یہ گفتگو ادارہ علم و تحقیق "المورد" کے سلسلہ وار آن لائن ماہانہ علمی لیکچرز کی سولہویں نشست میں کی گئی۔ اسے کچھ تہذیب و تنقیح کے بعد اشاعت کی غرض سے لیکچر سے تحریری صورت دی گئی ہے۔
قطعی الدلالہ کا معنی ومفہوم
سب سے پہلے ہم قطعی الدلالہ کا معنی واضح کر دیں۔ قطعی کا لفظ "قطع" سے ہے کہ جس کا معنی کاٹنا ہے۔ پس "قطعی الدلالہ" میں قطعی کا معنی یہ ہے کہ لفظ میں موجود ایک سے زائد معانی کے احتمالات کا ختم ہو جانااور محتمل معانی میں سے ایک ہی معنی کا متعین ہو جانا۔ یہاں "قطعی" کا لفظ خود اس بات کی دلیل ہے کہ لفظ میں ایک سے زائد معانی کا احتمال ہوتا ہے، ورنہ تو "قطع" کا معنی کیا ہوا کہ جو اس لفظ کی اصل ہے۔ لفظ میں یہ احتمالات لغت میں ایک سے زائد معانی کے لیے لفظ کے وضع ہونے یا لفظ کے عرفی معنی میں اختلاف یا لغوی اور شرعی معنی میں فرق یا نظم کلام اور سیاق وسباق میں کسی لفظ کو رکھ کر دیکھنے کے پس منظر اور تناظر کے اختلاف وغیرہ کے سبب سے پیدا ہوتے ہیں۔ لہٰذا یہ بات امر واقعہ ہے کہ بعض اوقات کلام میں فی نفسہ ایک سے زائد معانی کا احتمال موجود ہوتا ہے۔
"دلالت" کا اصطلاحی معنی یہاں، منطق کی اصطلاح میں ، دلالت مطابقت ، دلالت تضمن اور دلالت التزام ہے۔ اور اصول فقہ کی اصطلاح میں "دلالت" سے مراد منطوق اور مفہوم ہے یعنی لفظی اور معنوی دلالت۔ منطوق سے صریح اور غیر صریح مراد ہے کہ لفظ، صیغے اور نظم کلام کی اپنے معنی پر دلالت صراحت کے ساتھ ہے یا غیر صراحت کے ساتھ۔ صریح میں مطابقت اور تضمن یعنی لفظ کا کل معنی یا جزوی معنی پر دلالت کرنا ہے جیسا کہ امر ونہی، مطلق ومقید، عام وخاص، مجمل ومبین اور ظاہر ومؤول وغیرہ۔ غیر صریح میں دلالت التزام مراد ہے کہ لفظ نہ تو کل معنی پر دلالت کرے اور نہ ہی جزوی معنی پر بلکہ لازم معنی پر دلالت کرے جیسا کہ اشارۃ النص، اقتضاء النص اور ایماء النص۔ مفہوم کی دو قسمیں ہیں: موافق اور مخالف۔ موافق کی قسموں میں اولیٰ اور مساوی ہے جبکہ مخالف کی قسموں میں غایت، شرط، وصف، عدد، ظرف، علت اور لقب ہے۔ یہ جمہور کا طریقہ ہے۔
احناف کے نزدیک دلالت کی چار قسمیں ہیں: یعنی وضع، استعمال، وضوح وخفاء اور قصد کے اعتبار سے۔ وضعی دلالت کے اعتبار سے لفظ عام، خاص اور مشترک میں منقسم ہے۔ لفظ یا تو ایسے مدلول کے لیے وضع ہوا ہے کہ جو محصور ہے یا پھر ایسے مدلول کے لیے کہ جو غیر محصور ہے یا پھر ایک سے زائد مدلول کے لیے وضع ہوا ہے۔ پھر لفظ اپنے وضعی معنی میں استعمال ہوا ہے یا نہیں تو اس اعتبار سے حقیقت ومجازاور صریح وکنایہ کی اصطلاحات ہیں۔ پھر لفظ کی اپنے معنی میں دلالت کتنی واضح یا کس قدر خفی ہے تو اس پہلو سے ظاہر، نص، مفسر اور محکم ہے یا خفی، مشکل، مجمل اور متشابہ ہے۔ اور قصد کے اعتبار سے عبارۃ النص، اشارۃ النص، دلالۃ النص اور اقتضاء النص ہیں۔ اگر تو وہ دلالت متکلم کا مقصود ہے تو عبارت ہے اور اگر مقصود کلام نہیں ہے تو اشارہ ہے۔ اور اگر دلالت لغوی ہے تو دلالت ہے اور اگر شرعی ہے تو اقتضاء ہے۔
