مسئلہ رؤیتِ ہلال کے چند توجہ طلب پہلو

ہماری عبادات کے نظام  کا ایک بڑا حصہ چاند کی گردش کے ساتھ متعلق ہے اور چاند کا مہینہ چاند کی رؤیت پر طے پاتا ہے۔ اگر انتیس دن کے بعد چاند نظر آجائے تو اگلا مہینہ شروع ہو جاتا ہے ورنہ گزشتہ ماہ کے تیس دن پورے کیے جاتے ہیں۔ پہلی رات کا چاند اس قدر باریک ہوتا ہے کہ اسے دیکھنے کا باقاعدہ اہتمام کیا جاتا ہے اور اس کے ثبوت کے لیے فقہاء اسلام نے ضابطے طے کیے ہیں جن میں فقہی اختلاف فطری امر ہے اور اس کے باعث رمضان المبارک اور عیدین کے تعیّن میں بسا اوقات فرق پڑتا ہے جو بحث و مباحثہ کا مستقل موضوع بن جاتا ہے۔ گزشتہ نصف صدی کے دوران اپنے مختلف مضامین میں راقم الحروف نے اس کے بہت سے فقہی اور معاشرتی پہلوؤں پر لکھا ہے جن کا انتخاب فرزند عزیز حافظ ناصر الدین خان عامر نے زیرنظر مضمون کی صورت میں مرتب کیا ہے جو امید ہے کہ اس مسئلہ کو سمجھنے میں مفید ہو گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

قانونی و فقہی تجزیہ کی ضرورت

 رؤیتِ ہلال کا مسئلہ ہمارے ہاں طویل عرصہ سے بحث و مباحثہ اور اختلاف و تنازعہ کا موضوع چلا آ رہا ہے اور مختلف کوششوں کے باوجود ابھی تک کوئی تسلی بخش اجتماعی صورت بن نہیں پا رہی۔ اکابر علماء کرام کی مساعی سے حکومتی سطح پر مرکزی رؤیتِ ہلال کمیٹی قائم ہوئی تو امید ہو گئی تھی کہ اب یہ مسئلہ مستقل طور پر طے پا جائے گا، مگر ملک کے بیشتر حصوں میں اجتماعیت کا ماحول قائم ہو جانے کے باوجود بعض علاقوں میں انفرادیت کی صورتیں ابھی تک موجود ہیں۔ اور میڈیا کی وسعت، پالیسی اور مزاج کے باعث قومی اجتماعیت کی وہ صورت نہیں بن رہی جس کی مرکزی رؤیتِ ہلال کمیٹی کے وجود میں آنے کے بعد توقع ہو گئی تھی۔

اس کے اسباب کسی حد تک فقہی اور شرعی ہونے کے ساتھ بڑی حد تک سیاسی اور معاشرتی بھی ہیں کہ حکومت اور دینی حلقوں کے درمیان شرعی معاملات میں اعتماد کی وہ فضا وجود میں نہیں آ سکی جو اس قسم کے معاملات میں حکومتی احکام کی عملداری قائم کرنے کے لیے ازحد ضروری ہے۔ ایک اسلامی یا کم از کم مسلم ریاست میں بہت سے معاملات میں حکومت ہی اتھارٹی ہوتی ہے جس کی فقہاء کرام نے مختلف معاملات میں صراحت کی ہے، لیکن اس اتھارٹی کے عملی اظہار کے لیے باہمی اعتماد کی فضا ناگزیر ہوتی ہے۔ 

بیرونی استعمار کے تسلط سے قبل مسلم ریاستوں میں سیاسی اور گروہی اختلافات و تنازعات کے باوجود یہ اعتماد پایا جاتا تھا کہ حکومت خود جیسی بھی ہو، شرعی معاملات میں گڑبڑ نہیں کرے گی اور علماء کرام کے مشورہ سے ہی شرعی مسائل کو طے کرے گی، حتیٰ کہ اکبر بادشاہ کے ’’دینِ الٰہی‘‘ کے عروج کے دور میں بھی عام لوگوں کے شرعی معاملات ان کے قاضیوں کے ذریعے ہی طے کیے جاتے رہے ہیں۔  یہ اعتماد بیرونی استعمار کے تسلط کے زمانے میں قائم نہیں رہا، جس کا تسلسل آزادی کے بعد کے دور میں بھی جاری ہے، اور اسی وجہ سے اس قسم کی بہت سی معاشرتی الجھنیں موجود ہیں جن میں سے ایک رؤیتِ ہلال کا مسئلہ بھی ہے۔ 

اکابر علماء کرام کی ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ ایسے معاملات میں اجتماعیت کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی جائے اور تفرقہ و انتشار سے قوم کو ہر ممکن حد تک بچایا جائے، چنانچہ مرکزی رؤیتِ ہلال کمیٹی کا قیام اکابر علماء کرام کی توجہ اور مساعی کے نتیجے میں عمل میں آیا تھا اور کسی حد تک مرکزیت و اجتماعیت کی صورت سامنے آ گئی تھی۔ خود میرا مشاہدہ ہے کہ مرکزی رؤیتِ ہلال کمیٹی کے باضابطہ قیام سے پہلے گوجرانوالہ کی مرکزی جامع مسجد کو علاقہ میں وہی پوزیشن حاصل تھی جو پشاور کی مسجد قاسم علی خان کو اس سلسلہ میں حاصل چلی آ رہی ہے۔ حضرت مولانا مفتی عبد الواحد رحمہ اللہ تعالیٰ کا شمار ملکی سطح پر اکابر علماء کرام میں ہوتا تھا اور وہ میرے والد گرامی حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کے استاذ محترم تھے۔ انہیں پورے علاقہ میں مرکزیت و مرجعیت حاصل تھی۔ چاند دیکھنے کے لیے مرکزی جامع مسجد میں اس رات شہر کے بڑے بڑے علماء کرام جمع ہوتے تھے، رات گئے تک شہادتوں کا انتظار رہتا تھا، اور بسا اوقات سحری کے وقت فیصلہ ہوا کرتا تھا۔ اردگرد کے علماء کرام جامع مسجد کے فیصلے کے انتظار میں ہوتے تھے۔ والد گرامی حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ بار بار پوچھتے تھے کہ جامع مسجد گوجرانوالہ میں کیا اعلان ہوا ہے؟ لیکن جب مرکزی رؤیتِ ہلال کمیٹی بن گئی اور اس نے کام شروع کر دیا تو جامع مسجد کی چاند رات کی رونقیں آہستہ آہستہ ختم ہوتی چلی گئیں۔ ایسے ہی ایک موقع پر خود میں نے حضرت مفتی صاحبؒ سے پوچھا کہ رؤیتِ ہلال کا فیصلہ کرنے کے لیے علماء کرام کو بلانا ہے؟ تو انہوں نے فرمایا، کوئی ضرورت نہیں ہے، جو فیصلہ مرکزی رؤیتِ ہلال کمیٹی کرے گی، ہم اس پر عمل کریں گے۔

مرکزی رؤیتِ ہلال کمیٹی اگرچہ اس سلسلہ میں مجاز اتھارٹی ہے، مگر اس کے فیصلوں اور طرز عمل سے علمی بنیاد پر اختلاف کی گنجائش ہر دور میں موجود رہی ہے، جس کا اظہار مرکز گریز حلقوں کی طرف سے مسلسل ہوتا آ رہا ہے اور بحث و مکالمہ کے مختلف پہلو اس حوالے سے سامنے آتے رہتے ہیں۔ 

