حضرت علامہ ظہیر احسن شوق نیموی (۱)

تمہید

علامہ شوق نیموی عالم اسلام کے معروف عالم دین ہیں، ان کی کتاب آثار السنن فقہ حنفی کا مستند مرجع ہے، وہ عظیم آباد کے دبستان علم و ادب کے باکمال اور قابل فخر فرزند اور ہندوستان کے سرمایۂ ناز محقق ہیں۔ ایک زمانہ تک ان کی شخصیت پر گمنامی کا پردہ پڑا رہا، اگرچہ اس دوران ان پر ایک اہم کام سامنے آیا لیکن اس کے علاوہ ان کے علمی کاموں کی طرف وہ توجہ نہ ہو سکی جس کے وہ مستحق ہیں، لیکن اب ان کے علمی و ادبی دونوں پہلوؤں پر اہل علم متوجہ ہوئے ہیں، ایک طرف پٹنہ میں ان کی ادبی خدمات پر کئی کاوشیں منظر عام پر آئی ہیں، وہیں ملکی ہی نہیں بین الاقوامی سطح پر بھی ان کی طرف توجہ ہوئی ہے، ان کی کتاب آثار السنن عالم عربی میں اہتمام سے شائع ہوئی ہے، پاکستان میں اس کی کئی شرحیں لکھی گئیں، ایران میں اس کا فارسی ترجمہ ہوا۔ ان کے تمام رسائل کا مجموعہ بھی پاکستان سے شائع ہوا ہے۔

مآخذ سوانح

علامہ شوق نے اپنی خود نوشت سوانح خود اپنے اہل وطن کے تذکرہ کے ضمن میں اپنی کتاب یادگارِ وطن  میں تفصیل سے لکھی ہے، لیکن اس سے بھی قبل ان کے ایک شاگرد جناب بشیر صاحب ساکن پکاکوٹ ضلع بلیا [یوپی، انڈیا] نے ان کے حالات پر تذکرۃ الشوق کے نام سے ایک مختصر رسالہ لکھا تھا جس میں ان کے ابتدائی حالات اور شاعری کا اجمالی تذکرہ ہے، اس کا ذکر خود حضرت شوق نے اپنے شاگردوں کا تذکرہ کرتے ہوئے جناب بشیر کے حال میں کیا ہے، ان کے نام پر حاشیہ میں لکھتے ہیں:

’’رسالہ تذکرۃ الشوق جو سرمۂ تحقیق کے ساتھ چھپا ہے انہیں کی تالیفات سے ہے‘‘۔1

یہ کتاب سرمۂ تحقیق کے حاشیہ پر شائع ہوئی ہے۔2 جس کا سرورق یہ ہے:

’’تذکرۃ الشوق موسوم بہ اسم تاریخی ظہیر المحاسن، ۱۳۰۵ھ، رقم زدہ کلک فصاحت سلک جناب منشی محمد بشیر صاحب ساکن پکا کوٹ ضلع بلیا‘‘۔

کتاب کا آغاز ان الفاظ میں ہوتا ہے:

’’بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ و نصلی علی رسولہ … حقیر فقیر محمد بشیر پکا کوٹی شاگرد فاضل جلیل عالم نبیل، شاعر نازک خیال، محقق بے مثال، لوذعی والمعی جناب مولانا ظہیر احسن صاحب شوق نیموی دامت برکاتہم جناب ممدوح کا کچھ حال قلمبند کرتا ہے، کہ لوگوں کو بخوبی آپ کے حالات سے اطلاع ہو جائے، اور آئندہ تذکرہ لکھنے والوں کو آسانی ہو … آپ کے پدر بزرگوار جناب شیخ سبحان علی صاحب ادخلہ اللہ فرادیس الجنان وافاض علیہ شآبیب الرحمۃ والغفران نیمی پرگنہ غیاث پور متعلقہ تھانہ فتوحہ ضلع عظیم آباد کے رہنے والے صدیقی النسب وسنی المذہب تھے، ۱۲۹۱ھ ہجری ۲۶ ماہ ذی الحجہ روز پنچ شنبہ قریب غروب آفتاب اس جہان فانی سے رحلت فرما ہوئے‘‘۔

اس کے بعد حضرت شوق کی ولادت اور تعلیم کا ذکر ہے، اور تقریباً وہی باتیں ہیں جو خود حضرت شوق نے اپنی خود نوشت میں لکھی ہیں، اور ان کی تصانیف پر جو تقریظات لکھی ہیں ان سب کا تذکرہ ہے، اور اخیر میں ان کے چند اشعار اور ان کی مختصر تشریح ہے، یہ چند ورقی رسالہ آج کل کے مضمون کی طرح ہے۔

اس کے بعد حضرت شوق نے خود اپنے مفصل حالات لکھے جو ان کی کتاب یادگار وطن میں شامل ہے۔ اور الفبائی ترتیب کے مطابق لفظ ظ کے ذیل میں ہے۔ بعد میں ان کے فرزند مولانا عبد الرشید فوقانی نیموی نے مختلف رسائل و مجلات میں ان پر مضمون لکھا، اور تذکار الشوق اور القول الحسن فی الرد علی ابکار المنن میں بھی ان کے حالات لکھے، تذکار الشوق3 میں ان کے حالات میں لکھا ہے کہ یہ بشیر صاحب کی کتاب پر استدراک ہے، بعد میں اسی کو انہوں نے مولانا عبدالرحمٰن مبارک پوری کی تنقیدی کتاب ابکار المنن فی تنقید آثار السنن کے جواب میں لکھی ہوئی اپنی کتاب القول الحسن فی الرد علی ابکار المنن کے اخیر میں شائع کر دیا۔ اس کتاب کا قلمی نسخہ کتب خدا بخش میں خود مصنف کی تحریر میں موجود ہے، جو شاید مسودہ کتاب ہے، دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ کچھ مباحث تو القول الحسن کے اخیر میں شائع ہوئے تھے لیکن مزید مباحث اس میں رہ گئے تھے۔ میرے خیال میں یہ کتاب الگ سے شائع نہیں ہوئی ہے، البتہ اس کا خلاصہ مختلف اخبار و رسائل ہفتہ وار نقیب، پھلواری شریف اور پندرہ روزہ ہماری آواز، علی گڑھ میں شائع ہو چکا ہے۔ علامہ نیموی کے سوانح نگار مولانا ڈاکٹر عتیق الرحمٰن عظیم آبادی (ت ۲۲ جمادی الاولی ۱۴۴۶ھ) نے اپنی سوانح میں جابجا اسی مضمون کا حوالہ دیا ہے۔

یہ مذکورہ بالا کتابیں ان کی سوانح کے اصل مآخذ ہیں، کچھ جزوی اطلاعات عظیم آباد کے دیگر تذکروں میں بھی ملتی ہیں، جن سے ہم نے فائدہ اٹھایا ہے، ان کتابوں کو پیش نظر رکھ کر مولانا ڈاکٹر عتیق الرحمٰن نے اپنی کتاب علامہ شوق نیموی حیات و خدمات لکھی، اور لوگوں نے دیگر کتابوں میں ان کے حالات پیش کئے۔

