کیا توہین رسالت پر سزا کے قانون کا غلط استعمال ہوتا ہے؟ مولانا شیرانی، پروفیسر ساجد میر اور مولانا زاہد الراشدی کی خدمت میں

مولانا غلام محمد صادق

اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین اور ہمارے لیے قابل احترام علمی شخصیت محترم حضرت مولانا محمد خان شیرانی صاحب نے کہا ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل توہین رسالت کے قانون پر نظر ثانی کے لیے تیار ہے۔ مگر اس کے لیے حکومت یہ مسئلہ باقاعدہ طور پر اسلامی نظریاتی کونسل کو بھجوائے۔ (روزنامہ اسلام ۳۱ جنوری ۲۰۱۶ء) اس پر مرکزی جمعیۃ اہل حدیث پاکستان کے امیر محترم سینیٹر پروفیسر ساجد میر نے ایک اخباری بیان میں کہا ہے کہ توہین رسالت پر موت کی سزا کے قانون کی تبدیلی برداشت نہیں کی جائے گی۔ البتہ اس کے غلط استعمال کی روک تھام ضروری ہے اور اس پر ہمیں غور کرنا چاہیے۔ ملک کی ایک تیسری علمی شخصیت اور معروف سکالر و دانشور حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب نے بھی محترم شیرانی صاحب کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ جس طرح یہ بات قطعی طور پر غیر متنازعہ ہے کہ توہین رسالت کی سزا بہرحال موت ہے جسے کسی صورت میں تبدیل نہیں کیا جا سکتا، اسی طرح یہ بات بھی اب متنازعہ نہیں رہی کہ ہمارے ہاں اس قانون کا استعمال بہت سے مواقع پر ناجائز ہوتا ہے۔ متعدد شواہد ایسے موجود ہیں کہ اپنے مخالفین کو خواہ مخواہ پھنسانے کے لیے اس قانون کا ناجائز استعمال کیا جاتا ہے۔ جبکہ بیسیوں مقدمات ایسے ریکارڈ پر ہیں جو خود مسلمانوں کے باہمی مسلکی مشاجرات و تنازعات کے پس منظر میں ایک دوسرے کے خلاف درج کرائے گئے ہیں۔

ہمارے لیے یہ تینوں حضرات قابل احترام و قابل تعظیم و تکریم ہیں، مگر ہم پورے وثوق و اعتماد کے ساتھ ان حضرات کے بیانات کو مآل و نتیجہ کے اعتبار سے توہین رسالت کی سزا میں تخفیف و کمی اور مغربی و سیکولر لابیوں کی طرف سے بے جا واویلا اور مسلمانوں کے خلاف ان کے متعصبانہ پروپیگنڈہ مہم کی نادانستہ طور پر تائید و تصویب اور اس سزا کے مخالفین کو مؤثر ہتھیار فراہم کرنے کے مترادف سمجھتے ہیں۔ ایسے ماحول میں جبکہ مغرب قانون توہین رسالت کے درپے ہو اور اس کے مکمل خاتمہ یا غیر مؤثر بنانے کے لیے رات دن کوششوں میں مصروف ہو، وقتاً فوقتاً امریکہ اور یورپی ممالک کی طرف سے اس قانون کو ختم کرنے کے مطالبات سامنے آتے رہے ہوں، کیا محترم چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل مولانا شیرانی صاحب کا بیان کہ ’’اسلامی نظریاتی کونسل توہین رسالت کے قانون پر نظر ثانی کے لیے تیار ہے مگر اس کے لیے حکومت اس مسئلہ کو باقاعدہ طور پر اسلامی نظریاتی کونسل کو بھجوائے‘‘ اس بات کی غمازی نہیں ہے کہ مولانائے محترم خود حکومت کو دعوت دے رہے ہیں کہ توہین رسالت کا متفقہ اور مسلمہ مسئلہ دوبارہ متنازعہ بنا کر کونسل بھجوائے تاکہ اس کو تیثۂ تحقیق کے ذریعہ مغرب اور لادین قوتوں کے لیے قابل برداشت بنایا جائے کہ ’’شیخ بھی راضی ہو اور شیطان بھی ناراض نہ ہو۔‘‘

