۱۹ مارچ ، بروز ہفتہ مولانا محمد عمار خان ناصر کی نئی تصنیف ’’ فقہائے احناف اور فہم حدیث : اصولی مباحث‘‘ کے تعارف وتبصرہ کے حوالے سے ایک فکری نشست الشریعہ اکادمی کے ڈائریکٹر مولانا زاہد الراشدی کی زیر صدارت منعقد ہوئی جس میں ڈاکٹر محمد اکرم ورک (پرنسپل گورنمنٹ ڈگری کالج ، کامونکی )، ڈاکٹر شہزاد اقبال شام (پروفیسر (ر) انٹر نیشنل اسلامک یونیورسٹی ، اسلام آباد )، پیر جی سید مشتاق شاہ ، مولانا ظفر فیاض (استاذ الحدیث مدرسہ نصرۃ العلوم ، گوجرانوالہ) ڈاکٹر میاں ریاض محمود اور دیگر اہل علم نے شرکت کی اور کتاب کے بارے میں اظہار خیال کیا۔ ڈاکٹر شہزاد اقبال شام صاحب کو کتاب بروقت موصول نہ ہو سکی، تاہم انہوں نے موضوع کی ضرورت اور عصر حاضر میں موضوع کے بعض پہلوؤں پر، پر مغز گفتگو کی۔ کتاب اور صاحب کتاب کے حوالے سے مقررین نے جو کچھ کہا، اس کا خلاصہ حسب ذیل ہے ۔
ڈاکٹر محمد اکرم ورک نے اپنی گفتگو میں کہا کہ:
مولانا عمار خان ناصر نے اپنی کتاب میں احناف کے وہ فکری معیارات واضح کیے ہیں جن پر وہ حدیث کو پرکھتے ہیں۔ یہ بڑا قابل قدر کام ہے اور وقت کی اہم ضرورت ہے، لیکن میرا خیال ہے کہ اس کے ساتھ احناف کے ان فکری معیارات کا شجرہ نسب بھی اس میں شامل کر لیا جائے تو اس کی افادیت میں اضافہ ہو جائے۔ فکری شجرہ نسب سے میری مراد یہ ہے کہ کس طرح امام ابوحنیفہ ؒ کی فکر اپنے اساتذہ کے واسطے سے اکابر صحابہ کرامؓ جیسے حضرت علیؓ ، حضرت عمر فاروقؓ، حضرت عبد اللہ ابن مسعودؓ اور دیگر صحابہ کرامؓ سے مربوط ہوتی ہے۔ کتاب کو پڑھتے ہوئے بہت واضح تاثر ملتا ہے کہ احناف کے بارے میں دور اول میں بہت سی غلط فہمیاں ان مآخذ سے ناواقفیت کی بنا پر تھیں جو کہ اب ہمارے پاس موجود ہیں، لیکن بے اعتنائی کی وجہ سے وہی ساری غلط فہمیاں آج بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں۔ مثلاً غلام احمد پرویز نے اپنی کتاب میں امام ابوحنیفہ کو بھی منکرین حدیث کے گروہ کا ایک فرد شمار کیا ہے۔ اس کتاب کو پڑھتے ہوئے یہ بات بڑی واضح ہوئی ہے کہ ان مآخذ کو جس طرح عمار صاحب نے پیش نظر رکھا ہے، اگر ہم بھی پیش نظر رکھیں تو بہت سی غلط فہمیاں دور ہو سکتی ہیں۔
ایک اور بات میں یہ کہنا چاہوں گا کہ عمار صاحب نے جہاں احناف کے نقطہ نظر کی بہت خوبصورت وضاحت کی ہے، وہیں اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ حدیث کے بارے میں ان کا اپنا بھی وہی موقف ہے جو احناف کا موقف ہے، کیونکہ کسی چیز کو بطور دلیل پیش کرنا بھی اس بات کی دلیل ہوتی ہے کہ اس چیز کے بارے میں آپ کا موقف بھی قریب قریب وہی ہے۔ عمار صاحب کے بارے میں ایک بات کا اظہار میں اکثر علمی محافل میں کرتا ہوں کہ وہ ایک ایسی علمی شخصیت ہیں جو دلیل کے ساتھ کسی بات کو قبول کرتے ہیں اور دلیل کے ساتھ ہی کسی بات کو رد کرتے ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ حق اہل علم کو دیا جانا چاہیے۔ یہ بات قریب کے لوگ تو بہت اچھی طرح جانتے ہیں، دور کے لوگوں کے لیے بھی اس کتاب کے ذریعے یہ بات واضح ہو گئی ہے۔
