(یکم ربیع الاول کو الشریعہ اکادمی، کوروٹانہ، گوجرانوالہ میں ہفتہ وار نقشبندی محفل سے خطاب)
بعد الحمد والصلوۃ۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت ہمارے ایمان کا تقاضہ ہے، اس کے بغیر ایمان مکمل نہیں ہوتا کیونکہ ایمان کا معیار ہی حبِ رسول ؐہے۔ جناب نبی کریمؐ کے ساتھ جیسی محبت ہوگی ویسا ہی ایمان ہو گا۔ محبت ایمان کی علامت ہے اور تذکرہ محبت کا تقاضا ہے۔ ’’من احب شیئا اکثر ذکرہ‘‘ فطری بات ہے کہ جس کو جس سے محبت زیادہ ہوتی ہے اس کا تذکرہ بھی زیادہ کرتا ہے۔ چنانچہ دنیا بھر میں پورا سال کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جس میں لاکھوں کروڑوں مرتبہ حضور نبی کریمؐ کا ذکر مبارک نہ ہو رہا ہو۔ ماہِ ربیع الاول میں آپؐ کا تذکرہ باقی دنوں سے زیادہ ہوتا ہے لیکن پورا سال آپ کا تذکرہ ہوتا رہتا ہے، یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت کی علامت ہے۔ تاہم تذکرے کا اپنا اپنا انداز ہوتا ہے کہ جیسے محبت کے ذوق مختلف ہیں اور تذکرے کے بھی مختلف ذوق ہوتے ہیں، ہر کوئی اپنے طریقے سے تذکرہ اور محبت کا اظہار کرتا ہے۔
حضور نبی کریم ؐ کے ساتھ سب سے زیادہ محبت حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو تھی۔ امت میں کوئی شخص صحابہ کرامؓ سے بڑھ کر حضورؐ کے ساتھ محبت کا سوچ بھی نہیں سکتا، دعویٰ تو بعد کی بات ہے۔ لیکن حضرات صحابہ کرامؓ کے آپؐ کے ساتھ محبت کے ذوق اور انداز مختلف تھے۔ میں چند ایک کا ذکر کرنا چاہتا ہوں:
حضرت صدیق اکبرؓ اپنا ذوق ذکر فرماتے ہیں ’’حبب الی من الدنیا ثلاث‘‘ کہ مجھے دنیا میں سب سے زیادہ تین چیزیں پسند ہیں۔ (۱) ’’النظر الی وجہ رسول اللہ‘‘۔ پہلی چیز یہ پسند ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ ہو اور میری آنکھیں ہوں، میں حضور نبی کریمؐ کو نظر جما کر دیکھتا رہوں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حضرت صدیق اکبرؓ کو اس کا موقع بھی زیادہ دیا۔ (۲) حضرت صدیق اکبرؓ نے فرمایا مجھے دوسری چیز یہ پسند ہے ’’انفاق مالی علی رسول اللہ‘‘ کہ کماؤں میں اور خرچ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کریں۔ میری کمائی حضور نبی کریمؐ پر خرچ ہو، یہ میری تمنا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالی نے اس کا بھی حضرت صدیق اکبرؓ کو سب سے زیادہ موقع دیا۔ (۳) ’’ان تکون ابنتی تحت رسول اللہ‘‘ حضرت صدیق اکبرؓ نے تیسری خواہش یہ بیان کی کہ مجھے یہ چیز پسند ہے کہ بیٹی میری ہو اور حضور نبی کریمؐ کی زوجہ ہو۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس کا موقع بھی دیا۔ حضرت صدیق اکبرؓ نے فرمایا مجھے دنیا میں سے تین چیزیں پسند ہیں: حضور نبی کریم ؐ چہرے کو تکتے رہنا، اپنا مال حضورؐ پر خرچ کرنا ، اور میری بیٹی کا زوجہ رسول ہونا۔
دوسری طرف حضرت عمر و بن العاصؓ جو کہ اکابر صحابہؓ میں سے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ان سے کسی نے پوچھا کہ حضور اکرمؐ کے چہرہ انور کی کیفیت بیان فرمائیں کہ آپؐ کا چہرہ کیسا تھا؟ حضرت عمرو بن العاص ؓنے فرمایا کہ یہ میرے بس کی بات نہیں ہے کیونکہ کبھی مجھے آنکھ بھر کر حضورؐ کے چہرہ انور کو دیکھنے کا حوصلہ ہی نہیں ہوا۔ جب میں نبی اکرمؐ کا دشمن تھا تو دیکھنے کو جی نہیں چاہتا تھا، اور جب آپ کے قدموں میں آیا تو آپؐ کے چہرے کو دیکھنے کا حوصلہ نہیں پڑتا تھا۔ یہ بھی محبت کا انداز ہے کہ کبھی آنکھ اٹھا کر غور سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چہرے کو نہیں دیکھا، کبھی اس کا حوصلہ ہی نہیں ہوا، ایمان اور محبت کا اتنا رعب تھا۔ یہ بھی محبت کا ایک ذوق ہے۔ حضور نبی کریمؐ کے چہرے کو دیکھتے رہنا یہ بھی محبت کا انداز ہے، اور نہ دیکھ سکنا بھی محبت ہی کا اظہار ہے۔
