سورہ مائدہ کی آیت ۱۹ میں اہل کتاب سے خطاب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ:
یَـٰأَهلَ ٱلكِتَـٰبِ قَد جَاءَكُم رَسُولُنَا یُبَیِّنُ لَكُم عَلَىٰ فَترَة مِّنَ ٱلرُّسُلِ أَن تَقُولُوا مَا جَاءَنَا مِن بَشِیر وَلَا نَذِیر فَقَد جَاءَكُم بَشِیر وَنَذِیر وَٱللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَیء قَدِیر (المائدہ، آیت ۱۹)
’’اے اہل کتاب، تحقیق تمھارے پاس ہمارا رسول آیا جو تمھارے سامنے حق کو واضح کرتا ہے، رسولوں کے آنے میں ایک انقطاع (یا ایک طویل وقفے) کے بعد، تاکہ تم یہ نہ کہہ سکو کہ ہمارے پاس تو کوئی خوشخبری دینے اور ڈرانے والا نہیں آیا۔ سو اب تمھارے پاس خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا آ چکا ہے اور اللہ ہر چیزپر قدرت رکھنے والا ہے۔“
اس آیت سے متکلمین اسلام نے زمانہ فترت کی اصطلاح اخذ کی ہے۔ فترت کا لفظی مطلب ہے کسی چیز کے تسلسل میں انقطاع اور وقفہ پیدا ہو جانا۔ علم کلام میں اس سے مراد وہ زمانہ لیا جاتا ہے جب کسی قوم یا علاقے میں پیغمبر کی بعثت کے بعد طویل عرصہ گزر چکا ہو اور مرور زمانہ سے اس کی صحیح تعلیم ضائع یا لوگوں کے ذہن اور عمل سے محو یا باطل کے ساتھ خلط ملط ہو چکی ہو۔
آیت سے معلوم ہوتا ہےکہ اہل کتاب ، کتاب الٰہی کا حامل ہونےکے باوجود مذہبی روایت میں پیدا ہو جانے والے اختلافات کی وجہ سے اس کے محتاج تھے کہ حق وباطل کے فیصلے کے لیے اللہ کی طرف سے کسی نبی کو بھیجا جائے اور نبی کی بعثت سے پہلے وہ یہ عذر بھی پیش کر سکتے تھے کہ چونکہ ان کے پاس نبی نہیں آیا، اس لیے حق وباطل کے باب میں ان کا مواخذہ نہ کیا جائے۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ متعدد احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بعثت سے پہلے دور جاہلیت میں وفات پانے والے مختلف لوگوں کے متعلق سوال کیے جانے پر فرمایا کہ وہ شرک کرنے کی وجہ سے جہنم میں ہیں۔
قاضی ابن عطیہ الاندلسیؒ نے تفسیر المحرر الوجیز میں سورۃ الانعام، آیت ٩٠ کے تحت اس سوال پر کلام کیا ہے کہ جب قرآن مجید کی رو سے رسولوں کی بعثت سے پہلے اللہ تعالیٰ کسی کو عذاب نہیں دیتے اور متکلمین (یعنی اشاعرہ) کا یہ کہنا ہے کہ محض عقل سے انسان پر کوئی چیز واجب نہیں ہوتی، یعنی نبی کی دعوت کے بغیر انسان محض عقلی استدلال کی بنیاد پر توحید پر ایمان رکھنے کے بھی مکلف نہیں تو پھر دور جاہلیت میں مرنے والے لوگ کیونکر عذاب کے مستحق ہو سکتے ہیں۔