اس کتاب میں احناف کے نقطہ نظر کی تفہیم و وضاحت کا جو اسلوب اپنایا گیا ہے، کیا ہی اچھا ہو کہ ہماری تاریخ میں جو مختلف گروہ گزرے ہیں، جیسے معتزلہ ، خوارج وغیرہ اور آج کے دور میں جو گروہ سامنے آئے ہیں ، حدیث کے حوالے سے ان کی رائے کو بھی اسی انداز میں صحیح تناظر میں سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ ورنہ آپ اگر لوگوں کو ایک دو یا چند احادیث کے انکار کے نتیجہ میں منکرین حدیث کے زمرے میں شمار کرنا شروع کر دیں گے تو میرا خیال ہے کہ سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ جیسا شخص بھی، جنہوں نے حدیث کی حجیت پر ایک زبردست مناظرہ کیا ہے، شاید منکرین حدیث کی فہرست میں شامل ہوگا۔ اسی طرح مولانا غلام رسول سعیدی جن کاا بھی کچھ عرصہ پہلے ہی انتقال ہوا ہے، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو والی جتنی حدیثیں ہیں، ان کی صحت کے قائل نہیں تھے، حالانکہ یہ احادیث بخاری و مسلم میں موجود ہیں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ محض کسی حدیث کا انکار کرنا اور بات ہے اور پورے علم حدیث اور فن حدیث کا انکار کرنا جو کہ ایک مخصوص مکتبہ فکر کا مؤقف ہے، بالکل مختلف چیز ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس کتاب کی شکل میں ہمارے سامنے ایک زاویہ نگاہ آیا ہے کہ کسی غلط فہمی میں مبتلا ہونے کے بجائے موجود مآخذ کی روشنی میں علمی بنیادوں پر ایسے لوگوں کا نقطہ نظر سمجھنا چاہیے جیسے احناف کا نقطہ نظر اس کتاب میں سمجھا گیا ہے۔
پیر جی سید مشتاق علی شاہ صاحب کی گفتگو کے اہم نکات یہ تھے:
مولانا عمار صاحب جب طالب علم تھے، اسی وقت ہم ان کی صلاحیتوں سے باخبر ہو گئے تھے کہ مولانا سرفراز خان صفدرؒ کی اولاد میں یہ شخص ان کے کام کو آگے بڑھانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ مولانا سرفراز خان صفدرؒ کو محدث اعظم یا اسماء الرجال کا امام خوش فہمی یا عقیدت کی وجہ سے نہیں کہا گیا، بلکہ انہوں نے اپنا لوہا خود منوایا۔ جو ان کی کتابیں پڑھے گا، وہ یہ کہے گا کہ ان کو فن حدیث یا اسماء الرجال میں جو مقام دیا گیا، وہ ایسے ہی نہیں دیا گیا بلکہ ان کے اندر یہ وصف پایا جاتا تھا ۔حضرت صوفی عبد الحمید سواتی صاحب ؒ سے ایک مرتبہ عمار کے بارے میں بات ہوئی تو فرمانے لگے کہ شیخ الحدیث صاحب نے اس کو حدیث محدثین کی طرز پر پڑھائی ہے اور ہم نے اس کو حدیث شاہ ولی اللہ ؒ کی طرز پر پڑھائی ہے۔ یعنی عمار دونوں کا جامع ہے اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ یہ بڑا ہو کر اپنے دادا کا ترجمان بنے اور خاندان کا اس سے نام روشن ہو۔ صوفی صاحب نے فرمایا کہ مفتی عبد الواحدؒ (سابق خطیب جامع مسجد شیرانوالہ باغ ، گوجرانوالہ) نے جب مولانا سرفراز خان صفدر ؒ سے ان کے بیٹے کو مانگا تو انہوں نے مولانا زاہد الراشدی کو ان کے حوالے کر دیا اور یہ سیاست کی لائن پر چڑھ گئے، لیکن ہم یہ چاہتے ہیں کہ عمار حدیث پر کام کرے اور دادا کا وارث بنے۔ جنہوں نے مولانا سرفراز خان صفدر ؒ کو دیکھا اور پڑھا ہے، وہ مولانا زاہد الراشدی اور عمار صاحب کو بھی اسی آئینے میں دیکھنا چاہتے تھے۔ کچھ عرصہ تک تو یہ آئینہ دھندلا دھندلا رہا، اس کتاب نے یہ دھندلاہٹ صاف کر دی ہے اور اس کو پڑھنے کے بعد ہر آدمی یہی کہے گا کہ ’’مقام ابی حنیفہ‘‘ کے بعد اگر ایسی کوئی کتاب اردو میں آئی ہے تو وہ عمار صاحب کی یہ کتاب ہے۔
امام صاحب ؒ کے بارے میں مخالفین کی طرف سے دو طرح کے اعتراض سامنے آئے ہیں۔ ایک ان کے مسائل کے بارے میں اور دوسرا ان کی شخصیت کے بارے میں ۔ اگر آدمی ان دونوں چیزوں کو سمجھ لے تو امام صاحب پر کوئی اعتراض وارد نہیں ہوتا۔ امام صاحب ؒ کی شخصیت سے جو اچھی طرح واقف ہوگا، وہ یہ سمجھ جائے گا کہ امام صاحب ؒ کے اصول کیا ہیں ، ضوابط کیا ہیں ، ان کا استدلال کا طریقہ کیا ہے۔ اور جو ان کے مسائل سے واقف ہو گا، وہ سمجھ جائے گا کہ امام صاحبؒ نے کوئی کمی چھوڑی ہی نہیں اور وہ اس بات کی تہہ تک پہنچ جائے گا کہ امام صاحب ؒ کی کوئی بات حدیث کے خلاف نہیں۔
ہم یہ بات پڑھا کرتے تھے کہ امام صاحب نے اجتہاد کے لیے چالیس آدمیوں کی کمیٹی بنائی تھی۔ اس کمیٹی میں جو بحثیں ہوتی رہیں اور جو نتائج مرتب ہوتے رہے، ان کے بارے میں ہمارے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا تھا کہ وہ سب چیزیں کہاں ہیں؟ ان کا کوئی پتہ نہیں چلتا۔ ظاہر الروایہ اور احناف کی دیگر بڑی کتب اردو میں بہت کم ملتی ہیں۔ امام ابویوسف ؒ کی کتاب الآثار تک کا ابھی تک اردو میں ترجمہ نہیں ہوا ۔امام محمدؒ کی پانچ کتابوں کا ترجمہ آیا ہے جو ہم نے دیکھی ہیں، باقی کا پتہ نہیں۔ تو ہم سوچتے تھے کہ فقہائے احناف کی جو ظاہر الروایہ کتابیں ہیں اور چالیس آدمیوں کی کمیٹی نے جو کام کیا ہے، وہ کہاں ہے ؟عمار صاحب کی کتاب کی یہ خصوصیت ہے کہ اس میں براہ راست امام محمد ؒ کی کتابوں سے استدلال کیا گیا ہے، امام ابو یوسف ؒ کی کتابوں کو ماخذ بنایا گیا ہے، سرخسی کی ’’المبسوط‘‘ کو ماخذ بنایا گیا ہے جو امام حاکم شہید ؒ کی کتاب ’’الکافی‘‘ کی شرح ہے جو کہ ظاہر الروایہ کی چھ کتابوں کا مجموعہ ہے۔ عمار صاحب نے اس طرح توجہ دلائی ہے کہ احناف کا موقف سمجھنے اور ان کے طریقہ استدلال کو چانچنے اور جاننے کے لیے ان اصل کتابوں کو ماخذ بنانا چاہیے۔
’’ مقام ابی حنیفہ‘‘ میں مولانا سرفراز خان صفدر ؒ نے ایک باب قائم کیا جس کا عنوان ہے: ’’ مخالفت حدیث کی نفیس بحث‘‘ ۔ جو آدمی وہ پڑھ لے گا، اس پر واضح ہو جائے گا کہ امام صاحب ؒ حدیث کی مخالفت نہیں کرتے تھے۔ عمار صاحب نے ابن ابی شیبہ ؒ کے ایک سو پچیس اعتراضات پر جو کام کیا ہے، اس میں ان کو انفرادیت حاصل ہے کہ ان سے پہلے اردو میں اس پر جامع کام نہیں ہوا تھا۔ حضرت تھانوی ؒ کے زمانے میں صرف دس مسئلوں پر کام ہوا تھا جو ’’ الاجوبۃ اللطیفہ عن بعض ردود ابن ابی شیبہ علی ابی حنیفہ‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ اسی طرح مولانا عطاء المصطفیٰ جمیل کے دادا نے’’ تائید الامام ‘‘کے نام سے ابن ابی شیبہ کے چودہ اعتراضات کا جائزہ لیا۔ پورے ایک سو پچیس مسئلوں پر اردو میں صرف عمار صاحب نے کام کیا ہے۔ تو مسائل کے حوالے سے انہوں نے اعتراضات کا جواب دے دیا کہ امام ابوحنیفہ کے ہاں مخالفت حدیث نہیں ہے۔ عمار صاحب کی موجودہ کتاب تو صرف اصولی مباحث پر مشتمل ہے جو اصل کتاب کا دیباچہ ہے۔ اصل کتاب ابھی آرہی ہے ۔ جو شخص بھی اس کتاب کو خالی ذہن ہو کر پڑھے گا، وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ امام ابو حنیفہ ؒ حدیث کی مخالفت کرتے تھے۔
باقی رہے امام صاحب پر شخصی اعتراضات تو اس پر علامہ خطیب بغدادی کی کتاب ’’تاریخ بغداد‘‘ کے متعلقہ حصے کو اردو میں سب سے پہلے مولانا محمد بن ابراہیم میمن جوناگڑھی نے چھاپا۔ اس کے چھپنے کے بعد مولانا حبیب الرحمن شیروانی نے جو برصغیر کے مشہور آدمی ہیں، ’’ امام ابو حنیفہ ؒ اور ان کے ناقدین ‘‘ کے نام سے اس کا جواب لکھا، مگر وہ نامکمل تھا ۔ میں نے عمار صاحب کے چچا مولانا عبد القدوس خان صاحب کی توجہ اس طرف مبذول کروائی تو انہوں نے علامہ زاہد الکوثری کی کتاب ’’تانیب الخطیب‘‘ کا اردو ترجمہ ’ ’ عادلانہ دفاع‘‘ کے نام سے کر دیا۔ یہ دونوں کام اللہ تعالیٰ نے مولانا سرفراز خان صفدر ؒ کے خاندان سے کرائے۔
یونیورسٹی آف گجرات، سیالکوٹ کیمپس میں شعبہ علوم اسلامیہ کے صدر ڈاکٹر شہزاد اقبال شام نے اپنی گفتگو میں کہا کہ :
میں مولانا عمار خان ناصر کو مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ وہ اس چھوٹی سی عمر میں علمی لحاظ سے اتنا آگے جا چکے ہیں کہ جس پر رشک کی بجائے میں حسد بھی کروں تو کوئی حرج نہیں ہو گا ۔ اللہ تعالیٰ ان کے علم میں برکت عطا فرمائیں اور امت مسلمہ کے لئے نافع بنائے۔ آمین۔
امام ابو حنیفہ ؒ کے متعلق یہ مشہور ہو گیا کہ وہ حدیث کے ردو قبول میں اس قدر متشدد تھے کہ چند مخصوص احادیث کے علاوہ وہ کسی حدیث سے استنباط و استنتاج ہی نہیں کرتے تھے۔ میری معلومات کے مطابق یہ قول ابن خلدون کی طرف منسوب ہے۔ یہ قول ایسا چلا کہ اس پر عمارات تعمیر ہونی شروع ہو گئیں، حالانکہ امام ابو حنیفہ ؒ سے مرویات کی کتابیں ایک سے زیادہ موجود ہیں۔ میری معلومات کے مطابق برصغیر میں جو پہلی کتاب شائع ہوئی، وہ ’’ کتاب الآثار ‘‘ کے نام سے ہے۔ یہ حیدر آباد دکن سے تقریباً بیسویں صدی کے پہلے ربع میں کہیں چھپی تھی۔ اس میں امام ابو یوسف ؒ کی وہ روایات ہیں جو انہوں نے امام ابو حنیفہ ؒ سے کی ہیں۔