اس پس منظر میں اس بات کی ضرورت محسوس کی جا رہی تھی کہ کوئی صاحبِ علم اس مسئلہ کے تمام متعلقہ پہلوؤں کا فقہی اور علمی بنیاد پر جائزہ لے کر اس کے مجموعی تناظر کو سامنے لائیں تاکہ اس سلسلہ میں کوئی رائے آسانی کے ساتھ قائم کی جا سکے۔ بہت سے اصحابِ علم نے اس موضوع پر قلم اٹھایا ہے اور ان کی کاوشیں مسئلہ کو سمجھنے میں یقیناً‌ مددگار ہیں، لیکن بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبہ قانون کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر مشتاق احمد ہم سب کے شکریہ کے مستحق ہیں کہ انہوں نے زیادہ وسیع تناظر میں اس مسئلہ کا جائزہ لیا ہے اور اس کی فقہی و فنی ضروریات کا احاطہ کرنے کے ساتھ معاشرتی ماحول اور قانونی صورتحال کو بھی سامنے رکھا ہے۔ وہ ایک مسلّمہ علمی خاندان کے فرد ہیں، دینی اور عصری علوم پر یکساں نظر رکھتے ہیں، قانونی پیچیدگیوں اور موشگافیوں سے بخوبی آگاہ ہیں، اور معاشرتی ماحول کے تقاضوں سے بھی اچھی طرح باخبر ہیں۔ چنانچہ ان کی اس علمی کاوش (رویتِ ہلال: قانونی وفقہی تجزیہ) میں ان کی یہ تمام خصوصیات جھلک رہی ہیں۔ انہوں نے جس عرق ریزی کے ساتھ اس مسئلہ کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کیا ہے وہ لائقِ تحسین ہے اور اس کے حل کے لیے جو تجاویز پیش کی ہیں وہ معروضی حالات میں بہت مناسب بلکہ ضروری ہیں۔ اور ہم صرف ایک گذارش کے ساتھ ان کی تمام تجاویز کی تائید کرتے ہیں کہ مطلوبہ مقاصد حاصل کرنے کے لیے ریاستی اداروں، عوام اور دینی حلقوں کے درمیان باہمی اعتماد کی ایسی فضا کا قائم کرنا بھی ضروری ہے جو شرعی معاملات میں حکومتی اقدامات کی عملداری کو یقینی بنا سکے۔

شرعی عبادات و معاملات میں ایام و اوقات کا تعیّن

دنیا میں سورج اور چاند کی گردش کے حساب سے دو قسم کے سن رائج ہیں:

  1. سورج کی گردش کے لحاظ سے جو سن رائج ہے وہ شمسی کہلاتا ہے اور جنوری، فروری،  مارچ وغیرہ اسی  کے مہینے ہیں۔  مروّجہ شمسی سن عیسوی اور میلادی سن بھی کہلاتا ہے جس کا آغاز حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت سے ہوتا ہے۔ اور ۲۰۲۵ء کا مطلب یہ ہے کہ حضرت عیسٰیؑ کی ولادت کو اتنے سال گزر چکے ہیں اور ان کی عمر اب دو ہزار پچیس سال کے لگ بھگ ہوگئی ہے۔ 
  2. چاند کی گردش کے حساب سے جو سن مروّج ہے وہ قمری کہلاتا ہے اور محرم، صفر، ربیع الاول وغیرہ اس کے مہینے ہیں۔ ہجری سن قمری حساب سے ہے جس کا آغاز جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت سے ہوتا ہے، یعنی آنحضرتؐ نے مکہ مکرمہ سے جس سال مدینہ منورہ ہجرت فرمائی تھی وہاں سے ہجری سن شروع ہوتا ہے۔ چنانچہ ۱۴۴۶ھ کا مطلب یہ ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس ہجرت کو چودہ سو چھیالیس سال  ہو چکے ہیں۔ ہجری نبویؐ سے اسلامی سن کے آغاز کا حکم سب سے پہلے امیر المؤمنین حضرت عمر بن الخطابؓ نے دیا تھا اور اس کے بعد سے ہماری اسلامی تاریخ اسی حساب سے چلی آرہی ہے۔

چنانچہ اوقات اور ایام کے تعیّن کے لیے سورج اور چاند دونوں کی گردش کا حساب چلتا ہے۔ البتہ سورج کی گردش والا سال چاند کی گردش والے سال سے چند دن بڑا ہوتا ہے اور گرمی سردی کے موسم بھی اس کے ساتھ چلتے ہیں، اس لیے چاند کی گردش والا سال موسم کے حساب سے بدلتا رہتا ہے۔ ہماری عبادات  اور شرعی معاملات میں سورج اور چاند دونوں کی گردش کا اعتبار ہے۔ شریعت میں دِنوں کا تعیّن چاند سے اور اوقات کا تعیّن سورج سے ہوتا ہے۔ 

ہم جب مہینے اور ایام طے کرتے ہیں تو ان میں چاند کا اعتبار ہوتا ہے مثلاً‌ رمضان کا مہینہ، محرم کا مہینہ۔ اسی طرح شبِ برأت، شبِ معراج، شبِ قدر،ایامِ بیض ، ایامِ عشورہ ، ایامِ حج  وغیرہ۔   روزہ کے دن کا تعیّن چاند سے کرتے ہیں کہ یہ پہلا روزہ ہے، یہ آخری روزہ ہے۔  جبکہ اوقات کا تعلق سورج سے ہےکہ طلوعِ فجر سورج کے طلوع سے پہلے ہو گی اور مغرب سورج کے غروب ہونے کے بعد، اس طرح روزہ کے آغاز و اختتام کا وقت اور اس کے دورانیہ کا تعیّن بھی سورج کی گردش سے ہے۔

حج کے ایام چاند کے اعتبار سے طے ہوتے ہیں کہ آج یوم الترویہ ہے، آج یوم الحج ہے، آج یوم الاضحیٰ ہے۔  لیکن حج کے اوقات اور اعمال کا تعیّن سورج سے ہے کہ  رمی کس وقت کرنی ہے، مزدلفہ کب جانا ہے، عرفات سے کب آنا ہے۔

ہم نمازوں کے اوقات بھی سورج کی گردش سے طے کرتے ہیں۔ فجر، ظہر، عصر، مغرب، عشاء سب نمازوں کے اوقات کا تعلق سورج کی گردش سے ہے۔ سورج کا دورانیہ بڑھ جائے گا تو نمازوں میں وقفہ زیادہ ہو جائے گا اور سورج کا دورانیہ کم ہو گا تو نمازوں میں وقفہ کم ہو جائے گا۔

چنانچہ ایسا نہیں ہے کہ ہم سورج کی گردش کو نہیں مانتے بلکہ ہم تو روزمرہ اسی کو مانتے ہیں کہ ہمارے اعمال اور اوقات سورج کی گردش کے حساب سے چلتے ہیں، اور ایام اور مہینے چاند کی گردش کے اعتبار سے چلتے ہیں۔ البتہ چاند کا مہینہ سورج کے مہینے سے چھوٹا ہے، تقریباً‌ دس دن کا فرق پڑ جاتا ہے۔ مفسرین اس میں بہت سی حکمتیں بیان فرماتے ہیں۔ ایک حکمت یہ کہ چاند کا مہینہ ہر تین سال کے بعد سورج کا مہینہ بدل لیتا ہے اور سورج کے تینتیس سالوں میں چاند کا مہینہ چاروں موسموں میں گردش پوری کر لیتا ہے۔ اگر ایک مسلمان کو بالغ ہونے کے بعد طبعی عمر کو پہنچنے تک تیس پینتیس سال مل جائیں تو وہ سال کے ہر موسم کے روزے رکھ لیتا ہے، ٹھنڈے روزے، گرم روزے، لمبے روزے، درمیانے روزے، چھوٹے روزے، گویا اس نے پورا سال روزے رکھے ہیں۔  

ضمناً‌ یہ عرض کر دیتا ہوں کہ فقہاء یہ مسئلہ بیان فرماتے ہیں کہ زکوٰۃ کا حساب چاند کے مہینوں کے مطابق کرنا  شرعاً ضروری ہے ورنہ سورج کے تینتیس سال میں ایک سال کی زکوٰۃ رہ جائے گئی کیونکہ یہ چاند کے چونتیس سال ہوں گے۔ الغرض شرعی احکام و معاملات میں سورج اور چاند دونوں کی گردش کا لحاظ رکھا گیا ہے مگر اس فرق کے ساتھ کہ ماہ و ایام کی تعیین چاند کے ساتھ جبکہ اوقات کی تعیین سورج کے ساتھ ہے۔ 

رؤیتِ ہلال اور اختلافِ مطالع

رؤیتِ ہلال کے سلسلہ میں چند اصولی باتوں کا تذکرہ مناسب معلوم ہوتا ہے جن سے قارئین کو موجودہ صورتحال کا پس منظر سمجھنے میں کچھ آسانی ہوگی۔

