دستور، قانون اور عملی احکام سے آگاہی معاشرے کے ہر فرد کی ضرورت ہے، اس لیے کہ آئین کی روح کو سمجھنا، قانون سے واقف ہونا اور اس کے مطابق زندگی گزارنا ہر مہذب فرد کا فریضہ ہے۔ دین اسلام نے بالکل آغاز سے انسان کو اس بنیادی ضرورت کی طرف متوجہ کیا ہے۔
قانون پر اس کی روح کے مطابق عمل کے لیے دو چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک علم نافع جو ہر فرد بشر کے فکری ارتقا اور استحکام کے لیے ضروری ہے۔ قرآن و سنت کی رو سے ہر مسلمان مرد اور عورت کا علم حاصل کرنا نہ صرف فرض ہے بلکہ حصول عم کا عمل مومن کی ساری زندگی میں تسلسل کے ساتھ جاری رہنا ضروری ہے۔ علمی اور فکری ارتقا کا رک جانا عقل و شعور کی موت (intellectual death) کے مترادف ہے۔
وحی الٰہی کا آغاز سورہ علق کی جن پانچ آیات سے ہوا ہے، ان سے دین میں تعلیم و تعلم، قلم و کتاب ، مطالعہ اور بحث و تحقیق کی اہمیت و ضرورت مسلم امہ کے لیے پہلے دن سے ہی اجاگر کر دی گئی تھی۔
اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ۔ خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ۔ اِقْرَاْ وَرَبُّکَ الْاَکْرَمُ۔ الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ ۔ عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ
’’اے محمدؐ! اپنے پروردگار کا نام لے کر پڑھو جس نے (عالم کو) پیدا کیا۔ جس نے انسان کو خون کی پھٹکی سے بنایا۔ پڑھو اور تمہارا پروردگار بڑا کریم ہے، جس نے قلم کے ذریعے علم سکھایا، اور انسان کو وہ باتیں سکھائیں جن کا اسے علم نہ تھا۔‘‘
دوسری چیز وہ رویہ ہے جو قبول علم کے لیے لازمی ہے۔ یہ رویہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب انسان اپنے آپ کو اخلاق فاضلہ سے آراستہ کر لیتا ہے۔ پھر اخلاص کے ساتھ علم کی طلب و جستجو پیدا ہو جاتی ہے۔ علم صفت خداوندی ہے۔ یہ عظیم الشان صفت اس وقت اجاگر ہوتی ہے جب انسان میں عبدیت کا شعور بیدار ہوتا ہے۔ چنانچہ شعور عبدیت کو اجاگر کرنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان تزکیہ نفس کے عمل سے گزرے اور اپنے مزاج اور رویہ میں فضائل اخلاق کو رچا بسا لے۔ جب یہ دونوں چیزیں انسان کو حاصل ہو جاتی ہیں تو پھر وہ نہ صرف یہ کہ علم و عمل کی لذت سے آشنا ہو جاتا ہے، بلکہ دل میں قانون کی عظمت بھی اجاگر ہو جاتی ہے اور قلب و دماغ میں مزید علم کی طلب اور ذوق تحقیق و جستجو بھی پیدا ہوتا ہے۔
عہد رسالت میں تو عوامی نمائندوں اور انتظامی عہدہ داروں کی یہ ذمہ داری ہوتی تھی کہ وہ لوگوں کو احکام و ضوابط اور قاعدے و قانون سے آگاہ کرتے رہیں۔ نیز یہ کہ وہ خود بھی اخلاقی اقدار کے مالک ہوں اور معاشرے میں بطور معلم اخلاق اپنا کردار ادا کرتے رہیں۔ ابن حجر عسقلانیؒ عہد رسالت کے پبلک نمائندوں کے بارے میں لکھتے ہیں کہ وہ لوگوں کے حقوق کی نگہبانی بھی کرتے تھے اور قانون پر عمل درآمد بھی کراتے تھے۔
