تمہید
عہدِ نبوی کی باکمال خواتین میں سے ایک ’’لیلیٰ غفاریہ‘‘ ہیں، جو ’’السابقون الأولون‘‘ میں سے ہیں، انھوں نے نہ صرف یہ کہ غزوات میں شرکت کی؛ بل کہ زخمیوں کے علاج میں پیش پیش رہیں اور اسی وجہ سے ان کا نام تاریخ کی کتابوں کا جلی عنوان ہے؛ لیکن بدقسمتی سے اہل سیر و تاریخ نے ان کی زندگی کے تعلق سے بہت زیادہ نہیں لکھا؛ بل کہ اگر یوں کہا جائے کہ کچھ نہیں لکھا تو بے جانہ ہوگا، شاید تقشفانہ زندگی کی وجہ سے خود یہ نمایاں نہیں ہونا چاہتی ہوں گی، ان کا تعلق اس ’’غفار‘‘ قبیلہ سے تھا، جس کے بارے میں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: غفار: غفر اللہ لہا۔1 ’’غفار: اللہ اس کی مغفرت فرمائے‘‘، گویا بخشے بخشائے قبیلہ سے ان کا تعلق ہے اور دوسروں سے ممتاز کرنے کے لئے یہی نسبت کافی ہے۔
نام و نسب
ان کا نام ’’لیلیٰ‘‘ تھا، قبیلۂ غفار سے تعلق رکھتی تھیں، غفار کا نسب اس طرح ہے: بنو غفار بن ملیل بن ضمرۃ بن بکر بن عبد مناۃ بن کنانۃ۔2 اسی لئے ان کی نسبت ’’غفاریہ‘‘ ہے، یہ ان جلیل القدر صحابیات میں سے ہیں، جنھوں نے میدان جنگ میں بھی دادِ شجاعت دی ہے، حضور اکرم ﷺ کے ساتھ میدان کارزار میں جایا کرتی تھیں اور مریضوں کی دیکھ بھال اور زخمیوں کا علاج کرتی تھیں، وہ خود فرماتی ہیں:
کنت امرأۃ أخرج مع النبی ﷺ أداوی الجرحی۔3
’’میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ زخمیوں کے علاج کے لئے جایا کرتی تھی‘‘۔
خلیل بن ایبک صفدی رقم طراز ہیں:
’’الغفاریۃ الصحابیۃ‘‘ لیلی الغفاریۃ: کانت تخرج مع النبی ﷺ فی مغازیہ تداوی الجرحی، و تقوم علی المرضی، قالت لعائشۃ رضی اللہ: ہذا علی بن أبی طالب أول الناس إیماناً۔4
’’غفاریہ صحابیہ لیلیٰ غفاریہ: زخمیوں کے علاج اور مریضوں کی دیکھ بھال کے لئے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ غزوات میں شریک ہوتی تھیں، انھوں نے حضرت عائشہؓ سے کہا تھا: یہ علیؓ بن ابی طالب ہیں، لوگوں میں پہلے ایمان لانے والے۔‘‘
تراجم و رجال کی کتابوں میں ’’لیلیٰ الغفاریۃ‘‘ کے تعلق سے سیر حاصل حالات قلم بند نہیں کئے گئے ہیں، بس جو کچھ لکھا گیا ہے، وہ یہ ہے کہ یہ صحابیہ ہیں، جنگ کے میدان میں جایا کرتی تھیں اور زخمیوں کا علاج اور مریضوں کی دیکھ بھال کیا کرتی تھیں، باقی کچھ بھی تفصیل نہیں ملتی، طالب الہاشمی صاحب نے لکھا ہے کہ:
’’مشہور صحابی ابوذر غفاریؓ کی اہلیہ کا نام بھی لیلیٰ تھا، اہل سیر نے یہ تصریح نہیں کی ہے کہ یہ لیلیٰ (یعنی غفاریہ) ان کی زوجہ تھیں یا کوئی اور۔‘‘5