پہلی بات یہ ہے کہ رمضان اور عید کا چاند آنکھوں سے دیکھنے پر کیوں زور دیا جاتا ہے اور اس سلسلہ میں سائنسی آلات اور حساب کا اعتبار کیوں نہیں کیا جاتا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس بارے میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ ’’ صوموا لرؤیتہ و افطروا لرؤیتہ‘‘ (رواہ مسلم)  کہ چاند دیکھ کر رمضان شروع کرو اور چاند دیکھ کر عید الفطر مناؤ۔ ورنہ سائنسی آلات اور سائنسی حساب سے علماء کرام کو کوئی ضد نہیں ہے اور وہ سورج کے طلوع و غروب کے اوقات، نمازوں کے اوقات کے تعیّن، اور دیگر معاملات میں سائنسی حساب کتاب کو ملحوظ رکھتے ہیں۔ البتہ چاند کے مہینہ کے آغاز کے لیے ’’رؤیت‘‘ کو ضروری سمجھتے ہیں جس میں ان کی اپنی رائے کا کوئی دخل نہیں بلکہ جناب رسول اللہؐ کے ارشاد کی وجہ ہے کہ جہاں انہوں نے رؤیت کا حکم دیا ہے وہاں رؤیت ضروری ہے اور جہاں اس کا حکم نہیں دیا وہاں معروف اور مروّجہ حساب کتاب کا لحاظ رکھنے میں کوئی حرج نہیں سمجھا جاتا۔

آخر سورج کے غروب اور طلوع کے ساتھ بھی تو شرعی احکام اور عبادات کا تعلق ہے، کیا علماء کرام کے کسی طبقے نے کبھی اس بات پر زور دیا ہے کہ ہم سورج کو اپنی آنکھوں سے ڈوبتا دیکھ کر روزہ کے افطار اور نمازِ مغرب کے وقت کے آغاز کا فتویٰ دیں گے؟ وہاں وہ ماہرینِ فلکیات کے مرتب کردہ نقشوں اور مروجہ گھڑیوں پر ہی انحصار کرتے ہیں۔ اسی طرح انہیں چاند کے بارے میں ماہرینِ فلکیات کے نقشوں کو فیصلے کا مدار قرار دینے میں بھی کوئی انکار نہیں ہو سکتا لیکن چونکہ اس کے بارے میں آنحضرتؐ کا حکم باقی معاملات سے مختلف اور جداگانہ ہے کہ آپؐ نے چاند دیکھ کر رمضان المبارک کے آغاز اور چاند دیکھ کر ہی عید کرنے کا حکم دے رکھا ہے، اس لیے علماء کرام رمضان اور عید کے لیے چاند کو آنکھوں سے دیکھنا ضروری سمجھتے ہیں۔

دوسری بات یہ ہے کہ کیا عالمِ اسلام میں ایک روز عید ممکن ہے؟ اس سلسلہ میں اصولی طور پر یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ پورے عالمِ اسلام کا مطلع ایک نہیں ہے۔ مثلاً‌ پاکستان اور سعودی عرب کے وقت میں دو گھنٹے کا فرق ہے اور سعودی عرب میں سورج پاکستان سے دو گھنٹے بعد غروب ہوتا ہے۔ یہ بات قرینِ قیاس ہے کہ چاند ایسے وقت میں طلوع ہو کہ پاکستان میں نظر نہ آئے اور سعودی عرب میں نظر آجائے، لہٰذا پاکستان اور سعودی عرب میں ایک دن یا بسا اوقات دو دن کا فرق بھی ہو سکتا ہے اور یہ بات سائنسی حساب کتاب میں تسلیم شدہ ہے۔ اسی طرح پورے عالمِ اسلام میں اوقات کے فرق کو دیکھ کر اندازہ کر لیجیے کہ انڈونیشیا سے مراکش تک اوقات کے فرق کی ترتیب کیا ہے۔ لہٰذا یہ بات تو طے شدہ ہے کہ تمام مسلم ممالک کا مطلع ایک نہیں ہے اور ایک دن یا کبھی کبھار دو دن کا فرق پڑ جانا معمول کی بات ہے۔

چنانچہ جہاں تک اس حقیقت کا تعلق ہے کہ چاند کے طلوع ہونے میں سائنسی طور پر دنیا کے مختلف حصوں میں وقت کا فرق موجود ہے، اور اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ایک علاقے میں ایک روز چاند نظر آتا ہے اور اس سے دور دوسرے علاقے میں دوسرے روز پہلی رات کا چاند دکھائی دیتا ہے، تو یہ بات بطور ایک واقعہ کے درست ہے۔ چاند کی گردش کے حوالے سے ایسا ہونا ممکن ہے بلکہ اکثر ایسا ہوتا رہتا ہے، لیکن کیا شرعاً‌ اس کا اعتبار ضروری ہے؟ اور کیا ایسا کرنا درست نہیں ہے کہ ایک جگہ چاند نظر آجائے تو باقی دنیا کے لوگ اسی کا اعتبار کرتے ہوئے ایک ہی دن روزہ اور عید کا اہتمام کر لیں؟ 

سوال یہ ہے کہ مطلع کے اس اختلاف کا شرعاً‌ اعتبار ہے یا نہیں؟ اسے فقہی اصطلاح میں اختلافِ مَطالع کا اعتبار کرنے یا نہ کرنے سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس میں فقہائے امت کے دو گروہ ہیں۔ حضرت مفتی محمود حسن گنگوہیؒ نے ’’فتاویٰ محمودیہ‘‘ میں اور حضرت مولانا زوار حسین شاہ آف کراچی نے ’’عمدۃ الفقہ‘‘ میں اس کی جو تفصیل بیان کی ہے اس کے مطابق:

  1. حنفی، حنبلی اور مالکی مذاہب کے ائمہ اختلافِ مَطالع کا اعتبار نہیں کرتے اور ان کا یہ ارشاد ہے کہ دنیا کے کسی بھی حصے میں چاند نظر آنے کا ثبوت ہو جائے تو باقی دنیا کے لیے اس کی پابندی ضروری ہو جاتی ہے۔
  2. البتہ شافعی فقہ کے ائمہ اور احناف میں سے امام زیلعیؒ اور سید انور شاہ کشمیریؒ اختلافِ مَطالع کا اعتبار کرتے ہیں۔ ان کا ارشاد ہے کہ جہاں چاند دیکھنے میں ایک دن کا فرق پڑ جائے وہاں مَطالع کا اختلاف معتبر ہے اور ایک جگہ چاند نظر آنے سے دوسری جگہ کے لوگوں پر روزہ اور عید لازم نہیں ہوتے۔

ہمارے ہاں پاکستان میں اگرچہ عمل اب تک دوسرے قول پر ہو رہا ہے لیکن اہلِ سنت کے تینوں مکاتبِ فکر یعنی بریلوی، دیوبندی اور اہلِ حدیث کے اکابر علماء کرام نے صراحت کی ہے کہ ان کے نزدیک مَطالع کا اختلاف شرعاً‌ معتبر نہیں ہے اور دنیا میں کسی ایک جگہ بھی چاند کا شرعی ثبوت مل جانے کی صورت میں باقی ساری دنیا کے مسلمان اس کے پابند ہو جاتے ہیں، چنانچہ:

  1. بریلوی فکر کے ممتاز مفتی حضرت مولانا امجد علی اعظمیؒ ’’بہارِ شریعت‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ایک جگہ چاند ہو تو وہ صرف وہیں کے لیے نہیں بلکہ تمام جہان کے لیے ہے، مگر دوسری جگہ اس کا حکم اس وقت ہے کہ ان کے نزدیک اس کی تاریخ میں چاند ہونا شرعاً‌ ثابت ہو جائے۔
  2. دیوبندی مکتبِ فکر کے ایک بڑے مفتی حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمٰنؒ نے ’’فتاویٰ دارالعلوم دیوبند‘‘ میں صراحت کی ہے کہ مَطالع کا اختلاف عملاً‌ موجود ہے لیکن احناف کے نزدیک شرعاً‌ اس کا اعتبار نہیں ہے، اور اگر مغرب میں چاند نظر آجانے کا ثبوت شرعی ہو جائے تو اہلِ مشرق اس کے مطابق روزہ رکھنے اور عید کرنے کے پابند ہیں۔
  3. اہلِ حدیث مکتبِ فکر کے ہاں قاضی شوکانیؒ کو جو مقام حاصل ہے وہ کسی سے مخفی نہیں ہے اور ’’فتاویٰ محمودیہ‘‘ میں مولانا مفتی محمود حسن گنگوہیؒ نے قاضی شوکانیؒ کی ایک طویل عبارت نقل کی ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ مَطالع کے اختلاف کا شرعاً‌ اعتبار نہیں ہے۔