محبت رسولؐ کا ایک اور انداز ذکر کیا جاتا ہے۔ ایک انصاری صحابی جو کہ یہودیوں کے محلے میں رہتے تھے، ایک دفعہ سخت بیمار ہو گئے، انہوں نے سمجھا کہ میں اسی مرض میں انتقال کر جاؤں گا تو گھر والوں کو وصیت کی کہ اگر رات کو میرا جنازہ پڑھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو میرے جنازے کی اطلاع نہ کرنا۔ ایک مسلمان یہ کہہ رہا ہے کہ حضورؐ کو میرے جنازے کا نہ بتانا۔ اس پر کتنی باتیں ہوئی ہوں گی اور کیا کچھ نہیں کہا گیا ہو گا۔ چنانچہ ان کا رات کو جنازہ ہو ا اور آپؐ کو اطلاع نہیں دی گئی۔ اگلے دن گھر والوں نے بتایا کہ انہوں نے وصیت کی تھی کہ اگر رات کو میرا جنازہ ہوا تو حضور ؐکو نہ بتانا کیونکہ دشمنوں کا محلہ ہے،ایسا نہ ہو کہ آپؐ تشریف لائیں اور آپؐ کو کوئی تکلیف پہنچ جائے۔ یہ بھی محبت کا انداز ہے۔ میرا جنازہ رسول اکرمؐ پڑھائیں، یہ بھی محبت ہے۔ اور میرے جنازے کی اطلاع رسول اکرمؐ کو نہ کرنا کہ میری وجہ سے انہیں کوئی تکلیف نہ پہنچ جائے، یہ بھی محبت ہے۔
حضرت حمزہؓ کے قاتل حضرت وحشی بن حربؓ فتح مکہ کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ! مجھے پہچانا ہے؟ حضورؐ نے فرمایا، ہاں پہچان لیا ہے۔ انہوں نے عرض کیا کہ کیا میرا ایمان قبول ہے؟ آپؐ نے فرمایا کہ ہاں قبول ہے، ایمان لانے کی وجہ سے پچھلے سب گناہ معاف ہو جاتے ہیں، یہ وعدہ ہے۔ چنانچہ وہ ایمان لے آئے ، لیکن حضرت وحشیؓ سے حضور نبی کریمؐ نے فرمایا کہ وحشی! میں تجھے دیکھوں گا تو اپنے چچا حضرت حمزہؓ کی کٹی پھٹی لاش یاد آئے گی، سینہ چاک، کلیجہ نکالا ہوا۔ اس پر حضرت وحشیؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ! آج کے بعد آپ مجھے نہیں دیکھیں گے۔ چنانچہ حضرت وحشی بن حرب ؓنے مکہ مکرمہ چھوڑا اور شام چلے گئے کہ مجھے دیکھنے سے حضور نبی کریمؐ کو تکلیف کا ایک موقع یاد آتا ہے۔ یہ بھی محبت کا ایک انداز ہے۔
شمائل ترمذی کی روایت ہے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لاتے تھے تو ہمارا بہت جی چاہتا تھا کہ آپ کے ادب و احترام میں کھڑے ہوں۔ ادب کا تقاضا ہوتا ہے کہ بڑوں کے آنے پر احترام میں کھڑا ہوا جائے۔ جناب نبی اکرمؐ نے بھی فرمایا ہے کہ کوئی بزرگ آ جائے تو اس کے اکرام میں کھڑا ہوا کرو۔ لیکن آپؐ خود اپنے لیے یہ پسند نہیں فرماتے تھے۔ چنانچہ حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ جب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لاتے تو ہمارا جی چاہتا تھا کہ ہم آپ کے احترام کھڑے ہوں لیکن ہم کھڑے نہیں ہوتے تھے ’’لمکان کراہتہ‘‘ اس لیے کہ آپؐ کو یہ پسند نہیں تھا۔ یہ بھی محبت کا ایک انداز ہے۔
میں نے گزارش کی ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت ایمان کی بنیاد اور علامت ہے جبکہ آپؐ کا تذکرہ آپؐ کے ساتھ محبت کا تقاضا ہے۔ مگر محبت کا اپنا اپنا ذوق ہے اور محبت کے اظہار کے طریقے مختلف ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی حبِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی نہ کوئی طریقہ اور ذوق نصیب فرما دیں، آمین یا رب العالمین۔