وطن و خاندان

مضافات عظیم آباد کا ایک قریہ نیمی (ضلع پٹنہ تحصیل دنیاواں) حضرت شوق کا آبائی وطن ہے، ان کا تعلق یہاں کے صدیقی النسب خانوادہ سے تھا، جس کی تفصیل اور شجرۂ نسب ان کی سوانح میں موجود ہے۔4

حضرت نیموی نے اپنے صدیقی النسب ہونے کی ایک شہادت بھی اپنے سفرنامۂ بنگال میں ذکر کی ہے، لکھتے ہیں: 

’’یہ بات مشہور چلی آتی ہے کہ شیوخ صدیقی بعد غاری کے خاندان میں چند پشت کے بعد کسی شخص کے دہنے پاؤں کے انگوٹھے میں سیاہ تل ضرور ہوتا ہے، اور اس سانپ کے کاٹنے کا داغ نمایاں ہو جاتا ہے، راقم الحروف بھی اسی خاندان سے ہے، حسنِ اتفاق سے فقیر کے داہنے پاؤں کے انگوٹھے میں ایک سیاہ تل داغ نما موجود ہے، مگر چوں کہ یہ کوئی کتابی بات نہیں لہٰذا یہ امر چنداں قابل اعتبار ولائق وثوق نہیں، اس کے علاوہ یہ بھی ممکن ہے کہ کسی دوسرے خاندان والے کے انگوٹھے میں بھی حسنِ اتفاق سے تل کا وجود ہو‘‘۔5

انہیں کے ہم نسب (و غالباً ہم جد بھی) مشہور محدث علامہ شمس الحق عظیم آبادی بھی علامہ نیموی کے قریب الوطن ہیں، اور دونوں ایک ہی وقت میں اپنے اپنے وطن میں اہل حدیث اور حنفی نقطۂ نظر کے مطابق علمِ حدیث کی خدمت میں مشغول تھے۔ حضرت شوق مسلک اہلِ حدیث کے سلسلہ میں سختی و شدت کے باوجود علامہ شمس الحق عظیم آبادی سے احترام و محبت کا تعلق رکھتے تھے، ایک جگہ انہوں نے یادگار وطن میں برادری کی بستیوں کا تفصیل سے ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے:

’’ڈیانواں، جو نیمی سے دکھن مائل بغرب تین کوس کے فاصلے پر ہے، یہاں جناب مولوی گوہر علی مرحوم ایک نامی رئیس گذرے ہیں، جن کی جود و سخاوت کا ڈنکا بجتا ہے، اھل الخیرات (۱۲۷۸ھ) تاریخ وفات ہے، ان کے صاحبزادے جناب مولوی محمد احسن مرحوم بھی اپنے پدر بزرگوار کے ہم قدم تھے، ان کے نواسے جناب مولوی شمس الحق صاحب بھی اسی بستی میں رہتے ہیں، جن کی تالیفات سے دینیات میں بعض رسائل چھپ کر شائع ہوچکے ہیں، حال میں ان کی التعلیق المغنی علی الدارقطنی بھی چھپی ہے، آج کل ابوداود کی شرح غایت المقصود نام لکھ رہے ہیں‘‘۔6

حضرت شوق کے والدین کا ذکر خود ان کی تحریر میں ملتا ہے، ان کے شاگرد منشی بشیر نے بھی ان کا ذکر کیا ہے جو اوپر گذر چکا ہے، نیز اپنے حالات کے آغاز میں بھی اپنے والد کا ذکر کیا ہے، اور حروف تہجی کی ترتیب کے مطابق حرف سین کے ذیل میں بھی ان کے حالات لکھے ہیں، جو حسبِ ذیل ہیں۔

’’حضرت والدی جناب شیخ سبحان علی صدیقی مرحوم
۱۲۲۱ھ میں نیمی میں پیدا ہوئے، صاف ضمیر تاریخ ولادت ہے، جب جوان ہوئے، جناب مولانا مولوی محمد فصیح غازی پوری مرحوم کے ہاتھ پر بیعت کی، کتابوں سے اس قدر شوق تھا کہ کچھ تو خود لکھیں اور اکثر دوسرے سے لکھوائیں، شاہنامہ فردوسی جلد سوم، دیوان حافظ، قصہ حاتم طائی اردو، دیوان جوشش وغیرہ کتابیں ان کے ہاتھ کی لکھی ہوئیں [کذا] اب تک میرے کتب خانہ میں یادگار ہیں۔ جناب مولانا مولوی محمد ابراہیم نگرنہسوی مرحوم سے ان کو نہایت ہی ربط و اتحاد تھا، جناب مولانا موصوف دل سے ان کو مانتے تھے، اور نہایت قدر کے ساتھ پیش آتے تھے، چونکہ اکثر علماء کی صحبت بابرکت اٹھائی تھی، علم و فضل کی فضیلت اس قدر دل پر نقش تھی کہ ہمیشہ ان کی یہی آرزو رہی کہ میرے فرزندوں میں سے کوئی عالم ہوتا، جناب مرحوم کے دو محل تھے، محل اول سے اخی مولوی حکیم محمد نذیر احسن صاحب اور منشی ظہور احسن صاحب اور دوسرے محل سے دو لڑکیاں اور میں اور میرے چھوٹے بھائی محمد فرید حسن پیدا ہوئے، جناب والد مرحوم نے اپنے بڑے بیٹے جناب مولوی محمد نذیر احسن صاحب کی تعلیم میں بہت کوشش کی، قریب فضیلت کے پہنچ چکے تھے کہ بھائی صاحب دنیا کے بکھیڑوں میں پھنس گئے، پھر جناب مرحوم نے میری تعلیم میں کوشش کی، اللہ کی عنایت سے بہت جلد فارسی کی ضروری کتابیں پڑھ کے عربی پڑھنے لگا، میرے انداز کو دیکھ کر ہونہار سمجھ کے نہایت خوش ہوئے، ۱۲۹۶ھ میں یکایک مرض لقوہ میں مبتلا ہوئے، لاکھ علاج کیا گیا کچھ سود مند نہ ہوا، دو ایک روز بیمار رہے، آخر ذی الحجہ کی چھبیسویں تاریخ پنج شنبہ کے دن قبل مغرب رحلت فرمائی، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اور شب جمعہ کو ملک الاولیا حضرت بخش شہید رحمۃ اللہ علیہ کے مزار کی بغل میں پچھم جانب میری والدہ مرحومہ کی قبر کے سرھانے مدفون کئے گئے۔ جناب مرحوم پچھتر (۷۵) برس اس عالم فانی میں رہے، غسل کے وقت روشن چہرہ، ہنستی پیشانی نظر آتے تھے، بعد وفات جناب مرحوم طرح طرح کے الجھاؤ ہوئے جو مانع تحصیل علوم تھے، مگر میں ان کی دلی آرزو کو خیال کر کے ہمہ تن تکمیل علوم میں مشغول رہا ۔جب اللہ تعالی جل شانہ کی عنایات سے ۱۳۰۴ھ میں کل علوم عربیہ درسیہ سے فارغ التحصیل ہو کر میں لکھنؤ سے مع الخیر نیمی پہنچا تو اسی ہفتے میں جناب مرحوم کو خواب میں دیکھا کہ نہایت سفید کپڑے پہنے ہوئے حج کر کے تشریف لاتے ہیں، اور بے شمار کتابیں ان کے ساتھ ہیں، جب میں ملا تو ارشاد فرمایا کہ یہ کتابیں عرب سے تمہارے لئے لایا ہوں، اور ایک تفسیر عربی میرے ہاتھ میں دی جس کو میں پڑھنے لگا، اتنے میں آنکھیں کھل گئیں، اس خواب سے دل نہایت خوش ہوا کیوں کہ سفید کپڑے پہنے موتیٰ کا خواب میں نظر آنا، اس کے بہشتی ہونے کی علامت ہے‘‘۔7

