انیسویں صدی میں جنوبی ایشیا میں مذہبی شناختوں کی تشکیل (۲۱)

ڈاکٹر شیر علی ترین

اردو ترجمہ: محمد جان اخونزادہ

(ڈاکٹر شیر علی ترین کی کتاب  Defending Muhammad in Modernity کا بارہواں باب)



تیسرا حصہ -- بین الدیوبندی تنازعات

بارھواں باب: اندرونی اختلافات


ایک بار مولانا رشید احمد گنگوہی مکہ مکرمہ میں اپنے شیخ حاجی امداد اللہ مہاجر کی زیارت کرنے گئے۔ حسن اتفاق سے اس وقت حاجی صاحب کے پڑوس میں محفل میلاد جاری تھی۔ حاجی صاحب نے مولانا گنگوہی سے محفل میلاد میں شرکت کی درخواست کی۔ مولانا گنگوہی نے درخواست سنتے ہی اسے پرزور انداز میں رد کیا اور کہا: "حاجی صاحب! میں میلاد میں کیسے شریک ہو سکتا ہوں، جب کہ میں ہندوستان میں دوسرے لوگوں کو اس بری محفل میں شرکت سے روکتا ہوں"۔ یہ جواب سنتے ہی حاجی صاحب مسکرائے اور مولانا گنگوہی سے کہنے لگے: "اللہ آپ کو جزاے خیر دے۔ میں میلاد میں آپ کی شرکت سے اتنا خوش نہ ہوتا، جتنا آپ کے اس انکار سے خوش ہوا، کیوں کہ جس چیز کو آپ حق سمجھتے ہیں، اس پر آپ مضبوطی سے قائم ہیں"۔ بعد میں اسی دن جب حاجی صاحب محفل میلاد میں شرکت کرنے گئے، تو مولانا گنگوہی کے ایک شاگرد جو اس ملاقات میں ان کے ساتھ تھے، بھی اپنے شیخ کو بتائے بغیر حاجی صاحب کے ساتھ چلے گئے۔ جب محفل ختم ہوئی، تو مولانا گنگوہی کے شاگرد نے کہا: "اگر میرے شیخ مولانا رشید احمد گنگوہی اس محفل میلاد میں شرکت کرتے، تو وہ بھی اسے مسترد نہ کرتے، کیوں یہ تمام قسم کی خرابیوں اور ناجائز اعمال سے پاک تھی"1۔

یہ واقعہ اکابرینِ دیوبند کے درمیان متنازعہ رسمی اعمال میں باریک تغیرات اور مذاق ومزاج کے اختلاف کی تصویر کشی کرتا ہے۔ اس واقعے میں جس اختلاف کا ذکر ہے، اسے فقہ/تصوف کے تقابلی خانے میں نہیں بٹھایا جا سکتا، نہ ہی یہ ایک حقیقی یا واضح اختلاف کی صورت ہے۔ اس کے بجاے یہ ایک ایسے اختلاف کی مثال ہے، جو محبت اور اطاعت کے آداب سے مکمل مطابقت رکھتا ہے۔ میلاد کے متعلق حاجی صاحب اور مولانا گنگوہی کا موقف ایک دوسرے سے یک سر مختلف تھا، لیکن انھوں نے اس اختلاف کا اظہار ایک ایسے انداز میں کیا، جس سے مرید اور شیخ کے درمیان تعلق کو کوئی گزند نہیں پہنچا، نہ ہی اس کا تقدس پامال ہوا۔اس اختلاف کا عمل اور اس کے متعدد پہلو اس باب کا موضوع ہیں۔

بلکہ زیادہ وسیع تناظر میں دیکھا جائے تو یہ باب متنازعہ اعمال سے متعلق اختلافی سوالات پر دیوبندی مسلک کے اکابرین کے درمیان داخلی اختلافات کا جائزہ لیتا ہے۔ مزید برآں یہ ان مناہج کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے، جن کے ذریعے انھوں نے یکساں مسلکی فکر کے اندر ان اختلافات کا اظہار کیا۔ محبت اور اطاعت کا تعلق نباہنے کے باوجود اکابر دیوبند نے ایک دوسرے سے دقیق تاہم واضح انداز میں اختلاف کیا۔ بلکہ یہ باب بطور خاص دیوبندی بریلوی قضیے میں حاجی صاحب کے کردار کو بھی موضوعِ بحث بناتا ہے۔ اس مقصد کے لیے حاجی صاحب کی ایک اہم رسالے کو زیربحث لایا جائے گا، جو انھوں نے انیسویں صدی کے اواخر میں ہندوستانی علما کے مناظرانہ جوش وجذبے کو ٹھنڈا کرنے کے لیے لکھی تھی۔ یہ رسالہ اردو میں لکھا گیا تھا، اور اس کا نام 'فیصلۂ ہفت مسئلہ' تھا۔ اس رسالے میں حاجی صاحب نے ایک ایسا طرز استدلال اختیار کیا ہے، جس میں بیک وقت شرعی حدود سے ایک گہری وابستگی بھی ہے، اور بین المسلمین ہم آہنگی اور یک جہتی کے حصول کی کوشش بھی۔

رسالہ حاجی صاحب نے 1894 میں اپنی وفات سے پانچ سال پہلے لکھا تھا۔ یہ تقریباً چھ صفحات کا ایک مختصر رسالہ ہے، جس میں حاجی صاحب نے سات متناعہ رسمی اعمال اور اعتقادی مسائل پر بحث کی ہے: (1) عید میلاد النبی، (2) مُروَّجہ فاتحہ، (3) اللہ کے سوا کسی اور کو پکارنا (نداے غیر اللہ)، (4) مسجد کے اندر دوسری جماعت پڑھنا (جماعتِ ثانیہ)، (6) خدا کے جھوٹ بولنا کا امکان (امکانِ کذب)، (7) خدا کا حضرت محمد ﷺ کی نظیر پیدا کرنے کا امکان (امکانِ نظیر)۔ چوں کہ ہندوستان میں میلاد کا مسئلہ سب سے زیادہ اختلافی اور بحث ومباحثہ کا موضوع تھا، اس لیے فیصلۂ ہفت مسئلہ میں سب سے زیادہ طویل بحث اس پر ہے۔ میلاد کے مسئلے پر حاجی صاحب نے ان بنیادی اصولوں اور حکمت ہاے عملی کا اطلاق بھی کیا، جو ان کی نظر میں ایسے متنازع مسائل میں بروے کار لانے چاہییں۔

فیصلۂ ہفت مسئلہ ان پہلی کاوشوں میں سے ہے، جس نے بریلوی دیوبندی اختلاف کو ہوا دینے والے متنازعہ اور پیچیدہ مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی تھی۔ حاجی صاحب کو اس تنازع کے حل میں ذاتی دل چسپی تھی، کیوں بریلوی اور دیوبندی مسالک دونوں میں ان کے مریدین تھے، اگر چہ وہ بانیانِ دیوبند کے صوفی شیخ ہونے کے حوالے سے زیادہ مشہور ہیں۔ اگر چہ حاجی صاحب اپنے دیوبندی مریدوں کی طرح باضابطہ عالم نہ تھے، تاہم اسلام میں بدعت کی حدود کے پُرپیچ قانونی مسائل کی تشریح کے بارے میں ان کا یہ رسالہ ایک صوفی عالم کی ایک شاہ کار تحریر کی حیثیت رکھتا ہے۔ حاجی صاحب نے کوشش کی کہ دیوبندیوں اور بریلویوں کی نظریاتی آرا میں مشترکات تلاش کرکے انھیں باہم قریب لائے۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ ان کے رسالے کی اشاعت کے بعد ان کی مبنی برمفاہمت تشریح کا الٹا اثر ہوا کہ ہر دو فریق نے اسے اپنے اصلاحی پروگرام کی تائید سمجھا۔

حاجی صاحب کی فکر میں موجود ابہام نے دیوبندی حلقوں کے درمیان بھی کافی ہلچل پیدا کی، جس کی وجہ سے ان کے دیوبندی مرید مجبور ہوئے کہ شیخ ومرید کے درمیان اختلاف کی حدود میں رہتے ہوئے متعلقہ مسائل کو موضوع بحث بنائیں، اور حاجی کی فکر کے ان پہلوؤں کی وضاحت کریں، جو بظاہر ان کی اصلاحی تحریک کے مخالف تھے۔ آخر کار 'فیصلۂ ہفت مسئلہ' سے متعلق ایک نامور دیوبندی عالم کے ایک خواب کے ذریعے (جس کا ذکر بعد میں اس باب میں کیا جائے گا)، جس میں رسول اللہ ﷺ خود نمودار ہوئے، اور علماے دیوبند کے حق میں فیصلہ کیا، اس رسالے میں موجود تعبیری تکثیریت کے کسی امکان کو دفنا دیا گیا۔

اس خواب کو انھوں نے جس طرح پیش کیا ہے، وہ اس اہم ابہام کو واضح کرتا ہے کہ اکابرین دیوبند نے حاجی صاحب کے ساتھ اپنے علمی موقف کا اظہار کس طرح کیا۔ جس وقت وہ اس بات پر اصرار کر رہے تھے کہ ان کا حاجی صاحب کے ساتھ کوئی اختلاف نہیں، بعینہ اسی وقت انھوں نے اپنے موقف کو برتر ثابت کرنے کے لیے خواب کے ذریعے رسول اللہ ﷺ کی تائید حاصل کرنے کی کوشش کی۔ یہ وہ ابہامات اور تضادات ہیں، جس کو یہ باب زیر بحث لاتا ہے۔ تاہم میں حاجی صاحب کے تعارف اور ان کی علمی زندگی سے شروع کرتا ہوں۔ میں یہ بھی واضح کروں گا کہ دیوبندی شجرے میں بالخصوص اور جنوبی ایشیا کی مسلم علمی روایات میں بالعموم ان کا کردار اور مقام کیا تھا۔