تلاش بسیار کے بعد ایک دو جگہ یہ صراحت ملی کہ یہی ’’لیلیٰ‘‘ حضرت ابوذر غفاریؓ کی بیوی تھیں؛ چنانچہ ڈاکٹر عبد الصبور شاہین اور اصلاح عبد السلام رفاعی کی مشترکہ تالیف ’’صحابیات حول الرسولﷺ‘‘ میں ہے:
ھی الصحابیۃ لیلی الغفاریۃ، امرأۃ جندب بن جنادۃ: أبی ذر الغفاری۔6
’’یہ لیلیٰ غفاریہ صحابیہ ہیں، جو جندب بن جنادہ ابوذر غفاری کی بیوی ہیں۔‘‘
اسی طرح ایک معروف عربی پورٹل ’’اسلام ویب۔نیٹ‘‘ نے بھی اس کی وضاحت کی ہے، اس میں لکھا ہے:
وثبت أن أم عطیۃ و أم سلیم و حمنۃ بنت جحش و لیلی الغفاریۃ زوجۃ أبی ذر، و أم أیمن والربیع بنت معوذ، کن یغزون مع النبی ﷺ7
’’یہ ثابت ہے کہ ام عطیہ، ام سلیم، حمنہ بنت جحش، ابوذر کی بیوی لیلیٰ غفاریہ، ام ایمن اور ربیع بنت معوذ (رضی اللہ عنہن) رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جنگ میں جایا کرتی تھیں‘‘۔
ان دونوں صراحتوں سے یہ معلوم ہو رہا ہے کہ ’’لیلیٰ غفاریہ‘‘ حضرت ابوذرؓ کی اہلیہ محترمہ ہیں، جو تاریخ و سیر کی کتابوں میں ’’أم ذر الغفاریۃ‘‘ کے نام سے جانی جاتی ہیں، لہٰذا اب ہم ’’ام ذرغفاریہ‘‘ اور ’’لیلیٰ غفاریہ‘‘ کے تحت مذکور معلومات کو قلم بند کرنے کی کوشش کریں گے۔
اسلام
حضرت ابوذرؓ جب اسلام قبول کرنے کے بعد اپنے قبیلہ میں واپس آئے اور دین کی دعوت دینی شروع کی تو گھر کے افراد نے سب سے پہلے ان کی دعوت پر لبیک کہا؛ چنانچہ ان کی والدہ مسلمان ہوئیں اور ان کی اہلیہ بھی مسلمان ہوگئیں، حافظ ابن حجر لکھتے ہیں:
…لکن وقفت علی حدیث فیہ التصریح بأنہا أسلمت مع أبی ذر فی أول الإسلام۔8
’’…مجھے ایک ایسی حدیث مل گئی ہے، جس میں صراحت ہے کہ وہ اسلام کے آغاز میں ہی ابوذر کے ساتھ مسلمان ہوئیں۔‘‘
حضرت ابوذرؓ سابقین الاولین میں سے ایک ہیں؛ بل کہ اسلام لانے والوں میں سے پانچویں نمبر پر ہیں، مکہ آکر نہ صرف وہ مسلمان ہوئے؛ بل کہ علی رؤوس الاشہاد صدائے حق بلند کی، پھر وہ اپنے قبیلہ میں گئے اور وہاں دعوت و تبلیغ کا کام سرانجام دیا، جس کی وجہ سے قبیلہ کے آدھے سے زیادہ لوگ دائرۂ اسلام میں داخل ہوگئے، علامہ ذہبی لکھتے ہیں:
قلت: أحد السابقین الأولین، من نجباء أصحاب محمدﷺ، قیل: کان خامس خمسۃ فی الإسلام، ثم رُد إلی بلاد قومہ، فأقام بہا بأمر النبیﷺ لہ بذلک۔9
’’میں کہتا ہوں: وہ سابقین الاولین میں سے ایک ہیں شرفائے اصحاب محمد میں سے ہیں، کہا گیا ہے: وہ اسلام لانے والوں میں سے پانچویں نمبر پر ہیں، انھیں اپنی قوم میں واپس بھیج دیا گیا تھا؛ چنانچہ نبی کریم ﷺ کے حکم سے وہاں انھوں نے قیام کیا۔‘‘
اپنے شوہر کی دعوت پر ان کی اہلیہ نے بھی اسلام قبول کیا، محمود طعمہ لکھتے ہیں:
وعاد أبو ذر إلی قومہ بإسلامہ، فأخبر زوجتہ أم ذر بما حدث معہ فی مکۃ، فما ترددت فی متابعتہ، وأعلنت إسلامہا۔10
