اصول سازى اور غامدى صاحب

غامدى صاحب چاہے اپنی تعریفات اور اصطلاحات وضع کر لیں (لكل واحد ان يصطلح أو لا مشاحة فی الاصطلاح) لیکن اختلاف صرف اصطلاحات كی تعریفات تک محدود نہیں بلکہ قولِ رسول كی حجیت كو تسلیم کرنے یا نہ تسلیم کرنے کا ہے۔

تو جب غامدی صاحب یہ کہتے ہیں کہ دین قرآن و سنت میں محصور ہے تو ان کے پیشِ نظر ان كا اپنا تصورِ قرآن و سنت ہوتا ہے، لہٰذا قرآن کے لیے لازم ہے کہ وه حفص کی قراءت (روايۃ حفص عن عاصم) کے مطابق ہو اور سنت کے لیے لازم ہے کہ وہ ايسا عمل ہو جو تواتر کے ساتھ جاری ہو نیز ملتِ ابراہیمی میں کسی شکل میں موجود ہو۔ رہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول جسے اگرچہ تواتر بھی حاصل ہو یعنی ثبوت (authenticity) کے لحاظ سے قطعی ہو (جیسے قربِ قیامت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کا بیان)، اور اس کے معنی (عیسیٰ علیہ السلام کی قربِ قیامت دوبارہ تشریف آوری) پر بھی امت کا اجماع ہو یعنی معنی کے لحاظ سے بھی قطعی ہو، تب بھی وہ غامدی صاحب کی سنت کی کیٹگری میں شرفِ قبولیت نہیں پا سکتا۔

اسی طرح غامدی صاحب اجماع کی اصطلاح کو تواتر کے ہم معنی استعمال کرتے ہیں، یعنی کسی عمل کا متواتر طور پہ ہم تک منتقل ہونا، نہ کہ اتفاق کے نتیجے میں کسی بیان (نص) کے حتمی معنی (definite meaning) كا متعین ہو جانا، جو کہ اجماع کی اصل تعریف ہے، اور غامدی صاحب کے نزدیک ایسے اجماع کی حجيت کو تسلیم کرنا بدعت ہے۔

مطلب دین کے کسی عمل کی اتفاقی صورت تو ان کے نزدیک اجماع کی تعریف کے تحت آتی ہے، اور ملتِ ابراہیمی میں کسی بھی شکل میں موجود ہونے سے سنت کی تعریف کے تحت بھی، لیکن رسول کے کسی بیان پر اتفاقی حكم ان کی وضع کردہ اجماع کی تعریف سے خارج ہے۔ لہٰذا سنت اور دین کی تعریف سے بھی (اگرچہ یہ بیان ثبوت کے لحاظ سے بھی متواتر يعنی قطعی ہو) آخر اس بلا دلیل تفریق پر کیا دلیل ہے کہ عمل کی اتفاقی صورت کو تو دین مانا جائے ليكن کسی (متواتر) قول کے بارے میں اتفاقی معنی پائے جانے کے باوجود اسے دین کی کیٹگری سے باہر ركھا جائے.

اور غامدی صاحب کا یہ کہنا کب ٹھیک ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ذمہ داری صرف قرآن کو پہنچانا اور متواتر عمل (غامدی صاحب کی تعریفِ سنت) کو جاری کرنا تھا جب کہ قرآن عموم (حرف ما) کے ساتھ کہتا ہے کہ پہنچا دیجیے جو آپ کی طرف آپ کے رب کی طرف سے نازل ہوا (بلغ ما انزل اليك من ربك)۔ رہی ہم پر قبول کرنے کی ذمہ داری، تو اسی عموم (حرف ما) کے ساتھ ارشاد باری تعالیٰ ہے، جو رسول دے وہ لے لو اور جس سے منع کرے اس سے باز آ جاؤ (ما اتاكم الرسول فخذوہ وما نھاكم عنہ فانتھوا)۔ اور ان کا یہ کہنا کہ ہم دین صرف اسی کو کہہ سکتے ہیں جو ایک بڑی تعداد کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن اور اپنے عمل کی صورت میں منتقل کیا، رہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول بیان جسے اگرچہ قولی تواتر بھی حاصل ہو تب بھی وہ دین کا حصہ قرار نہیں پا سکتا بلکہ عملاً‌ اسے بھی وہ اخبارِ احاد کی کیٹگری میں ڈالتے ہیں۔

