تکفیری نقطہ نظر کے حاملین کی طرف سے حکمران طبقات کے کفر وارتداد کے ضمن میں ایکبڑی نمایاں دلیل یہ پیش کی جاتی ہے کہ انھوں نے مسلمان ممالک میں شریعت اسلامیہ کے بجائے غیر شرعی نظاموں اور قوانین کو نافذ کررکھا ہے اور مسلمانوں کے معاملات احکام شرعیہ سے بغاوت کی بنیاد پر چلائے جا رہے ہیں۔
یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ موجودہ مسلم ممالک میں اجتماعی نظام کلی طور پر شریعت اسلامیہ کی ہدایات پر استوار نہیں اور معاشرت، معیشت اور سیاست کے دائروں میں شرعی احکام وقوانین کی پاس داری نہیں کی جا رہی۔ اگرچہ بیشتر مسلم ممالک میں اصولی طور پر آئین میں شریعت کی پابندی قبول کی گئی ہے، لیکن بہت سے اساسی امور میں جدید لادینی نظریات کے زیر اثر ایسے قوانین پر بھی عمل کیا جا رہا ہے جو شریعت سے متصادم ہیں، جبکہ بعض مسلم ممالک ایسے بھی ہیں جہاں قانون ونظام کی سطح پر سرے سے احکام شریعت کی پابندی کا التزام ہی نہیں کیا گیا۔ معاصر تناظر میں اس صورت حال کا بنیادی سبب دنیا پر مغربی تہذیب کا فکری، سیاسی اور معاشی غلبہ ہے جس سے مسلمان معاشروں کے مختلف طبقات اور خاص طو رپر ان کے ارباب اقتدار بھی شدید طور پر متاثر ہوئے ہیں۔ اس کے نتیجے میں بیشتر مسلم ممالک میں ارباب اقتدار اور اہل دین کے مابین کشمکش کی ایک سنگین صورت حال پائی جاتی ہے جس کا بنیادی نکتہ یہی ہے کہ مسلمان معاشروں کے اجتماعی معاملات کی تشکیل خالصتاً شرعی احکام وقوانین کی روشنی میں کی جائے اور شریعت سے متصادم نظریات وقوانین کے اثر ونفوذ کو ختم کیا جائے۔ تاہم ا س حوالے سے عالم اسلام کے جمہور اہل علم اور معاصر تکفیری طبقات کے نقطہ نظر میں ایک جوہری فرق ہے۔ جمہور اہل علم اس ساری صورت حال کو تاریخ کے ایک جبر کے طور پر دیکھتے ہیں جس سے عالم اسلام بحیثیت مجموعی اس وقت دوچار ہے، چنانچہ وہ کسی مخصوص طبقے، خاص طور پر حکمران طبقے کو بلا شرکت غیرے اس کا ذمہ دار ٹھہرا کر کافر ومرتد قرار دینے کے بجائے حالات کی عملی پیچیدگیوں، مشکلات اور بالخصوص مغربی فکر وتہذیب کے غیر معمولی اثرات کو مد نظر رکھتے ہیں جس نے گزشتہ دو صدیوں میں تدریجاً ساری دنیا پر یلغار کی ہے اور رفتہ رفتہ انسانی فکر اور انسانی معاشروں کو کم وبیش مکمل طور پر اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔
دنیا پر مغرب کا غلبہ چونکہ مختلف ارتقائی ادوار سے گزرا ہے، اس لیے فطری طور پر اس کی نوعیت وماہیت کی تشخیص میں مختلف ادوار کے مسلمان مفکرین میں اختلاف بھی نظر آتا ہے۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں، یہ غلبہ ابتدا میں عسکری وسیاسی اور معاشی واقتصادی تسلط کا رنگ لیے ہوا تھا اور بیسویں صدی کے وسط تک مفکرین کا عمومی خیال یہی تھا کہ اس تسلط کے جلو میں جو فکری وتہذیب اثرات مسلم معاشروں پر مرتب ہو رہے ہیں، ان کی طاقت کا اصل منبع مغرب کا سیاسی غلبہ ہے او ریہ کہ مسلمان ریاستوں کی آزادی کے بعد اور خاص طور پر اسلامی ریاستوں کے قیام کے بعد مسلمانوں کے لیے خود اپنی تہذیبی اقدار پر مبنی معاشرے تشکیل دینا اور یوں ایک نظام حیات کے مقابلے میں ایک دوسرا نظام حیات اور ایک تہذیب کے مد مقابل ایک دوسری تہذیب کی تشکیل سے نظام عالم میں ایک توازن پیدا کرنا ممکن ہوگا۔ تاہم گزشتہ ساٹھ ستر سال کے تجربے اور سفر کے نتیجے میں اب یہ واضح ہو گیا ہے کہ صورت حال بہت مختلف ہے۔ بیسویں صدی کے نصف آخر اور اکیسویں صدی میں مغرب کے فکری واقداری غلبہ کا پہلو زیادہ مشخص اور نمایاں ہو کر سامنے آیا ہے اور اب اس حقیقت کا ادراک کیا جا رہا ہے کہ دو مختلف تہذیبی پیرا ڈائمز کے دنیا میں متوازی طور پر موجود رہنے اور پرامن بقائے باہمی کے اصول پر ایک دوسرے سے تعرض نہ کرنے کی بات کم سے کم موجودہ تناظر میں ایک غیر واقعی اور تخیلاتی بات ہے۔ اس حقیقت کو کھلے دل سے تسلیم کرنا چاہیے کہ اس وقت ہم بنیادی طور پر مغرب کی بنائی ہوئی دنیا میں جی رہے ہیں۔ سیاست ومعیشت، فکر وفلسفہ، معاشرتی اقدار اور بین الاقوامی قانون، ہر دائرے میں مغرب ہی کا سکہ رائج ہے اور دنیا کی قومیں مادی سطح پر مغرب ہی کے مقرر کردہ آئیڈیلز کے حصول کے لیے اجتماعی طور پر کوشاں ہیں۔ مغربی اجتماعی اقدار کے غلبہ وتسلط کی بات محض بالواسطہ اثرات تک محدود نہیں رہی، بلکہ بین الاقوامی قوانین اور معاہدات کی صورت میں انھیں قانونی سطح پر دنیا پر نافذ کرنے کی علانیہ اور دانستہ کوشش کی جا رہی ہے اور یہ سب کچھ ایک توانا تہذیبی اور اخلاقی جذبے کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔
جمہور اہل علم نے اس صورت حال کی سنگینی، نزاکت اور پیچیدگی کا ادراک کرتے ہوئے بجا طور پر یہ سمجھا ہے کہ اس کی ذمہ داری کلی طور پر مسلمانوں کے بارسوخ اور مقتدر طبقات پر ڈال دینا اور سارے بگاڑ کی جڑ انھیں قرار دے کر ان کے خلاف مورچہ بندی کر لینا نہ تو معروضی طور پر صورت حال کا درست تجزیہ ہوگا اور نہ اس کے نتیجے میں مسلمان معاشروں کو داخلی انتشار اور تصادم کی آگ میں دھکیل دینا عملاً اس صورت حال سے نجات پانے میں کسی بھی پہلو سے مفید اور مددگار ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ فکر ونظر کی کئی سنگین گمراہیوں اور احکام شریعت سے کھلے ہوئے عملی تجاوزات کے باوجود جمہور اہل علم نہ تو مقتدر طبقات کی تکفیر کرتے ہیں اور نہ ان کے خلاف ہتھیار اٹھانے کو درپیش مشکلات اور مسائل کا حل تصور کرتے ہیں۔
اس ضمن میں جمہور اہل علم کے نقطہ نظر کی شرعی بنیادوں کو سمجھنے کے لیے درج ذیل نکات کو پیش نظر رکھنا چاہیے:
پہلا نکتہ یہ ہے کہ اگر مسلمانوں کے کچھ طبقات اسلام کے ساتھ ظاہری نسبت رکھتے ہوئے بھی ذہنی اور فکری طور پر اسلامی شریعت کی بالادستی کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں یا شریعت کے مقابلے میں بعض دوسرے نظاموں اور قوانین سے مرعوب اور متاثر ہیں تو ان کا یہ ذہنی رویہ کفر ونفاق کے دائرے میں آتا ہے، لیکن اس کے باوجود جب تک وہ صاف صاف اسلام سے براء ت کا اعلان نہیں کرتے، ان کے کلمہ گو ہونے کا لحاظ کیا جائے گا اور ان کی سنگین فکری گمراہی کے باوجود ظاہری احکام کے لحاظ سے انھیں کفار ومرتدین کے زمرے میں شمار نہیں کیا جائے گا۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ اس طرز فکر کے حامل بعض گروہ خود عہد رسالت میں موجود تھے اور ان کے ذہنی رجحانات پر قرآن مجید میں باقاعدہ تبصرہ کیا گیا ہے۔ چنانچہ سورۂ نور میں ارشاد ہوا ہے:
