عصرِ حاضر کے فساد کی فکری بنیادیں

مولانا محمد بھٹی

گزشتہ  پون صدی سے مسلم دنیا  دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے۔ تخریب کاری  کا یہ جدید مظہر اپنی سنگینی،آشوب ناکی اور حشر سامانی میں ماضی کے تمام مظاہر کو پیچھے چھوڑ چکا ہے۔ خوارج اور باطنی اپنی تمام تر فساد مآبی کے ساتھ اس نوخارجیت کے آگے ہیچ نظر آتے ہیں۔اس عفریت سے عملی سطح پر دو دو ہاتھ کرنے کے ساتھ ساتھ فکری سطح پر نمٹنا بھی ازحد ضروری ہے۔مگر صد حیف کہ اس ضمن میں ہمارا طرزِ فکر اتھلے پن کا منتہائی اظہار بن کر رہ گیا ہے اور اس کی وجہ ہمارے کارِ علمی کی عمومی صورت حال ہے۔ ہمارے  ہاں عمومی رجحان یہی ہے کہ اشیا کو کما ھی دیکھنے کی زحمت گوارا نہیں کی جاتی اور مسئلے کو بیخ و بن سے اکھاڑنے کی بجائے اس کی شاخیں وغیرہ چھانگنے پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ یوں فتنے کا درخت کچھ عرصہ  ٹنڈ منڈ رہ کرپھر سے برگ و بار لانے لگتا ہے۔کسی بھی مسئلے کو لے کر ہماری دادِ تحقیق کا محور اس کے ظاہری خدو خال ہوتے ہیں، پس پردہ کارفرما اصولوں کی پڑتال کا کشٹ نہیں اٹھایا جاتا۔ہماری  تمام تر علمی ترک تازیاں اور فکری چاند ماریاں تعمق کے وصف سے بالعموم محروم ہیں۔

تاہم اس سے  یہ مطلب اخذ نہ کیاجائے کہ ہم ان اربابِ فکر و نظرکو کم آنکنے کی کوشش کر رہے ہیں جو افلاسِ علم کی اس  تیرہ شبی میں گہری بصیرت کی جوت جگائے ہوئے ہیں۔ حاشا و کلا ہمارا مطمح نظر قطعا یہ نہیں، بہ ایں ہمہ یہ کہنے میں بھی ہمیں کوئی باک نہیں کہ ایسے صاحبانِ فکر و نظر معدودے چند ہیں اور بالعموم ہمارا علمی منظر نامہ سطحیت کی دھول سے اٹا ہوا ہے۔ یعنی فکر و نظر  کا کال نہ بھی پڑا ہو تو کال کی سی صورتِ حال ضرور ہے۔ اسی باعث ہنوز ہم اس دبدھا میں ہیں کہ حمایتِ اسلام کا دم بھرتے ان جتھوں کی برق بے چارے مسلمانوں پر ہی کیوں گرتی ہے۔ یہ کیسی جہادی تلوار ہے جو خونِ مسلم بہانے سے بھی نہیں چوکتی اور’’خلافت“  کی یہ کون سی قسم ہے کہ جسے دیکھ کر طوائف الملوکی بھی شرما جائے۔اس مخمصے کا ازالہ  گہرے تجزیاتی تفکر سے مشروط ہے۔ اس ضمن میں ہمارے یہاں  فکر اور تجزیے کے نام پر صحافیانہ انٹ شنٹ تو بہتیرے مارے گئے مگر شومئِ قسمت سے تاحال کوئی ثقہ علمی تجزیہ سامنے نہیں آ سکا جو مسئلے کے سرے کی درست نشاندہی کر سکے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ عمومی روش سے ہٹ کر، یعنی صحافیانہ رپورٹنگ کی سطح سے اوپر اٹھ کر اس مسئلے کی تہوں کو کھنگالا جائے اور تہذیبی تناظر میں اس کا جائزہ لیا جائے۔ کیونکہ مایۂ فساد کو متعین کیے بغیر فساد کا قلع قمع نہیں کیا جا سکتا۔

گزشتہ ایک عرصے سے سامنے آنے والے شواہد سے اس امر کا اندازہ تو بخوبی ہو جاتا ہے کہ طرح طرح کے ناموں سے موسوم یہ گروہ مسلمانوں کے حق میں خاصے مسموم ہیں لیکن  یہ سوال  ابھی تک تشنۂ جواب ہے کہ آخر ان کو فکری بھوجن کہاں سے بہم ہوتا ہے۔ مدارس اور روایتی سنی اسلام سہل اہداف ہیں سو  ہم انہی کے سر الزام منڈھ کر اپنے تئیں ذمہ داری سے سبکدوش ہو رہتے ہیں۔ جدید اسلام کہ جس کا یہ  سب برگ و بار ہے ہماری تنقیدی چھلنی سے صرف اس لیے محفوظ رہتا ہے کہ وہ ’’جدید“ ہے اور ’’جدید“ تو سراسر ’’تعمیر و تہذیب“ہے،تخریب کا اس سے بھلا کیا ناتا۔  گزارش ہے کہ ’’جدید عالمی جہاد“ کی پھریرا بردار  یہ ناشدنی  تکفیری تحریکیں، جماعتیں،تنظیمیں، جنود اور لشکر دراصل جدید استعماری اسلام کے دو بڑے دھاروں وہابیت اور سیاسی اسلام کے باہمی ملاپ کا نتیجہ ہیں۔اس اجمال کی تفصیل کے لیے تخریب کار گروہوں کے مابین پائے جانے والے مشترکات یا ان کے تشکیلی اجزا کو مدنظر رکھنا ضروری ہے جو حسبِ ذیل ہیں:

    1. توحید کی  سیاسی نظریہ سازی

    2. تخلیص پسندی

    3. نفاذ اسلام بذریعہ ریاست

    4. تنوع پسند سنی روایت سے بیزاری

    5. حرفیت پرست دینی تعبیر اور اس کی قطعیت پر اصرار

    6. قرآن و سنت کو براہ راست صورت حال سے نتھی کر نا

    7. تکفیرِ مسلم

    8. انقلابی رومانیت

    9. نابودیت

نوخارجی گروہوں کے مندرجہ بالا عناصرِ ترکیبی باہمدگر  گندھے ہوئے ہیں۔ توحید کو سیاسی نظریے کے طور پر متشکل کر دیا جائے تو دین و شریعت محض ریاستی نفاذ کی شے بن جاتے ہیں، یعنی انہیں محض ریاستی قانون کے درجے پر فائز کرنا ناگزیر ہو جاتا ہے۔ کیونکہ سیاسی نظریے اور سیاسی طاقت کا چولی دامن کا ساتھ ہے اور سیاسی طاقت قانون کے بغیر اپاہج ہوتی ہے۔ مزید براں، ضابطہ بندی جدید ریاستی قانون کا امتیازی وصف ہے؛ جس کا حصول سنی روایت میں پائے جانے والے تہذیبی و فقہی تنوع کو ٹھکانے لگائے بغیر ممکن نہیں۔ چنانچہ اس رنگا رنگی کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ ظاہر پر اصرار کیا جائے اور اس ضمن میں اپنے ’’فہم“ ہی کو حرف آخر قرار دیا جائے۔ جدیدیت کے پیدا کردہ سیاسی  ڈھانچے ’’کنٹرول“اور ’’ڈسپلن“ کے اصول پر استوار ہوتے ہیں اور تنوع اور رنگارنگی کے روادار نہیں ہوتے۔  یہی یکسانیت پسندانہ فطرت (Homogeneous nature) جدیدیت اور اس کے زائیدہ طاقتی ڈھانچوں کو Exclusive   بناتی ہے۔ وہابیت بھی چونکہ ایک جدید مظہر ہے  جو طاقت سے سازباز بھی رکھتا ہے لہذا یہ بھی اپنی جبلت میں Exclusive ہے۔اس Exclusivity کو رو بہ عمل لانے کے لیے تکفیر  وہابیت کا انتہائی کارگر ہتھیار ہے۔ بہرحال یہ سارا گھناؤنا کھیل توحید کی نظریہ سازی اور روایتی علوم و اوضاعِ تہذیب سے بیزاری کا شاخسانہ ہے۔

