بیس جنوری کو امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ نے دوسری بار صدارتی عہدے کا حلف لے لیا۔ اس بار ان کو امریکی کانگریس کے دونوں ایوانوں میں واضح اکثریت حاصل ہے، اِس طرح وہ دنیا کے سب سے طاقت ور شخص بن کر سامنے آئے ہیں۔ امریکی سپریم کورٹ میں بھی رپبلکنز کے گہرے اثرات ہوتے ہیں اس لیے وہاں سے بھی ان کے اقدامات کو کلین چٹ ملنے کے پورے امکانات ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی دوبارہ جیت میں سب سے بڑا فیکٹر جوبائڈن انتظامیہ سے عوام کی ناراضگی تھی جس کو سیاسیات کی زبان میں Anti Incumbency کہتے ہیں۔ عرب نژاد مسلمانوں نے بھی بائڈن کی اسرائیل کے لیے اندھی حمایت سے تنگ آکر اس کو سزا دینے کے لیے ٹرمپ کو ووٹ کیا اور اس غلط فہمی میں کہ ٹرمپ شاید ان کے ووٹوں کی قدر کرتے ہوئے اس معاملہ میں بائڈن سے بہتر ثابت ہوں، چھوٹے شر سے بڑے شر کی طرف چلے گئے۔ کچھ مقامی مصلتحیں بھی رہی ہوں گی۔
امریکی انتخابی تاریخ کے مطابق رپبلکن ہمیشہ دائیں بازو کے ایوانجلیکل مسیحیوں کی حمایت پاتے رہے ہیں، ان کا مجموعی ووٹ فیصلہ کن انداز میں رپبلکنز کو ہی پڑتا ہے۔ اور اپنے مذہبی عقائد کے مطابق ایوانجلیکل مسیحی اسرائیل کی تقدیس کرتے ہیں۔ ان کا عقیدہ ہے کہ پہلے اسرائیل میں تمام یہودی جمع ہوں گے، دوسرے سولومن ٹیمپل (ہیکل سلیمانی) کو مسجد اقصیٰ کے ملبہ پر بنائیں گے، تبھی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی آمدِ ثانی (Second Coming) کی راہ ہموار ہو گی، جس کے بعد دنیا بھر میں مسیحیوں کا غلبہ ہو گا۔ یہ ان کے عقیدہ کا خلاصہ ہے۔ مسلمان بھی اسی سے ملتا جلتا عقیدہ رکھتے ہیں، اِس فرق کے ساتھ کہ حضرت مسیحؑ کی آمد سے اسلام کا غلبہ ہو گا۔
کل ملا کر سیناریو یہ بن رہا ہے کہ اس وقت بظاہر ڈونلڈ ٹرمپ کے سامنے اپنے شیطانی منصوبوں کو پورا کرنے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ بنیادی طور پر ایک اخلاق باختہ، متواتر جھوٹ بولنے کا عادی، نرگسیت زدہ، سفید فام نسل کے تفوق کا نمائندہ اور صہیونیوں کا پروردہ انسان ہے۔ نیویارک کی کولمبیا یونیورسٹی میں اسکول آف جرنلزم کے ڈین رہ چکے ٹوم گولڈاسٹائن واشنگٹن پوسٹ کے حوالہ سے بتاتے ہیں کہ ٹرمپ نے اپنی پہلی صدارت کے دوران 30573 جھوٹے یا گمراہ کن بیانات دیے۔ گویا اکیس جھوٹ یومیہ بولے (The Indian Express: Saturday, February 8, 2025)۔ اگر ان اعداد و شمار کو مبالغہ پر مبنی بھی مان لیا جائے تب بھی ٹرمپ کی شخصیت کے ایک نہایت تاریک پہلو کو سامنے لانے کے لیے یہ بالکل کافی ہیں۔