فقہائے احناف کا معتبر قول یہ ہے کہ رؤیتِ ہلال میں اختلافِ مَطالع کا اعتبار نہیں ہے، چنانچہ فتاویٰ دارالعلوم مطبوعہ کتب خانہ امدادیہ دیوبند حصہ سوم صفحہ ۴۹ میں حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمٰنؒ  فرماتے ہیں کہ 

’’صحیح و مختار مذہب کے موافق اختلافِ مَطالع ہلالِ صوم و فطر میں معتبر نہیں، اہلِ مغرب کی رؤیت سے اہلِ مشرق پر حکم ثابت ہو جاتا ہے‘‘۔ 

اس کے ساتھ ہی حضرت مفتی صاحب نے ’’درِّمختار‘‘ کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ حنابلہ اور مالکیہ کا مذہب بھی یہی ہے۔  چنانچہ اگر اس قول کو اختیار کر لیا جائے تو کوئی الجھن باقی نہیں رہ جاتی اور عالمِ اسلام میں کسی جگہ بھی چاند نظر آجائے تو پورے عالمِ اسلام میں رمضان المبارک اور شوال المکرم کا آغاز کیا جا سکتا ہے اور عید ایک روز منائی جا سکتی ہے۔

مولانا مفتی منیر احمد اخون ہمارے فاضل دوست ہیں اور نیویارک میں ایک علمی مرکز قائم کر کے فتویٰ اور اصلاح و ارشاد کے میدان میں مسلمانوں کی راہنمائی کر رہے ہیں۔ انہوں نے اس پر کتاب لکھی ہے کہ مکہ مکرمہ کی رؤیت پر اعتماد کر کے پوری دنیا کے مسلمانوں کو اس کے مطابق ایک ہی دن روزہ کا آغاز کرنا چاہیے اور ایک ہی دن عید منانی چاہیے۔  اور برصغیر پاک و ہند کے دو بڑے مذہبی مکاتبِ فکر دیوبندی اور بریلوی کے اکابر علماء کرام کے فتاویٰ کو اس تجویز کی بنیاد بنایا ہے۔ 

حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کا یہ ارشاد انہوں نے ’’الکوکب الدری‘‘ سے نقل کیا ہے کہ

’’اگر کلکتہ (ہندوستان) میں چاند جمعہ کی رات میں نظر آیا اور مکہ میں خمیس (جمعرات) کی رات کو، اور کلکتہ والوں کو پتہ نہ چل سکا کہ مکہ میں رمضان خمیس (جمعرات) سے شروع ہو چکا ہے، تو جب ان کو اس بات کا پتہ چلے گا تو ان کے لیے ضروری ہوگا کہ عید مکہ والوں کے ساتھ منائیں اور پہلا روزہ قضا کریں‘‘۔

حضرت مولانا احمد رضا خان فاضل بریلویؒ کا فتویٰ ’’فتاویٰ رضویہ‘‘ سے انہوں نے اس طرح نقل کیا ہے کہ

’’عمرو کا قول، کہ ہندوستان سے دور دراز ملک مکہ معظمہ میں ۲۹ کا چاند ہوگیا ہے تو پھر بہرائچ والوں کو ان کے ساتھ روزہ نہ رکھنے کی بنا پر ایک روزے کی قضا کرنا لازم ہے، صحیح ہے۔ ہمارے ائمہ کرام کا مذہب صحیح معتمد یہی ہے‘‘۔

جبکہ ’’فتاویٰ رحیمیہ‘‘ کے حوالہ سے حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کا فتویٰ ان الفاظ میں نقل کیا گیا ہے کہ

’’اگر مکہ یا مدینہ میں شرعی ثبوت کے ساتھ خبر آجائے کہ وہاں یہاں سے پہلے چاند ہوا ہے تو ہندوستان والوں پر اس خبر کی وجہ سے ایک روزہ رکھنا فرض ہوگا‘‘۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ جمہور فقہائے احناف کے ساتھ ساتھ حنبلی اور مالکی فقہ کے ائمہ کرام کے درمیان اس مسئلے پر کوئی اختلاف نہیں۔ اہلِ حدیث مکتبِ فکر کے قاضی شوکانیؒ بھی اس بات پر متفق ہیں کہ دنیا کے مختلف حصوں میں پہلی رات کا چاند نظر آنے کے اوقات میں فرق موجود ہونے کے باوجود مَطالع کے اس اختلاف کا شرعاً‌ اعتبار کرنا ضروری نہیں ہے، اور دنیا کے کسی بھی حصے میں چاند نظر آنے کی صورت میں باقی دنیا کے مسلمان بھی اسی روز عید اور روزہ کا اہتمام کر سکتے ہیں۔ اس لیے ان بزرگوں کی بات مان کر نہ صرف ملک بھر میں ایک ہی روزے اور عید کا اہتمام ممکن ہے بلکہ عرب ممالک کے ساتھ عید اور روزہ میں ہم آہنگی بھی ہو سکتی ہے۔

میری رائے یہ ہے کہ جب جمہور فقہائے احناف، مالکیہ، حنابلہ کے نزدیک اختلافِ مَطالع کا اعتبار نہیں ہے اور کسی ایک جگہ چاند کا ثبوت ہو جائے تو باقی دنیا کے لیے اس پر عمل کرنا ضروری ہو جاتا ہے،  تو پھر اس سلسلہ میں لمبے بکھیڑے میں پڑنے اور عام مسلمانوں کو خواہ مخواہ پریشانی میں ڈالنے کی بجائے وحدتِ امت کے تقاضوں کو ملحوظ رکھنا زیادہ بہتر ہے، اور اکابر علماء کرام کو اس سلسلہ میں باہمی مشاورت کے ساتھ کوئی اجتماعی اجتہادی فیصلہ کرنا چاہیے۔  

   ایک موقع پر سرحد اسمبلی نے ایک متفقہ قرارداد منظور کی کہ مرکزی رؤیتِ ہلال کو توڑ دیا جائے اور رمضان المبارک اور عیدین وغیرہ کے نظام کو سعودی عرب کے ساتھ منسلک کر کے جس روز سعودیہ میں چاند کا اعلان ہو اُس کے مطابق روزہ اور عید کا پاکستان میں بھی اعلان کر دیا جائے۔   ہمارے نزدیک سرحد اسمبلی کی یہ قرارداد ملک بھر کے دینی حلقوں اور اربابِ حل و عقد کی سنجیدہ توجہ کی مستحق ہے۔  پاکستان کے عوام کی ایک مدت سے خواہش ہے کہ وہ سب ایک ہی دن عید منائیں اور اکٹھے روزہ رکھیں، ان کی یہ خواہش ناجائز نہیں ہے، اسے پورا کرنے میں شرعاً‌ بھی کوئی رکاوٹ نہیں ہے، اور فقہائے امت کی بڑی تعداد ان کے اس حق کی حمایت کر رہی ہے، تو پاکستان کے تمام مکاتبِ فکر کے سرکردہ علماء کرام کو بھی اس پر غور کرنا چاہیے، ان کے مل بیٹھ کر نیا اجتہادی فیصلہ کرنے سے عوام کو یہ خوشی مل سکتی ہے تو اس سے گریز نہیں کرنا چاہیے۔ 