خشتِ اول چوں نہد معمار کج

نظریۂ توحید وہابیت اور سیاسی اسلام کا محوری نقطہ ہے۔ یہی وہ خشتِ اول ہے جس پہ خارجیتِ جدیدہ کی عمارت کھڑی ہے۔اس ضمن میں سطحِ ذہن پر پہلا سوال یہ ابھرتا ہے کہ توحید کو سیاسی نظریہ (Ideology) بنانے سے کیا مراد ہے۔ عرض ہے کہ عقیدۂ توحید خدا کی وحدانیت کے اقرار اور خدائی میں اس کے شریک و سہیم کی نفی سے عبارت ہے۔ توحید کو نظریہ بنانے کا مطلب ہے اس کو حصول طاقت کے لیے بروئے کار لائے جانے والے سیاسی عمل کا لائحۂ عمل بنا دینا۔سیاسی نظریہ ایک لائحہ عمل ہوتا ہے جو کسی گروہ کو درپیش سیاسی، سماجی اور معاشی مسائل کی تفہیم کر کے  ان کا سیاسی حل تجویز کرتا ہے اور  اسی کے ضمن میں عملی تگ و تاز کا خاکہ  بھی فراہم کرتا ہے۔ یہ امر بھی ملحوظِ خاطر رہے کہ نظریہ سازی سر تا پا ایک عقلی سرگرمی ہوتی ہے۔ عقیدے کی نظریہ سازی سے عقیدہ، جوعلم کا مرکز ہوتا ہے خود ’’علم“ بنا دیا جاتا ہے۔  توحید کو نظریہ و علم  بنا دیا جائے تو وہ غیبی وحی نہیں رہتی بلکہ انسانی تشکیل بن جاتی ہے۔ مزید براں،  بندے و خدا کے  مابین باہمی تعلق کی بنیاد بننے کی بجائے سیاسی و معاشی مسائل کی تفہیم اور ان کے سیاسی حل کے لیے حصول طاقت کی اسکیم میں کھپنے لگتی ہے۔ سیاسی اسلام کی زائیدہ ’’توحید فی الحاکمیت“ ایسا ہی ایک نظریہ ہے جو حصولِ طاقت کے لیے گھڑا گیا ہے۔

واضح رہے کہ یہاں محلِ نظر حصول طاقت نہیں توحید کی نظریہ سازی ہے۔ عقیدے کو نظریہ بنا دیا جائے تو دین سارے کا سارا سیاسی نظر آنے لگتا ہے۔ نماز، روزہ وغیرہ جملہ عبادات سیاسی عمل کا دیباچہ قرار پاتی ہیں۔ سیاسی انقلاب تعلق باللہ کا منتہا ٹھہرتا ہے۔ اس پر مستزاد  یہ کہ خدا بھی مرتبۂ تنزیہہ سے نزول کر کے ایک سیاسی حاکم اعلی  بن جاتا ہے۔ خدا کو مقنن یا  سیاسی حاکم اعلی کے سنگھاسن پر براجمان کرنا تشبیہ ہی کی ایک جدید صورت ہے۔ توحید کی  ایسی تشبیہی(Anthropomorphic (  نظریہ سازی عقیدے کی ایجاب کاری(positivisation  (  پر مبنی وسیع تر مہم ہی کا جزو ہے؛ جس کی تفصیل کا یہ محل نہیں۔ نظریۂ توحید اور اس مضمرات کے بیان کے بعد سوال یہ اٹھتا ہے کہ ہمارے چودہ سو سالہ تاریخی سفر میں سیاسی عمل، عقیدہ، شریعت  اور قانون و اقدار کی باہمی نسبتیں کیا تھیں۔ ہماری تہذیبی تاریخ میں سیاسی عمل اوج  پر رہا ہے، کیا اس دوران تاریخ کے کسی موڑ پر عقیدے کی نظریہ سازی یا دین کو سیاسیانے  کی نوبت درپیش آئی؟ اس ضمن میں ہمارے تہذیبی و روایتی موقف اور سیاسی اسلام و وہابیت کے موقف کے مابین مابہ الامتیاز کیا ہے؟

اس  حوالے سے گزارش ہے کہ ہماری تہذیب میں سیاسی عمل کی راہنمائی کا کام شریعت اور عقل سے لیا جاتا تھا۔ عقل صورت حال کو سمجھنے جب کہ شریعت تہذیبی علوم کی وساطت سے اظہار پا کر سیاسی عمل کی رہبری کرتی تھی۔ سیاسی عمل کہ جس کی غایتِ اولیٰ معاشی عدل کا قیام ہے شریعت کے فراہم کردہ لائحہ عمل پر گامزن ہوتا تھا۔اس کے علی الرغم سیاسی اسلام یہ دونوں کام عقیدے کو سونپ دیتا ہے اور شریعت کو محض عقوبات  تک محدود کر دیتا ہے۔  بارِ دگر عرض ہے کہ ہماری معروضات کا مقصد حصولِ طاقت یا سیاسی عمل کی نفی نہیں، کہ طاقت  دین کی تلوار بھی ہے اور سپر بھی۔  نہ ہی سیاست کو دین کے تابع رکھنے کی نفی  ہمارامطمحِ نگاہ ہے کیوں کہ ہمارا یہ ماننا ہے کہ’’جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی“۔ مگر سیاست کو دین کے تابع رکھنے اور دین کو ہی سیاست بنا دینے کے مابین خط امتیاز کھینچنا ضروری ہے۔ سیاست کا دین کے زیرِ اثر ہونا دین کی قوت کا باعث ہوتا ہے جبکہ دین کو سیاسی بنا دینا اس کی موت کا پروانہ ہے۔اس حوالے سے گزارش ہے کہ دینی ہدایت جن احکام کا مجموعہ ہے ان میں سے بعض کا تعلق نج سے ہے، بعض کا معاشرت سے اور کچھ اجتماع سے متعلق ہیں۔ سیاست کی تہہ میں مذہبی ورلڈ ویو کارفرما ہو تو یہ سبھی دوائر اپنی اپنی شرائط کے مطابق  دین سے نتھی رہتے ہیں۔

ہمارے تہذیبی سفر میں خلوت و نج کو عقائد و عبادات اجالتے تھے،  معاشرت کو اخلاق اور نظم اجتماعی کو قانون نَک سِک سے درست رکھتا تھا تا کہ اس کے زیرِ سایہ دینی معاشرت پروان چڑھے اور پھولے پھلے۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ صحت مند معاشرت کے قیام اور بقا کی اولین شرط افرادِ معاشرہ کے مابین  باہمی محبت و یگانگت کا پایا جانا ہے۔جس کا فروغ معاشی عدل کے بنا ممکن نہیں۔ ہیئتِ حاکمہ کا اولین فرض معاشی عدل کا قیام ہے۔ ہماری تہذیب میں یہ قیام نظمِ اجتماعی کی درستی سے ہوتا تھا۔ بالفاظ دیگر نظم اجتماعی کی درستی اور معاشی عدل ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔جیسا کہ پیش ازیں معروض ہوا معاشی عدل کا قیام سیاسی عمل کا اولین مقصد اور ہیئت حاکمہ کا اولین فریضہ ہے۔ اقامتِ عدل کے لیےبروئے کار لائے جانے والے سیاسی عمل کے لیے شریعت نہ صرف لائحہ عمل پیش کرتی تھی بلکہ اجتماع درستی کو برقرار رکھنے کے لیے قوانین بھی سامنے لاتی تھی۔  قانون اجتماع  کی درستی میں آڑے آنے والی رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے بروئے کار آتا تھا۔ سود، سٹہ،استحصال، لوٹ کھسوٹ، شہوات کی خارجی ترغیبات کا پھیلاؤ وہ اڑچنیں ہیں جو نظمِ اجتماعی میں خلل پیدا کرتی ہیں۔

