مولانا غلام محمد صادق کے نام مکتوب

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مکرمی حضرت مولانا غلام محمد صادق زید مجدکم، مدیر اعلیٰ ماہنامہ النصیحہ چارسدہ

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مزاج گرامی؟

کل ہی ایک دوست نے ماہنامہ النصیحۃ کے ایک شمارہ کی طرف توجہ دلائی ہے جس کے اداریہ میں آنجناب نے مولانا محمد خان شیرانی، پروفیسر ساجد میر، اور راقم الحروف کو خطاب کر کے توہین رسالت پر موت کی سزا کے قانون کے حوالہ سے کچھ نصائح فرمائے ہیں۔ یاد فرمائی کا شکریہ!

توہین رسالتؐ پر موت کی سزا کے قانون کے حوالہ سے میرا موقف واضح ہے جس کا درجنوں مضامین میں تفصیل کے ساتھ ذکر ہو چکا ہے، اس کا خلاصہ آنجناب کے لیے دوبارہ تحریر کر رہا ہوں۔ 

(۱) جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یا اللہ تعالیٰ کے کسی بھی پیغمبر کی توہین کی شرعی سزا موت ہے۔ اور اس سلسلہ میں پاکستان میں رائج الوقت قانون بالکل درست ہے جس میں کسی بھی قسم کی تبدیلی درست نہیں ہوگی۔

(۲) امام ابویوسفؒ ، امام طحاویؒ اور علامہ شامیؒ نے اس سنگین جرم کو ’’ارتداد‘‘ قرار دے کر اس میں توبہ کی گنجائش بیان فرمائی ہے۔ اس لیے اگر اس گنجائش کو مناسب طور پر قانونی حصہ بنا لیا جائے تو اس میں مجھے کوئی حرج محسوس نہیں ہوتا۔ 

(۳) یہ بات امر واقعہ ہے کہ ہمارے ہاں اس قانون کا عام طور پر استعمال گروہی اور فرقہ وارانہ تعصبات کے حوالہ سے ایک دوسرے کے خلاف غلط طور پر ہو رہا ہے۔ اس لیے قانون میں تو نہیں البتہ قانون کے نفاذ کے طریق کار میں کوئی تبدیلی اس غلط استعمال کو روکنے کے لیے ناگزیر ہو جائے تو ایسا کرنا نہ صرف درست ہوگا بلکہ قانون پر اعتماد بحال کرنے کا ذریعہ بھی ہوگا۔

جہاں تک اس قانون کے غلط استعمال کا تعلق ہے اس کے بارے میں چند ذاتی مشاہدات کا تذکرہ کرنا چاہوں گا:

  • تھانہ گرجاکھ گوجرانوالہ میں ایک اہل حدیث مولوی صاحب کو ’’توہین قرآن کریم‘‘ کے جرم میں گرفتار کر لیا گیا اور ضلعی انتظامیہ نے اس سلسلہ میں مجھ سے رابطہ کیا۔ میں نے تحقیق کی تو پتہ چلا کہ وہ مولوی صاحب مسجد کی الماریوں میں پڑے ہوئے بوسیدہ قرآنی کاغذات کو تلف کرنے کے لیے جلا رہے تھے جسے دیکھ کر مخالف مسلک کے ایک مولوی صاحب نے اپنی مسجد کے لاؤڈ اسپیکر پر توہین قرآن کریم کا اعلان کرکے اپنے پیروکاروں کا ہجوم اکٹھا کر لیا جس کے مطالبہ پر مولوی صاحب کو گرفتار کر لیا گیا۔ میں نے پولیس افسران سے کہا کہ یہ توہین قرآن کریم کا کیس نہیں بلکہ بے احتیاطی اور بے وقوفی کا معاملہ ہے جس پر مولوی صاحب کو تنبیہ ضرور کی جائے مگر توہین قرآن کریم کا کیس درج نہ کیا جائے۔ 
  • تھانہ کھیالی گوجرانوالہ کے علاقہ میں ایک نوجوان حافظ قرآن کریم کو قرآن کریم کی توہین کا مجرم قرار دے کر پولیس کے حوالے کرنے کی بجائے ہجوم نے سڑکوں پر گھسیٹ کر مار ڈالا جس کا تذکرہ قومی اور بین الاقوامی پریس میں کئی روز تک ہوتا رہا۔ بعد میں جب تحقیق ہوئی تو پتہ چلا کہ یہ بھی اس محلہ میں مخالف مولوی صاحب کی کارستانی تھی جس نے مسلکی مخالفت و تعصب میں یہ ڈرامہ رچایا تھا۔ 
  • تھانہ سیٹلائٹ ٹاؤن گوجرانوالہ کے علاقہ میں واقع ہمارے ایک دینی مدرسہ ’’جامعہ قاسمیہ‘‘ کے باہر جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اہانت پر مبنی پرچیاں تقسیم کی گئیں اور ان کا کھوج علاقہ کے چند مسیحی افراد تک پہنچایا گیا۔ دوپہر تک پورا علاقہ سڑکوں پر تھا اور قریب تھا کہ مسیحی آبادی کو گھیر لیا جاتا، کمشنر گوجرانوالہ نے ہم سے رابطہ کیا۔ ہمارے ہاں گوجرانوالہ میں بحمد اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے یہ معمول ہے کہ ایسے کسی بھی اجتماعی معاملہ میں دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث، جماعت اسلامی اور شیعہ کے سرکردہ راہنما فوری طور پر مل بیٹھتے ہیں اور ثم الحمد اللہ کہ ایسے مواقع پر داعی بھی ہم دیوبندی ہی ہوتے ہیں۔ اس روز چند گھنٹوں کے نوٹس پر ہم سب جمع ہوئے، معاملہ کو کنٹرول کیا اور پھر انکوائری کی تو اندر سے یہ بات نکلی کہ کاروباری رقابت میں مسیحی سوسائٹی کے چند لوگوں نے اپنے ہی مسیحی بھائیوں کے خلاف یہ سازش کی تھی۔ ضلعی افسران کا کہنا تھا کہ اگر ہم لوگ بروقت مداخلت نہ کرتے تو شام تک علاقہ کی مسیحی آبادی نذر آتش ہو چکی ہوتی اور اس پر سرکردہ مسیحی راہنماؤں نے ہمارا شکریہ ادا کیا۔ 
  • دو سال قبل دینہ ضلع جہلم میں ایک مسجد کے تنازعہ پر ایک گروہ کے لوگوں نے دوسرے گروہ کے خلاف مقدمہ درج کرایا کہ انہوں نے عید میلاد النبیؐ کی جھنڈیاں اکھاڑ کر پاؤں تلے روندی ہیں جن پر جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسم گرامی اور درود شریف درج تھا۔ جن حضرات کے خلاف توہین رسالتؐ کا باقاعدہ مقدمہ درج ہوا ان میں جامعہ حنفیہ تعلیم الاسلام جھلم کے مہتمم مولانا قاری محمد ابوبکر صدیق بھی ہیں جو میرے بھانجے، حضرت مولانا عبد اللطیف جہلمیؒ کے پوتے، او ر حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کے نواسے ہیں۔ دینی کارکنوں اور علاقہ کے علماء کرام نے متحد ہو کر اس معاملہ کو ڈیل کیا اور بڑی مشکل کے ساتھ اس ایف آئی آر پر کاروائی کو رکوایا جا سکا۔ 