 مغربی ممالک کی صورتحال،    فلکیاتی حسابات، سعودی عرب کا اعلان

مسلمانوں میں وحدت کا اہتمام اور متفقہ فیصلہ بہت زیادہ ضروری ہے۔ یہ صورتحال انتہائی تکلیف دہ ہے کہ امریکہ، برطانیہ اور دیگر مغربی ممالک میں ایک ہی شہر میں کچھ لوگوں کا روزہ ہوتا ہے اور کچھ کا نہیں ہوتا اور عید کے موقع پر بھی کچھ مسلمان عید منا رہے ہوتے ہیں اور کچھ روزے سے ہوتے ہیں۔ بالخصوص امریکہ اور برطانیہ میں بعض ذمہ دار حضرات کے بقول حکومت مسلمانوں کو عیدین کے لیے سرکاری چھٹی کی سہولت دینے کے لیے تیار ہے لیکن اس اختلاف کی وجہ سے ایسا نہیں ہو پا رہا۔ اجتہادی مسائل میں اختلافِ رائے اور مختلف اقوال کا سب سے بڑا فائدہ یہی ہوتا ہے کہ اجتماعی حالات اور ضروریات کے تحت ان میں سے کوئی قول بھی اختیار کیا جا سکتا ہے اور علماء  کرام باہمی مشاورت و اتفاق سے کوئی بھی فیصلہ کر سکتے ہیں، لیکن امریکہ، برطانیہ اور دیگر مغربی ممالک کے علماء کرام اس سہولت سے فائدہ اٹھانے کے لیے تیار دکھائی نہیں دیتے جو اس مسئلے کا افسوسناک پہلو ہے۔

مغربی ممالک میں اِن دنوں علمی و دینی مجالس میں چاند کا مسئلہ ہی زیربحث رہتا ہے۔ مسلمانوں کا ایک حلقہ ایسا ہے جو فلکیات کے حساب کی بنیاد پر پہلے سے رمضان المبارک اور عید الفطر کے دن کا اعلان کر دیتا ہے۔ ان حضرات کا موقف یہ ہے کہ چونکہ فلکیات کا حساب اس قدر سائینٹفک ہو چکا ہے کہ اس کے اندازوں میں غلطی کا امکان نہیں ہوتا، اس لیے جس طرح ہم نمازوں کے اوقات کے تعیّن میں فلکیات کے حساب اور سائنسی اداروں کی تحقیقات پر اعتماد کر کے پورے سال کا نقشہ پہلے سے چھپوا لیتے ہیں کہ فلاں دن اس وقت سورج طلوع ہوگا، اس وقت زوال ہوگا، اس وقت سورج غروب ہوگا، اور اس وقت شفقِ احمر یا شفقِ ابیض غائب ہوگی، اور اس کے لیے ہم سورج کو دیکھنے اور اس کی چال پر نظر رکھنے کا اہتمام نہیں کرتے، اسی طرح چاند کے معاملے میں بھی سائنسی اداروں کی تحقیقات پر اعتماد کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، اور ان کے بنائے ہوئے نقشوں کے مطابق ہمیں پہلے سے روزے، عید اور قربانی وغیرہ کے ایام کا تعیّن کر لینا چاہیے۔ چنانچہ وہ عملاً‌ ایسا ہی کرتے ہیں۔

دوسری طرف علماء کرام کی ایک بڑی تعداد اور دینی تنظیموں کا موقف یہ ہے کہ چاند کے معاملے میں چونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بطورِ خاص رؤیت کا حکم دیا ہے اور تاکید فرمائی ہے کہ چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر عید کرو۔ اس لیے رمضان، عید الفطر اور حج وغیرہ کے ایام کے تعیّن کے لیے چاند کی رؤیت ضروری ہے اور صرف اسی بنیاد پر روزے اور عید کا اعلان کیا جا سکتا ہے۔ ان حضرات کا کہنا ہے کہ سورج کی رفتار کے ساتھ ہماری نمازوں کے اوقات کا تعیّن وابستہ ہے لیکن اس کے بارے میں رؤیت کے اہتمام کا اس طرح کا حکم نہیں ہے، اس لیے اس میں ہم سائنسی اداروں کی تحقیقات کو بنیاد بنا لیتے ہیں اور روزانہ سورج کی رفتار دیکھے بغیر پہلے سے نمازوں کے اوقات کا تعیّن کر لیتے ہیں، مگر چاند کے بارے میں رؤیت کا بطور خاص حکم ہے اس لیے اس معاملے میں رؤیت کو ہم ضروری سمجھتے ہیں۔

ایک موقع پر امریکہ میں ایک دوست نے سعودی عرب کے مفتی اعظم الشیخ عبد العزیز بن عبد اللہ آل الشیخ حفظہ اللہ تعالیٰ کا ہفت روزہ ایشیا ٹربیون میں شائع ہونے والا ایک بیان دکھایا  جس میں انہوں نے واضح طور پر کہا کہ محکمہ موسمیات کی پیشگوئی کی بنیاد پر رمضان اور شوال سمیت دیگر اسلامی مہینوں کی تاریخ کا تعیّن نہیں کیا جا سکتا، اور نیا چاند دیکھے بغیر قبل از وقت پیشگوئی غیر اسلامی ہے۔ اس دوست کا مقصد یہ تھا کہ جب سعودی عرب کے مفتی اعظم رؤیت کو شرعاً‌ ضروری قرار دے رہے ہیں تو سعودی عرب کے رؤیت کے اعلان پر تحفظات کی بنیاد کیا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ تحفظات تو بہرحال بہت سے علماء کرام کو ہیں اور خود مجھ سے بعض ثقہ اور جید علماء کرام نے مختلف ممالک میں ان تحفظات کا ذکر کیا ہے، لیکن اس سلسلہ میں سعودی حکومت سے بات ہونی چاہیے بلکہ خود سعودی عرب کو عالمِ اسلام کے علماء کرام کو اعتماد میں لے کر رؤیتِ ہلال کا کوئی ایسا نظام طے کرنا چاہیے جو سب کے لیے قابلِ قبول ہو، اور سعودی حکومت کو حرمین شریفین کے حوالے سے اسے دینی ذمہ داری سمجھتے ہوئے اس کا اہتمام کرنا چاہیے۔

امتِ مسلمہ کے جمہور علماء کرام کا موقف یہی ہے اور امریکہ میں بھی دینی حلقوں کی اکثریت اسی پر عمل کرتی ہے، البتہ اصولی طور پر رؤیت کی بنیاد پر روزے اور عید وغیرہ کا فیصلہ ضروری سمجھنے کے باوجود اس کی تفصیل پر اختلاف ہے۔ ایک حلقہ یہ کہتا ہے کہ دنیا میں کہیں بھی چاند دیکھے جانے کی خبر شرعی اصولوں کے مطابق مل جائے تو روزے اور عید کا اعلان کر دینا چاہیے۔ چنانچہ عرب حلقے اور ان کے دینی مراکز چاند دیکھنے کا اہتمام نہیں کرتے بلکہ سعودی عرب میں چاند کا اعلان ہوجانے پر روزے اور عید کا فیصلہ کر لیتے ہیں۔  مگر بہت سے دینی حلقے بالخصوص پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے علماء کرام اور دینی مراکز امریکہ میں الگ سے چاند دیکھنے کے اہتمام کو ضروری سمجھتے ہیں اور اس کی بنیاد پر روزے اور عید کے دن کا تعیّن کرتے ہیں۔

اس وجہ سے  کم و بیش ہر سال یہ کیفیت ہوتی ہے کہ دو عیدیں تو یقینی ہیں، کبھی کبھار بعض علاقوں میں تین عیدیں بھی ہو جاتی ہیں۔ ایک مرتبہ واشنگٹن (ڈی سی) میں ایک پاکستانی فیملی سے تعلق رکھنے والے دوست مجھے بتا رہے تھے کہ بعض گھروں میں بھی ایسا ہو جاتا ہے کہ میاں عید کر رہے ہیں اور بیوی روزے سے ہے، باپ کا روزہ ہے اور بیٹے عید کی نماز پڑھنے جا رہے ہیں، بعض حضرات اپنے رشتہ داروں سے عید ملنے جاتے ہیں تو وہ آگے روزے سے ہوتے ہیں۔

