دہشت گردی یا انتہا پسندی کی سوچ کو عمومی طور پر اس طرز فکر کے حامل عناصر کے بعض اقدامات مثلاً خود کش حملوں وغیرہ کے حوالے سے سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ کسی بھی اوسط سطح کے باخبر آدمی سے دہشت گردی کی سوچ کے متعلق سوال کیا جائے تو غالباً اس کا جواب یہی ہوگا کہ یہ وہ سوچ ہے جو بے گناہ لوگوں کا خون بہانے اور لوگوں کے اموال واملاک کو تباہ کرنے کو نیکی کا کام سمجھتی ہے۔ تاہم فکری سطح پر اس سوچ کا تجزیہ کرنے کے لیے مذکورہ تعریف ناکافی ہے، کیونکہ خون بہانا اور اموال واملاک کی تباہی اصل فکر نہیں، بلکہ اس فکر کا ایک نتیجہ اور ایک اظہار ہے۔ انتہا پسندی یا دہشت گردی کی اصل فکر ایک پورا بیانیہ ہے جس کی بنیاد ایک مخصوص ورلڈ ویو پر اور خاص طور پر دنیا کے موجودہ نظام طاقت (Power Structure) کے بارے میں ایک متعین نقطہ نظر پر ہے۔
اس فکر کا خلاصہ یہ ہے کہ دور جدید کے جمہوری تصورات کے تحت قائم مسلم ریاستیں کسی بھی لحاظ سے اسلامی ریاست کی بنیادی خصوصیات کی حامل نہیں، بلکہ معاشرے کی تشکیل میں ان مغربی اقدار اور تصورات کو تحفظ اور تقویت فراہم کر رہی ہیں جو خیر وشر کے اسلامی پیمانے سے مختلف اور متصادم ہیں۔ نیز یہ کہ مسلمانوں کے مقتدر طبقات نے اپنے شخصی وطبقاتی مفادات کی خاطر مغربی تہذیب کے غلبے اور مغربی جمہوری نظام کے سامنے نہ صرف سر تسلیم خم کر دیا ہے بلکہ نفاذ شریعت کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرتے ہوئے مغربی تہذیب کے حلیف کا کردار بھی قبول کر لیا ہے اور اس ساری صورت حال کا حل اس کے سوا کچھ نہیں کہ اس پورے نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے اور اس کی جگہ خالص اسلامی وشرعی نظام قائم کرنے کی کوشش کی جائے۔
اس طرز فکر کے حق میں بہت سے نظری وشرعی استدلالات بھی پیش کیے جاتے ہیں، تاہم بنیادی طور پر اس فکر کا ذہنوں میں پیدا ہونا شرعی دلائل پر کسی غور وفکر کا نتیجہ نہیں۔ اپنی بنیادی نوعیت کے لحاظ سے یہ ایک نفسیاتی ردعمل ہے جس میں انسانی ذہن ارد گرد کے ماحول کے ساتھ ایک خاص طرح کا منفی تعلق متعین کرتا ہے اور پھر اس کے اظہار کے لیے ایسے وسائل اور ذرائع تلاش کرتا ہے جو اس کے احتجاج، نفرت اور بے زاری کا ابلاغ شدت اور جارحیت کے ساتھ کر سکیں۔
اہم بات یہ ہے کہ سوچ کا یہ زاویہ ان عناصر کے ساتھ خاص نہیں جنھیں ہم ’’انتہا پسند‘‘ قرار دیتے ہیں۔ اس کی پوری پوری عکاسی ہمیں اپنے یہاں کی عام مذہبی سوچ میں بھی ملتی ہے، اگرچہ عام مذہبی فکر کے مسائل وموضوعات اور ’’انتہا پسند‘‘ عناصر کے مسائل وموضوعات میں ظاہری طور پر کئی فرق موجود ہیں۔