حاجی امداد اللہ: ایک جلا وطن روایتی صوفی

حاجی صاحب 1814 میں پیدا ہوئے۔ وہ ایک دل چسپ شخصیت تھے، جو متعدد علمی وفکری اور مختلف النوع زبانی اور مکانی مراکز سے فیض یاب ہوئے تھے۔ وہ کم وبیش پوری انیسویں صدی میں حیات رہے (انھوں نے 1899 میں وفات پائی)، اور جس دور میں وہ جیے، اس دور کا مجسم عبوری کردار تھے۔جیسا کہ حال ہی میں سیما علوی نے اپنی تحقیق میں بتایا ہے کہ حاجی امداد اللہ انیسویں صدی کی جنوبی ایشیا کے ان متعدد علما میں سے تھے، جنھوں نے نہ صرف ماوراے قومیت (transnational) متنوع سلاسل سے استفادہ کیا، بلکہ ایسے سلاسل کی تشکیل بھی دیے2۔

پیدائش کے وقت حاجی صاحب کا اصلی نام امداد حسین تھا، لیکن بعد میں اپنے ابتدائی مربی شاہ محمد اسحاق نے انھیں امداد اللہ کے لقب سے سرفراز کیا۔ بیسویں صدی کے سوانح نگار مولانا محمد انوار الحسن شیر کوٹی نے اس کی ایک مسلک پرستانہ توجیہ یہ پیش کی ہے: "شاید ان کو امداد حسین کا نام پسند نہ آیا کہ اس میں شرک کی بو آتی ہے" (یعنی اس وجہ سے کہ حسین نام کی نسبت شیعیت سے ہے)3۔ حاجی صاحب کی عمر صرف سات سال تھی کہ ان کی والدہ بی بی حسینی (م 1824) وفات پاگئیں۔ وہ نانوتہ کی رہنے والی تھیں۔ ان کے والد محمد امین ان کی پیدائش سے پہلے وفات پا گئے تھے۔ اپنی وفات سے پہلے بی بی حسینی نے وصیت کی تھی کہ ان کے تیسرے صاحب زادے امداد اللہ کو حصول علم میں جسمانی سزا نہ دی جائے، نہ ہی انھیں جھڑکا جائے4۔ گویا کہ وہ اپنے بستر مرگ پر اسی چیز کی تربیت چاہتی تھی جو بعد میں اس کے بیٹے کے منفرد اور صلح جو مزاج کا حصہ بن گیا۔

حاجی صاحب نے سات سال کی عمر میں حفظ قرآن شروع کیا، لیکن انھوں نے اس کی تکمیل بہت بعد میں کی جب وہ مکہ ہجرت کر گئے۔

ان کی علمی زندگی کا ایک فیصلہ کن مرحلہ وہ تھا، جب وہ سولہ سال کی عمر میں مولانا مملوک علی (م 1851) کے ساتھ دلی عازم سفر ہوئے۔ مولانا مملوک علی دلی عربک کالج میں شعبۂ مطالعاتِ شرقیہ کے سربراہ تھے۔ دلی کالج میں ہی حاجی صاحب نے اپنی فارسی اور عربی تعلیم کا ابتدائی مرحلہ مکمل کیا۔ حاجی صاحب کو جس گونج دار شخصیت نے تمام صوفی سلسلوں میں کی تعلیم وتربیت دی، وہ اترپردیش میں مظفر گڑھ کے گاؤں جھنجھانہ سے تعلق رکھنے والے میاں نور محمد جھنجھانوی (م 1843) تھے5۔ شیخ طریقت بننے سے قبل میاں صاحب لوہاری گاؤں (آج کے ہریانہ) میں، جو جھنجھانہ سے تقریباً 53 کلومیٹر کے فاصلے پر تھا، بچوں کو قرآن کریم اور فارسی پڑھایا کرتے تھے۔ ان کا قیام وطعام کے اخراجات اور دو روپے کی ماہانہ تنخواہ علاقے کی ایک مال دار خاتون اقبال بیگم ادا کرتی تھیں۔ وہ ہر ہفتے جمعے کو چھٹی کرکے جھنجھانہ میں اپنے گھر چلے جاتے۔ میاں صاحب نے بعد میں مشہور عالم شاہ عبد الرحیم فاطمی ولایتی (م 1831) سے چشتی سلسلے میں تربیت حاصل کی۔ جھنجانوی کی ارادت میں حاجی صاحب نے چشتی صابری سلسلے میں کمال حاصل کیا6۔ کہا جاتا ہے کہ جب 1848 میں جھنجھانوی صاحب وفات پاگئے، تو حاجی صاحب پر اس کا ایسا اثر ہوا کہ وہ کھانا پینا چھوڑ کر کئی دنوں تک پنجاب میں آوارہ پھرتے رہے۔ ان حالات میں انھیں خواب میں ماضی کے عظیم صوفیا بشمول شاہ معین الدین چشتی، جنھوں نے حاجی صاحب پر سلسلۂ چشتیہ کے اسرار منکشف کیے، کی زیارات ہونے لگیں۔ حاجی صاحب جب تک ہندوستان میں رہے، اپنے آبائی گاؤں تھانہ بھون میں خانقاہ امدادیہ کے نام سے ایک خانقاہ چلاتے رہے۔ اس خانقاہ کو 1857 کی جنگ آزادی کے دوران نذر آتش کیا گیا7۔

اسی طرح حاجی صاحب کی تعلیم وتربیت جدید جنوبی ایشیا کے سب سے بااثر علما نے کی۔ آپ کی تحریریں صوفیانہ مراقبے، فکر اور روایت کے مختلف پہلؤوں سے متعلق ہیں، اور ان میں سب سے زیادہ مشہور کتاب ضیاء القلوب ہے، جس کا ایک عمدہ تجزیہ سکاٹ کگل (Scott Kugle) نے کیا ہے8۔ انھوں نے فارسی اور عربی میں کافی شاعری کی، جن میں 'جہاد اکبر' اور 'گلزار معرفت' جیسی مشہور نظمیں شامل ہیں۔ حاجی صاحب چشتی سلسلے اور دارالعلوم دیوبند کے شجرے میں ایک بلند وبالا مقام پر فائز ہیں9۔ عہد حاضر میں وہ مولانا قاسم نانوتوی، مولانا رشید احمد گنگوہی اور پھر بعد میں مولانا اشرف علی تھانوی جیسے دیوبندی اکابر کے صوفی شیخ کی حیثیت سے زیادہ معروف ہیں۔ جیسا کہ اس باب میں بتایا جائے گا، حاجی صاحب کی شخصیت کی کلیدی خصوصیت باہمی افہام وتفہیم سے محبت اور مناظرانہ معرکہ آرائیوں، تعصب اور اختلاف سے نفرت تھی۔ تاہم ان کی مصالحت پسند طبیعت اور عمومی نرم مزاجی ان کی استعمار مخالف مزاحمت میں نمایاں اور بسا اوقات براہ راست عسکری کردار ادا کرنے میں حائل نہیں ہوئی۔

حاجی صاحب پر اس وجہ سے بغاوت کا الزام لگا کہ انھوں نے 1857 نے کی جنگ آزادی میں گوروں کے خلاف مبینہ طور پر فوجی کارروائی کی تھی۔ اس جنگ میں ان کی شمولیت کی حیثیت اور کردار کا حتمی تعین مشکل ہے۔ البتہ سوانحی مآخذ پورے اعتماد سے حاجی صاحب کو اس جنگ کے ہیرو کے طور پر پیش کرتے ہیں، جو اس معرکے کی تنظیم اور اس میں براہ راست شرکت میں پیش پیش تھے10۔ اس جنگ میں اپنے قریبی متعلقین بشمول مولانا نانوتوی، مولانا گنگوہی اور ان کے بے تکلف دوست حافظ محمد ضامن (م 1857) کی مدد سے انھوں نے کامیابی سے انگریزوں کے ایک ٹینک پر حملے کی منصوبہ بندی کی، جو ضلع سہارن پور کے ایک قصبے شاملی سے گزر رہا تھا۔ بدقسمتی سے حافظ ضامن کو جنگ کے دوران گولی لگی اور وہ شہید ہو گئے۔ اس واقعے کو  دیوبندی تذکروں میں آج تک شدت کے ساتھ یاد کیا جاتا ہے۔ جنگ شاملی کے بعد برطانیہ نے حاجی صاحب کو گرفتار کرنے کی ٹھان لی۔ لیکن وہ معجزانہ طور پر ان تمام کوششوں سے بچنے میں کام یاب ہو گئے۔

اس حوالے سے سب سے زیادہ یادگار اور بار بار سنائی جانے والی حکایت یہ ہے کہ ایک بار جب حاجی صاحب برطانوی پولیس کے تعاقب سے بچ نکلنے کی کوشش میں وہ اترپردیش کے ضلع انبالہ میں گھوڑوں کے ایک اصطبل میں چھپ گئے۔ یہ اصطبل ان کے وفاداروں میں سے ایک شخص راو عبد اللہ کا تھا۔ جب ضلع کا برطانوی کلکٹر (جس کے پاس ضلع کا عمومی انتظام ہوتا ہے) کو حاجی صاحب کے خفیہ ٹھکانے کا علم ہوا، تو وہ انھیں گرفتار کرنے کے لیے عبداللہ کے ہاں آ گیا، اور اس بہانے سے اصطبل کی تلاشی شروع کی کہ وہ کچھ نئے گھوڑے دیکھنا چاہتا ہے۔ عبد اللہ اور ان کے رفقا اور کچھ نہیں کر سکتے تھے، سواے اس کے حاجی صاحب کی گرفتاری کا بے بسی سے انتظار کریں۔ لیکن جب کلکٹر نے اصطبل کے دروازے کو دھکا دیا تو وہاں کوئی نہیں تھا۔ حاجی صاحب معجزانہ طور پر غائب تھے۔ ان کا بستر، جاے نماز اور وضو کے لیے پانی کا لوٹا سب کچھ موجود تھا۔ حتی کہ زمین ان کے وضو کے پانی سے تر تھی۔ لیکن وہ کہیں بھی دکھائی نہیں دے رہے تھے۔ اور جوں ہی انگریز کلکٹر چلا گیا، حاجی صاحب دوبارہ اپنی جاے نماز پر بیٹھے نظر آنے لگے۔ یہ ان کی کرامت تھی11۔ اس کے فوراً‌ بعد وہ پنجاب گئے، اور پاک پتن پر مشہور صوفی بزرگ خواجہ فرید الدین گنج شکر (م 1265) کے مزار کی زیارت کی، اور وہاں سے کراچی کے بندر گاہ چلے گئے۔ 1859 میں وہاں سے وہ ایک بحری جہاز میں سوار ہو کر مکہ چلے گئے، اور پھر زندگی بھر ہندوستان واپس نہیں لوٹے12۔ اپنی زندگی کی آخری چار دہائیاں جلا وطنی میں گزارنے کی وجہ سے ان کے متعلقین نے انھیں 'مہاجر مکی' کا لقب دیا۔

