دیوبند کا ایک علمی سفر

ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

دارالعلوم دیوبند ہندوستان کے مسلمانوں کا دھڑکتاہوا دل ہے۔ وہ ازہر ہند کے نام سے بھی موسوم کیا جاتا ہے۔ راقم السطور نے اس سے قبل بھی تین مرتبہ دیوبند کا سفر کیاہے۔سب سے پہلا سفر زمانہ طالب علمی میں آج سے کوئی 20سال پہلے کیاتھا جس کی کوئی خاص بات یاد نہیں۔ بس اتنایادہے کہ بعض دوستوں کے ساتھ مولانا سعیداحمد پالن پوری کے درس ترمذی میں شرکت کی تھی جس کا ان دنوں شہرہ تھا۔ ایک سفرکسی استفتاء کی خاطر، اور ایک بعض کتابوں کی خریداری کے لیے ہواتھا کیونکہ دیوبند ہند و ستان میں اردو وعربی میں علمی کتابوں کی سب سے بڑی اورسستی مارکیٹ بھی ہے۔ بہر حال میرے اِس سفر کی غرض وغایت مسلم یونیورسٹی کے فارغین مدارس کے لیے شروع کیے گئے برج کورس (Bridge Course) کے سلسلہ میں دیوبند کے علماء ،اساتذہ ومشاہیر کے تاثرات وخیالات سے آگاہی حاصل کرنی تھی۔

یادرہے کہ مذکورہ برج کورس میں فارغین مدراس کو ایک سال عصری علوم:سیاسیات، سائنس، جغرافیہ، تاریخ، سماجیات، معاشیات، انگریزی زبان وادب اور انٹر فیتھ وانٹرا فیتھ ڈائلاگ(بین المذاہب اوربین المسالک مفاہمت) وغیرہ پڑھائے جاتے ہیں۔ اس کے بعدیو نیورسٹی اِن طلبہ کو Senior Secondry کا سر ٹیفکیٹ دیتی ہے اوروہ یونیورسٹی کی Main Streamمیں Arts sideکے کسی بھی شعبہ میں B.Aکرنے کے مجاز ہوجاتے ہیں۔ فی الحال اس کورس کا تیسرا بیچ کامیابی کے ساتھ چل رہاہے۔ اس کورس کا عموماً استقبال کیاگیا۔ بڑی تعداد میں دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث اورجماعت اسلامی کے اداروں سے طلبہ یہاں آئے اوراب وہ ملک کی ممتازیونیورسٹیوں جامعہ ملیہ اسلامیہ، جامعہ ہمدرد جے این یو اورخود مسلم نیورسٹی علی گڑھ میں مختلف مضامین میں اعلیٰ تعلیمی مراحل طے کررہے ہیں۔ تاہم مسلمانوں کا عمومی مزاج منفی ہے۔ عصری آگہی اورمنفی کو مثبت میں بدلنے کا فن ان کو نہیں آتا جس کی وجہ سے عام طورپر یہ ہوتاہے کہ شروع میں ہر نئی آواز پر لبیک کہتے اورہر نئی تحریک کی طرف لپکتے ہیں، پھر جلد ہی شکوے وشکایت شروع ہوجاتے ہیں۔اخبارات ورسائل میں منفی ورکیک تبصرے کیے جاتے ہیں اورپھر وہ چیز سردمہری کا شکارہوجاتی ہے۔ گویا ؂

چلتاہوں تھوڑی دیر ہر اک راہروکے ساتھ
پہچانتانہیں ہوں ابھی راہبر کو میں

والامعاملہ ہے۔ ایسا ہی کچھ ان دنوں برج کورس کے ساتھ ہورہاہے۔ بعض منفی ذہن کے عناصر کا’’ دین وایمان‘‘ صرف اس لیے خطرہ میں پڑگیاہے کہ برج کورس کے نظریہ ساز محرک اورعلمی اور عملی ڈائریکٹر پروفیسر راشد شاز ہیں۔ ڈاکٹر راشدشاز کے قرآن، سنت فقہ وتصوف اوراسلامی فکر کے سلسلہ میں اپنے خیالا ت ہیں،ان کی اپنی تحقیق ہے جو انہوں نے وسیع مطالعہ کی بنیاد پر قائم کی ہے۔ کسی کو ان کے خیالات، فکر اوران کے دلائل سے اختلاف ہو سکتا ہے اوراختلاف کیاجانا چاہیے، مگر اس اختلاف کو علمی اختلاف کی ہی حد تک رکھاجانا اور برج کورس کو پروفیسر شاز کی شخصیت وفکر سے الگ کرکے دیکھا جاناچاہیے تھا، مگر ایسا نہیں ہوا۔ یونیورسٹی کے اندر وباہر بڑے پیمانے پر اس کے خلاف فضا بنائی گئی۔ علی گڑھ ہی کے ایک صاحب اب مختلف مدارس ومراکز افتاء سے شاز صاحب کے خلاف تکفیر کی مہم چلارہے ہیں، بعض اکابر ومحترم شخصیات کا کھلاتعاون بھی ان کو حاصل ہے۔ فالی اللہ المشتکی۔