وَ یَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَبِالرَّسُوْلِ وَاَطَعْنَا ثُمَّ یَتَوَلّٰی فَرِیْق مِّنْھُمْ مِّنْ بَعْدِ ذٰلِکَ، وَمَآ اُولٰٓءِکَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ ۔ وَاِذَا دُعُوْٓا اِلَی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ لِیَحْکُمَ بَیْنَھُمْ اِذَا فَرِیْق مِّنْھُمْ مُّعْرِضُوْنَ ۔ وَاِنْ یَّکُنْ لَّھُمُ الْحَقُّ یَاْتُوْٓا اِلَیْہِ مُذْعِنِیْنَ ۔ اَفِیْ قُلُوْبِھِمْ مَّرَض اَمِ ارْتَابُوْٓا اَمْ یَخَافُوْنَ اَنْ یَّحِیْفَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ وَرَسُوْلُہٗ، بَلْ اُولٰٓءِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ (النور ۴۷۔۵۰)
’’اور یہ کہتے ہیں کہ ہم اللہ اور رسول پر ایمان لائے اور اطاعت قبول کی، پھر ان میں سے ایک گروہ اس کے بعد منہ پھیر لیتا ہے اور حقیقت میں یہ لوگ مومن نہیں ہیں۔ اور جب انھیں اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا جاتا ہے تاکہ وہ ان کے مابین فیصلہ کرے (اور انھیں معلوم ہو کہ فیصلہ ان کے خلاف ہوگا) تو ان میں سے ایک گروہ رو گرداں ہو جاتا ہے، لیکن اگر حق انھیں مل رہا ہو تو پھر پورے یقین کے ساتھ اس کی طرف آ جاتے ہیں۔ کیا ان کے دلوں میں بیماری ہے؟ یا یہ شک میں مبتلا ہیں؟ یا انھیں یہ ڈر ہے کہ اللہ اور اس کا رسول ان پر زیادتی کرے گا؟ نہیں، بلکہ یہ لوگ خود ہی ظلم کرنے والے ہیں۔‘‘
ان تبصروں میں اللہ تعالیٰ نے ان کے طرز فکر اور طرز عمل کو واضح الفاظ میں کفر اور نفاق سے تعبیر کیا اور اسے ایمان کے منافی قرار دیا ہے، لیکن ہم جانتے ہیں کہ منافقین میں شامل کسی بھی گروہ کو عہد نبوی یا عہد صحابہ میں ظاہری قانون کے اعتبار سے دائرۂ اسلام سے خارج شمار نہیں کیا گیا اور نہ ان کے ساتھ عملی معاملات میں کفار جیسا برتاؤ کرنے کے احکام دیے گئے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن نے اپنے ان تبصروں میں ’کفر‘ کا لفظ کفر عملی کے معنی میں استعمال کیا ہے نہ کہ کفر اعتقادی اور کفر قانونی کے معنی میں، جس کا مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کا یہ طرز عمل اپنی حقیقت کے اعتبار سے ایک کافرانہ طرز عمل ہے جو ایمان کا دعویٰ رکھنے والے کسی گرہ کو زیبا نہیں۔ جہاں تک دنیا کے ظاہری احکام کے لحاظ سے کسی کو کافر قرار دینے کا تعلق ہے تو وہ ایک الگ معاملہ ہے اور قرآن مجید کے مذکورہ زاویہ نظر سے صاف واضح ہوتا ہے کہ جب تک کوئی شخص کسی تاویل کے بغیر کھلم کھلا اللہ اور اس کے رسول کے احکام کی اطاعت کو قبول نہ کرنے یا انھیں مسترد کرنے کا اعلان نہ کر دے، اسے کافر قرار دینے اور اس پر کفر کے ظاہری قانونی احکام جاری کرنے میں احتیاط سے کام لینا چاہیے۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ جب قرآن نے ضعف ایمان اور نفاق کے حامل ان گروہوں کو دنیوی قانون کے لحاظ سے مسلمانوں ہی میں شمار کیا ہے تو وہ لوگ جو اس سے کم تر وجوہ کی بنا پر احکام شریعت سے عملاً گریز کریں، انھیں دائرۂ اسلام سے خارج قرار دینے سے گریز ظاہر ہے کہ بدرجہ اولیٰ شریعت کا منشا ہوگا۔ چنانچہ دیکھیے، سورۂ مائدہ میں اللہ تعالیٰ نے یہود کے طرز عمل پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ:
وَمَن لَّمْ یَحْکُمْ بِمَا اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰءِکَ ھُمُ الکَافِرُونَ (آیت ۴۴)
’’اور جو اللہ کے اتارے ہوئے قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں، وہی لوگ کافر ہیں۔‘‘
عہد صحابہ میں خوارج نے اس مفہوم کی آیات سے ارباب اقتدار کے کافر ہونے پر استدلال کیا تو عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے اس کی تردید میں فرمایا:
’’یہ وہ کفر نہیں جو خوارج مراد لیتے ہیں۔ یہ وہ کفر نہیں جو دائرۂ اسلام سے خارج کر دیتا ہے۔ یہ اس کفر سے کم تر کفر ہے۔‘‘ (مستدرک حاکم ۲/۳۴۳)
ابو طلحہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول نقل کیا ہے کہ:
’’جو شخص اللہ کے اتارے ہوئے حکم کا صاف انکار کرے، وہ تو کافر ہے، لیکن جو اسے تسلیم کرے (اور عمل نہ کرے)، وہ ظالم اور فاسق ہے۔‘‘ (تفسیر ابن کثیر ۲/ ۶۲)
مفسر واحدی نے یہی قول بعض دیگر اکابر مفسرین سے بھی نقل کیا ہے:
’’ایک جماعت نے کہا ہے کہ ان آیات کا مصداق کفار اور وہ یہود ہیں جنھوں نے اللہ کے احکام کو تبدیل کر دیا۔ ان آیات کا اہل اسلام سے کوئی تعلق نہیں، کیونکہ مسلمان کسی کبیرہ گناہ کا ارتکاب کرے تو بھی اسے کافر نہیں کہا جاتا۔ یہ قتادہ، ضحاک اور ابو صالح کا قول ہے اور براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے ایک روایت میں یہی بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کی ہے۔‘‘ (الوسیط ۱/ ۱۹۰)
امام ابن القیم نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’کفر کی ایک صورت دوسرے سے کم تر ہے، نفاق کا بھی ایک درجہ دوسرے درجے سے کم تر ہے، شرک کی کچھ شکلیں دوسری شکلوں سے ہلکی ہیں، فسق کے کچھ کام دوسرے کاموں سے کم تر ہیں اور ظلم کی بعض صورتیں دوسری صورتوں سے کم ہیں۔ ابن عباس نے ’’ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاولئک ھم الکافرون‘‘ کے متعلق کہا ہے کہ اس سے مراد وہ کفر نہیں جو لوگ مراد لیتے ہیں۔ ابن عباس سے اس آیت کے متعلق پوچھا گیا تو انھوں نے کہا کہ ان لوگوں کا یہ رویہ کفر ہے، لیکن اس کا حکم وہ نہیں جیسے کوئی شخص اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسول کا انکار کرے۔ ایک دوسری روایت کے مطابق انھوں نے کہا کہ یہ کفر کی وہ صورت ہے جو آدمی کو دائرۂ اسلام سے خارج نہیں کرتی۔‘‘ (الصلاۃ وحکم تارکھا، ۱/ ۷۴)
’’جب کوئی شخص اللہ کے اتارے ہوئے قانون سے ہٹ کر فیصلہ کرے یا کوئی ایسا کام کرے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کفر قرار دیا ہو، لیکن وہ شخص اسلام اور اس کے شرائع کی پابندی قبول کرتا ہو تو ایسا کرنے والے کے عمل میں کفر اور اسلام دونوں پائے جاتے ہیں۔‘‘ (ایضاً، ص ۷۹)
تیسرا قابل لحاظ پہلو یہ ہے کہ اسلامی شریعت کے احکام پر عمل کی ذمہ داری، چاہے وہ فرد سے متعلق ہوں یا جماعت سے، عملی استطاعت کی شرط سے مشروط ہے۔ جہاں فرد یا جماعت کے لیے احکام شرعیہ کے کسی حصے پر عمل ممکن نہ ہو یا اس کی راہ میں عملی رکاوٹیں موجود ہوں، وہاں شریعت درپیش موانع کے بقدر ذمہ داری میں بھی تخفیف کر دیتی ہے۔ یہ اصول جہاں افراد اور گروہوں کے لیے ہے، وہاں ارباب اقتدار کے لیے بھی ہے اور شریعت ان پر احکام شرعیہ کی تنفیذ کی ذمہ داری اس استطاعت اور اختیار کے لحاظ سے ہی عائد کرتی ہے جو انھیں کسی مخصوص معاشرے میں عملاً حاصل ہو۔ محض اقتدار اور حکمرانی کا حاصل ہونا، جب کہ اس کے ساتھ اختیارات پر بہت سی قدغنیں بھی لگی ہوئی ہوں، حکمران کو اس کا ذمہ دار نہیں ٹھہراتا کہ وہ موانع اور مشکلات نیز عملی نتائج سے بالکل بے پروا ہو کر محض حکمرانی کے زور پر تمام احکام شرعیہ کو ہر حال میں نافذ کرنے کی کوشش کرے۔
