اسی لیے تجزیاتی مقالات کی بجائے بعض اوقات داستان گو، کہانی نویس اور شاعر، فطرتِ انسانی کے کسی سربستہ راز سے اچانک پردہ اٹھا دیتے ہیں۔ اس کی وجہ شاید یہ ہوتی ہے کہ تجزیہ نگار صرف اپنے ذہن سے تجزیہ و تحلیل کرتے ہیں جبکہ داستان گو اور شاعر اپنے پورے وجود کو خرچ کر دیتے ہیں، بلکہ قربان کر دیتے ہیں۔ شاید کوئی عظیم اصول اس کائنات میں کارفرما ہے کہ بقا کا ہر چشمہ، فنا کی زمین سے پھوٹتا ہے۔
میں اس تحریر میں ایک بیچ کی راہ اپنانا چاہتا ہوں۔ میں صرف ذہنی تجزیہ نہیں چاہتا۔ میں چاہتا ہوں کہ اپنے پورے وجود کو بروئے کار لاؤں اور اپنی واردات بیان کروں۔ کبھی کبھی موضوع سے بھٹک بھی جاؤں۔ کچھ غیر اہم باتیں بھی کروں۔ ایسی غیر اہم باتیں جو بڑے عجیب طریقے سے اہم ہو جاتی ہیں۔ چھوٹی چھوٹی باتوں کو بیان کروں جو بڑی بڑی باتوں سے آگے نکل جاتی ہیں۔ یہ دیکھنے کی کوشش کروں کہ چھوٹا اور بڑا، اہم اور معمولی کس طرح باہم جڑ جاتے ہیں اور ایک بے رنگ کُل میں بدل جاتے ہیں۔ اس لیے ایک منظم و مربوط بیان کی بجائے، آپ اس تحریر میں منتشر تاثرات پائیں گے۔
مذہبی ہوں یا غیر مذہبی، انقلابی جماعتیں ان بچوں کی طرح ہوتی ہیں جو بڑا ہونے سے انکار کر دیتے ہیں۔ بڑے ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ صرف وزن اور جسامت میں بڑا ہوا جائے بلکہ یہ بھی ہے کہ انسان اپنے مقاصد کا از سر نو جائزہ لے، خود پر ہنسنا سیکھے، اونچی آواز میں بات کرنے کی بجائے دھیمی آوازوں کو سننے کی کوشش کرے۔ ذہنی تناؤ کو کم کرے اور اپنے ہاتھوں کی مٹھیاں کھول دے۔
لیکن ایسا سب کچھ انقلابی جماعت کے لیے موت ہو گا۔ لہذا ان جماعتوں میں بیک وقت بڑا ہونے اور چھوٹا رہنے کی متضاد قوتیں جاری ہو جاتی ہیں جس سے اکثر جماعتیں ٹوٹ بھی جاتی ہیں۔ انقلابی جماعتوں کی یہ ٹوٹ پھوٹ جماعتوں کے لیے شاید نقصان دہ ہوتی ہو لیکن خود انقلابیوں کے لیے رحمت کا باعث ہو سکتی ہے، ایسی رحمت جس سے اکثر وہ خود بھی لا علم ہوتے ہیں اور جو ان کے وجود کی نشوونما کا سندیسہ لاتی ہے۔
لیکن نشوونما کے ان مراحل سے گزرنے کے لیے گزشتہ انقلابیوں کو ذہنی و نفسیاتی تکالیف سے گزرنا پڑتا ہے۔ کئی انقلابی تو بے چارے شکوہ و شکایت اور الزام تراشیوں و دشنام طرازیوں کے گڑھوں میں ہی گر جاتے ہیں۔ ردعمل کی نفسیات میں رک جاتے ہیں اور 'اینٹی-انقلابی جماعت' بن جاتے ہیں۔ بعض زندگی کی بنیادی اقدار اور دین ہی کا انکار کر بیٹھتے ہیں لیکن بعض اپنی تپسیا کو جاری رکھتے ہیں۔ اپنے اندر بھی سفر کرتے ہیں اور باہر بھی۔ نئی درسگاہوں کا رخ کرتے ہیں اور زندگی کے دیگر زاویوں کو تلاشتے ہیں۔
مگر اس میں پڑتی ہے محنت زیادہ