ہندوستان میں رہائش پذیر نہ ہونے کے باوجود حاجی صاحب نے یہاں کے مسلم علمی حلقوں سے انتہائی قریب تعلق استوار رکھا۔ اپنی جلاوطنی کے دوران انھوں نے متعدد مریدوں کی اصلاح وتربیت کی، جن میں سے بعض بعد میں جنوبی ایشیا کے نامور مسلمان اہل علم بن گئے۔ ان کے مریدوں میں نہ صرف علماے دیوبند بلکہ ان کے بہت سے مخالفین بھی شامل تھے۔ بلکہ مولوی عبد السمیع بھی، جو علماے دیوبند کے قدآور حریف اور ان کے خلاف 'انوار ساطعہ' جیسی کاٹ دار تنقید کے مصنف تھے، حاجی صاحب کے قریبی مریدوں میں سے تھے۔ ہندوستان میں مولوی سمیع کو اپنی بیعت میں لینے کے بعد حاجی صاحب نے مکہ مکرمہ میں قیام کے دوران بھی ان سے فعال رابطہ برقرار رکھا، بلکہ تب بھی جب اکابرین دیوبند سے ان کا بحث ومباحثہ زوروں پر تھا۔ حاجی صاحب کے متنوع اور بسا اوقات تنک مزاج پیروکار ہی 'فیصلۂ ہفت مسئلہ' اور اس کے بعد رونما ہونے والے تنازع کے بنیادی کردار ہیں۔

حاجی صاحب کو اپنے مریدین کے تنوع کا بخوبی علم تھا، اور یہ بھی کہ وہ سب ان کے فکری ورثے کے امین ہونے کا دعوی کرتے ہیں۔ بلکہ اس امر پر اختلاف کہ کون حاجی امداد اللہ کا صحیح فکری جانشین ہے، ایک ایسا اختلاف جو اس باب کے نصف آخر کے اکثر حصے میں زیر بحث آیا ہے، ایک عالم کی حیثیت سے ان کے شعور ذات کا ایک اہم پہلو ہے۔ ایک بار اس الجھن کو سراہنے کے انداز میں انھوں نے خود کہا: "ہر کوئی مجھے اپنے رنگ میں دیکھنا چاہتا ہے، لیکن ان میں سے کوئی بھی میرا رنگ نہیں۔ میں پانی کی طرح ہوں۔ جب آپ ایک بوتل میں پانی ڈالتے ہیں، تو یہ اس بوتل کے رنگ کی طرح دکھائی دینے لگتا ہے"13۔

حاجی صاحب کو معلوم تھا کہ ان کی وسیع المشربی اس فضا کے یکسر خلاف ہے، جس میں ہر وقت شدید مناظرانہ جھڑپیں جاری رہتی ہیں، اور جس نے انیسویں صدی کے اواخر کے مسلمان اہل علم کو جھکڑ رکھا ہے۔ انھیں شدت سے احساس تھا کہ ان کا مزاج اس نئے ماحول سے ہم آہنگ نہیں، اور انھوں نے بار بار اس پر اپنے غم اور افسوس کا اظہار کیا۔ مثلاً انوار ساطعہ کی اشاعت کے بعد جولائی 1887 میں اپنے ایک (فارسی) خط میں حاجی صاحب نے مولوی عبد السمیع کی 'تیز قلمی' اور 'غیظ نفسانی' پر اپنی ناراضی کا اظہار کیا۔ حاجی صاحب انھیں لکھتے ہیں: "یہ علما اور اہل علم کا انداز نہیں ہے"۔ حاجی صاحب نے مولوی سمیع سے مطالبہ کیا کہ اس کتاب کی کسی بھی تردید کا جواب دینے سے باز رہے۔ "تمھارا مقصد حق کا اظہار تھا، وہ ہو گیا۔ اب بس کرو" (قصدِ شما اظہارِ حق بود ظاہر شد، بس!)14۔

چند ماہ بعد مولوی سمیع کے نام اپنے ایک اور خط میں حاجی صاحب اسلامی ہند میں مناظروں کے بھڑکتے شعلوں پر نسبتاً زیادہ جذباتی انداز میں نوحہ کناں ہیں: "(ہندوستان میں) اپنے صوفی بھائیوں کے درمیان اختلافات کا سن کر رونا آتا ہے۔ بہتر ہوگا کہ اتفاق رہے، برے جذبات سے دور رہا جائے، اور محبت کا رشتہ استوار کیا جائے۔ یہ طبقۂ علما کی ذمہ داری ہے" (موجبِ از دیارِ معارف است)15۔ جیسا کہ مجھے یاد دہانی کا موقع ملے گا، اتحاد بین العلما کے پیچھے حاجی صاحب کا اصل مقصد یہ تھا کہ عوام کی نظروں میں اہل علم کی حیثیت ووقار اور کشش کا تحفظ کریں۔ دراصل ان کا پروجیکٹ مکمل طور پر ایک ایسے نظام مراتب کی حمایت تھا، جو علما اور سماج کے درمیان اس امتیاز کا تحفظ کرے، جس کی وجہ سے عوام علما سے متاثر اور ان کی قدر کرتے ہیں۔ مناظرانہ بکھیڑے اور جھڑپیں اس نظامِ مراتب کی سالمیت کو کمزور کرتی ہیں۔ اور یہی وہ بنیادی خطرہ تھا، جس سے نمٹنے اور اس کے سدباب کی انھوں نے کوشش کی۔

حاجی صاحب باضابطہ عالم نہ تھے، اگر چہ انھوں نے فقہ اور حدیث کی ابتدائی کتابیں پڑھی تھیں۔ ان کے دیوبندی مریدین فقہی علوم میں ان کی مہارت نہ ہونے کی تاویل کچھ یوں کرتے کہ وہ خدا کی طرف سے عطا کردہ علم (علم لدنی) کے ماہر ہیں، جس کی وجہ سے انھیں علومِ ظاہرہ وباطنہ دونوں میں کمال حاصل ہو گیا ہے۔اس منطق کے رو سے حاجی صاحب نے اللہ تعالیٰ سے براہ راست علم حاصل کیا ہے، اور اس وجہ سے کسی خاص علمی روایت کی باضابطہ تعلیم ان کے لیے غیر ضروری تھی۔ مثال کے طور پر مولانا قاسم نانوتوی کا جواب ملاحظہ کیجیے جب ایک بار ان سے پوچھا گیا: "کیا حاجی صاحب حقیقی عالم ہیں"؟ مولانا نانوتوی نے الزامی جواب دیا: "یہاں پر عالم کے عمومی معنی غیرمتعلق ہے، کیوں کہ حقیقی عالم ہونا صرف خدا کی خصوصیت ہے"16۔ ایک اور موقع پر جب کسی نے حاجی صاحب کے عالم ہونے پر کچھ شک کا اظہار کیا، تو مولانا نانوتوی آب دیدہ ہوئے، اور کہنے لگے: "عالم ہونا کیا بات ہے، وہ تو علما کے بنانے والے (عالم گر) ہیں"17۔

مولانا تھانوی نے بھی حاجی صاحب کے علم لدنی کے حوالے سے اسی طرح کا استدلال پیش کیا ہے: "اگر چہ حاجی صاحب شریعت کے نامور علما میں سے نہ تھے، لیکن وہ سراپا روحانی علوم کے نور سے منور تھے"18۔ ایک بار کسی نے مولانا تھانوی سے پوچھا: "حاجی صاحب میں آخر کیا بات ہے کہ اتنے لوگ علما کو چھوڑ کر ان کے ارد گرد جمع ہو گئے ہیں"؟ مولانا تھانوی نے اختصار کے ساتھ جواب دیا: "ہمارے پاس الفاظ ہیں، اور وہاں معنی"19۔ ایک اور موقع پر مولانا تھانوی نے اپنا علمی کمال جتلانے کے ساتھ ساتھ اپنے شیخ کی روحانی برتری کے لیے ایک دل چسپ انداز میں کہا: "حاجی صاحب نے صرف کافیہ (درس نظامی میں علم النحو کی ایک اہم کتاب) تک پڑھا تھا، اور ہم نے اتنا پڑھا ہے کہ ایک اور کافیہ لکھ سکیں۔ لیکن حضرت کا علم اس درجے کا تھا کہ ان کے مقابلے میں علماے شریعت کے علم کی کوئی حقیقت نہیں تھی20۔

ان بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ اکابرین دیوبند نے متفقہ طور پر شرعی علوم میں حاجی صاحب کی عدم مہارت کی ایسی تاویل کی، جس سے ان کے دینی استناد کو تقویت پہنچی۔ لیکن علوم دینیہ میں باضابطہ مہارت نہ ہونے کے باوجود فیصلۂ ہفت مسئلہ میں حاجی صاحب نے عمدہ انداز میں فقہی اور کلامی دلائل ترتیب دیے۔ بلکہ جیسا کہ میں ذیل میں بتاؤں گا کہ فیصلۂ ہفت مسئلہ میں حاجی صاحب کے طرز استدلال سے کوئی ان پر واضح مسلکی لیبل نہیں لگا سکتا۔  انھوں نے بہت تخلیقی انداز میں متعدد طریق ہاے استدلال اور مصادر علم بشمول فقہ، تصوف اور روزمرہ کے تجربات سے استفادہ کرکے باہمی افہام وتفہیم پر مبنی ایک ایسا اصول تعبیر پیش کیا، جس میں مکمل تنوع تھا۔ اس اصول تعبیر پر فقہ/تصوف، روادارانہ/غیر روادارنہ اور معتدل/انتہاپسندانہ جیسے سطحی تقابلات کا اطلاق نہیں کیا جا سکتا۔ میں اب اس اصول تعبیر کا ایک تفصیلی جائزہ پیش کرتا ہوں۔

