(شعبہ نشر و اشاعت جامعہ عربیہ سراج العلوم لکی مروت کے شائع کردہ رسالہ ’’جرعۃ الزلال فی مسئلۃ رؤیۃ الہلال‘‘ طبع ۱۴۳۸ھ کا ایک حصہ)
سوال: بابت رؤیتِ ہلالِ رمضان و عید الفطر
رمضان شریف اور عید الفطر کے وقت ہمارے لکی مروت کے ضلع میں تقریباً دو سالوں سے کافی انتشار اور خلفشار پیدا ہو چکا ہے جس میں عوام اور نوجوان علماء طبقہ کافی پریشان ہے۔ بعض عوام علماء کے ایک خاص طبقہ کی شہادت پر روزہ رکھ کر، بعض دوسرے علماء زبردستی عوام کو روزہ افطار کرا کے مذکورہ شہادت کی تردید کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پورے پاکستان میں روزہ نہیں ہے تو آپ کا روزہ بھی معتبر نہیں۔ اور جب عید الفطر کی شہادت لے کر علماء عید کا اعلان کرتے ہیں تو اس کے مقابل علماء اس شہادت کی تردید کر کے کہتے ہیں کہ کل روزہ رکھنا فرض ہے، جب تک مرکزی رؤیتِ ہلال اور اس کے چیئرمین کی طرف سے عید کا اعلان نہ ہو عید منانا حرام ہے کیونکہ رؤیتِ ہلال کمیٹی کے چیئرمین کی حیثیت شرعی قاضی کی ہے۔ اس میں فقہاء احناف کی فقہ کی روشنی میں مدلل فتویٰ کیا ہے؟ بینوا و توجروا۔
الجواب باسم الموفق الصواب
پاکستان کے صوبہ خیبر پختون خواہ کے عوام بہ نسبت دوسرے صوبوں کے صوم و صلوٰۃ کے زیادہ پابند ہیں، وہ عبادات میں فرائض کے علاوہ نوافل کا بھی اہتمام کرتے ہیں، اسی طرح رمضان کے علاوہ دوسرے مہینوں میں عوام اور خواص کے گھروں میں نفلی روزوں کا اتنا اہتمام ہوتا ہے کہ بعض گھروں میں تو جشن کا سماں ہوتا ہے کہ آج شبِ معراج ہے اور آج شبِ برأت ہے آج بارہ وفات ہے وغیرہ وغیرہ۔ بعض دیندار عوام کے گھروں میں خوشیوں کے سمندر ٹھاٹھیں مارنا شروع کر دیتا ہے تو ایسے لوگوں کو چاند تلاش کیے بغیر کیسے قرار ہو سکتا ہے جب کہ حکم بھی یہی ہے۔
يجب ان يلتمس الناس الهلال فى التاسع والعشرين من شعبان وقت المغرب فان رأوه صاموا وان غم اكملوه ثلاثين يوما كذا فی الاختيار شرح المختار (عالمگیری ج ا ص ۱۹۷)
ترجمہ: لوگوں پر لازم ہے کہ وہ انتیس شعبان کے مغرب کو چاند دیکھنے کا اہتمام کریں، اگر چاند دیکھ لیا تو روزہ رکھ لیں ورنہ تیس دن (شعبان) کے پورے کر لیں۔
یہ کسی ایک عالم کا فتویٰ نہیں ہے بلکہ پانچ سوجید علماء ہند کا فتویٰ ہے جنہوں نے عالمگیری مرتب کی ہے۔ نیز آلاتِ جدیدہ سے مدد لینے والے ماہرین کی بات چاند کے وجود و عدمِ وجود کے بارے میں غیر مقبول ہے جیسا کہ عالمگیری میں سراج الوھاج کے حوالے سے لکھا گیا ہے:
وهل يرجع الى قول اهل الخبرة العدول ممن يعرف علم النجوم الصحيح انه لا يقبل كذا فی السراج الوهاج (عالمگیری ج ا ص ۱۹۷)
ترجمہ: کیا اس بارے میں ستاروں کی مدد سے اوقات کا حساب کرنے والے ماہرینِ علمِ نجوم کی بات قابلِ اعتماد ہے؟ صحیح یہ ہے کہ ان کی بات قبول نہیں کی جائے گی۔
علامہ حصکفیؒ کا فتویٰ بھی یہی ہے:
ولا عبرة بقـول الـمـوقـتين۔
علامہ شامی کہتے ہیں:
اى فى وجوب الصوم على الناس بل فی المعراج لا يعتبر قولهم بالاجماع
اور تھوڑا سا آگے لکھتے ہیں:
و فی النهر فلا يلزم بقول الموقتين انه اى الهلال يكون فی السماء بعلة كذا وان كانوا عدولا فى الصحيح كما فی الايضاح (ردالمحتار ج ۲ ص ۳۸۷)
فقہ حنفی میں ردالمحتار کا ایک مقام ہے، مفتیان کرام کے پاس اس کی بات آخری بات ہوتی ہے۔ رؤیتِ ہلال کا ثبوت شہادت پر موقوف ہے اور امورِ شہادت میں شہادت ہی معتبر ہوتی ہے۔ اور فرماتے ہیں:
لان الشهادة نزلها الشارع منزلة اليقين
(شارع علیہ السلام نے شہادت کو یقین کا قائم مقام قرار دیا ہے)
شرعی نقطہ نظر سے پورے ملک میں ایک ہی دن روزہ رکھنا یا ایک ہی دن عید منانا نہ فرض ہے نہ واجب اور نہ شرعاً ضروری ہے۔ قرآن و حدیث کے پورے ذخیرے سے کہیں یہ معلوم نہیں ہوتا۔
رؤیتِ ہلال کے مسئلہ میں مندرجہ ذیل چیزوں کا ملحوظ رکھنا ضروری ہے:
(۱) ذیلی کمیٹیوں کی شرعی حیثیت۔
(۲) ذیلی کمیٹیوں کی شہادت لینے کے بعد اعلان کی حیثیت۔
(۳) گورنمنٹ کے مقرر کردہ مرکزی رؤیتِ ہلال کمیٹی اور اس کے چیئرمین کی شرعی حیثیت اور ان کے اختیارات۔
(۴) مرکزی رؤیتِ ہلال کمیٹی اگر ذیلی کمیٹیوں کی شہادت علی الرؤیۃ قبول نہ کرے تو ذیلی کمیٹی سے ملحق اطراف و اکناف کیلئے یہ شہادت معتبر ہے یا نہیں؟
اس مسئلہ کے مذکورہ چار اجزاء کا بالترتیب حل مندرجہ ذیل ہے:
(۱) رؤیتِ ہلال کے بارے میں ذیلی کمیٹیوں کی شرعی حیثیت
اگر کسی ملک میں فیصلے قرآن و حدیث پر ہونا محال ہو اور وہاں کوئی شرعی قاضی بھی نہ ہو اور عوام اپنی دینی ضرورتوں کو پورا کرنے کیلئے علماء کرام مفتیان عظام کی رہنمائی کے محتاج ہوں وہاں پر فقہاء کرام نے ثقہ، معتمد علیہ اور متدین علماء کرام کو شرعی قاضی کے قائم مقام قرار دیا ہے اور کسی بھی ضرورت کے وقت ان کا مدلل فتویٰ شرعی حکم کے قائم مقام قرار دیا ہے۔
چونکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں رؤیتِ ہلال کا مسئلہ ایک اہم مسئلہ ہے اس لئے پاکستانی عوام خصوصاً خیبرپختون خواہ کے دینی جذبہ سے سرشار اور دینی حمیت کے حامل عوام چاند دیکھنے کے بعد چاند کی شہادت پیش کرنے کیلئے علماء کے سامنے اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں۔ اور یہ صرف عید الفطر کے وقت نہیں ہوتا بلکہ رمضان کے ثبوت کے وقت بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ روزہ رکھنے اور افطار کرنے کو دیندار عوام ایک شرعی فریضہ کے نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں اور ذیلی کمیٹی سے متعلق علماء کرام بھی اس کو شرعی امر سمجھتے ہوئے شہادت لے کر روزہ یا فطر کا حکم سناتے ہیں جو عین شرعی حکم ہی ہوتا ہے۔
لما فی الشامیة لان الشهادة نزلها الشارع منزلة اليقين (ردالمحتار )
(یعنی شارع نے شہادت کو یقین کے قائم مقام قرار دیا ہے)
اما فی السواد اذا رأى احدهم هلال رمضان يشهد فی مسجد قريته وعلى الناس ان يصوموا بقوله بعد ان يكون عدلا اذا لم يكن هناك حاكم يشهد عنده كذا فی المحيط ( عالمگیری ج ا ص ۱۹۷)
یعنی مصر کے علاوہ دیہاتوں میں اگر کوئی دیہاتی رمضان شریف کا چاند دیکھے تو اپنے گاؤں کی مسجد میں گواہی دے تو ان لوگوں پر لازم ہے کہ ان کی گواہی قبول کر کے روزے رکھیں۔
محیط کی عبارت میں اما فی السواد کی قید احترازی نہیں بلکہ قید واقعی ہے یعنی دیہاتوں میں شرعی قاضی کا وجود واقعۃً مفقود ہے تو اسی طرح جن شہروں میں شرعی قاضی نہ ہو تو وہاں پر فقہاء کرام جید علماء کرام کے حکم کو قاضی کے حکم کے قائم مقام قرار دیتے ہیں۔
علامہ قاضی خان کا فتویٰ یہ ہے:
ومن رأى هلال رمضان في الرستاق وليس هناك وال ولا قاض فان كان الرجل ثقة يصوم الناس بقوله۰
یعنی اگر کسی نے دیہات میں چاند دیکھا اور وہاں پر کوئی شرعی والی یا قاضی نہیں تھا تو لوگ ثقہ ہونے کی وجہ سے اس کے اس قول (کہ میں نے چاند دیکھ لیا) پر روزے رکھنے شروع کر دیں۔
نوٹ: فقہاء کرام نے شرعی قاضی کی ضرورت محسوس کیے بغیر لوگوں کو اس بات کا پابند بنا دیا کہ لوگ اس کی بات کا اعتبار کر کے روزہ رکھیں۔
وفی الفطر ان اخبر عدلان برؤية الهلال لا بأس بان يفطروا۔
ترجمہ: اور عید الفطر میں اگر دو عادل آدمی رؤیتِ ہلال کی خبر دیں (تو ان کی بات مانتے ہوئے) لوگوں کو روزہ افطار کرنے (اور عید منانے میں) کوئی حرج نہیں۔
(۲) ذیلی کمیٹیوں کا شہادت لینے کے بعد اعلان کی شرعی حیثیت
شہادت کی اہلیت کیلئے مسلمان ہونا، بالغ ہونا، عاقل ہونا، عادل ہونا شرط ہے جو خیبر پختون خواہ کے عوام میں کامل درجہ میں پائے جاتے ہیں۔ جبکہ شہادت پر مبنی امور میں شہادت ہی معتبر ہے تو متشرع عادل گواہوں کی شہادت کا اعتبار کیوں نہیں کیا جاتا اور مرکزی رؤیتِ ہلال کمیٹی کے چیئرمین سماعِ شہادت یا شہادت علی الرؤیۃ کی تکلیف کیوں گوارا نہیں کرتے؟ جب کہ فقہاء کرام نے قاضئ وقت کے علاوہ بھی ذیلی کمیٹیوں کیلئے شہادت لینے اور رمضان، عید کا اعلان کرنے کی گنجائش چھوڑی ہے۔ امام فخر الدین حسن بن منصورؒ جو کہ قاضی خان کے نام سے مشہور ہے، لکھتے ہیں:
وروى انه يقبل فيه شهادة اهل محلة وان جاء الواحد من خارج المصر و شهد برؤية الهلال ثمه روى انه تقبل شهادته واليه اشار فی الاصل وكذا لو شهد برؤية الهلال فی المصر على مكان مرتفع واما هلال شوال فان كان بالسماء علة لا يقبل الا شهادة رجلين او رجل وامرأتين و يشترط فيه الحرية وكما تشترط فيه الحرية و العدد ينبغی ان يشترط فيه لفظ الشهادة۔ ( قاضی خان برحاشیہ عالمگیری ج ا ص ۱۹۶)
ترجمہ: اور منقول ہے کہ رمضان شریف کے بارے میں اہلِ محلہ کی شہادت قبول کی جائے گی اور اگر کوئی ایک آدمی شہر کے باہر سے آئے اور وہاں چاند دیکھنے کی گواہی دے دے تو اس کی گواہی قبول کی جائے گی اور اسی کی طرف مبسوط میں اشارہ ہے۔ اسی طرح اگر کوئی چاند دیکھنے کی گواہی شہر میں کسی اونچی جگہ دے (تو اس کی گواہی بھی قبول کی جائے گی) اور شوال کا چاند دیکھنے میں اگر آسمان پر کوئی علت ہو تو دو مردوں یا ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی قبول کی جائے گی۔ اور اس شہادت دینے میں حریت شرط ہے اور جس طرح شہادت میں حریت اور عددِ شہادت شرط ہے اسی طرح لفظ شہادت کا شرط ہونا مناسب ہے۔
خارج المصر کی قید سے دیہاتیوں کی اہمیت اور بڑھ گئی کیونکہ وہاں پر چاند دیکھنے کیلئے کھلی فضا کا ہونا زیادہ معاون ہے جیسا کہ قاضی خان کا مذکورہ حوالہ ملاحظہ کیا جا سکتا ہے:
ومن رأى هلال رمضان فی الرستاق وليس هناك وال ولا قاض فان كان الرجل ثقة يصوم الناس بقوله
یعنی جس نے دیہات میں رمضان کا چاند دیکھ لیا اور وہاں پر والی اور قاضی نہیں تھا پس اگر آدمی ثقہ تھا تو لوگ اس کے کہنے پر روزے رکھنے (شروع کر دیں)۔
اسی طرح عید الفطر میں دو عادل گواہوں کی شہادت پر عید کا اعلان شرعاً معتبر ہے۔
جاننا چاہئے کہ ذیلی کمیٹیوں کا وجود تواتر کے ساتھ چلا آرہا ہے اور دیگر دینی مسائل میں عموماً اور چاند کی شہادت میں خصوصاً لوگ اپنے اپنے علاقے کے جید اور نامور علماء کرام ہی پر اعتماد کرتے ہیں اور انہی مواقع میں ان کی طرف رجوع کر کے انہی کے اعلانات کا انتظار کرتے ہیں۔ عرفِ عام یہ ہے کہ عوام جید اور نامور علماء کو شرعی قاضی کے حکم کی نظر سے دیکھتے ہیں اور ان کو شرعی قاضی کا درجہ دیتے ہیں اس لئے تو تمام دینی مسائل میں انہی کی راہنمائی حاصل کیے بغیر مطمئن نہیں ہوتے۔