امریکہ اور دوسرے ملکوں میں ہندوستان کے سفیر رہے سردار نوتیج سرنا کے مطابق ٹرمپ کے کام کرنے کے دو پہلو ہیں: ریالٹی شو ہوسٹ اور ریل اسٹیٹ ڈیویلپر۔ داخلی طور پر امریکہ میں اور بیرونی طور پر دنیا خاص کر مشرق وسطی میں اُس کے اقدامات سے اس شخص کے یہی دو پہلو سامنے آرہے ہیں۔
مسلمانوں میں بہت سے دانشور اور صحافی اور تجزیہ کار ٹرمپ سے متعلق بڑی عجیب سی خوش فہمیاں پالے ہوئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ صدارتی انتخابی میں یہودیوں نے ٹرمپ کو ووٹ نہیں دیا ہے۔ لیکن یہ بات اپنے آپ میں غلط ہے اس لیے کہ اگر ایسا ہوتا تو انتخابات سے پہلے سے ہی سفاک اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نتن یاہو ٹرمپ کی متوقع صدارت سے کیوں بڑی توقعات وابستہ کیے بیٹھا تھا؟ اس کا مطلب یہی ہے کہ اس کو معلوم تھا کہ ٹرمپ جیت رہا ہے اور صہیونی لابی کی زبردست حمایت اس کو حاصل ہے اور اس کے بیت ابیض میں آجانے کے بعد ہی دائیں بازو کے اسرائیلیوں کو کھل کھیلنے کا موقع ملے گا۔ چونکہ وہ اس کے اقتدار کی پہلی باری کے فائدے بٹور چکے تھے۔
ان مسلمان لال بجھکڑوں کی دلیل ہے کہ ٹرمپ بنیادی طور پر اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہے، وہ ڈیپ اسٹیٹ سے لڑ رہا ہے وغیرہ۔ ہمارے نزدیک تو یہ دعوا ہی صحیح نہیں۔ یہ تو اپنے اقدامات کو جواز دینے کے لیے متواتر کیا جانے والا ایک پروپیگنڈا ہے جس سے بڑی آسانی سے اختلافی آوازوں کو دبایا جا سکتا ہے۔ ہم ہندوستان میں دیکھتے ہیں کہ ٹرمپ کی فسطائی راہ پر چلنے والے نریندر مودی اس ہتھیار کو کامیابی سے استعمال کرتے آرہے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو ’’چائے والا‘‘ جھولا چھاپ اور ایشور کا اوتار اور نہ جانے کیا کیا کہتے ہیں اور اپنے سیاسی مخالفین پر ’’شہزادہ‘‘ ہونے کی پھبتی کستے رہتے ہیں۔ حالانکہ تیرہ سال سے Lutyan Delhi (دہلی میں انگریزوں کا آباد کیا ہوا سب سے پوش علاقہ) میں وہ رہتے ہیں۔ ملک کے بڑے بزنس مینوں (جو ہندوتوا کے وفادار ہیں) کی سرپرستی کرتے ہیں۔ غریبوں اور کسانوں کا سب سے زیادہ استحصال کرتے ہیں۔ یہی کام امریکہ میں ٹرمپ کر رہے ہیں۔ انہوں نے اقتدار میں آتے ہی سب سے پہلے ان لوگوں کی سزائیں معاف کر دیں جو ان کے وفادار تھے اور جنہوں نے ٹرمپ کی شکست پر کیپٹل ہل پر احتجاج میں ہلہ بول دیا تھا۔ اپنے سیاسی مخالفین کو کچلنا دونوں کا من پسند مشغلہ ہے۔ ذرا سا فرق یہ نظر آتا ہے کہ انڈیا میں میڈیا پہلے سے ہی برہمن وادی اور ہندوتوا کا اسیر ہے اور مسلم دشمنی اس کے ڈی این اے میں ہے۔ اس لیے اس نے مودی کو کام کا آدمی سمجھ کر اس کی نازبرداری پہلے ہی دن سے کی ہے۔ امریکہ کا میڈیا لبرل رجحان رکھتا ہے اس لیے اس کو ٹرمپ کے غیر لبرل اقدامات سے پریشانی ہے۔ٹرمپ بہت بڑا تاجر اور بلینائر ہے بھلا ڈیپ اسٹیٹ کے بغیر اتنا بڑا بزنس مین کیسے چل سکتا ہے؟