باہمی افہام وتفہیم کے اصول: فیصلۂ ہفت مسئلہ کی ساخت

کس چیز نے حاجی صاحب کو فیصلۂ ہفت مسئلہ لکھنے پر آمادہ کیا؟ آخر وہ کون سی مجبوری تھی جس کی وجہ سے انھوں نے جنوبی ایشیا کے متحارب دھڑوں کے درمیان مفاہمت کے حصول کا بیڑا اٹھایا؟ انھوں نے آغاز ہی میں ان سوالات کو موضوع بحث بنایا ہے:

یہ امر مسلمات میں سے ہے کہ باہمی اتفاق دنیوی ودینی برکات کا باعث ہے، اور نا اتفاقی دنیوی اور دینی نقصانات کی وجہ ہے۔ آج کل بعض فروعی مسائل میں اس قدر اختلاف واقع ہوا ہے، جس کی وجہ سے طرح طرح کی لڑائیاں اور مشکلات جنم لے رہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں عوام اور خواص اہل علم کا وقت برباد ہو رہا ہے۔ حال آں کہ ان میں سے اکثر امور میں اختلاف لفظی نزاع ہے، اور دونوں مخالف فریقوں کا مقصد ایک ہوتا ہے۔ عموماً مسلمانوں اور خصوصاً اپنے متعلقین کی یہ حالت دیکھ کر بہت صدمہ ہوتا ہے۔ اس لیے فقیر کے دل میں آیا کہ مذکورہ مسائل کے متعلق ایک مختصر سا مضمون قلم بند کرکے شائع کیا جائے۔ قوی امید ہے کہ اس سے یہ اختلافات اور کش مکش ختم ہو جائے گی21۔

انھوں نے اس رسالے میں جن مسائل کو موضوع بحث بنایا ہے، اس کی علت بھی وہ بیان کرتے ہیں۔ وہ واضح کرتے ہیں کہ میں نے ان مسائل کا انتخاب اس لیے کیا کہ میرے مریدوں کے درمیان جو اختلافات ہیں، وہ گنے چنے ہیں۔ دوسرے یہ کہ ان سے امید ہے کہ وہ میری بات مانیں گے۔  باقی لوگوں سے یہ توقع نہیں۔ مسائل کی ترتیب کی بابت وہ کہتے ہیں کہ سب سے پہلے میں نے ان مسائل کو بیان کیا ہے، جس میں زیادہ اختلاف ہے، اس کے بعد ان کو، جن میں اختلاف نسبتاً کم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میلاد کو سب سے پہلے زیر بحث لایا گیا ہے۔ حاجی صاحب اپنے تعارف کا خاتمہ ایک سخت تنبیہ سے کرتے ہیں: "اگر کوئی شخص اس تحریر کو قبول کرکے اس سے فائدہ اٹھا لے، تو مجھے اپنی دعا میں یاد فرما لے۔ لیکن کوئی بھی اس کے جواب کی فکر نہ کرے، کیوں کہ میرا مقصد ہرگز مناظرہ کرنا نہیں"(3)۔

حاجی صاحب کے موقف میں بہت کچھ ایسا تھا جسے دیوبندی بغیر کسی ہچکچاہٹ کے قبول کرسکتے تھے۔ مثلاً اپنے دیوبندی مریدوں کی طرح حاجی صاحب نے باصرار کہا: میلاد میں شامل کردہ تخصیصات کو واجب سمجھنا بدعت (ان کے اپنے الفاظ میں 'غیر دین کو دین میں داخل کر لیا جاوے') ہے، مثلاً رسول اللہ ﷺ کے احترام میں کھڑے ہونے (قیام) کو(4)۔

حاجی صاحب نے یہ بھی بتایا کہ بدعت اور جواز کی درمیان حد اس وقت پامال ہو جاتی ہے، جب ایک شخص میلاد کی تخصیصات کو نماز اور روزے جیسے فرائض سے گڈ مڈ کرنے لگے۔ اس اصول کی وضاحت وہ اپنے انداز میں یوں کرتے ہیں:

"کوئی شخص یہ اعتقاد رکھتا ہے کہ اگر متعین تاریخ پر میلاد نہیں پڑھا گیا، یا قیام نہ ہوا، یا خوش بو اور شیرینی کا بندوبست نہیں ہوا تو ثواب نہیں ملے گا، تو بے شک یہ اعتقاد مذموم ہے۔ کیوں کہ یہ حدود شرعیہ سے تجاوز ہے۔ اسی طرح مباح عمل کو حرام اور گمراہی سمجھنا بھی مذموم ہے۔ الغرض ان دونوں صورتوں میں حدود سے تجاوز (تعدی حدود) پایا جاتا ہے (4)۔

یہ ایک صوفی شیخ کی جانب سے باریک فروق اور حدود پر مبنی فقہی استدلال پیش کرنے کی ایک عمدہ مثال ہے۔ لیکن حاجی صاحب اور ان کے دیوبندی مریدوں کے درمیان جہاں فقہی زاویۂ نظر میں مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے، وہیں علماے دیوبند کے برعکس حاجی صاحب اس نیت کو بنیادی اہمیت دیتے ہیں، جس کے ساتھ کوئی عمل سرانجام دیا جاتا ہے۔ حاجی صاحب نے یہ دل چسپ استدلال کیا کہ اگر کوئی مولد کی تخصیصات (جیسے قیام، شیرینی کی تقسیم یا وقت کی تعیین) کو اس نیت کے ساتھ ضروری سمجھے کہ یہ کوئی شرعی تقاضا نہیں بلکہ ان کی وجہ سے چند برکات کا حصول ہوتا ہے، تو اس صورت میں یہ مذموم نہیں۔  اس نکتے کی وضاحت کے لیے ان کے اپنے الفاظ پر غور زیادہ مفید رہے گا:

بعض اعمال سرانجام دیتے وقت کچھ تخصیصات کی ضرورت ہوتی ہیں، کیوں کہ اگر ان تخصیصات کی رعایت نہ کی جائے، تو ان اعمال کا خاص اثر مرتب نہیں ہوتا۔ مثلاً بعض اعمال کھڑے ہو کر پڑھے جاتے ہیں۔ اگر بیٹھ کر پڑھے جائیں، تو خاص اثر نہ ہوگا۔ اس پہلو سے اگر کوئی شخص میلاد کے دوران قیام کو ضروری سمجھتا ہے، اور جن لوگوں نے اس تخصیص کو ایجاد کیا ہے، ان کو تجربے، کشف یا الہام کے ذریعے اسے اس کی افادیت معلوم ہو جائے، تو پھر یہ بدعت نہیں ہے (4 - 5)۔

شرعی حدود سے اپنی وفاداری ثابت کرنے کے بعد حاجی صاحب نے علم کے کچھ ایسے ممکنہ ذرائع بھی پیش کیے، جو شریعت اور اس کی حدود سے ماورا ہیں، یعنی وہ علم جو تجربے یا کشف والہام سے حاصل ہوتا ہے۔ ملاحظہ کیجیے کہ حاجی صاحب کا مختلف النوع منہج فقہ/تصوف کے تقابل کو تسلیم نہیں کرتا، نہ ہی اس پر مبنی ہے۔ اس کے برعکس حاجی صاحب اولیا کے تجربات، کشف یا الہام کو اس صورت میں حجت مانتے ہیں، جب اس کی وجہ سے شرعی حدود کی خلاف ورزی نہ ہوتی ہو۔ اگر کوئی میلاد کو شریعت وتصوف کی رو سے جائز طور پر منانا چاہے، تو اس میں موجود تخصیصات کے لیے کشف والہام سے پہلے اسے شرعی حدود کی پاس داری کرنی ہوگی۔

حاجی صاحب کے اصول تعبیر میں ایک کلیدی حیثیت مصلحت کی اصطلاح کو بھی حاصل ہے، جس کا ترجمہ عام طور پر عوامی مفاد یا فلاح وبہبود کیا جاتا ہے۔ تاہم حاجی صاحب کے ہاں یہ عوامی فلاح وبہبود کی بہ نسبت سہولت وآسانی کے معنی میں زیادہ مستعمل ہے۔ اگر میلاد جیسی کسی رسم کی مخصوص صورتیں یا تخصیصات اس وجہ سے کی گئی ہوں کہ ان میں کوئی مصلحت ہے، تو پھر ان صورتوں اور تخصیصات کو بدعت نہیں قرار دیا جا سکتا۔

مثلاً اگر کوئی شخص میلاد کے لیے ایک مخصوص تاریخ مثلا بارہ ربیع الاول کی تعیین کرتا ہے، کیوں کہ اس طرح سے یہ معمول بن جائے گا، اور ہر سال اسی تاریخ آنے پر اس کا کرنا آسان ہوجائے گا، تو یہ تخصیص بدعت نہیں ہوگی۔ قیام کے متعلق بھی حاجی صاحب نے بعینہ یہی استدلال کیا کہ "اگر کوئی شخص میلاد میں قیام کو شرعاً واجب نہیں سمجھتا، بلکہ رسول اللہ ﷺ کی تعظیم کو مقصودی عبادت جانتا ہے، اور اس مصلحت کے لیے اس نے میلاد میں قیام کی تخصیص کی ہے، تو یہ بدعت نہیں ہے"(5)۔ وہ مزید کہتے ہیں: "مصالح کی تفصیل کافی طویل ہے، اور ہر مقام پر الگ الگ مصلحت ہوتی ہے۔ میلاد سے متعلق لکھے گئے رسائل میں بعض مصالح مذکور بھی ہیں" (5)۔