میرا ذاتی خیال ہے کہ عمار صاحب کی یہ کتاب ایک طبقے کے لیے تو بہت اہمیت رکھتی ہے۔ عمار صاحب کا تعلق ایک علمی خانوادہ سے ہے اور حدیث کے مطابق اولاد صالح اور صدقہ جاریہ کسی بھی خانوادے کا سرمایہ ہوتا ہے۔ یہ دونوں چیزیں اس کتاب میں جمع ہو گئی ہیں ۔ یہ کتاب پورے خانوادے کے لیے صدقہ جاریہ بھی ہے اور اولاد صالح کی ایک دمکتی ہوئی مثال بھی ہے۔ لیکن میری ان سے گزارش ہے کہ ماضی کے ساتھ جڑے رہنا ایک بہت مثالی اور آئیڈیل کام ہے، لیکن وہ عہد حاضر کے مسائل کی طرف نسبتاً زیادہ توجہ کریں تو بہت اچھا ہو ۔ کیونکہ میری رائے میں جو لوگ فقہ اور فقہا کے بارے میں ہر وقت مناظرانہ تکلم کے قائل ہیں، ان کو ان کے حال پر چھوڑ دینا چاہیے۔ یہ ایک ذوقی چیز ہے، اس معاملے میں کوئی بھی کچھ نہیں کر سکتا۔ لیکن کاسموپولیٹن فقہ یا فقہ عولمی جس تسلسل کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے، یہ سب چیزیں اب قصہ پارینہ ہوتی ہوئی نظر آ رہی ہیں۔ اس لیے اس کی طرف توجہ زیادہ ہونی چاہیے۔ ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحبؒ نے اپنی کتاب میں کاسموپولیٹن فقہ کی بات کی ہے۔ ان کے مطابق اب متعین فقہ کی پابندی کا دور قصہ پارینہ ہوتا نظر آ رہا ہے۔ جس تسلسل اور تدریج کے ساتھ اسلامی قانون اس طرف جا رہا ہے، اس میں اب کسی ایک فقہ کے ساتھ امت مسلمہ کے مسائل نہ حل ہو سکتے ہیں اور نہ ہی حل ہوں گے۔
میں عمار صاحب کو مبارکباد پیش کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ ان کی مساعی میں برکت عطا فرمائیں اور مولانا زاہد الراشدی کو صحت کے ساتھ عمردراز دے کیونکہ جو کام وہ کر رہے ہیں، مجھے ان میں ڈاکٹر محمود غازی ؒ کی جھلک نظر آتی ہے۔
الشریعہ اکادمی کے ڈائریکٹر مولانا زاہد الراشدی نے کہا کہ :
اس کتاب کے بارے میں، میں نے دیباچہ میں کچھ باتیں لکھ دی ہیں۔ اس وقت میں سوسائٹی میں علم و فکر اور دانش کے مستقبل کے حوالے سے چند باتیں عرض کروں گا۔ یہ صدی مسلمہ طور پر مذہب کی طرف واپسی کی صدی کہلاتی ہے۔ پچھلی دو صدیاں مذہب سے انحراف کی صدیاں تھیں، اب دنیا آہستہ آہستہ مذہب کی طرف واپس آ رہی ہے۔ ان حالات میں، میں یہ چاہتا ہوں کہ ہمارے اہل علم بالخصوص نوجوان فضلاء جن کا کتاب سے، علم سے اور ماضی سے گہرا تعلق ہے، وہ مذہب کی طرف واپسی کے صحیح راستوں کی نشاندہی کریں۔ اس موڑ پر اگر امت کسی غلط راستے کی طرف مڑ گئی تو اس کی ذمہ داری ہم پر بھی ہو گی اور بالخصوص یہ نوجوان فضلاء اس کے ذمہ دار ہوں گے ۔ میں تمام فقہوں کا احترام کرتا ہوں، سب سے استفادے کا قائل ہوں، اگر کسی دوسری فقہ سے استفادے کی ضرورت ہو تو میں اس کا منکر نہیں ہوں، لیکن میرا وجدان شرح صدر کے ساتھ یہ کہتا ہے کہ آنے والے دور میں فقہ حنفی میں یہ صلاحیت زیادہ ہے کہ وہ قیادت کرے۔ باقی فقہیں بھی ساتھ ہوں، لیکن فقہ حنفی کے اسلوب اور بنیادی اساس میں زیادہ صلاحیت ہے کہ وہ مستقبل کی فقہی و علمی اور فکری ضروریات کو پورا کر سکے اور مسائل کو حل کر سکے، اس لیے اس پر کام کی زیادہ ضرورت ہے۔