’’ابوذر اسلام کے ساتھ اپنی قوم میں واپس آئے، اپنی بیوی کو مکہ کا ماجرا سنایا، تو انھوں نے ان کی متابعت میں کوئی تردد نہیں کیا، فوراً اپنے اسلام کا اعلان کر دیا۔‘‘
شعر و شاعری
ام ذر غفاریؓ عرب کی شاعرات میں سے ایک تھیں، اس سلسلہ میں حافظ ابن حجرؓ نے ایک روایت نقل کی ہے کہ جب نبی کریم ؓﷺ کا ارادہ تبسم فرمانے کا ہوتا تو ابوذرؓ سے کہتے: یا أباذر! حدثنی ببدء إسلامک ’’اے ابوذر! اسلام کی طرف مائل ہونے کا قصہ بیان کرو‘‘، حضرت ابوذرؓ پھر قصہ بیان کرتے ہوئے کہتے:
کان لنا صنم یقال لہ: نہم، فأتیتہ، فصببت لہ لبناً، وولیت، فحانت منی التفاتۃ، فإذا کلب یشرب ذلک اللبن، فلما فرغ، رفع رجلہ، فبال علی الصنم، فأنشأت أقول:ألا یانہمُ! إنی قد بدا لیفسمعتنی أم ذر، فقالت: لقد أتیت جرماً، وأصبت عُظماً، حین ہجوت نہماً، فخبرتہا الخبر، فقالت:
مدی شرف یبعد منک قربا
رأیت الکلب سامک خط خسف
فلم یمنع فقاک الیوم کلباألا فأبننا رباً کریماً
جواداً فی الفضائل یابن وہب
فما من سامہ کلب حقیر
فلم تمنع یداہ لنا برب
فما عبدالحجارۃ غیر غاو
رکیک العقل لیس بذات لب
قال: فقال النبیﷺ: صدقت أم ذر، فما عبد الحجارۃ غیر غاو۔11
’’’’نہم‘‘ نام کا ہمارا ایک بت تھا، ایک دن میں اس کے پاس آیا اور اس کے لئے دودھ انڈیلا اور واپس چلا گیا، پھر مڑ کر دیکھا تو ایک کتا وہ دودھ پی رہا تھا، جب کتا دودھ پی چکا تو اپنی ٹانگ اٹھائی اور بت پر پیشاب کر دیا، تو میں یہ گنگنانے لگا: سنو اے نہم! میرے سامنے یہ ظاہر ہو چکا ہے کہ عزت تم سے کتنی دور ہے، میں نے ایک کتے کو دیکھا کہ اس نے تم پر گرہن کی لکیر پھیر دی؛ لیکن تم ایک کتے کو بھی نہیں روک سکے۔ ام ذر نے جب یہ سنا تو کہا: تم نے نہم کی برائی کر کے جرم عظیم کا ارتکاب کیا ہے۔ پھر میں نے قصہ بتایا تو اس نے یہ اشعار کہے: اے ابن وہب! تو نے ہمارے سامنے فضائل سے بھرپور ایک کریم رب کو واضح کیا ہے، جس کے قریب کوئی حقیر کتا نہیں جا سکتا، نہ کوئی ہمیں اس تک پہنچنے سے روک سکتا ہے، لہٰذا پتھر کی پوجا وہی کرے گا، جو بے عقل، مجنون اور گمراہ ہو۔ وہ کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ام ذر! تم نے سچ کہا، گمراہ شخص ہی پتھر کی پوجا کرے گا۔‘‘
ہجرت اور غزوات میں شرکت
جب حضرت ابوذرؓ ہجرت کر کے مدینہ آئے تو یہ بھی اپنے شوہر کے ساتھ مدینہ آگئیں، پھر مختلف غزوات میں شریک رہیں، وہ خود فرماتی ہیں:
أتیت رسول اللہ ﷺ فی نسوۃ من بنی غفار، فقلنا: یارسول اللہ! أردنا أن نخرج معک إلی وجہک ہذا- وہو یسیر إلی خیبر- فنداوی الجرحی، ونعین المسلمین بما استطعنا، فقال: علی برکۃ اللہ۔12