قرآن مجید کی قطعیت اور ظنیت کے بارے مروجہ نقطہ ہائے نظر
قرآن مجید کے الفاظ کی اپنی دلالت میں قطعیت اور ظنیت کے بارے تین موقف پائے جاتے ہیں:
۱۔قرآن مجید کل کا کل قطعی الدلالہ ہے۔
۲۔ قرآن مجید کل کا کل ظنی الدلالہ ہے۔
۳۔قرآن مجید کا بعض قطعی الدلالہ اور بعض ظنی الدلالہ ہے۔
ہمیں اس وقت یہ بحث نہیں کرنی کہ ان میں سے کون سا کس کا موقف ہے؟ ہمیں اس وقت شخصیات کے تذکرہ کی بجائے پہلے دو نقطہ ہائے نظر کی غلطی اور تیسرے کی صحت بیان کرنی ہے۔ قرآن مجید کے قطعی یا ظنی ہونے کے بارے تیسرا موقف اس دینی اور علمی روایت کا تسلسل ہے کہ جس پر تمام معروف مذاہب کا اتفاق رہا ہے۔ ہم اپنی گفتگو میں اختصار کے پیش نظر پہلے موقف کو قرآن مجید "قطعی" ہے، دوسرے کو قرآن مجید "ظنی" ہے اور تیسرے کو قرآن مجید "قطعی اور ظنی" ہے، کے عنوان سے بھی ذکر کریں گے۔
قرآن مجید کی قطعیت کی ممکنہ صورتیں
جب کسی علمی یا دینی روایت میں یہ بحث کی جاتی ہے کہ قرآن مجید قطعی الدلالہ ہے یا نہیں تو وہاں دلالت سے مراد دلالت کی مذکورہ بالا جمیع اقسام ہوتی ہیں۔ اس گفتگو میں اپنی بات کو آسان فہم انداز میں پیش کرنے کی غرض سے قرآن مجید قطعی الدلالہ کا معنی ہم یہ لے رہے ہیں کہ قرآن مجید کے الفاظ کا ایک متعین معنی ہے کہ جو متکلم کا مقصود ہے اور اس کے علاوہ کوئی اور معنی مراد لینا نہ صرف متکلم کی مراد کی خلاف ورزی ہے بلکہ اس کی مخالفت بھی ہے۔ اگر ہم اس بحث کہ قرآن مجید کل کا کل قطعی الدلالہ ہے، کی ممکنہ صورتیں بنائیں تو وہ درج ذیل چار صورتیں ہیں:
۱۔ قرآن مجید عند اللہ قطعی الدلالہ ہے؟ ہمارا اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ ہر کلام اپنے متکلم کے نزدیک اپنے لفظ لفظ میں قطعی ہوتا ہے۔
۲۔قرآن مجید عند رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قطعی الدلالہ ہے؟اس میں کچھ تفصیل ہے کہ فی نفسہ قطعی نہیں بلکہ مع البیان قطعی ہے جیسا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن مجید میں ارشاد فرمایا گیا کہ آپ حضرت جبرئیل علیہ السلام کی قراء ت کی اتباع کریں اور پھر اس قراء ت کا بیان ہمارے ذمہ ہے۔ "اقیموا الصلوۃ" کا وہ معنی ومفہوم جو منشائے متکلم ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے صرف اسی نص کے نزول سے قطعی نہیں ہوا بلکہ مزید وحی خفی کے بیان سے قطعی ہوا جیسا کہ جبرئیل علیہ السلام نے آ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نمازوں کے اوقات وغیرہ کی تعلیم دی۔
۳۔قرآن مجید عند جمیع المخاطبین قطعی الدلالہ ہے؟ یہ دعویٰ کسی طور نہیں ہے۔ یہ ایک ایسی سوفسطائیت ہے جو تفسیر میں اختلاف کے وجود کی بھی منکر ہے۔ تفسیر میں اہل علم کا اختلاف ہوا ہے اور یہ تنوع کا بھی ہے اورتضاد کا بھی ہے۔ تفسیر کا یہ اختلاف آج بھی جاری ہے، اور آئندہ بھی جاری رہے گا۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کی رات، اللہ سبحانہ وتعالیٰ کو دیکھا یا نہیں تو اس میں صحابہ رضوان اللہ اجمعین سے آج تک اختلاف جاری ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ ایک مفسر کے نزدیک راجح رائے کون سی ہے یا اس کے پاس اپنی اس رائے کے حق میں دلائل کس قدر مضبوط ہیں یا اسے اپنی اس رائے کی صحت پر کتنا ایمان اور یقین حاصل ہے وغیرہ۔ ہم یہ بات کر رہے ہیں کہ قرآن مجید کے جتنے مقامات کی تفسیر میں اہل علم کا اختلاف ہوا ہے تو کیا اس اختلاف کے نتیجے میں کسی مفسر کے دلائل اس قدر مضبوط اور کافی و شافی ہیں کہ اس نے مراد الٰہی کی قطعیت کو اس طرح ثابت کر دیا ہو کہ نہ صرف معاصرین نے اس سے اپنا اختلاف ترک کر دیا ہو بلکہ قیامت تک آنے والے اہل علم کے لیے بھی اس کی رائے سے اختلاف کرنا ممکن نہ رہا ہو۔ ہم تو نفس اختلاف کی بات کر رہے ہیں کہ صلاحیت اور اخلاص دونوں بنیادوں پر اہل علم کا قرآن مجید کی آیات کی تفسیر میں اختلاف ہوا ہے، ہو رہا ہے اور ہوتا رہے گا اور یہی اس کے قطعی الدلالہ نہ ہونے کے لیے کافی و شافی دلیل ہے۔
اب یہ کہنا کہ تاویل کا اختلاف اور ہوتا ہے اور احتمال کا اختلاف فرق ہے اور مفسرین نے تاویل میں اختلاف کیا ہے، یہ ویسی ہی تھیورائزیشن ہے جیسی کہ قرآن مجید کو ظنی الدلالہ کہنے والوں کی۔ جب ان کے اس موقف پر کہ قرآن مجید کل کا کل ظنی الدلالہ ہے، عقلی وشرعی اعتراضات وارد کیے جاتے ہیں تو وہ یہی جواب دیتے نظر آتے ہیں کہ تفسیر اور ہوتی ہے اور اعتبار فرق ہے۔ کسی شیء کو تھیورائز کر لینے کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہوتا کہ اس قاعدے کلیے یا ضابطے کا آپ کے ذہن سے باہر خارج میں بھی وجود ثابت ہو گیا ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ مفسرین میں تاویل کا اختلاف تنوع کا بھی ہے اور تضاد کا بھی ہے۔ البتہ متقدمین مفسرین یعنی صحابہ کی جماعت میں تفسیر کازیادہ تر اختلاف تنوع کا ہی تھا۔ اس لیے ابن تیمیہ رحمہ اللہ متقدمین کی تفسیر کی طرف رجوع کے پرجوش مبلغ ہیں کہ اس سے قرآن مجید کی قطعیت بڑھ جاتی ہے کہ قرآن مجید کامعنی ومفہوم متعین کرنے میں متقدمین کو کچھ ایسے خارجی ذرائع بھی حاصل تھے کہ جو کہ متاخرین کو حاصل نہیں ہیں جیسا کہ ان کا شان نزول کا حصہ ہونا۔ لیکن قرآن مجید کی تفسیر میں متاخرین نے جو اختلاف متقدمین سے کیا یا متاخرین نے آپس میں کیا تو اس میں تو اکثراختلاف، تضاد ہی کاہے۔ اور تضاد کا اختلاف، نفس کلام اور لفظ میں موجود ایک سے زائد احتمالات کے بغیر ممکن نہیں ہے۔
قرآن مجید عند بعض المخاطبین قطعی الدلالہ ہے؟ تو یہ دعویٰ بھی درست نہیں ہے کہ ایک مفسر کے لیے کل قرآن مجید قطعی الدلالہ ہو جائے۔ یہ تو عصمت ہے جو نبی کے علاوہ کو حاصل نہیں ہے۔ اگر نبی کے علاوہ کو حاصل ہو سکتی تو دو اشخاص کو لازماً حاصل ہوتی یعنی عمر بن خطاب اور عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہ جن کی قرآن فہمی، تاویل وتفسیر اور دینی علم کی فضیلت و منقبت نصوص سے ثابت ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سینے سے لگا کر یہ دعا دی کہ اے پروردگار!