امام ابن تیمیہ نے اس شرعی اصول کی وضاحت درج ذیل اقتباس میں بہت خوبی سے فرمائی ہے:
’’حضرت یوسف علیہ السلام اہل مصر کے ساتھ رہتے تھے جو کفار تھے لیکن حضرت یوسف کے لیے ان پر تمام امور میں اسلام کے احکام کے مطابق معاملہ کرنا ممکن نہیں تھا۔ اسی طرح نجاشی اگرچہ نصاریٰ کا بادشاہ تھا، لیکن اس کی قوم نے قبول اسلام کے معاملے میں اس کی بات نہیں مانی، بلکہ نجاشی کے ساتھ کچھ ہی لوگوں نے اسلام قبول کیا۔ نجاشی بہت سے بلکہ اکثر احکام اسلام پر عمل نہیں کر سکا کیونکہ وہ ایسا کرنے سے عاجز تھا۔ اس نے نہ تو ہجرت کی نہ جہاد کیا او رنہ بیت اللہ کا حج کیا، بلکہ یہ بھی روایت ہے کہ اس نے پانچ نمازیں بھی ادا نہیں کیں اور نہ وہ روزہ رکھتا اور شرعی زکوٰۃ ادا کرتا تھا، کیونکہ ایسا کرنے سے معاملہ اس کی قوم کے سامنے طاہر ہو جاتا اور وہ اس پر معترض ہوتے، جبکہ نجاشی کے لیے ان کی مخالفت کرنا ممکن نہیں تھا۔ ہم قطعی طور پر جانتے ہیں کہ نجاشی کے لیے اپنی قوم کے مابین قرآن کے حکم کے مطابق فیصلہ کرنا ممکن نہ تھا، کیونکہ اس کی قوم اس کو قبول نہ کرتی۔ اور بکثرت ایسا ہوتا ہے کہ مسلمانوں اور تاتاریوں کے مابین کسی آدمی کو قاضی کا بلکہ حاکم تک کا منصب مل جاتا ہے اور اس کے دل میں ارادہ ہوتا ہے کہ وہ عدل کے بہت سے احکام پر عمل کرے، لیکن اس کے لیے ایسا کرنا ممکن نہیں ہوتا کیونکہ وہاں اسے روکنے والے موجود ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کسی پر اس کی استطاعت سے بڑھ کر بوجھ نہیں ڈالتا۔ عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے جب عدل کے مطابق بعض فیصلے کیے تو لوگ ان کے دشمن ہو گئے اور انھیں اذیت دی گئی اوریہ بھی کہا گیا ہے کہ اسی پر انھیں زہر دے دیا گیا۔ پس نجاشی اور ان جیسے لوگ کامیاب ہو کر جنت میں جائیں گے، اگرچہ انھوں نے اسلام کے ان شرائع کی پابندی نہیں کی جن کی پابندی پر وہ قدرت نہیں رکھتے تھے، بلکہ وہ صرف انھی احکام پر عمل کرتے تھے جن کے مطابق فیصلہ کرنا ان کے بس میں تھا۔ خلاصہ یہ کہ مسلمانوں کے مابین اس حوالے سے کوئی اختلاف نہیں کہ جو شخص دار الکفر میں ہو اور وہ ایمان لا چکا ہو لیکن ہجرت کرنے سے عاجز ہو تو اس پر شریعت کے وہ احکام واجب نہیں ہوتے جن پر عمل کرنا اس کے لیے ممکن نہیں، بلکہ احکام کا وجوب اتنا ہی ہوتا ہے جتنا آدمی کے لیے عمل کرنا ممکن ہو۔‘‘ (مجموع الفتاویٰ، ج ۱۹، ص ۲۱۷۔۲۱۹)
اس شرعی اصول کی روشنی میں عالم اسلام کے جمہور اہل علم معاصر تناظر میں شریعت کے جامع اور مکمل نفاذ کی راہ میں حائل ان بے شمار نظری اور عملی رکاوٹوں کو بھی پیش نظر رکھتے ہیں جو حالات کے تغیر نے پیدا کر دی ہیں۔ صورت حال کی نزاکت واضح کرنے کے لیے ہم اپنے ان الفاظ کا اعادہ کرنا چاہیں گے کہ ’’اس وقت ہم بنیادی طور پر مغرب کی بنائی ہوئی دنیا میں جی رہے ہیں۔ سیاست ومعیشت، فکر وفلسفہ، معاشرتی اقدار اور بین الاقوامی قانون، ہر دائرے میں مغرب ہی کا سکہ رائج ہے اور دنیا کی قومیں مادی سطح پر مغرب ہی کے مقرر کردہ آئیڈیلز کے حصول کے لیے اجتماعی طور پر کوشاں ہیں۔ مغربی اجتماعی اقدار کے غلبہ وتسلط کی بات محض بالواسطہ اثرات تک محدود نہیں رہی، بلکہ بین الاقوامی قوانین اور معاہدات کی صورت میں انھیں قانونی سطح پر دنیا پر نافذ کرنے کی علانیہ اور دانستہ کوشش کی جا رہی ہے اور یہ سب کچھ ایک توانا تہذیبی اور اخلاقی جذبے کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔‘‘