ابن عطیہ نے اس کی توجیہ یہ کی ہے کہ دراصل توحید کی دعوت حضرت آدم علیہ السلام کے دور سے ہی پوری دنیا میں عام رہی ہے، اس لیے انبیاء کے لائے ہوئے شرائع اور احکام پر عمل کے تو لوگ مکلف نہیں ہیں، لیکن توحید کے متعلق انسان مکلف ہیں کہ شریعت کے اس حکم کو بجا لاتے ہوئے (جس کا علم ان تک انبیاء کی عمومی دعوت کے ذریعے سے پہنچ چکا ہے) دلائل توحید پر غور کریں اور اللہ کی وحدانیت پر ایمان رکھیں۔ ہاں، اگر کسی تک شریعت کا یہ حکم نہ پہنچا ہو کہ وہ ایمان باللہ کا مکلف ہے اور پھر اس نے خدا پر ایمان سے ایک طرح کی علیحدگی سی اختیار کر لی ہو، لیکن کفر نہ کیا ہو اور نہ شرک میں مبتلا ہوا ہو، تو ان کے متعلق اہل علم کا کہنا ہے کہ یہ اہل فترت ہیں اور ان کا حکم پاگلوں اور نابالغ بچوں کا ہے، اور وہ جنت میں داخلے کے حقدار ہوں گے۔ تاہم جنھوں نے غور وفکر میں کوتاہی کرتے ہوئے بت پرستی اختیار کر لی تو وہ قابل مواخذہ اور عذاب کے مستحق ہیں۔ دور جاہلیت میں وفات پانے والے مشرکین بھی چونکہ اسی زمرے میں آتے ہیں، اس لیے ان کے متعلق احادیث میں بیان کیا گیا حکم اصول شرع کی رو سے درست ہے۔
ابن عطیہؒ کی اس توجیہ کا ایک جزو درست لیکن دوسرا جزو محل نظر معلوم ہوتا ہے۔ اگر انسانوں کے کسی گروہ تک توحید کا پیغام انبیاء کی نسبت سے پہنچا ہو، یعنی فی الجملہ ایسے قرائن واسباب موجود ہوں جو ان کو اس پر سنجیدگی سے غور کرنے کی دعوت دیتے ہوں اور اس کے باوجود وہ تعصب یا تقلید کی وجہ سے اس کو نظر انداز کر دیں تو اس صورت میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ انھوں نے بے پروائی یا کوتاہی سے کام لیا ہے اور اس پر ان کا مواخذہ ہوگا۔ دور جاہلیت کے اہل عرب کی صورت حال ایسی ہی تھی۔ ان کے ہاں مشرکانہ تصورات ورسوم بعثت نبوی سے کوئی تین صدیاں قبل رائج ہوئے تھے، لیکن توحید کا تصور بالکل مٹ نہیں گیا تھا۔ یہ بھی ان پر واضح تھا کہ ابراہیم علیہ السلام نے جو دین دیا، وہ بت پرستی کا دین نہیں تھا۔ اس کے علاوہ وہ ارد گرد کی اقوام میں سے اہل کتاب سے اور ان کے دین سے بھی واقف تھے اور جانتے تھے کہ ان کے پاس اللہ کی اتاری ہوئی کتابیں موجود ہیں۔ اسی پس منظر میں ’’حنیفیت“ کا ایک پورا رجحان عرب میں موجود تھا اور بہت سے سوچنے سمجھنے والے لوگ بت پرستی اور شرک سے بیزار ہو کر ہدایت کی تلاش میں سرگرم تھے۔
تاہم توحید سے واقفیت کی یہی صورت حال دنیا کے تمام مشرک معاشروں میں پائی جاتی تھی، یہ دعویٰ بہت مشکل ہے اور عمومی تاریخی معلومات اس کی تصدیق نہیں کرتیں۔ اگر کسی معاشرے تک ابراہیمی مذاہب کے توسط سے یہ تعلیم پہنچ کر اسے متوجہ کر چکی ہو اور غور وفکر کے دواعی پائے جانے کے باجود لوگ توجہ نہ دیں یا تعصب کی وجہ سے انکار کریں تو یقیناً وہاں بھی یہی اصول لاگو ہونا چاہیے۔ مثال کے طور پر ہندوستان کے مشرکین سے متعلق مجدد الف ثانیؒ وغیرہ کا رجحان یہی ہے کہ ان تک توحید کی عمومی دعوت پہنچ چکی ہے جس کے بعد یہ غور وفکر کرنے اور توحید پر ایمان لانے کے مکلف ہیں۔ دنیا کے باقی معاشروں کا اصولی حکم بھی اسی پر قیاس کیا جا سکتا ہے۔