فتویٰ کی حقیقت یہ ہے کہ احکام و مسائل اور قانون کو صحیح صحیح دلیل کے ساتھ بتا دیا جائے۔ قانون کے اصل مآخذ و مصادر تو قرآن و سنت ہیں۔ یقینی بات ہے کہ ہر قانون کو انہی کی روشنی میں دیکھنا اور پرکھنا ہوتا ہے۔ قرآن و سنت میں کوئی حکم موجود نہ ہو تو اس صورت میں دیگر شرعی دلائل کے ذریعہ مسئلہ کا حل تلاش کیا جاتا ہے۔ دلائل شرعیہ کے ذریعہ استنباط و استدلال کے بہت سے مناہج ہیں جن کی تفصیلات اجتہاد اور اصول فقہ کی کتب میں ملتی ہیں۔
فتویٰ، فیصلہ اور رائے کا فرق
عام طور پر لوگ فتویٰ، فیصلہ اور رائے کے فرق کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ اس کی وجہ سے بہت سی الجھنیں پیدا ہوتی ہیں۔ اس لیے مناسب ہوگا کہ یہاں ان کے فرق کو نمایاں کر دیا جائے۔
جہاں تک رائے کا تعلق ہے تو وہ ہر صاحب علم و فکر کا حق ہے کہ وہ کسی مسئلہ کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار دیانت داری کے ساتھ کرے۔
اظہار رائے کے لیے تین شرائط ہیں: پہلی شرط اخلاص ہے۔ انسان جو بات بھی کہے وہ اخلاص و دیانت پر مبنی ہونی چاہیے۔ دوسری شرط علم ہے، جس شعبہ سے متعلق کوئی فرد کسی مسئلہ کے بارے میں رائے کا اظہار کر رہا ہو، اس سے متعلق وہ معلومات اور علم بھی رکھتا ہو۔ تیسری شرط یہ ہے کہ جو بات کہے وہ مدلل ہو، دلیل کے بغیر رائے کو اہمیت نہیں دی جا سکتی۔
فتویٰ اس حکم یا رائے کو کہا جاتا ہے جو درجہ افتاء پر فائز با صلاحیت مفتی کی جانب سے جاری ہوتا ہے۔ مفتی کسی مسئلہ کے بارے میں اپنے علم و اجتہاد کی بنیاد پر یہ بتاتا ہے کہ زیر غور مسئلہ میں شریعت کا نقطہ نگاہ کیا ہے۔ شریعت کا نقطہ نگاہ جب معلوم ہو جائے تو اس پر عمل کرنا چاہیے۔ انفرادی طور پر بھی عمل کرنا ضروری ہے اور اجتماعی طور پر بھی۔ فیصلہ اسے کہا جاتا ہے جو کسی با اختیار عدالت یا ایسے با اختیار ادارے کی طرف سے کیا جائے جس پر عمل درآمد کے لیے لوگ قواعد و ضوابط کے مطابق پابند ہوتے ہیں۔ بقول فقہاء قاضی مجبر (یعنی اس کے فیصلہ پر عمل لازم ہے) اور مفتی مخبر ہوتا ہے۔
رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے ہی میں افتاء کا ادارہ وجود میں آگیا تھا۔ خود رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے زندگی میں درپیش مسائل کے بارے میں دریافت کیا جاتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے جوابات دیا کرتے تھے۔ لیکن جب مسلمانوں کی تعداد بہت زیادہ ہوگئی اور لوگ دور دراز کے علاقوں میں پھیل گئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ان صحابہ کرام کو فتویٰ دینے کی اجازت عطا فرمائی جو علم و عمل اور تفقہ و اجتہاد کے لحاظ سے اس درجے کو پہنچ چکے تھے کہ لوگوں کی علمی، فکری اور قانون رہنمائی کر سکیں۔