اگرچہ ہمیں یقین ہے کہ حکومت ایسی غلطی کبھی نہیں کرے گی کہ اس قسم کے حساس اور جذبات ابھارنے والا طے شدہ مسئلہ کو چھیڑ کر اپنے لیے تباہ کن مسائل پیدا کرے گی اور اگر خدانخواستہ اس حکومت اس قسم کی ناعاقبت اندیشی کا مظاہرہ بھی کرے تو عاشقان رسول کے غیض و غضب سے نہیں بچ سکے گی۔ 

اسلامی نظریاتی کونسل ایک مشاورتی ادارہ ہے، نہ دارالافتاء ہے اور نہ دارالقضاء ہے کہ مسلمانان ملک اس کی تشریح و تعبیر اور بیان و تحقیق سے مطمئن ہو کر توہین رسالت کی سزا جیسے متفقہ اور مسلمہ قانون سے دستبردار ہو کر کونسل کی رائے اور تجویز کو باعث اطمینان و تسکین سمجھیں۔ باقی رہے محترم سینیٹر ساجد میر صاحب اور محترم مولانا زاہد الراشدی صاحب کے خیالات و بیانات کہ ’’توہین رسالت کے قانون کا استعمال غلط اور ناجائز ہوتا ہے جس کی روک تھام ضروری ہے اور اس پر ہمیں غور کرنا چاہیے‘‘ بلکہ مولانا زاہد الراشدی صاحب نے تو جناب ساجد میر صاحب کی وہم وظن اور مفروضے پر مبنی دعوے پر قطعیت اور یقینیت کی مہر تصدیق ثبت کرتے ہوئے اس موہوم قسم کی بات ’’توہین رسالت کے قانون کا غلط استعمال‘‘ کو غیر متنازعہ (قوم کا متفقہ فیصلہ) اور متعدد شواہد پر مبنی ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ ہم دونوں بزرگوں کے مذکورہ بیانات کو توہین رسالت کے متفقہ اور مسلمہ قانون میں نادانستہ طور پر امت مسلمہ میں مذموم و مکروہ اختلاف و تفریق اور تذبذب و انتشار پیدا کرنے کے لیے راہ ہموار کرنے کے مترادف سمجھتے ہیں جو کہ توہین رسالت کی قانونی سزا ختم کرنے یا غیر مؤثر کرنے میں بنیادی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ کیا ہم ان حضرات کی توقیر و عظیم کو ملحوظ رکھتے ہوئے ان سے پوچھ سکتے ہیں کہ ملک کے سابقہ صدر جنرل پرویز مشرف صاحب نے تو مئی ۲۰۰۰ء کو یہی الفاظ استعمال کر کے اعلان کیا تھا: ’’توہین رسالت کے قانون کا غلط استعمال ہو رہا ہے اس لیے ضابطۂ کار تبدیل کرنا چاہیے‘‘ جس پر اس وقت ملک کے طول و عرض میں پاکستان کی دینی اور سیاسی جماعتوں نے اس کے خلاف احتجاجی مظاہرے شروع کر دیے۔ اس دوران جنرل موصوف بیرون ملک دوروں پر تھے۔ وہاں انہیں اس بگڑتی ہوئی صورتحال سے آگاہ کیا گیا، بیرونی ملکی دوروں سے واپسی پر انہوں نے وہ بیان جاری کیا جس کا ایک ایک حرف آب زر سے لکھنے کے قابل ہے۔ 