یہ سوال عموماً ذہن میں پیدا ہوتا ہے اور پیدا ہونا بالکل فطری ہے کہ دنیا میں بہت سے لوگ جو حالت کفر میں دنیا سے چلے گئے اور بظاہر ان کے بعض اعذار سمجھ میں آتے ہیں، ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ قیامت میں کیسے معاملہ فرمائیں گے؟ متعدد احادیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ایسے لوگ قیامت کو اپنا عذر پیش کر سکیں گے اور ان کے عذر کو قبول کرتے ہوئے ان کو ایمان کی آزمائش کا موقع دوبارہ دیا جائے گا۔ چنانچہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
يؤتى بأربعة يوم القيامة بالمولود والمعتوه، ومن مات في الفترة وبالشيخ الفاني كلهم يتكلم بحجته فيقول الله تبارك وتعالى لعنق من جهنم أحسبه قال: ابرزي فيقول لهم: إني كنت أبعث إلى عبادي رسلا من أنفسهم وإني رسول نفسي إليكم ادخلوا هذه فيقول من كتب عليه الشقاء: يا رب أتدخلناها ومنها كنا نفرق؟ ومن كتبت له السعادة فيمضي فيقتحم فيها مسرعا قال: فيقول الله: قد عصيتموني وأنتم لرسلي أشد تكذيبا ومعصية قال: فيدخل هؤلاء الجنة ويدخل هؤلاء النار. (مسند البزار، رقم ۶۹۵۵)
’’قیامت کے دن نابالغ بچے اور پاگل اور زمانہ فترت میں مر جانے والے اور انتہائی ضعیف العمر کو لایا جائے گا اور یہ سب اپنا اپنا عذر پیش کریں گے۔ اللہ تعالیٰ جہنم کی ایک گردن سے کہیں گے کہ ان کے سامنے نمودار ہو جا۔ پھر ان لوگوں سے فرمائے گا کہ میں نے اپنے بندوں کی طرف تو انھی میں سے اپنے رسول بھیجے تھے، لیکن تمھیں میں براہ راست حکم دیتا ہوں کہ اس آگ میں داخل ہو جاو۔ اس پر ان میں سے جن کی قسمت میں بدنصیب ہونا لکھا ہوگا، وہ کہیں گے کہ اے پروردگار، کیا تو ہمیں اس میں ڈالنا چاہتا ہے جبکہ ہم اسی سے تو ڈر رہے تھے۔ اور جن کی قسمت میں خوش بختی لکھی ہوگی، وہ (حکم کی تعمیل کرتے ہوئے) آگے بڑھیں گے اور تیزی سے آگ میں داخل ہو جائیں گے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ انکار کرنے والوں سے فرمائیں گے کہ تم نے میری نافرمانی کی ہے تو میرے رسولوں کی اس سے بڑھ کر تکذیب اور نافرمانی کرنے والے ہوتے۔ چنانچہ حکم ماننے والے جنت میں اور نافرمانی کرنے والے آگ میں داخل ہو جائیں گے۔“
یہی مضمون کچھ فرق کے ساتھ متعدد دیگر صحابہ مثلاً اسود بن سریع، معاذ بن جبل، ابو سعید خدری ، ثوبان اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے بھی مروی ہے۔ (مسند احمد، رقم ۱۶۰۵۵، المعجم الاوسط للطبرانی، رقم ۸۱۸۴، مسند البزار، رقم ۳۵۴۱، تفسیر الطبری ج ۱۷، ص ۴۰۲)