یہ بھی دلچسپ ہے کہ کس طرح ان گزشتہ انقلابیوں کے حالات و واقعات دیکھ کر موجودہ انقلابی ان کا بچوں کی طرح مذاق اڑاتے ہیں۔ سنیئر انقلابی جونئیر انقلابیوں کو درس دیتے ہیں، "دیکھا ہم نے نہ کہا تھا۔۔۔" " دیکھا جماعت اور نظریے سے الگ ہونے کا انجام"۔ یہ سب نہایت دلچسپ ہے۔ یہ سب نہایت ٹریجک ہے۔
پرانے پرندے تنکا تنکا جوڑ کر آشیانہ بناتے ہیں۔ بعد میں آنے والے پرندوں کو بنا بنایا گھونسلہ مل جاتا ہے، ایک سوچ اور شناخت مل جاتی ہے۔ ایک انقلابی جماعت میں موجود مختلف جنریشنز کا اگر باہم مقابلہ کیا جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ ابتدائی دور کے لوگ زیادہ تخلیقی اور mature ہوتے ہیں۔ آہستہ آہستہ تقلیدی رجحان بڑھتا جاتا ہے۔
انقلابی جماعت کے بانی راہنماوں پر رنگ رنگ کے اثرات ہوتے ہیں جبکہ دوسری اور تیسری جنریشن مکمل طور پر صرف اپنی ہی جماعت کے لیڈرز کے زیر اثر ہوتی ہے۔ اس میں "تنظیمیت" بڑھ جاتی ہے لیکن سوچ ماند پڑ جاتی ہے۔ فکر کی جگہ ڈسپلن اور Quality کی جگہ Quantity لے لیتی ہے۔ انقلابی جماعت کا یک رخا پن اور گہرا ہو جاتا ہے۔
انقلابی جماعت کی پہلی جنریشن نے اپنے عہد کے مختلف جماعتوں کی لیڈرشپ سے interact کیا ہوتا ہے ان کا ایکسپوژر بڑا ہوتا ہے جبکہ انقلابی جماعت کی دوسری جنریشن نے صرف اپنے بانی لیڈر اور اپنی ہی جماعت کے پہلے کیڈر پر انحصار کیا ہوتا ہے۔ پہلی جنریشن نے بہت محنت سے لٹریچر تیار کیا ہوتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دوسری اور تیسری جنریشن کے انقلابیوں کا مطالعہ صرف جماعتی لٹریچر تک محدود ہو جاتا ہے۔ یوں جماعت میں تنگ نظری اور تعصب بڑھتا جاتا ہے۔
انقلابی جماعتوں کی بنیاد رکھنے والے اکثر رہنما وہ ہوتے ہیں جنہوں نے اپنی زندگی کے عہد شباب بی سے اپنے آپ کو کسی کاز کے لیے وقف کر دیا ہوتا ہے۔ وہ قربانی اور جانفشانی سے جماعت کا پہلا کیڈر تیار کرتے ہیں۔ چونکہ اس سلسلے میں ان کا انٹریکشن دوسری جماعتوں کے رہنماؤں سے ہوتا ہے اس لیے ان کا ذہن نسبتاً pragmatic اور لچکدار ہوتا ہے۔ انقلابیوں کی یہ پہلی جنریشن بہت سی عملی مشکلات کا سامنا کرتی ہے اس لیے اپنے ظرف اور ذہنی اپروچ میں پریکٹیکل اور flexible ہوتی ہے۔ پھر جیسے جیسے جماعت میں نئے لوگوں کی امد ہوتی ہے اور انقلابیوں کی دوسری جنریشن تیار ہونے لگتی ہے تو وہ ابتدائی پریگمٹزم اور فلیکسیبلٹی بھی دھیرے دھیرے رخصت ہونے لگتی ہے۔ اب جماعت بڑی ہونے لگتی ہے اور اور یہ انقلابیوں کا احساس برتری مزید بڑھا دیتا ہے۔ ایسے نظریاتی امور جو انقلابی جماعت اور دوسری جماعتوں میں مشترک ہوتے ہیں، ان پر بات کم ہوتی ہے اور جماعت کے مخصوص نظریات پر بات زیادہ ہونے لگتی ہے۔ اعتدال پسند عناصر کم ہونے لگتے ہیں اور انتہائی سوچ رکھنے والے عناصر بڑھنے لگتے ہیں۔ دھیرے دھیرے انقلابی جماعتوں میں فاشسٹ رویے بڑھ جاتے ہیں۔