اب ان تمام مشکلات وموانع سے بالکل صرف نظر کرتے ہوئے صورت حال کا یہ یک نکاتی تجزیہ کہ ’’عالم اسلام کے حکمران شریعت کا نفاذ نہ کرنے اور غیر شرعی قوانین اور نظاموں کی بالادستی قبول کرنے کی وجہ سے کافر اور مرتد ہیں‘‘، جمہور اہل علم کی سمجھ میں نہیں آتا اور اسی لیے وہ تمام تر خرابیوں کے باوجود بطور ایک طبقے کے موجودہ مسلم حکمرانوں یا مسلم ممالک میں رائج سیاسی وقانونی نظاموں کی تکفیر سے علیٰ وجہ البصیرت اجتناب کرتے ہیں۔
تہذیب جدید اور خواتین کے استحصال کے ’’متمدن‘‘ طریقے
خواتین کے استحصال اور ان پر ظلم وستم کو عموماً روایتی معاشرے کا ایک مظہر تصور کیا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس صورت حال کا واحد ماخذ روایتی معاشرہ نہیں، جدید لبرل اور سرمایہ دارانہ معاشرت اس استحصال اور تذلیل کے شاید اس سے بھی سنگین مواقع اور صورتیں پیدا کر رہی ہے اور بدقسمتی سے ان کی طرف کسی کی توجہ نہیں۔
ان چند مظاہر پر ذرا ایک نظر ڈالیے:
۱۔ خواتین کو معاشی سرگرمیوں میں شریک کرنے کا ایسا رجحان جس کا نتیجہ آخر یہ نکلے کہ انھیں اپنا معاشی بوجھ خود اٹھانے کا ذمہ دار سمجھا جائے اور مرد ان کی کفالت کی ذمہ داری سے بالکل دست بردار ہو جائیں۔ اس صورت حال کا خمیازہ نہ صرف خواتین بلکہ اولاد کو بھی بھگتنا پڑتا ہے اور مغربی معاشروں میں ڈے کیئر سنٹرز اس تباہی کا صرف ایک مظہر ہیں۔ اس پر ستم یہ ہے کہ خواتین کو گھر کے محفوظ اور فطری ماحول سے باہر نکال کر ایک طرف انھیں اپنی تمام تر صنفی وجسمانی نزاکتوں کے ساتھ کسب معاش کے لیے مردوں کی مسابقت پر مجبور کیا جاتا ہے جس کے لیے انھیں بلا استثنا ہر جگہ کسی نہ کسی شکل میں جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے ، اور دوسری طرف اس تمام تگ ودو کے بعد بھی ان کے معاوضے مردوں سے کم ہی رہتے ہیں۔
۲۔ کچی عمر میں، جب صنف مخالف کی کشش ایک ہیجان کی صورت اختیار کیے ہوئے ہوتی ہے، بچیوں کو مخلوط تعلیم کے اداروں میں بھیج دینا جہاں آداب اختلاط کی کوئی پاس داری نہ ہو۔ ہمارے ہاں حقوق نسواں کے علم برداروں کو یہ ظلم تو نظر آتا ہے کہ نابالغی کی عمر میں بچیوں کی شادیاں کر دی جاتی ہیں،لیکن یہ ظلم کسی کو محسوس تک نہیں ہوتا کہ کچی عمر کی بچیوں کو موبائل اور انٹرنیٹ کی سہولتیں دے کر مخلوط ماحول میں بھیج دینے اور میڈیا کے متعارف کردہ کلچر کے زیر اثر مخالف صنف سے دوستی کے نام پر جذباتی، نفسیاتی اور بسا اوقات جسمانی استحصال کا شکار ہونے کے لیے بے یار ومددگار چھوڑ دینے کا رجحان کیا ستم ڈھا رہا ہے۔
۳۔ نسوانی حسن کو کاروباری مقاصد کے لیے ایک ذریعہ بنانے کا رجحان جس کا اظہار ماڈلنگ کی مختلف صورتوں میں ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں الیکٹرانک میڈیا پر بعض ٹاک شوز کی اینکرنگ کا انداز بھی اس سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہوتا۔ اس کی بد ترین اور سب سے گھنونی شکل عریاں فلموں کی صنعت کی صورت میں سامنے آتی ہے جسے مغربی معاشروں میں باقاعدہ قانونی تحفظ حاصل ہے اور اس صنعت کو، جس سے بڑھ کر نسوانی تذلیل اور توہین کی کوئی شکل انسانی تاریخ نے نہیں دیکھی ہوگی، زندہ رکھنے کے لیے غیر محفوظ اور نفسیاتی طور پر بے سہارا خواتین کو پھانسنے یا انھیں ترغیب وتحریص کے مختلف طریقوں سے اس پیشے میں لانے کے لیے باقاعدہ نیٹ ورک کام کر رہے ہیں۔
