جناب سرور کائنات حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر اسے اپنی امت کے ساتھ اجتماعی طور پر الوداعی ملاقات قرار دیتے ہوئے مختلف خطبات میں بہت سی ہدایات دی تھیں اور ان ارشادات وہدایات کے بارے میں یہ تلقین فرمائی تھی کہ:
فلیبلغ الشاھد الغائب فرب مبلغ اوعی لہ من سامع۔
’’جو موجود ہیں، وہ ان باتوں کو ان لوگوں تک پہنچا دیں جو موجود نہیں ہیں۔ بسا اوقات جس کو بات پہنچائی جائے، وہ سننے اور پہنچانے والے سے زیادہ اس بات کی حفاظت کرتا ہے۔‘‘
اس حفاظت کرنے میں یاد رکھنا، سمجھنا، اسے اہتمام کے ساتھ آگے پہنچانا اور صحیح طور پر استعمال میں لانا بھی شامل ہے۔ چنانچہ جب تابعین کرام کے دور میں حدیث وسنت کی حفاظت وروایت اور تفقہ واستنباط کا ایک وسیع سلسلہ سامنے آیا تو حضرت محمد بن سیرین رحمہ اللہ تعالیٰ اس کا مشاہدہ وتجربہ کرتے ہوئے بے ساختہ پکار اٹھے: ’’صدق محمد صلی اللہ علیہ وسلم‘‘، جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فرمایا تھا، وہ آج ایک زندہ سچائی کی صورت میں سب کے سامنے جلوہ گر ہے۔
حدیث وسنت کی روایت اور حفاظت وترویج کا محاذ محدثین کرام نے سنبھالا اور درایت وتفقہ کا پرچم فقہائے عظام نے بلند کر دیا جبکہ ان دونوں کی جڑیں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ان علمی کاوشوں میں پیوست تھیں جن کی نمائندگی کرنے والوں میں حضر ت عمرؓ، حضرت علیؓ، حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت عبد اللہ بن عمرؓ، حضرت ابو ہریرہؓ، حضرت انس بن مالکؓ، حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاصؓ، حضرت ام المومنین عائشہؓ اور ام المومنین حضرت ام سلمہ نمایاں ہیں۔
محدثین اور فقہا کی یہ محنت وکاوش آگے بڑھی تو دائرۂ کار الگ الگ ہونے کی وجہ سے ذوق اور تفہیم واظہار کا امتیاز بھی واضح ہونے لگا اور رفتہ رفتہ یہ دونوں گروہ مستقل طبقوں کی صورت میں نمایاں ہوتے گئے۔ انسانی ذہن وفہم اور استعداد وصلاحیت کا دائرہ اور سطح کبھی ایک نہیں رہے۔ اسی تنوع واختلاف کے باعث آرا وافکار کا فرق وامتیاز ہمیشہ سے انسانی سوسائٹی میں قائم ہے جو قیامت تک موجود رہے گا اور اگر یہ اپنی حدود میں رہے تو یہی انسانی سوسائٹی کا حسن وامتیاز ہے جو اسے باقی تمام مخلوقات سے ممتاز کرتا ہے۔
حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ میں ارتفاقات یعنی انسانی سوسائٹی کی معاشرتی بنیادوں اور تقاضوں پر بحث کرتے ہوئے ایک جگہ فرماتے ہیں کہ معاشرت او رتمدن کی بنیادی ضروریات پر تو تمام اقوام متفق ہیں، مگر ان کا اظہار ہر طبقہ اپنے اپنے انداز میں کرتا ہے۔ شاہ صاحب کا ارشاد ہے:
والناس بعدھا فی تمھید قواعد الآداب مختلفون فالطبیعی یمھدھا علی استحسانات الطب والمنجم علی خواص النجوم والالھی علی الاحسان کما تجد فی کتبھم مفصلا۔
’’اصولوں پر اتفاق کے بعد لوگ آداب وضوابط کی تشکیل وتعبیر میں مختلف ہو جاتے ہیں۔ طبیب انھیں طب کی اصطلاحات اور فوائد کی زبان میں بیان کرے گا، نجومی انھی باتوں کا ستاروں کے خواص کے پس منظر میں ذکر کرتا ہے جبکہ صوفی نے اس کی وضاحت سلوک واحسان کے اسلوب میں کرنا ہوتی ہے، جیسا کہ تمھیں ان کی کتابوں میں اس کی تفصیل ملے گی۔‘‘