ٹرمپ امریکہ کو دوبارہ بڑا بنانے (Make America Great Again) کے نعرہ کے گھوڑے پر سوار ہو کر اقتدار میں آئے ہیں۔ مودی نے بھی اس کی نقل میں میک انڈیا گریٹ اگین کا احمقانہ نعرہ بلند کر دیا ہے۔ عوام کا حافظہ بڑا کمزور ہوتا ہے اور وہ پاپولر جذباتی نعروں میں جیتے ہیں۔ ٹرمپ قدیم زمانے کے بادشاہوں اور شہنشاہوں کی ذہنیت رکھتے ہیں، ان کے لیے کسی اخلاقی، سفارتی روایت یا قانون کے کوئی معنی نہیں۔ پرانے زمانہ میں بھی یہی ہوتا تھا کہ نیا نظام پرانے نظام کو اکھاڑ کر اپنے وفادار لوگوں کو ہر جگہ مسلط کرتا تھا چاہے ان میں اس کی صلاحیت ہو یا نہ ہو۔ یہی داخلی طور پر امریکہ میں ٹرمپ آج کل کر رہے ہیں، اس کا ڈیپ اسٹیٹ سے ان کی مزعومہ لڑائی کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ اور اگر ہو بھی تو بس اتنا کہ پرانی بیوروکریسی اور ڈیپ اسٹیٹ کو ہٹا کر اس کی جگہ نئی اور اپنی وفادار ڈیپ اسٹیٹ ملک پر مسلط کر رہے ہیں۔ کیونکہ نرگسیت زدہ لوگ پہلے سے بنے بنائے قوانین، سول اداروں اور مہذب روایات یا اخلاقیات کی کوئی پروا نہیں کیا کرتے۔ ٹرمپ نے بھی عہدے کا حلف لیتے ہی تابڑ توڑ ایسے ہی اقدامات شروع کر دیے ہیں جن سے لگے کہ وہ ’’روایت‘‘ کے مخالف ہیں۔ وہ اپنے غیر روایتی کاموں کو انجام دینے کے لیے جتنی جلدی میں ہیں اس سے لگتا ہے کہ آخری تجزیہ میں وہ امریکہ کو دنیا میں نکو بنا کر چھوڑیں گے۔
یوروپ جس کو وہ اپنی اکانومی کے لیے پہلے سے بوجھ سمجھتے ہیں ان پر ٹیرف لگا دیے ہیں، ناٹو کے معاشی اخراجات (جس کا بڑا حصہ امریکہ اٹھاتا تھا) وہ کم کر دیے ہیں۔ اپنا فوجی بجٹ بھی کم کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ وہ روس سے بھی یوکرین کے معاملہ میں ایک ڈیل کر کے معاملہ کو رفع دفع کرنا چاہتے ہیں۔ اور ہو سکتا ہے کہ چین سے بھی کوئی ڈیل کر لیں۔ گویا ان کے کام کرنے کا انداز (Modus Operandi) یہ ہے کہ بڑی طاقتوں سے پنگا نہ لے کر چھوٹی مچھلیوں کو ہڑپ کر لیا جائے۔ چنانچہ پانامہ کنال، کناڈا پر بری نظر ڈالنے کے علاوہ غزہ میں تفریحی مقام (Reveria) بنانے کا شیطانی منصوبہ اسی ذہنیت کی غمازی کرتا ہے۔