حاجی صاحب نے جس طرح سے رسوم میں موجود تخصیصات اور تعینات کے لیے مصلحت کو جواز کا شرعی پیمانہ بنا دیا ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ سماج کے اجماع سکوتی پر یقین رکھتے تھے۔ اگر کوئی سماج کسی رسم کی ایک مخصوص صورت پر راضی ہو جائے، اور اسے معمول بنا لے، اس بنیاد پر کہ اس کی وجہ سے انھیں متعدد مصالح حاصل ہوتے ہیں، تو پھر حاجی صاحب کی نظر میں انھیں ناجائز قرار دینے کی کوئی ضرورت نہیں۔ حتی کہ اگر کسی رسم میں ان تخصیصات کا جواز شرعی مصادر سے معلوم بھی نہ ہوتا ہو، جب تک وہ سماج میں جڑ پکڑ چکے ہوں، انھیں ناجائز نہیں قرار دیا جا سکتا۔ حاجی صاحب کے لیے کسی سماج کی رسموں کو ان کے مخصوص حالات اور ان کی اپنی آسانی اور سہولت سے علاحدہ نہیں کیا جا سکتا۔ حاجی صاحب نے بڑی دانش مندی سے ایک طرف سہولت اور مصلحت اور دوسری طرف تجرباتی تقاضوں کی اساس پر ہندوستان میں رائج میلاد اور اس میں موجود تخصیصات کے لیے شرعی گنجائش پیدا کی۔

زمان، مصلحت اور سماج

حاجی صاحب کی تفہیمِ مصلحت کی بنیاد وہ انداز بھی تھا، جس میں وہ کسی سماج کی رسمی زندگی اور زمان کے درمیان تعلق کو دیکھتے تھے۔ انھوں نے اس تعلق کو زیادہ وضاحت کے ساتھ ایصال ثواب کی بحث کے ذیل میں بیان کیا۔ یہ ان کی نظر میں میلاد کے بعد دوسرا شدید متنازعہ مسئلہ تھا۔ حاجی صاحب نے اس رسم کی پوری تاریخ بیان کی ہے، تاکہ وہ اس استدلال اور عمل کو واضح کرے، جس کے ذریعے اس رسم کی مخصوص شکلیں اور عناصر جنوبی ایشیا کے مسلمانوں میں رائج ہو گئیں۔ ذیل میں، میں اس تاریخی خاکے کی کچھ جھلکیاں پیش کرتا ہوں۔ یہ بطور خاص اس بات کی ایک اچھی مثال ہے کہ حاجی صاحب نے کس طرح زمان، رسم اور سماجی اقدار کے باہمی ربط کو اس غرض کے لیے پیش کیا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایک رسم سے جڑی نئی شکلوں اور تخصیصات کو جواز دیا جائے۔ انھوں نے یہ کہانی کچھ اس طرح بیان کی ہے:

تامل سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سلف میں یہ تو یہ عادت تھی کہ وہ کھانا پکا کر مسکین کو دے دیتے تھے، اور دل سے ایصال ثواب کی نیت کر لیتے تھے۔ متاخرین میں سے کسی کو یہ خیال ہوا کہ جیسے نماز میں صرف دل سے نیت کافی ہے، لیکن عوام کے لیے دل سے موافقت میں زبان سے کہنا بھی مستحسن ہے،اسی طرح اگر ایصالِ ثواب میں بھی زبان سے کہہ دیا جائے کہ یا اللہ اس کھانے کا ثواب فلاں شخص کو پہنچ جائے، تو بہتر ہے۔ پھر کسی کو خیال ہوا کہ اس لفظ سے جس چیز کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے یعنی کھانا، اگر وہ بھی سامنے موجود ہو، تو اس سے قلبی استحضار زیادہ ہو۔ اور اسی وجہ سے کھانا سامنے رکھا جانے لگا۔ پھر کسی کو یہ خیال ہوا کہ یہ تو محض دعا ہے، اگر اس کے ساتھ کچھ کلامِ الہی بھی پڑھا جائے تو قبولیتِ دعا کی بھی امید ہے، اور اس کلام کا ثواب بھی پہنچ جائے گا۔ کسی نے سوچا کہ دعا کے لیے ہاتھ اٹھانا سنت ہے، تو ہاتھ اٹھانا بھی شروع ہو گیا (7 – 8)۔

حاجی صاحب نے بتایا کہ یہ نئے اضافے قابل اعتراض نہیں ہیں۔ اس لیے کہ یہ اضافہ جات اور ایجادات سماج کے طویل اجتماعی فہم اور تجربات کے نتیجے میں سامنے آئے ہیں۔ حاجی صاحب کے تصور مصلحت کی تشکیل میں جس چیز نے بنیادی کردار ادا کیا وہ عوامی منطق تھی، اور اس کے ساتھ سماج کی مصلحت اور ان کی طرف سے خاموش رضامندی کو بھی بنیادی حیuثت حاصل تھی۔ انھوں نے نرمی سے اپنے قارئین کو ذہن نشین کرایا کہ جب ایک رسم طویل زمانے کا طے سفر کرتی ہے، وہ سماج کے مذاق ومزاج، حساسیتوں اور جمالیات کے مطابق نئی شکلیں اور تخصیصات قبول کر لیتی ہے۔ ایسی شکلیں اور تخصیصات جب تک شرعی حدود سے متجاوز نہ ہوں، انھیں بدعت نہیں قرار دیا جا سکتا۔

اس رسم کی تفہیم وتاریخ کے بارے میں حاجی صاحب اور شاہ محمد اسماعیل و مولانا اشرف علی تھانوی کے منہج (جس پر ساتویں باب میں بحث گزر چکی ہے) کے درمیان واضح فرق ملاحظہ کریں۔ شاہ اسماعیل اور مولانا تھانوی نے اس بات کا نوحہ کیا ہے کہ یہ رسم جس مقصد (یعنی صدقے کے ذریعے میت کے لیے ایصالِ ثواب) کے لیے تھا، لوگ اس اصل مقصد کو بھلا بیٹھے ہیں۔ وہ سراپا احتجاج ہیں کہ لوگوں نے اس رسم میں کچھ ایسی قیودات اور تخصیصات شامل کی ہیں، جس کی وجہ سے اس کا اصل مدعا ومقصود فوت ہو گیا ہے۔ اور ان قیودات وتخصیصات کی اندھی تقلید نے ریاکاری اور نام ونمود کی ایک عمومی ثقافت تشکیل دی ہے۔ اس رسم سے متعلق شاہ اسماعیل اور مولانا تھانوی کی فکر کا خلاصہ یہی ہے۔

حاجی صاحب بھی شہرت اور نام ونمود کی خاطر اس رسم کی ادائیگی کو مذموم سمجھتے ہیں، لیکن انھوں نے زمان، رسم اور سماج کے درمیان  تعامل کا ایک بالکل الگ تصور تشکیل دیا ہے۔ شاہ اسماعیل اور مولانا تھانوی کے برعکس حاجی صاحب کو اس رسم کے اصل مقصد کی عدم موجودگی سے کوئی مسئلہ نہیں۔ حاجی صاحب کے نزدیک رسم اور اس کی تخصیصات ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ رسم کا وجود معمول کے مرہونِ منت ہے، جو نتیجتاً اجتماعی تجربات اور غور وفکر سے متاثر ہوتا ہے۔ ایک سماج کی رسمی زندگی کی تشکیل میں زمان اور تاریخ کیا کردار ادا کرتے ہیں؟ حاجی صاحب اور شاہ اسماعیل ومولانا تھانوی کے رویے میں بنیادی فرق کی وجہ اس مسئلے کے متعلق ان کا الگ مختلف زاویہ نظر ہے۔ شاہ اسماعیل اور مولانا تھانوی کے نزدیک زمان اور تاریخ رسمی زندگی پر فاسد اثرات مرتب کرتے ہیں، کیوں کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کسی رسم میں نئی ہیئآت اور تخصیصات آ ملتی ہیں، جن کی وجہ سے اس کا اصل مقصد اور مفہوم دفن ہو جاتا ہے۔ لیکن حاجی صاحب تاریخ اور زمان کے ارتقا کو اس طرح نامبارک تصور نہیں کرتے۔ ان کے نزدیک مقصد اور ہیئت دونوں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ارتقا پذیر رہتے ہیں۔ مقصد ہیئت سے علuحدہ نہیں ہوتا۔ بلکہ کسی رسم کی نئی ہیئآت اور تخصیصات میں ہی، جو سماج نے وقت گزرنے کے ساتھ اپنے تجربات اور ترجیحات کی روشنی میں شامل کی ہوتی ہیں، رسم کا اصل مقصد شامل ہوتا ہے۔ رسم کا مقصد، سماج کا تجربہ اور تاریخ ایک تکون کی صورت میں کام کرتے ہیں۔ اس لیے عوام کو نئی ہیئآت اور تخصیصات کو خیر باد کہنے پر تنبیہ کرنے اور انھیں چھوڑنے کی ترغیب دینے کے بجاے حاجی صاحب نے تصوّرِ مصلحت کی رو سے ان کے لیے گنجائش پیدا کی۔

حاجی صاحب نے اس اصول کا اطلاق اولیا کے عرس منانے پر بھی کیا۔ عرس کا لفظی معنی شادی ہے۔ یہ ایک طویل عرصے سے رائج رسم ہے، جو ہر سال کسی صوفی بزرگ کے یوم وفات یا وصالِ محبوب حقیقی کی یاد میں منایا جاتا ہے۔ اس رسم کے جواز میں رسول اللہ ﷺ کی ایک حدیث پیش کی جاتی ہے: "دولہوں کی طرح آرام کرو" (نم كنومة العروس)۔ یہ حدیث موت اور عشق الہی کے درمیان ایک جاذب اور عاشقانہ انداز میں ربط پیدا کرتی ہے۔ جس طرح شادی میں شب زفاف کو میاں بیوی یک جا ہو جاتے ہیں، اسی طرح موت خدا اور بندے کے درمیان یک جائی کا ذریعہ ہے۔ عرس میں متن، مکان اور رسم سب یکجا ہوتے ہیں۔ مدحیہ قصائد میں صوفی بزرگ کی زندگی اور افکار کو بیان کیا جاتا ہے، مراقبے کیے جاتے ہیں، اور بزرگ کے ایصالِ ثواب کی خاطر کھانا تقسیم کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بزرگ کی یاد اور احترام میں اور بھی اعمال سرانجام دیے جاتے ہیں۔ عام طور پر یہ سرگرمیاں صوفیا کے مزارات یا قبروں پر سرانجام دی جاتی ہیں، اور اس طرح سے ان کی قبروں اور مزارات (جو وصالِ الٰہی کی علامات ہیں) کا ان کی فکر اور جسمانی برکت سے تعلق جڑ جاتا ہے22۔