’’میں (خیبر کے موقع سے) بنو غفار کی چند خواتین کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور ہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ہمارا ارادہ آپ کے ساتھ خیبر جانے کا ہے، ہم زخمیوں کا علاج کریں گی اور بقدر استطاعت مسلمانوں کی مدد کریں گی، تو اللہ کے رسول ﷺ نے ’’علی برکۃ اللہ‘‘ کہہ کر اجازت دیدی۔‘‘
خیبر جب فتح ہو گیا تو اللہ کے رسول ﷺ نے اس میں شریک خواتین کو بھی مالِ غنیمت میں سے کچھ کچھ عطا کیا تھا، وہ اپنے تعلق سے فرماتی ہیں:
فلما فتح رسول اللہ خیبر، رضخ لنا من الفیٔ، و أخذ ہذہ القلادۃ التی ترین فی عنقی فأعطانیہا، وعلقہا بیدہ فی عنقی، فواللہ لا أفارقنی أبداً۔13
’’جب رسول اللہ ﷺ نے خیبر فتح کر کے مال غنیمت عطا کیا تو انھوں نے یہ ہار، جسے تم میرے گلے میں دیکھ رہے ہو، مجھے عطا کیا اور اپنے ہاتھوں سے میرے گلے میں ڈالا، بس خدا کی قسم! میں کبھی اسے اپنے سے جدا نہیں کرتی ہوں۔‘‘
غزوۂ ذی قرد (جسے غزوۂ غابہ بھی کہا جاتا ہے) کے بارے میں آتا ہے کہ اِنھیں میاں بیوی کے سبب پیش آیا، قصہ کچھ یوں ہے کہ: یہ دونوں مدینہ کے اطراف میں (جسے: غابہ کہا جاتا تھا) رسول اللہ ﷺ کے بیس اونٹ چرا رہے تھے، جب مداینہ کی چراگاہ خشک ہو گئی تو یہ حدود مدینہ سے باہر عیینہ بن حصن کی چراگاہ کے قریب پہنچ گئے، رسول اللہ ﷺ کو جب یہ معلوم ہوا تو انھیں اس سے روکا؛ لیکن اِن کا اصرار تھا سرسبز و شاداب چراگاہ کی اجازت لے لی جائے، بہرحال! یہ آگے بڑھتے رہے اور عیینہ بن حصن کی چراگاہ میں چراتے رہے، ایک دن عیینہ بن حصن نے رسول اللہ ﷺ کے اونٹوں پر حملہ کیا، ابوذر کے بیٹے ’’ذر‘‘ کو قتل کیا، ان کی بیوی کو باندی بنایا اور کچھ جانور ہانک کے لے گیا، مدینہ میں یہ خبر پہنچی تو رسول اللہ ﷺ ایک دستہ کے ساتھ نکلے اور ذی قرد تک جا پہنچے، اِدھر ام ذر کو ایک رات موقع ملا تو وہ ناقۂ رسول پر سوار ہو کر قید سے بھاگ نکلیں۔14
طبابت
ام ذر، جن کا نام لیلیٰ تھا، ایک ماہر آرتھوپیڈک سرجن تھیں، ڈاکٹر امیمہ ابوبکر اور ڈاکٹر ہدی سعدی نے انھیں’’جَرَّاحَۃُ حُرُوْب‘‘(جنگی سرجن War Surgeon) قرار دیا ہے۔15 وہ خود کہتی ہیں:
کنت أغزو مع النبیﷺ، فأداوی الجرحی، وأقوم علی المراضی۔16
’’میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ غزوات میں شریک ہوتی تھی اور زخمیوں کا علاج اور مریضوں کی دیکھ بھال کرتی تھی۔‘‘
باقی دیگر تراجم کی کتابوں میں بھی اسی طرح ان کا تذکرہ ہے؛ چنانچہ ڈاکٹر عبد السلام ترمانینی لکھتے ہیں:
لیلیٰ الغفاریۃ: من کرام المسلمات الصحابیات، کانت تخرج مع النبیﷺ فی مغازیہ تداوی الجرحی، وتقوم علی المرضی۔17