انہیں کتاب کا علم عطا فرما۔ اور حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے بارے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ علم نبوت کے اس پیالے سے سیراب کیے گئے کہ جس سے میں سیراب ہوا ہوں۔اور یہی عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے "ابا" کا معنی معلوم نہیں اور اگر میں اس کا معنی معلوم کرنے کی کوشش بھی کروں گا تو تکلف محض ہو گا۔ اور اس نوعیت کے اقوال کئی ایک کبار صحابہ سے منقول ہیں۔
یہ بات درست ہے کہ قرآن مجید کے بعض مقامات بعض مفسرین کے لیے کچھ خارجی ذرائع کی وجہ سے قطعی الدلالہ ہو جائیں جبکہ وہی مقامات دیگر مفسرین کی جماعت کے لیے قطعی نہ ہوں۔ اور یہ مفسرین صحابہ اور ان کے بعد کے مفسرین کی جماعت میں ایک اہم فرق ہے۔ حضرت عمر بن خطاب نے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو خط لکھا کہ مسلمان امت قرآن مجید میں کیسے اختلاف کرے گی ؟ تو انہوں نے یہی جواب دیا کہ قرآن مجید ہم صحابہ کی جماعت کے تو سامنے نازل ہوا لہٰذا ہمیں آیات کے بارے میں علم ہے کہ کس کے بارے میں، کیوں اور کس پس منظر میں نازل ہوئی۔ لیکن ہمارے بعد والے اس سے محروم ہوں گے اور بہت اختلاف کریں گے۔
کلام الٰہی اور عربی معلی
اللہ تعالی نے اہل عرب کی زبان میں کلام فرمایا ہے یعنی قرآن مجید جس زبان میں نازل ہوا ہے، اللہ عزوجل نے اسے قرآن مجید کے نزول کے ساتھ وضع نہیں کیا بلکہ اہل عرب اس زبان کے واضع تھے۔ لہٰذا عربی معلی ہو یا عربی مبین،یہ مخلوق کی زبان ہے کہ جس میں خالق نے کلام فرمایا ہے۔ خالق نے اپنے کلام کے لیے مخلوق کی وضع کردہ زبان کو آلہ بنایا ہے اور اسی لیے تو قرآن مجید نے بھی کہہ دیا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان میں نازل ہوا ہے۔
پس ہمارے نزدیک ظنی الدلالہ ہونے کا یہ معنی نہیں ہے کہ متکلم قادر الکلام نہیں ہے بلکہ یہ کہ متکلم نے اپنے کلام کے بعض مقامات کو جانتے بوجھتے اپنے بندوں کی آزمائش کی غرض سے ظنی الدلالہ بنایا ہے جیسا کہ ہمارے لیے واضح ہے کہ کس طرح اللہ عزوجل نے آیات کو محکم اور متشابہ میں تقسیم کر کے متشابہات کو آزمائش بنانے اور ان پر ایمان لانے کا حکم دیا۔ اللہ تعالیٰ کی صفت کلام اور مخلوق کی زبان میں فرق لازم ہے اور یہ اس بارے دوسرا نکتہ ہے۔ ظنی الدلالہ ہونا کلام کا عیب نہیں ہے بلکہ مخاطب کی آزمائش ہے جیسا کہ کسی شخص کا پیدائشی گونگا، بہرا یا نابینا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ اللہ کی صفت خلق میں کوئی عیب یا نقص ہے بلکہ یہ اس کی آزمائش ہے۔اللہ عزوجل کی صفت خلق اور مخلوق دونوں میں فرق لازم ہے۔ اسی طرح کلام کا ظنی الدلالہ ہونا یہ لازم نہیں کرتا کہ اللہ کی صفت کلام میں عیب اور نقص ہے بلکہ اس میں بندوں کی آزمائش رکھی گئی ہے۔
قرآن مجید کی فی نفسہ قطعیت