محدثین کرام روایت کی نمائندگی فرماتے ہیں۔ ظاہر بات ہے کہ ان کے ہاں ترجیح کی بنیاد روایت کے اصول اور تقاضے ہوں گے، جبکہ فقہائے کرام درایت واستنباط کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں تو وہ تفقہ واستنباط کی ضروریات کو ترجیح دیں گے، اس لیے یہاں یہ فرق صرف ذوق واسلوب کا نہیں رہتا، بلکہ اپنے اپنے کام کی ضروریات بھی اس کا حصہ بن جاتی ہیں اور یہی بات امت میں محدثین کرام اور فقہائے عظام کے دو مستقل طبقات کے ظہور وارتقا کا باعث بنی ہے۔
قرون اولیٰ میں بہت سے محدثین کرام نے حدیث وسنت کی روایت، جمع، حفاظت، رواۃ کی نقد وجرح اور سند ومتن کی درجہ بندی کے شعبہ میں خدمات سرانجام دیں جن میں سے صحاح ستہ کے مصنفین اور امام مالک واحمد رحمہم اللہ تعالیٰ نمایاں ہو کر سامنے آئے اور تمام محدثین کے سرخیل قرار پائے۔ بالخصوص امام بخاریؒ کو سب محدثین کے سردار کے لقب سے نوازا گیا۔ اسی طرح بیسیوں فقہائے کرام نے اپنے اپنے استنباطات واستدلالات کو جمع کیا، اصول وقواعد وضع کیے، ان کے مطابق مسائل واحکام کا استنباط کیا اور اپنے اپنے علمی حلقے قائم کیے جن میں سے ائمہ اربعہ نے فقہائے کرام کی سیادت وقیادت کا اعزاز حاصل کیا اور امام اعظم ابو حنیفہؒ کی امامت عظمیٰ کی فوقیت کو سب نے تسلیم کیا۔
اہل سنت کے چاروں ائمہ حضرت امام ابو حنیفہؒ ، حضرت امام مالکؒ ، حضرت امام شافعیؒ اور حضرت امام احمد بن حنبلؒ بلکہ حضرت امام داؤد ظاہریؒ کی فقہ ودرایت سے بھی امت مسلمہ نے ہر دور میں استفادہ کیا ہے، ان کے مقلدین ومتبعین لاکھوں کی تعداد میں ہمیشہ موجود رہے ہیں اور آج بھی کروڑوں کی تعداد میں موجود ہیں، مگر ان میں سب سے زیادہ امتیاز فقہ حنفی کو حاصل ہوا جس کا اعتراف واحترام اہل علم وفضل نے ہمیشہ کیا ہے۔ ہمارے خیال میں اس امتیاز وتفوق کے اسباب یہ ہیں:
۔ حنفی فقہ شخصی نہیں، شورائی ہے۔ امام اعظم ابو حنیفہؒ اور ان کے تلامذہ اپنی اپنی آرا علمی مجلس میں پیش کرتے تھے۔ ان پر بحث ومباحثہ ہوتا تھا۔ جس بات پر اتفاق ہوتا تھا، وہ متفقہ موقف کی صورت میں درج ہوتی تھی۔ مختلف فیہ بات کو اختلاف کے درجہ میں رکھا جاتا تھا۔ کسی پر جبر نہیں ہوتا تھا۔ اگر مجلس کے کسی شریک کو اجتماعی رائے سے اتفاق نہیں ہوتا تھا تو اس کی رائے الگ درج کی جاتی تھی۔
شورائیت اور اجتماعیت کی یہ روایت فقہ حنفی کی تشکیل وتدوین کے بعد اس پر بوقت ضرورت نظر ثانی کے موقع پر بھی قائم رہی، چنانچہ مغل دور میں فقہ حنفی کی از سرنو ترتیب وتشریح کی ضرورت پیش آئی تو سلطان اورنگ زیب عالمگیرؒ کی سربراہی میں یہ فریضہ سیکڑوں علماء کرام پر مشتمل کونسل نے تفصیلی بحث ومباحثہ کے ذریعے سرانجام دیا جبکہ خلافت عثمانیہ کے دور میں فقہ حنفی کی بنیاد پر حالات زمانہ کے مطابق نئی قانون سازی کا مرحلہ پیش آیا تو ’’مجلۃ الاحکام العدلیۃ‘‘ کی ترتیب وتدوین فقہا وعلما کی ایک مجلس نے مشاورت ومباحثہ کی صورت میں انجام دی۔