صدر ٹرمپ کی ٹیم کے خاص لوگ یہ ہیں: نائب صدر جے ڈی وینس، سیکریٹری آف اسٹیٹ (وزیرخارجہ) مارکوروبیو، ڈیفنس سیکریٹری ہیٹ بیگ سیتھ، مشرقی وسطیٰ کے لیے خاص نمائندہ مارکوس ہوکسٹائن، اسرائیل میں امریکی سفیر ہکابی مائکے، دنیا کا سب سے امیر شخص ایلون مسک، انڈین نژاد تلسی گبارڈ جو مسلم مخالف کمنٹ کرتی رہی ہے اور ہندوتوا لابی سے اس کے رشتے ڈھکے چھپے نہیں یہاں تک کہ آر ایس ایس کے بڑے بڑے ذمہ دار اس کی قصیدہ خانی کر رہے ہیں۔ (ملاحظہ ہو ۲۲ فروری 2025ء کے انڈین ایکسپریس میں رام مادھو کا مضمون: Rise and rise of Tulsi Gabbard)
گبارڈ کو چھوڑ کر یہ سب کے سب یہودی یا اعلانیہ صہیونی ہیں۔ سابق صدر جوبائڈن اور اس کی انتظامیہ جھوٹوں کو ہی فلسطین کا نام لے لیا کرتی تھی مگر اِن لوگوں کے لیے فلسطین کا کوئی وجود ہی نہیں ہے۔ غزہ میں سیزفائر کا ڈرامہ سراسر ایک اسٹریٹیجک گیم ہے جس کے تحت تمام اسرائیلی مغویوں کو رہا کروا لیا جائے گا، اس کے بعد اسرائیل کو کھلی چھوٹ دی جائے گی کہ وہ غزہ سے جبراً تمام فلسطینیوں کو باہر نکال دے اور پھر وہاں ٹرمپ اپنے ڈویلپرز بھیجے گا۔ یوں اسرائیل کو ہمیشہ کے لیے فلسطین کے کابوس سے نجات مل جائے گی۔ نتن یاہو کو اتنی جلدی ہے کہ وہ اب بھی مختلف حیلوں بہانوں سے سیزفائر سے نکل جانا چاہتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ اور بنجمن نتن یاہو کے درمیان یہی طے پا چکا ہے۔
باقی رہے عرب حکمراں وہ تھوڑا بہت شور مچائیں گے اس کے بعد قسمت کا لکھا اور مجبوری کا سودا سمجھ کر اس کو قبول کر لیں گے۔ رہا انٹرنیشنل لا اور اقوام متحدہ اور نام نہاد عالمی برادری تو اسرائیل امریکی آشیرباد سے ہمیشہ ان سب کو جوتے کی نوک پر رکھتا آیا ہے، اب وہ کون سا اُس کا کچھ بگاڑ لیں گے!
مارکو روبیو نے ابھی حال ہی میں خطہ کا دورہ کیا، وہ سب سے پہلے اسرائیل گیا، پریس کانفرنس کے دوران بنجمن نتن یاہو اس سے بار بارمعانقہ کرتا رہا۔ روبیون نے غزہ سے متعلق ٹرمپ کے پلان کو بولڈ بتایا، اُس کی خبثِ نیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ اس پریس کانفرنس میں مسلسل ایران کے خلاف بولتا رہا اور اُس نے یہاں تک کہہ دیا کہ مشرق وسطیٰ میں ایک دو اسرائیل اور ہو جائیں تو پورے خطہ میں امن ہی امن آجائے۔ وہ اسرائیل جس نے پچاس ہزار بوڑھوں، بچوں اور عورتوں کو مار دیا! عربوں کے منہ پر اس سے بڑا تماچا اور کیا ہو گا؟