۴۔ فیمنزم کے عنوان سے مرد اور عورت کے مابین منافرت کے رجحانات اور تصورات کا فروغ جو خواتین کو یہ باور کراتے ہیں کہ مرد دراصل ان کے ’’زوج‘‘ نہیں، بلکہ دشمن اور حریف ہیں۔ اس کا نتیجہ جس نفسیاتی اور ذہنی وفکری عدم توازن کی صورت میں نکلتا ہے، وہ واقعتاً ایک عبرت کا سامان ہے اور اس کی سب سے عبرت انگیز مثال سرے سے شادی اور خاندان کے ادارے کو ہی خواتین کی آزادی کے منافی قرار دینے کا رجحان ہے۔ اس فکر کے علم بردار شادی کو جبر اور قانونی قحبہ گری سے تعبیرکرتے ہیں جس کی رو سے مجبور اور بے بس عورتیں محض معاشرتی روایات کے دباو کے تحت ایک معاہدے کے ذریعے سے مردوں کے لیے اپنے استحصال کا قانونی حق قبول کر لیتی ہیں۔
۵۔ روزگار اور معاش کے سلسلے میں ملازمت یا تجارت کے لیے میاں بیوی کے درمیان ایسی طویل جدائی کہ میاں بیوی اور بچوں کے ایک جگہ اور اکٹھے رہنے کا تصور بس ایک خیال بن کر رہ جائے۔ بالخصوص تلاش روزگار کے لیے بیرون ملک قسمت آزمائی کے لیے جانے والوں کے گھریلو معاملات ایسے دگرگوں ہو جاتے ہیں کہ جنسی اخلاقیات کی پاس داری اور بچوں کی تعلیم وتربیت کی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کی باتیں خواب وخیال ہو کر رہ جاتی ہیں۔
۶۔ صنفی مساوات کے ایک غیر حقیقی اور تخیلاتی نظریے کے زیر اثر خاندانی نظام میں مرد کی برتری اور اختیار کو اس طرح چیلنج کرنا کہ مرد خود کو بالکل بے اختیار ہوتا ہوا محسوس کرے اور نتیجتاً یا تو خود کو ان ذمہ داریوں سے ہی بری سمجھے جو اختیار کے ساتھ اسے حاصل تھیں اور یا رفتہ رفتہ گھر بسانے میں ہی دلچسپی ختم ہوتی چلی جائے۔
یہ تمام مظاہر کسی تخیل کی پیداوار نہیں ہیں، بلکہ مغربی معاشروں میں ان سب کو بچشم سر دیکھا جا سکتا ہے اور مغربی معاشرہ چلا چلا کر ہمیں یہ دعوت دے رہا ہے کہ
دیکھو مجھے جو دیدہ عبرت نگاہ ہو
میری سنو جو گوش نصیحت نیوش ہے
چھوٹی عمر کے بچے اور رَسمی تعلیم کا ’’عذاب‘‘
بچوں کی رسمی تعلیم کا عمل کس عمر سے شروع کیا جائے اور ابتدائی تعلیم کے مندرجات اور ترجیحات کیا ہونی چاہییں؟ یہ کسی بھی معاشرے میں تعلیمی نظام سے متعلق سوالات میں ایک بنیادی اور اہم ترین سوال ہے۔ ہمارے ہاں جدید تمدن کے زیر اثر پروان چڑھنے والا ایک نہایت لا یعنی رجحان بہت چھوٹی عمر میں بچوں کو رسمی تعلیمی اداروں کے سپرد کر دینے کا پیدا ہوا ہے جو کاروباری محرکات کے تحت روز بروز فروغ پا رہا ہے۔ اس حوالے سے گزشتہ دنوں راقم نے سوشل میڈیا پر اپنے ذاتی تجربے کا ذکر کیا تو قارئین کے رسپانس سے اندازہ ہوا کہ اس بات کا احساس کافی عام ہے اور اس بات کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے کہ اس رجحان کے مفاسد اور مضرات پر گفتگو کی جائے۔
اس رجحان کا بنیادی منبع تو ہماری اشرافیہ کا، مغربی معاشروں کی اندھی نقالی کا وہ شوق ہے جس کے زیر اثر اہل مغرب کی ہر بات کو جدت اور ترقی کا ایک لازمہ سمجھ کر اختیار کرنا فرض سمجھا جاتا ہے، جبکہ مغربی معاشرتی روایات کے مخصوص سماجی تناظر نیز ان کے منفی وضرر رساں پہلووں پر غور کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی۔ اشرافیہ کے اختیار کردہ رجحانات کو اگلے مرحلے پر متوسط طبقوں میں فروغ ملتا ہے اور پھر رفتہ رفتہ اسے ایک عام معاشرتی روایت کا درجہ حاصل ہوتا چلا جاتا ہے۔
