ہم نے اپنے پیاروں، گھروں، روزگار، مساجد کو کھو دیا ہے، لیکن ہمارا ایمان پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط ہے۔
تباہ حال غزہ میں رمضان آ پہنچا ہے۔ جب باقی دنیا روزے اور دعا کے مہینے کا ’’تہوار‘‘ کے موڈ میں آغاز کر رہی ہے، وہیں ہم غم اور دکھ کے ساتھ ایسا کر رہے ہیں۔
جنگ کی بازگشت اب بھی زور سے سنائی دیتی ہے۔ اس بات کی کوئی یقین دہانی نہیں ہے کہ یہ جنگ بندی قائم رہے گی۔ لوگ اس بات سے پریشان ہیں کہ آگے کیا ہوگا۔ انہیں ڈر ہے کہ جنگ واپس آ سکتی ہے۔
گزشتہ سال جو کچھ ہم نے دیکھا اور تجربہ کیا اس کی یاد اور صدمہ ہمارے ذہنوں کو بوجھل بنائے ہوئے ہے۔ اور یہ ہمارے لیے جنگ کے دوران رمضان منانے کا پہلا موقع نہیں تھا۔ میں 2014ء میں صرف نو سال کی تھی لیکن مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ہماری رمضان کی راتیں فضائی حملوں اور تباہی سے بھری ہوتی تھیں اور اپنے محلے پر بمباری سے فرار ہوتے ہوئے ہمیں اندھیرے میں اپنے گھر سے بھاگنا پڑتا تھا۔
لیکن گزشتہ سال کا رمضان مختلف تھا کہ یہ ناقابلِ تصور حد تک بدتر تھا۔ ہر طرف بھوک تھی۔ ہم پورا دن روزہ رکھتے تھے اور چھ لوگوں کے درمیان بانٹے گئے حمص یا بینز کے ڈبے سے روزہ افطار کرتے تھے۔ بجلی نہ ہونے کی وجہ سے ہم تاریکی میں ڈبہ بند بے ذائقہ کھانا چباتے تھے۔ ہمیں میز کے دوسری طرف ایک دوسرے کے چہرے بمشکل نظر آتے تھے۔
ہم اپنے باقی خاندانوں سے دور تھے۔ میری دادی، خالائیں اور کزن جن کے ساتھ میں رمضان گزارتی تھی، وہ سب مختلف جگہوں پر بکھرے ہوئے تھے، کچھ خیموں میں بے گھر تھے اور کچھ شمال میں پھنسے ہوئے تھے۔ یوں یکجہتی کا مہینہ علیحدگی اور تنہائی کا مہینہ بن گیا تھا۔
رمضان اپنی خوشی کی روح سے محروم ہو گیا۔ ہم افطار سے پہلے مغرب کے وقت یا سحری سے پہلے فجر کے وقت اذان سننے کے لیے ترس گئے تھے لیکن وہ آوازیں کبھی نہیں آئیں۔ ہر مسجد تباہ ہو چکی تھی۔ ایسے لوگ تھے جو اذان دینا چاہتے تھے لیکن وہ ڈرے ہوئے تھے۔ یہ ڈر کہ ان کی آوازوں کی گونج فضائی حملے لائے گی اور انہیں نشانہ بنائے گی۔ قریب کی مسجد کے لاؤڈ اسپیکر پر مؤذن کی مانوس آواز پر روزہ افطار کرنے کے بجائے ہم میزائلوں اور گولیوں کی خوفناک بازگشت پر روزہ افطار کرتے تھے۔
جنگ سے پہلے میں اپنے خاندان کے ساتھ افطار کے بعد مسجد جاتی تھی تاکہ نماز ادا کر سکوں اور اپنے پیاروں سے مل سکوں۔ اس کے بعد ہم غزہ کی گلیوں میں گھومتے، رمضان کے پرجوش ماحول سے لطف اندوز ہوتے اور پھر گھر واپس آکر تازہ بنائے گئے قطائف کھاتے۔ لیکن پچھلے سال نسل کشی کے درمیان ہمارے پاس تراویح پڑھنے کے لیے جانے کی کوئی جگہ نہیں تھی۔
یہاں تک کہ عظیم عمری مسجد، غزہ کی سب سے خوبصورت اور تاریخی مساجد میں سے ایک، جہاں میرے والد اور بھائی رمضان کی آخری 10 راتیں گزارتے تھے، خوبصورت ترین آوازوں میں قرآن کی تلاوت سنتے تھے، وہ بھی غائب ہو چکی تھی، بمباری سے کھنڈرات میں تبدیل ہو گئی تھی اور ناقابل شناخت حد تک ٹوٹ چکی تھی۔ وہ جگہ جو کبھی دعاؤں اور امن سے گونجتی تھی، مٹی اور ملبے میں بدل گئی۔