ٹرمپ کے صدارت کا حلف لیتے ہی سب سے پہلا ملک جس کے سربراہ کا وہائٹ ہاؤس نے پُرتپاک خیرمقدم کیا وہ اسرائیل تھا۔ نتن یاہو پہلے سے ہی ٹرمپ سے بڑی توقعات لگائے بیٹھا تھا۔ چنانچہ ٹرمپ اور اس کی انتظامیہ کے سبھی لوگ بڑے فخر سے اس کا اعلان کرتے رہتے ہیں کہ امریکہ میں ان سے پہلے اسرائیل کا اتنا بڑا خیرخواہ اور دوست اور کوئی نہیں آیا۔ بائڈن نے 2000 پاؤنڈ کے جن بموں کی سپلائی روک دی تھی وہ ٹرمپ نے فوراً جاری کر دی۔ اسرائیل چاہتا ہے کہ ٹرمپ کے اقتدار سے وہ جتنے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے وہ جلدی حاصل کر لے۔ چنانچہ اس کا سارا زور اس پر ہے کہ ایران کے نیوکلر ری ایکٹر کو برباد کر دینے کی امریکہ اسے اجازت دے دے۔ تاہم تجزیہ کار نجم سیٹھی کہتے ہیں کہ
’’غالباً ٹرمپ ابھی اس حد تک جانا نہیں چاہے گا کیونکہ اِس پر اگرچہ بہت کم بات ہوتی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ خود امریکہ کی اکانومی اب بہت مضبوط نہیں رہ گئی ہے۔ اس کی آمدن کے برابر ہی اس کے بیرونی مصارف ہوگئے ہیں جن کو ٹرمپ کم کرنا چاہتا ہے۔ اس لیے وہ زیادہ معاملات میں ڈیل کرے گا، دھمکیاں دے گا مگر معاملات وہ مذاکرات کی میز پر ہی طے کرنا چاہے گا۔‘‘
اس تجزیہ میں دم لگتا ہے کیونکہ ٹرمپ کی اعلان کردہ پالیسی America First کی ہے اور وہ اس نظریہ کا قائل ہے کہ ہم نے دنیا بھر کا ٹھیکہ نہیں لیا ہے، جو چیز امریکہ کے مفاد میں ہو گی وہ ہم کریں گے دوسرے جائیں بھاڑ میں۔ بیرونی دنیا میں امریکی مداخلت اور اس کے مصارف کا حجم اتنا زیادہ ہے کہ اس کی معیشت اس کا بوجھ سہار نہیں پا رہی ہے۔ ماہرین معیشت کا خدشہ ہے کہ اگر کسی بھی طرح امریکی ڈالر کی قیمت نیچے گری تو وہ اس کی معیشت کو گہرا زخم لگائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ ٹرمپ جی ٹونٹی یا برکس جیسے معاشی گروپ کو گوارا کرنے کیے لیے تیار نہیں ہے جو اس کی نظر میں ڈالر کو چیلنج دے گا۔
ٹرمپ کا طریقہ ٔواردات یہ ہے کہ وہ دوسروں کی طرف سے خود ہی الٹے سیدھے بیان دے کر ان کو دباؤ میں لے لیتا ہے۔ چنانچہ اُس نے بار بار کہا کہ سعودی عرب اسرائیل کے ساتھ معاہدہ کے لیے تیار ہے اور سعودیوں سے بات ہو چکی ہے۔ اب سعودیہ بے چارہ لاکھ اس کی تردید کرے اور صفائیاں دے مگر ٹرمپ کا حربہ اپنا کام کر چکا ہے۔ آج عربوں، مسلمانوں اور غیر مسلموں میں بھی بہت بڑی تعداد ایسی ہے جو سعودی عرب کی کسی بات پر یقین کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
