ہمارے ایک محترم دوست نے کہا کہ رویتِ ہلال میں اختلاف کی وجہ سے مغربی ممالک میں مقیم مسلمانوں کو غیر مسلموں کے سامنے اس پر شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور یہ کہ اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ رویت کے بجاے فلکی حسابات پر رمضان و عیدین کا فیصلہ کیا جائے۔
مغربی ممالک میں مقیم اہلِ علم عموماً یہ بات کرتے ہیں اور اس میں نئی کوئی بات نہیں ہے۔اس دلیل پر کچھ تبصرہ میں نے اپنی کتاب میں لکھا تھا، وہی یہاں پیش کرتا ہوں۔
یہ دلیل بھی عموماً ذکر کی جاتی ہے کہ امتِ مسلمہ کی وحدت کے لیے ضروری یہ ہے کہ روزہ و عید مختلف دنوں میں نہ ہوں۔ ڈاکٹر مظفر اقبال بجا طور پر فرماتے ہیں کہ روزہ و عید میں وحدت کا امت کی وحدت کے ساتھ جو تعلق جوڑا جاتا ہے وہ بالکل مصنوعی ہے اور ان دو امور کا آپس میں کوئی لازمی تعلق نہیں ہے۔ تاہم مغربی ممالک میں مقیم مسلمانوں کے مسائل کے ضمن میں ڈاکٹر ذو الفقار علی شاہ اس دلیل کا بڑی شد و مد سے ذکر کرتے ہیں:
ھناک أمر آخر غایۃ فی الأھمیۃ وھو وحدۃ المسلمین، وکم ھو مخزٍ ومؤسف أن نری المسلمین متفرقین حتی فی أعیادھم، وکم ھو محرج ومؤلم للمسلمین وخصوصاً الذین یعیشون فی الغرب عندما یری أولادھم الصغار کیف أن المسلمین الکبار۔ الذین ھم قدوۃ لھم۔ یرونھم متفرقین۔ فتری فی البلد الواحد فی الغرب فی کل مسجد یصوم ویفطر علی ھواہ، فھذا یتبع اختلاف المطالع، وذاک یعتمد وحدۃ المطالع، وھذا یصوم مع السعودیۃ والآخر یحتفل بالعید مع بلدہ الأم، وکل مسجد یعیب علی الآخر، وکل مسجد یری أنہ یطبق أمر اللہ، وأنہ ھو الذی علی الحق۔
(ایک اور پہلو بھی غایت درجہ اہمیت رکھتا ہے اور وہ ہے مسلمانوں کا اتحاد۔ یہ بات کتنی باعث شرم اور باعث افسوس ہے کہ ہم مسلمانوں کو اپنی عیدوں کے معاملہ میں بھی تفرقہ کا شکار دیکھتے ہیں، اور یہ بات مسلمانوں، بالخصوص ان کے لیے جو مغرب میں رہتے ہیں، کتنی باعث حرج اور کتنی اذیتناک ہے کہ ان کے چھوٹے بچے اپنے مسلمان بزرگوں کو، جو ان کے لیے نمونہ کی حیثیت رکھتے ہیں، ایک دوسرے سے اختلاف کرتا دیکھتے ہیں۔ پس آپ دیکھتے ہیں کہ مغرب میں ایک ہی شہر میں ہر مسجد روزہ و فطر کا فیصلہ اپنی خواہشات پر کرتی ہے۔ کوئی اختلافِ مطالع کی اتباع کرتا ہے تو کوئی وحدۃ المطالع پر یقین رکھتا ہے، کوئی سعودیہ کے ساتھ روزہ رکھتا ہے تو کوئی اپنے آبائی وطن کے ساتھ، اور ہر مسجد دوسروں کو برا کہتی ہے اور ہر مسجد کا خیال یہ ہوتا ہے کہ وہ اللہ کے حکم کی تطبیق کررہی ہے اور یہ کہ جو کچھ وہ کررہی ہے وہی حق ہے۔)
بابِ سوم میں ہم اس مسئلہ کے ایک پہلو پر تفصیلی بحث کرکے دکھائیں گے کہ یہ وحدت اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک پوری دنیا کے مسلمانوں میں سیاسی وحدت قائم نہ ہو کیونکہ مہینہ شروع ہونے کا فیصلہ جو ہیئتِ مقتدرہ کرتی ہے وہ فیصلہ اس ہیئتِ مقتدرہ کی حدودِ ولایت تک ہی نافذ ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر پاکستان کی حکومت فیصلہ کرلے تو وہ افغانستان کی حدود میں نافذ العمل نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح ہم ایک اور مقام پر فقہا کی یہ تصریح بھی نقل کرچکے ہیں کہ جن مقامات پر مسلمانوں کی حکومت نہ ہو وہاں کے مسلمانوں کو جن اہلِ علم پر اعتماد ہو انھی کے فیصلہ پر روزہ و عید کے معاملہ میں اعتماد کریں۔