باقی رہا اخبارِ احاد کا معاملہ تو ان کے نزدیک وہ آپ صلی اللہ علیہ و اٰلہ وسلم کی سیرتِ طیبہ اور اسوہ حسنہ کا بیان ہے جس سے دین میں نہ کوئی اضافہ ہو سکتا ہے نہ کوئی کمی بلکہ وہ اسی دین کا تفصیلی بیان ہے جو کہ ان کے تصورِ قرآن و سنت کے اندر محصور ہے۔ یعنی ایسے احکام جو ان کے مطابق قرآن و سنت میں بیان نہیں ہوئے وہ اخبارِ احاد کے ذریعے دین کا حصہ نہیں بن سکتے، جیسے داڑھی کے حکم کو دین سے خارج قرار دیا جاتا ہے، مطلب نہ اس کا وجوب مانا جاتا ہے نہ استحباب۔ جبکہ قرآن یہ کہہ رہا ہے کہ کسی چیز کے دین ہونے کے لیے اس كا متواتر منتقل ہونا نہ شرعاً‌ ضروری ہے اور نہ ہی عادتاً‌ ایسا ہو سکتا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ یہ تو ممکن نہیں تھا کہ مسلمان سب کے سب نکل کھڑے ہوتے، مگر ایسا کیوں نہ ہوا کہ اُن کے ہر گروہ میں سے کچھ لوگ نکلتے تاکہ دین میں بصیرت پیدا کرتے (فلولا نفر من كل فرقۃ منھم طائفۃ

اسی طرح مکتب ھذا کی طرف سے یہ شبہ بھی وارد کیا جاتا ہے کہ حنفیہ بھی خبرِ واحد کی حجیت کو اس طرح نہیں مانتے۔ تو اس پر یہ عرض ہے کہ حنفیہ بخلاف مكتب ھذا، خبر واحد کے ذریعے دین میں کمی اور زیادتی کے قائل ہیں۔ رہی بات خبرِ واحد کے ذریعے قرآن کے حكم پر زیادتی کی تو وہ حنفیہ کے نزدیک درست نہیں جبکہ شافعیہ کے نزدیک درست ہے۔ کیونکہ حنفیہ کے نزدیک خبرِ واحد کے ذریعے قرآن پر زیادتی نسخ ہے نہ کہ تخصیص یا بیان، اور تنسیخ خبرِ متواتر کے ذریعے تو ہو سکتی ہے لیکن خبرِ واحد کے ذریعے نہیں۔ اس کی مشہور مثال غیر شادی شدہ زنا کاروں کے لیے قرآن پاک میں 100 کوڑوں کی سزا كا بیان ہے اور اس پر خبرِ واحد کا یہ اضافہ کہ انہیں ایک سال کے لیے جلا وطن بھی کیا جائے۔ تو اصولِ حنفیہ کے پیشِ نظر خبرِ واحد میں بیان شدہ ایک سالہ جلا وطنی بطورِ حد نہیں بلکہ بطورِ تعزیر ہے، بر خلاف شافعیہ کہ ان کے نزدیک ایک سالہ جلاوطنی ضروری ہے یعنی حدود میں سے ہے یہاں تک کہ اگر ایک سالہ جلاوطنی سے فساد لازم آئے تو مجرم كو محبوس کیا جائے۔