اس رسم میں ایک متنازع عمل 'سماع' کا ہے۔ سماع ایک ایسا عمل ہے، جو پوری اسلامی تاریخ میں شدید مختلف فیہ رہا ہے۔  اور جس طرح میلاد کے متعلق تنازع ہے، اسی طرح عرس کی تقریبات میں جو تہوار یا میلے جیسا ماحول پایا جاتا ہے، اس پر بھی کافی اختلاف ہے۔ اس اختلاف کا ماخذ یہ حدیث ہے: "تم میری قبر کو میلا نہ بناؤ" (لا تتخذوا قبري عيدًا

حاجی صاحب نے عرس پر بدعت کے الزام کو مسترد کیا۔ انھوں نے وہ مختلف زاویے نمایاں کیے، جن کی رو سے یہ سماج کے متعدد دینی مصالح اور ضروریات کو پورا کرتا ہے۔ اول یہ کہ عرس اولیاے کرام کی ارواح کے ایصالِ ثواب کے پاکیزہ مقصد کی تکمیل کرتا ہے۔ دوم یہ کہ عرس کے موقع پر سلسلے کے اکثر لوگ جمع ہو کر ملاقات کرتے ہیں، جس سے ان کے درمیان محبت میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ایسے موقع پر متعدد مشائخ موجود ہوتے ہیں، اگر کوئی ان میں سے کسی سے بیعت ہونا چاہے، تو اس کو زیادہ تکلیف کا سامنا نہیں کرنا پڑتا (9)۔

لیکن رسول اللہ ﷺ نے جو اپنی قبر پر میلے ٹیلے سے منع کیا ہے، اس کا کیا جواب ہے؟ حاجی صاحب بتاتے ہیں کہ یہ ممانعت اس صورت کے ساتھ خاص ہے، جب وہاں میلہ لگایا جائے، خوشیاں منائی جائیں، اور زینت وآراستگی اور دھوم دھام کا اہتمام کیا جائے، کیوں کہ زیارت قبور کا بنیادی مقصد آخرت کا تذکرہ اور حصولِ عبرت ہے نہ کہ غفلت وزینت۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ قبر پر جمع ہونا بالکل منع ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو مدینہ منورہ میں رسول اللہ کے روضۂ اقدس کے لیے جانے والے قافلے بھی ممنوع قرار پاتے (9)۔ میلاد اور ایصالِ ثواب کے متعلق آپ کا جو منہج تھا، بعینہ اسی اصولی منہج کا اطلاق آپ نے عرس کی تخصیصات کو جواز دینے کے لیے کیا ہے، جس میں سماج کے تجربات اور مصالح بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔

تاہم یہ واضح رہے کہ ان کی نظر میں یہ مصلحت اور تجربہ اسی صورت میں قابل قبول ہے، جب وہ اسی فقہی شرط کے مطابق ہو کہ غیر واجب عمل کو واجب عمل نہ سمجھا جائے۔ حاجی صاحب بیک وقت فقہ اور اس کی حدود سے بھی اپنی وفاداری استوار رکھتے ہیں، اور علم وتجربے کے ایسے دیگر زاویے بھی سامنے لاتے ہیں، جو فقہ سے ہٹ کر ہیں۔ تاہم یہ کہنا زیادہ قرین قیاس ہوگا کہ (علماے دیوبند کی طرح) ان کا زور اس بات پر نہیں تھا کہ واجبات کو غیر واجبات سے خلط نہ کیا جائے۔ اس کے بجاے وہ میلاد وغیرہ جیسی رسموں کے لیے ایسے انداز میں گنجائش پیدا کرنا چاہتے تھے، جس میں شریعت کی حدود پا مال نہ ہوں۔انھوں نے جو درمیانی راہ اختیار کی اس کی بہتر تصویر کشی ان کے اپنے اس بیان سے ہوتی ہے، جس کا حوالہ میں نے پہلے بھی دیا ہے: "جس طرح کسی مباح عمل کو حرام اور ضلالت کہنا مذموم ہے، اسی طرح ایک مباح عمل کو واجب میں بدلنا بھی مذموم ہے" (4)۔

دعوت واصلاح کے آداب

اب میں واپس میلاد کی طرف لوٹتا ہوں۔ حاجی صاحب بڑے محتاط انداز میں اس بات پر زور دیتے ہیں کہ جو علما ان رسموں کو عوام کے تجاوزات کی وجہ سے منع کرتے ہیں، انھیں چاہیے کہ اس بابت پوری حزم واحتیاط سے کام لیں۔ انھوں نے اصرار کیا کہ وہ کسی رسم سے علی الاطلاق منع نہ کریں، جب تک وہ شرکا کے مقاصد اور ان مخصوص حالات کی پوری چھان پھٹک نہ کریں، جن میں یہ عمل سرانجام دیا جا رہا ہے۔ حاجی صاحب کے نزدیک بدعت کا فتوی صرف ان خاص صورتوں میں لگانا چاہیے، جن میں بڑے اعتقادی فسادات جیسے قیام کو واجب سمجھنا بغیر کسی شک وشبہے کے ثابت ہو۔ بصورتِ دیگر کسی خاص رسم جیسے میلاد پر بدعت کا عمومی حکم لگانا نامناسب ہے۔ جیسا کہ وہ لکھتے ہیں: "بعض اہل علم صرف جاہلوں کی بعض زیادتیاں دیکھ کر جیسے موضوع روایات پڑھنا، گانا وغیرہ وغیرہ، جیسا کہ جہلا کی مجلسوں میں ہوتا ہے، عموماً ہر میلاد پر یہی حکم لگا لیتے ہیں۔ یہ بھی انصاف کے خلاف ہے" (5)۔

اگر اس طرح کی سختی کو مانا جائے، تو پھر تو مجالسِ وعظ کو بھی ممنوع قرار دیا جانا چاہیے، کیوں کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ ان مجالس میں مرد وزن کے اختلاط کی وجہ سے فتنے کا خطرہ ہوتا ہے۔ اخلاقی خطرے اور فساد کے محض امکان کے سدباب کے لیے کسی بھی رسم اور پاکیزہ عمل کو پیشگی بند نہیں کیا جا سکتا۔ "ایک پسو کے لیے پورا قالین کیوں جلاتے ہو" (بہر کیکے تو گلیمے را مسوز) (6)۔

حاجی صاحب نے یہ اصول بھی پیش کیا: "جب کوئی شخص کسی رسم کی ادائیگی میں کوئی قابل اعتراض امر کا ارتکاب کر رہا ہو، تو ایک عالم کو چاہیے کہ اسے سمجھائے، اور اس کے عمل کی اصلاح کرے، نہ کہ سرے سے اس رسم کو ممنوع قرار دے" (10)۔ حاجی صاحب زور دے کر بتایا کہ ممانعت سے صرف مسائل ہی پیدا ہوں گے۔ غالب امکان یہ ہے کہ وہ شخص کسی بھی صورت اس رسم کو نہیں چھوڑے گا، اس لیے اس پر اس حوالے سے زور کرنا معاملے کو اور بگاڑے گا۔

حاجی صاحب نے صرف علما سے یہ مطالبہ نہیں کیا کہ وہ اس بابت ایک مثبت ومحتاط رویہ اختیار کریں۔ بلکہ انھوں نے ایک دل چسپ انداز میں عوام سے یہ بھی اپیل کی کہ جب کوئی عالم اپنے سماج میں کسی پر ملامت کرتا ہے، تو عوام کو چاہیے کہ اس کے پیچھے عالم کی جو وجہ ہے، اس کے متعلق حتمی نتائج اخذ کرنے میں عجلت سے کام نہ لیں۔ بالفاظ دیگر اگر وہ دیکھ رہے ہیں کہ ایک عالم کسی شخص پر ملامت کر رہا ہے، تو اس سے وہ ملامت زدہ شخص کو فاسد العقیدہ یا اخروی اعتبار سے نامراد فرض نہ کریں۔ کیوں کہ ملامت کی بہت سی وجہیں ہوتی ہیں (5)۔

اس امر کی وضاحت میں حاجی صاحب کئی مثالیں پیش کرتے ہیں، جب کسی عمل پر کوئی عالم کسی شرعی سقم کی بنیاد پر اعتراض نہیں کرتا۔ مثال کے طور پر ایک بزرگ ایک مجلس میں تشریف لائے اور سب لوگ ان کی تعظیم کے لیے کھڑے ہو جائیں، صرف ایک شخص بیٹھا رہے، تو اس پر اس وجہ سے کوئی ملامت نہیں کرتا کہ اس نے کسی شرعی حکم کو ترک کیا ہے، بلکہ اس وجہ سے کہ اس نے آداب مجلس کی رعایت نہیں کی۔ اسی طرح تراویح میں ختم قرآن مجید کے بعد شیرینی تقسیم کی جاتی ہے۔ اگر کوئی شخص شیرینی تقسیم نہ کرے، تو اس پر ملامت کی جاتی ہے۔ لیکن اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ اس نے ایک نیک رسم کو ترک کیا (5)۔

بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ حاجی صاحب اہل علم کی اصلاحی فکر کو فقہ کے زور دار ہتھوڑے سے بچانا چاہتے تھے۔ عوام کی روزمرہ زندگی کی اصلاح اور تحفظ کے لیے علما کی مصلحانہ کوششوں کو مسلکی اور فقہی تصورات تک محدود نہیں کیا جا سکتا۔ حاجی صاحب نے ان غیر فقہی عوامل کو نمایاں کرکے اس کی مسلکی اور اعتقادی اہمیت کو گھٹا دیا۔حاجی صاحب نے تجویز دی کہ جب ایک عالم کسی شخص کو ملامت کرے تو  سماج کے افراد کو چاہیے کہ وہ یہ نتیجہ اخذ کرنے کے بجائے کہ اس نے خدائی قانون کو توڑنے کے سنگین جرم کا ارتکاب کیا ہے، ان حالات میں ایک زیادہ نرم اور کم ملامتی رویہ اپنائیں۔ حاجی صاحب اپنے اسی وسیع اور لچکدار اصول تعبیر، جس میں سنگین الزامات کے بجاے متعدد امکانات کے لیے گنجائش تھی، سے یہ بہترین موقع فراہم کیا کہ ہندوستانی مسلمانوں کے درمیان بحث ومباحثے کے درجۂ حرارت میں کمی آئے۔ تاہم حاجی صاحب کے لیے سب سے مشکل کام یہ تھا کہ رسول اللہ ﷺ کے علم غیب کے کانٹے دار مسئلے کو حل کرے۔ اب میں اسی مسئلے کی طرف توجہ کرتا ہوں۔