ہر انقلابی جماعت اور اس کے ہر رکن کا ایک ایجنڈا ہوتا ہے۔ وہ طبعاً اس ایجنڈے کا ایسا پابند ہو جاتا ہے کہ اسے کبھی بھی suspend نہیں کر سکتا۔ اس کا مزاج کچھ ایسا ڈھل جاتا ہے کہ وہ ہر social interaction اور ہر social situation کو اپنے ایجنڈے کی تکمیل کا سامان بنانا چاہتا ہے۔ وہ جب کسی نئے شخص سے ملتا ہے تو اس زاویے سے اس کا جائزہ لیتا ہے کہ وہ کس حد تک اس کی جماعت میں ضم ہو سکتا ہے۔ وہ جب کسی سینئر اور با اثر شخص سے ملتا ہے تو اس لیے کہ اس کی تائید اور تصدیق سے راۓ عامہ ہموار کرنے کا کام لے سکے۔ جب وہ مطالعہ کرتا ہے تو اس لیے کہ اپنے انقلابی نظریات کے لیے معلومات فراہم کر سکے۔ جب وہ لکھتا ہے تو اپنے نظریات کے پرچار کے لیے۔ ہر صورتحال اس کے لیے ایک opportunity ہوتی ہے، ایک خام مال۔
انقلابی شخص چونکہ واضح مقصد رکھتا ہے اور اس کی سوچ میں ایک میکانکی ربط اور تنظیم ہوتی ہے۔اور ایک مشن کا حامل ہونے کی وجہ سے وہ فطری طور پر پر جوش بھی ہوتا ہے۔ اور پے در پے دلائل دینے کا فن سیکھ جکا ہوتا ہے اس لیے اس کی گفتگو بہت گہری اور علم و حکمت سے لبریز دکھائی دیتی ہے۔
وہ جب محقق ہوتا ہے تو چھوٹی سے چھوٹی اور شاذ بات کو بھی اپنے استدلال کی بنیاد بناتا ہے اور اس سے ملتے جلتے دیگر شواہد نظر انداز کر دیتا ہے جو اس کے نظریاتی فریم ورک کی تائید نہیں کرتے۔ اس کی Rationality، Instrumental Rationality ہوتی ہے نہ کہ Substantive Rationality۔ Instrumental Rationality مقاصد پر زیادہ سوال نہیں اٹھاتی بلکہ اس پر غور و فکر کرتی ہے کہ کس طرح ذرائع کو efficiently manipulate کرے اور مقاصد کی تکمیل کرے۔
اپنے مقصد کے حصول کے لیے سرگرم رہنا بہت اچھا ہے اگر انسان بنیادی انسانی سچائیوں اور اعلیٰ اخلاقی حس کو اپنے ہاتھ سے نہ جانے دے اور کسی بھی صورتحال کو genuinely appreciate کرنے کے قابل رہے اور اس پر اپنا ایجنڈا impose نہ کرے۔ لیکن اگر اس کا ایجنڈا ہر وقت اس کے ساتھ چپکا رہے تو وہ نیک اور انقلابی ہونے کے ساتھ ساتھ، آہستہ آہستہ نظریاتی اور سماجی طور پر ایک چالاک اور ہوشیار شخص میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ ایک ایسا شکاری جو ہر وقت گھات میں رہتا ہے۔وہ آپ کا جائزہ لیتا ہے، سونگھتا ہے، ٹٹولتا ہے، آپ کو categorize کرتا ہے اور پھر آپ کو label کرتا ہے کہ اس کے سسٹم میں آپ کیا حیثیت رکھتے ہیں: دوست، دشمن، بے ضرر، مفید یا کچھ اور ۔کوئی بھی شخص اور سچائی اس کے لیے بجائے خود مقصد نہیں رہتی بلکہ ایک ذریعہ بن جاتی ہے۔ اور پھر یوں بھی ہوتا ہے کہ اس کا نفس اس کے لیے یہ بات خوشنما بنا دیتا ہے کہ
Ends justify means.