انہوں نے اعلان کیا کہ حکومت نے توہین رسالت ایکٹ میں کوئی ترمیم نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ مجھے یہ بتایا گیا ہے کہ علماء کرام و مشائخ عظام متفقہ طور پر یہ چاہتے ہیں کہ ایف آئی آر براہ راست ایس ایچ او کے پاس درج ہو۔ انہوں نے کہا کہ مجھے ان سب کا احترام ہے اور اس سے بڑھ کر عوام بھی یہی چاہتے ہیں کہ ایف آئی آر کے طریقہ کار میں تبدیلی نہ ہو۔ میں نے فیصلہ کیا کہ تمام کا ہی فیصلہ ہے کہ اب بھی ایس ایچ او کے پاس ہی براہ راست ایف آئی آر درج ہو سکے۔ توہین رسالت کے تحت ایف آئی آر کے حوالے سے حکومت جو مجوزہ تبدیلی لانا چاہ رہی ھی اس پر علماء کی رائے حکومت کے لیے بہت راہنمائی کا سبب بنی۔ انہوں نے کہا کہ توہین رسالت کا قانون پی پی سی 295سی کا حصہ ہے، نہ تو اس میں تبدیلی ہو سکتی ہے نہ ہی کوئی مسلمان اسے بدل سکتا ہے۔ کوئی اسے تبدیل کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ جو معاملہ سامنے آیا ہے وہ ایف آئی آر کے اندراج میں ایک معمولی تبدیلی کا تھا جس کے تحت یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ ایسا معاملہ ڈپٹی کمشنر کے نوٹس میں لایا جائے گا جو اس پر ایف آئی آر درج کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ میں علماء کا بے حد احترام کرتا ہوں اور میں نے حکام کو علماء کے ساتھ رابطے کی ہدایت کی ہے۔(روزنامہ نوائے وقت ۱۷ مئی ۲۰۰۰ء)

آخر ایک غیر متدین شخص اور شرعی رموز و آداب سے ناواقف و نابلد جرنیل سابقہ صدر پاکستان کے توہین رسالت کے قانون میں تبدیلی سے متعلق بیان کہ ’’توہین رسالت کے قانون کا غلط استعمال ہو رہا ہے اس لیے ضابطہ کار تبدیل کرنا چاہیے‘‘ اور مرکزی جمعیۃ اہل حدیث کے امیر محترم پروفیسر ساجد میر صاحب کے ان الفاظ میں کہ ’’البتہ اس (توہین رسالت کے قانون) کے غلط استعمال کی روک تھام ضروری ہے اور اس پر ہمیں غور کرنا چاہیے‘‘ اور محترم مولانا زاہد الراشدی کے ان الفاظ میں کہ ’’یہ بات اب متنازعہ نہیں رہی کہ ہمارے ہاں اس قانون کا استعمال بہت سے مواقع پر ناجائز ہوتا ہے‘‘ اور پھر مولانائے محترم کے یہ الفاظ کہ ’’چنانچہ قانون کے غلط استعمال کی روک تھام کے لیے یہ مسئلہ نظریاتی کونسل میں زیر بحث آتا ہے تو اسے ہدف تنقید بنانے کی بجائے اس کی حمایت کرنی چاہیے‘‘ میں انجام و نتیجہ کے اعتبار سے کیا فرق ہے؟ کہ پرویز مشرف کا بیان تو مورد الزام اور طعن و تشنیع کا سبب بن جاتا ہے جس کے خلاف ملک کے طول و عرض میں احتجاجی مظاہرے اور مذمتی جلسے و اجتماعات منعقد کیے جاتے ہیں، جس کے نتیجے میں پاکستان کے صدر جنرل پرویز مشرف عوام کی رائے کا احترام کرتے ہوئے قانون توہین رسالت کے نفاذ کے طریقہ کار میں تبدیلی کے متعلق اپنے اعلان کو واپس لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں، جبکہ ہمارے مذکورہ محترم علمی شخصیات اور قومی قائدین کے مندرجہ بالا بیانات توہین رسالت کے قانون کے لیے افادیت کا سبب طنز و تشنیع سے حفاظت اور مسلمانوں کی نیک نامی کے باعث بن جائیں گے۔