عملاً بھی اس وقت یہی ہورہا ہے۔ اگر تمام مسلمانوں یا ان کی اکثریت کا اتفاق ایک شخصیت یا ایک رائے پر نہیں ہوتا تو ظاہر ہے کہ جسے جس شخصیت ، یا جس رائے ، پر اعتماد ہو ، وہ اسی کی اتباع کرے گا۔ ایک اور مقام پر ڈاکٹر صاحب نے یہ نکتہ اٹھایا ہے کہ جب نصوص کے ایک ہی مجموعے سے بعض فقہا اختلافِ مطالع کے اعتبار کے لیے اور بعض دیگر فقہا اس کے عدمِ اعتبار کے لیے استدلال کرتے ہیں تو کس کو حق پر سمجھا جائے؟
وإذا کان واحد من القولین صحیحاً ممثلاً لرأی النبی ﷺ، فھل معنی ذلک أن کل من اتبع الرأی الآخر أخطأ فی صیامہ وأخطأ فی فطرہ؟ وإذا کان مقصد النبی ھو واحد من القولین، فلماذا لم یوضحہ بقول واضح الدلالۃ وضوحاً قطعیاً یوفر فیہ علی المسلمین الاختلاف والوقوع فی الخطأ؟
(اگر ان دو اقوال میں ایک ہی صحیح اور رسول اللہ ﷺ کی رائے کی صحیح ترجمانی کرتا ہے تو کیا اس کا مطلب یہ ہوا کہ جس نے دوسری رائے کی اتباع کی اس نے اپنے روزہ اور فطر میں غلطی کی؟ اور اگر نبی کا مقصد ان دونوں اقوال میں کوئی ایک ہی تھا تو کیوں نہ انھوں نے اسے ایسے واضح الدلالۃ اور قطعی الفاظ میں واضح کیا کہ جس کے بعد مسلمانوں کے لیے اختلاف یا غلطی میں پڑنے کی گنجائش ہی نہ ہوتی؟)
اس کے متعلق عرض یہ ہے کہ اگر ڈاکٹر صاحب کے اس اعتراض کو مان لیا جائے تو یہی سوال ہر اس مسئلہ کے متعلق اٹھایا جاسکے گا جس میں اختلاف ہوا ہے۔ بات پھر رویتِ ہلال اور اختلافِ مطالع یا رفع الیدین اور قراء ت الفاتحہ خلف الامام تک ہی محدود نہیں رہے گی بلکہ جہاد کے متعلق بھی یہ سوال اٹھایا جائے گا کہ رسول اللہ ﷺ نے دو ٹوک الفاظ میں کیوں نہ قرار دیا کہ جہاد کی علت محاربہ ہے یا کفر؟ اموال ربویہ کے متعلق بھی پوچھا جائے گا کہ رسول اللہ ﷺ نے قطعی طور پر کیوں نہ بیان فرمایا کہ ان کی حرمت کی علت ان کا موزون اور مکیل ہونا ہے، یا ثمن اور مطعوم ہونا؟ یہ الجھن بھی پیدا ہوگی کہ رسول اللہ ﷺ نے دو ٹوک الفاظ میں کیوں نہ واضح کیا کہ مسلمان سے ذمی کا قصاص لیا جائے گا یا نہیں؟ وقس علی ذلک! یہ بھی ایک سوال ہے کہ کیا اختلافِ مطالع کے اعتبار یا عدمِ اعتبار کے مسئلہ یا کسی بھی اور مسئلہ میں اختلاف کو کسی مصنوعی طریقہ سے ختم کیا جاسکتا ہے؟
کیا اختلاف ختم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ ایک اور اختلافی مسئلہ پر بحث اٹھائی جائے؟ کیا بعینہ ڈاکٹر شاہ کے انداز میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ بعض مسلمان فلکی حسابات کو بنیاد بنانا چاہتے ہیں اور بعض اسے ناجائز سمجھتے ہیں؟ سوال یہ ہے کہ اس اختلاف کو کس طرح رفع کیا جاسکتا ہے؟ ظاہر ہے کہ اختلافی مسائل میں جو فریق جس رائے کو صحیح سمجھے گا وہ اسی کی اتباع کرے گا اور اپنے اس فعل کو اللہ کے امر کی تطبیق سمجھے گا۔ یہ بھی فطری امر ہے کہ اختلافی مسائل میں ایک فریق دوسرے فریق کی رائے پر، جسے وہ غلط سمجھتا ہے، تنقید کرے گا۔ البتہ ظاہر ہے کہ عیب جوئی اور طعنہ زنی کو کسی صورت مستحسن نہیں قرار دیا جاسکتا اور اختلاف کے اظہار کے اپنے آداب ہیں۔ ڈاکٹر صاحب یقینا جانتے ہیں کہ کسی بھی نص کی تعبیر میں اختلاف کی وجہ صرف یہ نہیں ہوتی کہ اس نص کے الفاظ ”قطعی الدلالۃ“ ہیں یا نہیں؟
