انسانی رویے، مختلف سماجی، نفسیاتی ،جینیاتی اور عقلی عوامل کا نتیجہ اور رد عمل ہوتے ہیں۔ انسانی رویوں کے باقاعدہ مطالعے کی روایت ہمارے ہاں بوجوہ پنپ نہیں سکی، حالانکہ اس کے بغیر کسی بھی انسانی رویے کی درست تشخیص ہو سکتی ہے اور نہ اس کا علاج ممکن ہے۔ ہمارے ہاں محض علامات دیکھ کر فیصلہ صادر کرنے کا چلن ہے۔ کسی رویے کے پیچھے کیا محرکات ہیں یہ جاننے کی زحمت کم ہی کی جاتی ہے۔
توہین مذہب یا توہین رسالت کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ توہین رسالت کے ہزاروں مقدمات پاکستانی عدالتوں میں قائم ہیں، اگر یہ سارے مقدمات درست ہیں، جو کہ درحقیقت نہیں ہیں، تو کیا یہ سوچنے کی ضرورت نہیں کہ آخر ایسا ہوکیوں رہا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ مبارکہ سے آخر ایسی کیا پرخاش ہو گئی ہے لوگوں کو کہ اپنی جان پرکھیل کربھی آپ جیسی کریم ہستی کی توہین کا ارتکاب کررہے ہیں؟ آخر کیا وجہ ہے کہ ایک طرف سزائے موت اور دوسری طرف عوام کے غیظ و غضب کے نتیجے میں ہونے والی دردناک اموات کے باوجود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ مبارکہ کے خلاف توہین کا سلسلہ ختم ہونے میں نہیں آ رہا؟اور یہ سب ایک اسلامی ملک میں ہو رہا ہے جہاں عوام، ادارے، تھانے اور عدالتیں سب مسلمانوں کے ہاتھ میں ہیں۔ آج ہم ان سوالوں کے جوبات تلاش کریں گے۔
یہ حقیقت ہے کہ ہمارے ہاں توہین رسالت کے درج کیے جانے والے مقدمات میں ایک محتاط اندازے کے مطابق 80 سے 90 فیصد مقدمات جعلی ہوتے ہیں۔ ایک جائزے کے مطابق توہین رسالت کی دفعہ C 295 کے تحت 1986 سے لے کے 2004 تک پاکستان میں رجسٹرڈ کیسوں کی تعداد 5000 سے زائد ہے۔ 5000 افراد جن کے خلاف توہین رسالت کے کیسز رجسٹر ہوئے، ان میں سے صرف 964 افراد کے کیس عدالتوں میں پہنچے، 4036 کیسز ابتدائی اسٹیج پر ہی جعلی ثابت ہونے پر خارج کردیے گئے، سب سے زیادہ حیران کن امر یہ ہے کہ 86% فیصد کیسز صرف پنجاب میں رجسٹر ہوئے،یعنی 5000 میں سے 4300 کیسز! مزید یہ کہ جن 964 افراد کے کیس عدالتوں میں گئے، ان میں سے بھی 92% فیصد کیسز کا تعلق پنجاب سے تھا۔
اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ توہین رسالت کے جھوٹے مقدمات کے پیچھے ہمارے سماجی رویے کار فرما ہیں۔ پنجاب میں ان واقعات کی کثرت کی وجہ زمین پر قبضے، ذاتی دشمنی اور رنجشیں ہیں۔ مسلمان افراد دوسرے مسلمان اورغیر مسلم افراد کے خلاف توہین رسالت کے جھوٹے مقدمات قائم کرکے اپنے ذاتی مذموم مقاصد پورے کرتے ہیں۔ اپنے مخالف پر توہین رسالت کا الزام سب سے آسان اور تیر بہدف ثابت ہوتا ہے۔ عوامی حمایت ایک لحظہ میں حاصل ہو جاتی ہے۔ ایک بار الزام لگ جائے تو پھر ملزم لاکھ یقین دلاتا رہے کہ اس نے ایسا کچھ نہیں کیا مگرعوام کا غیظ وغضب اس کا تیا پانچہ کرنے پر تل جاتا ہے، پولیس اور عدالت پر ہر طرح سے دباؤ ڈالا جاتا ہے کہ کہ سزا پھانسی سے کم نہیں ہونی چاہیے۔ ویسے بھی معافی کی گنجائش ہی نہیں قانون میں۔ مزید یہ کہ ملزم اگر عدالت سے بری ہو بھی جائے، تب بھی عوام اسے یا تو مار ڈالتی ہے اوراگرمارا نہ بھی جائے تومعاشرے میں اس کی سماجی حیثیت کی بحالی ممکن نہیں رہتی، حالانکہ بری کرنے والی عدالت بھی مسلمان جج کی ہوتی ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ توہین رسالت کا اصل جرم توہین کے جھوٹے مقدمات بنانے والوں پر ثابت ہوتا ہے، جو توہین کے الفاظ خود اپنی طرف سے بناتے ہیں۔ یقیناًیہ بڑی قبیح جسارت ہے۔ مگرہمارا قانون جھوٹا مقدمہ کرنے والے کے خلاف کوئی مؤثر کارروائی نہیں کرتا۔ اگر قانون یہ بنا دیا جائے کہ توہین رسالت کا جھوٹا مقدمہ کرنے والے کو توہین رسالت کے قانون میں دھر لیا جائے گا تو جھوٹے مقدمات میں خاطر خواہ کمی آ سکتی ہے۔
توہین رسالت کا صدور کسی صحیح الدماغ آدمی سے ممکن نہیں۔ پاکستان میں توہین رسالت کے موجودہ سخت قانون، جس میں توبہ کی گنجائش بھی نہیں اور اس سے بڑ ھ کراس معاملے میں عوام کی دیوانگی کی حدوں کو چھوتی ہوئی جذباتیت، جو محض الزام پر ہی نہایت خوفناک نتائج پیدا کردیتی ہے، ان سب کی موجودگی میں کوئی شخص بالفرض توہین مذہب یا توہین رسالت کرنے کا ارادہ رکھتا بھی ہو توباہوش و حواس تو ایسا کرنے کی جرات نہیں کر سکتا۔
یہاں یہ بات بھی ملحوظ رہنی چاہیے کہ دین یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر سنجیدہ علمی تنقید چاہے، ہماری طبع پر کتنی ہی گراں گزرے، گستاخی کے زمرے میں نہیں آتی۔ سر ولیم میور نے اپنی کتاب 'لائف آف محمد' میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بہت سی تنقید کی، لیکن کسی نے ولیم میور کو گستاخ رسول قرار نہیں دیا۔ سرسید نے اس کا جواب 'خطباتِ احمدیہ' کی صورت میں لکھا، لیکن کوئی فتویٰ ولیم میور پر نہیں لگایا۔ افسوس کا مقام ہے کہ علمی حلقوں میں بھی اب وہ وسعت نظری نہیں رہی کہ تنقید اور گستاخی کا فرق سمجھ سکیں۔ الا ماشاء اللہ۔ ماضی قریب تک یہ علمی بلوغت نظر آتی ہے، جہاں تنقید کے جواب میں تنقید لکھی جاتی تھی، ڈنڈے جوتے اٹھا کر سڑک پر آکر گلے نہیں پھاڑے جاتے تھے۔ عوام میں ایسی تنقید ی کتب زیر بحث لانے سے گریز کرنا چاہیے۔
بہرحال، معاشرے اور قانون کی طرف سے اگر اتنے خوفناک نتائج کے باوجود کوئی توہین رسالت کا مرتکب ہوتا ہے، جیسا کہ چند مقدمات میں ایسا ثابت ہوتا ہے، تو سزا کے نفاذ کے علاوہ اس رویے کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ایسا آخر ہوا کیوں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات والا صفات کو ہدفِ گستاخی بنانے کی وجہ اور ضرورت کیوں پیش آ گئی اور وہ بھی اپنی جان پر کھیل کر؟
ہم سمجھتے ہیں کہ توہین رسالت جہاں درحقیقت ہوتی بھی ہے تو اس کی وجہ وہ رد عمل ہوتا ہے جو اس معاشرے کے مسلم اکثریت نے اپنے جاہلانہ رویوں کی بنا پر غیر مسلم اقلیت کے ساتھ اسلام کے نام پر روا رکھے ہوئے ہے۔ انہیں اچھوت اور ناپاک سمجھا جاتا ہے، عوام کے ایک طبقے میں ان کے ساتھ ہاتھ ملانا بھی مکروہ سمجھا جاتا ہے، ان کے ساتھ کھانا پینا تو دور کی بات ان کے کھانے پینے کے برتن الگ رکھے جاتے ہیں۔ سب سیبڑھ کر یہ کہ انہیں معاشرتی دباؤ ڈال کر اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے، اور انکار پر حقارت آمیز طرزِ عمل اختیار کیا جا تا ہے۔ جو زیادتیاں غیرمسلموں کے غریب ہونے کی وجہ سے ان کے ساتھ ہوتی ہیں، جوہمارے معاشرے کا عمومی رویہ ہے، وہ بھی مذہبی زیادتی کے زمرے میں شمار ہو جاتی ہیں۔ میں نے بطورِ استاد جس تعلیمی ادارے میں بھی پڑھایا، وہاں مجھ سے میرے طلبہ نے یہ سوال پوچھا گیا کہ کیا غیر مسلم کو سلام کرنا جائز ہے؟ ان کے ساتھ کھاناکھایا جا سکتا ہے؟ یہ شہری تعلیمی اداروں کا حال ہے۔ اندازہ کیجیے کہ دیہی علاقوں کا کیا حال ہوگا، جو وقتاً فوقتاً مختلف واقعات کی صورت میں ہمارے سامنے آتا رہتا ہے۔ تعلیم ملازمت اور زندگی کے دیگر شعبہ جات میں غیر مسلموں سے امتیازی سلوک عام ہے۔ ان کی بستیاں اور قبرستان تک الگ بسائے جاتے ہیں۔ خاکروب اورنچلی سطح کے کام ان کے ساتھ مخصوص کردیے گئے ہیں۔ ان کے مخصوص نام رکھ کر حقارت کا اظہار کیا جاتا ہے۔
یہ ساری جہالت اسلام کے نام پر کی جاتی ہے اور پھر اس کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق کا تقاضا بھی سمجھ کر کیا جاتا ہے۔ اب ذرا سوچیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر اس نفرت اور حقارت آمیز رویے کے بعد ایک غیر مسلم کے ذہن میں اسلام اور نبی کریم کا کیا تاثر بنتا ہے ؟ ایک مثال لیجیے۔ ایک مغرور بدتمیز آدمی اپنے غرور اور بدتمیزی کو بڑے فخر سے اپنے والد اور خاندانی روایات کی طرف منسوب کرے تو اس کے خاندان اور والد کے بارے میں ہمارا کیا تاثر بنے گا؟چاہے اس کا والد نیک نفس شخص ہی کیوں نہ ہو، لیکن ہمارے سامنے جوتاثر آئے گا ہم تو اس کے مطابق ہی سوچیں گے کہ یہ تمیز سکھائی ہے اس کو اس کے والد نے! اسی طرح جب ایک غیر مسلم، اسلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر مسلمانوں کی طرف سے مسلسل امتیازی سلوک، حقارت آمیز رویے اور ظلم وستم سے تنگ آکردین کے اس منفی مظہرپرکوئی ردعمل ظاہر کردیتا ہے تو توہین رسالت کامرتکب قرار پاتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ ہماری ان حرکتوں اور رویوں کے بعد غیر مسلم کے ذہن میں نبی پاک کا جو منفی تاثر پیدا ہوتا ہے اس تاثر کے پیدا کرنے والے مسلمان کیا توہینِ رسالت کے مرتکب قرارنہیں پاتے؟ ان کی کیا سزا ہونی چاہیے؟ اس کے بعد پھرذرا سوچیے، بھلا ایسا کون سا غیر مسلم ہوگا جس کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نام لیواؤں سے وہ عزت واحترام اور حقوق مل رہے ہوں جو نبی کریم خود غیرمسلمو ں کو دیا کرتے تھے اوروہ پھر بھی آپ کی شان میں گستاخی کرے؟ اگر اس کے باوجود کرے تو یقیناًسزا کا مستحق بنتا ہے۔
ہمارے مولویوں نے جتنی محنت نبی کریم کی محبت کی دیوانگی لوگوں کے دلوں میں پیدا کرنے میں لگائی ہے، اتنی ہی محنت اگروہ لوگوں میں اخلاقِ نبوی کی تربیت اور ترویج کے لیے بھی کرتے تو ایسی صورتِ حال پیدا ہی نہ ہوتی، جس سے آج پاکستانی معاشرہ دوچار ہے۔ صورتِ حال یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نام لیوا سود کا ایک روپیہ چھوڑنے کو تیار نہیں، لیکن ان کے نام پر کسی کو بھی قتل کرنے کو تیار ہیں۔ دودھ اور دوائیوں میں ملاوٹ کرنے والے میلاد کی محفلیں سجانے میں پیش پیش ہوتے ہیں، بھائی بہنوں کی جائیداد دبا لینے والے نعت شریف کی محفلیں لگاتے ہیں، نعتیں سن کر آبدیدہ ہو جاتے ہیں اورآبدیدہ ہونے کے بعد بھی زمین کا قبضہ نہیں چھوڑتے۔ نعرہ رسالت کے آگے پیچھے (نعوذ باللہ) بلا تکلف گالیاں نکالتے ہیں۔ سوچیے کہ ایک غیرمسلم ان مظاہر کے بعد اسلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا تاثر لے گا۔ کس کے پاس اتنا وقت اور سمجھ ہے کہ خود قرآن یا سیرتِ رسول پڑھ کر پڑھ کر معلوم کرے کہ ان غافل مسلمانوں کے نبی کتنے عظیم تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: "خبر دار! جس نے کسی معاہد (ذمی) پر ظلم کیا یا اْس کے حق میں کمی کی یا اْسے کوئی ایسا کام دیا جو اْس کی طاقت سے باہر ہو یا اْس کی دلی رضامندی کے بغیر کوئی چیز اْس سے لے لی تو قیامت کے دن میں اْس کی طرف سے جھگڑا کروں گا۔‘‘ (ابو داؤد)
اب جو لوگ غیرمسلموں پر رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے نا م اور ان کی شفاعت کے بھروسے پر بلا جواز زیادتیاں کر رہے ہیں، بلا تحقیق قتل کررہے، قیامت کے دن دیکھیں گے کہ خود رسول اللہ خدا کی عدالت میں ان ظالم مسلمان کے خلاف ان مظلوم غیرمسلموں کا مقدمہ لڑیں گے۔ اور جس کے خلاف خود اللہ کا رسول کھڑا ہو جائے اس بدبخت کی تباہی میں کیا شبہ رہ جاتا ہے۔
عالمی سطح پر توہین رسالت کی وجہ اسلام کا وہ سیاسی تصور ہے جو پوری دنیا پر طاقت کے بل بوتے پر مسلم حکمرانی کو مسلمان کا مقصد گردانتا ہے۔ ظاہر ہے کہ جب عالمی سطح پر آزادی کو بنیادی انسانی حق تسلیم کر لیا گیا ہے تو پھر کسی قوم کا یہ مقصد حیات کہ اس نے پوری دنیا کو محکوم بنانا ہے، دوسروں کے لیے کسی طرح قابل قبول نہیں ہوسکتا۔ یہ نظریہ اگر مولانا مودودی کے نام سے پھیلایا جائے تو لوگ ان کو برا بھلا کہیں گے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام سے فروغ دیں تو لوگ انجانے میں ان کی توہین کریں گے۔ اس پر مستزاد یہ کہ اس نظریہ کے حاملین کے عملی مظاہر اگر داعش کی صورت میں سامنے آئیں تو تحقیق کرنے پہلے ہی عوام سخت رد عمل میں آکر اس دین اور اس کے لانے والے کو برا کہنے لگتے ہیں، جو ایسی تعلیمات یا ایسی تربیت کرتا ہے۔
اسلام کے بارے میں غیروں اور اپنوں کا منفی پراپیگنڈا بھی اس کا سبب ہے۔ مثلاً،اسلام کے عورتوں کے بارے میں احکامات کو عجیب رنگ میں پیش کیا جاتا ہے جو بادی النظر میں بہت دقیانوسی لگتا ہے۔ اس دقیانیوسیت پر مہر تصدیق اس وقت ثبت ہوجاتی ہے جب کچھ مسلم ممالک میں اس پر پوری دقیانوسیت کے ساتھ عمل بھی نظر آتا ہے ، جہاں عورت کو کسی جانور سے زیادہ حیثیت نہیں دی جاتی۔ اس سب کا ردعمل اسلام اور پیغمبر اسلام کے خلاف نکلتا ہے۔
اگر دیکھا جائے تو یہ ردعمل نبی کریم کی حقیقی ذات کے خلاف نہیں بلکہ اس تصور کے خلاف ہے جو ان کے سامنے اسلام کی غلط ترجمانی سے پیدا ہوتا ہے۔ دوسروں کو الزام دینے اور اس الزام پر ان کو سزاد دینے سے پہلے ہمیں اپنے گریبانوں میں جھانک لینا چاہیے کہ کہیں ہم ہی اپنے عظیم نبی کی توہین کے ذمہ دار ہم خود تو نہیں؟
امتی باعث رسوائیِ پیمبرہیں