جید اور نامور علماء کرام کے تحت چلنے والی ذیلی کمیٹیوں کا وجود ایک جگہ نہیں ہوتا بلکہ صوبہ خیبر پختون خواہ میں پشاور، مردان، میرانشاہ ، بنوں اور لکی مروت کے شہروں اور ان کے مضافات میں جگہ جگہ ہوتا ہے جہاں پر شرعی شہادتوں کی بنیاد پر رمضان اور عید الفطر کے اعلانات ہوتے ہیں۔ ان تمام شہروں میں رمضان اور عید الفطر کے چاند دیکھنے کا اہتمام ہوتا ہے اور ایک ہی دن میں کئی شہروں کے کمیٹیوں کے پاس شرعی شہادتیں موصول ہو جاتی ہیں۔ کئی شہروں میں مختلف گواہوں کا جھوٹ پر اجتماع ناممکن ہے اور امام ابو یوسف رحمہ اللہ نے ایسی شہادتوں کے قبول ہونے کی اجازت دی ہے:
وقال ابویوسف انما تقبل شهادة رجلين على هلال شوال اذا اخبرا انهما رأياه فی غير البلد وان كانت شهادتهما انهما رأياه في البلد و البلد كثير الاهل لا يقبل فيهما قول الواحد والاثنين وانما يقبل قول جماعة لا يتصور اجتماعهم على الكذب (قاضی خان برحاشیہ عالمگیری ج ا ص ۱۹۷)
ترجمہ: امام ابو یوسفؒ فرماتے ہیں کہ بیشک شوال کے چاند کے بارے میں دو مردوں کی شہادت قبول کی جائے گی جب کہ وہ اس کے دیکھنے کی خبر شہر کے علاوہ میں دیں۔ اور اگر وہ گواہی دیں کہ انہوں نے شہر میں چاند دیکھ لیا ہے اور شہر کے باشندے زیادہ ہوں تو ایک یا دو کی گواہی قبول نہیں کی جائے گی بلکہ ایک ایسی جماعت کی گواہی ضروری ہے جن کا جھوٹ پر جمع ہونا محال ہو۔
یہ ہے امام ابو یوسفؒ کا حکم کہ شوال کی چاند دیکھنے کیلئے دو دیہاتوں کی گواہی قبول کی جائے گی اور ان کو اپنی شہادت کی بنیاد پر عید منانے کی اجازت دے دی۔
ایک ضروری وضاحت:
چاند دیکھنے میں تفصیل ہے۔ پہلی رات کی چاند ہر کوئی نہیں دیکھ سکتا جب کہ افق گرد آلود بھی ہو، اس لئے تو فقہاء کرام نے رمضان کیلئے ایک آدمی کی شہادت کو بھی معتبر قرار دیا ہے۔ حوالہ ملاحظہ ہو:
ان كان بالسماء علة فشهادة الواحد على هلال رمضان مقبولة اذا كان عدلا مسلما عاقلا بالغا الخ (عالمگیری ج ا ص ۱۹۷)
ترجمہ: جب آسمان پر کوئی علت (گرد و غبار) ہو تو ہلالِ رمضان کے بارے میں ایک آدمی کی گواہی قبول کی جائے گی جبکہ وہ عادل، مسلمان، عاقل اور بالغ ہو۔
عالمگیری مرتب کرنے والے پانچ سو علماء کرام کا اس فتویٰ پر اتفاق اور اجماع ہے۔
اسی طرح عیدالفطر کے بارے میں فقہاء کرام کا فتویٰ یہ ہے:
واذا اخبر رجلان فى هلال شوال فى السواد والسماء متغيمة وليس فيه وال ولا قاض فلا بأس للناس ان يفطروا كذا فی الزاهدى و تشترط العدالة هكذا فی النقاية۔ (عالمگیری ج ا ص ۱۹۸)
ترجمہ: جب ہلالِ شوال کے بارے میں دیہات کے دو آدمی گواہی دیں جبکہ آسمان ابرآلود ہو اور وہاں کوئی والی یا قاضی نہ ہو تو لوگوں کا افطار کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں، اسی طرح زاہدی میں لکھا ہے جب کہ نقایہ میں عدالت کو شرط قرار دیا گیا ہے۔
افق گرد آلود ہونے کی صورت میں عید الفطر کیلئے پورے آبادی میں صرف دو آدمیوں کی گواہی کو کافی قرار دیا گیا۔ وليس فيه وال ولا قاض کے جزئیہ نے تو اور بھی مسئلہ سے پردہ ہٹالیا اور دیہات سے شہر جانے کی ضرورت محسوس نہیں کی کیونکہ سواد شہروں کے آس پاس ہوتے ہیں، اسلامی حکومت میں شہروں میں تو ضرور شرعی قاضی موجود ہوتا ہے۔
قاضی خان کے مذکورہ حوالہ (یصوم الناس بقوله) نے ذیلی کمیٹیوں کی طرف شہادت اور ان کے اعلانات کو تقویت بخشی، اسی طرح عالمگیری نے خلاصتہ الفتاویٰ کے حوالہ سے لکھا ہے:
وان جاءوا من مكان بعيد جازت شهادتهم لانتفائا لتهمة (عالمگیری ج اس ۱۹۸)
ترجمہ: اگر گواہ کسی دور جگہ سے آجائیں تو انتفاء تہمت کی وجہ سے ان کی شہادت (قبول کرنا) جائز ہے۔
نوٹ: بہت افسوس ہے کہ فقہاء کرام دور سے آنے والے گواہوں سے تہمت ہٹاتے ہیں اور ہم تہمت لگاتے ہیں۔
اسی طرح عالمگیری نے شمس الائمہ الحلوانی کا فتویٰ نقل کیا ہے:
قال لو رأى اهل مغرب هلال رمضان يجب الصوم على اهل مشرق كذا فی الخلاصة۔ (عالمگیری ج اص ۱۹۹)
ترجمہ: اگر اہلِ مغرب نے رمضان کا چاند دیکھ لیا تو اہلِ مشرق پر روزہ واجب ہوگا۔
سوال یہ ہے کہ کیا اہلِ مغرب اور اہلِ مشرق کیلئے ایک ہی قاضی ہوگا؟ اور اگر امامِ وقت اور حاکمِ وقت مشرق میں ہے اور ذیلی کمیٹی کی شہادت مغرب میں ہے تو جس طرح مشرق میں دیگر باشندوں پر روزہ واجب ہے اسی طرح حاکمِ وقت اور دیگر قضاۃ پر بھی واجب ہے؟
تو معلوم ہوا کہ پاکستان میں خیبرپختونخواہ کے شرعی شہادت کی وجہ سے بلوچستان، سندھ اور پنجاب کے عوام اور خواص پر بھی روزہ فرض ہوا۔ روزہ نہ رکھنا فرض رمضان اور شہادت کی تردید کے مترادف ہے جو کہ سخت گناہ اور شرعی جرم ہے۔
اسی طرح شمس الائمہ الحلوانی کا ایک دوسرا فتویٰ علامہ ابن عابدین رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے:
قال شمس الائمة الحلوانى الصحيح من مذهب اصحابنا ان الخبر اذا استفاض و تحقق فيما بين اهل البلدة الأخرى يلزمهم حكم هذه البلدة ومثله فی الشر نبلالية عن المغنى (ردالمختار ج ۲ ص۳۹۰)
ترجمہ: شمس الائمة الحلوانی فرماتے ہیں کہ ہمارے علماء کا صحیح مذہب یہ ہے کہ جب خبر دوسرے شہر کے لوگوں میں مشہور اور ثابت ہو جائے تو ان پر اس شہر کا حکم لازم ہوگا۔