تفسیر کی کتاب دینے کی تعبیر علامہ نیموی یہ کرتے ہیں کہ 

’’والد مرحوم نے جو خواب میں تفسیر عنایت فرمائی اس کی تعبیر بھی ظاہر ہو گئی کہ ایک مدت سے مؤلف علاوہ اور علوم کے طلبہ کو روزانہ تفسیر کا بھی ایک سبق پڑھاتا ہے، اور جمعہ و وعظ کے خیال سے مختلف تفسیریں دیکھنے کا اتفاق ہوتا ہے، بیشک وہ خواب رویائے صالحہ سے تھا‘‘۔8

آگے انہوں نے والدین کے نام حسن سلوک اور والدہ کے خواب میں دیکھنے کا ذکر کیا ہے، لکھتے ہیں:

’’جب جناب والد مرحوم نے انتقال فرمایا ہے، بفحوائے حدیث ولد صالح یدعو لہ راقم الحروف اکثر اوقات بعد نماز اپنے آباواجداد کے واسطے خصوصاً جناب مرحوم کے لئے دعائے مغفرت کیا کرتا ہے، اور کبھی کبھی ان کے لئے صدقات و خیرات بھی دیا کرتا ہے۔ مجھ کو ایک دفعہ عجب تشویش ہوئی کہ والد مرحوم کو تو کبھی کبھی خواب میں دیکھتا ہوں مگر والدہ مرحومہ کی زیارت سے کبھی خواب میں مشرف نہ ہوا، چنانچہ ۲۷ جمادی الآخرہ روز پنچ شنبہ کو ۱۳۰۶ھ میں نہایت خلوص سے کچھ زر نقد فقرا کو دیا، اور اس کا ثواب جناب مرحومہ کو بخشا اور بارگاہ الہی میں زیارت کے لئے دعا کی، اس کی شان کریمی کے صدقے کہ اس کے دوسرے روز قبل نماز جمعہ عالم رویا میں جناب مرحومہ کو اہل جنت کی عمر میں سونے کے زیورات اور نہایت عمدہ کپڑے پہنے ہوئے رونق افروز پایا، بعد بیداری شکر خدا بجا لایا، اور نہایت ہی خوش ہوا، فالحمد للہ علی ذلک‘‘۔9

آگے پھر والد کے متعلق فرماتے ہیں:

’’بہر کیف حضرت والد مرحوم گندمی رنگ، چھریرا بدن، کچھ دراز قد تھے، ماتھے پر سجدے کا داغ چمکتا تھا‘‘۔10

اپنے ذکر میں بھی والد اور والدہ کا ذکر ان الفاظ میں کرتے ہیں:

’’خدا بخشے میرے والد ماجد کا نام شیخ سبحان علی تھا، وہ مرحوم جناب شیخ دھومن مغفور بن شیخ فتح علی بن شیخ محمد وزیر بن شیخ محمد ولی بن شیخ غلام بدر بن شیخ عبد الہادی زاہدی مرحوم ومغفور صدیقی غفر اللہ لہم کے بیٹے تھے۔ اور میری والدہ مرحومہ کا نام، خدا بخشے، بی بی مصرن تھا، اور ان کے پدر بزرگوار کا نام شیخ روشن علی تھا، وہ موضع بایزید پور علاقہ باڑھ کے رہنے والے تھے، جناب شیخ حسن علی ابن شیخ جعفر علی مرحوم کے بیٹے تھے‘‘۔11

الغرض حضرت نیموی نے ایسے گھرانہ میں نشوونما پائی جو آسودہ حال اور فارغ البال ہونے کے ساتھ علم و تعلیم سے بخوبی آشنا تھا، اور مذہبی قدروں کا حامل تھا، حضرت نیموی نے اپنے دادا شیخ دھومن علی کا بھی ذکر کیا ہے لیکن ان کے بارے میں کوئی ایسا جملہ نہیں لکھا ہے جس سے ان کی علمی لیاقت کا علم ہو، البتہ اپنے والد اور تین چچا کی علمی حیثیت پر کسی قدر روشنی ڈالی ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا ماحول علم آشنا تھا، یہ الگ بات ہے کہ خاندان میں عربی تعلیم جو اس وقت اعلیٰ تعلیم تھی اس کا سراغ نہیں ملتا، فارسی کی تعلیم جسے دور حاضر کے گریجویشن کے مساوی تسلیم کیا جا سکتا ہے ان کے گھر میں پوری طرح موجود تھی۔ ان کی درج کردہ تفصیلات سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے والد خود بھی فارسی اور اردو شعر وادب کا ذوق رکھتے تھے، اور علماء سے بھی تعلق تھا۔

نام

علامہ شوق نیموی کا اصل نام ظہیر احسن ہے، اسی وزن پر ان کے بھائی کا نام نذیر احسن ہے، اور شوق تخلص ہے، اور وہ اپنے نام کے بجائے عام دنیا میں تخلص ہی سے مشہور ہوئے۔ انہوں نے جب آثار السنن لکھی تو اپنے ہندوستان نام کے بجائے عربی نام لکھا ہے یعنی محمد ظہیر احسن سے صرف محمد اور والد کے نام سبحان علی سے صرف علی اخذ کر کے عربوں کے ذوق کے مطابق محمد بن علی النیموی لکھا، جس سے کچھ لوگوں سمجھ نہیں پاتے اور نام کے اختلاف کی وجہ سے دو الگ الگ شخصیت سمجھتے ہیں، یہی طریقہ ان کے معاصر اور استاد بھائی شیخ محسن بن یحییٰ ترہٹی مصنف الیانع الجنی نے بھی اختیار کیا، جن کا اصل نام محمد محسن بن غلام یحییٰ تھا، لیکن انہوں نے اپنی کتاب میں اپنا نام محمد المدعو بمحسن بن یحیٰی لکھا۔ حضرت نیموی نے جابجا اپنے نام کے ساتھ اپنی کنیت ابوالخیر بھی لکھی ہے، گرچہ ان کی اولادوں میں خیر کسی کا نام نہیں تھا۔

ولادت

حضرت شوق کے شاگرد منشی بشیر کے بقول:

’’مولانا شوق ۱۲۷۸ہجری میں ماہ جمادی الاولیٰ کی چوتھی تاریخ بدھ کے دن بوقت چاشت پیدا ہوئے، ظہیر الاسلام مادہ تاریخ ہے‘‘۔12

یہ ان کی ابتدائی سوانح عمری کے الفاظ ہیں جو ان کی خو نوشت سے پہلے لکھی گئی ہے، بعد میں انہوں نے جب اپنی خود نوشت لکھی تو اس میں تفصیل سے اس کا ذکر ان الفاظ میں کیا:

’’راقم الحروف ۱۲۷۸ھ میں جمادی الاولیٰ کی چوتھی تاریخ بدھ کے روز کچھ دن چڑھے صالح پور میں اپنی خالہ کے گھر پیدا ہوا، محمد ظہیر احسن نام رکھا گیا، ابوالخیر کنیت اور ظہیر الاسلام مادہ تاریخ ہے‘‘۔13

تعلیم

حضرت شوق نے لکھا ہے کہ 

’’جب میں پانچ چھ برس کا ہوا تو بسم اللہ ہوئی، اور مکتب میں بیٹھا، فارسی کی دو چار کتابیں پڑھ کے عربی بھی شروع کی، مختلف حضرات سے تعلیم ہوئی‘‘۔14

یہ مختلف حضرات کون تھے اس کا ذکر کہیں نہیں ملتا، نہ ان کے سوانح نگار کے یہاں نہ ان کے فرزند کی تحریر میں ملتا ہے، اس وقت ان کے وطن میں ایسے علماء کا سراغ تو نہیں ملتا البتہ ان کے قرب و جوار کی بستیوں میں کئی بستیاں اہلِ علم سے آباد تھیں، جن میں مشہور بستی نگرنہسہ کا نام سب سے نمایاں ہے، ممکن ہے انہوں نے وہیں تعلیم حاصل کی ہو، علامہ شمس الحق عظیم آبادی نے بھی وہاں تعلیم حاصل کی تھی۔

گلستان کی تعلیم کے وقت سے ہی وہ اشعار موزوں کرنے لگے تھے، اور بیت بازی میں شریک ہوتے تھے، جس سے اس دور کے شعری و ادبی ذوق و رجحان کا اندازہ ہوتا ہے۔ ان کے بقول: 

’’جب عربی کی پانچ چھ کتابیں نکل گئیں تو شوقِ دل نے ابھارا کہ دیہات میں کب تک رہو گے، ذرا قدم باہر نکالو، اور شہر کی ہوا کھاؤ، پھر دیکھو تم کو تمہاری محنت کہاں سے کہاں پہنچاتی ہے، پہلے میں عظیم آباد پہنچا، اور استاد الفضلاء حضرت شمس العلما جناب مولانا محمد سعید حسرت نور اللہ مرقدہ کی خدمت میں حاضر ہوا، بعض کتابیں ان سے اور بعض اور حضرات سے پڑھیں‘‘۔15

بعض اور حضرات کون تھے، صاحب سوانح نے ان کا نام نہیں لیا ہے، ممکن ہے اس دور کے مشہور مدرس ملا کمال عظیم آبادی بھی اس میں شامل ہوں لیکن جب تک صراحت نہ ملے کوئی قطعی بات کہنا ناممکن ہے۔ 

البتہ علامہ سعید حسرت عظیم آبادی کے بارے میں کئی پہلو قابلِ ذکر ہیں، وہ خود ایک باکمال استاد تھے، علومِ اسلامیہ اور نقد و ادب و شعر سب میں کامل دستگاہ رکھتے تھے، عظیم آباد کی علمی رونق ایک مدت تک ان کے دم سے قائم اور یہاں کی گلیاں ایک عرصہ تک ان کے ہنگامہائے تدریس سے پرشور رہیں، تشنگانِ علم کھنچ کھنچ کر ان کی خدمت میں آتے اور ان سے سیراب ہوتے رہے، وہ جامع الفنون ہونے کے ساتھ ساتھ ایک باکمال مدرس، کامیاب استاد اور مردم ساز شخصیت کے مالک تھے، انہوں نے تصنیف کتب سے زیادہ تصنیف رجال پر توجہ دی ہزاروں نوجوانوں نے ان سے فیض پایا، اور دسیوں باکمال ان کی درس گاہ سے اٹھے۔ 

علامہ شوق نیموی نے اگرچہ ان کے بارے میں بہت زیادہ نہیں لکھا ہے، صرف ان کی حوصلہ افزائی کا ایک مکتوب نقل کیا ہے جس سے ان کی علمی قدردانی اور اپنے تلامذہ کی حوصلہ افزائی کا اندازہ ہوتا ہے، لیکن بہ ظاہر ایسا لگتا ہے کہ حضرت شوق نیموی نے متوسطات تک کے علوم انہیں سے پڑھے ہوں گے اور اس کمال پختگی سے کہ اس کے بعد اونچی کتابوں کا سرسری مطالعہ یا کسی بڑے استاد کے سامنے ایک بار پڑھ لینا بھی کافی ہوتا ہے۔ اس صوبہ کے ایک دوسرے نامور محدث شیخ محسن بن یحییٰ خضر چکی ترہٹی مونگیری بھی انہیں کے شاگرد ہیں، افسوس کہ حضرت سعید عظیم آبادی کی شخصیت کے بہت سے پہلو ابھی تشنۂ تحقیق ہیں۔

لکھنؤ کے دوران قیام بھی وہ مولانا عظیم آبادی سے وابستہ رہے، ان کو ایک بار اپنی غزلیں اصلاح کے لیے بھیجیں جس پر انہوں نے بہت حوصلہ افزا خط لکھا، لکھتے ہیں:

’’اسی زمانہ [لکھنؤ کے دوران قیام] میں شمس العلماء جناب مولانا محمد سعید حسرت قدس سرہ کی خدمت بابرکت میں لکھنؤ سے یہ چند غزلیں میں نے بھیجیں، جن کی رسید میں حضرت مولانا عجب عزت افزائی فرمائی‘‘۔

اس کے بعد اپنی چار غزلیں نقل کر کے لکھتے ہیں:

’’حضرت مولانا قدس سرہ نے ان غزلوں کی رسید میں مجھ کو اس نامہ سے سرفراز فرمایا۔
یگانۂ زمن بلبل نغمہ سرائے شعر و سخن سلمہ اللہ ذو المنن 
پس از سلام مسنون ممنون الاسلام و ادعیہ و افیہ حصول مقصد و مرام واضح ضمیر محبت ارتسام باد کہ نامۂ محبت طراز و رقیمہ دل از غم پرواز با غزلہائے آبدار در نثار بتاریخ چہارم ربیع الآخر روز شنبہ گوی گریبان و رود گردیدہ را نور و سینہ را سرور بخشیدہ ذوقی کہ بدیدین کلام حلاوت انضمام آن عزیز نصیب این مستہام گردید خارج از شرح و بیان و بیرون از احاطہ تقریر قلم و زبان است۔ بندہ ہر چہ از کوچہ اشعار اردو نابلد ہستم، لیکن این قدر می توانم گفت کہ لطف زبان و ادا بندی و نازک خیالی و تلاش مضامین ہمہ درین اشعار فراہم آمدہ آفرین بر قاطع و قاد و ذہن نقاد آن صاحب استعداد خداداد باد کہ درین کم عمری چندین علوم و فنون حاصل کردند، و آن چہ در بارہ دیوان پریشان فقیر نوشتہ اند مقتضائے محبت ایشان است، بالجملہ تمنائے راقم ہمین است کہ آن دیوان از اول تا آخر از نظر آن عزیز بگزرد، و ای برجان سخن گر بہ سخن دان نہ رسد۔ و این خط از کمال شغف خاطر بآن عزیز بدست خود نوشتہ ام، فقط۔ 
اس وقت تک میری شاعری صرف غازی پور اور لکھنؤ تک ہی محدود تھی، اور تو اور، دو ایک کے سوا وطن کے حضرات بھی واقف نہ تھے کہ اس کو شعر و سخن کا بھی مشغلہ ہے‘‘۔16

