کیلنڈر ہزاروں سالوں سے انسانی تہذیب کا حصہ چلے آ رہے ہیں جو گزرنے والے وقت کا حساب رکھنے کے ساتھ ساتھ موسموں کی نشاندہی کرنے اور واقعات کی منصوبہ بندی کرنے کے لیے زیر استعمال رہے ہیں۔ تاریخ میں مختلف ثقافتوں اور علاقوں میں سورج اور چاند کی نقل و حرکت کی بنیاد پر ایسے کیلنڈر بنائے گئے جن میں شمسی کیلنڈر، قمری کیلنڈر اور قمری شمسی کیلنڈر سب سے زیادہ نمایاں ہیں۔ یہ کیلنڈر اس طور پر ایک دوسرے سے مختلف ہیں کہ آیا وقت کی پیمائش
- زمین کے سورج کے گرد گھومنے کے حوالے سے کی جائے،
- چاند کے مختلف مراحل کی بنیاد پر کی جائے،
- یا پھر ان دونوں کے مجموعہ کو سامنے رکھتے ہوئے؟
مروّجہ کیلنڈروں پر ایک نظر
آئیے مختصراً کیلنڈر کے ان نظاموں کا طریقہ کار اور خصوصیات دیکھتے ہیں۔
شمسی کیلنڈر
شمسی کیلنڈر اس بنیاد پر بنایا گیا ہے کہ زمین کتنے عرصہ میں سورج کے گرد ایک چکر پورا کرتی ہے۔ یہ عرصہ تقریباً 365.24 دن ہے۔ اعشاریہ کے بعد جو اضافی حصہ ہے اسے ایڈجسٹ کرنے کے لیے ہر چار سال بعد فروری کے مہینے میں ایک اضافی دن شامل کیا جاتا ہے۔
اسی طرح زمین خود اپنے محور کے گرد بھی گھومتی ہے جس سے دن اور رات وجود میں آتے ہیں، کیونکہ زمین کا جو حصہ گھومتے ہوئے سورج کے سامنے آجاتا ہے وہاں دن ہوتا ہے اور دوسرے حصہ میں رات ہوتی ہے۔
شمسی کیلنڈر کے ایک سال میں 365 دن اور لیپ سال میں 366 دن ہوتے ہیں۔ سال میں 12 مہینے ہوتے ہیں۔ ہر مہینے کے دنوں کی مخصوص تعداد مثلاً 30 یا 31 دن ہوتی ہے۔
گریگوریئن کیلنڈر (Gregorian Calendar) دنیا میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والا شمسی کیلنڈر ہے جسے 1582ء میں پوپ گریگوری XIII نے پہلے سے چلے آنے والے جولین کیلنڈر (Julian Calendar) کو تبدیل کرنے کے لیے متعارف کرایا تھا۔ جولین کیلنڈر میں اگرچہ لیپ سال کا شمار موجود تھا لیکن بعض دیگر حوالوں سے اس میں درستگی کی ضرورت تھی۔
شمسی کیلنڈر اس حوالے سے اہم ہے کہ اس کی مدد سے موسموں کی درست طور پر نشاندہی کی جا سکتی ہے جس سے سال بھر کی مختلف سرگرمیوں کی منصوبہ بندی آسان ہو جاتی ہے خصوصاً زراعت کے نظام کے لیے یہ بہت اہم ہے۔
قمری کیلنڈر
قمری کیلنڈر چاند کے مراحل کی بنیاد پر طے پاتا ہے۔ ایک نئے چاند سے دوسرے نئے چاند تک تقریباً 29.5 دن ہوتے ہیں جو کہ ایک قمری مہینہ ہے۔ قمری کیلنڈر کا ایک سال تقریباً 354 دنوں پر مشتمل ہوتا ہے جو کہ شمسی سال سے تقریباً 11 دن کم ہوتا ہے۔ چنانچہ قمری مہینے اپنا موسم تبدیل کرتے رہتے ہیں اور کسی خاص موسم کے ساتھ منسلک نہیں ہوتے۔