نظم اجتماعی کا یہی بگاڑ دھیرے دھیرے معاشرت اور فرد کو متاثر کرتا ہے۔ اس کا خاتمہ بذریعہ حدود و تعزیرات ہوتا تھا۔ یوں نظمِ اجتماعی درست رہتا تھا اور عدل فروغ پاتا تھا، نتیجتاً‌ افراد کا باہمی تعلق مودت و یگانگت پر استوار رہنے کے کارن دینی معاشرت پروان چڑھتی تھی۔  یعنی  حاکم براہ راست مداخلت کر کے معاشرت کو دینی نہیں بناتا تھا بلکہ دینی معاشرت کے پنپنے کے لیے سازگار ماحول فراہم کرتا تھا۔ اس کے برعکس مذہب کو سیاسی بنا دیا جائے تو نج اور معاشرت براہ راست ریاست کی دست برد میں آ جاتے ہیں اور ان سے متعلقہ احکام بھی ریاستی قانون بن کر بزور نافذ ہونے لگتے ہیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ موجودہ ریاستی قانون توسع اور تنوع سے عاری اور ضابطہ بندی سے متصف ہوتا ہے۔ نتیجتاً‌ چیرہ دستی پروان چڑھتی ہے اور عوام دین و مذہب سے بدکتے ہیں۔ سعودیہ اور ایران کی نابودی حالت اسی امر  کی غمازی کرتی ہے۔ عوامی بے قراری  کی کھولتی دیگ جو ابل پڑنے کو تیار ہے، اسی نظریۂِ توحید کی آنچ پر تیار ہوئی ہے۔ جدید  نراجیت پسند نوخارجیوں کی فکری جڑیں بھی اسی نظریۂ توحید میں پیوست ہیں اور اسی کے نفاذ کے لیے  وہ تیغ بدست ہیں۔

جو نقشِ کہن تم کو نظر آئے، مٹا دو

خارجیتِ نوی کا ایک اور نمایاں وصف تخلیص پسندی1 (Puritanism) ہے۔ تخلیص پسندی  جدیدیت کی پروردہ ذہنیت ہے جو مذہبی روایت کو ’’خالص دین“ میں ایک آمیزش سمجھتی ہے۔ تخلیص پسند ان بعد کی ’’آمیزشوں یا بدعات“ سے  دین کی تطہیر کو اپنا فرض منصبی جانتا ہے۔ معلوم ہوا تخلیص پسندی دین کو روایت سے جدا کر دینے کا نام ہے۔ یہاں یہ امر ملحوظ رہنا ضروری ہے کہ تخلیص کا تجدید سے کوئی تعلق نہیں۔عموماً‌ ان کو باہم گڈمڈ کر دیا جاتا ہے حالانکہ دونوں میں بعد المشرقین ہے۔ تجدید روایت کے اندر رہتے ہوئے اس میں در آنے والے جزوی انحرافات کو زائل کرتی ہے جبکہ تخلیص سرے سے روایت ہی  کو منہدم کر دینے کا نام ہے۔ تجدید روایت کی خود تنقیدی کا ثمر ہوتی ہےجس سے مآل  کار روایت ہی مزید قوی اور مضبوط ہوتی ہے۔ اس کے برعکس تخلیص روایت کی جڑیں کاٹنے سے عبارت ہے۔غور کیا جائے تو تعبیر دین کے نوع بہ نوع راگ دراصل تخلیص کی سرگم میں ہی الاپے گئے ہیں۔ روایت باقی نہ رہے تو مذہب بازیچۂِ تعبیر بن جاتا ہے۔ تعبیری عقل حَکَم بنتی ہےاور دین کو من چاہے معانی پہنائے جانے لگتے ہیں۔ تخلیص کی وبا مغرب میں پھیلی تو مذہب کو نگل گئی؛ مشرق میں بھی عزائم کچھ ایسے ہی ہیں2۔

ذہن نشیں رہے کہ دین ہم تک روایت کے ذریعے منتقل ہوا ہے۔ روایت دین کی سند بھی ہے اور سائبان بھی۔ اسے روایت سے تہی کر دینا دراصل استعماری جدیدیت کی ترجیحات پر دین کی تشکیل ہے؛ باقی سب ملمع کاری ہے۔وہابیت أصلاً‌ شریعت و عقیدہ کے جدید استعماری تصور پر استوار ہے؛ اسی اعتبار سے اسے ’’تخلیص پسندی“ خوش آئی ہے۔علاوہ ازیں، جیسا کہ گزشتہ سطور میں مرقوم ہوا، وہابیت اور سیاسی اسلام کا جدیدیت کی  پیداکردہ اوضاعِ طاقت کے ساتھ گہرا سمبندھ ہے چنانچہ؛ طاقت کی گرفت (Control (کو قائم رکھنا بھی اس امر کا مقتضی ہے کہ تنوع پسند سنی  روایت کی ڈھال ہٹا کر مذہب کو نہتا کر دیا جائے۔ اسی نہتے اور بے سند دین کا نام ’’دینِ خالص“ ہے۔

تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ اسلامی تہذیب وحدت میں کثرت اور کثرت میں وحدت کے اصول پر استوار رہی ہے؛ چنانچہ ہماری سنی روایت ازحد تنوع پسند (Heterogeneous )اور رنگا رنگی سے بھرپور ہے۔ اس کے برعکس جدیدیت اور اس کے ڈھانچے یکسانیت اور یک رنگی کے رسیا ہیں۔  تنوع جدیدیت کو ایک آنکھ نہیں بھاتا کیونکہ یہ اس کی گرفت کو ڈھیلا کرتا ہے؛  چنانچہ وہ  شریعت کو ضابطہ بندی (Codification )  کے شکنجے میں کستی اور دین و شریعت کے کس بَل نکال کر اسے قانونی نوعیت کا ’’ضابطۂ حیات“ بنا ڈالتی ہے۔ وہابیت بھی  تنوع سے خار کھاتی ہے اور  خودساختہ تعبیرِ دین پر اصرار کرتی ہے۔  فقہی و تفسیری رنگا رنگی کو ٹھکانے لگانے کے لیے ضروری تھا کہ فقہ و تفسیر کی غیر معمولی طور پر متمول  سنی روایت کو خیرباد کہہ کر حرفیت پرستی کا ڈول ڈالا جائے۔

چنانچہ یہی ہوا اور اب اپنی اسی حرفیت پر مبنی تعبیر کو قطعی اور حتمی3 باور کروایا جاتا ہے اور اسی سے وہ ضابطہ بند دین و شریعت اخذ کیے جاتے ہیں جو ’’نفاذ“ کے لیے ہمہ وقت تیار ہیں اور اسی سے وہ فتوے کشید کیے جاتے ہیں جو تکفیرِ مسلم کا ہتھیار ہیں۔ تکفیری نوخارجی گروہوں کا ’’نفاذ شریعت“ دراصل اسی ٹنڈ منڈ شریعت کا نفاذ ہے جس میں شریعت بس نام کو ہے کیونکہ  زندہ حقیقت کے طور پر شریعت دراصل فقہ ہی کا دوسرا نام ہے جس سے یہ لوگ نفور ہیں۔ شیخ عبدالقادر الصوفی4 نے درست نشاندہی فرمائی ہے:

What was abolished by the Wahhabis was the FIQH which, in reality IS the Shari’at. For the Shari’at is not a module of hadd punishments for crimes, that is only a near peripheral aspect of it. The Shari’at as a living reality is the practice of FIQH. That is the ‘Amal of the Muslim society.5

’’وہابیت نے جس شے پر خطِ تنسیخ پھیرا وہ فقہ ہے جبکہ فقہ ہی درحقیقت شریعت ہے۔ کیونکہ شریعت محض جرائم پر حد لگانے کا کوئی نظام نہیں۔  یہ اس کا ایک مضافاتی پہلو ضرور ہے تاہم ایک زندہ حقیقت کے طور پر  شریعت فقہ ہی  کی عملی تجسیم  کا نام ہے۔ یعنی مسلمانوں کا تعامل۔“6

خارجیتِ جدیدہ  کا ایک اور خاصہ قرآن و سنت کو براہ راست صورت حال سے نتھی کرنا ہے جو دین کو نظری علم کی سطح پر اتار لانے کے مترادف ہے۔یہ وصف بھی انہیں جینیاتی طور پر وہابیت سے دان ہوا ہے اور تخلیص پسندی کا براہ راست نتیجہ ہے۔ ہماری سنی روایت میں صورت حال سے تعامل کے لیے حق کا مؤید علم سامنے لایا جاتا تھا مگر عملِ انسانی کے انکار اور عقل دشمنی کی بدولت وہابیت چونکہ دینی و تہذیبی علوم سے گریز پا رہتی ہے لہذا صورت حال سے تعامل درپیش ہو تو  قرآن و سنت کو براہ راست اس کے رو بہ رو کر  کے انہیں vulnerable  بنا دیتی ہے۔ گزارش ہے کہ صورت حال سے تعامل کے لیے  ایسا نظری علم اور نظریہ ناگزیر  ہوتا ہے جو دین کا جنبہ دار اور معروف علمی شرائط کا پاسدار ہو۔ دین کو ہی نظریہ بنا دیا جائے تو  دین اور عقل دونوں اضمحلال کا شکار ہو جاتے ہیں۔ دریں صورت، دین کی حیثیت یکسر بدل جاتی ہے اور وہ انسانی ساختہ  علم بن جاتا ہے۔ مزید براں، تہذیبی علوم کی ڈھال میں محفوظ و مامون رہنے کی بجائے وہ  براہ راست انکاری علوم  کی تاخت کی زد میں آ جاتا ہے۔ یہ امر غور طلب ہے کہ وہابیت دین کے تائید کنندہ تہذیبی  علوم  کو تو اس بنیاد پر رد کرتی ہے کہ ان میں انسانی عمل کی آمیزش ہے مگر دین کو انسانی تشکیل کی پست سطح پر اتار لانے میں اسے کوئی عار محسوس نہیں ہوتی۔ دینی و تہذیبی علوم سے نفرت ہی کا ثمرہ ہے کہ وہابیت کسی بھی قسم کی تہذیبی اور سیاسی بصیرت سے کلیتا محروم ہے۔ حرمِ مکی پر وہابی شورہ پشتوں کے حملے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے شیخ عبدالقادر الصوفی فرماتے ہیں:

The attack on the Haram in Makkah was a devastating exposure of a movement that had NO, simply NO, political understanding. Why? Because they had abolished the Fiqh.7

“حرمِ مکی پر حملہ  دراصل اس تحریک (وہابی تحریک) کا تباہ کن اظہار ہے جو شمہ بھر سیاسی بصیرت سے بھی عاری ہے۔ کیوں؟ کیونکہ اس نے فقہ کا خون کر دیاہے۔”

ٹیڑھا لگا ہے قط قلمِ سرنوشت کو

غور کیا جائے تو وہابیت کے تمام تر  ذیلی نظریات میں عملِ انسانی کا انکار سرایت کیے ہوئے ہے۔ تخلیص پسندی کو ہی لے لیجئے۔ روایت کو اس بنا پر ٹھکرا دیا جاتا ہے کہ اس میں فقہا کی آرا کا دخل ہے۔علاوہ ازیں، شریعت کو قانونِ ریاست بنا کر عملِ انسانی کو میکانکی بنانا ہو یا تنوع سے بیزار ہو کر فقہی روایت کا استرداد، عقیدے کو نظریہ بنا کر عقیدے اور عمل کی مغایرت کا انکار ہو یا اہل سنت کے ثقافتی معمولات سے ابا کرنا؛ ہر موقف کی تہہ میں  انسانی عمل بلکہ یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ انسان کا انکار پنہاں ہے۔ تکفیرِ مسلم، نراجیت، دہشت گردی و تخریب کاری غرض ہر گھناؤنا مظہر وہابیت کی انسان دشمنی کا پرتوہے۔ ہر بھیانکتا میں یہی زہر گھُلا ہوا ہے۔وہابی تعمیر میں مضمر یہی خرابی اس کے تمام تر  ذیلی نظریات کی جان ہے۔ عرض ہے کہ  مسلم تہذیب کی علمی،فقہی  اور ثقافتی أوضاع و اعمال کا انکار دراصل اسلام کی قوتِ تہذیب سازی کا انکار ہے؛ اور  یہ انکار  بھی عملِ انسانی کے انکار ہی کی فرع ہے کیونکہ تہذیب انسانی عمل کا ہی ثمر ہوتی ہے۔

اجمالاً‌ عرض ہے کہ تصورِ حق اور اس سے نتھی اقدار جب انسانی منشور (prism) سے گزرتے ہیں تو معروض میں تہذیب برپا ہوتی ہے ۔ معلوم ہوا کہ تہذیب تصورِ حق اور اقدار  کے معروض میں ظہور  کا نام ہے اور انسانی عمل کی شمولیت اس ظہور کی لازمی شرط ہے۔اس حوالے سے ہمارے ہاں دو قسم کے گمراہ کن رویے ظاہر ہوئے ہیں۔ ایک وہ جو مظاہرِ تہذیب کو ہی اصل جان کر  انہیں حق و ہدایت سے کاٹ دیتا ہے  اور دوسرا وہ جو ظہورِ حق کے انسانی لازمےکو پسِ پشت ڈال دیتا ہے۔  یہ دونوں رویے مذہب و حق دشمن ہیں مگر بدقسمتی سے دوسرا مذہب ہی کے غلاف میں ملفوف ہے۔ یہی دوسرا رویہ وہابیت کے عنوان سے معنون ہے۔ حق اور اقدار کو مظاہر سے عاری باور کروانا ان کی تہذیبی، سماجی، اخلاقی اور جمالیاتی تاثیر کا انکار ہے۔ یوں نہ تو حق کی بنیاد پر تہذیب سازی ممکن رہتی ہے نہ اقدار کی بنیاد پر مردم سازی کا کوئی امکان بچتا ہے۔حق اور اقدار جو آفاقی، ابدی، لازمانی اور ماورائی ہوتے ہیں اپنی تنزیہہ برقرار رکھتے ہوئے زمان و مکان اور تاریخ میں ہی اپنا اظہار کرتے ہیں۔ زمانی و مکانی مظاہر سے تہی کر دیا جائے تو وہ  محض ایک مجرد تصور بن جاتے ہیں اور عملا معدوم ہونے لگتے ہیں۔ یہی صورت حال تہذیبی انقطاع سے عبارت ہے۔ وہابیت نہ تو تاریخ اور زمانے کا کوئی شعور رکھتی ہے نہ ہی لازمان و ابدیت سے بہرہ ور ہے چہ جائیکہ ان دونوں کے باہمی ربط سے آگاہ ہو۔ اسی باعث وہ حق کے تاریخی مظاہر کا تو انکار کرتی ہے مگر خود حق کی نظریہ سازی کر کے اسے مکمل طور پر تاریخی و زمانی بنانے سے نہیں چوکتی۔

تو بدل گیا تو بہتر کہ بدل گئی شریعت

 مناسب معلوم ہوتا ہے کہ سیاسی اسلام  اور وہابیت کے تصورِ دین و شریعت  کی کچھ مزید پرتیں کھولی جائیں تا کہ نوخارجی جتھوں کے ’’نفاذ شریعت“ کی بلی بتمامہ تھیلے سے باہر آ جائے۔ نظریۂ توحید اور طاقت کے ساتھ اس کی گرویدگی نے یہاں بھی اپنا رنگ دکھایا ہے۔ اس نظریے کی وساطت سے دین جب سارا کا سارا سیاسی ہوا تو شریعت بھی محض ’’قانونی نفاذ“ کی شے بن کر رہ گئی۔ اس مقصد کی برآری کے لیے پہلے شریعت کو روایت سے تہی کیا گیا پھر اس کی ضابطہ بندی بروئے کار آئی۔ یوں اس عملِ قطع و برید سے گزار کر شریعت کے نفاذ کا نعرہ بلند کیا گیا۔ غور کیا جائے تو’’نفاذِ شریعت“ کا نعرہ جدید سیاسی طاقت کی ہوسِ دسترس ہی کی صدائے بازگشت ہے۔

جیسا کہ پیش ازیں مذکور ہوا، اسلام انسانی معاشرت اور نج کو قانون کی براہ راست دست رس سے آزاد رکھتا ہے اور ان کی تقویم بذریعہ اقدار کرتا ہے۔  اس کے برعکس جدید طاقتی ساخت معاشرت اور نج کو بھی ’’قانونی نفاذ“ کے دائرۂ اثر میں لانا چاہتی ہے، یعنی براہ  راست اپنی دست رس اور جکڑ میں رکھنا چاہتی ہے۔  جدید ہیئتِ طاقت کا أصول گرفت اور جکڑ بندی  ہے، اسی لیے یہ اپنی نہاد میں لا اخلاقی ہے۔ گرفت اور جکڑ بندی کی ہوس کا محرک یہ  خواہش ہے کہ انسان اور انسانی معاشروں کی آزادانہ حیثیت، خود مکتفیت اورخودمختاری کا گلا گھونٹ کر انہیں سرمایہ داریت پر استوار عالمگیر سسٹم میں پرو دیا جائے۔ سرمایہ داریت اور جدید ہیئتِ طاقت کی یہ خواہش بڑی حد تک پوری ہو چکی ہے اور آزاد ارادے سے عاری ایسے میکانکی انسانوں کی کھیپ ہمارے گرد و پیش میں موجود ہے جوسسٹم کے کارآمد  کل پرزے (Human Resource) ہیں۔ یہ  لا اخلاقی انسان جدید ریاست کے  بے تحاشا نفاذِ قانون ہی کی ثمر آوری ہے۔وہابیت اور سیاسی اسلام از آغاز تا امروز اس کارِ شر میں جدیدیت کے معاون ہیں۔

