

(۳) اس کے ساتھ یہ بات بھی کہی جا رہی ہے کہ معاشی بائیکاٹ اور تجارت کا جہاد کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ گزارش ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں بھی معاشی جنگ ہوتی تھی ، آپؐ کے پیروکاروں کا تین سال تک شعب ابی طالب میں جو محاصرہ کیا گیا اس میں تجارتی بائیکاٹ بھی شامل تھا جس کا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے ساتھیوں نے پورے حوصلہ کے ساتھ سامنا کیا۔ جبکہ خیبر کی جنگ میں اور بنو قریظہ اور بنو نضیر وغیرہ کے معرکوں میں خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا محاصرہ کیا جس میں تجارتی سامان لانے لے جانے میں رکاوٹ بھی شامل تھی۔ بلکہ ایک موقع پر بنو حنیفہ کے سردار حضرت ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ نے یمامہ سے مکہ مکرمہ کی طرف گندم کی سپلائی روک دی جس کی شکایت مکہ کے سرداروں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کی اور آپؐ نے صلح حدیبیہ کے باعث حضرت ثمامہؓ کو یہ تجارتی بائیکاٹ ختم کر دینے کی تلقین فرمائی۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ تجارتی بائیکاٹ بھی جہاد کی ایک صورت ہے جو ضرورت کے موقع پر استعمال میں لائی جا سکتی ہے۔

(۴) اس کے ساتھ میڈیا وار بھی جہاد کی ایک صورت ہے۔ غزوہ احزاب کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ کے ایک اجتماع میں اعلان فرمایا کہ قریش مکہ اب تلوار کی جنگ نہیں لڑ سکیں گے، اس میں وہ ناکام ہو گئے ہیں، اب یہ لوگ مسلمانوں کے خلاف زبان کی جنگ لڑیں گے اور خطابت و شاعری کے ذریعہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلائیں گے۔ جس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تلقین پر خطیبِ اسلام حضرت ثابت بن قیسؓ اور تین بڑے شعراء حضرت حسان بن ثابتؓ، حضرت ابی بن کعبؓ اور حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ نے یہ محاذ سنبھالا، جسے آج کے دور میں ’’میڈیا وار‘‘ کہا جاتا ہے اور اس محاذ پر بھی مشرکینِ عرب کو شکست دی۔

اس حوالہ سے بخاری شریف میں ایک دلچسپ واقعہ مذکور ہےکہ عمرۃ القضاء کے موقع پر مکہ میں مشرکین کا ماحول تھا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کی مہار انہی میں سے ایک شاعر حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ کے ہاتھ میں تھی جو تلبیہ یعنی لبیک اللہم لبیک کی بجائے جنگی ترانے پڑھ رہے تھے۔ حضرت عمرؓ نے انہیں اس سے منع کرنا چاہا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہہ کر انہیں روک دیا ’’دعہ یا عمر‘‘ عمر اسے چھوڑ دو، اس کے شعر دشمنوں کے سینوں میں تمہارے تیروں سے زیادہ نشانے پر لگ رہے ہیں۔

اس لیے اسلام آباد کی قومی فلسطین کانفرنس میں اکابر علماء اسلام نے جہاد کا جو اعلان کیا ہے وہ وقت کا اہم ترین تقاضہ ہے اور تمام طبقات اور عوام کو اس پر عمل کے لیے جو کچھ وہ کر سکتے ہوں اس سے گریز نہیں کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

فلسطین کی صورتحال اور امتِ مسلمہ کی ذمہ داری

(۶ اپریل ۲۰۲۵ء کو الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کا جاری کردہ ویڈیو پیغام)