چاند کے مراحل کیا ہوتے ہیں؟ چاند زمین کے گرد چکر کاٹتا ہے اور یہ دونوں مل کر سورج کے گرد چکر کاٹتے ہیں۔ چنانچہ جیسے زمین پر سورج کی روشنی پڑتی ہے، اسی طرح چاند پر بھی سورج کی روشنی پڑتی ہے۔ البتہ چاند کے جس رخ پر سورج کی روشنی پڑتی ہے وہ زاویہ مختلف ہونے کی وجہ سے زمین سے روزانہ مختلف نظر آتا ہے۔ مثلاً پہلا چاند جو ہلال کہلاتا ہے، وہ اُس رخ کا زمین سے سب سے کم نظر آنے والا حصہ ہے جس پر سورج کی روشنی پڑتی ہے۔ اس کے بعد کے دنوں میں یہ روشنی والا حصہ بڑھتا جاتا ہے حتیٰ کہ چودہ دنوں بعد زمین سے چاند کا وہ رخ مکمل نظر آتا ہے جس پر سورج کی روشنی پڑتی ہے۔ اس کے بعد روزانہ روشنی کا یہ حصہ کم ہوتا چلا جاتا ہے حتیٰ کہ مہینے کے آخر میں بالکل غائب ہو جاتا ہے یعنی زمین سے چاند کا روشنی والا رخ نظر نہیں آتا۔ یاد رہے کہ چاند کا مہینہ شروع ہوتے وقت اس پر سورج کی روشنی کا یہ حصہ دائیں طرف نظر آتا ہے، جبکہ درمیان مہینہ سے آخر مہینہ تک یہ چاند کے بائیں طرف ہوتا ہے۔
اسلامی کیلنڈر خالصتاً قمری کیلنڈر ہے جس میں ہر مہینے کا آغاز پہلے چاند یعنی ہلال کو دیکھ کر کیا جاتا ہے، اور کیلنڈر کے سال میں 12 مہینے ہوتے ہیں۔ جبکہ قمری کیلنڈر کی ایک اور مثال عبرانی کیلنڈر بھی ہے جو روایتی طور پر خالصتاً قمری تھا لیکن بعد میں موسموں کی نشاندہی کے لیے اس میں ایڈجسٹمنٹ کر دی گئی، چنانچہ اب یہ قمری شمسی کیلنڈر کے طور پر جانا جاتا ہے۔ ایک خالص قمری کیلنڈر شمسی سال کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہوتا، جس کا مطلب یہ ہے کہ قمری مہینے موسموں میں پیچھے کی طرف آتے ہیں۔ مثال کے طور پر اسلامی کیلنڈر کا مہینہ رمضان وقت کے ساتھ مختلف موسموں میں آتا ہے کیونکہ قمری سال زمین کے سورج کے گرد گھومنے کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا۔
قمری شمسی کیلنڈر
ایسا کلینڈر جو قمری اور شمسی دونوں کیلنڈروں کی خصوصیات رکھتا ہے۔ یہ اصل میں قمری کیلنڈر ہے جو چاند کے مراحل کی بنیاد پر طے پاتا ہے، جبکہ موسموں کی نشاندہی کے لیے اسے شمسی سال کے ساتھ بھی ہم آہنگ بنایا جاتا ہے۔ قمری شمسی کیلنڈر میں عام طور پر 12 مہینے اور لیپ سال میں 13 مہینے ہوتے ہیں۔ سال کی کل لمبائی شمسی کیلنڈ رکی طرح تقریباً 365.24 دن ہوتی ہےلیکن مہینے چاند کے مراحل کی بنیاد پر طے کیے جاتے ہیں۔ 354 دن کے قمری سال اور 365 دن کے شمسی سال کے درمیان فرق کو پورا کرنے کے لیےہر 2 سے 3 سال بعد ایک لیپ مہینہ شامل کیا جاتا ہے۔
روایتی چینی کیلنڈر ایک قمری شمسی کیلنڈر ہے جو نئے چینی سال جیسے تہواروں کی تاریخوں کے تعین کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اس میں تقریباً ہر تین سال بعد ایک لیپ مہینہ شامل کیا جاتا ہے۔
