مجھے نہ معلوم کیسے شروع سے یہ احساس تھا کہ پاکستان بر صغیر میں اسلام کی بقا کے باعث وجود میں آیا۔انگریزی انتداب کے بعد جس طبقے نے اسے سپین ہونے سے بچایا، حقیقتاً وہی لوگ اس ملک کے خالق ہیں اور اس کا نظم چلانے کے اولیں مستحق بھی۔ لیکن تاریخی ارتقا کے نتیجے میں ملکی نظم و نسق چلانے کے لیے کچھ مخصوص مہارتوں کی ضرورت ہوتی ہے جب کہ مدارس کا ایک طبقہ تقسیم ملک کے بعد بھی اس ذہنی کیفیت سے نہیں نکل سکا جو غیر ملکی تسلط کے باعث پیدا ہوئی تھی اور ایک حد تک فطری اور نا گزیر تھی۔ دوسرا طبقہ ’’کنجے گرفت و ترس خدا را بہانہ ساخت‘‘ کا پیکر ہو گیا۔ ایسے میں ضرورت تھی کہ دینی طبقات کو ملکی نظام چلانے کی اہلیتوں کے حصول کے مواقع فراہم کیے جائیں۔
اتفاق سے میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں تھا اور اوپن یونیورسٹی اصلاً ان لوگوں کے لیے بنائی گئی تھی جو کسی بھی وجہ سے باقاعدہ کالجز ؍یونیورسٹیز میں تعلیم حاصل نہیں کر سکتے تھے تاکہ اس یونیورسٹی کے ذریعے ان کے لیے تکمیلی تکنیکی فنی اور دیگر انواع کی تعلیم کا فاصلاتی طریق پر انتظام کیا جائے۔ میں نے سوچا کہ دینی مدارس کے طلبہ اپنی تعلیمی مصروفیات کے باعث رسمی تعلیم حاصل نہیں کر سکتے۔ دوسری طرف ہماری جامعات معمولی درجہ میں تفسیر، حدیث اور فقہ وغیرہ کی تعلیم دے کر ایم اے کی اسناد دیتی ہیں تو کیوں نہ یہ کیا جائے کہ دینی مدارس کے نصاب کو یونیورسٹی میں درجاتی کریڈٹ دیا جائے، مدارس کے اساتذہ کو یونیورسٹی ٹیوٹر مقرر کیا جائے اور دینی مدارس کے بعض متروک مضامین جو وقت کے تقاضوں کے مطابق ضروری ہیں، فاصلاتی طریقہ سے پڑھا دیے جائیں اور یونیورسٹی امتحان لے کر میٹرک سے پی ایچ ڈی تک ڈگری دیا کرے۔ مدارس کے نظم کو محفوظ رکھنے اور ان کا مالی تعاون کرنے کے لیے یہ بھی سوچا کہ طلبہ کے داخلے مدارس کے توسط سے کیے جائیں اور مدارس کے اساتذہ کو یونیورسٹی کا ٹیوٹر لگا کر ان کی آمدنی میں اضافے کی راہ نکالی جائے۔
یونیورسٹی اتھارٹیز اس پروگرام کے خلاف تھیں۔ ایسے میں مجھے باہر سے صرف مرحوم ڈاکٹر محمود غازی اور ڈاکٹر ایس ایم زمان کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ آخر بہت مشکل سے اتھارٹیز کو رضامند کرنے کے بعد میں نے مختلف وفاقوں اور مدارس سے رابطے کرنا شروع کیے۔ مجھے بریلوی، اہل حدیث اور شیعہ وفاقوں کی طرف سے بھر پور یقین دہانی کرائی گئی، لیکن دیوبندی وفاق کو اس کی افادیت باور کروانے میں مجھے بہت وقت محنت اور وسائل خرچ کرنا پڑے۔ ایک سے زائد مرتبہ وفاق کے اجلاسوں میں بھی پروگروام پیش کیا۔ کراچی جاکر مولانا سلیم اللہ خان سے بھی ملاقات کی اور باقاعدہ ایک معاہدہ طے ہوا۔اس کے مطابق مجھے آٹھ نو ماہ کے بعد یہ پروگرام لانچ کر دینا تھا، لیکن ایک دن اچانک میرے آفس میں وفاق المدارس کے ایک نمائندہ وفد کے ارکان یکے بعد دیگرے آنا شروع ہو گئے۔ جب سب تشریف لا چکے تو میرے پوچھنے پر انہوں نے کہا کہ ہم اس لیے آئے ہیں کہ جو پروگرام ہمارے درمیان طے ہوا، اس پر فوراً اور اسی سمسٹر سے عمل در آمد کیا جائے۔ میں نے اپنی مشکلات اور یونیورسٹی کا طریق کار سب کچھ عرض کیا، لیکن وفد میں موجود استاذ گرامی قدر مولا نا نذیر احمد صاحب کی وجہ سے میں نے ہامی بھر لی اور قہر درویش بر جان خویش کے مصداق دن رات کام کر کے پروگرام شروع کر دیا۔ جب میرے پاس داخلوں کی تفصیل آئی تو معلوم ہوا کہ دیوبندی وفاق سے کوئی طالب علم داخل نہیں ہوا۔
مرے تھے جن کے لیے ۔۔۔
حیرت ہوئی۔ مولانا محمد زاہد سے معلوم کیا تو انہوں نے صرف یہ کہا کہ علماء کرام نے رجوع کرلیا ۔ بعد میں دیگر ذرائع سے معلوم ہوا کہ مولانا سلیم اللہ خان نے تمام مدارس کو ایک سرکلر جاری کر دیا تھا کہ طفیل ہاشمی کا پروگرام مدارس کے خلاف حکومت کی سازش ہے، اس میں کوئی طالب علم داخل نہ کروایا جائے۔ اگرچہ میرے پاس ثبوت کوئی نہیں، لیکن مجھے لگتا ہے کہ یونیورسٹی کی جس میٹنگ میں یہ پروگرام منظور کیا گیا، اس وقت کے وفاقی سکریٹری ایجوکیشن بھی اس کے ممبر تھے۔ میٹنگ کے بعد انہوں نے تنہائی میں مجھے کہا ، یہ کیا کرنے جا رہے ہیں؟ مدرسوں کے مولوی اگر ڈگری لے کر سی ایس ایس کر کے بیورو کریسی میں آجائیں گے تو ہمارے بچے کہاں جائیں گے؟ میں نے انہیں جواب دیا کہ کہاں سی ایس ایس، بیچارے تعلیمی اداروں میں چلے جائیں تو بھی بسا غنیمت، لیکن وہ بہت منجھے ہوئے اور سینئر بیورو کریٹ تھے اور مستقبل کو دور تک دیکھ سکتے تھے۔ مجھے شبہ ہوتا ہے کہ مولانا سلیم اللہ خان تک سازش تھیور ی انہوں نے نہ پہنچائی ہو اور دیوبندی علماء سازش کے خوف کا بآسانی شکار ہو جاتے ہیں۔
اس حادثے کے نتیجے میں مختلف اہل علم اور اہل اللہ کے تقویٰ، دانش، کردار کی بلندی اور بے شمار خوبیوں سے متعارف ہو کر ایک نظریہ نہ بنانا میرے بس میں نہیں تھا۔