جب احراری اور مسلم لیگی اتحادی بنے

تاریخ کو لکھتے ہوئے تشریحات کا اپنا مقام ہوتا ہے مگر بنیادی اور مسلّمہ اہمیت حقائق کو ہی حاصل ہوتی ہے۔ تاریخ اس وقت مسخ قرار دی جاتی ہے جب یا تو حقائق کو بدل دیا جائے یا پھر ان کا تذکرہ ہی نہ کیا جائے۔ تاریخ کی کتاب وہی زیادہ قابلِ تحسین کہلائے گی جس میں مستند حوالوں کے ساتھ تمام اہم حقائق بیان کرنے کے ساتھ اپنی تشریحات الگ سے دی جائیں۔ عمومی طور پر دیکھا گیا ہے کہ درباری مؤرخ ہی نہیں بلکہ نظریاتی لکھاری بھی حقائق سے انصاف کرتے نظر نہیں آتے۔

جو واقعہ آپ پڑھیں گے یہ 1930ء کی دہائی کی سیاست کا واقعہ ہے کہ جب پنجاب کی سیاست میں ایک نومولود سیاسی پارٹی ’’مجلسِ احرار السلام‘‘ کا غلغلہ تھا۔ 1930ء سے 1935ء کے درمیان اس پارٹی نے نہ صرف کشمیر میں ڈوگرہ راج مخالفت سمیت لاتعداد تحریکیں چلائیں بلکہ اس دوران تین ضمنی انتخابات اور دو مرکزی اسمبلی کی نشستیں بھی جیت لی تھیں۔ بس اب 1936ء تو انتخابات کا سال تھا کہ اب پنجاب کے انتخابی معرکہ میں اس نومولود کو اہمیت حاصل تھی۔ دسمبر کے مہینہ میں انتخابات تھے اور انتخابی سیاست میں تو اصل ہدف مدمقابل کو ہرانا ہی ہوتا ہے۔

پنجاب سرکار کو یونینسٹ پارٹی آف پنجاب اور میاں سر فضل حسین چلا رہے تھے۔ مسلم لیگ کے لیڈر قائد اعظم محمد علی جناح مرکزی اسمبلی میں’’ انڈیپینڈنٹ پارٹی‘‘ کے ممبر کی حیثیت میں بیٹھے تھے کہ یہیں مختلف مسائل پر احرار کے مرکزی اسمبلی میں ممبر نے حمایت کی تو دونوں پارٹیوں میں برف پگھلنے لگی۔

اپریل 1936ء کو مسلم لیگ نے قائد اعظم کو یہ اختیار دے دیا کہ وہ غیر لیگی مسلمانوں کو شامل کر کے انتخابات کے حوالے سے مرکزی مسلم پارلیمانی بورڈ بنائیں۔ 26 اپریل 1936ء کو دہلی میں اس ضمن میں جناح صاحب نے جو اجلاس بلایا اس میں دو احراری رہنماؤں چوہدری افضل حق اور مولانا حبیب الرحمٰن لدھیانوی نے شرکت کی۔ اجلاس میں ایک سے زیادہ اختلافی امور بھی سامنے آئے۔ جناح صاحب نے دعوت دی کہ احراری مسلم لیگ کے پارلیمانی بورڈ کے تحت انتخابات میں حصہ لیں۔ احراریوں نے کہا کہ پہلے آپ مسلم لیگ سے احمدیوں کو نکالیں۔ جناح صاحب نے کہا اس بارے فیصلہ مسلم لیگ کی کونسل ہی کر سکتی ہے۔ تاہم مذاکرات جاری رکھنے پر اتفاق ہوا۔

مئی میں جناح صاحب لاہور آئے۔ انہوں نے میاں سر فضل حسین کو دعوت دی مگر یونینسٹ پارٹی کا تو پنجاب بھر میں زور ہی بہت تھا اس لیے یہ بیل منڈھے نہ چڑھی۔ علامہ اقبال کی مدد سے مولانا ظفر علی خان کی مجلسِ اتحادِ ملّی اور احرار سے ملاقاتیں بڑھیں۔ لاہور ہی میں عبد القوی لقمان کے گھر احراری رہنماؤں اور جناح صاحب میں تفصیلی ملاقات ہوئی۔ اس دوران احرار کے ایک عوامی جلسہ میں جناح صاحب تشریف لے گئے جہاں کلہاڑی بردار احراری نوجوان سلامی دے رہے تھے۔

یہاں سے جناح صاحب کشمیر چلے گئے جہاں میر وعظ محمد یوسف نے بھی انہیں کشمیر کے حوالے سے احراریوں کی جدوجہد بارے بتایا۔ سری نگر ہی میں جناح صاحب نے مسلم پارلیمانی بورڈ کے لیے چار احراری رہنماؤں کے ناموں کا اعلان کر دیا۔ ان میں عبد العزیز بوگیوال، چوہدری افضل حق، شیخ حسام الدین اور غلام حسین شامل تھے۔