’’لیلیٰ غفاریہ باعزت مسلمان صحابیہ تھیں، رسول اللہ ﷺ کے ساتھ غزوات میں شریک ہوتی تھیں، زخمیوں کا علاج اور مریضوں کی دیکھ بھال کرتی تھیں۔‘‘
ڈاکٹر عمر رضا کحالہ لکھتے ہیں:
لیلی الغفاریۃ: مجاہدۃ غازیۃ، کانت تخرج مع النبیﷺ فی مغازیہ فتداوی الجرحی، وتقوم علی المرضی۔18
لیلیٰ غفاریہ مجاہدہ اور غازیہ تھیں، رسول اللہ ﷺ کے ساتھ غزوات میں شریک ہوتی تھیں، زخمیوں کا علاج اور مریضوں کی دیکھ بھال کرتی تھیں۔
وفات
حضرت ام ذرؓ اپنے شوہر حضرت ابوذرؓ کے ساتھ عہد عثمانی میں مقام ’’ربذہ‘‘ منتقل ہو گئی تھیں، جہاں ان کے شوہر حضرت ابوذرؓ کی وفات ۳۲ھ میں ہوئی، شوہر کی وفات کے بعد ویکی پیڈیا کے مطابق حضرت عبداللہ بن مسعودؓ ان کو مدینہ لے کر آگئے تھے، کتب تراجم میں ان کی وفات کی تاریخ کا کوئی تذکرہ نہیں ہے؛ البتہ ’’منتدیات قبیلۃ کنانۃ‘‘ میں لیلیٰ غفاریہ کی سن وفات ۴۰ھ لکھا ہوا ہے19، اس لحاظ سے وہ اپنے شوہر کی وفات کے بعد تقریباً آٹھ سال بقید حیات رہیں اور اغلب یہی ہے کہ مدینہ کی سرزمین میں ہی ان کا انتقال ہوا، رحم اللہ علی ہذہ الصحابیۃ الجلیلۃ العظیمۃ و رضی عنہا۔
حواشی
- (البخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح البخاری، حدیث نمبر: ۳۵۱۳، القشیری، مسلم بن حجاج، صحیح مسلم، حدیث نمبر: ۲۵۱۸)
- (العسقلانی، ابن حجر، احمد بن علی، فتح الباری بشرح صحیح البخاری، باب ذکر أسلم و غفار و مزینۃ و جہینۃ و أشجعۃ: ۶؍۵۴۳، تصحیح و تحقیق و اشراف علی مقابلۃ النسخ: عبد العزیز بن عبداللہ بن باز، ناشر: دارالمعرفۃ، بیروت، لبنان)
- (الطبرانی، سلیمان بن احمد، ابو القاسم، المعجم الکبیر، لیلیٰ الغفاریۃ: ۲۵؍۲۸، حدیث نمبر: ۴۵، تحقیق و تخریج: حمدی عبدالمجید السلفی، ناشر: مکتبۃ ابن تیمیۃ، القاہرۃ )
- (الصفدی، خلیل بن أیبک، صلاح الدین، الوافی بالوفیات: ۲۵؍۶، تحقیق: احمد ارناؤوط و تزکی مصطفی، ناشر: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، الطبعۃ الأولیٰ ۲۰۰۰ء)
- (طالب الہاشمی، تذکار صحابیات، ص: ۲۹۲، ناشر: البدر پبلیکیشنز، راحت مارکیٹ، اردو بازار، لاہور چوبیسواں ایڈیشن جولائی ۲۰۰۲ء)
- (شاہین، عبدالصبور، صحابیات حول الرسول ﷺ، ص: ۱۴۳، نمبرشمار: ۴۲، عنوان: أم ذر الغفاریۃ، ناشر: نہضۃ مصر للطباعۃ والنشر والتوزیع)
- (https://www.islamweb.net عنوان: من ممرضات الإسلام الأوائل)
- (العسقلانی، ابن حجر، احمد بن علی، ابوالفضل، الإصابۃ فی تمییز الصحابۃ: ۱۴؍۳۵۲، نمبر شمار: ۱۲۱۵۱، تحقیق: الدکتور عبداللہ بن عبد المحسن الترکی، ناشر: مرکز ہجر للبحوث والدراسات العربیۃ والإسلامیۃ، القاہرۃ، الطبعۃ الأولیٰ ۲۰۰۸ء)