بہر حال ۲۹ مارچ کو راقم نئی دہلی سے بذریعہ جالندھر امرتسر ایکسپریس روانہ ہوکر دیوبند اترا۔ مولانا صدرِعالم قاسمی صاحب کو فون کرلیاتھا۔ دیوبندکے مہمان خانے میں دوگھنٹہ رکارہا۔ یاد رہے دارالعلوم دیوبند کا مہمان خانہ بہت کشادہ ہے اورہرروز پچاسوں مہمان یہاںآتے ہیں، پورے ملک کے مدارس میں یہ اس کی بڑی خصوصیت ہے۔اس کے بعد مولانا صدرعالم قاسمی آگئے اورباصرار مجھ کو اپنی قیام گاہ پر لے گئے۔ ان کو میرے بارے میں رفیق محترم ڈاکٹر وارث مظہری نے ازراہ کرم فون کر کے اطلاع دے دی تھی۔ اس کے بعد سے تین دن تک انہیں کی میز بانی سے لطف اندوز ہوتا رہا۔ مولانا صدرعالم بہترین علمی ذوق رکھتے ہیں۔ ان کی دوروم والی قیام گاہ کتابوں سے بھری تھی جس میں علوم اسلامیہ کے مصادر ومراجع کی کثرت تھی۔

دوسرے دن علی الصباح ناشتہ کے بعد اساتذہ سے ملاقات کے لیے نکلے۔ دفتر اہتمام میں مولانا، محمد شاہد قاسمی نگراں درالاقامہ دیوبند نے پہلے برج کورس کے بارے میں تفصیلی معلومات حاصل کیں۔ ان کا کہناتھا کہ برج کورس فی نفسہ طلبہ کے لیے بہت مفید ہے، لیکن ڈاکٹرراشد شاز صاحب کے بارے میں جو معلومات ہیں، اس کے لحاظ سے وہ کوئی صحیح عقیدہ کے آدمی نہیں معلوم ہوتے۔ دوسری بات یہ ہے کہ جس طرح مولانا آزاد قومی اردو یونیورسٹی نے اپنے ریجنل سنٹرز کھول رکھے ہیں اوردیوبند میں بھی ان کا ایک سینٹر ہے۔ اسی طرح برج کورس بھی اپنا ایک مقامی سینٹر یہاں کھول دے۔ اسی طرح جامعۃ الشیخ کے ایک استاد مولانا عباداللہ نے رائے دی کہ دیوبند میں مناسب مقامات پر برج کورس کے اعلانات آویزاں کیے جائیں تاکہ طلبہ کو زیادہ سے زیادہ معلومات مل سکے۔ دارالعلوم کے شعبہ کمپیوٹر وشعبہ نشرواشاعت میں پہنچے۔ جہاں اس شعبہ کے سربراہ جناب عبدالسلام قاسمی صاحب سے تفصیلی بات چیت ہوئی، وہیں پر دارالعلوم کے میڈیا انچارج جناب اشرف عثمانی دیوبندی بھی موجود تھے (جو راشٹریہ سہارا روزنامہ سے بھی وابستہ ہیں)۔مؤخر الذکر نے پروفیسر شاز کی جم کر تنقید ومذمت کی اورصاف صاف کہہ دیا کہ جب تک ڈاکٹر شاز وہاں موجود ہیں، ہم اس کورس کی مخالفت جاری رکھیں گے۔ بہر حال ان کے ہاں سے نکل کر مدیرتعلیمات اورسینئر استاد حدیث مولانا عبدالخالق سنبھلی کے دفتر میں پہنچے۔آپ نے سکون سے ہماری معروضات سنیں۔اس کے بعد فرمایا کہ مسلم یونیورسٹی باضابطہ اپنے لیٹرپیڈپر ہمیں اس کورس کے بارے میں لکھ کر دے، تبھی ہم اس کے بارے میں کچھ کہہ سکیں گے۔