بلکہ کئی دیگر وجوہات بھی ہوتی ہیں،مثلاً دو یا زائد نصوص کا آپس میں تعلق، ایک نص کا دوسری نص کو مقید یا مخصوص کرنا، کسی خاص نص کا مخصوص سیاق و سباق اور پس منظر، کسی نص سے اخذ و استنباط کے اصول، نص سے استنباط کرنے والے کی مخصوص ذہنی تربیت اور اٹھان وغیرہ۔ یہی وجہ ہے کہ اختلاف کسی بھی قانونی نظام میں لازماً موجود ہوتا ہے اور اس کو کسی بھی مصنوعی طریقہ سے ختم نہیں کیا جاسکتا۔ مغربی ممالک میں تو جمہوریت کی وجہ سے تکثیر، تنوع اور اختلاف رائے کو مستحسن سمجھا جاتا ہے اور اختلاف رائے کی صورت میں اکثریتی رائے پر عمل کے باوجود اقلیت کو اپنی رائے کے اظہار کا حق دیا جاتا ہے۔ نیز اقلیت کا یہ حق بھی تسلیم کیا جاتا ہے کہ وہ اکثریت کو قائل کرنے کی کوشش کرے۔ ہر مغربی ملک میں کتنے ہی قانونی اصول ایسے ہیں جن پر لوگوں کے درمیان اختلاف ہوتا ہے۔
پس اختلاف کوئی اتنی بھی ”قابل شرم“چیز نہیں ہے کہ اس کی وجہ سے مسلمان خواہ مخواہ احساس کمتری میں مبتلا ہوں۔ اگر مسلمان بزرگ اپنے بچوں کو اختلاف کی حقیقت سے آگاہ کریں اور انھیں یہ بھی سمجھائیں کہ اختلاف ایک فطری چیز ہے تو یہ مسئلہ اتنا گھمبیر نہیں رہے گا۔ ساتھ ہی اگر وہ ان کو فقہا کا یہ اصول بھی سمجھائیں تو ان کی تمام الجھنیں دور ہوجائیں گی کہ اختلافی مسائل میں حق پر ایک ہی فریق ہوتا ہے لیکن اس حق کا قطعی علم صرف اللہ تعالیٰ ہی کو ہوتا ہے۔ اس لیے اختلافی مسائل میں ہر مجتہد کو اس رائے پر عمل کرنے کا حق حاصل ہے جسے وہ اپنے اجتہاد کی رو سے صحیح سمجھتا ہے اور ہر مجتہد کو اس کے اجتہاد کا ثواب ملے گا اگرچہ حق تک پہنچنے والے مجتہد کا اجر دگنا ہوگا۔
باقی رہا اس مسئلہ کا اصولی جواب تو وہ ہم پہلے ہی ذکر کرچکے ہیں کہ مزعومہ مصالح کی بنیاد پر منصوص احکام کو معطل نہیں کیا جاسکتا بلکہ مصالح کو نصوص کے تابع کرنا ہوگا۔
(۷ فروری ۲۰۲۵ء)
رویتِ ہلال کے لیے قانون سازی کی ضرورت
رمضان قریب آگیا ہے۔ قوی امکان ہے کہ رویت ہلال کا مسئلہ ہمارے ہاں پھر ایک معرکۃ الآراء مسئلہ بن جائے گا۔ مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے فیصلے پر جگت بازی بھی ہوگی، تنقید بھی ہوگی، لیکن اس امر پر شاید ہی کوئی سنجیدہ بحث ہو کہ اس مسئلے پر ہمارے ہاں کوئی قانون کیوں ابھی تک نہیں بنایا جا سکا؟
برطانوی راج کے دور میں خیبر پختونخوا کے جن علاقوں میں مسلمانوں کی مرکزیت کسی طرح حد تک قائم رہی ، جیسے ریاستِ سوات اور ریاستِ دیر، وہاں عوام رمضان و عیدین کے معاملے میں ریاست کی حکومت کا فیصلہ مانتے رہے اور آج بھی وہ مرکزی کمیٹی کے ساتھ جڑے ہیں؛ لیکن جہاں ایسی مرکزیت باقی نہیں رہی تھی ، جیسے میدانی اور قبائلی علاقے، وہاں لوگ حکومت کے بجائے مقامی علمائے کرام کے فیصلوں پر عمل کرتے تھے۔ خیبر پختونخوا میں کے بعض علاقوں میں افغان مہاجرین کی آمد کے بعد سعودی عرب کے فیصلے کی طرف بھی دیکھا جانے لگا کیونکہ افغان حکومت اس معاملے میں سعودی عرب کے فیصلے کی پابندی کرتی رہی ہے۔ گویا خیبر پختونخوا میں یہ تین رجحان پائے جاتے ہیں۔ قیامِ پاکستان کے بعد مشرقی اور مغربی پاکستان میں ”اختلافِ مطالع“ کا مسئلہ بھی اٹھا۔