ابھی حال ہی میں ٹرمپ نے یہی کھیل اردن کے بادشاہ عبد اللہ دوم کے ساتھ بھی کھیلا۔ اُس غریب کو دھمکانے اور اپنا پلان بتانے کے لیے وہائٹ ہاؤس طلب کیا گیا۔ اپنی انگریزی دانی کے بل بوتے پر کنگ عبد اللہ کو بھروسہ رہا ہو گا کہ وہ ٹرمپ کو قائل کرنے کی کوشش کر لیں گے کہ ان کے منصوبہ سے پورے خطہ میں جو پہلے ہی فلیش پوائنٹ بنا ہوا ہے مزید آگ لگ سکتی ہے۔ لیکن ٹرمپ نے اس کا موقع ہی نہیں دیا۔ مختصر وقت میں اپنی بات کر کے پریس بریفنگ کے لیے اٹھ گیا اور پریس کے لوگوں کے سامنے روایتی طور پر کنگ کی تعریف کر کے اپنا پلان دہرا دیا کہ ہم مصر اور اردن کے لیے بہت کچھ کرتے ہیں ان کو بھی ہمارے لیے کچھ کرنا چاہیے۔ یاد رہے کہ اردن کو خاصی امریکی امداد ملتی ہے اور مصر کو تو دنیا میں اسرائیل کے بعد شاید سب سے زیادہ۔ پریس بریفنگ میں غریب کنگ کے چہرہ پر ہوائیاں اڑتی رہیں اور بہت مشکل سے اتنا کہہ پایا کہ ہماری بات چیت مثبت رہی اور سعودی عرب اور مصر بھی غزہ کی آباد کاری کا ایک پلان بنا رہے ہیں ان کو بھی ہمیں سننا چاہیے اور مل جل کر مسئلہ کا ایسا حل نکالا جانا چاہیے جس میں سب کا فائدہ ہو۔ البتہ لوٹنے کے بعد اس نے ایکس (سابق ٹویٹر) کے پلیٹ فارم سے اپنی بات رکھی اور ٹرمپ کے پلان پر تنقید کی۔
مصری صدر کو بھی امریکہ کا دورہ کرنا تھا مگر اس موقع پر اس نے دانشمندی دکھائی اور اپنا دورہ کینسل کر کے وہ مشترکہ عرب منصوبے کے لیے حمایت جٹانے کے لیے دوسرے ملکوں کے دورہ پر نکل گیا۔ عرب حکمرانوں کو شاید یہ امید نہیں تھی کہ امریکہ میں ٹرمپ اتنی طاقت کے ساتھ دوبارہ اقتدار میں آجائے گا اور آتے ہی خطہ میں طاقت کا سارا توازن اسرائیل کے حق میں ڈال دے گا۔
غزہ کے لوگوں نے بے مثال صبر و پامردی کا مظاہرہ کر کے اسرائیل کو شرمسار تو کر دیا مگر اصل کھیل تو اب ہو رہا ہے۔ جس میں خدشہ یہ ہے کہ خاکم بدہن غزہ کو چھوڑنے کے علاوہ ان کے پاس اور کوئی آپشن نہیں ہوگا! سعودی عرب، مصر، اردن اور متحدہ عرب امارات بظاہر ابھی تک ٹرمپ کے پلان کی مخالفت کر رہے ہیں، انہوں نے چار مارچ کو عرب لیگ کی میٹنگ بلائی ہے، اس کے بعد ہو سکتا ہے جلد ہی او آئی سی کا اجلاس بھی طلب کیا جائے۔
عرب ممالک کا غزہ پر پندرہ مہینے سے مسلط کردہ جنگ کے دوران اس کے تئیں، فلسطینیوں کے تئیں اور خاص کر حماس کے ساتھ جو دشمنانہ رویہ سامنے آیا ہے اس کو دیکھتے ہوئے نہیں لگتا کہ عرب ممالک کچھ خاص کر پائیں گے۔ بھلا جو حکمراں عین اُس وقت جب غزہ میں قتل ِعام جاری ہو موسم الریاض کی ناچ رنگ کی محفلوں میں لگے رہیں، جو عین اسی دوران جینیفر لوپیز کے عریاں کنسرٹ منعقد کرانے کی شقاوت دکھا جائیں، جو اپنا ’’شکیرا‘‘ نہ رکنے دیں، اُن سے کوئی اچھی امید کی جا سکتی ہے!
یہی شیخ حرم ہے جو چرا کر بیچ کھاتا ہے
گلیم بوذر و دلق اویس و چادر زہرا!