قرآن مجید کل کا کل قطعی الدلالہ نہیں ہے جیسا کہ خود "القرآن یفسر بعضہ بعضا" کے اصول سے ثابت ہو رہا ہے۔ قرآن مجید میں متوفی عنہا کی عدت درج ذیل آیت میں بیان کی گئی ہے: وَالَّذِینَ یْتَوَفَّونَ مِنْکُم وَیَذَرُونَ اَزْوَاجاً یَّتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِھِنَّ اَربَعَۃَ اَشْھُرٍٍ وَّعَشْراً. [سورۃ البقرۃ، الآیۃ: 234]۔جبکہ اس کے بعد ایک اور آیت میں حاملہ عورتوں کی عدت بیان کی گئی: واولات الاحمال اجلھن ان یضعن حملھن [سورۃ الطلاق:4]۔ ہر دو صورتوں میں، کہ پہلی آیت متوفی عنہاحاملہ کے حکم کو شامل ہے یا نہیں،
متوفی عنہا کی عدت کے مسئلہ میں دوسری آیت نے پہلی آیت کے معنی کو قطعیت دی ہے اور دونوں آیات کے نزول میں زمانی اختلاف موجود ہے، لہٰذا دوسری آیت کے نزول تک پہلی آیت فی نفسہ ظنی الدلالہ تھی۔
اسی طرح اگر قرآن مجید فی نفسہ قطعی الدلالہ ہوتا تو حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کو کیوں شبہہ ہوتا کہ "الخیط الابیض" اور "الخیط الاسود" سے کیا مراد ہے کہ ان کی تو مادری زبان بھی عربی تھی۔ البتہ یہ الفاظ قرآنی عند رسول صلی اللہ علیہ وسلم قطعی الدلالہ تھے۔پس قرآن مجید بعض مقامات پر فی نفسہ قطعی ہے جیسا کہ "مائۃ جلدۃ" اوربعض پر فی نفسہ ظنی جیسا کہ "المیتۃ"۔
قرآن مجید کا کل ذخیرہ الفاظ یا محاورات عربی معلی ہی کے ہیں یا قرآن مجید نے اصلاً عربی معلی میں کلام کیا اور بہت سا ذخیرہ الفاظ یا محاورات ایسے استعمال کیے جو اہل عرب کی زبان میں رائج نہیں تھے؟ یہ اس موضوع سے متعلق ایک اہم سوال ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ قرآن مجید نے بہت سے الفاظ اور محاورات ایسے استعمال کیے ہیں جو اہل عرب کے لیے نئے تھے یعنی ان کی زبان میں وہ مستعمل نہ تھے جیسا کہ استوی علی العرش، سدرۃ المنتھی، لوح محفوظ اور جہنم وغیرہ۔ اب عرب جن الفاظ اور محاورات ہی کو پہلی مرتبہ سن رہے تھے تو وہ ان کے لیے فی نفسہ قطعی الدلالہ کیسے ہو گئے؟ ہاں! سنت کے بیان کے ساتھ مل کر وہ قرآنی الفاظ قطعی الدلالہ ہو گئے ہوں تو وہ علیحدہ مسئلہ ہے کہ اس صورت میں ایک خارجی ذریعے نے قرآن کے الفاظ کے معانی کو متعین کیا ہے نہ کہ نظم کلام یا سیاق وسباق نے۔
اسی طرح قرآن مجید نے عربی معلی کے جس ذخیرہ الفاظ یا محاورات کو استعمال کیا تو کیا بعینہ اسی معنی میں استعمال کیا کہ جیسے عرب جانتے تھے یا جس معنی میں وہ استعمال کرتے تھے یا اس معنی میں کمی بیشی کے ساتھ لفظ کو ایک نیا معنی دیا کہ جس معنی سے عرب اس سے پہلے واقف نہ تھے؟ امر واقعہ یہ ہے کہ قرآن مجید کے بہت سے الفاظ جو کہ اصطلاحات شرعیہ کی قبیل سے ہیں، قرآن مجید نے انھیں ان معانی میں استعمال نہیں کیا کہ جس معنی میں وہ عربی معلی میں مستعمل تھے بلکہ اس میں بہت زیادہ کمی بیشی کی جیسا کہ لفظ صلوٰۃ، صوم، زکوٰۃ او رحج وغیرہ۔ اب سنت کے بیان کے بغیر کیا قرآن مجید کے یہ الفاظ اپنے معنی ومفہوم میں قطعی الدلالہ ہیں؟ آپ اگر سنت سے مراد ’’سنت ابراہیمی‘‘ بھی لے لیں تو پھر بھی صورت حال یہ ہے کہ ایک تو یہ سنت بھی قرآن مجید کے علاوہ ایک خارجی ذریعہ ہی ہے اور دوسرا آپ سنت میں بھی تجدید واضافہ کے بھی قائل ہیں کہ یہ سنت بھی بعینہ وہ نہیں تھی جو اہل عرب میں اسلام سے پہلے رائج تھی یا عرب اس کے اصل معنی سے واقف تھے۔