مولانا کے پاس سے اٹھ کر دورہ کے ایک طالب علم کے ساتھ جوبرج کورس کے بارے میں زیادہ دلچسپی لے رہے تھے، مولانا عبدالخالق مدراسی صاحب کے ہاں پہنچے جو نائب مہتمم ہیں اور سینئر استاد ہیں۔ یاد رہے کہ مہتمم دارالعلوم مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی بنارسی اس وقت ملک سے باہر عمرہ کے مبارک سفر پرگئے ہوئے تھے۔مولانا عبدالخالق نے ہماری باتیں اطمینان سے سنیں اور دیر تک پرلطف گفتگو فرمائی۔ ان کے جوابات کا خلاصہ یہ تھاکہ ڈاکٹر راشد شاز یا برج کورس کے بارے میں ہماری معلومات براہ راست نہیں، اخباری رپورٹوں اورسنی سنائی باتوں پر مشتمل ہیں۔ ہمارے اساتذہ ان کے بارے میں کوئی اچھی رائے نہیں رکھتے۔ جوباتیں اب تک معلوم ہوئی ہیں، وہ بڑی تشویش ناک ہیں۔ ان کو ہیڈ آف دی ڈپارٹمنٹ تو نہیں بنانا چاہیے تھا۔ جہاں تک فی نفسہ کورس کی بات ہے، ہم نہ اس کی مخالفت کرتے ہیں نہ طلبہ کو وہاں جانے سے روکتے ہیں، لیکن اس کی حوصلہ افزائی بھی نہیں کرتے، کیونکہ ہمارے مقاصد بالکل الگ ہیں۔ہمارا احساس ہے کہ جوطلبہ کالج ویونیورسٹیوں میں گئے ہیں، انہوں نے مجموعی طورپر ملت کو کچھ خاص نہیں دیاہے۔ یونیورسٹی میں جاکر آدمی اپنی ذات میں گم ہوجاتاہے۔ وہاں Competition اس طرح کا ہے کہ آدمی خدمت دین وملت کا جذبہ رکھتے ہوئے بھی کچھ نہیں کرپاتا اورختم ہوکررہ جاتاہے۔ ہم نے عرض کیا کیاکہ دارالعلوم نے شعبہ انگریزی کھولاہے۔ یہ بہت خوش آئند قدم ہے، مگر اس میں تخصص کے صرف 20طلبہ لیے جاتے ہیں(جومجموعی نمبرات میں 70 فیصد حاصل کرلیتے ہوں)۔ بقیہ عام طلبہ کو کیوں انگریزی سے محروم رکھاجارہاہے؟اس کے جواب میں مولانا نے جو منطق پیش کی، وہ بہت عجیب تھی۔ انہوں نے کہا کہ جنوبی ہند میں انگریزی عام بول چال کی زبان ہے۔ وہ دوسرے فرقوں کے لوگ جلسوں میں انگریزی میں تقریر کرکے لوگوں کے ذہن بگاڑتے ہیں، اس لیے جنوب کے لوگوں نے ہم سے کہا کہ آپ ہمیں ایسے قاسمی طلبہ دیجیے جو انگریزی میں تقریر کرسکیں، اس لیے ہم نے اس ضرورت کو پوراکرنے کے لیے محدود پیمانہ پریہ شعبہ شروع کیاہے۔ 

یہاں برسبیل تذکرہ یہ بتانا بے محل نہ ہوگاکہ دہلی میں جامعہ ملیہ اسلامیہ اوردہلی یونیورسٹی میں گئے اس شعبہ کے چند استادوں کو ہم نے دیکھاہے جن کی انگریزی تو بہت اچھی ہے، لیکن ان کو عصری آگہی بالکل حاصل نہیں ہوئی ۔ اس لیے صرف انگریزی سیکھ لینا یا سکھادینا مسئلہ کا حل نہیں ہے جیساکہ بدقسمتی سے دارالعلوم دیوبند کے اربابِ حل وعقد سمجھتے ہیں اوراس سے زمانہ کی وہ معرفت حاصل نہیں ہوجاتی جس کو امام محمد نے یوں کہاتھا کہ ’من لم یعرف اھل زمانہ فھو جاھل‘۔ (جس کوزمانہ کی معرفت حاصل نہیں، وہ عالم کہلانے کا حقدارنہیں)۔

بہر حال ان کے پاس سے نکل کر ہم لوگ دارالعلوم کی کتابوں کی مارکیٹ دیکھنے نکل گئے۔ اس مارکیٹ کی خصوصیت یہ ہے کہ یہاں بہت سستی کتابیں مل جاتی ہیں۔ جو کتاب آپ کو دہلی یا کسی دوسرے شہر میں پانچ سو میں ملے گی، وہ دیوبندمیں صرف ایک سو میں مل جائے گی۔ دوسری چیز یہ ہے کہ دیوبند کی کتاب مارکیٹ میں عربی اردو کتابوں پر مرتکز ہے جو زیادہ تردرس کتب کی کی شرو ح، حواشی، حواشی کے حواشی اوران کتابوں کے ترجموں وکلیدوں پرمبنی ہے۔ درس نظامی ہویا ندوہ کا نصاب، مارکیٹ کے استادانِ فن نے ان کی کوئی ادنیٰ سے ادنیٰ بابڑی سی بڑی کتاب بھی بغیرترجمہ کے نہیں چھوڑی ہے۔ اونچی کتابوں کی توچھوڑیئے منہاج العربیہ اورالقراء ۃ الواضحہ جیسی ابتدائی کتابوں کے ترجمے بھی بکثرت اوربآسانی دستیاب ہیں۔ یہاں تقریروں اورخطابات کی کتابیں بھی بکثرت ملتی ہیں۔اسی طرح ملفوظات ومواعظ کی بھی۔ البتہ ایک اچھی بات یہ ہوئی ہے کہ عالم عرب کے مشہور مکتبات(قاہرہ، بیروت، دمشق اورسعودی عرب قطر وکویت)کی عربی واسلامی علوم : علوم القرآن، علوم الحدیث، تفسیر ، ادب، شروحات وغیرہ اب سب دیوبند کے بڑے کتب خانوں میں بھی دستیاب ہیں۔ بیرون ہند سے اگر آپ کو تہذیب التہذیب کا سیٹ پچیس ہزار ہندی روپے میں حاصل ہوگا تو دیوبند وسہارنپور کے مکتبات میں اُسے آپ نو یا دس ہزار روپے میں حاصل کرسکتے ہیں۔ اس چیز سے اہل علم کو بڑی سہولت فراہم ہوگئی ہے۔ 