اس شیخ حرم سے کوئی کیا امید کر لے اور کیوں کر کر لے! سعودی عرب اور اسرائیل میں لفظی جنگ بھی چھڑ گئی ہے۔ ٹرمپ اور اس کی انتظامیہ کے بیانات ہی سونے پر سہاگہ تھے کہ وہائٹ ہاؤس کی آشیرباد کے بعد اپنے آپے سے باہر نتن یاہو نے ایک انٹرویو میں یہاں تک کہہ دیا کہ اگر سعودی عرب کو لگتا ہے کہ فلسطینیوں کو الگ ملک ملنا چاہیے تو سعودی عرب کے پاس بڑا رقبہ ہے وہ اس میں ان کے لیے الگ ملک بنا دے۔ یہ سعودی عرب کی سالمیت پر حملہ تھا، اس نے دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا تھا۔ فوراً سعودی وزیرخارجہ فیصل بن فرحان باہر آئے اور صحافیوں سے کہا These are the words of an occupying mindset (یہ قبضہ کرنے والی ذہنیت کے الفاظ ہیں)۔ سعودی عرب میں سارا پریس اور میڈیا بادشاہت کا غلام ہے، فوراً ہی سب کا لہجہ بدل گیا۔
اب سے چند برس پہلے تک عرب میڈیا میں گویا ایک اجماع تھا اور سب اسرائیل کو العدو الصہیونی (صہیونی دشمن) کہتے تھے۔ مگر چند سال سے سعودی میڈیا کے لب و لہجہ میں فرق آگیا تھا اور نتن یاہو کے لیے وزیراعظم اسرائیل کا لفظ استعمال کرتا تھا۔ حماس کو ارہابی (دہشت گرد) کہتا تھا۔ اتنا ہی نہیں اسماعیل ہنیہ کی شہادت پر تو روزنامہ المدینہ نے خوشی کا اظہار کیا تھا۔ لیکن بادشاہ کے تیور بدلے تو سب کے لہجے بدل گئے، چنانچہ عکاظ، الریاض اور المدینہ تینوں بڑے اخبارات میں اب کیان الاحتلال الاسرائیلی (اسرائیلی قبضہ گیر ریاست) کے لفظ کا استعمال شروع ہو گیا۔ نتن یاہو کے نام سے رئیس الوزراء کا نام غائب ہوگیا۔ تینوں کو فلسطینیوں کے حقوق یاد آگئے۔ ایک سعودی بلاگر نے آگے بڑھ کر اس بات کی وکالت بھی کی کہ سعودی عرب کو حماس اور اخوان پر سے حج و عمرہ پر پابندی اٹھا لینی چاہیے۔
سفیر نوتیج سرنا کہتے ہیں کہ
’’ٹرمپ نے بنجمن نتن یاہو کو اپنی بغل میں کھڑا کر کے پریس کے سامنے کہا تھا کہ وہ مغربی کنارہ کو اسرائیل میں ضم کرنے کی اجازت دے سکتے ہیں، ان کے یہ اقدامات انسانیت کے خلاف ہیں۔ یہ اقدامات اسرائیلی دائیں بازو کی خواہشات پوری کرتے ہیں۔ ان بیانات سے مسئلہ کے دو ریاستی حل کے امکانات معدوم ہو رہے ہیں۔ ٹرمپ اور ان کی ٹیم ایران کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ کل کو یہ کسی بھی دوسرے ملک کے لیے نظیر بن جائے گی۔ کوئی بڑا ملک چھوٹے ملک پر جارحیت کرے گا تو آپ اس کو کس طرح روک سکیں گے۔‘‘
اکیس فروری کو جی سی سی کے ممالک کا ریاض سعودی عرب میں اجلاس ہوا جس میں مصری صدر عبد الفتاح السیسی نے غزہ کی تعمیرِ نو کا اپنا پلان پیش کیا جس پر تمام عرب ممالک کا اتفاق ہو گیا ہے۔ اس پلان کے مطابق غزہ کی تعمیرِنو کے لیے بڑی رقمیں یہی ممالک ادا کریں گے اور ورلڈ کمیونیٹی سے بھی اس میں تعاون کی اپیل کی جائے گی۔ فلسطینیوں کی کوئی بے دخلی نہیں ہو گی اور غزہ میں نئی انتظامیہ لائی جائے گی جس میں حماس شامل نہ ہو گی۔
عربوں کے اس متحدہ اعلامیہ کا فوری اثر دیکھا گیا کہ فوکس نیوز کو ریڈیو انٹرویو دیتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ نے حیرت کا اظہار کیا کہ اردن اور مصر نے ان کے پلان سے اتفاق نہیں کیا۔ دوسرے انہوں نے کہا کہ وہ اب بھی اپنے پلان کے نفاذ کی سفارش کریں گے تاہم وہ اس کو impose نہیں کریں گے اور جبراً نہیں تھوپیں گے۔ خدا کرے یہ سچ ہو اور عرب ممالک اتحاد کے ساتھ اپنے اس منصوبہ پر آگے بڑھ سکیں اور دو ریاستی حل کی طرف کوئی پیش قدمی ممکن ہو سکے۔