قرآن مجید کی خارجی ذرائع کے ساتھ قطعیت
یہ بات درست ہے کہ قرآن مجید کے بعض مقامات جو کہ مخاطبین کے لیے ظنی الدلالہ ہوں، خارجی ذرائع مثلاً تفسیر رسول صلی اللہ علیہ وسلم، لغت قرآن میں تفسیر صحابی، شان نزول کی روایات اور اجماع مفسرین سے قطعی ہو جاتے ہیں۔ کل قرآن مجید فی نفسہ قطعی الدلالہ ہے یا خارجی ذرائع کے ساتھ قطعی الدلالہ ہے تو یہ دعویٰ کسی صورت درست نہیں ہے کہ کم از کم حروف مقطعات تو دونوں صورتوں میں ہی نکالنے ہی پڑیں گے۔ اور فی نفسہ قطعی الدلالہ نہ ہونے کے ثبوت میں امور غیبیہ اور مصطلحات شرعیہ بھی تو دلیل ہیں۔ کیا کوئی مفسر یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ سنت کے بغیر صلوٰۃ، زکوٰۃ، صوم اور حج کا وہ معنی معلوم ہو سکتا ہے کہ جو متکلم کی مراد ہے؟ کیا قرآن مجید مصطلحات شرعیہ کے معانی ومفاہیم کے بیان میں فی نفسہ قطعی الدلالہ ہے کہ بغیر کسی خارجی ذریعے کے ان اصطلاحات کے معانی ومفاہیم مخاطب کو سمجھ آ جائیں؟
اگر آپ یہ کہیں کہ کل قران مجید فی نفسہ قطعی القصد ہے تو یہ بات درست ہے لیکن قطعی المعنی تو یہ دعویٰ درست نہیں ہے۔ قرآن مجید نے آیات متشابہات کے بارے کہا کہ اللہ کا قصد واضح ہے کہ ان آیات پر ایمان لے آؤ لیکن ان کی معنوی حقیقت ، تو یہ اللہ کے علاوہ کسی کے علم میں نہیں ہے۔ یہ واضح رہے کہ معنی میں اور معنوی حقیقت میں بھی فرق ہے۔ ایک کل معنی ہے، ایک اصل معنی ہے اور ایک لازم معنی ہے۔ یہ فرق بھی اس بحث میں اہم ہے۔"جنت" کا کل معنی یا حقیقی معنی نامعلوم اور کبھی معلوم ہو ہی نہیں سکتا کہ کسی آنکھ نے دیکھی نہیں، کان نے سنی نہیں اور دل پر خیال نہیں گزرا۔ اور "جنت" کا اصل معنی معلوم ہے کہ وہ باغ ہے۔ اور اس کا لازم معنی یہ ہے کہ مومنین کا اخروی گھر ہے۔"فرشتہ" کا کل معنی نامعلوم ہے اور معلوم ہونا بھی ناممکن ہے۔ اصل معنی نور ہے۔ اور لازم معنی اللہ کی مخلوق ہونا ہے۔
یہاں سے ظنی الدلالہ کہنے والوں کو شبہہ ہوا کہ قرآن مجید کل کا کل ظنی الدلالہ ہے کہ ان کے نزدیک ایک لفظ کی حقیقت وماہیت معلوم نہیں ہو سکتی۔ اور یہ تحکم محض اور جہل مرکب ہے کہ قرآن مجید کے لفظ لفظ کے باے میں یہ دعویٰ کر دیا جائے کہ اس کا کل معنی نامعلوم ہے۔ اربعۃ کا کل معنی اربعۃ اور ماءۃ کا کل معنی ماءۃ ہے۔ موسیٰ کا کل معنی معلوم ہے کہ ایک اللہ کے پیغمبر اور ان کی ذات مراد ہے اور ہارون کا کل معنی معلوم ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کے بھائی ہیں، اللہ کے پیغمبر ہیں اور ان کی ذات مراد ہے۔ اب یہ کہنا کہ قرآن مجید میں موسیٰ علیہ السلام سے ’’قلب سلیم‘‘ اور ہارون سے ’’عقل مستقیم‘‘ مراد ہے تو اس سے بڑھ کر اللہ کی کتاب کے ساتھ کیا کھلواڑ ہوگا؟
ظنی الدلالہ ہونے کا معنی ومفہوم
ظنی الدلالہ کا یہ معنی نہیں ہے کہ