حاصل کلام یہ ہے کہ حنفیہ اور شافعیہ کے نزدیک اس باب میں جملہ اصول سازی، نصوص کے درمیان ظاہری تعارض کو رفع کرنے کے لیے ہے نہ کہ تعارض کو تشکیل دینے کے لیے۔ جبکہ غامدی صاحب کے ہاں اصول سازی نصوص کے مجمع علیہ فہم کے ساتھ تعارض ایجاد کرنے پر مبنی ہیں۔ یعنی ایسا کبھی نہیں ہوا کہ حنفیہ يا شافعیہ نے نصوص کے مجمع علیہ فہم کے مقابلے میں اصول وضع کیا ہو، بلکہ حدیث کی بابت تو حنفیہ کا یہ قابلِ قدر اضافہ ہے کہ انہوں نے متواتر اور احاد کے مابین خبرِ مشہور جیسی اصطلاح متعارف کروائی اور ان کے نزدیک خبرِ مشہور کے ذریعے قرآن پر زیادتی جائز ہے۔ لہٰذا ایسا اصول سراسر بے اصولی پر مبنی ہے جس میں شارع کے مجمع علیہ قطعی الدلالہ بیان (نص) کو ٹھکرا دیا جائے، چاہے وہ بیان (نص) ثبوت کے لحاظ سے قطعی (متواتر) ہو یا ظنی (بطريق احاد)، کیونکہ اجماع کے تحقق کا مطلب ہی یہ ہے کہ بيان اب اپنے مجمع علیہ معنی کے علاوہ کسی دوسرے معنی کا احتمال نہیں رکھتا اور ایسی صورت میں کسی دوسرے احتمال کا قصد کرنا اجتہاد فی الدین نہیں بلکہ فساد فی الدین ہے۔


مکتبِ غامدی میں جہاں اصطلاحات کے ساتھ اپنی مرضی سے کھینچا تانی کی جاتی ہے وہاں قدیم فقہاء کی عبارات کو اپنی مرضی سے اپنی چاہت کی حد تک استعمال کیا جاتا ہے، جیسے غامدی صاحب نے امام شاطبی کے اس کلام کو کہ ’’سنت کا وظیفہ قرآن میں موجود احکام کی شرح (بيان) ہے‘‘ كو اپنی مرضی سے استعمال کرتے ہوئے یہ دکھانے کی کوشش کی جیسے امام شاطبی بھی ان کی طرح سنت کے ذریعے قرآن کی تخصیص کے قائل نہیں۔

اسی طرح امام شافعی کے اس موقف کہ ’’سنت قرآن کو منسوخ نہیں کر سکتی‘‘ كو غامدی صاحب کے اس موقف کہ ’’سنت قرآن کی شرح تو کر سکتی ہے لیکن اس میں کسی قسم کی تغيير یا تبدیلی نہیں کر سکتی’‘ کی تائید کے لیے استعمال کرنا۔ حالانکہ امام شافعی کے ہاں سنت کے ذریعے قرآن کی تخصیص جائز ہے چاہے وہ خبرِ واحد سے ہی کیوں نہ ہو کیونکہ ان کے نزدیک عام کی دلالت ظنی ہے۔ اس کے بجائے غامدى صاحب خبرِ مشہور و متواتر کے ذریعے بھی قرآن کی تخصیص کے قائل نہیں۔

ياد رہے کہ غامدی صاحب اپنے اسی خود ساختہ اصول کے تحت شادی شدہ زناکار کے لیے رجم کی سزا کا انکار کرتے ہیں، اور ان کے نزدیک سنت کا وظیفہ ’’بیان‘‘ احکام ہے یعنی قرآن میں موجود احکامات کا بیان ہے، اور یہاں اس ’’بیان‘‘ کو بھی انہوں نے خود ہی بیان کیا ہے، لہٰذا ان کے بیان سے وہ شرح مراد ہے جو کہ کلام میں ابتدا ہی سے مراد تھی۔ رہا معاملہ تخصیص کا تو وہ ان کے نزدیک بیان کی کیٹگری سے باہر کی چیز ہے۔ حالانکہ تخصیص بھی شافعیہ کے ہاں اسی امر کی وضاحت ہے کہ ابتدا کلام میں کون سی چیز مراد تھی اور کون سی چیز مراد نہیں تھی کیونکہ شافعیہ کے ہاں تخصیص کی دلیل موخر ہو سکتی ہے۔ رہا معاملہ حنفیہ کا تو ان کے نزدیک تخصیص کی دلیل عام سے متاخر نہیں ہو سکتی کیونکہ عام اگر بغیر تخصیص کی مقارن دلیل کے وارد ہو تو یہ اس بات کا قرینہ ہے کہ شارع کی مراد عام کا شمول ہے، لہٰذا اگر تخصیص کی دلیل عام سے متاخر ہو تو وہ تخصیص نہیں بلکہ نسخ ہے۔ لہٰذا حنفیہ کے اصول کو مانا جائے تو سورۃ نور کی آیت (متعلق زنا) کا نسخ (في حق المتزوج) خبرِ مشہور یا اجماع کے ذریعے ثابت ہے۔ اور امام شافعی کے اصول کو اگر مانا جائے تو سورۃ نور کی آیت (متعلق زنا) کی تخصیص سنت کے ذریعے ثابت ہے۔ اور اگر بالفرض ایسی دلیل موجود ہے جو کہ تقاضا کرے کہ ابتدائے کلام سے ہی سورۃ نور کی آیت شادی شدہ اور غیر شادی شدہ دونوں کو شامل ہے تب بھی اصولِ شافعی کے تحت قرآن کی آیت (لیکن کیا کیجیے کہ صاحبِ تدبرِ قرآن کے نزدیک یہ ایک بیہودہ روایت ہے) جس کی تلاوت منسوخ ہے، اس سے بھی اس کا نسخ ثابت ہے۔ لہٰذا امام شافعی کے اصول کو لیا جائے یا حنفیہ کے اصول کو دونوں کے نتیجے میں نص کا اجماعی فہم متاثر نہیں ہوتا۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اجماعی فہم کو سامنے رکھتے ہوئے اصول کے ٹھیک اور غلط ہونے کا حال معلوم کیا جاتا لیکن لگتا یوں ہے کہ غامدی صاحب اپنے سوچے سمجھے نتائج کو سامنے رکھ کے اصول و تعريفات وضع کرتے ہیں۔ غرض غامدی صاحب کی فکر تلفیقات کا ايسا ملغوبہ ہے جس میں اصولی فکر مغلوب ہے اور بے اصولی غالب، لہٰذا اس میں ہم آہنگی سے زیادہ بے ہنگمی دکھائی دیتی ہے۔