اس فتویٰ میں کسی ایک شہر کی شائع شدہ خبر حکم کے قائم مقام قرار دے کر دوسرے شہروں پر اس حکم کا ماننا لازم قرار دیا، اگر کوئی اس حکم سے انکار کرے تو کیا یہ شرعی حکم کا انکار نہیں ہے؟ جو کہ شرعی جرم ہے۔
علامہ شامیؒ مزید فرماتے ہیں کہ صرف خبرِ مشاع معتبر نہیں بلکہ خبرِ مستفاض کا متحقق ہونا شرط ہے۔ اور لکھا ہے کہ خبرِ مستفاض کے متحقق ہونے کے بعد حلِ فطر اتفاقی ہے۔ علامہ نوح آفندیؒ کے فتویٰ (کہ حلِ فطر اتفاقی ہے) سے علامہ شامیؒ نے اس کی توثیق کی ہے اور بدائع الصنائع، سراج الوهاج اور جوہرۃ النیرۃ کا حوالہ دیا ہے اور فرمایا ہے کہ اتفاق سے مراد ہمارے تین اماموں (امام اعظم ابوحنیفہؒ، امام ابو یوسفؒ، امام محمدؒ) کا متفق ہونا ضروری ہے۔
تنویر الابصار ص ۳۹۰ میں لکھا ہے:
و بـعـد صــوم ثلاثين بقول عدلين حل الفطر۔
یعنی دو عادل گواہوں کے قول پر جب رمضان شریف کا حکم سنایا گیا ہو تو تیس روزے پورے ہونے کے بعد عید الفطر منانا جائز ہے۔
تو کیا شریعت میں اس بات کی گنجائش موجود ہے کہ پورے خیبرپختونخواہ کے خواص اور عوام کا عید ہو اور چند ایک علماء انتشار پھیلانے کیلئے بضد ہو کر رمضان شریف کو جاری رکھنے کا اعلان کرتے رہیں اور اکتیسواں روزہ شروع کر دیں؟ کیونکہ پہلا روزہ تو شرعی شہادت کی بنیاد پر لوگوں نے رکھا تھا۔
علامہ ابن نجیم مصریؒ لکھتے ہیں:
تقدم انهم لو كانوا فی بلدة لا قاضى فيها ولا وال فان الناس يصومون بقول الثقة ويفطرون باخبار عدلين للضرورة (بحرالرائق ج ۲ ص ۲۶۷)
یعنی یہ بات پہلے گزر چکی کہ اگر وہ ایک ایسے گاؤں میں تھے کہ وہاں پر کوئی (گورنمنٹ کی طرف سے مقرر کردہ) قاضی یا والی نہیں تھا پس وہ لوگ کسی بھی ثقہ گواہ کے قول پر روزے رکھیں اور دو عادل گواہوں کی خبر پر عید منائیں ( کیونکہ یہ) شرعی ضرورت ہے۔
آگے لکھتے ہیں:
واما اذا صاموا بشھادۃ اثنین فانهم يفطرون اتفاقا۔
یعنی اگر دو گواہوں کی گواہی پر لوگوں نے روزہ رکھا تھا تو بلا خلاف ان کیلئے عید منانا جائز ہے۔
اور تھوڑا سا آگے لکھتے ہیں:
و اعلم ان ما كان من باب الديانات فانه يكتفى فيه بخبر الواحد العدل كهلال رمضان وما كان من حقوق العباد و فيه الزام محض كالبيوع والاملاك فشرطه العدد والعدالة ولفظ الشهادة مع باقى شروطها ومنه الفطر الخ (بحر ج ۲ ص ۲۶۷)
یعنی یہ بات ذہن نشین رکھنا چاہئے کہ دیانات کے باب سے جو مسائل متعلق ہوں اس میں رمضان کی طرح عدالت سے موصوف خبرِ واحد کی گواہی کافی ہے۔ اور جو مسائل حقوق العباد کی باب سے متعلق ہوں اور اس میں بیوع اور املاک کی طرح الزامِ محض ہے اس گواہی میں باقی شروط سمیت شہادت کے تین اہم شرائط عدد، عدالت اور لفظ شہادت کا ہونا ضروری ہے، اور ان حقوق العباد میں سے ایک عید الفطر بھی ہے۔
اور علامہ ابن نجیم مصریؒ آگے لکھتے ہیں:
و روى الحسن عن ابی حنيفة انه يقبل فيه شهادة رجلين او رجل و امرأتين سواء كان بالسماء علة اولم يكن كما روى عنه فى هلال رمضان كذا فی البدائع ولم ار من رجحها من المشائخ و ينبغى العمل عليها فی زماننا لان الناس تكاسلت عن ترائى الاهلة الخ
حسن بن زیاد امام اعظم ابوحنیفہؒ سے نقل کرتے ہیں کہ عید الفطر میں دو آدمیوں یا ایک آدمی اور دو عورتوں کی گواہی کافی ہے اگر مطلع صاف ہو یا نہ ہو جیسا کہ ہلالِ رمضان کے بارے میں ان سے روایت ہے۔ اسی طرح بدائع میں لکھا ہے: علامہ ابن نجیمؒ فرماتے ہیں کہ مشائخ میں سے کسی نے اس قول کو ترجیح نہیں دی لیکن ہمارے زمانے میں اس قول پر عمل کرنا مناسب ہے کیونکہ چاند دیکھنے میں لوگ سست ہو گئے۔
آگے لکھتے ہیں:
وان لم يكن بالسماء علة فيهما يشترط ان يكون فيها الشهود جمعا كثيرا يقع العلم بخبرهم اى علم غالب الظن لا اليقين۔
یعنی اگر مطلع صاف ہو اور آسمان گرد آلود نہ ہو تو گواہوں کا جمع کثیر ہونا شرط ہے (جمع کثیر کا فائدہ یہ ہو گا کہ اگر) ان کے خبر پر یقین کے ساتھ نہیں بلکہ غلبہ ظن کے ساتھ تو علم ضرور واقع ہوگا۔
(۳) مرکزی رؤیتِ ہلال کمیٹی اور اس کے چیئرمین کی شرعی حیثیت
جیسا کہ لکھا گیا کہ عرفِ عام میں عوام نے علماء کرام کو شرعی قاضیوں کا درجہ دیا ہے تو یہ عرفِ عام شریعت میں(۴) مرکزی رویت معتبر ہے۔ فقہاء کرام نے لکھا ہے کہ الثابت بالعرف کالثابت بالنص تو عرفِ عام کی مخالفت نصِ صریح کی مخالفت ہے جو کہ جائز نہیں۔ تنویر اور اس پر درمختار نے لکھا ہے کہ:
(شهدوا انه شهد عند قاضى مصر كذا شاهدان برؤية الهلال) فی ليلة كذا (وقضى) القاضی (به ووجد استجماع شرائط الدعوى قضى) اى جاز لهذا (القاضی) ان يحكم (بشهادتهما) لان قضاء القاضی حجة قد شهدوا به لا لو شهدوا برؤية غيرهم لانه حكاية۔
ترجمہ: لوگوں نے گواہی دی کہ فلاں شہر کے قاضی کے ہاں دو گواہوں نے فلاں رات چاند دیکھنے کی گواہی دی اور قاضی نے اس پر فیصلہ کیا اور دعویٰ کے تمام شرائط موجود تھے۔ تو اس قاضی کیلئے جائز ہے کہ ان کی گواہی پر فیصلہ دے کیونکہ قاضی کا فیصلہ (شرعی) حجت ہے اور لوگوں نے اس کی گواہی دی، لیکن کسی اور کے دیکھنے پر گواہی دینا صحیح نہیں کیونکہ یہ حکایت ہے۔