یہ چند واقعات ہیں جو میرے ذاتی علم میں ہیں۔ اگر آنجناب حضرت مولانا سید گوہر شاہ صاحب ایم این اے سے کہہ کر اعلیٰ سطح پر ایسی کسی انکوائری کا اہتمام کرا سکیں کہ اس وقت ملک بھر کے تھانوں میں توہین رسالتؐ کے قانون کے تحت درج مقدمات کا جائزہ لے لیا جائے تو آپ کو اکثر مقدمات اسی نوعیت کے ملیں گے جو فرقہ وارانہ یا گروہی مخالفت و تعصب کی بنا پر درج کرائے گئے ہیں۔ اس لیے نہ محترم پروفیسر ساجد میر صاحب غلط کہہ رہے ہیں اور نہ ہی میں نے کوئی خلاف واقعہ بات کی ہے۔ چنانچہ اگر مولانا محمد خان شیرانی اسلامی نظریاتی کونسل میں صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے اس قانون کے نفاذ کے طریق کار کو زیر بحث لاتے ہیں تو میری رائے اب بھی یہ ہے کہ اس کی حمایت کی جانی چاہیے۔ اس سے خود قانون کے احترام و اعتماد میں اضافہ ہوگا۔ 

ابوعمار زاہد الراشدی

۱۰ مئی ۲۰۱۶ء

مکاتیب

(جون ۲۰۱۶ء)

جون ۲۰۱۶ء

جلد ۲۷ ۔ شمارہ ۶

غیر شرعی قوانین کی بنیاد پر مقتدر طبقات کی تکفیر / تہذیب جدید اور خواتین کے استحصال کے ’’متمدن‘‘ طریقے / چھوٹی عمر کے بچے اور رَسمی تعلیم کا ’’عذاب‘‘
محمد عمار خان ناصر

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۹)
ڈاکٹر محی الدین غازی

فتویٰ کی حقیقت و اہمیت اور افتا کے ادارہ کی تنظیم نو
ڈاکٹر محمد یوسف فاروقی

مطالعہ و تحقیق کے مزاج کو فروغ دینے کی ضرورت
مولانا نور الحسن راشد کاندھلوی

عصری لسانیاتی مباحث اور الہامی کتب کی معنویت کا مسئلہ
محمد زاہد صدیق مغل

دیوبند کا ایک علمی سفر
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں؟
ڈاکٹر محمد طفیل ہاشمی

لاہور کے سیاست کدے
محمد سلیمان کھوکھر ایڈووکیٹ

قرآن مجید کے قطعی الدلالہ ہونے کی بحث
ڈاکٹر حافظ محمد زبیر

توہین رسالت کیوں ہوتی ہے؟
ڈاکٹر عرفان شہزاد

کیا توہین رسالت پر سزا کے قانون کا غلط استعمال ہوتا ہے؟ مولانا شیرانی، پروفیسر ساجد میر اور مولانا زاہد الراشدی کی خدمت میں
مولانا غلام محمد صادق

مولانا غلام محمد صادق کے نام مکتوب
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

’’میرا مطالعہ‘‘
ادارہ

تلاش

Flag Counter