گزارش ہے کہ  اکثر و بیشترانسانی افعال  اخلاق و قدر أساس ہوتے ہیں مگر  جدید ہیئتِ طاقت اپنی لا اخلاقی  (Amoral)   نہاد  کی بنا پر انہیں  قانون أساس بنانے میں جتی ہوئی ہے۔ سیاسی اسلام  جب اسلام کے نفاذ کی بات کرتا ہے تو درحقیقت وہ بھی  دین کو مجموعۂِ اقدار کی بجائے ایک ایسا ریاستی قانون بنا دینے کے لیے سلسلہ جُنباں ہوتاہے جو ارادی فعل کے بجائے میکانکی فعل میں ظہور کرے۔ واضح رہے کہ مبنی بر قانون افعال میکانکی ہوتے ہیں جبکہ مبنی بر قدر فعل انسانی ارادے  کی آزادانہ فعلیت سے پھوٹتا ہے۔ اسلام کو محض قانونی نفاذ کی شے سمجھنا دراصل انسان کو آزاد ارادے سے عاری ایک مشینی وجود، انسانی عمل کو میکانکی اور شریعت کو مشین چلانے کا ایک مینول یا کوڈ و ضابطہ بنا دینے کے مترادف ہے۔مزید براں، شریعت کو ریاستی قانون بنا کر بالجبر نافذ کرنا اس کے قدری پہلو کو  بھی گہنا دیتا ہے۔ قدر اور قانون کے مابین ایک اور ما بہ الامتیاز  یہ ہے کہ قدر ایک گونہ جمالیاتی اساس بھی رکھتی ہے جبکہ قانون سر تا پا جبر ہی جبر ہے۔ جمالیات حق کو ایسا حضور عطا کرتی ہے کہ بندگی وجودی حال بن جاتی ہے۔ یوں دین پر عمل مجبوری کے بجائے ایک خوشگوار تجربہ بن جاتا ہے۔حکمِ شرع کی بجا آوری جبر کے تحت نہیں ہوتی، اس میں لبھاؤ  پیدا ہو جاتا ہے۔جمالیاتی شعور انفس میں حق کی دروں کاری کرتاہے اور اخلاقی و قدری فعل اسی دروں کاری کا خارجی اظہار ہوتا ہے۔

اس کے برعکس قانون و ضابطہ چونکہ کسی بھی قسم کی جمالیاتی اساس سے عاری ہوتا ہے لہذا انفس میں حق کا حضور نہیں ہونے پاتا۔ یوں  نہ تو بندگی وجودی حال بن پاتی ہے نہ ہی اخلاقی فعل وجود میں آتا ہے بلکہ ’’ضابطے“ کا ایک فعل ہوتا ہے جسے’’بیرونی“ دباؤ کے تحت عمل میں لایا جا رہا ہوتا ہے۔ شریعت کو ضابطہ و قانون بنا کر قدری جہت سے محروم کر دینا اسے بے رس اور غیر مؤثر بنا دیتا ہے۔ اسلام کو ’’ضابطۂ حیات“  قرار دینے کی معنویت  شریعت اور عملِ انسانی کی اسی قلبِ ماہیت میں پوشیدہ ہے۔ جدید خارجی جتھوں کا نفاذ شریعت بھی دراصل اسی ’’ضابطہ بند قانونی شریعت“ کا نفاذ ہے۔  یہیں سے اس چیرہ دستی کی بھی ابتدا ہوتی ہے جو عوام کو دین و شریعت سے برگشتہ کرنے کا باعث بنتی ہے۔

سیاسی اسلام کا جدید ریاست سے نفاذ شریعت کا مطالبہ دراصل اس ناسمجھی سے پھوٹا ہے کہ  جملہ شرعی احکام بزورِ طاقت “نافذ“ ہونے کی شے ہیں۔نفاذ کی دیر ہے کہ سارے دلِدَّر مٹ جائیں گے اور خلیل خاں پھر سے فاختہ اڑاتے پھریں گے۔ شریعت کا یہ غلط تصور استعماری جدیدیت سے مستعار ہے۔ اس کے علی الرغم ما قبل جدید دور میں  حکمِ شرع کی بجا آوری بزورِ طاقت نہیں،نفسی اور سماجی عوامل کی کارفرمائی سے ہوتی تھی۔ اقدار کی بنیاد پر قائم سماجی ڈھانچا،اس کے تسلیم کردہ معیاراتِ  تحسین و تقبیح اور ان کی بنیاد پر برپا ہونے والا باہمی معاشرتی تفاعل تھا جو شریعت کو معاشرے کی زندہ حقیقت بناتا تھا۔ اقدار پر استوار اخلاقی ماحول  (Milieu) میں فرد کی پرداخت و تکییف عمل میں آتی تھی اور یہی افراد اس اخلاقی ماحول اور سماجی ڈھانچے کی صورت گری کرتے تھے۔

فرد اور سماج کا  یہ دو طرفہ تعلق ہی تھا  جو شریعت کو جیتا جاگتا وجود بنا دیتا تھا۔ یوں انفس و آفاق دونوں قدر سے معمور رہتے تھے۔اس ماحول  کا قیام  بڑی حد تک تصوف کے ادارے کا رہینِ منت تھا جو سماج سے منفک نہیں بلکہ اسی کا حصہ تھا۔ سماج سے منفک اور قدری لبھاؤ سے عاری ’’ریاستی قانون“  قطعا اس کا نعم البدل نہیں ہو سکتا۔ گزارش ہے کہ’’نفاذ شریعت“ کے تصور ساز ریاست کے بارے میں بھی چند در چند غلط فہمیوں میں مبتلا ہیں۔ سیاسی اسلام کے متوالے شریعت کو ریاست کی تحویل میں دینے کے لیے بے کل  ہیں حالانکہ ہماری تہذیب میں فرماں روا شریعت کے رو بہ رو سرنگوں ہوتا تھا۔ بہر کیف دور جدید کے ان  فساد پرور نوخارجی جتھوں کو جہاں بھی سُلطہ و اقتدار حاصل ہوا انہوں نے شریعت کو بطور ریاستی قانون ہی نافذ کرنے کی سعی کی ہے اور نتیجتاً‌ اسے بھیانک بنا کر پیش کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔

کرتے ہیں شب و روز مسلمانوں کی تکفیر

شریعت کی گھناؤنی تصویر کشی میں تکفیرِ ناحق کا بھی بے پایاں کردار رہا ہے۔ تکفیرِ ناحق اہلِ بدعت  بالخصوص خوارج کا شیوہ رہا ہے جو عموماً‌ عقیدے اور عمل کے امتیاز کو ختم کر کے عمل کو عقیدے میں مدغم کر دینے سے جنم لیتا ہے۔ یعنی یہ ناسور بھی عملِ انسانی کے انکار کا آفریدہ ہے۔ اہلِ سنت نے تکفیر کا دروازہ  کلیتا مسدودنہیں کیا مگر اسےاپنا شعار بھی نہیں بنایا۔نوخارجیت کی کشتِ سرشت میں تکفیر ناحق کا تخم بونے میں ان کے مخصوص تصورِ توحید کا بھی اہم کردار ہے۔ یعنی اس پردۂ زنگاری میں بھی وہی معشوق چھپی بیٹھی ہے۔گزارش ہے کہ عقیدہ مرکزِ علم ہوتا ہے جبکہ نظریہ لائحۂ عمل ہوتا ہے۔ عقیدہ اقلیم شعور کی تنظیم کرتا ہے جبکہ نظریہ اقلیم عمل کا ناظم ہوتا ہے۔ عقیدے کو نظریہ بنا دیا جائے تو وہ براہ راست عمل سے متعلق ہو جاتا ہے۔یوں عملِ انسانی کی جداگانہ حیثیت فنا کے گھاٹ اتر جاتی ہے اور وہ عقیدے میں ہی منضم ہو جاتا ہے۔نتیجتاً‌ تکفیر جو عقیدہ أساس ہوتی ہے اعمال کو بھی شامل ہو جاتی ہے۔گزارش ہے کہ وہابیت روزِ اول سے ہی اپنی فتنہ سامانیوں اور مفسدہ پردازیوں سمیت ایک دروں بیں  (Introverted)تحریک رہی ہے؛ چنانچہ یہ مسلمانوں کے اندر ہی ایک ’’غیر“ (other) تخلیق کر کے اس سے نبرد آزما رہتی ہے۔ تخلیقِ غیر کا یہ عمل بذریعہ تکفیر انجام پاتا ہے۔