علامہ نیموی کے بقول وہ عظیم آباد سے غازی پور چلے آئے، یہ پتہ نہیں چلتا کہ یہ اتفاق تھا یا کوئی اور وجہ تھی، بہرحال انہوں نے یہاں چند دن مولانا محمد رحمت اللہ فرنگی محلی کے یہاں قیام کیا، پھر غازی پور کے مشہور مدرس مولانا عبداللہ غازی پوری سے آغاز تحصیل کیا، یہیں ان کے ذوقِ شعر و ادب نے بال و پر نکالے، طبیعت تو موزوں تھی ہی، فرنگی محل لکھنؤ کے ایک نامور شاعر مدرسہ چشمہ رحمت غازی پور میں فارسی کے مدرس اول تھے، مولانا عبد الاحد شمشاد لکھنوی، ان سے شاعری میں اصلاح لینی شروع کی۔17

حضرت شوق نے عظیم آباد اور غازی پور میں تحصیل علم کی توقیت و تفصیل نہیں لکھی ہے، اور وہاں کن اساتذہ سے کیا پڑھنے کا موقع ملا اس کا بھی ذکر نہیں ہے، ہاں اپنے شعر و ادب کے استاد حضرت شمشاد لکھنوی بہت تفصیل سے ذکر کیا ہے، اور وہاں کی ادبی و شعری سرگرمیوں پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ انہوں نے یہ بھی لکھا ہے وہاں انہوں نے حضرت شمشاد سے فارسی نثر کی اعلیٰ درجہ کی کتابیں جو اس وقت رائج تھیں مکمل پڑھیں، ان کے بقول:

’’لطف یہ کہ حضرت شمشاد سے میں نے فارسی بھی شروع کر دی، سہ نثری ظہوری، قصائد عرفی، قصائد خاقانی، حدائق البلاغت ان سے پڑھنے کا اتفاق ہوا، غرض کہ عربی، فارسی کی تحصیل میں، نظم و نثر اردو کی مشق میں ہمہ تن مصروف ہوگیا، اکثر بارہ بجے رات تک اور کبھی دو ایک بجے تک کتابیں دیکھا کرتا، دماغ سوزی کیا کرتا، اللہ دے، بندہ لے، ادھر استاد کی شفقت ادھر اپنی محنت دن دونی رات چوگنی ترقی ہونے لگی‘‘۔18

اس کا صحیح علم تو نہیں ہوتا کہ وہ کتنے سال غازی پور میں رہے، لیکن وہاں شعر و ادب کی دنیا میں وہ شہرت حاصل کر چکے تھے، وہیں سے انہوں نے لکھنؤ کے مشاعروں میں شرکت کی، وہیں سے حضرت تسلیم لکھنوی کی شاگردی اختیار کی، اور اصلاح کے لئے ان کی خدمت میں اپنا کلام رامپور بھیجا جہاں وہ اس وقت نواب رامپور کے دربار سے وابستہ تھے، لیکن اصل حضرت شمشاد ہی کی رہی، یہاں تک کہ ان کا اعتماد ان کو حاصل ہوگیا، خود بھی مشاعرے میں شریک ہوئے اور خود مشاعروں کی مجلسیں بھی منعقد کیں، استاد کی جگہ پر طلبہ کو درس بھی دیا، انہوں نے وہاں کے قیام کا دورانیہ نہیں لکھا ہے لیکن بہ ظاہر وہ چار پانچ سال سے کم وہاں نہیں رہے، اس دوران انہوں نے اردو اور فارسی کے شعر و نثر میں کمال حاصل کر لیا، اور ادباء کے حلقہ سے انہیں سند قبولیت حاصل ہو گئی۔ وہ لکھتے ہیں:

’’فیض صحبت زیادہ تر مجھے حضرت شمشاد کی نصیب رہی، اور ان کی مجھ پر کچھ ایسی عنایت خاص تھی کہ بارہا خلعت نیابت سے سرفراز فرمایا، جب کبھی کہیں تشریف لے جاتے تو دوسرے طلبہ کی تعلیم میرے ہی سپرد کر جاتے، اور لوگوں کا حسن ظن کچھ ایسا میرے ساتھ بڑھا ہوا تھا کہ بارہا بعض تلامذۂ استاد نے اولا مجھ ہی کو دوستانہ کلام اپنا دکھایا، پھر حضرت استاد سے اصلاح لی‘‘۔19

ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے غازی پور میں فارسی و اردو کی تحصیل ہی میں زیادہ وقت صرف کیا، عربی کی متوسطات شاید مولانا سعید عظیم آبادی سے پڑھ چکے تھے، بہرحال وہ ۱۳۰۰ھ سے قبل گھر واپس آگئے، کیوں کہ اسی سال انہوں نے اپنی شادی کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے:

’’جب ۱۳۰۰ھ نے اپنا جلوہ دکھایا تو جناب خالو شیخ بشارت علی عرف شیخ بودھائی صاحب صالح پوری بن شیخ منگا مرحوم بن شیخ پیر علی مرحوم کی بڑی لڑکی سے جمادی الآخرہ کی بارہویں تاریخ شب جمعہ کو میری شادی ہوئی، جس کی تاریخ شمس العلماء جناب مولانا محمد سعید حسرت عظیم آبادی نور اللہ مرقدہ نے یوں ارشاد فرمائی: 
مشفقی مولوی ظہیر احسن کتخدا گشت چون بفضل خدا 
سال تاریخ شد بروے جمیل ازدواج ظہیر احسن ما‘‘۔20

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ استاد مولانا سعید عظیم آبادی کی ان پر اخیر وقت تک خاص عنایت رہی، اس سے میرے مذکورہ بالا تصریحات کی توثیق ہوتی ہے۔

اس وقت تک ان کی عمر تقریباً‌ بیس بائیس سال کی ہو گی جو علومِ متوسطہ کی تکمیل کا زمانہ ہوتا ہے، اس دور کے عام مذاق کے مطابق علمِ حدیث کی تحصیل سب سے اخیر میں کی جاتی تھی، اور ایک ڈیڑھ سال میں اس کی تکمیل پر سند فراغت حاصل ہو جاتی تھی۔ چنانچہ شادی کے بعد انہیں بھی اس کا خیال آیا، خود ان کے بقول:

’’شادی کے بعد یہ قصد ہوا کہ اب لکھنؤ چل کے تحصیل علم کیجئے، اور وہاں کی بہار لوٹیے، یہ قصد کر کے میں نیمی سے غازی پور پہنچا، اور دوچار روز رہ کے وہاں سے رخصت ہوا، احباب غازی پور گنگا کنارے تک پہنچانے آئے۔ برسات کا زمانہ تھا، … المختصر جوں توں وہاں سے بیڑا پار ہوا، اور ریل پر سوار ہوا، رمضان پور علاقہ بہار کے رہنے والے مولوی محمد ابراہیم صاحب ساتھ تھے، دونوں آدمی خدا خدا کر کے لکھنؤ پہنچے، شب بھر وہاں رہ کے اور کل اسباب ان کے سپرد کر کے میں پھر ریل گاڑی میں سوار ہوا، اور سنبھل، مراد آباد ہوتا ہوا رامپور پہنچا، اور حضرت استادی جناب تسلیم کی ملازمت سے مشرف ہوا، ہفتہ عشرہ وہاں رہ کے مراجعت کی، ایک زمانے سے جامع شریعت غرا مجمع طریقت بیضا، مخزن عرفان، معدن ایقان حضرت سیدنا مولانا فضل رحمن مدظلہ کی قدم بوسی کی تمنا تھی، سندیلہ میں ریل گاڑی سے اتر گیا، اور وہاں سے قصبہ گنج مراد آباد پہنچا، زیارت سے مشرف ہو کر حضرت اقدس کے دست مبارک پر بیعت کی، پھر وہاں سے میں لکھنؤ پہنچا، اور زبدۃ المحدثین عمدۃ المتفقہین حضرت مولانا ابوالحسنات محمد عبدالعلی فرنگی محلی نور اللہ مرقدہ کے حلقۂ تعلیم میں قراءۃ و سماعاً علومِ عربیہ کی تکمیل کرنے لگا‘‘۔21

ان کے شاگرد کے منشی بشیر کے بقول انہوں نے 

’’۱۳۰۱ھ میں عارف کامل جناب مولانا شاہ فضل الرحمن مدظلہم متوطن قصبہ مرادآباد من مضافات لکھنؤ کے ہاتھ پر بیعت کی‘‘۔22

گویا ۱۳۰۲ھ میں انہوں نے مولانا عبدالحی فرنگی محلی کی خدمت میں حاضری دی اور تحصیل کی، انہوں نے اس کی تفصیل نہیں لکھی ہے کہ کتنے سال ان کی خدمت میں رہے، انہوں نے وہاں طب کی بھی تحصیل کی، ایک شیعہ حکیم سید باقر حسین ساکن محلہ پاٹا نالہ سے طب پڑھی، اس کی سند کی اسانید کے مجموعہ میں موجود ہے۔

مولانا فرنگی محلی کے ذکر میں انہوں نے بہت اجمال سے کام لیا ہے، اس سے صحیح اندازہ نہیں ہوتا کہ ان کے علم و فکر سے وہ کس قدر متاثر ہوئے، اور کتنی مدت تک ان کی صحبت اٹھائی۔ اسی دوران مولانا عبدالحی فرنگی محلی نے ۱۳۰۴ھ میں اچانک عین عالمِ شباب میں وفات پائی، اس لئے بہت ممکن ہے کہ علامہ نیموی کو ان کے آخری دور کے افکار و آراء سے بھی مستفید ہونے کا موقع ملا ہو گا، جس کو انہوں نے آگے بڑھایا، لیکن اس کی تفصیل نہیں ملتی۔ ویسے اہلِ نظر کی رائے ہے کہ وہ فنِ حدیث میں اپنے استاد مولانا عبدالحی فرنگی محلی سے ممتاز ہیں، نیز علامہ فرنگی محلی نے بہت سی جگہ فقہ حنفی کے برعکس دوسری آراء قبول کر لی ہیں جب کہ علامہ شوق نیموی کے یہاں ایسا نہیں نظر آتا، وہ ہر حال میں فقہ حنفی کی عظمت ثابت کرتے ہیں، اس کی تفصیل اپنی جگہ آگے آئے گی۔

حضرت شوق لکھنؤ میں چار پانچ سال رہے، اس دوران وہاں کی ادبی فضا ان کے نغموں سے معمور رہی، اساطین فن اور استاد ان سخن نے ان کی خوب پذیرائی کی، ان کی تخلیقات کی دھوم مچ گئی، یہیں انہوں نے اپنی مشہور زمانہ مثنوی نغمۂ راز لکھی، جس کی پوری اردو دنیا میں دھوم مچ گئی۔ اسی دورانیہ میں ان کی تین معرکہ آرا لسانی و ادبی کتابیں منظرِ عام پر آئیں اور ملک میں ہاتھوں ہاتھ لی گئیں، جس نے پوری اردو دنیا میں جلد ہی ان کو متعارف کرایا اور شہرت کے بامِ عروج تک پہنچایا۔ اردو کے مشہور و معروف رسائل و اخبارات نے ان پر تقریظیں لکھیں، تبصرے کئے، اور دل کھول کر ان کی پذیرائی کی۔ ان کے تینوں لسانی رسائل، ازاحۃ الاغلاط، اصلاح، اور اس کے حواشی ایضاح اسی دور میں شائع ہوئے۔ ان کا یہی رسالہ ازاحۃ الاغلاط جلال لکھنوی اور ان کے درمیان اس تاریخی ادبی معرکہ کا پیش خیمہ ثابت ہوا، جس میں انہیں فتح حاصل ہوئی، اور اس کی گونج ایک مدت تک دنیائے ادب میں سنائی دیتی رہی، اور یہ معرکہ ہمیشہ کے لئے اردو کی ادبی تاریخ کا ایک حصہ بن گیا۔ اس کی تفصیل خود حضرت شوق نے بہت تفصیل سے لکھی ہے، اور ادب کی تاریخ میں معروف ہے اس لئے اس کی تفصیل یہاں قلم انداز کی جاتی ہے۔

منشی بشیر کے بقول:

’’لکھنؤ کے بڑے بڑے نامی شاعر مولانا شوق سے نہایت تپاک سے ملتے اور کمال شوق سے آپ کا کلام سنتے، جناب امیر وغیرہ سے نہایت ارتباط تھا‘‘۔23

ان رسائل کے شائع ہوتے ہی دسیوں اہل کمال نے انہیں مبارک بادی اور تہنیت و قدردانی کا خط لکھا، اور اس کاوش پر ان کا شکریہ ادا کیا، حضرت شوق کے بقول:

’’یہ کل ریویو اور تحریریں ان حضرات کی ہیں جن سے نہ تو صاحب سلامت تھی اور نہ ان کو مجھ سے کسی قسم کا تعلق تھا، ان لوگوں نے جو کچھ لکھا ہے محض آزادی سے لکھا ہے‘‘۔24 

انہوں نے لکھا ہے کہ:

’’اگر حضرات ناظرین مجھ کو حقیقت نگاری کی اجازت دیتے ہیں تو مجھے اس امر کے اظہار میں ذرا تامل نہیں کہ خدا کے فضل سے ہندوستان میں شاید کوئی ایسا شہر ہوگا جہاں میری تالیف و تصنیف نے جلوہ نہ دکھایا ہو، اور اپنا رنگ نہ جمایا ہو‘‘۔

اخیر میں انہوں نے اپنے لکھنؤ کے قیام کا خلاصہ ان الفاظ میں ذکر کیا ہے:

’‘المختصر میں جب تک لکھنؤ میں رہا، تحصیلِ علومِ عربیہ میں سرگرم رہا، مگر جب کچھ فرصت ملتی تو اردو فارسی کا بھی مشغلہ رکھتا تھا‘‘۔25