چند سال قبل ہیوسٹن (ٹیکساس ) کے جامعہ اسلامیہ کے مہتمم مولانا حافظ محمد اقبال نے، جو چشتیاں سے تعلق رکھتے ہیں اور علامہ بنوری ٹاؤن کراچی کے فاضل ہیں، اس مسئلہ پر میرے ساتھ ایک مستقل نشست کی کہ ہمارے مرکز میں نمازیوں کی اکثریت عرب حضرات کی ہے جو سعودی عرب کے اعلان پر روزہ اور عید کرتے ہیں، جبکہ ہم امریکہ میں چاند دیکھنے کا اہتمام کرتے ہیں، اس لیے ہمارے ہاں ہر سال خلفشار کی صورت ہوتی ہے، عرب حضرات ہماری بات نہیں مانتے اور ہم ان کی بات کو قبول نہیں کرتے۔ حافظ محمد اقبال صاحب کا کہنا تھا کہ وہ عمل تو ان حضرات کے ساتھ کرتے ہیں جو امریکہ میں چاند کی رؤیت کو ضروری سمجھتے ہیں، لیکن ان کے خیال میں اب یہ ہوتا جا رہا ہے کہ مسلمانوں کی اجتماعیت کے لیے اور مسلمان حلقوں اور خاندانوں کو اس خلفشار سے نجات دلانے کے لیے سعودی عرب کے اعلان پر آجانا چاہیے۔ انہوں نے اس سلسلہ میں خاصا مواد جمع کر رکھا تھا کہ جب احناف متقدمین کے نزدیک اختلافِ مَطالع کا اعتبار نہیں ہے اور ہمارے بڑے اکابر کی صراحت موجود ہے کہ اہلِ مغرب کی رؤیت اہلِ مشرق کے لیے حجت ہے، تو پھر ہمیں مسلمانوں کی وحدت کے لیے اسی قدیمی موقف کی طرف واپس چلے جانا چاہیے۔

ایک سال بالٹیمور (میری لینڈ) میں مولانا محمد عرفان صاحب کے دارالعلوم میں بھی اسی قسم کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔ وہاں دوست مجھ سے پوچھتے کہ آپ کا فتویٰ کیا ہے؟ میں نے ہر جگہ یہ عرض کیا کہ میں مفتی نہیں ہوں اور نہ ہی فتویٰ دیا کرتا ہوں، البتہ ایسے مسائل پر یہ رائے ضرور رکھتا ہوں کہ جس معاملے میں فقہی اور شرعی طور پر ایک سے زیادہ آرا کی گنجائش موجود ہو اور اجتہادی بنیاد پر فقہاء کے اقوال مختلف ہوں، وہاں مسلمانوں کی اجتماعیت اور عمومی مصلحت کو فیصلے کی بنیاد بنایا جانا چاہیے۔

مثال کے طور پر میں نے ایک مسئلہ کا حوالہ دیا کہ بٹائی یعنی حصے پر زمین کاشت کے لیے دوسروں کو دینے کے بارے میں حضرت امام ابوحنیفہؒ کا فتویٰ یہ ہے کہ یہ ناجائز ہے، مگر صاحبین یعنی امام ابویوسفؒ اور حضرت امام محمدؒ اس کے جواز کا فتویٰ دیتے ہیں۔ اس پر فقہاء احناف نے تفصیلی بحث کی ہے۔ ایک دور میں اس مسئلہ پر میں نے بھی کچھ کام کیا تھا اور ہفت روزہ ترجمانِ اسلام لاہور میں اس موضوع پر میرا ایک مقالہ کئی قسطوں میں شائع ہوا تھا۔ اس دوران فقہاء احناف کی بحث کا مطالعہ کرتے ہوئے حضرت ملا علی قاریؒ کا یہ قول میری نظر سے گزرا، جس کا میں نے اپنے مضمون میں حوالہ بھی دیا، کہ مزارعت کے مسئلہ پر دلائل تو حضرت امام ابوحنیفہؒ کے ساتھ ہیں لیکن عمومی مصلحت چونکہ صاحبین کے قول پر عمل کرنے میں ہے اس لیے فتویٰ انہی کے قول پر دیا جاتا ہے۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے حضرت مولانا ظفر احمد عثمانیؒ نے بھی اسی طرح کی بات لکھی ہے۔ چنانچہ اس نوعیت کے مسائل میں میرا طالب علمانہ رجحان یہی پختہ ہوگیا ہے کہ اجتہادی مسائل میں جہاں دونوں طرف گنجائش موجود ہو، فیصلہ کرتے وقت مسلمانوں کی اجتماعیت اور عمومی مصلحت کو ترجیح دینی چاہیے۔

ایک سال رمضان المبارک کا آغاز دارالحکومت واشنگٹن کے علاقے میں کیا اور دارالہدیٰ (ورجینیا) میں اتوار اور پیر کی درمیانی شب میں تراویح پڑھی، لیکن واشنگٹن میں ہمارے ہی حلقے کی دوسری مساجد میں نہ تراویح ہوئی اور نہ ہی اگلے دن لوگوں کا روزہ۔ وہاں مولانا عبد الحمید اصغر نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کی کیا رائے ہےتو میں نے عرض کیا کہ سب سے زیادہ ضروری بات یہ ہے کہ یہاں کے علماء کرام اور دینی حلقے باہمی مشاورت سے اجتماعی فیصلہ کریں، البتہ اس فیصلے میں وہ کسی طرف بھی جا سکتے ہیں۔  وہ اختلافِ مَطالع کا اعتبار کرتے ہوئے چاند کی علاقائی رؤیت کو بنیاد بنانے کا فیصلہ کریں تو یہ بھی شرعاً‌ درست ہے۔ اور اختلاف مَطالع کا اعتبار نہ کرتے ہوئے سعودی عرب یا کسی دوسری جگہ چاند نظر آنے کے اعلان پر روزہ اور عید کا فیصلہ کریں تو اس میں بھی شرعاً‌ کوئی حرج نہیں۔  مگر اجتماعیت ضروری ہے اور مسلمانوں کو خلفشار سے نکالنا ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ سعودی عرب کے اعلان پر علماء کرام کے تحفظات ہیں کہ وہاں رؤیت پر فیصلہ ہوتا ہے یا کیلنڈر کی بنیاد پر اعلان کیا جاتا ہے، اس لیے ہم اس اعلان پر فیصلہ نہیں کرتے۔

پاکستان کی صورتحال اور مرکزی رؤیتِ ہلال کمیٹی 

جہاں تک مرکزی رؤیتِ ہلال کمیٹی کا تعلق ہے اس کا پس منظر یہ ہے کہ صدر محمد ایوب خان مرحوم کے دور تک صورتحال یہ تھی کہ اگرچہ سرکاری طور پر چاند نظر آنے یا نہ آنے کا اعلان کیا جاتا تھا لیکن چونکہ اس کا نظم صرف سرکاری ہوتا تھا اس لیے عام طور پر اس کا اعتبار نہیں کیا جاتا تھا اور ہر علاقے میں علماء کرام اپنے طور پر چاند دیکھنے کا اہتمام کر کے اس کے مطابق فیصلے کرتے تھے۔ اس صورت میں اکثر ایسے ہو جاتا تھا کہ

  • ایک شہر میں عید ہو رہی ہے مگر اس سے تھوڑے فاصلے پر دوسرے شہر میں عید نہیں ہے۔
  • یہ بھی ہوتا تھا کہ ایک مسلک کے لوگ روزے رکھے ہوئے ہیں مگر دوسرے مسلک کے لوگوں کی عید ہے۔
  • یہ بھی ہوتا تھا کہ ایک شہر کے کچھ لوگ عید منا رہے ہیں اور اسی شہر کے باقی لوگوں کا روزہ ہے۔
  • بلکہ ایک بار گوجرانوالہ میں ایسا بھی ہوا ہے کہ خود ہمارے دیوبندی مسلک کے بعض علماء کرام نے عید کی اور اسی مسلک کے دوسرے علماء عوام کو روزہ رکھوائے ہوئے تھے۔