آج کل دیوبند انگریزی عربی بول چال، انگریزی عربی ڈکشنریوں اورترجمہ وانشاء سکھانے والی کتابوں کا بھی بڑازورہے۔پہلے دارالعلوم میں جدید عربی پر توجہ نہیں تھی مگر استاذمولانا وحیدالزماں کیرانوی مرحوم عربی زبان کے عاشق صادق تھے۔ انہوں نے بڑی جدوجہد ومحنت سے ایسے تلامذہ پیداکر دیے تھے جو آج اس ذوق کو طلبہ میں جلا دے رہے ہیں جس طرح کہ علامہ انورشاہ کشمیری کے تلامذہ کا ایک مخصوص علمی ذوق ہواکرتاتھا اوران میں سے ہر شخص اپنی جگہ مرجع ہوتا تھا، مثلاً علامہ یوسف بنوری، مولاناسعید احمد اکبرآبادی، مفتی عتیق الرحمن عثمانی، مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی وغیرہم۔ ایک چیز یہ بھی مشاہدہ میں آئی کہ دیوبندمیں جگہ جگہ انگریزی وکمپیوٹر سکھانے والے سنٹراورکوچنگ مراکز کھل گئے ہیں جن میں طلبہ اپنے شوق سے یہ چیزیں سیکھ رہے ہیں۔

کتاب لاتحزن 

شخصیت کے ارتقاء پر انگریزی میں ڈیل کا رنیگی بہت مشہور مصنف ہے۔ اردو عربی میں اس موضوع پر کوئی خاص کتاب نہ تھی۔ تقریباًایک دہائی قبل سعودی عرب کے مشہور مصنف شیخ عائض القرنی نے لاتحزن  کے نام سے ایک کتاب لکھی جو عالم عرب کی اس وقت مقبول ترین کتاب ہے۔ کوئی بک اسٹور اورکتب خانہ اس سے خالی نہیں یہ کتاب ملینوں میں چھپتی اوربکتی ہے۔ اردو میں راقم نے اس کا ترجمہ’’ غم نہ کریں‘‘ کے نام سے کئی سال پہلے کیاتھا جو ریاض کے مشہور ناشر الدارالعالمی للکتاب الاسلامی نے کرایاتھا۔ کتاب قرآن وحدیث، اقوال سلف ، شخصی تجربات وامکاناتِ زندگی کا نچوڑہے۔ اصل کتاب کے ساتھ اس کے اردو ترجمہ کو بھی حیرت انگیز مقبولیت ملی ہے۔ حیدرآباد(انڈیا) کے کثیر الاشاعت روزنامہ منصف نے اس کے اردو ترجمہ کو تقریباًڈیڑھ سال تک بالاقساط مکمل شائع کیا ۔اس کے علاوہ اصل ناشر( الدارالعالمی ریاض)کے علاوہ پاکستان میں لاہور کے مکتبہ قاسم العلوم نے اوردہلی کے ناشروں کے علاوہ دیوبند کے مکتبہ یو سفیہ نے شائع کررکھی ہے۔ طلبہ وعوام بھی اس پر ٹوٹے پڑتے ہیں۔ بہت سے طلبہ و اساتذہ نے راقم کا غطریف شہباز سنتے ہی کہا: لاتحزن کے مترجم؟ یوں حیرت انگیز طورپر دوردورتک یہ ترجمہ خاکسار کے تعارف کا ذریعہ بن گیاہے، حالانکہ مترجم نے خود اس کتاب کوبہت زیادہ اہمیت نہیں دی تھی کیونکہ اس کا اصل ذوق علمی، فکری اورتحقیقی کتابیں پڑھنے کا ہے۔