جاز لہٰذا القاضی نے ثابت کر دیا کہ ملک کے کسی بھی صوبے میں عوام الناس کے ہاں معتمد علیہ جید علماء کرام کے رؤیۃ ہلال کے احکامات صادر ہونے کے بعد مرکزی رؤیتِ ہلال کمیٹی کے چیئرمین کیلئے شرعاً یہ جواز موجود ہے کہ ذیلی کمیٹیوں کے احکامات کو قبول کر کے اس شہادت کی شرعی اطمینان حاصل کر کے پورے ملک میں رمضان یا عیدالفطر کا اعلان کرے۔ تو یہ انتشار سے بچنے کی بہترین صورت ہے۔ اور قبول نہ کرنے کی صورت میں الٹا صوبے کے گواہوں کی شرعی شہادت کا مذاق اڑانا شرعاً ناجائز ہے بلکہ گناہِ کبیرہ اور حرام ہے۔ گزشتہ سے پیوستہ سال ایسا ہوا کہ مرکزی کمیٹی نے پشاور کے دس پندرہ عادل گواہوں کو مسترد کیا، اور کل بلوچستان کے صرف تین گواہوں کی شہادت پر پورے ملک میں عید کا اعلان کیا گیا حالانکہ کل کو مغرب کے بعد تقریباً ہر کسی نے چاند دیکھ لیا جب کہ پہلی رات کا چاند ہر کوئی نہیں دیکھ سکتا چند ایک لوگ دیکھتے ہیں۔ تو پوچھنا یہ ہے کہ بلوچستان کے تین گواہوں کے بارے میں آسمان سے وحی آگئی کہ ان کو قبول کیا گیا؟ اور پشاور کے دس پندرہ گواہ کیا شرعاً مردود الشھادۃ تھے یا ان میں شہادت کی اہلیت نہیں تھی؟ اور حقیقت یہ ہے کہ یہی ایک نقطہ ہے جو پورے ملک میں باعثِ انتشار بنا ہوا ہے۔
فقیہ ِملت مفتی محمود رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ حکومتِ وقت نے جو موجودہ ہلال کمیٹی مقرر کی ہے اس کے ارکان پر علماء وقت کو چونکہ اعتماد نہیں ہے کہ یہ ارکان شرعی احکام کی رعایت رکھ کر ہی فیصلہ فرماتے ہیں اس لئے موجودہ کمیٹی کے فیصلہ کے اعلان پر عمل کرنا سب پر لازم نہ ہو گا۔ تھوڑا آگے حضرت مفتی صاحبؒ لکھتے ہیں کہ چونکہ موجودہ حکومت نے ابھی تک ثقہ علماء کی جماعت کو ہلال کمیٹی میں نہیں لیا ہے اور حکومت قواعدِ شرع کی پابندی نہیں رکھتی اس لئے اس کا فیصلہ واجب العمل نہ ہوگا اور محض اس پر اعتماد کر کے روزہ توڑنا جائز نہ ہو گا۔ (فتاویٰ مفتی محمود ج ۳ ص ۴۲۱-۴۲۰)
حضرت مفتی صاحبؒ نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ موجودہ ہلال کمیٹی کے ارکان شرعی احکام کی رعایت نہیں کرتے اس لئے علماء وقت کو اس پر اعتماد نہیں ہے اور قواعدِ شرع کی پابندی نہیں رکھتی اس لئے اس کا فیصلہ واجب العمل نہ ہوگا اور محض اس پر اعتماد کر کے روزہ توڑ نا جائز نہ ہوگا۔ کچھ سمجھ آگئی کہ جو علماء کئی درجن علماء کے رمضان کا اعلان مسترد کر کے استہزاء کرتے ہیں اور روزہ داروں کو روزہ توڑواتے ہیں تو اس ناجائز عمل کا آخرت میں کیا جواب دیں گے؟ تو حضرت مفتی صاحبؒ نے کہا کہ علماء وقت کو اس پر اعتماد نہیں ہے تو کیوں خیبرپختونخواہ کے عادل گواہوں کی شہادت لینے والے جید علماء کرام کے حکم پر عمل نہ کیا جائے اور اس کو نافذ العمل نہ مانا جائے۔ فوا اسفا۔
تھوڑا سا داد دیجئے ان علماء کو جو پانی کا گلاس ہاتھ میں لئے ہوئے جگہ جگہ اپنی علمی دبدبہ چمکاتے ہوئے ان سادہ لوح عوام کو روزہ افطار کراتے ہیں جنہوں نے پورے خیبرپختونخواہ میں نافذ ہونے والے شرعی شہادت کے اتباع میں روزہ رکھا ہو۔ کیا یہ دین ہے یا کہ بے دینی؟ خود انصاف کیجئے اور شرعی شہادت کی استہزاء اور تمسخر اڑانے پر بھی غور کیجئے۔
فتاویٰ مفتی محمود رحمہ اللہ میں ایک سوال درج ہے، موضع لساوری تحصیل شورکوٹ ضلع جھنگ (کے) پانچ آدمیوں نے کہا اور قسم اٹھائی کہ ہم نے چاند پیر کی رات شام کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے آپ اطلاع کیلئے ڈھول بجوا دیں۔ اطلاع کیلئے ڈھول بجوایا گیا جہاں تک ڈھول کی آواز پہنچی، لوگوں نے روزہ بروز سوموار نہیں رکھا۔ لیکن جب آس پاس کے علماء کی طرف رجوع کیا گیا تو علماء علاقہ نے اس کی شہادت کا اعتبار نہیں کیا اور کہا کہ تمام بڑے بڑے شہروں میں چاند نہیں دیکھا گیا الخ۔ سوال کے آخر میں لکھتے ہیں دریافت طلب امر یہ ہے کہ چونکہ صرف پانچ آدمیوں نے چاند دیکھا اور اکثر شہروں میں چاند نہیں دیکھا گیا ہے اس لئے علاقہ کے لوگ ان پانچ آدمیوں کو برا اور مجرم جانتے ہیں حالانکہ انہوں نے مسجد میں بیٹھ کر قسم اٹھائی ہے، شرعی فیصلہ تحریر فرمایا جائے۔
اس کا جواب قاسم العلوم کے نائب مفتی مولانا احمد جان صاحب نے دیا ہے اور مفتی قاسم العلوم مولانا عبد اللہ صاحب نے اس کی تصحیح کی ہے اور فتاویٰ مفتی محمود میں اس کی اشاعت ہوئی۔ جواب ملاحظہ ہو۔ صورتِ مسئولہ میں اگر ان پانچ گواہوں میں سے دو عادل گواہ تھے اور ان کی گواہی علاقہ کے ذمہ دار علماء نے محض اس بنا پر نہیں لی کہ دوسرے بڑے شہروں میں چاند نہیں دیکھا گیا اور عید نہیں کی گئی تو یہ کوئی وجہ صحیح نہیں ہے بلکہ از روئے فتویٰ ان پر لازم تھا کہ ان کی گواہی پر اعتبار کر کے عید منانے کا حکم کرتے۔ ( فتاویٰ مفتی محمود ج ۳ ص ۴۲۱-۴۲۰)
شرعی شہادت قبول نہ کرنے والے تھوڑا سا فتاویٰ مفتی محمود کے اس خط کشیدہ عبارت کا ٹھنڈے دل سے سوچ کر مطالعہ کر لیں اور اپنے متعصبانہ رویہ پر بھی سوچ کر لیں۔ جبکہ جو لوگ اپنی مدعا کیلئے اسی فتاویٰ مفتی محمود کو دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں، خیبرپختونخواہ میں وقت کے جید علماء کرام کی معتمد علیہ ذیلی کمیٹیوں کی حیثیت فتاویٰ مفتی محمود کے فتویٰ سے اجاگر ہو گئی اور فتوے میں مندرج مرکزی کمیٹی پر عدمِ اعتماد کے فتوے سے موجودہ مرکزی رؤیتِ ہلال کمیٹی کا حشر بھی دیکھ لیا۔