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا پورا زمانہ تحصیلِ علم میں ہی گذرا، البتہ دوسری سرگرمیاں بھی اس کے ساتھ رہیں، لیکن انہوں نے کیا کیا پڑھا اور کن اساتذہ سے پڑھا اس کی تفصیل نہ انہوں نے ذکر کی ہے نہ ان کے سوانح نگار نے۔

البتہ خود انہوں نے اس کی تصریح کی ہے کہ اسی دوران انہوں نے لکھنؤ کے محلہ پاٹا نالہ کے ایک قدیم حکیم اور شیعی فاضل سید باقر حسین لکھنوی سے علمِ طب کی تحصیل کی۔26 انہوں نے حضرت نیموی کو تکمیلِ طب کی جو سند یا شہادت دی تھی وہ ان کے کاغذات میں محفوظ تھی، ان کے فرزند نے یہ سند درج کی ہے، لکھتے ہیں:

’’آپ نے مولانا شوق کو جو علمِ طب کی سند عطا فرمائی ہے وہ درج ذیل ہے: 
یا فتاح … بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 
الحمد للہ الذی علمنا علوم الادیان والابدان، ونزل علینا القرآن لتداوی بہ امراض الجنان، والصلاۃ والسلام علی الحاذق الذی بعث الینا وحمانا عن آفات الکفر والضلال، وشفانا عن الاسقام، التی تسری فی صدور الجہال، وعلیٰ آلہ الطاھرین والائمۃ المطہرین رضوان اللہ علیھم اجمعین۔ اما بعد، فیقول العبد المعتصم بحبل اللہ القوی خادم الاطباء السید باقر حسین اللکنوی ان جامع العلوم العقلیہ وواقف الفنون النقلیہ الذکی اللوذعی الفطین الیلمعی، المولوی محمد ظہیر احسن النیموی العظیم آبادی حفظہ اللہ ذو الایادی الولد الرشید للشیخ سبحان علی غفر اللہ ذنبہ الخفی والجلی، حضر عندی وقرا لدي الکتب الطبیہ المتداولۃ باحثاً عن غوامضھا ومشکلاتھا وغائراً فی تدقیقاتھا ومعضلاتھا، وجلس فی مطبی مدۃ مدیدۃ، واخذ منی فوائد عدیدۃ، فاستجاز منی کما ھو داب المحصلین، فاجزتہ مشترطاً بان لایجیز [؟] بمجرد رایہ علی المداوات والمعالجات غافلاً عما فی اسفارالاکابر وکتب الثقات بل یحتاط فی ھذ االباب غایۃ الاحتیاط، ویسلک بامعان النظر والفکر سواء الصراط۔ 
والمسؤول عن الحکیم الوھاب ان یفیض علینا وعلیہ الھام الصدق والصواب وھوعلی کل شیئ قدیر وباجابۃ الادعیۃ جدیر۔ 
اقل الاطبا باقر حسین ۱۳۰۴ھ 
باقر حسین ۱۲۹۴ھ(مہر)’’27

۱۳۰۴ھ میں انہوں نے تکمیلِ تعلیم کی اور لکھنؤ سے عظیم آباد واپس ہوئے، ۱۳۰۵ھ میں شوال کے مہینہ میں مع الخیر وطن پہنچے، ان کو ازاحۃ الاغلاط کے جواب میں حضرت جلال لکھنؤی کی ردِ تردید واپسی سے قبل ہی مل چکی تھی، لیکن وہ وطن کے لئے رختِ سفر باندھ چکے تھے اس لئے اس کو ساتھ لے آئے اور یہاں آکر اس کا جواب لکھا، جو سرمۂ تحقیق کے نام سے شائع ہوا، اسی کے حاشیہ پر ان کے حالات پر ان کے شاگرد منشی بشیر کا رسالہ بھی شائع ہوا، جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اس وقت تک ان کی شخصیت اتنی نمایاں ہو چکی تھی کہ وہ کسی رسالہ کا موضوع بن سکیں۔

جلال لکھنوی اس جوابی رسالہ کا جواب تو نہ دے سکے البتہ انہوں نے اپنی خجالت دور کرنے کے لئے حضرت شوق کے نام سے ایک جعلی معذرت نامہ گلدستہ نغمۂ بہار میں شائع کروایا، اس کے جواب میں حضرت شوق نے لکھنؤ کے اخبارات میں کئی مضامین لکھے، اور اپنا مدعا ثابت کیا، اس معرکہ میں دونوں طرف سے بہت سے دیگر اہلِ علم نے بھی حصہ لیا، اکثر حضرات شوق کی تائید میں تھے، اس طرح اس ادبی معرکہ میں انہیں فتح حاصل ہوئی، اور یہ معرکہ اردو کی ادبی تاریخ کا ایک یادگار بن گیا۔

عظیم آباد کا قیام اور علمی خدمات

۱۳۰۵ھ میں وطن واپس آئے تو اپنے شہر عظیم آباد میں طرح اقامت ڈالی، یہاں کے علمی و ادبی حلقوں سے بھی ربط رہا، وہ اپنی تمام ادبی سرگرمیوں اور نظریات کی تفصیل ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

’’اب میں اپنے دوسرے حالات مجملاً لکھتا ہوں کہ جب میں فارغ التحصیل ہو کر لکھنؤ سے نیمی پہنچا تو کچھ دنوں وہاں رہ کے شہر عظیم آباد میں جو نیمی سے چھ کوس کے فاصلہ پر ہے طرح اقامت ڈالی، طبابت کے ساتھ کتب عربیہ، معقولات و منقولات پڑھانا شروع کیں، اور دینیات میں تالیفات کا سلسلہ بھی شروع کر دیا، چنانچہ ان میں سے بعض رسائل چھپ کر شائع ہوچکے ہیں، چنانچہ تقلید کی بحث میں اوشحۃ الجید اور آمین کے باب میں حبل المتین یہ دو رسالے ایسے پرزور لکھے کہ جو لوگ تقلید کو مذموم سمجھے تھے یا آمین بالجہر کی قوت کے قائل تھے ان میں سے اکثر غیر متعصب حضرات کے خیالات پلٹ گئے۔ آج کل بطور مشکاۃ شریف حدیث میں آثار السنن نام ایک کتاب کی بنائے تالیف ڈالی ہے، جس کے لئے بلاد مختلف خصوصاً مصر و روم و حرمین شریفین کا سفر درکار ہے، السعی منی والاتمام من اللہ، اگر یہ کتاب تیار ہو گئی تو ان شاء اللہ تعالیٰ حنفیہ کے لئے نہایت بکار آمد ہوگی‘‘۔28
’’کئی سال سے اکثر جمعہ کو وعظ کہنے کا اتفاق ہوتا ہے، آج تک چھ پارے ہوچکے ہیں، اگر حیات مستعار باقی ہے تو ان شاء اللہ تعالیٰ قرآن مجید و فرقان حمید کو سر منبر تمام کروں گا‘‘۔29