ان روایات میں وضاحت کی گئی ہے کہ جو لوگ اللہ کے حکم پر اس آگ میں داخل ہوں گے، وہ ان پر ٹھندک اور سلامتی بن جائے گی۔ اسی طرح ان لوگوں کے عذر کی تفصیل بھی بیان کی گئی ہے جو وہ پیش کریں گے۔ مثلاً بہرا کہے گا کہ میں تو سن ہی نہیں سکتا تھا۔ (روایت میں بہرے کا ذکر ہے، جبکہ اسی پر دیگر معذوروں کو بھی قیاس کیا جا سکتا ہے جن کے ظاہری حواس کا نقص بلوغ دعوت میں مانع ہو۔) کم عقل لوگ جنھیں چیزوں کی سمجھ نہ ہو، کہیں گے کہ ہمیں تو سمجھ ہی نہیں تھی اور بچے ہماری بے عقلی کی وجہ سے مینگنیاں اٹھا اٹھا کر ہم پر پھینکتے تھے۔ انتہائی ضعیف العمر لوگ کہیں گے کہ ہمیں ایسی حالت میں دعوت پہنچی کہ ہم اس وقت قوت فیصلہ ہی کھو چکے تھے۔ جبکہ ایسے لوگ جو دور فترت میں مرے، یعنی جب انبیاء کی دعوت مرور زمانہ سے مٹ چکی تھی اور کسی قابل اعتماد اور واضح صورت میں موجود نہیں تھی، وہ کہیں گے کہ ہم تک تو اللہ کا کوئی نبی پیغام لے کر آیا ہی نہیں۔
اس اصول کو توسیع دیتے ہوئے امام غزالیؒ فرماتے ہیں کہ جن لوگوں تک اسلام یا پیغمبر اسلام کا تعارف ایسی صورت میں پہنچا ہو کہ بجائے متوجہ کرنے کے انھیں متنفر کرنے کا باعث بنے، وہ بھی اسی زمرے میں شمار ہوتے ہیں۔ گویا ایسے لوگ بھی اصحاب فترت میں شمار ہوتے ہیں۔ لکھتے ہیں:
ان اکثر نصاری الروم والترک فی هذا الزمان تشملهم الرحمة ان شاء اللہ تعالیٰ اعنی الذین هم فی اقاصی الروم والترک ولم تبلغهم الدعوۃ فانهم ثلاثة اصناف صنف لم یبلغهم اسم محمد صلی اللہ علیه وسلم اصلا فهم معذورون وصنف بلغهم اسمه ونعته وما ظهر علیه من المعجزات وهم المجاورون لبلاد الاسلام والمخالطون لهم وهم الکفار الملحدون وصنف ثالث بین الدرجتین بلغهم اسم محمد صلی اللہ علیه وسلم ولم یبلغهم نعته وصفته بل سمعوا ایضا منذ الصبا ان کذابا ملبسا اسمه محمد ادعی النبوۃ کما سمع صبیاننا ان کذابا یقال له المقفع بعثه اللہ تحدی بالنبوۃ کاذبا فهولاء عندی فی اوصافه فی معنی الصنف الاول فانهم مع انهم لم یسمعوا اسمه سمعوا ضد اوصافه وهذا لا یحرک داعیة النظر فی الطلب.(فیصل التفرقۃ، مجموعۃ رسائل الامام الغزالی، ۳/۹۶)
”اس زمانے میں روم کے مسیحیوں اور ترکوں کی اکثریت ان شاء اللہ، اللہ کی رحمت کے دائرے میں شامل ہوں گے۔ میری مراد وہ لوگ ہیں جو سلطنت روم اور ترکوں کے دوردراز علاقوں میں رہتے ہیں اور ان تک اسلام کی دعوت نہیں پہنچی۔ یہ تین قسم کے لوگ ہیں۔ ایک وہ جنھوں نے سرے سے کبھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نام بھی نہیں سنا۔ یہ تو معذور ہیں۔ دوسرے وہ جن تک آپ کا نام اور اوصاف اور آپ کے حق میں ظاہر ہونے والے اوصاف پہنچے ہیں اور وہ اسلامی ممالک کے پڑوس میں رہتے ہیں اور مسلمانوں سے ان کا میل ملاپ رہتا ہے۔ یہ لوگ کافر اور بے دین ہیں۔ تیسرا گروہ ان دونوں کے درمیان ہے۔ ان تک محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نام تو پہنچا ہے، لیکن آپ کے حالات و اوصاف نہیں پہنچے، بلکہ انھوں نے بچپن سے یہ سن رکھا ہے کہ (نعوذ باللہ) محمد نام کے ایک جھوٹے اور فریبی نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا، ایسے ہی جیسے ہمارے بچوں نے سن رکھا ہے کہ مقفع نامی ایک کذاب نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا تھا۔ یہ گروہ میرے نزدیک اپنے حالات کے لحاظ سے پہلے گروہ کے حکم میں ہے، کیونکہ ان تک نہ صرف یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حقیقی تعارف نہیں پہنچا بلکہ انھوں نے اس کے الٹ سن رکھاہے اور یہ چیز (ان میں اسلام کے بارے میں) تلاش اور جستجو کا داعیہ پیدا نہیں کرتی۔“
احادیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جیسے جیسے قیامت کا وقت قریب ہوتا جائے گا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے بھیجی گئی ہدایت کے أجزاء بھی ایک ایک کر کے ضائع ہوتے چلے جائیں گے، تاآنکہ مسلمانوں میں بھی صرف خدا کی توحید کو جاننے والے باقی رہ جائیں گے۔ چنانچہ حذیفہ بن الیمانؓ روایت کرتے ہیں:
يدرس الإسلام كما يدرس وشي الثوب ، حتى لا يدرى ما صيام ولا صلاة ولا نسك ولا صدقة، وليسرى على كتاب الله عز وجل في ليلة، فلا يبقى في الأرض منه آية، وتبقى طوائف من الناس الشيخ الكبير والعجوز، يقولون : أدركنا آباءنا على هذه الكلمة: لا إله إلا الله، فنحن نقولها، فقال له صلة : ما تغني عنهم : لا إله إلا الله ، وهم لا يدرون ما صلاة ولا صيام ولا نسك ولا صدقة؟ فأعرض عنه حذيفة، ثم ردها عليه ثلاثا، كل ذلك يعرض عنه حذيفة ، ثم أقبل عليه في الثالثة ، فقال : يَا صِلَةُ، تُنْجِيهِمْ مِنَ النَّارِ ثَلَاثًا (سنن ابن ماجہ رقم ۴۰۸۱)
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسلام اس طرح مٹ جائے گا جیسے کپڑے کے نقش ونگار مٹ جاتے ہیں، یہاں تک کہ لوگوں کو نہ روزے کا پتہ ہوگا نہ نماز کا، نہ حج کا اور نہ صدقے کا۔ اللہ کی کتاب ایک ہی رات میں اٹھا لی جائے گی اور زمین پر اس کی ایک بھی آیت باقی نہیں رہے گی۔ لوگوں میں کچھ بڈھے اور بڈھیاں رہ جائیں گی۔ وہ کہیں گے کہ ہم نے اپنے آباواجداد کو یہ کلمہ پڑھتے ہوئے سنا کہ لا الہ الا اللہ، تو ہم بھی یہی کلمہ پڑھتے ہیں۔ یہ روایت سن کر ایک شاگرد نے حضرت حذیفہ سے کہا کہ لا الہ الا اللہ ان کے کس کام آئے گا، جبکہ انھیں نہ نماز کا پتہ ہوگا نہ روزے کا، نہ حج کا اور نہ صدقے کا؟ حذیفہ نے جواب دینے سے گریز کیا، لیکن پھر تیسری دفعہ سوال دہرائے جانے پر تین دفعہ تکرار کے ساتھ کہا کہ یہ ایک کلمہ ہی انھیں آگ سے نجات دلا دے گا۔“
سیدنا حذیفہ کے ارشاد سے بھی یہی واضح ہوتا ہے کہ دور فترت میں لوگوں کو ہدایت الٰہی تک جتنی رسائی حاصل ہوگی، ان کا مواخذہ بھی اسی کے مطابق ہوگا۔
قرآن وحدیث کے حوالے سے جب اہل ایمان کے لیے مختلف نیک اعمال کا اجر بیان کیا جاتا ہے تو ایک سوال جو عمومی طور پر جدید ذہن میں پیدا ہوتا ہے اور بعض اوقات مذہب سے نفور طبقے کی طرف سے بھی اٹھایا جاتا ہے، وہ یہ ہے کہ اہل کفر بھی دنیا میں نیکی کے بہت سے کام کرتے ہیں تو ان کے لیے اللہ نے کیا اجر رکھا ہے؟ اور اگر نہیں رکھا تو کیا یہ ناانصافی نہیں ہے؟