اِس سال کا رمضان جنگ بندی کے دوران شروع ہو رہا ہے۔ جب ہم روزہ افطار کرتے ہیں تو فضائی حملے زمین کو نہیں ہلا رہے ہیں۔ فجر کی خاموشی میں کوئی دھماکے نہیں گونج رہے ہیں۔ اپنے گھروں کو سجانے، رنگ برنگی لائٹس لٹکانے کا خوف نہیں جو ہمیں نشانہ بنا سکتی ہیں۔ درد اور تباہی کے درمیان زندگی، جو اتنے عرصے سے رکی ہوئی تھی، غزہ کی گلیوں میں واپس آنے کی کوشش کر رہی ہے۔ جو دکانیں اور بازار تباہ نہیں ہوئے وہ دوبارہ کھل گئے ہیں اور گلیوں کے دکاندار واپس آ گئے ہیں۔
یہاں تک کہ نصیرات کا بڑا سپر مارکیٹ، ہائپر مال، ایک بار پھر اپنے دروازے کھول چکا ہے۔ رمضان سے پہلے میرے والد مجھے اور میری بہن کو وہاں لے گئے۔ روشنیوں والے مال میں قدم رکھتے ہوئے ہم اپنی خوشی پر قابو نہ رکھ سکے۔ ایک لمحے کے لیے ایسا لگا جیسے ہم وقت میں پیچھے چلے گئے ہوں۔ شیلف دوبارہ بھر گئے تھے، ان تمام چیزوں سے جن کی ہمیں خواہش تھی۔ مختلف قسم کے چاکلیٹ، بسکٹ اور چپس۔ رمضان کی سجاوٹ، ہر شکل اور سائز کے لالٹین، کھجور کے ڈبے، رنگ برنگے خشک میوہ جات تھے اور ہم تھے۔
لیکن یہ فراوانی فریب ہے۔ شیلفوں کو بھرنے والی زیادہ تر چیزیں تجارتی ٹرکوں پر آتی ہیں جو انسانی ہمدردی کی امداد کے طور پر غزہ میں داخل ہونے والے ٹرکوں کا ایک بڑا حصہ ہیں۔ نیز یہ مصنوعات ان بیشتر لوگوں کے لیے ناقابل خرید ہو گئی ہیں جنھوں نے اپنی روزی روٹی اور گھر کھو دیے ہیں۔
تو اس سال زیادہ تر خاندان کس چیز سے روزہ افطار کریں گے؟ یہ ڈبہ بند خوراک سے تھوڑا زیادہ ہوگا: چاول یا ملوخیا کا سادہ کھانا، یا جو بھی سبزیاں وہ خرید سکیں۔
پہلی افطاری کے لیے میرے خاندان میں مسخن کا ارادہ ہے، ایک فلسطینی ڈش جو مرغی، ساج روٹی اور بہت سے پیاز سے بنتی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ہم خوش قسمت لوگوں میں سے ہیں۔ غزہ میں اکثریت ان تازہ مرغیوں کو نہیں خرید سکتے جو جنگ سے پہلے کی قیمت سے دوگنی قیمت پر بازاروں میں دوبارہ مل رہی ہیں۔
لیکن غزہ میں رمضان کے دسترخوانوں سے صرف ایک بھرپور روایتی افطار ہی غائب نہیں ہوگا۔ جنگ کے دوران 48,000 سے زیادہ لوگ مارے جا چکے ہیں۔ پورے خاندان سول رجسٹری سے مٹا دیے گئے ہیں جو اس سال رمضان نہیں منائیں گے۔ بہت سے افطار کے دسترخوانوں پر ایک خالی نشست ہو گی، ایک باپ کی آواز جو اپنے بچوں کو دسترخوان پر بلاتی تھی، وہ اب کبھی نہیں سنی جائے گی۔ ایک بیٹا جس کی روزہ کھولنے کی بے صبری اب کبھی نہیں دیکھی جائے گی۔ یا ایک ماں جس کے ماہر ہاتھ اب کبھی مزیدار کھانا نہیں بنائیں گے۔
میں نے بھی اپنے پیارے کھوئے ہیں۔ میری خالہ کے شوہر جو ہر سال ہمیں افطار کے لیے مدعو کرتے تھے، انہیں بے دردی سے شہید کر دیا گیا۔ میری دوست شائما، لینا اور رووا جن سے میں تراویح کی نماز کے بعد مسجد میں ملتی تھی، وہ سب شہید ہو گئیں۔
تہوار کی روح غائب ہو گئی ہے لیکن رمضان کا جوہر یہاں ہے۔ یہ مہینہ عام زندگی کی پریشانیوں اور خدشات سے دور ہونے اور اپنے ایمان سے دوبارہ جڑنے کا موقع ہے۔ یہ معافی کا وقت ہے۔ یہ خدا سے قربت اور روحانی پختگی حاصل کرنے کا وقت ہے۔
ہماری مساجد تباہ ہو چکی ہیں لیکن ہمارا ایمان نہیں ٹوٹا ہے۔ ہم اب بھی آدھے تباہ شدہ گھروں اور خیموں میں تراویح پڑھیں گے، اپنی تمام خواہشات کی دعاؤں میں سرگوشی کریں گے اور قرآن کی تلاوت میں سکون حاصل کریں گے، یہ جانتے ہوئے کہ اللہ ہمارے تمام مصائب کا بدلہ دے گا۔