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ غزہ کی صورتحال، فلسطین کی صورتحال، دن بدن نہیں لمحہ بہ لمحہ گھمبیر سے گھمبیر تر ہوتی جا رہی ہے اور اسرائیل تمام اخلاقیات، تمام قوانین، تمام معاہدات کو پامال کرتے ہوئے اس درندگی کا مظاہرہ کر رہا ہے اور اس پر دنیا کی خاموشی بالخصوص عالمِ اسلام کے حکمرانوں پر سکوتِ مرگ طاری ہے۔ مجھے تو بغداد کی تباہی کا منظر نگاہوں کے سامنے آ گیا ہے، جب تاتاریوں کے ہاتھوں خلافتِ عباسیہ کا خاتمہ ہوا تھا، بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی تھی، اور اس وقت بھی کم و بیش یہی صورتحال تھی، آج پھر ’’بغداد‘‘ کی تباہی کا منظر ہمارے سامنے ہے، اسرائیل اور اس کے پشت پناہ، آج وہ چادر جو انہوں نے اوڑھ رکھی تھی، مغرب نے، امریکہ نے، یورپی یونین نے، عالمی طاقتوں نے، انسانی حقوق کی، بین الاقوامی معاہدات کی، انسانی اخلاقیات کی، وہ آج سب کی چادر اسرائیلی درندگی کے ہاتھوں تار تار ہو چکی ہے۔

لیکن اس سے زیادہ صورتحال پریشان کن، اضطراب انگیز یہ ہے کہ مسلم حکمران بھی اسی مصلحت کا، مصلحت نہیں بے غیرتی کا شکار ہو گئے ہیں۔ آج او آئی سی (اسلامی تعاون تنظیم) کو، عرب لیگ کو، مسلم حکمرانوں کو، جو کردار ادا کرنا چاہیے تھا وہ اس کے لیے مل بیٹھ کر سوچنے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں۔ اور امتِ مسلمہ، عالمِ اسلام سناٹے کے عالم میں اپنے حکمرانوں کو دیکھ رہی ہے کہ یہ ہمارے ہی حکمران ہیں، کون ہیں یہ؟

لے دے کے دینی حلقوں کی طرف سے دنیا بھر میں کچھ نہ کچھ آواز اٹھ رہی ہے، جو اس بات کی علامت ہے کہ ملتِ اسلامیہ بحیثیت ملتِ اسلامیہ اپنے حکمرانوں کے ساتھ نہیں، اپنی دینی قیادتوں کے ساتھ ہے جو کسی نہ کسی انداز میں اپنی آواز بلند کر رہے ہیں، اس آواز کو زیادہ سے زیادہ مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔

میں اس موقع پر دنیا بھر کے دینی حلقوں سے، علماء کرام سے، یہ گزارش کرنا چاہوں گا کہ آج کی صورتحال کو سمجھنے کے لیے تاتاریوں کی یلغار اور بغداد کی تباہی کا ایک دفعہ پھر مطالعہ کر لیں، کیا ہوا تھا؟ کس نے کیا کیا تھا؟ اور کون سے حلقے تھے جنہوں نے ملتِ اسلامیہ کی تباہی کی راہ ہموار کی تھی اور کون سے لوگ تھے جنہوں نے اس وقت ملتِ اسلامیہ کو سہارا دیا تھا؟ مجھے اس وقت کی دو بڑی شخصیتیں ذہن میں آ رہی ہیں (۱) شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالیٰ اور (۲) شیخ الاسلام عز الدین بن عبد السلام رحمہ اللہ تعالیٰ، دینی قیادت تھی، سامنے آئے تھے، امت کو سنبھالا تھا، مقابلہ کر سکے یا نہ کر سکے، امت کو سنبھالنا، امت کا حوصلہ قائم رکھنا، اور اپنے مشن کے تسلسل کو قائم رکھنا، یہ تو بہرحال بہرحال دینی قیادتوں کی ذمہ داری ہے، علماء کرام کی ذمہ داری ہے کہ حمیت کو باقی رکھیں، غیرت کو باقی رکھیں۔