عبرانی کیلنڈر میں قمری مہینے اور شمسی سال دونوں شامل ہیں جو اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ اس کی تاریخیں زرعی موسموں اور مذہبی رسومات کے ساتھ ہم آہنگ ہوں۔
ہندو کیلنڈر بھی قمری شمسی کیلنڈر ہے جو مذہبی تہواروں کے لیے استعمال ہوتا ہے اور اس کی مختلف علاقائی شکلیں ہیں۔
مختصراً یہ کہ شمسی کیلنڈر زمین کے سورج کے گرد چکر پورا کرنے پر طے پاتا ہے اور موسموں کی نشاندہی کے لیے بہترین ہے۔ قمری کیلنڈر صرف چاند کے مراحل پر طے پاتا ہے جس کے مہینوں کے موسم بدلتے رہتے ہیں۔ قمری شمسی کیلنڈر چاند کے مراحل اور سورج کے سال دونوں کا لحاظ رکھتے ہوئے طے پاتا ہے۔ ہر کیلنڈر کوئی خاص مقصد پورا کرتا ہے۔ مثلاً شمسی کیلنڈر سالانہ سرگرمیوں کی منصوبہ بندی کے لیے سب سے زیادہ موزوں ہے۔ قمری کیلنڈر تاریخی طور پر مذہبی تہواروں اور رسومات کے حوالے سے اہم رہے ہیں۔ اور قمری شمسی کیلنڈر ان دونوں خصوصیات کو یکجا کرنے کا مقصد پورا کرتے ہیں۔
اسلامی ہجری کیلنڈر
اسلامی کیلنڈر خالصتاً قمری ہے اور اسے ہجری کیلنڈر بھی کہا جاتا ہے۔ وقت کی پیمائش کا یہ نظام زمین کے سورج کے گرد گھومنے کے بجائے چاند کے مراحل پر مبنی ہے۔ یہ کیلنڈر اسلامی روایت میں بہت اہمیت رکھتا ہے اور بنیادی طور پر عبادات، تاریخی واقعات اور تعطیلات و رسومات کا تعین کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
آغاز اور تاریخ
اسلامی کیلنڈر کا آغاز 622 عیسوی میں پیغمبرِ اسلام حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مکہ سے مدینہ ہجرت سے ہوتا ہے۔ یہ واقعہ اتنا اہم ہے کہ اسلامی تاریخ کے نقطہ آغاز کا باعث بن گیا ہے۔ ہجرت کے سال کو 1 ہجری کہا جاتا ہے۔ خلیفہ ثانی حضرت عمر بن الخطابؓ نے 638 عیسوی میں اسلامی ہجری کیلنڈر قائم کیا تاکہ اسلامی واقعات کی تاریخوں کو ریکارڈ میں لایا جا سکے۔
اسلام کے ظہور سے پہلے جزیرہ نما عرب میں مختلف قسم کے قمری اور قمری شمسی کیلنڈر استعمال ہوتے تھے۔ شمسی کیلنڈر زمین کے سورج کے گرد چکر مکمل کرنے کی بنیاد پر طے پاتا ہے، قمری کیلنڈر چاند کے مراحل کی بنیاد پر طے پاتا ہے، جبکہ قمری شمسی کیلنڈر اس طرح طے پاتا ہے کہ قمری کیلنڈر میں اضافی مہینوں کا اندراج کر کے اسے شمسی کیلنڈر سے ہم آہنگ بنایا جاتا ہے۔ اسلامی کیلنڈر نے ان اضافی مہینوں کا اندراج ترک کر کے خالصتاً قمری کیلنڈر اپنایا۔
ساخت اور خصوصیات