انتہائی صورت میں وہ اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے کوئی سے بھی ذرائع اختیار کر سکتا ہے۔
انقلابی جماعتیں عام طور پر خود کو ایسی پوزیشن پر رکھتی ہیں جہاں سے سب پر فائرنگ ہو سکے لیکن کوئی ان پر فائر نہ کر سکے۔ ایسا اس لیے ممکن ہوتا ہے کیونکہ وہ معاشرے میں جاری و ساری سماجی و سیاسی عمل سے کٹ کر اس کا مشاہدہ و مطالعہ تو کرتے ہیں، اس میں active agent کے طور پر شریک نہیں ہوتے۔ یوں تجزیہ و تنقید ہی ان کا بنیادی وظیفہ بن جاتا ہے۔ ہر دوسری جماعت اور شخصیت اب ان کے تجزیے کی زد پر ہوتی ہے۔
انقلابی جماعتوں کے یہاں اصحابِ علم کی تین فہرستیں ہوتی ہیں۔ ایک محبوب علماء کی، دوسرے ان علماء کی جنہیں کبھی کبھی گوارا کیا جا سکتا ہے، اور تیسرے ان علماء کی جو مردود اور قابلِ ملامت ہوتے ہیں۔ ان کیمپوں میں تمیز بہت کڑی اور تیکھی ہوتی ہے۔
ان کیمپوں کے بیچ میں لائن آف کنٹرول بہت واضح ہوتی ہے۔ اگر دوسرے کیمپ سے کوئی اچھی اور معقول بات بھی کرے تو اسے سراہا نہیں جاتا مبادا مکتبِ انقلاب میں زیرِ تربیت نو خیز انقلابی مخالف کیمپ کی کسی شخصیت سے متاثر ہو جائیں۔ اگر دوسرے یا تیسرے کیمپ کے کسی عالم یا دانشور کی بات زیادہ ہی پسند آۓ تو بہترین حکمتِ عملی یہ سمجھی جاتی ہے کہ کتاب اور مصنف کا حوالے دیے بغیر بات کو خود اپنے ہی منہ سے مناسب انداز میں بیان کر دیا جائے۔
ہاں اگر اپنے اکابر کی شان میں کوئی قول وغیرہ فریق مخالف کے کیمپ سے دستیاب ہو تو اس کا فوری تذکرہ پورے حوالے اور شرح و بسط کے ساتھ کیا جاتا ہے تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آوے۔
کبھی کبھی تو لگتا ہے کہ بڑے بھی بس بچے ہی ہیں، بظاہر چالاک اور ہوشیار مگر در اصل معصوم!
انقلابی جماعتوں کے کارکن عام طور پر یک رخے پن اور نرگسیت کا شکار ہوتے ہیں۔ ان جماعتوں کا نظامِ تعلیم و تربیت کارکنوں کو یک رخا (One-Dimensional) بنا دیتا ہے۔ ایک یک رخا شخص ایک ہی دِشا میں دیکھنے کے قابل رہتا ہے۔ اور اس دِشا کا تعین اس کی آیڈیالوجی کرتی ہے۔ رفتہ رفتہ وہ دوسری سمتوں کے وجود سے بھی انکار کر دیتا ہے۔ لہذا یہ جماعتیں ایک خاص حد تک کارکنوں کے دانش اور شعور میں اضافہ کرتی ہیں، لیکن جب کوئی "ضرورت سے زیادہ" مطالعہ اور تحقیق شروع کر دے تو اسے رفتہ رفتہ ناپسندیدہ بنا دیا جاتا ہے
جماعتوں اور تنظیموں کے مطالعہ میں یہ بات دلچسپ اور دانش افروز ہوتی ہے کہ اس کے لیڈر اور کارکن اپنے آپ کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔
ایسی جماعتیں جو کسی ایک ہی مفکر کے افکار و نظریات پر قائم ہوتی ہیں، اکثر نرگسیت کا شکار ہو جاتی ہیں اور پھر اس نرگسیت کے لیے دلائل بھی فراہم کر لیتی ہیں۔ جماعت کے راہنما اور کارکن اپنے ہی حسن پر فریفتہ ہو جاتے ہیں اور اپنے آپ پر ہی فدا ہوتے رہتے ہیں۔ اس نرگسیت کی چند جھلکیاں ملاحظہ ہوں۔
ہمارا نظریہ سب سے عالی اور بلند ہے۔
ہم انسانی سماج کے مسائل کی جڑ کو پہچانتے ہیں۔
ہمارے پاس انسانیت کے تمام مسائل کا حل موجود ہے۔
ہم دین اسلام کی حقیقی روح کا کامل شعور رکھتے ہیں۔
جو لوگ ہمارے مخالفین ہیں وہ بے شعور ہیں یا سرمایہ دارانہ نظام اور سامراج کے آلہ کار ہیں۔