دیوبند کے ایک معروف مصنف اس وقت مولانا ندیم الواجدی ہیں میں جو ایک بڑے کتب خانہ کے مالک، متعدد کتابوں کے مصنف اورماہنامہ ترجمان دیوبند کے مدیر ہیں۔اس کے علاوہ لڑکیوں کی دینی تعلیم کا ایک ادارہ دارلعلوم عائشہ صدیقہ للبنات بھی چلاتے ہیں۔ آپ کے صاحبزادہ مولانا یاسر ندیم دیوبندی نے دیوبند دارالعلوم سے فراغت کے بعد انہوں نے انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی ملائیشیا اورپھر امریکہ کی ایک دانش گاہ سے بھی اکتساب فیض کیا ہے۔ مولانا ندیم الواجدی نے راقم کا نام سنتے ہی پہچان لیا اوربڑے تپاک سے ملے۔ ضروری تواضع کے بعد راقم نے ان سے برج کورس کی افادیت کے بارے میں ان کے تاثرات معلوم کیے مولانا ندیم الواجدی نے فرمایا:دینی مدارس کے فارغین کے لیے یہ کورس نہایت مفید ہے۔ اس کی افادیت میں کوئی شبہ نہیں ، البتہ اس کے ڈائرکٹر پروفیسر راشد شاز کی شخصیت متنازعہ فیہ بن گئی ہے۔ یہی اصل مسئلہ ہے (حالانکہ میرے(واجدی کے) ان سے خوش گوارتعلقات ہیں)۔ اس کورس کا ذمہ دار متنازعہ نہیں ہونا چاہیے۔ ہم نے عرض کیا کہ جناب شاز صاحب اپنے فکر کو اس کورس سے بالکل الگ کرکے رکھتے ہیں۔ اس جواب سے وہ مطمئن ہوئے اورانہوں نے کہا کہ آئندہ بھی ایسا ہی ہونا چاہیے۔ برج کورس میں Science Stream کے آغاز اورپھر اس کو جاری نہ رکھ پانے کی مشکلات ہم نے ان کے گوش گزار کیں توانہوں نے کہا کہ برج کورس کو مدارس سے اس مسئلہ میں کسی مدد کی توقع نہیں کرنی چاہیے۔ دارالعلوم نے جنرل سائنس کے نام سے(اردومیں)سائنس پڑھانے کا ایک تجربہ شروع کیاتھا جو جاری نہیں رہ سکا۔ اصل میں مولانا ارشدمدنی سابق مدیر تعلیمات دارالعلوم دیوبندوسینئر استاد حدیث اورجمعیۃ العلماء (ارشد گروپ) کے صدر اس چیز کے سخت خلاف ہیں اورجب تک وہ اس کے قائل نہ ہوں، یہاں کوئی بھی کچھ سننے کاروادارنہ ہوگا۔

اس کے بعد ہم نے مولانا شاہ عالم قاسمی گورکھپوری کے مکان کا قصد کیا۔ مولانا سے ملنے کے اشتیاق کی خاص وجہ یہ تھی کہ انہوں نے تفسیر قرآن کی ایک ویب سائٹ ڈیولپ کی ہے جس میں دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث اور جماعت اسلامی سبھی مکاتب فکر کی تفسیریں اورقرآن سے متعلق اورخدمات جمع کردی ہیں۔ یہ ایک مثبت ، خوش آئند اور تعمیری کام ہے۔ برج کورس کے بارے میں ان کے تاثرات جاننے کے علاوہ راقم کے ذہن میں یہ بھی سوال تھا کہ مکتب فراہی کی تفسیری خدمات بھی ان کی ویب سائٹ کا حصہ بنیں گی یا نہیں ۔اگر نہیں تو اس کی وجوہات کیاہیں؟ کہ برصغیر میں اس مکتب فکر کی خدمات کا ذکر کیے بغیر کوئی بھی فہرست ؍سائٹ ادھوری ہوگی۔لیکن افسوس کہ مولانا سے ملاقات نہ ہوسکی کیونکہ وہ لمبے سفر پر گئے ہوئے تھے۔ اسی طرح مولانا حبیب الرحمن اعظمی( استاد حدیث اورمدیر ماہنامہ ترجمان دارالعلوم (دارالعلوم کا سرکاری آرگن) سے ملاقات نہ ہوسکنے کا قلق بھی بھی رہا۔ موصوف بھی سفر پر گئے ہوئے تھے۔

مولانا پالن پوری کی خدمت میں

موجودہ وقت میں دارالعلوم دیوبند کی سب سے مشہور علمی شخصیت مولانا مفتی سعید احمد پالن پوری ہیں جو دارالعلوم کے شیخ الحدیث ہیں۔ وہ دارالعلوم میں گزشتہ 40سالوں سے حدیث کا درس دے رہے ہیں۔ حجۃ اللہ البالغہ کی اردو شرح رحمۃ اللہ الواسعہ کے مؤلف ہیں جو علمی دنیا میں خاصی معروف ہے۔ اس کے علاوہ موصوف کے اوربھی فقہی وحدیثی کارنامے معروف ہیں۔ان کے خادم خاص مولانا اشتیاق احمد قاسمی نے بتایا کہ مولانا کی کتابوں کی طلب غیر ممالک میں بہت زیادہ ہے۔ اس وقت دارالعلوم سے ان کی تنخواہ تیس ہزار روپے مقرر ہے، مگر وہ تنخواہ نہیں لیتے بلکہ اپنی کتابوں کی یافت پرگزربسر کرتے ہیں۔ رضا کارانہ خدمات انجام دینا آج کی دنیا میں بہت بڑی بات ہے۔ مولانااشتیاق عالم نے راقم کی عربی تحریریں البعث الاسلامی میں پڑھی ہیں۔انہوں نے بتایاکہ میںآپ سے بہت متاثرہوں مگراسی بے تکلفی میں انہوں نے میری ڈاڑھی کی خبربھی لے لی۔