۱۔قرآن مجید کی آیات کا کوئی معنی ومفہوم ہی نہیں ہے یہ تو اہل تفویض کا قول ہے۔
۲۔اور نہ ہی ظنی الدلالہ کا معنی یہ ہے کہ مفسر کو قرآن مجید کا جو معنی ومفہوم سمجھ آیا ہے تو وہ لازماً غلط ہی ہے۔
۳۔اور نہ ہی ظنی الدلالہ کا یہ معنی ہے کہ قرآن مجید کے الفاظ میں اس قدر ابہام ہے کہ مرزائیوں کی مرزائیت، روافض کی رافضیت اور باطنیہ کی باطنیت بھی ثابت ہو سکتی ہے۔
پہلی دو باتوں کے بارے عرض یہ ہے کہ ظنی الدلالہ کا معنی یہ ہے کہ مفسر کے غالب گمان کے مطابق قرآن مجید کا معنی ومفہوم وہی ہے جو اسے سمجھ میں آیا ہے۔ وہ "عندہ مصیب" ہے اور قرآن فہمی میں خطا کے باوجود عند اللہ ماجور ہو گا کہ ایک گنا اجر حاصل کرے گابشرطیکہ اس میں قرآن مجید کی تفسیر کی اہلیت اور اخلاص کی شرائط موجود ہوں۔علاوہ ازیں ظنی الدلالہ ہونے کا معنی یہ بھی ہے کہ اس کی قرآن فہمی میں خطا جبکہ فریق مخالف کی تفسیری رائے میں صحت کا امکان بھی موجود ہے۔
تیسری بات کے بارے ہمیں یہ عرض کرنا ہے کہ ظنی الدلالہ ہونے کا یہ معنی کسی بھی اصولی علمی روایت میں بیان نہیں ہوا کہ لفظ کی کوئی حدود ہی نہیں ہوتیں کہ جو چاہیں اس سے معنی مراد لے لیں۔ لفظ "ید"کا معنی ہاتھ ہے یا بازو ہے یا قدرت ہے تو یہی احتمالات ہیں نا کہ جن میں سے کوئی ایک مراد لیا جا سکتا ہے۔ اب ظنی الدلالہ ہونے کا یہ معنی تھوڑا ہی ہے کہ لفظ "ید" سے آنکھ بھی مراد ہو سکتی ہے، ناک بھی اور کان بھی وغیرہ ذلک۔ جس طرح اصولیین نے عقل ونقل سے یہ ثابت کر دیا کہ کتاب وسنت میں لفظ کا کل معنی مراد ہو گا یا جزوی معنی یا لازم معنی اور دلالت کی تمام اقسام کو عقل کے علاوہ شرع سے بھی ثابت کیا ہے اور اصول فقہ کی کتب اس قسم کی مباحث سے بھری پڑی ہیں، اس طرح سے ظنی الدلالہ کہنے والوں کا علم اعتبار کے علم ہونے پر اصرار ابھی تک کسی محقق کی راہ دیکھ رہا ہے۔
اور یہ علم تھوڑا ہے کہ بنی اسرائیل سے مراد "خیالات طیبہ" ہیں اور جو دریا انہوں نے پار کیا تھا، اس سے مراد "دریائے وحدت" ہے۔ یہ تو جہل مرکب ہے کہ اس قسم کی قرآن فہمی کے بعد علم الاعتبار اور باطنیت میں فرق پر بھی اصرار ہے اور اعتبار کو علم کہنے پر بھی۔ ظنی الدلالہ ہونے کا معنی ہر گز یہ نہیں ہے کہ کتاب اللہ کا جو معنی ومفہوم چاہیں بیان کر دیں تو اس کا بھی احتمال قرآنی الفاظ میں موجود ہوتا ہے۔ قرآنی الفاظ میں جو احتمالات ہیں، پہلے انہیں لغت، عرف اور شرع سے ثابت کرنا ہو گا اور پھر ان تین قسم کے احتمالات میں سے جب کوئی ایک احتمال کسی مفسر کے نزدیک اس کی تحقیق کے نتیجے میں متعین ہو جائے تو یہ ظنی الدلالہ کا معنی ومفہوم ہے اور اگر سب مفسرین کا اس معنی ومفہوم پر اتفاق ہو جائے تو یہ قطعی الدلالہ ہے۔ بنی اسرائیل سے مراد "خیالات طیبہ" ہیں، یہ معنی نہ تو لغوی احتمالات میں سے ہے، نہ عرفی اور نہ ہی شرعی۔ اور جو معنی ان احتمالات کے علاوہ ہو، وہ باطنیت ہی کی ایک قسم ہے، چاہے اعتبار کا نام دیا جائے یا تفسیر اشاری کا۔
قرآن مجید کے قطعی الدلالہ اور ظنی الدلالہ ہونے کی دلیل قطعی