مغرب میں فکری اعتبار سے جن شخصیات پر سب سے زیادہ کام ہو رہا ہے، ان میں ایک شاہ ولی اللہ ؒ ہیں۔ اس کی وجہ ان کی فکر میں حدیث، فقہ، تفقہ اور سلوک کا بہترین امتزاج ہے۔ اسی وجہ سے شاہ صاحب ؒ مغرب میں توجہات کا ایک بڑا موضوع ہیں۔ ان کے ساتھ اب دوسری شخصیت امام ابو منصور ماتریدیؒ کی شامل ہو رہی ہے۔ پچھلے دنوں امریکہ کی ایک یونیورسٹی سے ایک پروفیسر صاحب آئے تھے جو امام ابو منصور ماتریدی ؒ کی فکر پر تحقیق کر رہے ہیں۔ ان کے کچھ سوالات تھے جن کے بارے میں ایک طویل نشست میں ان سے گفتگو ہوئی۔ انہوں نے بتایا کہ مغرب میں فکر وفلسفہ کے حلقوں میں اس پر غور ہو رہا ہے کہ اخلاقیات کی ٹھوس بنیادیں مذہب کے علاوہ کسی اور جگہ سے نہیں مل سکتیں اور اس سلسلے میں عقل اور وحی کے مابین توازن کے حوالے سے ابومنصور ماتریدیؒ کے افکار کی طرف ہماری توجہ بڑھ رہی ہے۔ اس لیے میرے خیال میں ایسی شخصیات اور ان کی فکر پر اس حوالے سے کام کرنے کی زیادہ ضرورت ہے کہ عقل و وحی کے درمیان توازن کیسے قائم ہو، مسائل کے حوالے سے بھی اور اصول کے حوالے سے بھی ۔میں اس کتاب کو بھی اسی کوشش کا حصہ سمجھتا ہوں اور یہ اس ضمن کی ایک اچھی کوشش ہے۔
الشریعہ اکادمی کو بنے تقریباً تیس سال ہو گئے ہیں۔ میرے ذہن میں اس کے قیام سے بھی پہلے سے ایسے کام کا خاکہ تھا کہ اس رخ پر کام ہونا چاہیے۔ آج کی ضروریات کا احسا س ہونا چاہیے، مستقبل کے امکانات کا جائزہ لینا چاہیے اور ماضی کو سامنے رکھ کر اس کی بنیاد پر آج کی ضروریات اور مستقبل کے امکانات پر کام ہونا چاہیے۔ میں اس کتاب کو بھی اسی کوشش کا ایک حصہ سمجھتا ہوں۔ دعا فرمائیں کہ اللہ رب العز ت نظر بد سے بچائیں اور خلوص اور ذوق میں اضافہ فرمائیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے والد گرامی اور چچا محترم کے درجات بلند فرمائیں۔ یہ انھی کا فیض ہے ، وگرنہ سچی بات ہے کہ ہم تو کچھ بھی نہیں، صرف پائپ لائن ہیں۔ بس یہ دعا ہے کہ ہم پائپ لائن کے طور پر اپنے بزرگوں کے فیض کو آگے پہنچا سکیں اور دین کی، ملک کی اور ملت کی کوئی مثبت خدمت کر سکیں ۔جزاکم اللہ تعالیٰ
تقریب کے آخر میں کتاب کے مصنف، مولانا محمد عمار خان ناصر نے اپنی مختصر گفتگو میں دو تین باتیں کہیں:
ایک تو یہ کہ اس کتاب کی صورت میں حنفی فکر پر کام کرنے کی ایک جہت کو سامنے لایا گیا ہے۔ یہ اس کی ایک ابتدائی اور چھوٹی سی کوشش ہے۔ اس کے اور بھی بہت سے پہلو ہیں جن پر کام کی ضرورت ہے۔ اسی طرح جن پہلوؤں پر بات ہوئی ہے، ان پر مزید وسعت کے ساتھ تحقیق کی ضرورت ہے۔ ان شاء اللہ مجھے بھی توفیق ہوئی تو مزید کچھ پہلوؤں پر کام کروں گا اور امید ہے کہ دوسرے اہل علم بھی متوجہ ہوں گے، کیونکہ اس پر کام کے لیے بہت گنجائش ہے۔