یہ اتحاد چار ماہ سے زیادہ نہ چل سکا کہ دونوں پارٹیوں میں اس اتحاد کے حمایتی کم اور مخالف زیادہ تھے، جب کہ حکمران جماعت بھی مدمقابل قوتوں کو منقسم رکھنے کا گُر بروقت استعمال کرنا بخوبی جانتی تھی۔

یہ سب باتیں احرار بارے چھپنے والی انگریزی کتاب ’’نوآبادیاتی پنجاب میں سیاسی اسلام: مجلسِ احرار 1929-1949ء‘‘ میں مستند حوالوں سے لکھی ہیں جسے آکسفوڈ یونیورسٹی پریس پاکستان نے چھاپا ہے۔ اس کی مصنفہ پروفیسر ثمینہ اعوان ہیں جن کا تعلق علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے ہے۔ کتاب میں جو حوالے دئیے گئے ہیں ان میں عاشق حسین بٹالوی کی کتاب بھی ہے، اس اتحاد سے متعلق ماسٹر تاج الدین لدھیانوی (انصاری) کا وہ پمفلٹ بھی جسے خود مجلسِ احرار نے چھاپا تھا اور جانباز مرزا کی کتاب ’’کاروانِ احرار‘‘ بھی۔

پاکستان بننے کے بعد احرار اور مسلم لیگ دونوں ہی کے دانشوروں نے کوشش کی کہ اس چار پانچ ماہ کے اتحاد کے واقعہ کو بیان ہی نہ کیا جائے۔ مگر تاریخ کے واقعات کو کوئی چھپا نہیں سکتا، وہ ایک نہ ایک دن سامنے آ ہی جاتے ہیں۔ تاریخی واقعات کو دبانے سے سب سے زیادہ نقصان اسی جماعت کا ہوتا ہے کہ جب ان کے کارکنوں کو حقائق بارے علم ہوتا ہے تو ان کا اعتبار ان تمام کتب سے ہی اٹھ جاتا ہے جو انہیں پڑھائی گئی ہوتی ہیں۔

(روزنامہ دنیا، ۱۰ اکتوبر ۲۰۱۳ء)


حالات و مشاہدات

(الشریعہ — مارچ ۲۰۲۵ء)

الشریعہ — مارچ ۲۰۲۵ء

جلد ۳۶ ، شمارہ ۳

مسئلہ رؤیتِ ہلال کے چند توجہ طلب پہلو
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

رویتِ ہلال میں اختلاف پر شرمندگی کا حل اور قانون سازی کی ضرورت
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

مسئلہ رؤیتِ ہلال، فقہ حنفی کی روشنی میں
مولانا مفتی محمد ایوب سعدی

مرکزی رؤیتِ ہلال کمیٹی پر اعتراضات کا جواب
اویس حفیظ

نظام ہائے کیلنڈر: ایک جائزہ
ترجمان

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۲۲)
ڈاکٹر محی الدین غازی

باجماعت نماز، قرآن و سنت کی روشنی میں
مولانا محمد طارق نعمان گڑنگی

حضرت علامہ ظہیر احسن شوق نیموی (۱)
مولانا طلحہ نعمت ندوی

فحاشی و عریانی اور لباس و نظر کا نفسیاتی مطالعہ!
محمد عرفان ندیم

مسجد اقصیٰ کے ایک مسافر کی تڑپ
عقیل دانش

ڈونلڈ ٹرمپ دوبارہ وہائٹ ہاؤس میں: مشرق وسطیٰ اور دنیا پر اس کے متوقع اثرات؟
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

فلسطین کی جنگ بندی اور پیکا ایکٹ کی منظوری
مولانا فضل الرحمٰن

قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن کی گوجرانوالا آمد
مولانا حافظ خرم شہزاد

پاکستان شریعت کونسل کی تشکیلِ نو
پروفیسر حافظ منیر احمد

Pakistan and Turkiye: The Center of Hope for the Muslim Ummah
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

ماہانہ بلاگ

حضرت لیلٰی غفاریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا
مولانا جمیل اختر جلیلی ندوی

شورائیت اور ملوکیت
ڈاکٹر عرفان شہزاد

اصول سازى اور غامدى صاحب
حسان بن علی

جب احراری اور مسلم لیگی اتحادی بنے
عامر ریاض

غزہ میں رمضان: تباہی اور غیر متزلزل ایمان
اسرا ابو قمر

مولانا حامد الحق حقانی کی المناک شہادت
مولانا عبد الرؤف فاروقی

فلسطین کے سوال کا حل اور پاک افغان تعلقات کی ازسرِنو تعریف
انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز

تلاش

مطبوعات

شماریات

Flag Counter