تو میری پہلی درخواست تو علماء کرام سے ہے، کسی بھی مکتبِ فکر سے تعلق رکھتے ہوں، کسی بھی فقہی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں، کسی بھی علاقے سے تعلق رکھتے ہوں، کہ آج شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ اور شیخ الاسلام عز الدین بن عبد السلامؒ کے کردار کو زندہ کرنے کی ضرورت ہے اور یہی ہماری سب سے بڑی ذمہ داری ہے۔ ویسے تو فقہاء نے لکھا ہے کہ دنیا کے کسی بھی کونے میں مسلمان مظلوم ہوں، ذبح ہو رہے ہوں، تو دنیا بھر کے مسلمانوں پر جہاد فرض ہو جاتا ہے، ہماری فقہی صورتحال تو یہ ہے، درجہ بدرجہ ’’   علی الاقرب فالاقرب‘‘  ،   ’’الاول فالاول‘‘۔ لیکن بہرحال مجموعی طور پر ہم امتِ مسلمہ پر جہاد کی فرضیت کا اصول اس وقت لاگو نہیں ہو گا تو کب لاگو ہو گا۔ لیکن بہرحال ہمیں اپنے اپنے دائرے میں امتِ مسلمہ کا حوصلہ قائم رکھنے کے لیے، بیدار رکھنے کے لیے، فکری تیاری کے لیے۔

اور دو تین محاذ ہمارے ہیں:

  1. ایک تو یہ ہے کہ علماء کرام ہر علاقے میں ہر طبقے میں ہر دائرے میں اپنے کردار کو اپنے حوصلے کو قائم رکھتے ہوئے امت کا حوصلہ قائم رکھنے کی کوشش کریں۔
  2. دوسری بات یہ ہے کہ آج ایک محاذ میڈیا وار کا بھی ہے، لابنگ کا بھی ہے، اس میں جو لوگ صلاحیت رکھتے ہیں ان کو کوتاہی نہیں کرنی چاہیے، اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
  3. اور تیسرا محاذ بائیکاٹ کا ہے، اب تو یہ مرحلہ آ گیا ہے، اسرائیل نہیں، اس کے سرپرستوں کے معاشی بائیکاٹ کی بھی ضرورت پیش آ رہی ہے، اور یہ معاشی بائیکاٹ کوئی نئی چیز نہیں ہے، جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں معاشی بائیکاٹ حضورؐ کا بھی ہوا ہے، حضورؐ نے بھی کیا ہے۔ شعبِ ابی طالب میں حضورؐ کا ہوا تھا، غزوہ خندق میں حضورؐ نے کیا تھا۔ اور اس کی مختلف مثالیں موجود ہیں۔

تو لابنگ کی جنگ، میڈیا کی جنگ، حوصلہ قائم رکھنے کی جنگ، اور معاشی بائیکاٹ، اس میں جس قدر ہم زیادہ توجہ دے سکیں۔ کوئی لکھ سکتا ہے تو لکھے، بول سکتا ہے تو بولے، خرچ کر سکتا ہے تو خرچ کرے، کوئی لوگوں کے ساتھ رابطے کر سکتا ہے تو رابطے کرے۔ جو بھی کسی میں صلاحیت ہے، آج یہ وقت ہے، جو بھی کسی کے پاس موقع ہے، توفیق ہے، صلاحیت ہے، وہ اس کو اپنے فلسطینی بھائیوں کے لیے، فلسطین کی آزادی کے لیے، اسرائیلی درندگی کی مذمت کے لیے، اس میں رکاوٹ کے لیے، مسجد اقصیٰ بیت المقدس کی آزادی کے لیے، جو بھی کر سکتا ہے وہ کرے۔

ہمارے والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمۃ اللہ علیہ ایک مثال دیا کرتے تھے کہ حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کو جب آگ میں ڈالا گیا تو ایک چڑیا چونچ میں پانی ڈالتی تھی، ایک پرندہ تھا، اس سے کسی نے پوچھا، تیرے پانی ڈالنے سے کیا ہو گا؟ اس نے کہا، ہو گا یا نہیں ہو گا، میری جتنی چونچ ہے اتنا پانی تو میں ڈالوں گی۔ یہ کم از کم کہ جو ہم کر سکتے ہیں وہ تو کریں، میں دیانت داری کے ساتھ (کہوں گا) کہ مجھے، سب کو اپنے اپنے ماحول کو دیکھنا چاہیے، اپنی اپنی توفیقات کو دیکھنا چاہیے اور جو کر سکتے ہیں اس میں کوتاہی نہیں کرنی چاہیے۔