تنوع

رسول اللہ ﷺ کے علم غیب کے مسئلے سے نمٹتے ہوئے حاجی صاحب نے حیرت انگیز طور پر ایک ایسا باریک موقف پیش کیا، جسے بیک وقت دونوں فریق اپنے موقف کے مخالف اور موافق سمجھ سکتے تھے۔ حاجی صاحب نے صراحتاً اس امر کا اقرار کیا کہ رسول اللہ ﷺ میلاد کے دوران متعدد مقامات میں حاضر ہونے کی قدرت رکھتے ہیں۔ وہ اسے یوں بیان کرتے ہیں:

رہا یہ اعتقاد رکھنا کہ میلاد کی مجلس میں رسول اللہ ﷺ رونق افروز ہوتے ہیں، اس اعتقاد کو کفر وشرک کہنا حد سے تجاوز ہے۔ اس لیے کہ یہ امر عقلاً ونقلاً ممکن ہے، بلکہ بعض مقامات پر اس کا وقوع بھی ہوا ہے۔ رہا یہ شبہ کہ آپ ﷺ کو ہر جگہ حاضر ہونے کا علم کیسے حاصل ہوا، یا وہ بیک وقت کئی مقامات میں کس طرح تشریف فرما ہوتے ہیں، تو یہ کمزور شبہ ہے۔ دلائل نقلیہ اور کشفیہ سے آپ ﷺ کے علم وروحانیت کی جو وسعت ثابت ہے، اس کے مقابلے میں یہ ایک ادنی سی بات ہے (6)۔

رسول اللہ ﷺ کی وسعتِ علم کے متعلق بیان دینے کے متصل حاجی صاحب یہ اضافہ کرتے ہیں: "لیکن اس سے آپ ﷺ کے بارے میں علم غیب کا اعتقاد لازم نہیں آتا۔ کیوں کہ علم غیب اللہ تعالیٰ کے خصائص میں سے ہے" (6)۔ تاہم وہ واضح کرتے ہیں کہ: "علم غیب اللہ تعالیٰ کی ذاتی صفت ہے۔ اور جو علم اللہ تعالی اپنی طرف سے عطا کرتا ہے، وہ ذاتی نہیں بلکہ بالواسطہ ہے۔ ایسا علم مخلوق کے حق میں ممکن بلکہ واقع ہے۔ اور امر ممکن کا اعتقاد شرک وکفر کیسے ہو سکتا ہے" (6)۔

حاجی صاحب کے اصول وضع کرنے کی مشق صرف اس پر بس نہیں۔ انھوں نے ایک اور تنبیہ بھی کی: رسول اللہ ﷺ کے علم غیب کا امکان ضروری نہیں کہ واقع بھی ہو۔ ان کے اپنے الفاظ میں: "البتہ ہر ممکن کے لیے وقوع ضروری نہیں"۔ ایسا اعتقاد رکھنا دلیل کا محتاج ہے۔ اگر کسی کو دلیل مل جائے، مثلاً اسے کشف ہو جائے، یا کوئی صاحبِ کشف اسے بتا دے، تو پھر یہ اعتقاد رکھنا جائز ہے۔ ورنہ دلیل کی عدم میں موجودگی یہ ایک غلط خیال ہے۔ اور ایسے شخص کے لیے رجوع کرنا ضروری ہے(6)۔ حاجی صاحب نے اس مسئلے کا تجزیہ اپنے اس نتیجے پر ختم کیا: "لیکن یہ (رسول اللہ ﷺ کے علم غیب کا اعتقاد) کسی طرح بھی کفر وشرک نہیں ہو سکتا" (6)۔ 

حاجی صاحب نے ایک مخصوص انداز میں اس مسئلے کے مختلف پہلوؤں کو نمایاں کرنے کی کوشش کی، تاکہ ایک درمیانی راہ تلاش سکیں، اور ہر مخالف موقف کی تہہ میں کارفرما حساسیتوں اور مفروضوں کو جواز فراہم کر سکیں۔ ان کے کلام کا خلاصہ کچھ یوں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا علم غیب ممکن ہے، لیکن ضروری نہیں، اور ہر چند کہ اس طرح کا علم صرف ذات خداوندی کے ساتھ خاص ہے، تاہم وہ اسے اپنی مخلوقات بشمول نبی اکرم ﷺ کو عطا کر سکتا ہے۔ اس لیے اگر کوئی شخص رسول اللہ ﷺ کے علم غیب میں اعتقاد رکھتا ہے، تو اسے کافر یا مشرک نہیں سمجھنا چاہیے۔

جس انداز میں انھوں نے اپنے موقف کی ترتیب اور پیش کش کی، وہ بھی بہت اہم اور مفید ہے۔ بالخصوص ان کے اور گزشتہ ابواب میں بیان کیے گئے بریلوی اور دیوبندی اکابر کے استدلالی مزاج کے درمیان فرق ملاحظہ کیجیے۔ حاجی صاحب کی یہ کوشش نہیں تھی کہ اپنے مخالفین کے مقابلے میں اپنے موقف کو حتمی طور پر ثابت کریں۔ اس کے بجاے وہ مخصوص اعتقادی مسائل میں کئی طرح کی توجیہات اور ابہامات کے امکان کو واضح کر رہے تھے۔ انھوں نے ان مناہج کا تنوع دکھانے کی کوشش کی، جن کے ذریعے کسی ایک مسئلے کو زیر بحث لایا جاتا ہے، اور اس کا مقصد یہ تھا کہ کسی ایک موقف کو حتمی نہ سمجھا جائے۔ ایک اعتقادی دعوے کو مدلل انداز میں ثابت کرنے کے بجاے انھوں نے ایک ایسا اصول تعبیر اختیار کیا، جو تنوع کا ساعی وداعی تھا، اور اسے اچھا سمجھتا تھا۔

تاہم یہ ابہام ایسا نہ تھا جو معنی سے خالی تھا، اور جس کی بے لگام تشریحات کی جا سکتی تھیں۔اس کے برعکس جہاں ایک طرف حاجی صاحب نے یہ ثابت کرکے دکھایا کہ وہ شد ومد سے شرعی حدود کی پاس داری کرتے ہیں، وہاں انھوں نے ان شرعی حدود کے اندر موجود نزاکتوں اور ابہامات کو بھی ظاہر کیا۔ ابہامات کو نمایاں کرنے سے انھوں نے ایک ایسا اصول تعبیر دیا، جس کا اساسی ہدف انسانی تعلقات کی حفاظت اور استحکام تھا۔ دراصل حاجی صاحب تعبیر وتشریح سے ایک قدم آگے گئے، اور انھوں نے علما اور اہل علم کو اپنے اختلافات کو موضوع بحث بنانے اور حل کرنے کے لیے ایک حد تک تفصیلی خاکہ دیا۔ اس پروگرام کے حصے کے طور پر انھوں نے مخصوص رویوں اور حساسیتوں کو تجویز کیا۔ ان کی نظر میں ان رویوں کے اپنانے سے فتنہ وفساد اور تعصب کے پھیلاو کو روکا جا سکتا ہے۔ حاجی صاحب کی پیش کردہ تجاویز ایک ایسے ضابطۂ اخلاق کی ممتاز مثال ہے، جسے ایک صوفی بزرگ نے اس غرض کے لیے تشکیل دیا ہے کہ اپنے باہم دست وگریباں مریدوں کے درمیان ہم آہنگی اور افہام وتفہیم کی فضا کو قائم کرے۔

آدابِ اختلاف

حاجی امداد اللہ صاحب نے اہل علم کو ترغیب دی کہ وہ اپنے اختلافات سے اس انداز میں نمٹیں جس کی وجہ سے ان کے مخالفین کی نظر میں ان کی حیثیت مجروح نہ ہو، یا جس کی وجہ سے مختلف جماعتوں کے درمیان سماجی تعلقات میں رخنہ نہ پڑے۔ وہ کچھ اس انداز میں نصیحت کرتے ہیں: "انھیں (علما) کو چاہیے کہ فریقِ مخالف سے بغض وکینہ نہ رکھیں۔ نہ انھیں نفرت وتحقیر کی نگاہ سے دیکھیں۔ نہ ان کی تفسیق وتضلیل کریں۔۔۔۔۔ اور باہم ملاقات، خط وکتابت، سلام دعا اور موافقت ومحبت کی رسموں کو جاری رکھیں" (6)۔ اس کے ساتھ وہ اپنے مریدوں کو تلقین کرتے ہیں کہ تردیدات اور جوابی تردیدات سے پرہیز کریں۔ ان کے اپنے الفاظ میں "بلکہ ایسے مسائل میں فتوے نہ لکھا کریں، نہ ان پر مہر ودست خط کریں کہ یہ ایک فضول کام ہے" (6)۔ انھوں نے اپنے باہم دست وگریباں مریدوں کے درمیان صلح وآشتی کو فروغ دینے کے لیے جو انداز اختیار کیا، اس کی سب سے دل چسپ مثال ان کا وہ مشورہ ہے، جو انھوں نے قیام کے شدید متنازعہ عمل کے بارے میں دیا ہے۔

حاجی صاحب کے موقف کا لب لباب یہ کہ اس رسم کے بارے میں ہر گروہ فریقِ مخالف سے حسن ظن رکھے، اور ان متنازعہ مسائل پر محدود اور نرم انداز میں اپنی آرا پیش کرے۔ علاوہ ازیں انھوں نے تجویز کیا کہ ان اختلافی مسائل میں ہر دو فریق ایک دوسرے کی رعایت رکھیں۔ مثلاً جو لوگ قیام کے مخالف ہیں، اگر وہ قیام کے قائلین کی محفل میں شامل ہوں، تو بہتر یہ ہے کہ قائلین اس محفل میں قیام نہ کریں، تاکہ فتنہ واقع نہ ہو۔ اور اگر قیام واقعی ہو، تو پھر مخالفینِ قیام کو بھی اس قیام میں شرکت کرنی چاہیے۔ اور عوام نے جو غلو اور زیادتیاں کر لی ہیں، ان کو نرمی سے منع کریں۔ اور ان کا اس طرح سے منع کرنا ان کی اصلاح کے لیے زیادہ مفید ہوگا (6)۔