حضرت شوق نے یادگار وطن ۱۳۱۲ھ میں شائع کی ہے، اس کے بعد وہ وفات تک عظیم آباد ہی میں رہے، اور یہیں ان کی سرگرمیاں جاری رہیں، تقریباً سترہ اٹھارہ سال کا یہ عرصہ انہوں نے علم و ادب کی خدمت ہی میں بسر کیا۔ اس دوران عجب نہیں کہ ایک بار نہیں کئی بار انہیں قرآن پاک کی تفسیر مکمل کرنے کا موقع ملا ہو، یہ درس قرآن کا نظام بھی اس دور میں خال خال ہی نظر آتا ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے اس شہر میں جو خدمات انجام دیں ان میں قرآن پاک کو عام کرنے کا کام بھی تھا، جو حضرت شاہ ولی اللہ اور ان کے خاندان میں نظر آتا ہے۔ حضرت شوق نے تدریسی خدمت کس جگہ انجام دی، آیا وہ جہاں مطب کرتے تھے وہیں تدریس کی خدمت بھی انجام دیتے تھے، یا پھر عظیم آباد میں جو مدرسے یا مدرسین تھے ان کے یہاں تعلیم دیتے تھے، جن میں کئی نام ملتے ہیں، اس کی کوئی تفصیل نہیں ملتی، نہ ان کے علوم اسلامیہ کے شاگردوں کا کوئی ذکر ملتا ہے۔ انہوں نے اپنے تلامذۂ شاعری کا ذکر تو کیا ہے لیکن علومِ اسلامیہ کے تلامذہ کا ذکر نہیں کیا ہے، نہ ان کی سندِ حدیث کے سلسلہ کا کہیں سراغ ملتا ہے کہ وہ جاری ہے کہ نہیں، ان کے فرزند بھی اس سلسلہ میں خاموش نظر آتے ہیں۔ ان کے ایک معاصر مورخ بدرالحسن عظیم آبادی نے ان کے طبابت کا مشاہدہ ذکر کیا ہے جس سے ان کی بعض خصوصیات پر روشنی پڑتی ہے، لکھتے ہیں:

’’مولوی ظہیر احسن صاحب نیموی … سالار پور [نیمی کا نام] کے رہنے والے ہیں، اور شاہ کی املی [محلہ عظیم آباد، موجودہ پٹنہ سیٹی،] میں رہتے ہیں، … مطب میں پورا فروغ تو نہ تھا، لیکن غرباء ان کے زیر علاج رہے، امیروں میں ان کا علاج کم رہا، ان کو شغل پڑھانے اور شاعری کا زیادہ رہا‘‘۔30

ان کے تقریباً‌ دس سال کے قیام عظیم آباد کی تفصیل کسی شاگرد یا اہلِ تعلق نے قلمبند نہیں کی، جس سے ان کی سوانح زندگی کا اصل ورق ہماری نگاہوں سے اوجھل ہے، البتہ ان کی ادبی سرگرمیوں کا جابجا کچھ ذکر مل جاتا ہے۔


حوالہ جات

  1. یادگار وطن، ص ۱۱۷۔
  2. ص ۱۴ سے اس کا آغاز ہوتا ہے، (مطبوعہ قومی پریس لکھنؤ۔)
  3. یہ کتاب خدابخش لائبریری کی اردو مخطوطات کی مطبوعہ فہرست کنزالعلوم (مطبوعہ خدابخش) میں مطبوعہ بتائی گئی ہے، لیکن میرے علم کے مطابق اب تک پوری کتاب نہیں شائع ہوئی۔
  4. دیکھئے یادگار وطن، ص ۱۵۶
  5. سیر بنگال، ص ۱۲، طبع اول
  6. حوالہ سابق، ص ۷ ۔القول الحسن میں مولانا عبدالرحمن مبارکپوری کا جواب دیتے ہوئے حضرت نیموی کے فرزند مولانا عبدالرشید فوقانی نے بھی جابجا علامہ شوق نیموی سے اپنے تعلق کا اظہار کیا ہے۔
  7. حوالہ سابق، ص ۲۹، ۔۳۔
  8. حوالہ سابق ص ۳۱
  9. حوالہ سابق
  10. حوالہ سابق ص۳۳
  11. حوالہ سابق ص ۴۹۔
  12. تذکرۃ الشوق، ص ۴۱
  13. یادگاروطن ص ۴۹
  14. حوالہ سابق۔
  15. حوالہ سابق ص ۵۰
  16. یادگاروطن، ص ۶۳
  17. حوالہ سابق ص ۵۱
  18. حوالہ سابق ص۵۳
  19. ص ۵۹
  20. حوالہ سابق۔
  21. حوالہ سابق،
  22. تذکرہ الشوق، ص ۴۳
  23. تذکرۃ الشوق، ص ۴۴
  24. یادگاروطن، ص ۷۲
  25. حوالہ سابق۔
  26. حوالہ سابق۔
  27. القول الحسن ص ۱۶۶۔ مطبوعہ لکھنؤ ۱۹۶۲۔
  28. حوالہ سابق ص ۱۱۹۔
  29. حوالہ سابق۔
  30. یادگارروزگار از بدرالحسن، خدا بخش لائبریری پٹنہ، ص ۷۵۲

(جاری)


شخصیات

(الشریعہ — مارچ ۲۰۲۵ء)

الشریعہ — مارچ ۲۰۲۵ء

جلد ۳۶ ، شمارہ ۳

مسئلہ رؤیتِ ہلال کے چند توجہ طلب پہلو
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

رویتِ ہلال میں اختلاف پر شرمندگی کا حل اور قانون سازی کی ضرورت
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

مسئلہ رؤیتِ ہلال، فقہ حنفی کی روشنی میں
مولانا مفتی محمد ایوب سعدی

مرکزی رؤیتِ ہلال کمیٹی پر اعتراضات کا جواب
اویس حفیظ

نظام ہائے کیلنڈر: ایک جائزہ
ترجمان

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۲۲)
ڈاکٹر محی الدین غازی

باجماعت نماز، قرآن و سنت کی روشنی میں
مولانا محمد طارق نعمان گڑنگی

حضرت علامہ ظہیر احسن شوق نیموی (۱)
مولانا طلحہ نعمت ندوی

فحاشی و عریانی اور لباس و نظر کا نفسیاتی مطالعہ!
محمد عرفان ندیم

مسجد اقصیٰ کے ایک مسافر کی تڑپ
عقیل دانش

ڈونلڈ ٹرمپ دوبارہ وہائٹ ہاؤس میں: مشرق وسطیٰ اور دنیا پر اس کے متوقع اثرات؟
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

فلسطین کی جنگ بندی اور پیکا ایکٹ کی منظوری
مولانا فضل الرحمٰن

قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن کی گوجرانوالا آمد
مولانا حافظ خرم شہزاد

پاکستان شریعت کونسل کی تشکیلِ نو
پروفیسر حافظ منیر احمد

Pakistan and Turkiye: The Center of Hope for the Muslim Ummah
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

ماہانہ بلاگ

حضرت لیلٰی غفاریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا
مولانا جمیل اختر جلیلی ندوی

شورائیت اور ملوکیت
ڈاکٹر عرفان شہزاد

اصول سازى اور غامدى صاحب
حسان بن علی

جب احراری اور مسلم لیگی اتحادی بنے
عامر ریاض

غزہ میں رمضان: تباہی اور غیر متزلزل ایمان
اسرا ابو قمر

مولانا حامد الحق حقانی کی المناک شہادت
مولانا عبد الرؤف فاروقی

فلسطین کے سوال کا حل اور پاک افغان تعلقات کی ازسرِنو تعریف
انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز

تلاش

مطبوعات

شماریات

Flag Counter