اللہ تبارک و تعالیٰ ہمارے مظلوم فلسطینی بھائیوں پر رحم فرمائے، ہم پر رحم فرمائے۔ مولا کریم! فلسطین کی آزادی، غزہ کے مسلمانوں کی اسرائیلی درندگی سے گلوخلاصی، اور اسرائیل اور اس کے سرپرستوں کی بدمعاشی سے نجات دلانے کے لیے اللہ پاک ہمیں توفیق عطا فرمائیں اور خود مہربانی فرمائیں، فضل فرمائیں کہ اس مرحلے پر عالمِ اسلام کی، امتِ مسلمہ کی دستگیری فرمائیں، ان کو اس عذاب سے نجات دلائیں۔ اللھم صل علیٰ سیدنا محمدن النبی الامی واٰلہ واصحابہ وبارک وسلم۔



مسئلہ فلسطین

عالم اسلام اور مغرب

(الشریعہ — مئی ۲۰۲۵ء)

ماہانہ بلاگ

شملہ معاہدے سے نکلنے کے فوائد
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

بھارت کا وقف ترمیمی ایکٹ: جب بیوروکریٹس موجود ہوں تو بلڈوزرز کی کیا ضرورت؟
الجزیرہ

پاکستان کا ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کا طریقہ خطرناک ہے۔
الجزیرہ

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ٹیرفس: وائیٹ ہاؤس کا موقف اور وزیراعظم سنگاپور کی تقریر
سی بی ایس نیوز
لارنس وانگ

جہاد فرض ہے اور مسلم حکومتوں کے پاس کئی راستے ہیں
مولانا مفتی محمد تقی عثمانی

المیۂ فلسطین اور قومی کانفرنس اسلام آباد کا اعلامیہ
مولانا مفتی منیب الرحمٰن

فلسطین پاکستان کا اساسی مسئلہ ہے
مولانا فضل الرحمٰن

امریکہ کا عالمی کردار، اسرائیل کی سفاکیت، اہلِ غزہ کی استقامت: ہماری ذمہ داری کیا ہے؟
حافظ نعیم الرحمٰن

فلسطینی پاکستان کے حکمرانوں سے توقع رکھتے ہیں
لیاقت بلوچ

اہلِ فلسطین کی نصرت کے درست راستے
علامہ ہشام الٰہی ظہیر

قومی فلسطین و دفاعِ پاکستان کانفرنس: تمام جماعتوں کا شکریہ!
مولانا قاری محمد حنیف جالندھری
مولانا حافظ نصر الدین خان عمر

فلسطین کے ہمارے محاذ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مولانا زاہد الراشدی کا ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن میرپور آزادکشمیر کے فلسطین سیمینار سے خطاب
مفتی محمد عثمان جتوئی

غزہ کی تازہ ترین صورتحال اور نیتن یاہو کے عزائم
مولانا فتیح اللہ عثمانی

حالیہ فلسطین جنگ میں شہید ہونے والے جرنلسٹس
الجزیرہ

’’میں نے پاکستان بنتے دیکھا‘‘
پروفیسر خورشید احمد
اظہر نیاز

پروفیسر خورشید احمدؒ کی رحلت: صدی کا بڑا انسان
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

پروفیسر خورشید: جہانگیر و جہانبان و جہاندار و جہاں آرا
ڈاکٹر شہزاد اقبال شام

پروفیسر خورشید احمدؒ کی وفات
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

’’آسان تفسیرِ قرآن‘‘
مولانا مفتی محمد تقی عثمانی

حکمران کے دس حقوق
مولانا مفتی عبد الرحیم
مفتی عبد المنعم فائز

رسالتِ محمدیؐ کی تئیس سالہ کامیاب تبلیغ
علامہ ڈاکٹر خالد محمودؒ

اسلامی نظریاتی کونسل، دستوری تاریخ کے آئینے میں
اسلامی نظریاتی کونسل

مطبوعات

شماریات

Flag Counter