یہ بات بہت اہم ہے کہ حاجی صاحب کا نکتہ یہ نہیں کہ اختلاف کرنے والے گروہ اپنے موقف سے بالکلیہ دست بردار ہو جائیں۔ اس کے بجاے وہ اپنی آرا کا اظہار واشاعت اس انداز میں کریں جس میں ان کے مخالفین کے ساتھ حسن ظن سے کام لیا گیا ہو۔ اس طرح سے امید ہے کہ فتنہ وفساد کا سد باب ہو سکے گا۔

اس معتدل رویے کی صورت کیا ہوگی؟ اس سوال کے جواب میں حاجی صاحب نے ٹھوس تجاویز دی ہیں۔ جہاں تک اہل علم کی بات ہے، تو ان کو یہ نصیحت کی ہے کہ میلاد کے قائلین مخالفین کے طرز عمل کی یہ تاویل کریں کہ یا تو ان کی تحقیق یہی ہو گی، یا وہ انتظامی اعتبار سے منع کرتے ہوں گے، کیوں کہ بعض اوقات جب تک اصل عمل کو منع نہ کیا جائے، تب تک قابل اعتراض اعمال سے نہیں بچا جا سکتا۔ دوسری طرف حاجی صاحب نے یہ بھی بتایا: "میلاد کے مخالفین قائلین کے عمل کی یہ تاویل کریں کہ ان کی دیانت دارانہ رائے یہی ہوگی، یا وہ نبی اکرم ﷺ سے غلبۂ محبت میں یہ کام کرتے ہیں" (7)۔

عوام کو حاجی صاحب نے جو نصیحت کی ہے ان کے اپنے الفاظ میں وہ کچھ یوں ہے: "اور عوام کو چاہیے کہ جس عالم کو متدین اور محقق سمجھیں، اس کی تحقیق پر عمل کریں اور فریق مخالف کے لوگوں سے تعرض نہ کریں۔ خصوصاً دوسرے فریق کے علما کی شان میں گستاخی چھوٹی منہ اور بڑی بات کا مصداق ہے۔ غیبت اور حسد سے نیک اعمال ضائع ہوتے ہیں" (7)۔ وہ مزید نصیحت کرتے ہیں: "اور ایسے (اختلافی) مضامین کی کتابیں اور رسائل مطالعہ نہ کیا کریں۔ یہ کام علما کا ہے" (7)۔ حاجی صاحب نے مختصر لیکن پر اثر انداز میں میلاد کے حوالے سے اپنے طرز عمل کا بھی ذکر کیا ہے۔ انھوں نے تسلیم کیا کہ وہ بذاتِ خود میلاد میں شریک ہوتے ہیں۔بلکہ وہ ایک قدم آگے بڑھ کر ببانگ دہل کہتے ہیں: "اور فقیر کا مشرب یہ ہے کہ محفل میلاد میں شریک ہوتا ہوں، بلکہ برکات کا ذریعہ سمجھ کر منعقد کرتا ہوں، اور میں قیام میں لطف ولذت محسوس کرتا ہوں" (7)۔ لیکن فاتحہ کے حوالے سے حاجی صاحب نے اپنا طرز عمل جس طرح بیان کیا ہے، وہ ان کی سوچ وفکر کی بہتر عکاسی کرتا ہے: " فقیر کا مشرب یہ ہے کہ وہ کسی مخصوص ہیئت کا پابند نہیں، لیکن وہ دوسروں پر اس بابت تنقید بھی نہیں کرتا"(9)۔

حاجی صاحب نے اپنے رسالے کے آخر میں ایک وصیت بھی کی ہے، جس میں انھوں نے اپنے مرید اور دارالعلوم دیوبند کے بانیوں میں سے ایک مولانا رشید احمد گنگوہی کی مدح سرائی کرکے دیوبندی تحریک سے اپنی وفاداری کی تصدیق ایک دل چسپ انداز میں کی۔ پس نوشت کی صورت میں انھوں نے اس وصیت میں دیوبند اور مولانا گنگوہی کے مخالفین اور موافقین دونوں کو مخاطب کیا ہے۔ انھوں نے علماے دیوبند کے مخالفین کو وصیت کی کہ وہ ہندوستان میں مولانا گنگوہی کے بابرکت وجود کو غنیمت سمجھیں، اور ان سے فیوض وبرکات کا حصول کریں۔ حاجی صاحب نے بتایا کہ مولانا گنگوہی وہ شخصیت ہیں، جو کمالاتِ ظاہری وباطنی دونوں کے جامع ہیں، اور ان کی تحقیقات محض اللہ کی خاطر ہیں۔ ان میں نفسانی خواہشات کا کوئی شبہ نہیں۔ گویا کہ وہ اپنے مرید کو مناظرانہ گولہ باری سے بچانا چاہتے تھے، اس لیے انھوں دیوبند کے پیروکاروں اور حامیوں سے بھی گزارش کی کہ مولانا گنگوہی کی مجلس میں ایسے تنازعات کا تذکرہ نہ کریں (13 - 14)۔ "انھیں اپنے جھگڑوں میں شریک نہ کیا کریں" (14)۔ آخری جملہ جس قدر سادہ اور جامع ہے، اسی قدر مؤثر اور بامعنی ہے: "سب پر لازم ہے کہ مفت کی بحث وتکرار میں عمر عزیز کو ضائع نہ کیا کریں کہ یہ محبوب حقیقی (اللہ تعالی) سے حجاب ہے" (14)۔

حواشی

  1. محمد اقبال قریشی، معارفِ گنگوہی (لاہور: ادارۂ اسلامیات، 1976)، 67۔
  2. سیما علوی، Muslim Cosmopolitanism in the Age of Empire (کیمبرج، ایم اے: ہارورڈ یونیورسٹی پریس، 2015)۔ تاہم حاجی صاحب کی فکر کو انھوں نے جس طرح سے سمجھا ہے، اس کے کئی پہلؤوں سے میں اختلاف کرتا ہوں۔ جیسا کہ میرے اور ان کے متنی تجزیے کے تقابل سے بالکل واضح ہو جائے گا۔
  3. محمد شیر کوٹی، حیاتِ امداد (کراچی: مدرسہ عربیہ اسلامیہ، 1965)، 53۔
  4. نثار احمد فاروقی، نوادرِ امدادیہ (گلبرگہ، کرناٹکہ: سید گیسو دراز تحقیقی اکیڈمی، 1996)، 26۔
  5. شیرکوٹی، حیاتِ امداد، 58۔
  6. نوادرِ امدادیہ، 28 – 30۔
  7. شیرکوٹی، حیاتِ امداد، 83۔
  8. سکاٹ کگل، Sufis and Saints’ Bodies: Mysticism, Corporeality, and Sacred Power in Islam (چیپل ہل: یونیورسٹی آف نارتھ کیرولینا پریس، 2007)۔
  9. سلسلۂ چشتیہ میں حاجی امداد اللہ صاحب کے مقام اور کردار کے لیے مزید دیکھیے: کارل ڈبلیو ارنسٹ اور بروث بی لارنس، Sufi Martyrs of Love: The Chishti Order in South Asia and Beyond (نیو یارک: پالگریو میکملن، 2002)، 105 – 26۔
  10. سید نظر زیدی، حاجی امداد اللہ مہاجر مکی سیرت وسوانح (گجرات: مکتبۂ ظفر، 1978)، 43۔
  11. شیر کوٹی، حیاتِ امداد، 59۔
  12. فاروقی، نوادرِ امدادیہ، 36۔
  13. اشرف علی تھانوی، قصص الاکابر لحصص الاصاغر (ملتان: ادارۂ تالیفاتِ اشرفیہ، 2006)، 84۔
  14. فاروقی، نوادرِ امدادیہ، 72۔
  15. ایضاً، 74۔ حاجی صاحب ڈاک یا ہندوستان سے مکہ مکرمہ آنے جانے والے مختلف واقف کاروں کے ذریعے خطوط بھیجا کرتے تھے۔ وہ اپنے خط کو اس پورے سلسلۂ سند کے ساتھ شروع کرتے، جس کے ذریعے خط متعلقہ شخص تک پہنچتا۔ ان خطوط کے مضامین روزمرہ کے معمولی معاملات، جیسے مکہ میں منی آرڈر کی سہولت کی عدم دست یابی کی شکایات، یا الدر المختار پر احمد طحطاوی کے حاشیے کی بے تحاشا قیمت کی شکایت اور اس کے ساتھ یہ درخواست کہ اس کے چند نسخے ہندوستان سے بھیجے جائیں، سے لے کر شرعی اعمال وعقائد کے پیچیدہ مسائل پر مشتمل ہوتے تھے۔
  16. اشرف علی تھانوی، امداد المشتاق الی اشرف الاخلاق (کراچی: دارالاشاعت، 1976)، 14۔
  17. فاروقی، نوادرِ امدادیہ، 27۔
  18. ایضاً، 15۔
  19. فاروقی، نوادرِ امدادیہ، 27۔
  20. اشرف علی تھانوی، ارواحِ ثلاثہ (کراچی: دارالاشاعت، 2001)، 138۔
  21. حاجی امداد اللہ، فیصلۂ ہفت مسئلہ (کراچی: ایم ایچ سعید، تاریخ ندارد)، 3۔ یہاں پر تمام حوالہ جات اسی اشاعت سے دیے گئے ہیں، اور متن میں بین القوسین درج ہیں۔
  22. نائل گرین، Making Space: Sufis and Settlers in Early Modern India (نیو دلی: آکسفرڈ یونیورسٹی پریس، 2012)، 13 – 64۔

(جاری)

آراء و افکار

(اکتوبر ۲۰۲۳ء)

تلاش

Flag Counter