خیر،مولانا پالن پوری کی عام مجلس عصرتامغرب روزانہ لگتی ہے جس میں کثرت سے استاد، زائرین اورطلبہ حاضر ہوتے ہیں۔ راقم بھی مولانا صدرعالم کے ساتھ آپ کی مجلس میں حاضر ہوا۔ سلام کے بعد جیسے ہی اندرداخل ہوئے، مولانا نے فوراً تاڑ لیاکہ باہر کابندہ ہے۔پوچھا، کہاں سے آئے ہو؟ میں نے عرض کیا، دہلی سے۔ پوچھا، کیاکرتے ہیں؟ میں بتایا کہ میر اترجمہ وتالیف کا کام ہے اورصحافت سے بھی تعلق ہے۔ نیزبعض طلبہ کو انگریزی زبان اورعربی ادب بھی پڑھاتاہوں۔ مولانا کی طبیعت میں ظرافت بھی ہے۔ اسی وقت کہیں باہر سے ایک تبلیغی جماعت مصافحہ کے لیے آئی جس میں سب سے پہلے آنے والے عالم بہت تن وتوش والے تھے۔ مفتی صاحب چھوٹتے ہی بولے، ’’بہت موٹا مولوی ہے۔ اسی سے زیادہ گشت کرایا کرو۔‘‘ پوری مجلس زعفران زار ہوگئی۔ میں نے جگہ بنانے بناتے بناتے مولانا سے قریب جاکر کہا، حضرت ایک اشکال ذہن میں ہے کہ درس نظامی پر علامہ بنوری اورمولانا گیلانی نے شدید تنقید کی ہے، مگرہم اس میں کوئی تبدیلی نہیں لارہے ہیں؟ کہنے لگے۔ ’’میں بھی اس کا ناقد ہوں ، مگر مولانا بنوری کی تنقید مجھے پسند نہیں آئی۔ انہوں نے کاغذ بچانے اورازحداختصارسے کام لینے کاشکوہ کیاہے حالانکہ جواس درس کے مختصرمتون ہیں، وہ ازبر یاد کرنے کے لیے ہیں‘‘۔ ظاہر ہے یہ کہ اصل اشکال کاکوئی جواب نہیں تھا۔ 

میرے ہاتھ میں اس وقت کتاب ’’تناقضات الالبانی الواضحات‘‘ از حسن علی السقاف تھی۔ پوچھا، یہ کیاہے؟ میرے ہاتھ سے کتاب لے کر دیکھی اور پھر تبصرہ کیا۔ ’’ یہ عرب اب لکیر پیٹ رہے ہیں۔ مولانا (محدث) حبیب الرحمن اعظمیؒ نے ابتدا میں تناقضات الالبانی لکھ کر عربوں کو توجہ دلائی تھی۔ البانی نے بڑانقصان پہنچادیاہے۔ اب دوسو سال اس کی بھرپائی میں لگیں گے‘‘۔ اسی وقت مغرب کی اذان ہوگئی اوریوں مجلس برخواست ہوگئی ۔ ظاہر ہے کہ مولانا کا البانیؒ صاحب پر سخت تبصرہ اوران کی زبان مولانا کی شایان شان نہ تھی۔ علمی اختلاف اپنی جگہ، لیکن خدمات کا اعتراف کیاجانا چاہیے۔ ویسے البانی صاحب کی زبان بھی اپنے ناقدوں کے لیے ویسی ہی شدید اورتندتھی چنانچہ وہ شیخ عبدالفتاح ابو غدہ اوران کے استاد علامہ زاہد الکوثری کے لیے الظالم الجائر الجانی جیسے شدید الفاظ استعمال کرتے تھے۔ میرے والد علامہ شبیر احمد ازہر میرٹھیؒ نے بھی ائمہ رواۃ حدیث کے لیے سخت الفاظ لکھے ہیں جو مناسب نہ تھا۔

دارالعلوم دیوبندمیں کئی مسجدیں ہیں جن میں سب سے زیادہ خوبصورت اوروسیع مسجدرشیدہے جوایک نئی مسجدہے اور غالباً دہلی کی تاریخی جامع مسجدکے بعدہندوستان کی سب سے بڑی اورخوبصورت مسجدہے۔اس کے علاوہ دارالعلوم کی لائبریری کی بھی چھہ منزلہ کشارہ عمارت بن رہی ہے ۔ہندوستان کے مدارس اسلامیہ اوراسلامی علمی مراکز میں دارالعلوم کی لائبریری اپنی کثیرکتابوں اور اپنے علمی مخطوطات کے لیے مشہورہے۔ البتہ طلبہ کی اقامت گاہیں ابھی بہت اچھی حالت میں نہیں ہیں۔اس سلسلہ میں دارالعلوم ندوۃ العلماء کی ہاسٹل سہولیات کہیں زیادہ بہترہیں۔ 

