بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم۔
پوری دنیا جانتی ہے کہ پندرہ ماہ تک اسرائیل اور صہیونی قوت غزہ اور فلسطین کے مسلمانوں پر جو آگ برساتی رہی ہے اور جس سے کہ ساری کی ساری آبادیاں منہدم ہو گئیں، پچاس ہزار سے زیادہ لوگ شہید ہوئے، جس میں چھوٹے بچے، خواتین، بوڑھے۔ اور اب جو جنگ بندی کا معاہدہ ہوا ہے وہ چونکہ فلسطینیوں کی شرائط پہ ہوا ہے اور اس میں ان کو کامیابی ملی ہے تو یقیناً وہ مبارکباد کے بھی مستحق ہیں، اور ہمیں اللہ پر مکمل بھروسہ ہے کہ فلسطینیوں کا یہ خون اور یہ قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی اور یہ ساری جدوجہد فلسطین کی مکمل آزادی اور مسجد اقصیٰ کی مکمل آزادی پر منتج ہو گی۔
لیکن یہاں ایک بڑا سوال پیدا ہوتا ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ فلسطینیوں کو مصر میں آباد کر دیا جائے، تو فلاں ملک میں آباد کیا جائے، تو فلاں ملک میں آباد کیا جائے۔ ٹرمپ جیسی شخصیت کے ساتھ اسی طرح کی باتیں جچتی ہیں جس کا عقل کوئی تقاضا نہ کرتی ہو۔
بنیادی بات یہ ہے کہ جنگِ عظیم اول کے بعد جب یورپ میں یہودیوں نے مار کھائی اور وہ دربدر ہوئے تو اس وقت بین الاقوامی جو قوانین سامنے آئے اقوام متحدہ کے۔ اور ان کی نئی آباد کاری کے بارے میں ایک بین الاقوامی ذمہ داری قرار دی گئی تھی کہ ان لوگوں کو پوری دنیا میں جگہ جگہ آباد کیا جائے۔ پھر کیوں صرف فلسطین میں آباد کیا گیا؟ صرف فلسطین کی سرزمین کیوں اس کے لیے خاص کر دی گئی؟ اور ۲۰۱۷ء میں جو دارفور معاہدہ تھا وہ کس منصوبے کے تحت ہوا جس میں کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی نفی کی گئی؟ تو اس حوالہ سے ہم یہ سوچتے ہیں کہ آپ فلسطینیوں کو مختلف ممالک میں آباد کرنے کا مشورہ نہ دیں۔
ہمارا مطالبہ ہے کہ آپ اسرائیل میں جتنے یہودی اور صہیونی لوگ ہیں ان کو امریکہ میں آباد کر لیں یا کسی بھی یورپی ملک میں آباد کر لیں۔ اور یہ بین الاقوامی ذمہ داری کے تحت اس وقت سب سے بڑی ذمہ داری امریکہ پر ہے کہ وہ اسرائیل کو یہاں سے اٹھائے اور تمام یہودیوں کو اور صہیونیوں کو امریکہ میں جگہ دے اور وہاں ان کو آباد کر دے۔
دوسری بات جو میں آپ حضرات کے سامنے کرنا چاہتا ہوں کہ ابھی جو نیا قانون پیکا (PECA) پاس ہوا ہے، تو میں ذرا آپ کے نوٹس میں یہ بات لے آؤں کہ اسلام آباد میں آپ کا ایک وفد مجھے ملا تھا اور ان کا موقف میں نے سنا اور ان کے ساتھ میں نے مذاکرہ بھی کیا اور اس کے فائدے اور نقصانات کے پہلوؤں پر بحث بھی کی۔ مجھے ان کی بات میں وزن نظر آیا اور ان کی بات معقول تھی کہ یکطرفہ طور پر قانون پاس کرنے کی بجائے اگر صحافیوں کے ساتھ ذرا مشورہ کر لیا جاتا اور ہماری کچھ تجاویز اس میں لے لی جاتیں تو کیا بری بات تھی؟ اور اس میں تو یہ ہے کہ ایسا قانون کہ جب چاہے جس کو چاہے جس وقت اٹھا لیں۔ اور ہر ہمارا ایک بیان، اس کو آپ اس زمرے میں فوراً لے آئیں، کون پوچھنے والا ہے، اس کی کوئی تشریح تو ہے نہیں۔
تو اس اعتبار سے میں نے صدر مملکت سے فون پر رابطہ کیا۔ اور میں نے ان سے کہا کہ آپ دستخط نہ کریں اور ان کے ساتھ آپ رابطہ کر کے ان کی تجاویز لے لیں ان سے۔ مجھ سے انہوں نے اتفاق کیا، اور یہ بھی کہا کہ محسن نقوی صاحب اب پہنچے ہیں، اور ایک آدھ دن میں میرے پاس پہنچنے والے ہیں۔ میں ان کی ذمہ داری لگاتا ہوں کہ وہ صحافیوں کے ساتھ رابطے میں آجائیں اور پھر ان کی کچھ جو تجاویز ہوں گی وہی میں پھر گورنمنٹ کو بھیج دوں گا کہ اس میں آپ شامل کر لیں۔
لیکن صبح ہوتے ہی دیکھا کہ انہوں نے دستخط بھی کر دیے۔ اب اس قسم کا غیر ذمہ دارانہ انداز کہ آپ ایک شریف آدمی کے طور پر صدر مملکت کی حیثیت سے ایک بات کر لیتے ہیں اور پھر اس کے بعد آپ اس پر دستخط کر کے اس کو گزٹ کر لیتے ہیں۔ تو میں اب بھی سمجھتا ہوں کہ صحافیوں کی اس میں تجاویز لی جائیں، ان سے بات چیت کی جائے، جو معقول تجاویز ہوں ان کو قبول کر لیا جائے، اور ترمیم کے ذریعے سے اس کو اس قانون کا حصہ بنا دیا جائے۔
تو یہ دو باتیں اس وقت میرا خیال تھا کہ میں آپ کے گوش گزار کر لوں۔
(31 جنوری 2025ء کو گوجرانوالہ میں پریس کانفرنس سے خطاب)