عہد رسالت میں دو اداروں کے قیام کی طرف خصوصی توجہ دی گئی تھی، ایک عدلیہ کا قیام، دوسرے افتاء کا ادارہ۔ نظام قضاء کی ذمہ داری یہ تھی کہ وہ معاشرے میں عدل و انصاف قائم کرے اور قانون کو بلا روک ٹوک اس کی صحیح روح کے ساتھ جاری و نافذ کرے۔ افتاء کے ادارہ کی ذمہ داری یہ تھی کہ وہ لوگوں کو قانون کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے میں مدد کرے۔ جس طرح عدلیہ بے لاگ اور بلا معاوضہ انصاف مہیا کرتا تھا، اس طرح افتاء کا ادارہ بھی کسی فیس یا معاوضہ کے بغیر قانونی مشورے دیتا تھا۔ افتاء کا ادارہ وقت کے ساتھ پھیلتا اور مستحکم ہوتا رہا۔ مفتی حضرات نہ صرف یہ کہ زبانی مسائل، احکام اور قانون کی وضاحت کرتے بلکہ بوقت ضرورت تحریری طور پر بھی قانون کی وضاحت کا فریضہ انجام دینے لگے۔ اگر کہیں کسی مسئلہ میں کوئی الجھن پیدا ہوتی تو وہ تعبیر و تشریح کے اصولوں کی روشنی میں دلائل کے ساتھ الجھن کو دور کرنے کی سعی فرماتے اور کوشش کرتے تھے کہ ایسی تعبیر پیش کی جائے جو شریعت کی روح اور منشاء سے زیادہ قریب ہو۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جن صحابہ کرامؓ کو فتویٰ دینے کی اجازت دی تھی، ان میں حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت علیؓ، حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ، ام المومنین حضرت عائشہؓ، حضرت زید بن ثابتؓ، حضرت عبد اللہ بن عباسؓ، حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نمایاں تھے۔ یوں تو صحابہ کرام کی بہت بڑی تعداد تھی جس نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست علم حاصل کیا۔ لیکن درجہ افتاء پر فائز صحابہ کرام کی بہت بڑی تعداد تھی جس نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست علم حاصل کیا۔ لیکن درجہ افتاء پر فائز صحابہ کرام کی تعداد تقریباً سوا سو تھی۔ ان میں سے جو لوگ عملاً افتاء کے کام میں مصروف رہے انہیں انگلیوں پر گنا جا سکتا ہے ۱۔ بہرحال یہ تمام حضرات مستند اور اجازت یافتہ مفتی تھے، اور لوگوں کو قانون سے آگاہی فراہم کیا کرتے تھے۔ لوگوں میں قانون کا علم اور شعور پیدا کرنے میں ان حضرات کا نمایاں کردار ہے۔
افتاء کی اہلیت و صلاحیت
فتویٰ دینا کیونکہ ایک بھاری ذمہ داری ہے، لہٰذا اس منصب کے لیے صلاحیت و قابلیت کو بھی بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ مفتی اور قاضی کے عہدے ایسے ہیں کہ ان پر بہت سوچ سمجھ کر با صلاحیت اور با کردار افراد ہی کا تقرر کیا جا سکتا ہے۔ ان کی قابلیت و صلاحیت کا کڑا معیار ہر صورت میں برقرار رکھنا چاہیے۔
افتاء کے عہدہ پر انتہائی سمجھدار، تجربہ کار اور عاقل و بالغ مسلمان ہی کو فائز کیا جا سکتا ہے۔ مفتی کے لیے ضروری ہے کہ وہ قرآن حکیم اور اس کے علوم، سنت اور علوم الحدیث سے اچھی طرح واقف ہو۔ اجماعی مسائل کا علم رکھتا ہو۔ اجتہاد اور اس کے اسالیب سے اچھی طرح واقف ہو۔ نیز دلالات اور تشریح و تعبیر کے اصولوں کو خوب سمجھتا ہو۔ یہ اسی وقت ممکن ہو سکے گا جب اسے عربی زبان و ادب پر عبور حاصل ہو۔ فقہا نے مفتی کے لیے یہ شرط بھی عائد کی ہے کہ وہ جس خطہ میں بطور مفتی مقرر کیا جا رہا ہو، وہاں کے عرف و عادات، رسوم و رواج، زبان اور اس کی اصطلاحات کو خوب سمجھتا ہو۔ سب سے بڑی شرط یہ ہے کہ عمل و کردار، تقویٰ اور نیکی میں بھی نمایاں مقام رکھتا ہو۔
حواشی
۱ الاشقر، عمر سلیمان، تاریخ الفقہ الاسلامی (مکتبہ الفلاح، الکویت ۱۴۱۰ھ / ۱۹۸۹) ۷۹