دوسری یہ کہ یہاں اس موضوع کے مختلف پہلوؤں کا ذکر ہوا۔ میرے لیے جو چیز محرک ہے، جس کی وجہ سے میں اب تک اور آئندہ بھی اس میں دلچسپی محسوس کرتا رہوں گا، وہ ایک تو یہ ہے کہ ہماری علمی روایت کا ایک حصہ جس سے ہم خود وابستہ ہیں، جس سے ہم نے دین سیکھا ہے، اس کا علمی تعارف ابھی بہت سے پہلوؤں سے توضیح کا متقاضی ہے۔ ہمارے اس تعلق کا تقاضا ہے کہ ہم ان پہلوؤں کو واضح کریں اور خاص طور پر اس ضمن میں در آنے والے منفی تصورات و تاثرات کا ازالہ کریں۔ ڈاکٹر اکرم ورک صاحب نے بڑا اچھا پہلو نمایاں کیا کہ ہمارے ہاں بعض گروہوں کی طرف سے امام ابو حنیفہ ؒ کو انکار حدیث کی روایت کا ایک حصہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ تاثر نہ صرف پرویز صاحب جیسے مفکرین کے ہاں ہے بلکہ آپ کو حیرت ہو گی کہ علامہ اقبال نے بھی اپنے خطبہ اجتہاد میں امام صاحب ؒ کی فکر کا تعارف اسی تناظر میں کروایا ہے کہ چونکہ ذخیرہ احادیث غیر مستند ہے، اسی لیے امام ابو حنیفہ ؒ بھی احادیث کو اپنے اجتہاد میں اہمیت نہیں دیا کرتے تھے۔ ایک تو اس تاثر کا ازالہ اور حنفی فقہ کے صحیح موقف کی وضاحت ضروری ہے۔
دو چیزیں اور ہیں جو موجودہ تناظر میں اس کام کی اہمیت کو واضح کرتی ہیں۔ ایک تو وہی جس کی ابھی بات ہوئی یعنی فقہ عولمی اور بدلتے ہوئے زمانے میں اجتہادی روایت کا احیاء۔ اس حوالے سے حنفی منہج فکر کیا ہے؟ اس کو اصولی زاویے واضح کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے ہاں ایک تاثر سا بن گیا ہے کہ فقہ حنفی کچھ خاص امتیازی مسائل کا نام ہے اور اس تاثر میں ہم بعض اسباب کے تحت بہت زیادہ گرفتار ہو گئے ہیں۔ تو یہ واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ مسائل اصل میں نتائج ہیں ایک خاص اجتہادی طرز فکر کے۔ اصل چیز سوچنے کا وہ انداز اور اجتہاد کے وہ اصول ہیں اور کسی بھی مسئلے کو شریعت کے پورے نظام کے اندر رکھ کر سمجھنے کا طریقہ ہے جو حنفی فقہا نے اختیار کیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر احناف کی علمی روایت جزوی بحثوں سے اوپر اٹھ کر اس اصولی جگہ سے خود کو نئے سرے سے دریافت کر لے تو فقہ عولمی یا کاسموپولیٹن فقہ کی تشکیل میں اس کا کردار زیادہ مفید اور بامعنی بن سکتا ہے۔
تیسری چیز جو میرے نزدیک بہت اہم ہے، وہ یہ ہے کہ اس وقت ہمیں مذہبی حلقوں میں، ان کی سوچ اور فکر میں تشدد اور انتہا پسندی کا جو ایک عنصر بڑھتا ہوا نظر آتا ہے، اس کا ازالہ بھی اسی میں ہے کہ ہم دین کو، شریعت کو اور شریعت کے احکام کو سمجھنے کا جو صحیح اور جامع زاویہ نگاہ ہے، اس کو واضح کریں ۔ ہمیں احناف کے منہج میں یہ دیکھنا چاہیے کہ امام صاحبؒ اور دیگر ائمہ احناف کیسے کسی آیت کو یا کسی حدیث کو شریعت کے پورے نظام کے اندر رکھ کر اور باقی سارے نصوص کے ساتھ مربوط کر کے سمجھتے تھے۔ یہ چیز اس فکری انتہا پسندی کا تریاق ثابت ہوگی جس میں ایک آیت یا حدیث کو لے کر اس کی بنیاد پر پوری عمارت تعمیر کر لی جاتی ہے اور بہت سے بڑے بڑے قدم بھی اٹھا لیے جاتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ میں نے جو چھوٹی سی کاوش کی ہے، وہ مفید ثابت ہو اور اس نہج پر کام کو مزید آگے بڑھایا جا سکے اور ہمارا یہ کام دین اور اہل دین کے لیے فائدہ مند ثابت ہو۔