ایک تحقیقی نوٹ
فقہی نقطہ نظر سے مطالعہ کی حد تک میرا اپنا فتویٰ یہ ہے کہ مرکزی رؤیتِ ہلال کمیٹی کے چیئرمین کسی دینی امور میں، ہتکِ رمضان میں منکرات کے مرتکبین کو شرعی سزا دینے کا نہ مجاز ہے اور نہ سزا دے سکتا ہے، تو برائے نام رؤیتِ ہلال کمیٹی کے چیئرمین ہونے کی حیثیت سے ان کو شرعی قاضی کا درجہ دینا سمجھ سے بالاتر ہے۔ نیز رؤیتِ ہلال کا مسئلہ قضاء کے بجائے شہادت سے متعلق ہے جس میں فقہاء کرام نے قضاء قاضی کیلئے گنجائش نہیں چھوڑی۔
(۴) مرکزی رؤیتِ ہلال کمیٹی اور ذیلی کمیٹیوں کی شہادت
مرکزی رؤیتِ ہلال کمیٹی اگر ذیلی کمیٹیوں کی شہادت علی الرؤیۃ قبول نہ کرے تو ذیلی کمیٹی سے ملحق اطراف و اکناف کیلئے یہ شہادت معتبر ہے یا نہیں؟
ابھی آپ فتاویٰ مفتی محمود کے حوالے سے پڑھ چکے کہ صورتِ مسئولہ میں ان پانچ گواہوں میں دو عادل گواہ تھے اور ان کی گواہی علاقہ کے ذمہ دار علماء نے محض اس بنا پر نہیں لی کہ دوسرے بڑے شہروں میں نہیں دیکھا اور عید نہیں کی گئی۔ تو یہ کوئی وجہ صحیح نہیں بلکہ از روئے فتویٰ ان پر لازم تھا کہ ان کی گواہی پر اعتبار کر کے عید منانے کا حکم کرتے۔
پوچھنا یہ ہے کہ کیا اب بھی کوئی گرد باقی ہے کہ پانچ گواہوں میں سے دو عادل کی گواہی اتنی معتبر قرار دی گئی کہ دیگر ذمہ دار علماء کرام کا اس عادل گواہوں کی گواہی پر اعتبار نہ کرنا اور عید منانے کا حکم نہ کرنا صحیح نہیں قرار دیا، تو کیا خیبرپختونخواہ کے باشرع عادل آدھا درجن یا ایک درجن گواہوں کی گواہی کا اعتبار نہ کرنا مرکزی رؤیتِ ہلال کمیٹی کے حق میں صحیح ہے؟ ولله در القائل کیا خوب لکھا: مگر افسوس ہے کہ آج تک حکومت نے اس مسئلہ پر سنجیدگی سے غور نہیں کیا اور مرکزی رؤیتِ ہلال کمیٹی میں اب تک معتمد علماء کونہیں لیا گیا ہے۔ اس لئے علماء کرام حکومت کے فیصلے سے اختلافِ رائے رکھتے ہیں، اگر حکومت مرکزی رؤیتِ ہلال کمیٹی میں معتمد علماء کرام کو لے لے اور وہ احکامِ شرع کے تحت ہلال کی شہادتیں لے کر فیصلہ کر لیں (الی آخرہ)۔
اور اس کے بعد والے فتوے میں لکھتے ہیں: مگر افسوس ہے کہ آج تک حکومتِ پاکستان نے معتبر علماء کی مرکزی ہلال کمیٹی قائم نہیں کی ہے اور نہ ہی شرعی اصول و ضوابط کی کماحقہ رعایت رکھی ہے، اس لئے علماء پاکستان سرکاری اعلان کو قطعی فیصلہ قرار نہیں دیتے۔ یہ حضرت اقدس مولا نا عبد اللطیف صاحبؒ معین مفتی مدرسہ قاسم العلوم ملتان کا فتویٰ ہے شوال ۱۳۸۶ھ کا۔ اور اس فتویٰ کی تصحیح الجواب صحیح سے حضرت اقدس مفتی محمودؒ نے کی ہے۔
معلوم ہوا کہ صرف خیبرپختونخواہ اور بلوچستان کے نہیں بلکہ پورے پاکستان کے علماء سرکاری اعلان کو قطعی فیصلہ اس لئے قرار نہیں دیتے کہ مرکزی رؤیتِ ہلال کمیٹی شرعی اصول و ضوابط کی کما حقہ رعایت نہیں رکھتے۔ اس لئے ذیلی کمیٹیوں کے جید اور نامور علماء کرام شرعی اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے شہادۃ علی الرؤیۃ اور شھادۃ علی الشھادۃ کے اصولوں پر عمل کر کے امضاء کر کے شہادت کو منتقل کر دیتے ہیں۔ اور چونکہ معتمد علماء کے ہاں مرکزی کمیٹی کے ارکان پر اعتماد مجروح ہے اور ان کے فیصلہ کو قطعی فیصلہ قرار نہیں دیتے اس لئے رؤیتِ ہلال کے بارے میں معتبر علماء کرام کا فیصلہ عام مسلمانوں کیلئے موجبِ عمل ہوگا۔
رؤیتِ ہلال کے دو مسئلے اور بھی ہیں جن کا اس رسالہ میں موجود ہونا اشد ضروری ہے اس لئے کسی دوست کے مشورہ سے ان پر بھی بحث کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔
مسئلہ نمبر ۱: اختلافِ مطالع کی بحث
حضرت اقدس علامہ ڈاکٹر مفتی نظام الدین شامزئی صاحب نور اللہ مرقدہ نے اپنے رسالہ ’’الاتمام والاکمال فی رویۃ الہلال‘‘ میں لکھا ہے کہ تمام ممالکِ اسلامیہ میں یا کسی ایک اسلامی ملک میں بیک وقت عید منانا یا رمضان المبارک کا شروع ہونا شرعاً ضروری نہیں ہے جیسے کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت سے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین کے زمانے میں اس کا ثبوت ملتا ہے کہ شام میں حضرت معاویہؓ اور دیگر صحابہ کرام نے چاند دیکھ کر روزہ رکھا تھا لیکن مدینہ منورہ میں حضرت ابن عباسؓ اور دیگر صحابہ کرام نے چونکہ اس تاریخ میں نہیں دیکھا تھا اس لئے ان کا روزہ ایک دن بعد شروع ہوا۔ اور بقول شیخ الہند (کما فی معارف السنن) اس فرق کا اثر مہینہ کے اختتام پر بھی پڑ رہا تھا یعنی مدینہ والوں کی عید بھی شام والوں سے ایک دن بعد بھی تھی کما فی سنن الترمذی ص ۱۴۸ ج ۱ ’’باب ما جاء لكل اهل بلد رؤیتھم‘‘۔ اس لئے اس تصور کو ختم کرنا چاہئے کہ تمام مسلمانوں کی عید ایک دن ہونی چاہئے، یہ شرعی تصور نہیں ہے، جیسے کہ نماز کے اوقات مختلف ممالک میں یا ایک ملک کے مختلف شہروں میں الگ ہوتے ہیں اور اس میں کوئی قباحت نہیں بلکہ بُعدِ مسافت اور دیگر اسباب کا نتیجہ ہے۔ اسی طرح عید الاضحیٰ اور یومِ عرفہ سب ممالک میں یکساں تاریخ میں نہیں ہوا کرتے۔ ہم اپنے ملک کی تاریخ کے اعتبار سے یومِ عرفہ کا منتخب روزہ رکھتے ہیں اور دیگر ممالک کے مسلمان اپنی تاریخوں کے اعتبار سے رکھتے ہیں۔ بعینہ اسی طرح عید الفطر اور یکم رمضان بھی شرعاً ایک دن ہونا ضروری نہیں۔ اور یہ غلط فہمی کہ (مسلمانوں کی عید یا روزہ ایک تاریخ میں ہونا چاہئے) اس وجہ سے پیدا ہوئی کہ ہم نے عید کو، رمضان کو، عام اقوام کی تہوار کی طرح ایک تہوار سمجھا ہے، جیسے عیسائیوں یا آتش پرستوں کے تہوار ہوتے ہیں۔ ہمارے لئے یہ تہوار نہیں ہیں بلکہ خصوصی عبادت کے اوقات ہیں، جیسے دیگر عبادات میں وقت یا وحدتِ تاریخ شرعاً ضروری نہیں تو یہاں بھی یہی حکم ہوگا ( کما فی معارف السنن س ۳۴۰ ج ۵)۔