دھیرے دھیرے یہ mindset کارکنوں کے وجود میں خون کی طرح دوڑنے لگتا ہے۔ یہ ان کی ہر تعبیر ، تجزیے اور تشریح کے اصول موضوعہ بن جاتے ہیں۔
جماعتوں میں جو نظام تربیت تشکیل دیا جاتا ہے اس کا مقصد کارکنوں کی شعوری اور وجودی نشوونما نہیں بلکہ ان کے ذہن کی مخصوص نظریات کے مطابق پروگرامنگ ہوتی ہے۔ان کا ذہن ایک سافٹ ویئر کے تابع ہو جاتا ہے اور وہ اپنے کسی بھی تجزیے اور تنقید میں ان حدود سے باہر نہیں جاتا جو اس سافٹ ویئر نے طے کر رکھی ہوں۔ وہ ہر بات پر سوال اٹھائے گا، تنقید کرے گا سوائے اس سافٹ ویئر کے۔ چونکہ self-critique اس سافٹ ویئر کا حصہ ہی نہیں ہے۔
ایک انسان کیسے اپنے وجود کو ایک جماعت کے سپرد کر دیتا ہے؟
ایک تو یہ کہ کالجوں اور مدارس کے نوجوان جب ایک منظم جماعت کے مختلف لوگوں سے، جو عمر، تجربے اور معلومات میں ان سے بڑے ہوں، ایک ہی بات کو بار بار سنتے ہیں تو اس سے متاثر ہو جاتے ہیں۔
اس میں شک نہیں کہ انفس و آفاق کی ابدی سچائیوں کی مختلف پیرایوں میں تکرار انسانی نشوونما کے لیے ضروری ہے۔ لیکن ایک مخصوص انسانی تعبیر اور تشریح کی تکرار ذہن کے گہرے ساگر کو ایک جوہڑ میں بدل سکتی ہے۔ انسان کسی contingent truth کو بار بار سن کر اور بار بار بیان کر کے اسے absolute truth کا درجہ دے دیتا ہے۔ اس سے، زیادہ سے زیادہ، ایک mediocre ذہن تشکیل پاتا ہے۔ ایک ایسا ذہن جسے استعمال کیا جا سکے، جس کا استحصال کیا جا سکے۔۔۔کسی جماعت کے کارکن کا ذہن۔ یہ ذہن چند برس ایک جماعت میں گزارنے کے بعد اس قابل نہیں رہتا کہ کسی اور رخ پر سوچ سکے۔ اس کی سوچ اور تخیل کا سفینہ جماعتی ساحل پر ٹھہر جاتا ہے۔ اس لیے حالات حاضرہ کے تجزیے کو بار بار سن کر انسانی ذہن پستی کی طرف جاتا ہے، جبکہ کلاسیکی ادب کا مطالعہ اس کے شعور کو رفعت عطا کرتا ہے۔
جماعت میں ایک یا زیادہ لوگوں کی Charismatic Personality بھی کارکنوں کے ذہنوں پر گہرے اثرات چھوڑتی ہے۔ جب کوئی لیڈر لوگوں کا محبوب ہو جائے اور لوگوں کو اس کی شخصیت Charismatic لگنی لگے تو وہ مخصوص سافٹ ویئر بہت جلد تیار ہو جاتا ہے۔ اور یوں بھی ہوتا ہے کہ شروع میں کوئی بات ، گیت سنگیت کی طرح، دل کو نہیں چھوتی لیکن جب اس راگ کو بار بار سنا جائے تو آخرکار من کو بھا جاتا ہے۔ اور پھر تو یہ حال بھی ہو جاتا ہے اس راگ کو سنے بنا دل ایک پل بھی چین نہیں پاتا۔
اکثر قائدین کی تقریروں کا بھی یہی حال ہوتا ہے۔ پہلے پہل نامانوس لگتی ہیں اور بعد میں یہ حال ہو جاتا ہے کہ جی ان کی ہر دلیل کی تصدیق اور ہر لہجے کی تائید کرنے لگتا ہے۔ اور حیران ہوتا ہے ان لوگوں پر جنہیں "سامنے کی یہ بات" بھی سمجھ نہیں آتی۔
انقلابی جماعتوں کی فکر کا مرکزی نقطہ ایک مثالی اور آدرش سماج کا قیام ہے۔ یہ شاید ایک فطری انسانی آرزو ہے۔ لیکن جدیدیت (modernity) نے انسان کی اس فطری آرزو کو ایک metanarrative بنا دیا۔ ہماری مذہبی انقلابی جماعتیں جدیدیت کے اسی metanarrative کے زیرِ اثر پروان چڑھی ہیں۔