۔ فقہ حنفی میں روایت ودرایت کے درمیان فطری توازن کا پوری طرح لحاظ رکھا گیا ہے اور عقل ودرایت کو نص وروایت پر فوقیت دینے کے بجائے اس کے تابع کیا گیا ہے۔ فقہ حنفی میں نہ تو عقل ودرایت کی ضرورت وافادیت سے انکار کیا گیا ہے، نہ اسے نص وروایت پر ترجیح دی گئی ہے اور نہ ہی نص وروایت کے فہم واستنباط کو عقل ودرایت کی خدمت ومعاونت سے محروم کیا گیا ہے۔ امام ابوحنیفہؒ فرماتے ہیں کہ وہ پہلے قرآن کریم سے استنباط کرتے ہیں، پھر حدیث وسنت سے استفادہ کرتے ہیں، اس کے بعد صحابہ کرام سے رجوع کرتے ہیں اور کسی ایک صحابی کا قول بھی مل جائے تو اسے ترجیح دیتے ہیں، حتیٰ کہ احناف کے ہاں ضعیف حدیث کو بھی قیاس پر ترجیح دی جاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ احناف عقل ودرایت اور قیاس پر صرف نص کو ہی مقدم نہیں سمجھتے بلکہ نص کے آخری امکان تک کا لحاظ رکھتے ہیں۔
۔ فقہ حنفی میں عقل ودرایت کا اس کے دائرہ میں بھرپور اور فطری استعمال کیا گیا ہے اور اس سے استفادہ میں کوئی کوتاہی روا نہیں رکھی گئی، البتہ احناف کے ہاں نظری اور فلسفیانہ عقلیت کے بجائے عملی اور معاشرتی عقل ودرایت کو احکام وقوانین کی بنیاد بنایا گیا ہے، چنانچہ عرف وتعامل کا حنفی فقہ میں اس کی جائز حدود کے اندر پورا احترام کیا گیا ہے اور معاشرتی عقل سے بہت سے احکام ومسائل میں استنباط کیا گیا ہے۔
۔ فقہ حنفی کو طویل عرصہ تک رائج الوقت قانون ونظام کی حیثیت حاصل رہی ہے۔ خلافت عباسیہ، خلافت عثمانیہ اور مغل سلطنت میں صدیوں تک عدالتی قانون کے طور پر فقہ حنفی کی عمل داری رہی ہے جس کی وجہ سے تجربات ومشاہدات کا جو ذخیرہ اس کے پاس ہے اور انسانی معاشرہ کی مشکلات کو سمجھنے اور حل کرنے کی جو صلاحیت وتجربہ اس کے دامن میں ہے، وہ (ایک حد تک فقہ مالکی کے سوا) کسی دوسری فقہ کو میسر نہیں آیا۔
فقہ حنفی کے انھی امتیازات وخصوصیات کی وجہ سے بجا طور پر یہ کہا جا رہا ہے کہ عالم اسلام میں عدالتی و انتظامی طور پر شرعی احکام وقوانین کے نفاذ کے جو امکانات دن بدن واضح ہوتے جا رہے ہیں، ان میں فقہ حنفی ہی نفاذ اسلام اور تنفیذ شریعت کی علمی قیادت کی پوزیشن میں ہے۔ اس لیے یہ بات پہلے سے زیادہ ضروری ہو گئی ہے کہ فقہ حنفی کو ماضی کے معاملات وتجربات کے ساتھ ساتھ مستقبل کے امکانات وضروریات کے حوالے سے بھی تحقیق ومطالعہ کا موضوع بنایا جائے اور انسانی سوسائٹی کی ضروریات ومشکلات کے دائرہ میں فقہ حنفی کی افادیت واہمیت کو علمی اسلوب اور فقہی انداز میں واضح کیا جائے۔
فقہ حنفی کو اس امتیاز وتفوق کے پس منظر میں فطری طور پر کچھ الزامات واعتراضات کا بھی ہر دور میں سامنا رہا ہے جن میں بعض کا تعلق دائرۂ کار اور ذوق واسلوب کے فرق وتنوع سے ہے، بعض اعتراضات نے غلط فہمی کے باعث جنم لیا ہے، کچھ الزامات معاصرت کی پیداوار ہیں اور ان میں ایسے اعتراضات بھی موجود ہیں جو ’’حَسَداً مِّنْ عِنْدِ اَنْفُسِھِمْ مِّنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَھُمُ الْحَقُّ‘‘ کا مصداق قرار دیے جا سکتے ہیں۔ ان الزامات واعتراضات کا دفاع مختلف ادوارمیں اہل علم نے کیا ہے اور صرف احناف نے نہیں، بلکہ منصف مزاج غیر حنفی علما وافاضل اس دفاع میں پیش پیش رہے ہیں جو یقیناًامام اعظم کے خلوص ودیانت اور علم وفضل کی ’’خدائی تائید‘‘ ہے۔ فالحمد للہ علیٰ ذالک۔
ان اعتراضات میں سے ایک یہ بھی ہے جو امام اعظم پر قلت روایت حدیث اور اپنے قیاسات میں احادیث کی مبینہ مخالفت کے عنوان سے مسلسل لگایا اور دہرایا جا رہا ہے، حالانکہ سادہ سی بات ہے کہ اگر امام صاحب پر اعتراض یہ ہے کہ انھوں نے سیکڑوں مسائل میں حدیث معلوم ہونے کے باوجود اس کی مخالفت کی ہے تو ’’قلت معرفت حدیث‘‘ کا الزام محل نظر ہے اور اگر احادیث معلوم نہ ہونے کی وجہ سے قیاس پر اعتراض کیا جا رہا ہے تو یہ ’’مخالفت حدیث‘‘ کا اعتراض نہیں بنتا، لیکن اس کے باوجود اس الزام کا مسلسل اعادہ کیا جا رہا ہے اور طعن وتشنیع کا بازار گرم رکھنے میں ہی تسکین محسوس کی جا رہی ہے۔