پشاور کی مسجد قاسم علی خان کی طرح ہمارے ہاں گوجرانوالہ کی مرکزی جامع مسجد اس سلسلے میں سرگرمیوں کا مرکز ہوا کرتی تھی اور روزے یا عید کا چاند دیکھنے اور اس سلسلے میں شہادتیں لے کر فیصلہ کرنے کے لیے علماء کرام استاد العلماء حضرت مولانا مفتی عبدالواحدؒ کے پاس جمع ہو جایا کرتے تھے۔ بسا اوقات ساری ساری رات بحث و مباحثے میں گزر جایا کرتی تھی اور فیصلہ نہیں ہو پاتا تھا۔ یہ صورتحال پریشان کن ہو گئی تھی اور ہر طرف افراتفری کی کیفیت ہو جایا کرتی تھی۔  اور ایک بار ایسا بھی ہوا کہ عید کے سرکاری اعلان کو قبول نہ کرنے پر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ، مولانا غلام غوث ہزارویؒ، مولانا احتشام الحق تھانویؒ اور مولانا مفتی محمد حسین نعیمیؒ جیسے اکابر علماء کرام گرفتار کر لیے گئے اور انہیں کم و بیش ایک ماہ جیل میں رہنا پڑا۔ 

اس پس منظر میں کچھ اصحابِ فکر نے دونوں وجوہ کو سامنے رکھتے ہوئے مسئلے کا حل پیش کیا کہ روزے یا عید کا اعلان تو سرکاری طور پر ہی ہونا چاہیے تاکہ باہمی خلفشار سے بچا جا سکے، لیکن یہ اعلان سرکاری اہلکاروں کی طرف سے نہ ہو بلکہ اس کے لیے تمام مکاتبِ فکر کے جید علماء کرام کی ایک مشترکہ کمیٹی قائم کر دی جائے جو چاند کے دیکھے یا نہ دیکھے جانے کا شرعی اصولوں کے مطابق فیصلے کرے اور اس کا اعلان بھی وہی کرے، لیکن اس کے اعلان کو سرکاری اعلان کی حیثیت حاصل ہو تاکہ اس پر ملک بھر میں یکساں طور پر عملدرآمد ہو سکے۔

مجھے یاد ہے کہ مسئلہ کے اس حل کو عملی صورت میں لانے کے لیے حضرت مولانا مفتی محمودؒ سب سے زیادہ فکرمند تھے، انہی کی کوششوں سے مختلف مکاتب کے سرکردہ علماء کرام پر مشتمل مرکزی رؤیتِ ہلال کمیٹی کا سرکاری طور پر قیام عمل میں لایا گیا تھا اور علماء کرام کے اس مطالبے کو تسلیم کر لیا گیا کہ رؤیتِ ہلال کا نظام تمام مکاتبِ فکر کے سرکردہ اور نمائندہ علماء کرام کی ایک کمیٹی کے سپرد کر دیا جائے اور حکومت اس کمیٹی کے فیصلوں پر عملدرآمد کی ذمہ داری قبول کرے۔    اس طرح مختلف مکاتبِ فکر کے ذمہ دار حضرات کو مشورہ میں شریک کرنے کی روایت قائم ہوئی اور بڑے بڑے علماء کرام کی موجودگی کی وجہ سے آہستہ آہستہ اعتماد کی یہ فضا قائم ہوتی گئی کہ ملک کے اکثر حصوں میں رؤیتِ ہلال کا کوئی متبادل انتظام کرنے کی بجائے مرکزی رؤیتِ ہلال کمیٹی کے فیصلے کو قبول کیا جانے لگا اور خوشگوار صورت سامنے آنے لگی کہ مرکزی رؤیتِ ہلال کمیٹی کو اس سلسلے میں فیصلہ کن اور مجاز اتھارٹی کا درجہ حاصل ہوگیا۔ اگرچہ اس کے بعد بھی چند مخصوص علاقوں میں اس سے الگ عمل ہوتا رہا مثلاً‌ پشاور اور مردان وغیرہ میں اس سے ہٹ کر فیصلہ کیا جاتا تھا اور اس پر عمل بھی ہوتا تھا لیکن باقی پورے ملک میں مرکزی رؤیتِ ہلال کمیٹی پر اعتماد کرتے ہوئے مجموعی طور پر رمضان المبارک، عید الفطر اور عید الاضحیٰ کا تعیّن متفقہ طور پر ہونے لگا۔

 اس صورتحال میں رخنہ تب پیدا ہوا جب ایک سال صوبہ سرحد کی رؤیتِ ہلال کمیٹی نے رمضان المبارک کے چاند کے سلسلے میں مرکزی رؤیتِ ہلال کمیٹی کا فیصلہ ماننے سے انکار کر دیا  جس سے صوبہ سرحد کے ایک بڑے حصے میں رمضان اور عید کا نظام باقی ملک سے الگ ہو گیا۔  مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کا موقف یہ تھا کہ چونکہ وہ حکومت کی طرف سے مجاز اتھارٹی ہے اور اس نے رؤیتِ ہلال کی کوئی تسلی بخش شہادت نہ ملنے کی وجہ سے ۲۹ شعبان کی شام کو چاند نظر نہ آنے اور شعبان کے تیس دن مکمل کرنے کا اعلان کر دیا تھا، اس لیے پورے ملک کو اس فیصلے کی پابندی کرنی چاہیے تھی۔ جبکہ سرحد کی صوبائی حکومت اور رؤیتِ ہلال کمیٹی کا یہ کہنا تھا کہ مرکزی رؤیتِ ہلال کمیٹی نے چاند نہ ہونے کے فیصلے میں جلد بازی کی تھی اور فیصلے کے اعلان کے بعد موصول ہونے والی شہادتوں کو قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا، اس لیے اسے شرعی اصولوں کے مطابق شہادتوں کی بنیاد پر رمضان المبارک کے شروع ہو جانے کا اعلان کرنا پڑا۔ یہی صورتحال عید الفطر پر پیش آئی اور دو متضاد اعلانات کی وجہ سے عام لوگوں کے لیے پریشانی کی صورتحال پیدا ہو گئی۔

سوال یہ ہے کہ پاکستان میں رؤیتِ ہلال کے بارے میں اعلان کا حتمی اختیار صرف مرکزی رؤیتِ ہلال کمیٹی کو حاصل ہے یا علاقائی رؤیتِ ہلال کمیٹیاں بھی الگ طور پر یہ اختیار رکھتی ہیں؟  اور اگر علاقائی کمیٹیاں بھی یہ اختیار رکھتی ہیں تو  جب صوبہ سرحد کی کمیٹی شہادتوں کی بنیاد پر رؤیتِ ہلال کا فیصلہ کر لیتی ہے تو کیا مرکزی کمیٹی کو اسے قبول کرنے میں کوئی تامل ہونا چاہیے؟ کیا صوبہ سرحد کی رؤیتِ ہلال کمیٹی کے فیصلہ کی بنیاد پر ملک بھر میں عید کا اعلان نہیں کیا جا سکتا؟ 

صوبہ سرحد کے قدیمی دارالافتاء نجم المدارس کلاچی (ضلع ڈیرہ اسماعیل خان) کی طرف سے ۲۰۰۶ء کے دوران یہ اعلان کیا گیا تھا کہ روزے، اعتکاف اور عید کے سلسلہ میں مرکزی رؤیتِ ہلال کمیٹی کا اعلان ہی معتبر ہے، اور چونکہ مرکزی رؤیتِ ہلال کمیٹی تمام مسالک کے جید علماء کرام پر مشتمل ہے، اس لیے اس سلسلہ میں اسی کے اعلان کو قبول کیا جانا چاہیے اور سب کو اسی پر عمل کرنا چاہیے۔ 

اجتہادی مسائل کے حوالے سے اصول یہ ہے کہ علماء کرام مل بیٹھ کر حالات اور ضروریات کی روشنی میں ان میں سے جس موقف پر بھی فیصلہ کر لیں وہی درست ہے، لیکن اس کا فیصلہ اجتماعی طور پر اور قومی سطح پر ہونا چاہیے۔ اگر قومی سطح پر باہمی مشاورت اور اعتماد کے ساتھ یہ فیصلہ ہو جائے کہ ہم سعودی عرب کے ساتھ روزے اور عید کا نظام وابستہ کرتے ہیں تو اس میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے، پھر مرکزی رؤیتِ ہلال کمیٹی کی ضرورت بھی باقی نہیں رہے گی، لیکن اس فیصلے کی اصل جگہ اسلام آباد ہے اور تمام مکاتبِ فکر کے سرکردہ علماء کرام کے ساتھ قومی سطح کی مشاورت کے بعد ہی ایسا فیصلہ ممکن ہے۔  مگر جب تک ایسا کوئی فیصلہ اجتماعی طور پر نہیں ہو جاتا اور اسے قومی فیصلے کا درجہ حاصل نہیں ہو جاتا، اس وقت تک جو نظام رؤیتِ ہلال کے حوالے سے قومی سطح پر موجود ہے اس کا احترام کرنا ضروری ہے۔ اس کے طرزعمل اور فیصلوں سے اختلاف کی گنجائش موجود ہے، اگر کوئی اختلاف دلیل کے ساتھ ہے تو وہ ضرور ہونا چاہیے، لیکن اس سے پہلے اس نظام سے بغاوت کرنا اور لوگوں کو خلفشار کا شکار بنانا درست نہیں ہے۔ 