جامعہ امام انور شاہ میں: 

دیوبند کا تیسرابڑاادارہ جامعہ امام محمد انور ہے جسے علامہ انور شاہ کشمیری کی یاد میں ان کے فرزنداصغر مولانا انظر شاہ کشمیریؒ نے قائم کیاتھا۔ مولانا بڑے عالم ہونے کے ساتھ ساتھ عظیم خطیب اورالبیلے نثر نگار بھی تھے۔ عصر حاضر کے تقاضوں سے آشنا اورمیدان سیاست کے شہسوار بھی۔چنانچہ آپ کانگریس کی یوپی شاخ کے صدر بھی رہے۔ مدارس اسلامیہ کے نصاب میں تبدیلی کو ضروری جانتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جامعہ امام انور میں نصاب تعلیم میں خاصی انقلابی تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ اس وقت مولانا انظر شاہ صاحب کے صاحبزادے مولانا احمد خضر شاہ مسعودی اس ادارہ کے سربراہ ہیں۔ادارہ کے استاد مولانا وصی احمد قاسمی نے راقم کی کتاب’’عالم اسلام کے چند مشاہیر سوانح وافکار کا مطالعہ‘‘ طلب کی تھی، چنانچہ بعد مغرب راقم نے مولانا صدرعالم کی ہمراہی میں جامعہ کی راہ لی۔ مولانا وصی احمد سے خاصی دیر مختلف امور پر تبادلۂ خیال رہا۔ پھر آپ نے جامعہ کے اہم شعبے دکھائے۔اُنہی سے مولانا احمد خضر شاہ کا نمبر لیا اوران سے فون پر بات ہوئی۔ مولانا نے دوسرے دن سات بجے ناشتہ پر بلایا۔ چنانچہ راقم سطور حاضر ہوا اور مولانا کے ساتھ ناشتہ کی میز پر مختصر سوال جواب کیے۔ آپ نے عربی میں تازہ بتازہ شائع ہوئی کتاب مختارات الامام الکشمیری تحفہ میں عنایت فرمائی۔

دارالعلوم وقف میں

مولانا احمد خضر شاہ صاحب سے ملاقات کے بعد طے شدہ پروگرام کے مطابق دارالعلوم وقف میں حاضر ی ہوئی۔ وہاں مہتم دارالعلوم وقف مولانا سفیان القاسمی کے بیٹے جناب مولانا شکیب القاسمی سے ملاقات ہوئی جنہوں نے دارالعلوم دیوبند سے فضلیت کے بعد جامعہ ازہر مصر اورملیشیا کی انٹرنیشنل یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی ہے۔ انہوں نے حجۃ الاسلام اکیڈمی سے عربی میں وحدۃ الامۃ کے نام سے ایک تحقیقی مجلہ اوراردو میں ندائے دارالعلوم وقف (ماہنامہ)نکالنا شروع کیاہے۔ شکیب صاحب مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے سینٹر برائے فروغ تعلیم وثقافت مسلمانانِ ہند (CEPECAMI) کی مسلم امت کا فکری بحران کا نفرنس میں شرکت کرچکے ہیں۔برج کورس کے سلسلہ میں راقم کے سوالوں کے جواب میں انہوں نے جوباتیں کہیں، ان کا خلاصہ یہ ہے: برج کورس سے کسی کو پریشانی نہیں۔ مولانا آزاد یونیورسٹی بھی برج کورس کئی سارے Streamsمیں لارہی ہے۔ اہل مدارس کو اسے قبول کرنے میں کوئی تحفظ نہیں۔ ہمیں جو تحفظ ہے، وہ صرف ڈاکٹر شاز کی فکر سے ہے۔ ہم نے تو ان کی فکر کا براہ راست مطالعہ کرناچاہا۔ سوالات مرتب کرکے ان کے پاس بھیجے، مگر انہوں نے کوئی Responseنہیں دیا۔ انٹرفیتھ اورانٹرافیتھ کے ذریعہ مفاہمت پیداہورہی ہے، وہ اچھی چیز ہے۔ یونیورسٹی میں تویہ ہوتاہی ہے۔ اس میں برج کورس کی کوئی تخصیص نہیں۔ سائنس کی مبادیات کو یوں متعارف کرایاجاسکتاہے کہ اس کے لیے ایک ڈپلوما کورس مدارس میں اصل نصا ب کو چھیڑے بغیر شروع کیاجائے۔ اوراس کا جوکورس بنایاجائے، اس میں ماہرین کے ساتھ علماء کو بھی شامل کیاجائے۔ بہر حال بڑے خوش گوار ماحول میں گفتگوہوئی۔