 وہابیت کی دروں بینی بھی دراصل نظریۂ توحید کی وساطت سے طاقت  کے جدید ڈھانچوں کے ساتھ اس کے گہرے تال میل کی بدولت ہے۔ جیسا کہ پیش ازیں مرقوم ہوا جدیدیت اور اس کی کوکھ کے جنم لینے والی  ہیئتِ طاقت کی طرح وہابیت بھی اپنی نہاد میں یکسانیت پسند ہے، مذہبی و تہذیبی تنوع اسے کَھلتا ہے لہذا یہ بھی ازحد Exclusive  ہے، اور اس کے ہاں یہ Exclusivity   تکفیر کی شکل میں نمودار ہوتی ہے۔ سلطنت عثمانیہ کے خلاف بغاوت ہو یا سرحدی مسلمانوں سے پنجہ آزمائی ہر دو مواقع پر وہابیت کے ہاتھ میں تکفیر کی تیغ بے نیام رہی ہے۔ آج بھی مسلمان اس خوں آشام شمشیرِ تکفیر کی زد میں ہیں۔اپنے جنم دن سے ہی وہابیت مسلمانوں سے برسرپیکار رہی ہے۔استعمار  کے قدوم میمنت لزوم کے کچھ ہی عرصہ بعد اس کا جنم ہوا اور  یہ جہالت کی دیدہ دلیری سے’’اصلاح“ اور ’’جہاد “ کا نعرہ لگاتے ہوئے مسلمانوں سے مصروفِ پیکار ہو گئی۔ یعنی جہاد جو اصلاً‌ باطل سے نبرد آزمائی کا نام ہے، مسلمانوں کے خلاف بروئے کار آنے لگا۔

معلوم ہوتا ہے کہ وہابیت کا تاریخی اعتبار سے بھی استعماری جدیدیت سے دیرینہ تعلق ہے8۔اس کا تکفیری رویہ استعمار کی جانب سے مقامی باشندوں کی بابت  اپنائے گئے تحقیر آمیز  رویے کا تسلسل ہے۔ استعمار ہمیں غیر مہذب جتا کر ’’مہذب“ بنانے کے جتن کرتا تھا اور وہابیت مشرک بتا کر ّّموحد“ بنانے پر تلی ہوئی ہے۔ دونوں میں قدر مشترک یہ ہے کہ  عام مسلمان کو نفرت و حقارت کے عدسے سے دیکھتے ہیں اور اسے نَکُّو بنانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے۔ سیاسی اسلام سے باقاعدہ ملاپ کے بعد وہابیت کی تکفیری حدت حد سے سوا ہو گئی ہے۔  یہی فزوں تر حدت ان نوخارجی دہشت گرد مظاہر میں ظاہر ہوئی ہے جنہیں ہم داعش اور القاعدہ وغیرہ کے نام سے جانتے ہیں۔ عمل کو تو پہلے ہی عقیدے کی طرح کفر و اسلام کی تقسیم میں دائر کیا جا چکا تھا مگر اب اس کا دائرہ مزید وسعت پذیر ہے۔ پہلے پہل صرف اولیا کرام سے توسل وغیرہ کو شرک باور کروایا جاتا تھا پر اب نوبت بایں جا رسید کہ بیلٹ بکس میں ووٹ کی پرچی ڈالنا بھی ”شرکیہ فعل“ شمار ہوتا ہے۔

تا ثریا می رود دیوار کج

 یہ امر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ تخریب کاروں کو مسلم نوجوانوں میں، معمولی ہی سہی مگرمقبولیت  حاصل ضرور ہوئی ہے۔ استعمار کے ہاتھوں سیاسی شکست سے پیدا شدہ لاچارگی، بے بسی اور احساسِ محرومی اس پذیرائی کے جملہ اسباب میں سے ایک ہے۔ یہی احساس محرومی جھنجھلاہٹ میں ڈھلااور بعد ازاں ردعمل کی نفسیات پر منتج ہوا۔ضرورت اس امر کی تھی کہ مظہر استعمار  کو کماھی پہچاننے  اور اس کے بالمقابل مزاحمت کھڑی کرنے کے لیے اپنا نظری علم وجود میں لایا جاتالیکن ترکِ جدیدیت ، تحصیل جدیدیت اور ردعمل کے مظاہر پنپنے لگے۔ اول الذکر مکمل راہبانہ جبکہ دوسرے دونوں انفعالی ہونے  کی بنا پر کلیتا استعماری ترجیحات پر ڈھلے ہوئے ہیں۔ ردعمل نام کو جدیدت کے خلاف ہے مگر حقیقتا' اپنی ہی روایتی علمی و سماجی اوضاع کے خلاف بروئے کار آیا ہے۔  یہی ردِ عمل پر مبنی شکست خوردہ ذہنیت تھی جو بڑی تعداد میں حشر ساماں نراجی تحریکوں کا ایندھن بنی۔ احساسِ شکست کو مٹانے بلکہ جھٹلانے کی بے تابی ہمیں ہر اس نظریے پہ لپکنے کو مجبور کر دیتی ہے جو اس تکلیف دہ احساس سے خلاصی دلانے کا دعوی رکھتا ہو۔ اس صورت حال میں ’’خالص اسلام“ اور ’’سیاسی اسلام“ سے بڑھ کر بھی بھلا کوئی نظریہ پر کشش ہو سکتا ہے؟ اندھا کیا چاہے، دو آنکھیں!

غور کیا جائے توتخریب کاروں اور نراجیوں کے بہکاوے میں آنے والے نوجوان ایک عجب سی رومانیت کا شکار ہیں۔ سیاسی اسلام کی طرف نوجوانوں کے میلان کا ایک بڑا راز یہی رومان پرستی ہے۔ جس کا حقیقت سے تعلق تو منقطع ہے ہی، دین سے بھی اسے کچھ سروکار نہیں۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ کچھ دیر رک کر سیاسی اسلام کی رومان پرور فطرت کا جائزہ لیا جائے۔ گزارش ہے کہ  تاریخی طور پر جدیدیت  نے اپنے سیاسی، معاشی اور سماجی پھیلاؤ کے لیے دو قسم کے طرزِ عمل اختیار کیے ہیں: اصلاحی طرزِ عمل اور انقلابی طرزِ عمل۔ اصلاحی طرزِ عمل بتدریج تبدیلی کی راہ ہموار کرتا ہے جب کہ انقلاب یہی تبدیلی یکمشت حاصل کر لینا چاہتا ہے۔ وہابیت بھی عملی میدان میں انہی دو طریق ہائے عمل کو بروئے کار لاتی رہی ہے۔ اول اول اس نے  ’’تحریکِ اصلاح“ کا علم بلند کیا مگر جب   بیل منڈھے چڑھتی نظر نہ آئی تو وہی تحریکِ اصلاح ’’تحریکِ جہاد“ میں منقلب ہو گئی، جس میں جہاد کی معنویت وہی ہے جو انقلاب کی ہوتی ہے۔ تفصیل اس کی یہ ہے کہ  جہاد خارج بینی پر مبنی ہوتا ہے؛ یعنی باطل کے خلاف عمل میں آتا ہے جب کہ انقلاب دروں بینی کا نتیجہ ہوتا ہے؛ یعنی اپنے ہی روایتی سماجی، سیاسی و معاشی  ڈھانچوں کو تلپٹ کرتا ہے۔ اسی بنیاد پر یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ تحریکِ جہاد اصلاً‌ تحریکِ انقلاب تھی۔