ہمارے خیال میں اس معاملہ کو اسلامی نظریاتی کونسل یا وفاقی شرعی عدالت کے سپرد کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اس ساری صورتحال کا جائزہ لے کر رؤیتِ ہلال کمیٹی کے لیے کوئی ایسا نظامِ کار اور ضابطۂ اخلاق طے کر دیں جس کی پابندی مرکزی اور صوبائی کمیٹیوں کے لیے ضروری ہو، ان کمیٹیوں کا باہمی اختلاف ایک ہی ملک بلکہ ایک ہی صوبہ اور علاقہ میں دو یا تین عیدوں کا باعث نہ بنتا رہے، اور کم از کم پاکستان کے تمام مسلمان تو ایک ہی دن متفقہ طور پر عید منا سکیں۔

ایک  بات عام ذہنوں میں الجھن کا باعث بنتی ہے کہ پاکستان تو ایک ملک ہے، یہاں ایک روز متفقہ عید کیوں نہیں ہوتی؟ جبکہ مرکزی سطح پر رؤیتِ ہلال کمیٹی بھی قائم ہے جس میں تمام مکاتبِ فکر کے سرکردہ علماء کرام موجود ہیں اور انہی کے فیصلے پر چاند کے دیکھے یا نہ دیکھے جانے کا اعلان ہوتا ہے، مگر اس کے باوجود صوبہ سرحد کے بعض علاقوں میں مرکزی رؤیتِ ہلال کمیٹی کے فیصلے کی پرواہ نہیں کی جاتی اور عام طور پر ایک روز قبل عید منائی جاتی ہے۔ 

اس سلسلہ میں عرض ہے کہ اس کا تھوڑا سا پس منظر سمجھنے کی ضرورت ہے۔ وہ یہ کہ پاکستان کے اس علاقہ کے لوگ جہاں زیادہ تر پشتون آباد ہیں، اپنے آپ کو کلچر اور ثقافت کے لحاظ سے افغانستان کے زیادہ قریب سمجھتے ہیں اور اپنی روایات و اقدار میں اپنے افغان بھائیوں کے قریب رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور یہ واقعہ ہے کہ افغانستان میں ہمیشہ سے ایک روز پہلے عید ہوتی ہے ۔ جس کی  ایک وجہ تو یہ ہو سکتی ہے کہ چونکہ وہاں کی غالب اکثریت حنفی ہے اور وہ احناف کے اصول کے مطابق اختلافِ مَطالع کا اعتبار نہ کرتے ہوئے سعودی عرب میں رؤیتِ ہلال کے اعلان پر عید کر لیتے ہیں۔  دوسری وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ افغانستان کی مغربی سرحد کا پاکستان کے ساتھ وقت کا اتنا فرق موجود ہے کہ پاکستان میں نظر نہ آنے والا چاند افغانستان کے مغربی حصے میں اسی روز نظر آ سکتا ہے، اس لیے وہ ایک روز پہلے چاند دیکھ لیتے ہیں۔ اس لیے جب افغانستان میں عید ہو جاتی ہے تو افغانستان کی سرحد سے ملنے والے پاکستانی علاقوں میں عید نہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔

عالمِ اسلام کی سطح پر رؤیتِ ہلال کا نظام

عالمِ اسلام کی سطح پر رؤیت کے نظام اور اس کے فیصلہ کے طریق کار کا مسئلہ حل طلب ہے کہ اس کا فیصلہ کون کرے گا اور اس فیصلے کا نفاذ کس کی ذمہ داری ہوگی، کیونکہ خلافتِ عثمانیہ اور مغل حکومت کے خاتمہ کے بعد سے پورے عالمِ اسلام میں کوئی ایسا نظام اور ادارہ موجود نہیں ہے جو عالمِ اسلام کے حوالے سے کسی اجتماعی فیصلے کا مجاز ہو یا کسی فیصلے کے عملی نفاذ کی اتھارٹی رکھتا ہو۔ اس لیے میرے نزدیک عید ایک دن نہ ہونے کی اصل وجہ یہ ہے کہ کوئی مرکزی نظام اور اتھارٹی موجود نہیں ہے، جس کی وجہ سے ہر مسلک اور علاقہ کے علماء کرام اپنے اپنے اجتہاد پر عمل کرنے میں آزاد ہیں۔  چنانچہ اس صورتحال کا خاتمہ اس سے پہلے ممکن نظر نہیں آتا کہ  خلافتِ اسلامیہ کا باقاعدہ قیام ہو اور وہ شرعی اتھارٹی کے طور پر رؤیتِ ہلال کا انتظام کر کے اس کے اعلان کی ذمہ داری قبول کرے، کیونکہ پھر کسی علاقہ کے علماء کرام کے لیے جداگانہ فیصلے کا جواز باقی نہیں رہ جائے گا اور پورا عالمِ اسلام ایک روز عید منا سکے گا۔

اسلام اور عصر حاضر

فقہ / اصول فقہ

پاکستان ۔ قومی و ملی مسائل

عالم اسلام اور مغرب

(الشریعہ — مارچ ۲۰۲۵ء)

الشریعہ — مارچ ۲۰۲۵ء

جلد ۳۶ ، شمارہ ۳

مسئلہ رؤیتِ ہلال کے چند توجہ طلب پہلو
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

رویتِ ہلال میں اختلاف پر شرمندگی کا حل اور قانون سازی کی ضرورت
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

مسئلہ رؤیتِ ہلال، فقہ حنفی کی روشنی میں
مولانا مفتی محمد ایوب سعدی

مرکزی رؤیتِ ہلال کمیٹی پر اعتراضات کا جواب
اویس حفیظ

نظام ہائے کیلنڈر: ایک جائزہ
ترجمان

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۲۲)
ڈاکٹر محی الدین غازی

باجماعت نماز، قرآن و سنت کی روشنی میں
مولانا محمد طارق نعمان گڑنگی

حضرت علامہ ظہیر احسن شوق نیموی (۱)
مولانا طلحہ نعمت ندوی

فحاشی و عریانی اور لباس و نظر کا نفسیاتی مطالعہ!
محمد عرفان ندیم

مسجد اقصیٰ کے ایک مسافر کی تڑپ
عقیل دانش

ڈونلڈ ٹرمپ دوبارہ وہائٹ ہاؤس میں: مشرق وسطیٰ اور دنیا پر اس کے متوقع اثرات؟
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

فلسطین کی جنگ بندی اور پیکا ایکٹ کی منظوری
مولانا فضل الرحمٰن

قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن کی گوجرانوالا آمد
مولانا حافظ خرم شہزاد

پاکستان شریعت کونسل کی تشکیلِ نو
پروفیسر حافظ منیر احمد

Pakistan and Turkiye: The Center of Hope for the Muslim Ummah
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

ماہانہ بلاگ

حضرت لیلٰی غفاریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا
مولانا جمیل اختر جلیلی ندوی

شورائیت اور ملوکیت
ڈاکٹر عرفان شہزاد

اصول سازى اور غامدى صاحب
حسان بن علی

جب احراری اور مسلم لیگی اتحادی بنے
عامر ریاض

غزہ میں رمضان: تباہی اور غیر متزلزل ایمان
اسرا ابو قمر

مولانا حامد الحق حقانی کی المناک شہادت
مولانا عبد الرؤف فاروقی

فلسطین کے سوال کا حل اور پاک افغان تعلقات کی ازسرِنو تعریف
انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز

تلاش

مطبوعات

شماریات

Flag Counter