رویت ہلال کے مسئلے پر 1954ء میں علمائے کرام ایک طویل مباحثے کے بعد کسی حد اتفاقِ رائے تک پہنچ گئے لیکن ان کے فتوے کو ریاستی سطح پر عملاً نافذ نہیں کیا گیا۔ جنرل ایوب خان کے مارشل لا کے دوران میں”ترقی پسند“ اور ”جدید“ اسلام کا ماڈل پیش کرنے کی کوشش میں رویت ہلال کے مسئلے پر بھی ایسے فیصلے کیے جن کی وجہ سے عوامی سطح پر بے چینی میں مزید اضافہ ہوا ۔ اس مسئلے کے حل کے لیے حکومتی سطح پر پہلی سنجیدہ کوشش ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں ہوئی اور 23 جنوری 1974ء کو قومی اسمبلی نے ایک قرارداد منظور کی جس کے نتیجے میں مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا نظام وجود میں لایا گیا۔ البتہ چونکہ یہ صرف قرارداد تھی اور اس موضوع پر باقاعدہ قانون سازی نہیں کی گئی، اس لیے اس قرارداد سے بعد میں بہت انحراف بھی کیا گیا۔ مثلاً قرارداد میں کمیٹی کے ارکان کو اختیار دیا گیا کہ وہ اپنے میں سے کسی ایک کو اکثریتی ووٹ کے ذریعے ایک سال کے چیئرمین منتخب کرے۔ یہ بھی طے کیا گیا ہر سال اسی طرح نئے چیئرمین کا انتخاب ہوگا۔ معلوم امر ہے کہ اب ایسا نہیں ہوتا۔
مرکزی کمیٹی کے فیصلوں کو اب بھی خیبر پختونخوا کے میدانی اور قبائلی علاقوں میں نہیں مانا جاتا اور یہ معاملہ صرف پشاور کی مسجد قاسم علی خان اور مولانا پوپلزئی تک محدود نہیں ہے، بلکہ مردان، چارسدہ، صوابی وغیرہ میں بھی لوگ مقامی علماء کی پرائیویٹ کمیٹیوں کا فیصلہ مانتے ہیں۔ ان علاقوں کے علمائے کرام کی جانب سے عام طور پر یہ گلہ بھی کیا جاتا ہے کہ خیبرپختونخوا سے آنے والی شہادتوں کو کمیٹی قبول نہیں کرتی۔
اسلامی قانون کے نقطۂ نظر سے رمضان کی رویت پر ”روایت“ کے احکام لاگو ہوتے ہیں، جبکہ شوال و ذی الحجہ اور دیگر 9 مہینوں پر ”شہادت“ یعنی گواہی کے احکام کا اطلاق ہوتا ہے۔ اس فرق کا قانونی اثر یہ ہے کہ رمضان کی رویت کی قبولیت میں کمیٹی کو بہت زیادہ شدت سے گریز کرنا چاہیے۔ اگر بظاہر رویت کی روایت کرنے والا قابلِ اعتماد ہو تو بہت زیادہ چھان پھٹک اور غیر ضروری جرح نہیں کرنی چاہیے۔ اسی طرح اس روایت کے راوی کا مجلسِ قضاء (کمیٹی کی میٹنگ) میں خود آنا بھی ضروری نہیں ہے، بلکہ اس کے لیے ”شہادۃ علی الشہادۃ“ کا طریقِ کار اختیار کیا جا سکتا ہے۔ پھر چونکہ مواصلات کا نظام بہت ترقی کر گیا ہے، اس لیے ضلعی یا صوبائی کمیٹی تک رویت خبر پہنچ جائے، تو اور وہ اس کے نزدیک قابلِ اعتبار ہو، تو اس خبر کی مرکزی کمیٹی تک رسائی بہ آسانی ممکن ہے۔