اس کے بعد حضرت علامہ ڈاکٹر شامزئی صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں: اس میں شبہ نہیں کہ اختلافِ مطالع کے معتبر ہونے نہ ہونے میں ائمہ مجتہدین کا اختلاف ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ کے ہاں معتبر ہے اور امام ابوحنیفہؒ، امام مالکؒ اور امام احمد بن حنبلؒ کے یہاں معتبر نہیں ہے۔ یہ اختلاف اسی طرح شامی وغیرہ میں منقول ہے لیکن بلادِ بعیدہ میں اختلافِ مطالع کے معتبر ہونے پر ابن رشد نے اجماع نقل کیا ہے، جیسا کہ معارف السنن ص ۳۳۷ ج ۵ میں موجود ہے اور فقہاء احناف میں علامہ کاسانیؒ، صاحبِ بدائع اور علامہ زیلعیؒ شارح کنز کی رائے بھی یہی ہے۔ ملاحظہ ہو معارف السنن ص ۳۳۷ ج ۵ اور بدائع ص ۸۳ ج ۲۔ رد المحتار شرح درالمختار میں علامہ شامیؒ نے لکھا ہے کہ بعض فقہاء فرماتے ہیں کہ ایک مہینہ کی مسافت پر مطلع بدل جاتا ہے اور فقہاء کی تصریحات کے مطابق تین دن کا سفر ۲۸ میل بنتا ہے، جیسے کہ سفر کے مسائل میں فقہاء نے لکھا ہے تو اس حساب کے مطابق چار سو اسی میل کی مسافت پر مطلع تبدیل ہوگا۔ دوسرا قول یہ لکھا ہے کہ چوبیس فرسخ کے فاصلے پر مطلع بدل جاتا ہے (شامی کتاب الصوم ص ۳۹۳ ج ۲) اور معارف السنن میں لکھا ہے کہ ہر پانچ سو میل کی مسافت پر مطلع بدل جاتا ہے و حققوا وقوع الاختلاف فی المطلع بنحو خمسمأة ميل (ص ۳۴۰ ج ۵)
ان عبارات سے ثابت ہوا کہ ایک ہی ملک جو پانچ سو میل سے زائد مسافت پر واقع ہو اس میں مطلع مختلف ہوسکتا ہے۔
نوٹ: اپنے دور کے مفتی اعظم پاکستان کا فتویٰ یہ ہے کہ ہر پانچ سومیل کے بعد مطلع مختلف ہو سکتا ہے، تو پھر ہمیں کیا ہوا ہے کہ ہم پشاور اور کراچی کا مطلع ایک ہونے کی کوشش میں اپنی توانائی خرچ کریں۔
مسئلہ نمبر۲: جمِ غفیر (گواہوں کی بڑی تعداد) کی بحث
جمع کثیر کے بارے میں لکھتے ہیں:
ولم يقدر الجمع الكثير فى ظاهر الرواية بشیء عن ابی يوسف انه قدره بعدد القسامة خمسين رجلا و عن خلف بن ايوب خمس مائة ببلخ قلیل وقيل ينبغی ان يكون من كل مسجد جماعة واحد او اثنان وعن محمد انه يفوض مقدار القلة والكثرة الى رأى الامام كذا فی البدائع وفی فتح القدير و الحق ما روى عن محمد و ابی يوسف ايضا ان العبرة لتواتر الخبر و مجيئه من كل جانب۔
ترجمہ: جمع کثیر کے بارے میں ظاہر الروایۃ میں کوئی تقدیر یا مقرر تعداد نہیں ہے، صاحبین میں سے دونوں کی رائے الگ الگ ہے، امام ابویوسفؒ نے قسامۃ کے عدد کے مطابق ۵۰ آدمیوں کا اندازہ مقرر کیا ہے اور خلف بن ایوب کا کہنا ہے کہ بیچ میں ۵۰۰ آدمی کم ہیں وہ کہتے ہیں کہ مناسب یہ ہے کہ ہر ایک مسجد سے ایک یا دو آدمیوں کی جماعت ہو، امام محمدؒ کی رائے یہ ہے کہ قلت اور کثرت کی مقدار امامِ وقت کی رائے پر موقوف ہے، علامہ کمال الدین ابن ہمامؒ فتح القدیر میں لکھتے ہیں کہ حق وہ ہے جو امام محمدؒ سے مروی ہے اور اسی طرح امام ابو یوسفؒ کی رائے حق معلوم ہوتی ہے کہ خبر تو اتر اور ہر طرف سے خبر آنا معتبر ہے۔
اب اسی بارے میں علامہ ابن نجیمؒ فتاویٰ ظہیریہ کی عبارت نقل کر کے فیصلہ فرماتے ہیں۔ لکھتے ہیں کہ :
و فی الفتاوى الظهيرية وان كانت السماء مصحية لا تقبل شهادة الواحد فی ظاهر الرواية بل يشترط العدد واختلفوا فی تقديره وظاهره ان ظاهر الرواية لا يشترط الجمع العظيم وانما يشترط العدد وهو يصدق على اثنين فكان مرجح الرواية الحسن التی اخترناها آنفا (بحر ص ۱۹۶ ج۲)
چند سطر بعد لکھتے ہیں:
ثم اذا لم تقبل شهادة الوحد و احتيج الى زيادة العدد عن ابی حنيفة انه تقبل شهاد رجلين او رجل وامرأتين وعن ابی يوسف انه لاتقبل ما لم يشهد على ذالك جمع عظيم وذالك مقدر بعدد القسامة وعن خلف بن ایوب خمس مأة ببلخ قليل وعن ابى حفص الكبير انه شرط الوفا وعن محمد ما استكثره الحاكم فهو كثير وما استقله فهو قليل هذا اذا كان الذی شهد بذالك فى المصر اما اذا جاء من مكان اخر خارج المصر فانه تقبل شهادته اذا كان عدلا ثقة لانه يتيقن فى الرواية في الصحارى ما لم يتيقن فی الامصار لما فيها من كثرة الغبار وكذا اذا كان فی المصر فی موضع مرتفع وهلال الفطر اذا كانت السماء مضحية كهلال رمضان ۱ھ فهذا يدل على ترجيح رواية الحسن وان ظاهر الرواية اعتبار العدد لا الجمع الكثير لكن فرقه بين من كان بالمصر وخارجه وبين المكان المرتفع وغيره قول الطحاوى اما ظاهر الرواية فلا يقبل فيه خبر الواحد مطلقا کما فى غاية البيان و فتح القدير۔ (بحر ص ۲۶۹ ج ۲)