باقی رہا یہ سوال کہ جو اصول ہم نے بیان کیا کہ قرآن مجید قطعی الدلالہ بھی ہے اور ظنی الدلالہ بھی تو اس اصول کے قطعی ہونے کیا دلیل ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ اصول ان کلیات محضہ میں سے نہیں ہے کہ جن کے اثبات کے لیے کسی صغریٰ وکبریٰ کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ قاعدہ کلیہ ایک خارجی حقیقت اور امر واقعہ ہے۔ قرآن مجید کے لفظ لفظ میں مفسرین کااختلاف ہے یا بعض مقامات میں ہے؟ اس سوال کا جواب ایک تاریخی واقعہ ہے کہ جس کے بارے دو رائے ممکن نہیں ہیں۔
قرآن مجید کے لفظ لفظ کے بارے نہ تو متقدمین میں اختلاف ہوا اور نہ ہی معاصرین میں۔ تو جن مقامات میں سب کا اتفاق ہے تو وہ قطعی الدلالہ ہیں اور جن میں اختلاف ہے تو وہ ظنی الدلالہ ہیں۔ اختلاف سے مراد اختلاف تضاد ہے، تنوع کا اختلاف در حقیقت اختلاف نہیں ہوتا بلکہ اضافہ ہوتا ہے۔ رہی وہ آیات کہ جو قرآن مجید کے قطعی الدلالہ ہونے کی دلیل کے طور نقل کی جاتی ہیں تو فریق مخالف کا خود ان آیات کے معنی مفہوم میں آپ سے اختلاف ہے۔ اور فریق مخالف نے ایسی بہت سی آیات بیان کی ہیں کہ جو قرآن مجید کے ظنی الدلالہ ہونے کی دلیل ہیں لیکن آپ ان کے معنی ومفہوم کے بیان میں اختلاف رکھتے ہوں گے۔ دلیل کے معنی ومفہوم میں دونوں طرف سے یہ اختلاف بھی اس بات کی دلیل ہے کہ سب قطعی نہیں ہے۔
خلاصہ کلام
جب آپ قرآن مجید کی کسی آیت کے بارے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ قطعی الدلالہ ہے جبکہ مفسرین کا اس آیت کی تفسیر میں اختلاف ہے تو آپ یہ دعویٰ کر رہے ہوتے ہیں کہ اللہ کی مراد وہی ہے جو آپ کو سمجھ آئی ہے جبکہ بقیہ سب نہ صرف غلطی پر ہیں بلکہ آپ کی نہیں اپنے پروردگار کی مخالفت پر کھڑے ہیں۔ اگر آپ یہ کہیں کہ "الزانیۃ والزانی" کا لفظ شادی شدہ اور غیر شادی شدہ دونوں کو شامل ہے اور یہ معنی ومفہوم ظنی الدلالہ ہے تو اس کا مطلب ہے کہ آپ دوسروں کو اختلاف کی گنجائش دے رہے ہیں۔ اس صورت میں اگر آپ میں یہ معنی بیان کرنے کی اہلیت اور اخلاص کی شرائط موجود ہیں توآپ اپنے نزدیک مصیب ہیں اور عند اللہ ماجور ہیں۔ حدیث میں مجتہد مخطی کے لیے ثواب کا ذکر ہے نہ کہ صرف مخطی کے لیے۔ اسی طرح آپ اس صورت میں اپنی قرآن فہمی میں خطا اور دوسرے کی تفسیر میں صحت کا امکان تسلیم کر رہے ہیں۔ لیکن اگر آپ یہ دعوی کریں کہ "الزانیۃ والزانی" کا لفظ شادی شدہ اور غیر شادی شدہ دونوں کو شامل ہے اور یہ معنی ومفہوم قطعی الدلالہ ہے تو اس کا مطلب ہے کہ آپ نہ صرف دوسروں کو اپنے سے اختلاف کا حق نہیں دے رہے بلکہ یہ دعویٰ بھی کر رہے ہیں کہ جس نے آپ سے اختلاف کیا، اس نے پروردگار سے اختلاف کیا۔ قطعی الدلالہ ہونے کا معنی تو یہی ہے کہ اس متعین معنی کے علاوہ کوئی معنی مراد لینا جائز نہیں ہے کہ جسے آپ نے قطعی الدلالہ قرار دے دیا ہے۔ اس لیے قرآن مجید کے ان مقامات میں کہ جن میں اہل علم کا اختلاف ہے، قطعی الدلالہ ہونے کا دعویٰ کیسے کیا جا سکتا ہے؟