اتحاد الطلبہ حیدرآباد میں

دارالعلوم میں اس وقت سال کے اخیر میں طلبائی انجمنوں کے پروگرام چل رہے تھے۔ دارالعلوم میں مختلف علاقوں شخصیات اورشہروں کے ناموں پر طلبائی انجمنیں ہیں۔ مولانا صدرعالم قاسمی کو حیدرآباد کے طلبہ نے اپنے پروگرام میں شرکت کی دعوت دی جسے انہوں نے قبول کرلیا۔ وہیں ان طلبہ سے میراتعارف بحیثیت مترجم لاتحزن  کے صدرعالم صاحب نے کرادیا۔ پھر توطلبہ مصر ہوگئے چنانچہ رات میں بعد عشا میں بھی ان کے ساتھ گیا۔ طلباء نے مختلف پروگراموں کے ساتھ ایک مکالمہ (ڈرامہ) بھی پیش کیا جس میں کرکٹ کے نقصانات کو دکھایاگیا تھا۔ ڈرامہ حیدر آباد کی اردو (مقامی بولی) میں تھا، اس لیے سامعین خوب محظوظ ہوئے۔ صدارت دارالعلوم کے صدرمفتی مولانا حبیب الرحمن خیرآبادی نے کی۔ اخیر میں مجھ سے بھی بحیثیت مترجم لاتحزن  کے طلبہ کو خطاب کرنے کی دعوت دی گئی۔ چنانچہ دس منٹ کی مختصر تقریر میں راقم نے تحریک دیوبند کی خدمات موجودہ دور کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے ضروری صلاحیتوں کے حصول پر روشنی ڈالی۔ علی الصباح دیوبند سے واپسی ہوگئی۔ دیوبند کے مختلف اداروں کے موجودہ نصابہائے تعلیم بھی میں نے جمع کرلیے تھے جن کے مطالعہ، اپنے مشاہدے اورعلماء سے گفتگو کے بعد دوسوال ایسے ہیں جن کا جواب دیاجانا باقی ہے۔ 

۱۔ مختلف امور میں دینی؂رہنمائی کے لیے ضروری ہے کہ زمانہ کافہم بھی حاصل کیا جائے۔ موجودہ سائنس، اس کی فکریات، موجودہ نظام معیشت اورنظام سیاست وغیرہ اس کا ذریعہ ہیں اورجن کوبغیر ضروری سیکولر علوم داخل کیے نہیں سمجھاجاسکتا توآخر ہمارے مدارس کو ان کے سلسلہ میں شدید تحفظ کیوں ہے؟

۲۔ درس نظامی کے ناقدین کہتے ہیں کہ ابتداء میں یہ دینی کم، سیکولر زیادہ تھا۔ خوددارالعلوم میں جو نصاب شروع میں اختیار کیاگیا، اس میں بھی سیکولر علوم (آلیہ) کا حصہ بہت زیادہ تھا مگر آج اس پہلے نصاب کی طرف مراجعت کی کوئی ضرورت کیوں محسوس نہیں کی جاتی حالانکہ خود متعدد دیوبندی اکابر مثلاً علامہ یوسف بنوری اورمولانامناظراحسن گیلانی نے مروجہ درس نظامی پر سخت تنقیدیں کی ہیں؟

مشاہدات و تاثرات

(جون ۲۰۱۶ء)

جون ۲۰۱۶ء

جلد ۲۷ ۔ شمارہ ۶

غیر شرعی قوانین کی بنیاد پر مقتدر طبقات کی تکفیر / تہذیب جدید اور خواتین کے استحصال کے ’’متمدن‘‘ طریقے / چھوٹی عمر کے بچے اور رَسمی تعلیم کا ’’عذاب‘‘
محمد عمار خان ناصر

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۹)
ڈاکٹر محی الدین غازی

فتویٰ کی حقیقت و اہمیت اور افتا کے ادارہ کی تنظیم نو
ڈاکٹر محمد یوسف فاروقی

مطالعہ و تحقیق کے مزاج کو فروغ دینے کی ضرورت
مولانا نور الحسن راشد کاندھلوی

عصری لسانیاتی مباحث اور الہامی کتب کی معنویت کا مسئلہ
محمد زاہد صدیق مغل

دیوبند کا ایک علمی سفر
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں؟
ڈاکٹر محمد طفیل ہاشمی

لاہور کے سیاست کدے
محمد سلیمان کھوکھر ایڈووکیٹ

قرآن مجید کے قطعی الدلالہ ہونے کی بحث
ڈاکٹر حافظ محمد زبیر

توہین رسالت کیوں ہوتی ہے؟
ڈاکٹر عرفان شہزاد

کیا توہین رسالت پر سزا کے قانون کا غلط استعمال ہوتا ہے؟ مولانا شیرانی، پروفیسر ساجد میر اور مولانا زاہد الراشدی کی خدمت میں
مولانا غلام محمد صادق

مولانا غلام محمد صادق کے نام مکتوب
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

’’میرا مطالعہ‘‘
ادارہ

تلاش

Flag Counter