یعنی فتاویٰ ظہیریہ میں ہے کہ اگر مطلع صاف ہو تو ظاہر الروایۃ یہ ہے کہ ایک گواہ کی گواہی قبول نہیں کی جائے گی بلکہ متعدد گواہوں کی گواہی شرط ہے، اور گواہوں کی تعداد کے اندازے میں فقہاء کرام کا اختلاف ہے۔ فتاویٰ ظہیریہ کی بات انتہاء کو پہنچ گئی۔
اب علامہ ابن نجیمؒ لکھتے ہیں کہ فتاویٰ ظہیریہ سے ظاہر مستفاد یہ ہے کہ ظاہر الروایۃ یہ ہے کہ جمع عظیم شرط نہیں ہے بلکہ متعدد گواہ شرط ہیں اور عدد دو گواہوں پر بھی صادق آتی ہے، پس یہ قول حسن بن زیاد کے قول کی مرجح ہے جو ہم نے ابھی اختیار کیا۔
اور اس کے کچھ بعد فتاویٰ ولوالجیہ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں: پس جب ایک گواہ کی گواہی قبول نہیں اور متعدد گواہوں کی گواہی درکار ہے (تو اس میں ائمہ احناف کی رائیں مختلف ہیں)۔
امام اعظم ابوحنیفہؒ سے منقول یہ ہے کہ دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی قبول کی جائے گی۔
امام ابو یوسفؒ سے منقول یہ ہے کہ جب تک جمع عظیم گواہی نہ دے اور اس کے اندازے کا معیار قسامہ کی مقدار کے مطابق ہو گی (اس سے کم قبول نہیں کی جائے گی)۔
اور خلف بن ایوب سے منقول یہ ہے کہ بلخ میں (اور اس جیسے دوسرے شہروں میں) پانچ سو گواہ قلیل ہیں۔
اور ابو حفص کبیر نے تو ہزاروں گواہوں کی تعداد کو شرط قرار دیا ہے۔
امام محمدؒ سے منقول یہ ہے کہ قلیل اور کثیر کا معیار حاکمِ وقت کے حکم پر موقوف ہے، حاکمِ وقت جب حکم لگائے کہ یہ کثیر ہے تو یہ کثیر ہے اور جب وہ حکم لگائے کہ یہ قلیل ہے تو قلیل ہے۔ یہ حکم تب ہو گا جب جائے شہادت مصر ہو اور اگر کوئی گواہ خارج المصر سے دوسری جگہ سے آجائے پس جب گواہ ثقہ ہوتو اس کی گواہی قبول کی جائے گی کیونکہ صحراؤں میں رؤیت یقینی ہوتی ہے شہروں میں اتنی یقینی نہیں ہوتی اس لئے کہ شہر میں فضاء زیادہ گرد آلود ہوتی ہے اسی طرح اگر شہر ہی میں ہو لیکن گواہ اونچی جگہ پر ہو اور جب مطلع صاف ہو تو عیدالفطر کی چاند رمضان کی چاند جیسا ہے۔ فتاوی ولوالجیہ کی عبارت مکمل ہوئی۔
علامہ ابن نجیمؒ فرماتے ہیں کہ فتاویٰ ظہیریہ اور فتاوی ولوالجیہ کی بات حسن بن زیاد کی بات کو ترجیح دینے پر دلالت کرتی ہے اور ظاہر الروایۃ جمع کثیر کی نہیں بلکہ متعدد گواہوں کو معتبر قرار دیتی ہے لیکن فرق صرف مصر اور خارج مصر میں ہے اور اونچے مکان اور پست مکان میں ہے۔
علامہ ابن نجیمؒ نے جمِ غفیر اور جمعِ کثیر کا فیصلہ کر دیا اور مسئلہ حل کر دیا اور دو معتبر فتاویٰ کی تائید حاصل کرتے ہوئے حسن بن زیادؒ کے قول کہ — متعدد گواہ دو ہی ہیں — کو جمِ غفیر کا معیار قرار دے دیا۔ اور اس قول کا اعتبار کرتے ہوئے فرمایا کہ آج کل اس قول پر عمل کرنا مناسب ہے کیونکہ لوگ (عوام الناس اور اسی طرح خواص) چاند دیکھنے میں سست ہو گئے ہیں، نیز حضور صلى الله عليه وسلم کا ارشاد مبارک ہے کہ ’’يسروا ولا تعسروا بشروا ولا تنفروا‘‘ کہ دین میں (ممکن حد تک) لوگوں کیلئے آسانی پیدا کیا کرو اور تنگی سے اجتناب کرو اور لوگوں کو دین سے متنفر کرنے کے بجائے (دین و دنیا کی بھلائیوں اور دین پر عمل کرنے کی جزاؤں کا اور اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے صلہ کی) خوشخبریاں سنایا کرو۔ اور اسی طرح قرآن کریم کی ہدایات بھی یہی ہیں۔
ولا تنازعوا فتفشلوا وتذهب ريحكم واصبروا ان الله مع الصابرين۔ (پ ۵ سورة الانفال آیت نمبر ۴۵)
ترجمہ: آپس میں جھگڑا مت کرو پس تم پھسل جاؤ گے اور تمہاری ہوا نکل جائے گی (یعنی اسلامی دنیا میں تمھارا رعب اور وقار ختم ہو جائے گا جیسا کہ ماضی قریب میں ہمارے بہت سے دوستوں کا عوام میں حشر ہو گیا۔ اور اگر کوئی بضد ہو کر تم سے خواہ مخواہ جھگڑا کرنا چاہے تو تم جھگڑا کرنے کے بجائے) صبر کرو کہ بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
اللہ تعالی ہماری حفاظت فرما کر اپنی رضاء نصیب فرمائے، آمین، فقط والله اعلم۔
محض اللہ کی رضا کیلئے اپنی شرح صدر کے مطابق خیبرپختونخواہ میں عموماً اور لکی مروت میں خصوصاً انتشار اور خلفشار سے بچنے کی خاطر چند اوراق سیاہ کر دیے۔ امید ہے علماء کرام کا سنجیدہ طبقہ رسالہ ’’جرعۃ الزلال‘‘ پر سنجیدگی سے غور کر کے مسئلے کو خود سمجھیں گے اور دوسروں کو سمجھائیں گے اور عام مسلمانوں کو انتشار سے بچانے کی کوشش کریں گے اور انتشار کو ہوا دینے کی بجائے انتشار کی مدافعت کریں گے کیونکہ موجود وقت امت کی مزید انتشار کا متحمل نہیں اور بیرونی سازشوں کا متحمل نہیں افسوس خیبرپختونخواہ میں سالہا سالوں کا چلنے والا متفقہ مسئلہ کو اختلافات کا نذر کر دیا گیا۔ اللہ تعالی امتِ مسلمہ کو صراطِ مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرماویں، آمین، و اٰخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين۔
انتشار پھیلانے والوں کی خدمت میں علامہ اقبال کی وصیت:
اللہ سے کرے دور تو تعلیم بھی فتنہ
املاک بھی اولاد بھی جاگیر بھی فتنہ
ناحق کیلئے اٹھے تو شمشیر بھی فتنہ
شمشیر ہے کیا نعرہ تکبیر بھی فتنہ
مراد مانصیحت بود گفتیم
حوالت با خدا کردیم و رفتیم