نقد و نظر

(الشریعہ — مارچ ۲۰۲۵ء)

الشریعہ — مارچ ۲۰۲۵ء

جلد ۳۶ ، شمارہ ۳

مسئلہ رؤیتِ ہلال کے چند توجہ طلب پہلو
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

رویتِ ہلال میں اختلاف پر شرمندگی کا حل اور قانون سازی کی ضرورت
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

مسئلہ رؤیتِ ہلال، فقہ حنفی کی روشنی میں
مولانا مفتی محمد ایوب سعدی

مرکزی رؤیتِ ہلال کمیٹی پر اعتراضات کا جواب
اویس حفیظ

نظام ہائے کیلنڈر: ایک جائزہ
ترجمان

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۲۲)
ڈاکٹر محی الدین غازی

باجماعت نماز، قرآن و سنت کی روشنی میں
مولانا محمد طارق نعمان گڑنگی

حضرت علامہ ظہیر احسن شوق نیموی (۱)
مولانا طلحہ نعمت ندوی

فحاشی و عریانی اور لباس و نظر کا نفسیاتی مطالعہ!
محمد عرفان ندیم

مسجد اقصیٰ کے ایک مسافر کی تڑپ
عقیل دانش

ڈونلڈ ٹرمپ دوبارہ وہائٹ ہاؤس میں: مشرق وسطیٰ اور دنیا پر اس کے متوقع اثرات؟
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

فلسطین کی جنگ بندی اور پیکا ایکٹ کی منظوری
مولانا فضل الرحمٰن

قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن کی گوجرانوالا آمد
مولانا حافظ خرم شہزاد

پاکستان شریعت کونسل کی تشکیلِ نو
پروفیسر حافظ منیر احمد

Pakistan and Turkiye: The Center of Hope for the Muslim Ummah
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

ماہانہ بلاگ

حضرت لیلٰی غفاریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا
مولانا جمیل اختر جلیلی ندوی

شورائیت اور ملوکیت
ڈاکٹر عرفان شہزاد

اصول سازى اور غامدى صاحب
حسان بن علی

جب احراری اور مسلم لیگی اتحادی بنے
عامر ریاض

غزہ میں رمضان: تباہی اور غیر متزلزل ایمان
اسرا ابو قمر

مولانا حامد الحق حقانی کی المناک شہادت
مولانا عبد الرؤف فاروقی

فلسطین کے سوال کا حل اور پاک افغان تعلقات کی ازسرِنو تعریف
انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز

تلاش

مطبوعات

شماریات

Flag Counter