عیدین کی رویت چونکہ گواہی ہے، اس لیے اس کے گواہ کا مجلسِ قضا میں آنا ضروری ہے، لیکن اس کے لیے مناسب یہی ہے کہ مرکزی کمیٹی اس ضمن میں صوبائی اور ضلعی کمیٹیوں کے فیصلوں پر اعتماد کرے اور اس پر اصرار نہ کرے کہ اس نے خود گواہوں کی گواہی سننی ہے۔ اس شہادت کی قبولیت کے سلسلے میں شاہد پر مناسب جرح بھی کی جاسکتی ہے لیکن اس ضمن میں بھی اختیار صوبائی اور ضلعی کمیٹیوں کو منتقل کرنا چاہیے۔
مرکزی کمیٹی کے ناقدین عموماً یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اتنی شہادتیں آئیں لیکن انھیں مسترد کیا گیا ۔ اصولاً جب تک قاضی گواہی کو قبول نہ کرے ، اس کی حیثیت محض ایک خبر کی ہے اور دلائل و قرائن کی بنیاد پر قاضی گواہی کو مسترد بھی کر سکتا ہے۔ اس لیے سچی بات یہ ہے کہ اس امر میں جانبین بے جا حساسیت کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔
خیبر پختونخوا میں جب مذہبی جماعتوں کے اتحاد ، متحدہ مجلسِ عمل ، کی حکومت تھی تو صوبائی اسمبلی نے قرارداد منظور کی تھی کہ پاکستان میں وحدتِ رمضان و عیدین کو یقینی بنانے کے لیے رویت کے معاملے میں سعودی عرب کا فیصلہ قبول کرنا چاہیے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ چونکہ جمہور فقہائے کرام کے مطابق ”اختلافِ مطالع“ کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے ، اس لیے سعودی عرب کی رویت پاکستان میں قبول کی جا سکتی ہے۔
اس موقف کی بنیاد سعودی عرب کے متعلق یہ خوش گمانی ہے کہ وہاں فیصلے اسلامی قانون کے مطابق ہوتے ہیں، لیکن کئی اہلِ علم نے رویت کے متعلق سعودی عرب کے نظام پر یہ تنقید کی ہے کہ وہاں فیصلے کی بنیاد رویت نہیں، بلکہ فلکی حسابات ہوتے ہیں اور جب ان حسابات کی رو سے چاند کی پیدائش ہو چکی ہو تو اس کے بعد ملنے والی رویت کی خبر کو وہ قبول کر لیتے ہیں۔
شرعاً فلکی حسابات کی بنیاد پر چاند کی پیدائش کو مہینے کے آغاز کے لیے معیار نہیں بنایا جا سکتا، نہ ہی محض اختلافِ مطالع کے عدمِ اعتبار کی راے قبول کر کے اس مسئلے کو حل کیا جا سکتا ہے کیونکہ اصل مسئلہ مطالع کے اختلاف کا نہیں بلکہ قانونی اختیار کی حدود کا ہے ۔ سعودی عرب کی عدالت کا فیصلہ پاکستان میں نافذ نہیں ہو سکتا جب تک پاکستان کی عدالت اسے باقاعدہ طور پر قبول نہ کر لے۔ اس لیے ایسا تبھی ممکن ہو سکے گا جب حکومتِ پاکستان بعض دیگر مسلمان ممالک کی حکومتوں کی طرح یہ فیصلہ کر لے کہ وہ رویت کے متعلق سعودی عرب کا فیصلہ اپنے ملک میں نافذ کرے گی۔ تاہم اس فیصلے کا ایک ناپسندیدہ اثر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ پھر مقامی سطح پر رویت کا اہتمام کرنے میں بہت زیادہ تساہل برتا جائے گا۔
رویت ہلال کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے سب سے زیادہ ضروری امر یہ ہے کہ اس سلسلے میں باقاعدہ قانون سازی کی جائے۔ ایسی کسی قانون سازی کی عدم موجودگی کی وجہ سے ہی 2009ء میں سپریم کورٹ نے ، جبکہ افتخار محمد چودھری صاحب چیف جسٹس تھے، اس سلسلے میں پٹیشن کی سماعت سے معذوری ظاہر کی ۔ 2016ء میں حکومت نے اس مقصد کے لیے قانون کا ایک مسودہ تیار کیا تھا، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ تا حال وہ مسودہ سرد خانے میں پڑا ہے۔
(۱۷ فروری ۲۰۲۵ء)