کہتے ہیں کہ کسی شخص کے سر پر ٹوپی فٹ نہیں ہوتی تھی تو دوسرے نے اس کو سر تراشی کا مشورہ دیا۔ ظاہر ہے کہ سر تراشی سے پھر وہ سر، سر ہی نہیں رہ جائے گا۔ ظاہر ہے کہ توہین رسالت کے قانون کے نفاذ کے لیے مانع استعمال شروط و قیود لگانے سے ہی اس قانون کی افادیت ختم ہو جائے گی اور پھر یہ قانون قانون ہی نہیں رہے گا۔ 

جہاں تک پاکستان میں توہین رسالت کے قانون کے غلط استعمال اور بے گناہ لوگوں کو اس قانون میں پھنسانے کے لیے ان کے خلاف مقدمات دائر کرانے اور سزا دلانے کا تعلق ہے تو اس کے لیے مؤثر قانون تعزیرات موجود ہے۔ قانون تعزیرات کی دفعہ 194 کی رو سے اگر کوئی شخص بے گناہ کو سزائے عمر قید یا سزائے قتل دلانے کے ارادے سے غلط بیانی کرے یا جھوٹی شہادت دے تو اس کو عمر قید کی سزا مقرر ہے۔ اور کسی شخص پر سزائے موت لاگو ہو جائے اور بعد میں ثابت ہو کہ اس کی وجہ جھوٹی شہادت تھی تو ایسے جھوٹے گواہ یا گواہوں کو سزائے موت دی جائے گی۔ اگر کسی جگہ قانون توہین رسالت کا غلط استعمال ہوا تو اس تعزیراتی قانون پر عمل درآمد کرتے ہوئے حکومت یا عدالت از خود نوٹس لے کر ایسے افراد کو قرار واقعی سزا دے سکتی ہے جو توہین رسالت کے نام پر جھوٹے مقدمات میں لوگوں کو ملوث کرتے ہیں۔ جب یہ قانون پہلے ہی سے ملک میں موجود ہے تو پھر صرف توہین رسالت کے قانون کے غلط استعمال کی روک تھام کے لیے فکرمند ہونا اور اس اہم اور متفقہ قانون پر نظر ثانی کرنا چہ معنی دارد؟

قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم: الدین النصیحۃ۔ یعنی دین بس خیر خواہی کا نام ہے۔ 

(بشکریہ ماہنامہ ’’النصیحہ‘‘ چارسدہ)

آراء و افکار

(جون ۲۰۱۶ء)

جون ۲۰۱۶ء

جلد ۲۷ ۔ شمارہ ۶

غیر شرعی قوانین کی بنیاد پر مقتدر طبقات کی تکفیر / تہذیب جدید اور خواتین کے استحصال کے ’’متمدن‘‘ طریقے / چھوٹی عمر کے بچے اور رَسمی تعلیم کا ’’عذاب‘‘
محمد عمار خان ناصر

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۹)
ڈاکٹر محی الدین غازی

فتویٰ کی حقیقت و اہمیت اور افتا کے ادارہ کی تنظیم نو
ڈاکٹر محمد یوسف فاروقی

مطالعہ و تحقیق کے مزاج کو فروغ دینے کی ضرورت
مولانا نور الحسن راشد کاندھلوی

عصری لسانیاتی مباحث اور الہامی کتب کی معنویت کا مسئلہ
محمد زاہد صدیق مغل

دیوبند کا ایک علمی سفر
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں؟
ڈاکٹر محمد طفیل ہاشمی

لاہور کے سیاست کدے
محمد سلیمان کھوکھر ایڈووکیٹ

قرآن مجید کے قطعی الدلالہ ہونے کی بحث
ڈاکٹر حافظ محمد زبیر

توہین رسالت کیوں ہوتی ہے؟
ڈاکٹر عرفان شہزاد

کیا توہین رسالت پر سزا کے قانون کا غلط استعمال ہوتا ہے؟ مولانا شیرانی، پروفیسر ساجد میر اور مولانا زاہد الراشدی کی خدمت میں
مولانا غلام محمد صادق

مولانا غلام محمد صادق کے نام مکتوب
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

’’میرا مطالعہ‘‘
ادارہ

تلاش

Flag Counter