ایک آئیڈیل معاشرے کا قیام انسان کا دیرینہ خواب ہے۔ تاریخ میں ایسے دور بھی آتے رہے جب اخلاقی اقدار مظبوط تھیں، معاشرے میں عدل، سکھ اور شانتی تھی اور ایسے کلجگ بھی آتے رہے جہاں بدامنی، ظلم اور دکھ تھا۔ سوال یہ ہے کہ انسانی سماج میں عدل اور شانتی مستقل قرار کیوں نہیں پاتے؟ عدل کے بعد ظلم اور روشنی کے بعد اندھیرا کیوں انسان کا مقدر ہے؟ یہ ایک مشکل سوال ہے۔
تاریخِ انسانی میں اندھیرے اجالے کا یہ کھیل ابھی بھی سماجیات اور نفسیات کے علماء کے لیے ایک معمہ ہے۔ کیا اندھیرے اجالے کا یہ کھیل در اصل انسان کے باطن میں ہے اور خارج میں اس کی صرف پروجیکشن ہوتی ہے؟ یا تاریخ اور سماجی ڈھانچہ اصل ہے اور وہ انسانی باطن کو بھی اپنے رنگ میں رنگ لیتا ہے؟ باطن پہلے ہے، خارج بعد میں یا خارج پہلے ہے اور باطن بعد میں؟ اس سوال کے جواب میں پنہاں ہے آپ کا تصور سماج اور تصورِ انسان جن پر مبنی ہیں اصلاح اور انقلاب کے تمام نظریات۔
سماج کیا ہے؟ یہ عمرانیات کا آسان سا سوال دکھائی دیتا ہے۔ عمرانیات کے پہلے سمسٹر کے طلباء ہمیں بتائیں گے کہ معاشرہ افراد کا ایک ایسا گروہ ہے جو ایک جغرافیائی خطے میں رہتا ہے اور ایک مخصوص ثقافت کا حامل ہے۔ کاش انسانی صورتِ حال نفسیات و عمرانیات کی کتابوں کے مطابق ہوتی۔
جدید مغربی عمرانیات کے بانی جن میں آگسٹ کونت (August Comte)، ہربرٹ اسپنسر (Herbert Spencer)، اور ایمیل درخایم(Emile Durkheim) شامل ہیں، سماج کو فرد سے بالکل الگ ایک مستقل بالذات حقیقت کہتے ہیں۔ درخایم کہتا ہے
Society is sui generis.
یعنی انسانی معاشرہ افراد کا محض مجموعہ نہیں ہے بلکہ اپنی نوع میں ایک جدا گانہ وجود رکھتا ہے۔
معاشرے کے عام تصور کی ایک ریاضیاتی مساوات (mathematical equation). کی سادہ شکل کچھ یوں ہو گی:
Society = Individual 1+ Individual 2+... Individual n
where n is a positive integer, n>0
لیکن انیسویں صدی کے مغربی علماء عمرانیات کے نزدیک یہ مساوات غلط ہے۔ ان کے نزدیک معاشرہ افراد کے مجموعے کے "برابر" نہیں ہوتا بلکہ اس سے بڑا ہوتا ہے۔ یعنی
Society > Ind 1+Ind 2+...Ind n
n>0
یہ مانا گیا کہ معاشرہ فرد سے باہر خارج میں نہ صرف موجود ہے بلکہ فرد پر حاکم ہے۔ گویا افراد مل کر معاشرہ نہیں بناتے بلکہ معاشرہ افراد کی تخلیق و تشکیل کر رہا ہے۔
اس تصورِ سماج کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ سماجی ڈھانچہ ہی انسانی صورت حال کی کلید ہے۔ آپ انسانوں کو بدلنا چاہتے ہیں تو سماجی ڈھانچہ بدل دیجیے۔
نیا سماجی ڈھانچہ = نیا انسان
لہٰذا
انقلاب زندہ باد!
ہماری انقلابی جماعتوں کی بنیاد انیسویں صدی کے اسی تصور سماج پر ہے۔
جدید عمرانیات کے اس ابتدائی دبستان کے بعد دیگر مکاتب بھی ابھرے۔ کچھ ماہرینِ عمرانیات نے سماج کو یوں دیکھا کہ وہ کوئی macro خارجی ڈھانچہ نہیں ہے بلکہ micro level پر افراد ہی کے باہمی interaction کا نام سماج ہے۔
پھر منظر پر کچھ اور sociological perspectives آتے ہیں جو نہایت دلچسپ اور اہم ہیں یعنی phenomenology اور ethnomethodology. ان کے نزدیک سماجی ڈھانچہ خارج میں حقیقی معنوں میں وجود نہیں رکھتا بلکہ ہمیں صرف یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس کا کوئی خارجی وجود ہے۔ ان کے نزدیک سماجیات کی اصل سمت یہی ہونی چاہیے کہ اس احساس کا کھوج لگاۓ کہ ہمیں یہ دھوکا کیونکر ہوتا ہے۔ نہ کہ سماجی ڈھانچے کو پہلے ہی سے قائم بالذات مان لیا جائے۔ ان کے نزدیک معاشرے اور سماجی ڈھانچے کا تصور ایک سراب ہے۔ زیادہ سے زیادہ ایک convenient fiction۔ ایک میٹرکس (matrix) یا مایا جال۔