بچپن کی عمر دراصل بچوں کے کھیلنے کودنے، معصوم شرارتیں کرنے اور گھرکے مانوس ماحول میں ماں باپ کا لاڈ پیار دیکھنے کی عمر ہوتی ہے۔ بچے کی وابستگی ماں باپ کے ساتھ بہت گہری ہوتی ہے اور خاص طور پر اپنے ذاتی نوعیت کے مسائل کے لیے ماں اس کے لیے سب سے زیادہ قابل اعتماد ہستی ہوتی ہے۔ بچوں کی تعلیم کا عمل اسی ماحول میں ایسے طریقے سے شروع ہونا چاہیے کہ وہ اسے کوئی ذمہ داری یا بوجھ نہ سمجھیں، بلکہ فطری رغبت اور اشتیاق کے ساتھ اس کی طرف مائل ہوں۔ بچہ ویسے بھی سیکھنے کی ایک فطری خواہش رکھتا ہے اور اگر اس کی نفسیات کا لحاظ رکھتے ہوئے گھر کے ماحول میں ہی غیر رسمی انداز میں اس کے لیے سیکھنے کا ماحول پیدا کیا جائے تو وہ رسمی تعلیم کے اس نظام سے کہیں زیادہ موثر اور مفید ہو سکتا ہے جس میں اوسطاً چار سال کے بچے کو جبر اور دھونس سے کام لے کر اسکول جانے پر مجبور کیا جاتا ہے جہاں بسا اوقات بچہ پیشاب پاخانے جیسی ذاتی اور نجی ضروریات کے لیے بھی بالکل اجنبی افراد کی مدد لینے پر مجبور ہوتا ہے، حالانکہ اپنے گھر کے ماحول میں وہ ایسی ضروریات کے لیے ماں کے علاوہ عموماً گھر کے دوسرے افراد سے بھی مدد لینا قبول نہیں کرتا۔
رسمی تعلیم کے اداروں میں ابتدائی ایک آدھ سال کے بعد بچوں کی تعلیم کا یومیہ دورانیہ کم وبیش اپنے سے دوگنی عمر کے بچوں کے برابر ہو جاتا ہے اور وہ دن کا زیادہ تر حصہ تعلیمی ادارے میں گزارنے کے پابند ہوتے ہیں۔ پھر اس پر بس نہیں کی جاتی، بلکہ ہوم ورک کی صورت میں بچوں کے گھر کا سکون برباد کرنے کا مزید اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔ نظم وضبط کی پابندی، تعلیمی ذمہ داریوں کے بوجھ اور مواخذے اور جواب دہی کے تصور سے یک بارگی واسطہ پڑنا بچوں کے لیے سوہان روح بن جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ جب تعلیم کے عمل سے مجرمانہ ناواقفیت کی وجہ سے ان پر بیک وقت کئی قسم کے مضامین سیکھنے کا بوجھ لاد دیا جاتا ہے تو ان کی شخصیت غیر معمولی دباؤ کا شکار ہو جاتی ہے۔ اس سے بہت سے بچوں کی جسمانی نشو ونما بھی متاثر ہوتی ہے، جبکہ تعلیم کے حوالے سے ناپسندیدگی کا ایک عمومی احساس ان کی شخصیت کا حصہ بن جاتا ہے۔
اس حوالے سے والدین اور تعلیمی اداروں کے منتظمین کی فکری تربیت کی ضرورت ہے۔ تعلیم اور سماجی شعور کی عمومی کمی کی وجہ سے زیادہ تر والدین اس ضمن میں ازخود کوئی شعوری فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے۔ وہ ماحول کے عمومی چلن کو دیکھتے ہیں اور اسی کو صحیح اور بہتر سمجھ کر اختیار کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ تاہم اگر انھیں بچے کی نفسیات اور تعلیمی عمل سے متعلق کچھ بنیادی حقائق کا شعور مل جائے توان سے بہتر فیصلوں کی توقع کی جا سکتی ہے۔ تعلیمی اداروں کے منتظمین کی سوچ اور ترجیحات میں بھی شعوری تبدیلی لانے اور انھیں یہ احساس دلانے کی ضرورت ہے کہ تعلیم محض ایک کاروبار نہیں، بلکہ اس کے ساتھ نئی نسل کی تعمیر شخصیت کا نہایت اہم اور نازک سوال وابستہ ہے۔ تعلیمی ادارے اگر چھوٹی عمر کے بچوں کو اسکول میں لانے کے بجائے والدین کے لیے ایسے تعلیمی وتربیتی پروگراموں کا آغاز کریں جن میں انھیں گھر کے ماحول کو بچوں کی تعلیم وتربیت کے لیے زیادہ سازگار اور موثر بنانے کے طریقے سکھائے جائیں تو یہ معاشرے اور قوم کی زیادہ قابل قدر اور قابل تحسین خدمت ہوگی۔