دونوں میں مشترک چیز یہ ذہنی رویہ ہے کہ ماحول کے منفی اور ناپسندیدہ پہلوؤں پر حد سے بڑھی ہوئی حساسیت اور جھنجھلاہٹ کی عکاسی کرنے والا رد عمل ظاہر کیا جائے اور یہ فرض کر لیا جائے کہ گویا مثبت اور تعمیری طور پر کرنے کے لیے کوئی کام یا کام کے مواقع اور امکانات بالکل ناپید ہیں۔ اس ذہنی رویے کے نتیجے میں مذہبی ذہن ماحول کے صرف منکرات اور منفی پہلوؤں پر ارتکاز کرتا ہے اور اپنے طرز اظہار سے اس احساس کو مسلسل تقویت پہنچاتا ہے کہ یہاں مثبت طور پر کرنے کے لیے کوئی کام نہیں، ہر طرف رکاوٹیں ہی رکاوٹیں ہیں اور خاص طور پر اہل اقتدار کے خلاف احتجاج ہی واحد راستہ ہے جو موثر ہو سکتا ہے۔ چنانچہ حکمران طبقوں، حتیٰ کہ آئینی وقانونی اداروں پر بے اعتمادی کی فضا کو فروغ دینا اور ہر معاملے میں تنقید کا ایسا اسلوب اختیار کرنا اس طرز فکر کا ایک لازمی تقاضا قرار پاتا ہے جس کا بنیادی نکتہ یہ ہو کہ حکومت کا کوئی بھی اقدام جو مذہبی طبقات کے نزدیک غلط ہو، لازماً خلاف اسلام ہے، اسلام دشمن ایجنڈا کو آگے بڑھانے والا ہے اور اس کے پیچھے صرف اور صرف عالمی طاقتوں کا دباؤ یا انھیں خوش کرنے کا جذبہ کام کر رہا ہے۔ یہ طرز فکر چونکہ طبقاتی وگروہی سیاست کے قائدین کے لیے بے حد مفید مطلب ہوتا ہے، اس لیے وہ اپنی سیاسی ضروریات کے لیے اس کا بھرپور استعمال کرتے ہیں اور قومی سطح پر اس کے ترجمان اور وکیل بن کر ہر طرح کے فکری، قانونی، سماجی اور سیاسی بحث ومباحثہ کو اس کا یرغمال بنا لیتے ہیں۔
یوں کسی تردد کے بغیر یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہماری عمومی مذہبی فکر اپنے اظہاری رویوں کے ذریعے سے انتہا پسند فکر کو نہ صرف مسلسل غذا بہم پہنچاتی ہے، بلکہ اس کے پیش کردہ مقدمے کو بھی بالواسطہ بلکہ بعض صورتوں میں کھلی کھلی تائید فراہم کرتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ شریعت اور اسلامی فقہ کا مزاج اور ترجیحات جس قدر anti-anarchist ہیں، ہمارے یہاں کی مذہبی فکر اور بالخصوص مذہبی سیاست میں گزشتہ تین چار دہائیوں سے اتنا ہی anarchist رجحانات نے فروغ پایا ہے۔ اس حوالے سے بعض طبقوں کے متعلق اس سے مختلف جو تاثر پایا جاتا تھا، حالیہ چند واقعات نے ظاہر کر دیا ہے کہ وہ محض سطحی اور ظاہری تھا، ورنہ ہر طبقہ اپنی ترجیحات کے دائرے میں اصلاً اسی طرز فکر کا حامل ہے کہ اگر کسی خاص معاملے میں کوئی حکومتی یا ریاستی اقدام اس کے مذہبی فہم کے خلاف ہے تو پھر اس کے لب ولہجہ اور اسلوب تنقید میں اور ریاست کے ساتھ برسر پیکار انتہا پسند عناصر کے طرز استدلال میں کوئی فرق باقی نہیں رہے گا۔