قرآن مجید اور احادیث سے اس کا جواب یہ ملتا ہے کہ اللہ تعالی کے ہاں جو کام نیکی کے کام شمار ہوتے ہیں، ان کا صلہ انسان کو ضرور دیا جاتا ہے، البتہ اللہ نے اس کا ضابطہ یہ بنایا ہے کہ جو لوگ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان نہیں رکھتے یا اللہ کے رسولوں کی دعوت پر کسی تعصب یا عناد کی وجہ سے توجہ نہیں دیتے، ان کے اعمال آخرت کے اجر کے حوالے سے ضائع کر دیے جاتے ہیں، اور جو کچھ بھی اس کا صلہ بنتا ہے، وہ اس دنیا میں ہی مختلف صورتوں میں ان کو دے دیا جاتا ہے۔ ایسے لوگ آخرت کے مقابلے میں دنیا کی چند روزہ زندگی کو ترجیح دے کر گویا خود اس کا انتخاب کر لیتے ہیں کہ ان کے اچھے اعمال کا حساب دنیا میں ہی صاف کر دیا جائے اور جب آخرت میں وہ پہنچیں تو ان کے نامہ اعمال میں سزا بھگتنے کے لیے صرف ان کا کفر اور انکار موجود ہو۔
ارشاد باری ہے:
مَنۡ کَانَ یُرِیۡدُ الۡحَیٰوۃَ الدُّنۡیَا وَ زِیۡنَتَہَا نُوَفِّ اِلَیۡہِمۡ اَعۡمَالَہُمۡ فِیۡہَا وَہُمۡ فِیۡہَا لَا یُبۡخَسُوۡنَ ۔ اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ لَیۡسَ لَہُمۡ فِی الۡاٰخِرَۃِ اِلَّا النَّارُ وَحَبِطَ مَا صَنَعُوۡا فِیۡہَا وَبٰطِلٌ مَّا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ ﴿ہود، آیت ۱۵، ۱۶﴾
’’جو دنیا کی زندگی اور اُس کی زینت چاہتے ہیں، ہم اُن کے اعمال کا بدلہ اُن کو یہیں چکا دیتے ہیں اور اُس میں اُن کے ساتھ کوئی کمی نہیں کی جاتی۔ یہی لوگ ہیں جن کے لیے آخرت میں آگ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ دنیا میں جو کچھ اُنھوں نے بنایا، وہ سب ملیامیٹ ہوا اور اُن کا کیا دھرا اب باطل ہے۔“
سورۃ الشوریٰ میں ارشاد ہے:
مَنۡ کَانَ یُرِیۡدُ حَرۡثَ الۡاٰخِرَۃِ نَزِدۡ لَہٗ فِیۡ حَرۡثِہٖ وَمَنۡ کَانَ یُرِیۡدُ حَرۡثَ الدُّنۡیَا نُؤۡتِہٖ مِنۡہَا وَمَا لَہٗ فِی الۡاٰخِرَۃِ مِنۡ نَّصِیۡبٍ ﴿آیت ۲۰﴾
’’جو آخرت کی کھیتی چاہتا ہے، ہم اُس کی کھیتی میں اُس کے لیے برکت عطا فرماتے ہیں اور دنیا میں بھی اُس کا حصہ اُسے دیتے ہیں اور جو دنیا کی کھیتی چاہتا ہے، اُس کو ہم اُس میں سے (جتنا چاہتے ہیں)، دے دیتے ہیں، مگر (اِس کے بعد پھر) آخرت میں اُس کا کوئی حصہ نہیں ہے۔“
یہ اللہ کا مقرر کیا ہوا ضابطہ ہے جو عقلاً بھی بالکل واضح ہے۔ جو شخص آخرت پر اور آخرت کی جزا وسزا پر ہی یقین نہیں رکھتا اور اللہ کے رسولوں کی مسلسل تعلیم وتذکیر کو اپنی غفلت یا تکبر کی نذر کر دیتا ہے، وہ اللہ کی بارگاہ میں پیش ہونے پر آخر کس منہ سے یہ مطالبہ کر سکتا ہے کہ اس نے دنیا میں کئی نیک اعمال کیے تھے، اب اسے ان کا بدلہ دیا جائے؟