اگر آپ کو یہ ساری بات عجیب و غریب لگ رہی ہے تو واقعتاً انسانی صورتِ حال عجیب و غریب ہی ہے۔ انسان کا باطن کائنات کی سب سے بڑی mystery ہے۔
دینی روایت کے مطابق ایک روشن دل ہی دوسرے دل کو اجیار سکتا ہے، ایک بیدار روح ہی دوسری روح کو جگا سکتی ہے۔ تاریخ اور سماج کا نظام اس میں معاون یا مخالف ہو سکتے ہیں لیکن کوئی حتمی کردار ادا نہیں کر سکتے۔ بہترین انسان اور اخلاق و حکمت کے معلم اکثر بدترین سیاسی و سماجی حالات میں پیدا ہوئے ہیں جو ممکن نہیں ہے اگر انسان محض ایک Social Product ہے اور فقط اپنے زمانے کے سماج کی پیداوار ہے۔
(یہ وہ مقام ہے جہاں انقلابی جماعتوں کے لوگ مجھ سے مایوس ہوں گے اور میرا مذاق اڑائیں گے، مایوسی میں تو نہیں البتہ اپنا مذاق اڑانے میں، میں بھی ان کے ساتھ شریک ہوں گا۔)
جدیدیت کے مطابق دل، روح اور باطن محض چند لفظ ہیں جنہیں سائنس ثابت نہیں کر سکتی۔ یہ انسان کی توہم پرستی کے زمانے کی یادگار ہیں۔ اصل چیز خارجی ہے اور مادی ہے۔ انسانی سماج کے خارجی مادی حقائق انسان کی عقل اور شعور میں رنگ بھرتے ہیں۔ لہٰذا معاشرہ اور اس کا نظام پہلے ہے اور فرد بعد میں اور قلب اور روح کی تو سرے سے گنجائش ہی نہیں۔
لہٰذا کارل مارکس اعلان کرتا ہے کہ وہ انسانی الجبرے کی equation میں Independent variable کی value معلوم کر چکا ہے اور نیوٹن کے قوانینِ حرکت کی طرح انسانی سماج اور اس کی حرکت کے قوانین دریافت کر چکا ہے، اور یہ کہ کسی عہد کے انسانی سماج کا شعور اس کے مادی یعنی معاشی نظام ہی کا پرتو ہوتا ہے، اور یہ کی انسانی تاریخ دراصل معاشی طبقات کی باہمی آویزش سے ہی حرکت پذیر ہوتی ہے، اور تاریخ کی یہ حرکت جاری رہے گی تاآنکہ ایک ہمہ گیر انقلاب ان تضادات کو ختم نہ کر دے جو معاشی طبقات کی بنیاد ہیں۔
ایک ایسے انسان کے لیے جس کا خدا پر سے اعتبار اٹھ چکا ہو، روح اور قلب جس کے لیے توہم پرستی ہوں، جو ہر انسانی جذبے کی اساس بائیو کیمسٹری میں تلاش کرتا ہو، کارل مارکس کے فلسفہ تاریخ میں بہت اپیل تھی۔
مارکس کا فلسفہ یورپ کے نوجوانوں میں تیزی سے مقبول ہوا۔ اس کی بڑی وجہ یہ نہ تھی کہ یہ فلسفہ فی نفسہ بہت منطقی تھا۔ اکثر مارکسسٹ انقلابی تو سرے سے فلسفے میں دلچسپی بھی نہ رکھتے تھے۔
بڑی وجہ یہ تھی کہ مارکسیت نے اس خالی پن کو بھرا تھا جو مذہب کے رخصت ہونے سے پیدا ہوا تھا۔ مارکسزم میں ایک اخلاقی بلکہ روحانی اپیل بھی تھی۔ انسانی دکھوں کے علاج کا دعویٰ بھی تھا اور دوسری طرف سائنس ہونے کا بھی دعویٰ تھا۔ سائنس کی دیوی سے لوگ پہلے ہی مسحور ہو چکے تھے۔
مذہب سے خلاصی، سائنس کی کشش، انسانیت کا درد، ایک بامقصد مشن کی فراہمی اور ایک ایسا فکری بیان جو ہر چھوٹے بڑے واقعے کی توجیہ کر سکے۔۔۔یہ سارے مصالحے الگ الگ تو دوسری دکانوں پر بھی دستیاب تھے لیکن اکٹھے صرف مارکسیت میں ملتے تھے اور یہی بنیادی سبب تھا مارکسزم کی اپیل کا۔