انقلاب کی نسبت یہ امر پیشِ نگاہ رہنا ضروری  ہے کہ اس کی آبیاری رومانیت سے ہوتی ہے۔ مغرب میں رومانیت عقل کی خود سری کا ردعمل تھا جبکہ وہابی سیاسی اسلام کے ہاں عقیدے کو نظریہ اور  مذہب کو سیاسی بنا دینے کا نتیجہ ہے۔ مذہب سیاست اور نظریے کی بھینٹ چڑھ جائے تو اس کی فراہم کردہ تہذیبی اقدار9 کی معنوی جہتوں کا کام رومانوی آدرشوں سے نکالا جاتا ہے۔ یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ اقدار کی مذہبی اور  تہذیبی  معنویت فنا کر کے انہیں رومانوی آدرشوں میں تبدیل کر دیا جاتا ہے۔چنانچہ، سیاسی اسلام میں جہاد، خلافت وغیرہ کا تصور مذہب کی فراہم کردہ تہذیبی قدر کے طور پر نہیں بلکہ ایک غیر حقیقی رومانوی آدرش کی حیثیت سے ہے۔ رومانوی مثال پرستی کے معیار پر پورا نہ اترنے کے باعث ہی سیاسی اسلام کے تصور سازوں کو اسلامی تاریخ کے اموی، عباسی اور عثمانی ادوار خلافت و سلطنت محض ’’غیر اسلامی ملوکیت“ نظر آتے ہیں۔ اس میں اچنبھے کی بات نہیں، اقدار کی تہذیبی اور مذہبی معنویت عنقا ہو جائے تو مسلم تہذیب و تاریخ ’’غیر اسلامی“ ہی نظر آتے ہیں۔ ’’خالص اسلام“ کے تصور کو زیرِ غور لایا جائے تو اس کا سوتا بھی دراصل رومانوی مثالیت پسندی سے  ہی پھوٹتا ہوا نظر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس اسلام کے تناظر میں بذریعہ روایت منتقل ہونے والا اسلام ’’غیر اسلامی“ نظر آنے لگتا ہے۔ خیال نشیں رہے کہ رومانیت محض ایک فریبِ خیال ہے۔ اس کا زائیدہ ’’خالص اسلام“ فقط ایک طلسم ِ دین رباہے اور اس کا آفریدہ تصورِخلافت محض ایک  یوٹوپیائی سراب ہے۔  جبھی تو یہ دونوں آج تک خارج میں متحقق نہیں ہو پائے۔ جو ہوا وہ دین خالص اور خلافت نہیں انتشارِ خالص اور نراجِ محض ہے، یعنی ہر کہ و مہ کی اپنی اپنی تعبیرِ دین اور ہر ہما شما کی اپنی اپنی خلافت۔

 گزارش ہے کہ رومانیت کی تان نابودیت پر ٹوٹتی ہے۔رومان کا فسوں ٹوٹتے ہی رومان پرست نابودیت کی تحویل میں چلا جاتا ہے۔  بالفاظ دیگر، رومانیت کی طلسم شکنی (Disenchantment) نابودیت کا باعث بنتی ہے۔  نابودیت کے حوالے سے یہ جان لینا ضروری ہے کہ نابودیت مذہب کی نظریہ کاری کا منطقی نتیجہ ہے۔ گو استعمار کے ہاتھوں ہزیمت سے پیدا ہونے والی یاس آمیز کیفیت بھی  نابودیت کے پنپنے میں معاون ہوئی ہے؛ تاہم اس حوالے سے اصل الاصول یہی ہے کہ  مذہب کو نظریہ بنا دیا جائے یا نظریے کو مذہب، بہر تقدیر نابودیت کا ظہور لازم ہے؛ کیونکہ بہرصورت مذہب کا خون ہوتا ہے۔ مذہب معنی اور امید کا سرچشمہ ہے اور انہیں دو کے خاتمے کا نام نابودیت ہے۔ مغرب نے نظریے کو مذہب کی جگہ پر متمکن کیا تو خود کو ہمہ جہتی نابودیت میں گھرا ہوا پایا۔وہابیت نے مذہب کو نظریے کی پست سطح پر لا پھینکا تو اسی شامت سے دوچار ہوئی۔دریں اثنا دونوں نے مسمار ہوتے معنی اور امید کو رومانیت کے پائے چوبیں سے سہارا دینا چاہا مگر بے سود۔مختصر یہ کہ مذہب کو سیاسیا کر نفسی اور سماجی دوائر میں اس کے کردار کو منہا کر  دیا جائے تو  وہ مرنے مارنے کا ہتھیار بن جاتا ہے۔

گزارش ہے کہ نابودیت دہشت گردی، نراجیت اور تخریب کاری کی ماں ہے اورخودکش حملے اس  کا منتہائی اظہار ہیں۔ گھر،  کنبہ، خاندان، برادری،  دوستی، معاشرت اور رشتہ داری سب اخلاقی اقدار پر استوار ہوتے ہیں اور  مذہب سے معنویت کشید کرتے ہیں۔ جب مذہب سیاست کی بلی چڑھ جائے اورسماجی جہت سے محروم کر دیا جائے تو سماج قدری بحران (Anomie (کا شکار ہو جاتا ہے اور سبھی اوضاعِ تعلق بے معنی نظر آنے لگتے ہیں۔ایسی  کٹھن صورت حال میں رومان پرست نوجوان کے لیے کنجِ نابودیت ہی بچتا ہے کہ جس میں وہ پناہ لے اور  مرنے  مارنے کا استعارہ بن جائے۔’’مارو یا مر جاؤ“ کی ہیجانی کیفیت جب عَبائے مذہب اوڑھتی ہے تو ’’شریعت یا شہادت“ کا روپ دھارتی ہے۔ یوں بھی مذہب  کا روغن چپڑا ہو تو کڑوی گولی نگلنا سہل ہو جاتا ہے۔ شیخ عبدالقادر الصوفی یوں کشفِ حقیقت کرتے ہیں:

The ethos of suicide-bombing – its leaders, its military wing, its helpless victim youths – it is all an antithesis of Islam, an anti-Islam. Full of hate. Full of fear. Full of menace and threats. Devoid of hope. Devoid of Tawakkul. Devoid of Iman. Devoid of ‘Ibada. Devoid of men. No Jama’at. No Amir. Nothing! Nihilism – the bastard child of capitalism.10

’’خودکش حملہ آوری  کا مزاج – اس کے  حامل  قائدین، عسکری وِنگ، اس  مزاج کے صیدِ زبوں بنتے نوجوان – سبھی اسلام کی ضد  ہیں، نقیضِ اسلام ہیں۔ نفرت سے لبالب، خوف سے مملو، تخویف اور دہشت  سے بھرے ہوئے۔ امید سے خالی، توکل سے عاری، ایمان سے کورے، عبودیت سے محروم، رجال سے تہی داماں۔ نہ کوئی جماعت ہے نہ امیر۔ کچھ بھی نہیں! بس نابودیت – سرمایہ داریت کا ناجائز بچہ۔“

نابودیت کو جنم دینے میں سرمایہ داریت کا کردار نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ سرمایہ داریت جدیدیت کے پھیلاؤ کی معاشی قوت ہے۔ روایتی سماجی ڈھانچے جو اقدار پر بنا کرتے تھے، ان کی کایا کلپ کرنے میں سرمایہ داریت کے معاشی مؤثرات بنیادی اہمیت کے حامل ہیں۔  ان کے زیرِ اثر اقدار کے بندھن میں بندھے سماجی تعلقات یکا یک معاشی مفاد اور ضرورت پر منتقل ہونے لگے اور بذریعہ قانون regulate ہونے لگے۔ نتیجتاً‌ معاشرے  قدری خلا سے دوچار ہوتے چلے گئے اور انسان بے معنویت اور نابودیت کی دلدل میں دھنستا چلا گیا۔  اس تحول سے صرف مغربی معاشرے ہی نہیں مسلم معاشرے بھی دوچار ہوئے ہیں اور کچھ ہنوز عبوری مرحلے میں ہیں۔ مسلم دنیا میں برپا ہونے والے اس اقدار کش طرزِ عمل میں  وہابیانہ تصورِ دین جدیدیت اور سرمایہ داری کا ہمنوا رہا ہے۔ سرمایہ داری کے پہلو بہ پہلو تہذیبِ مغرب کی دیگر اوضاع نے بھی نابودی رویے کی آبیاری میں بھرپور کردار ادا کیا ہے۔