- (الذہبی، محمدبن احمدبن عثمان، شمس الدین، سیر أعلام النبلاء: ۲؍۴۶، تخریج حدیث و اشراف علی التحقیق: شعیب الأرنؤوط، ناشر: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، الطبعۃ الأولیٰ ۱۹۸۲ء)
- (حلبی، محمود طعمۃ، المائۃ الأوائل من صحابیات رسول اللہ ﷺ، ص:۳۶۵، ناشر: دارالمعرفۃ، بیروت، لبنان الطبعۃ الثانیۃ ۲۰۰۶ء)
- (العسقلانی، ابن حجر، احمد بن علی، ابو الفضل، الإصابۃ فی تمییز الصحابۃ: ۱۴؍۳۵۲-۳۵۳، نمبر شمار: ۱۲۱۵۱، تحقیق: الدکتور عبداللہ بن عبد المحسن الترکی، ناشر: مرکز ہجر للبحوث والدراسات العربیۃ والإسلامیۃ، القاہرۃ، الطبعۃ الأولیٰ ۲۰۰۸ء، عبد مہنّا، معجم النساء الشاعرات فی الجاہلیۃ والإسلام، ص:۲۹۳، نمبرشمار: ۳۸۲، ناشر: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، الطبعۃ الأولیٰ ۱۹۹۰ء، شاہین، عبدالصبور، صحابیات حول الرسول، ص:۱۴۳، نمبر شمار: ۴۲، عنوان: أم ذر الغفاریۃ، ناشر: نہضۃ مصر للطباعۃ والنشر والتوزیع)
- (ابن حنبل، احمد بن محمد، مسند احمد: ۱۸؍۴۴۳، حدیث نمبر: ۲۷۰۱۴، ناشر: دارالحدیث، قاہرہ، الطبعۃ الأولیٰ ۱۹۹۵ء)
- (الحمیری، المعافری، ابن ہشام، عبدالملک، السیرۃ النبویۃ، حدیث المرأۃ الغفاریۃ: ۲؍۱۹۹، تخریج احادیث و حاشیہ نگار: الشیخ فؤاد بن علی حافظ، ناشر: دارالکتب العلمیۃ، بیروت)
- (شاہین، عبد الصبور، صحابیات حول الرسول، ص:۱۴۳-۱۴۴، نمبر شمار: ۴۲، عنوان: أم ذر الغفاریۃ، ناشر: نہضۃ مصر للطباعۃ والنشر والتوزیع)
- (النساء و مہنۃ الطب فی المجتمعات الإسلامیۃ، ص:۲۲، ناشر: مؤسسۃ المرأۃ والذاکرۃ، القاہرۃ، الطبعۃ الثانیۃ ۲۰۰۴ء)
- (العسقلانی، ابن حجر، احمد بن علی، ابوالفضل، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ: ۱۴؍۱۸۶، نمبر شمار: ۱۱۸۶۷، تحقیق: الدکتور عبداللہ بن عبد المحسن الترکی، ناشر: مرکز ہجر للبحوث والدراسات العربیۃ والإسلامیۃ، القاہرۃ، الطبعۃ الأولیٰ ۲۰۰۸ء)
- (الترمانینی، عبدالسلام، الدکتور، أحداث التاریخ الإسلامی بترتیب السنین: ۱؍۳۸۴، ناشر: المجلس الوطنی للثقافۃ والفنون والآداب، کویت، الطبعۃ الأولیٰ ۱۹۸۲ء، القرطبی، النمری، ابوعمریوسف بن عبداللہ بن عبدالبر، الاستیعاب فی معرفۃ الأصحاب، ص: ۹۳۶، نمبر شمار: ۳۴۵۲، صححہ وخرج احادیثہ: عادل مرشد، ناشر: دارالاعلام، اردن، عمان، الطبعۃ الاولیٰ ۲۰۰۲ء)
- (کحالہ، عمر رضا، أعلام النساء فی عالمی العرب والإسلام: ۴؍۳۳۶، ناشر: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، الطبعۃ الخامسۃ ۱۹۸۴ء)
- (www.kinanah.net/vb/t9015.html)