اسلامی کیلنڈر چونکہ خالصتاً قمری ہے جو کہ چاند کے مراحل پر مبنی ہے اس لیے اس میں سورج کے گرد زمین کی گردش کا لحاظ نہیں کیا جاتا۔ اسلامی سال 12 قمری مہینوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ چاند کو زمین کے گرد چکر پورا کرنے پر تقریباً 29.5 دن لگتے ہیں جو کہ ایک قمری مہینہ ہے۔ ایک قمری سال تقریباً 354 یا 355 دن طویل ہوتا ہے جو کہ شمسی سال سے تقریباً 11 دن چھوٹا ہوتا ہے۔
اسلامی کیلنڈر کا سال ان مہینوں پر مشتمل ہوتا ہے: محرم، صفر، ربیع الاول، ربیع الثانی، جمادی الاول، جمادی الثانی، رجب، شعبان، رمضان، شوال، ذوالقعدہ، ذوالحجہ۔ ان میں سے ہر مہینہ 29 یا 30 دن کا ہوتا ہے جو کہ چاند کے زمین کے گرد چکر پر منحصر ہے۔
ہر قمری مہینے کا آغاز نیا چاند یعنی ہلال دیکھنے سے ہوتا ہے، جسے اصطلاحاً رؤیتِ ہلال کہتے ہیں۔ اسلامی تعلیمات و روایات کی رو سے اس کے لیے آسمان میں اصل چاند کا مشاہدہ ضروری ہے۔ اگرچہ مختلف تنظیمیں اور ادارے قمری کیلنڈر کی تشکیل کے لیے فلکیاتی حساب کتاب کی جدید ٹیکنالوجیز بھی استعمال کرتے ہیں۔
اسلام میں اہمیت اور موجودہ استعمال
قمری کیلنڈر اسلامی عبادات اور مذہبی تہواروں کے حوالے سے مسلمانوں کے لیے بہت زیادہ ثقافتی اور روحانی اہمیت رکھتا ہے، مثلاً:
- رمضان جو کہ روزہ اور عبادات کا مہینہ ہے، اس کا آغاز ہلال کے نظر آنے سے ہوتا ہے، یہ مہینہ 29 یا 30 دن تک جاری رہتا ہے، جس کا اختتام شوال کا ہلال نظر آنے پر ہوتا ہے اور یکم شوال عید الفطر کا دن ہے۔ اس مہینے کے دوران صبح سے شام تک روزہ رکھنا اسلام کے پانچ ستونوں (بُنی الاسلام) میں سے ایک ہے۔
- حج جو کہ مکہ مکرمہ میں ذوالحجہ کے مہینے میں ہوتا ہے، یہ بھی اسلام کے پانچ ستونوں میں سے ایک ہے اور جسمانی اور مالی طور پر استطاعت رکھنے والے ہر مسلمان پر فرض ہے۔ عید الاضحیٰ کا اسلامی تہوار بھی اسی مہینہ میں ہے جو اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اپنے بیٹے کو قربان کرنے کی رضامندی کی یاد میں منایا جاتا ہے۔
- محرم کا مہینہ متعدد وجوہات کی بنا پر اہم ہے۔ یکم محرم جو کہ اسلامی سال کا پہلا دن ہے اسے شمسی سال کی طرح جشن کے ساتھ تو نہیں منایا جاتا البتہ یہ اسلامی تاریخ خصوصاً پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کے حوالے سے اہمیت کا حامل ہے۔ محرم کی دسویں تاریخ کو عاشورہ کا دن اسلامی تاریخ کے مختلف واقعات کی نشاندہی کرتا ہے۔
- ربیع الاول کا مہینہ اس اعتبار سے اہم ہے کہ اس میں پیغمبرِ اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادتِ باسعادت ہوئی اور دنیا بھر کے مسلمان اس حوالے سے مختلف طریقوں سے خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔
اگرچہ موجودہ دور میں تقریباً تمام مسلم ممالک انتظامی اور روزمرہ کے کاموں کے لیے شمسی کیلنڈر استعمال کرتے ہیں، البتہ بعض ممالک میں قمری کیلنڈر کی تاریخوں کا اندراج بھی سرکاری دستاویزات پر کیا جاتا ہے۔ سعودی عرب کا سرکاری کیلنڈر قمری ہے، جبکہ دیگر مسلم ممالک میں بھی قمری کیلنڈر مذہبی مقاصد کے لیے سرکاری نظام میں استعمال کیا جاتا ہے۔ قمری کیلنڈر عالمی سطح پر روزمرہ زندگی کے لیے استعمال نہیں ہوتا لیکن یہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے مذہبی عبادات و رسومات کے تعین کے لیے بہت اہم ہے کیونکہ اسی کی رو سے اسلامی تعطیلات، روزہ اور حج وغیرہ کی تاریخوں کا تعین کیا جاتا ہے۔
شمسی اور قمری کیلنڈر میں فرق
بنیادی فرق یہ ہے کہ شمسی کیلنڈر کے سال کا دورانیہ 365.24 دن ہے جس میں زمین سورج کے گرد اپنا چکر پورا کرتی ہے۔ اس کے برعکس قمری کیلنڈر چاند کے مراحل پر مبنی ہے جس کا سال شمسی سال سے تقریباً 11 دن چھوٹا ہوتا ہے۔
شمسی کیلنڈر عالمی سطح پر زیادہ تر غیر مذہبی مقاصد کے لیے استعمال ہوتا ہےجیسے زراعت، کاروبار، حکومتی اور بین الاقوامی معاملات وغیرہ۔ جبکہ قمری کیلنڈر بنیادی طور پر مذہبی تہواروں اور عبادات کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
چونکہ قمری سال چھوٹا ہوتا ہے اس لیے خاص اسلامی دن جیسے آغازِ رمضان، عید الفطر اور عید الاضحیٰ وغیرہ شمسی کیلنڈر میں ہر سال تقریباً 10-12 دن پہلے آتے ہیں، یعنی یہ دن سالوں کے دوران مختلف موسموں میں منائے جاتے ہیں۔
فلکیاتی حسابات کی بحث
اگرچہ قمری کیلنڈر ایک پائیدار نظام ہے جو 1400 سال سے زائد عرصہ سے روایتی طریقے سے استعمال ہو رہا ہے، البتہ جدید دور میں فلکیات اور ٹیکنالوجی میں ترقی نے قمری مہینے کے آغاز کا تعین کرنے کے نئے طریقے وضع کیے ہیں۔ چنانچہ اس حوالے سے ایک بحث یہ ہے کہ آیا فلکیاتی حساب کتاب کی بنیاد پر قمری مہینوں کے آغاز کو معیار مانا جائے؟ تاکہ اس سے ان اختلافات کا سدباب کیا جا سکے جو رؤیتِ ہلال یعنی چاند کو دیکھ کر مہینے کا آغاز کرنے کے حوالے سے سامنے آتے ہیں۔ کیونکہ تقریباً ہر سال ایسا ہوتا ہے کہ اسلامی مہینوں کا آغاز مختلف ممالک میں ایک دن کو نہیں ہو پاتا۔ بہرحال اس سلسلہ میں اسلامی نقطۂ نظر رؤیتِ ہلال پر زور دیتا ہے کہ چاند دیکھ کر مہینے کا آغاز کیا جائے کیونکہ پیغمبرِ اسلام حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق ایسا کرنا ضروری خیال کیا جاتا ہے۔ اور اگر مسلم ممالک کی کوئی متفقہ مرکزی اتھارٹی ایسی طے ہو جائے جو نئے چاند کا اعلان کرے تو یہ مسئلہ بآسانی حل ہو سکتا ہے۔