شعور اور لاشعور دونوں سطحوں پر جدیدیت کے ان سماجی تصوّرات اور فکری و سیاسی تحریکوں نے ہماری دینی روایت پر اثر ڈالا۔ خصوصاً انیسویں صدی کے مغربی تصور سماج ، مارکسزم اور روس کے انقلاب نے ہماری مذہبی انقلابی جماعتوں کی فکر پر گہرا اثر ڈالا ۔ حتیٰ کہ وہ جماعتیں جو بظاہر مغربی تہذیب اور مارکسزم کو رد کرتی ہیں اپنے فکری اور تنظیمی ڈھانچے اور اپنی سیاسی حکمت عملی میں مارکسی تحریکات ہی سے متاثر نظر آتی ہیں۔
لیکن اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ جدیدیت کے ان سیاسی رجحانات کے زیر اثر ہماری مذہبی انقلابی جماعتوں نے دین کا مزاج ہی بدل ڈالا۔ ایک سیدھا سادہ نیک انسان جو اللّہ کو یاد کرتا ہے، آخرت کی فکر کرتا ہے، خدا سے ڈرتا ہے ان کے نزدیک غیر اہم ہے۔ ایک شخص جو اپنی گلی یا محلے میں لوگوں کی بھلائی کا کوئی نیک کام رہا ہے، غیر اہم ہے۔ انفرادی نیکی کی ان کے نزدیک اہمیت ہی نہیں۔ لہذا انفرادی اصلاح کی دعوت پر مبنی تمام جماعتیں ان کے نزدیک اکثر شعوری یا لا شعوری طور پر سامراجی ایجنڈے پر گامزن ہوتی ہیں۔ ان کے یہاں اہمیت ہے تو صرف انقلاب لانے کے لیے ان کی جماعت میں شمولیت کی۔ قرآن کی ساری تفسیر ، سیرت نبوی کی ساری تشریح ، فکر اسلامی کی ساری تعبیر اور تاریخ کا سارا تجزیہ انقلاب کے اسی نقطے کو بنیاد مان کر کیا جاتا ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ انقلابی جماعت کے کارکن نیک نہیں ہوتے اور نماز اور تلاوت کا اہتمام نہیں کرتے۔ وہ سب کچھ کرتے ہیں لیکن ان کی توجہ کا قبلہ ذرا بدل جاتا ہے۔ رب کریم کی محبت و معرفت کا حصول ان کا مقصود نہیں رہتا۔ ان کا دھیان بٹ جاتا ہے، یکسوئی کا قبلہ سرک جاتا ہے۔ ان کے احوال کی کیمسٹری بدل جاتی ہے۔ ان کے زبان و قلم تو ہوشیار ہوتے ہیں مگر ہر وقت کی سیاسی گفتگو، دوسروں پر تنقید اور انقلابی جماعت کی مینجمنٹ ان میں آخرت کا ذوق و شوق ماند کر دیتی ہے، ان کے ultimate concerns انقلاب پر ختم ہوتے ہیں نہ کہ رب کی رضا و محبت پر، گو جماعتی لٹریچر میں تحریر یہی ہوتا ہے کہ یہ ساری تگ و تاز خدا کے لیے ہے۔ یہ ساری تبدیلی بڑے دبے پاؤں آتی ہے۔ یہ جماعتی لٹریچر میں کہیں لکھی نہیں ہوتی۔ یہ لکھنے پڑھنے میں کہیں بھی نہیں ہوتی۔ بس جماعت کے مجموعی ماحول میں موجود ہوتی ہے اور بہت باریکی سے قلوب میں داخل ہو جاتی ہے۔
باریکی اور لطافت سے داخل ہونے والے یہ سگنلز سب سے زیادہ طاقتور ہوتے ہیں اور یہی دل کے حال کو متعین کرتے ہیں۔ لہذا خدا کی محبت حسی اور قلبی تجربہ نہیں بن پاتی۔ واردات نہیں بن پاتی۔ زیادہ سے زیادہ ذہن میں محفوظ ایک بات ہوتی ہے۔ تزکیۂ نفس اور تصفیۂ قلب بجائے خود مقصد نہیں رہتے بلکہ ذریعہ بن جاتے ہیں ایک انقلابی میں روحانی قوت پیدا کرنے کا، تاکہ وہ اصل مقصد حاصل کر سکے یعنی انقلاب لا سکے۔ قرآن کتابِ انقلاب ہے، رسول صلی اللہ علیہ وسلم پیغمبرِ انقلاب ہیں، صحابہ رہبرِ انقلاب ہیں۔ غرض بندگی کے تمام اقوال، افعال اور احوال انقلاب کے نعروں تلے دب جاتے ہیں اور نظریۂ انقلاب چپکے سے ایمان کی جگہ لے لیتا ہے۔