ہمارے نزدیک ریاست، قانون اور معاشرتی نظم سے متعلق اس ذہنی رویے کی بنیاد طبقاتی پچھڑے پن کا وہ شدید احساس ہے جو عموماً اہل مذہب کے تحت الشعور میں کام کر رہا ہے اور انھیں یہ باور کراتا رہتا ہے کہ جس معاشرہ کی تشکیل ان کی پسند وناپسند کے مطابق نہیں ہوئی، وہ ان کی تعمیری کوششوں کا سزاوار ہرگز نہیں ہو سکتا۔ وہ اگر کوئی کار خیر انجام دے سکتے ہیں تو بس یہی کہ اپنا وزن تخریب، انتشار اور بد نظمی پھیلانے والی طاقتوں کے پلڑے میں ڈالے رکھیں۔ اس نفسیاتی خول سے باہر نکلنا شاید اس وقت اہل مذہب کے لیے سب سے بڑے چیلنج کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ اس نفسیات کے ساتھ تو ایک فرد، چند افراد کے ساتھ معمول کی زندگی نہیں گزار سکتا، چہ جائیکہ ایک پورا طبقہ، معاشرے میں کوئی مثبت اور تعمیری کردار ادا کر سکے۔ معاشرے کی قیادت وہی لوگ کر سکتے ہیں جو خود پر امید ہوں، لوگوں کو امید دلائیں اور مایوسی کی تاریکیوں میں امید کی کرنیں جلاتے چلے جائیں۔ جو حالات سے پیدا ہونے والی منفی ذہنیت کو مثبت رخ دیں اور لوگ ان کی باتوں میں اپنے دکھوں کا درمان پائیں۔ یہ کام سب سے بڑھ کر اہل مذہب کے کرنے کا ہے۔ اگر وہ خود ہی اس ذہنی کیفیت کا شکار ہو جائیں تو معاشرے کو دینے کے لیے ان کے پاس مایوسی، جھنجھلاہٹ اور انتہا پسندی کے علاوہ کچھ نہیں رہ جائے گا۔ وہ اگر اس نفسیات سے باہر نکل کر دیکھیں گے تو انھیں ماحول میں کرنے کا اتنا کام اور کام کے لیے اتنے ان گنت مواقع نظر آئیں گے کہ مایوسی، رنجش اور شکایت کی فرصت ہی نہیں ملے گی۔
مولانا وحید الدین خان نے معاشرے اور ماحول کو دیکھنے کے ان دونوں انداز ہائے نظر کو کیا خوبی سے واضح کیا ہے:
’’ایک صاحب سے اس موضوع پر گفتگو ہوئی کہ تبلیغی جماعت اور جماعت اسلامی میں کیا فرق ہے۔ میں نے کہا کہ تبلیغی جماعت مبنی بر مسجد (Masjid-based) تحریک ہے۔ اس کے مقابلہ میں جماعت اسلامی ایک مبنی بر پارلیمنٹ (Parliament-based) تحریک ہے۔ اس فرق کا نتیجہ یہ ہے کہ تبلیغ کو فوراً ہی اپنا میدان کار مل جاتا ہے، کیونکہ صرف ہندوستان میں اس وقت تین لاکھ مسجدیں ہیں اور ہر مسجد میں آڈینس (audience) بھی موجود ہے، جبکہ جماعت اسلامی کا ذہن یہ ہوتا ہے کہ اس کا میدان عمل ابھی حاصل نہیں ہوا۔ اس کے نزدیک اصل میدان عمل پارلیمنٹ ہے اور پارلیمنٹ ابھی تک دوسروں کے قبضہ میں ہے۔
اس فرق کا یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ تبلیغ میں مثبت ذہن بنتا ہے اور جماعت اسلامی میں احتجاجی ذہن۔ تبلیغی جماعت کا آدمی ’پائے ہوئے‘ ذہن کے ساتھ جیتا ہے اور جماعت اسلامی کا آدمی ’کھوئے ہوئے‘ ذہن کے تحت۔ تبلیغی آدمی کے لیے ساری دنیا کے لوگ اپنے نظر آتے ہیں اور جماعتی آدمی کو ساری دنیا کے لوگ رقیب اور غیر دکھائی دیتے ہیں۔‘‘