اس تناظر میں کچھ عرصہ قبل عزیزم حافظ محمد عمار خان ناصر حفظہ اللہ تعالیٰ نے ’’امام اعظم ابو حنیفہ اور عمل بالحدیث‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب لکھی جو ۱۹۹۶ء میں شعبہ نشر واشاعت مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کی طرف سے شائع ہوئی اور اس پر بہت سے اہل علم، بالخصوص اس کے دادا محترم اور استاذ گرامی شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ تعالیٰ نے مسرت کا اظہار کیا اور اسے انعام سے بھی نوازا۔ مجھے بھی اس پر بے حد خوشی ہوئی، لیکن اس کے ساتھ ایک ضرورت کا احساس پیدا ہوا کہ ہمارے ہاں عام طور پر الزامات کا جواب تو دے دیا جاتا ہے، مگر الزامات واعتراضات کے پس منظر اور اسباب کی وضاحت نہیں کی جاتی جس سے عام قاری تو کسی حد تک مطمئن ہو جاتا ہے، مگر مطالعہ وتحقیق کے دائرہ کے لوگ پوری طرح تشفی حاصل نہیں کر پاتے اور کچھ سوالات ان کے ذہنوں میں ادھورے رہ جاتے ہیں۔ اس لیے میرا خیال ہوا کہ اس کتاب کی دوسری بار اشاعت کے موقع پر اس حوالے سے اس پر ایک مبسوط مقدمہ لکھا جائے جس میں اس ضرورت کو کسی حد تک پورا کرنے کی کوشش کی جائے۔
’’امام اعظم ابوحنیفہ اور عمل بالحدیث‘‘ بنیادی طور پر دوسری صدی ہجری کے عظیم محدث حضرت امام ابن ابی شیبہؒ کی طرف سے ان کی معرکۃ الآرا تصنیف ’’مصنف ابن ابی شیبہ‘‘ میں حضرت امام ابوحنیفہؒ پر اس حوالے سے کیے جانے والے اعتراضات کا ناقدانہ جائزہ ہے۔ یہ جائزہ اس سے قبل بھی بہت سے اہل علم کی طرف سے سامنے آ چکا ہے، مگر عزیزم عمار نے اسے اردو میں ایک نئے اسلوب کے ساتھ مرتب کر کے پیش کیا اور اسی وجہ سے میرے دل میں یہ داعیہ پیدا ہوا کہ اعتراضات کے جوابات کے ساتھ ساتھ اعتراضات کے پس منظر اور اس دور کے علمی ماحول کی معروضی صورت حال کا تذکرہ بھی مناسب انداز میں ضروری ہے۔ میرے دل میں یہ خواہش تھی کہ موقع آنے پر یہ خدمت میں سر انجام دوں گا، مگر متنوع مصروفیات اور مختلف اشغال کی گہماگہمی میرے لیے بہت سے ضروری کاموں میں ایک ناقابل عبور رکاوٹ سی بن کر رہ گئی ہے اور لگتا ہے کہ ان کی حسرت میرے ساتھ ہی دنیا سے کوچ کر جائے گی۔
اس دوران میں عزیزم عمار نے بتایا کہ اس نے احادیث سے فقہائے احناف کے استنباط کے منہج کے موضوع پر ایک کتاب مرتب کی ہے جو ’’فقہائے احناف اور فہم حدیث۔ اصولی مباحث‘‘ کے عنوان سے شائع ہو رہی ہے تو میں نے اس کا مسودہ ایک نظر دیکھا اور محسوس کیا کہ جو کچھ میں چاہ رہا تھا، وہ کافی حد تک اس میں شامل ہے۔ یہ اپنے موضوع پر ایک مستقل کتاب ہے جو اپنے موضوع کے بہت سے ضروری پہلوؤں کا احاطہ کرتی ہے اور اس میں میرے لیے زیادہ خوشی کا پہلو یہ ہے کہ مصنف کے دادا محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کے علمی وتحقیقی ذوق کی جھلک اس میں کسی حد تک دکھائی دیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نظر بد سے بچائیں اور اس علمی کاوش کو زیادہ سے زیادہ لوگوں کے لیے نافع بنائیں۔ آمین یا رب العالمین۔