اس سلسلے میں جدید تعلیم کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ  یہ امر  کسی سے پوشیدہ نہیں کہ دہشت گرد جتھوں کا ایندھن بننے والوں میں بڑی تعداد جدید تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ہے۔اس کی وجہ بھی جدید تعلیم سے نمو پانے والے  قدری بحران  Anomie) (اور اس سے پھوٹنے والی نابودیت ہے۔جدید تعلیم اپنی ساخت اور محتویٰ ہر دو اعتبار سے سماجی و اخلاقی اقدارکے  اضمحلال کا باعث ہوتی ہے۔یہی اضمحلال قدری بحران  پرمنتج ہو کر نابودیت میں ڈھلتا ہے۔قدری بحران کے نخچیروں میں ’’مذہبی“اور غیرمذہبی کی کوئی تفریق نہیں، کیونکہ انفس سےقدر عنقا ہو جاتی ہےاور مذہب محض ’’ضابطے“ کا رہ جاتا ہے۔قدری بحران کا شکار (Anomic (نوجوان جب معاشرے میں کسی بھی طرح موزوں نہیں ہو پاتا تو نابودیت کی اور لپکتا ہے۔  شیخ عبدالقادر الصوفی اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:

Terrorists are a mixed bunch of social misfits and outcasts, adhering to a philosophy of nihilism. For this reason, neither the lives of their victims or themselves really matter, and the only transcendence is in the nihilistic act of annihilation.11

’’ دہشت گرد دراصل سماج کے دھتکارے ہوئے اور معاشرے کے نااہل افراد کا مجموعہ ہیں جو فلسفۂ نابودیت پر یقین رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی نظر میں نہ اپنی زندگیوں کی کوئی قدر ہے نہ ان کا نشانہ بننے والوں کی زندگی ان کے ہاں کوئی قیمت رکھتی ہے۔  اس صورت حال سے چھٹکارا وہ نابودیت پر مبنی تباہ کن فعل میں دیکھتے ہیں۔“

ماحصل یہ کہ وہابیت اور سیاسی اسلام نے نظریۂ توحید اور اس میں مضمر انکارِ عملِ  کا جو درخت بویا تھا تخریب کار نابودیت اسی کا زہریلا پھل ہے۔ خشت اول میں کجی ہو تو اس پر اٹھائی گئی عمارت کیونکر سیدھی ہو گی۔اور جب عمارت میں ٹیڑھ ہو تو پھر  بھلے وہ کتنی ہی فلک بوس کیوں نہ ہو، مآل کار زمین بوس ہو کے رہتی ہے۔ تعمیر میں کجی نابودیت کو مستلزم ہے۔

ان کو مے خانے میں لے آؤ سنور جائیں گے

بات کو سمیٹتے ہوئے یہ واضح کر دینا ضروری ہے کہ تحریر ہذا وطنِ عزیز میں جاری  فرقہ وارانہ کفش آزمائی کا تسلسل نہیں ہے۔ اس کا تناظر قطعاً‌ فرقہ پرستانہ نہیں، نہ ہی کسی طبقے کی ابلیس کاری (Demonisation )  مقصودہے۔  فقط عالمِ اسلام کو درپیش  تباہ کن صورت حال کا تجزیہ و تحلیل مطمح نظر ہے۔اور دیانت دارانہ تجزیے میں مغالطہ آفریں خوش اندیشی کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ نیز صورت حال کی سنگینی بھی مقتضی ہے کہ تجزیے کو بے لاگ رکھا جائے۔گو کہ پاکستان کی حد تک عملی سطح پر ہمارے دفاعی اداروں نے اپنی بے پناہ قابلیت کی بدولت اس گھمبیر صورت حال پر خاصی حد تک قابو پا لیا ہے جو بلاشبہ لائقِ تحسین ہے تاہم اس کامیابی کو پائیدار بنانے کے لیے فکری میدان میں بھی اس آشوب ناک مظہر کو دھول چٹوانا ضروری ہے۔ تحریرِ ہذا اسی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے کے لیے بروئے کار لائی گئی ایک ادنی سی کاوش ہے۔ یہ بھی ملحوظِ خاطر رہے کہ یہ تحریر اس قدر مبسوط نہیں ہے کہ موضوع کی کفایت کر پائے، بلکہ سچ پوچھیں تو شاید اس کے استقصا کے لیے کتاب بھی ناکافی ہو۔بنا بریں، ممکن ہےکچھ رخنے رہ گئے ہوں۔ لامحالہ اس کا ایک سبب عجزِ اظہار اور موضوع کی پیچیدگی بھی ہے۔ قارئین سے امید ہے کہ درگزر فرمائیں گے۔

یہ عرض کر دینا بھی ضروری ہے کہ یہ تحریر کسی نئے گفتمان کو تشکیل نہیں دیتی بلکہ  جدیدیت اور  استعمار  سے نبرد آزما پہلے سے موجود گفتمان ہی کی توسیع ہے۔ ایسے گفتمان کا پنپنا ہمارے سماج کے لیے ازبس ضروری ہے جو محض دہشت گردی کے رد پر اکتفا نہ کرے بلکہ ام الخبائث استعماری جدیدیت کے فکری و ذہنی تسلط کے خلاف مزاحمت کی راہ بھی ہموار کرے۔ کیوں کہ ہمارے سیاسی، سماجی  اور معاشی پس منظر میں کرنے کا کام استعماریت و جدیدیت سے  ثقہ نظری بنیادوں پر نبردآزمائی ہی ہے، باقی سب اسی کے ذیلی شعبے ہیں۔ اس ضمن میں پہلا کام یہ ہے کہ اہل سنت کی کلامی اور فقہی روایت سے کسبِ فیض اور اخذِ بصیرت کرتے ہوئے اسی کی طرز پر ثقہ علم کی بنیاد رکھی جائے جو جدیدیت و استعماریت سے فراست پر مبنی مزاحمانہ تعامل کے لیے خطوط وضع کرے۔ اس مزاحمانہ تعامل یا نبرد آزمائی کا مبنیٰ رومانیت کی بجائے قابلِ عمل لائحۂ عمل کو بنایا جائے۔

گزارش ہے کہ جدیدیت سے تعامل کی ضرورت مسلم ہے، مزاحمت سے مراد  تیاگ،تخریب یا اسلام کی پیوندکاری نہیں بلکہ جدید استعماری اوضاع کے ساتھ معاملہ کرتے ہوئے جدیدیت کی ضرر رسانیوں کی راہ میں مزاحم ہونا، یعنی ان  اوضاع کے دینی و تہذیبی اعتبار سے مضر اثرات کو resist کرنا اور  پہلو بہ پہلو ان کی قلبِ ماہیت کی طرف پیش رفت کرنا ہے۔ مزاحمت کے  اول الذکر پہلو کی برآری کے لیے عملِ صالح کی قوت جبکہ مؤخر الذکر کے لیے اعلی سطحی ذہانت اور گہری بصیرت درکار ہے۔ بیک جنش ایک ہی ہلے میں سب کچھ تلپٹ کر دینے کی رومانوی اپروچ اور جدید اوضاع کی تہہ میں کارفرما تصورِ حقیقت سے کو کھرچے بغیر، ان کی وجودیات کی تقلیب کیے بغیر محض پیوند کاری سے کام نکالنے کی ہزیمانہ سوچ سے الگ رہ کر استعماریت اور جدیدیت کو  یوں کھرچنا مقصود ہے کہ مسلم طاقت کے مراکز بھی کسی داخلی انتشار کا شکار نہ ہوں اور استعماری اوضاع کی  استعماریت بھی  erode  ہوتی جائے۔ یعنی سانپ بھی مرے اور لاٹھی نہ ٹوٹے۔

سنی فقہی روایت کی ایک نمایاں خصوصیت  اس کا حقیقت پسندانہ نقطۂ نظر  (Pragmatic Approach) ہے۔ صورت حال کا گہرا ادراک کرتے ہوئے زمانی معروض کو لازمانی قدر سے ہم آہنگ بنائے رکھنا اس کا امتیازی وصف ہے۔ وہ اس بات سے پوری طرح آگاہ نظر آتی ہے کہ زمانے کی رَو لازمان سےگہرا ربط رکھتی ہے اور اس باہمی ربط میں مرکزیت اور غلبہ لامحالہ لازمان و ماورا کو حاصل ہونا چاہیے۔ ایسا نہ ہو تو بحرانات کی آماج گاہ بن جانا دنیا کی تقدیر ٹھہرتا ہے۔زمان و لازمان، ماورا و تاریخ، ابدیت و تغیر کے اس باہمی ربط کو برقرار رکھنا اور اسی ارتباط سے زمانی معروض کو تہذیبی معنویت بہم کرتے رہنا فقہِ اسلامی کی شان رہی ہے۔جذباتی ردعمل، آدرش پرستی، رومان پروری یا  تیاگ   پر مبنی رویے فقہی بصیرت سے قطعاً‌ لگا نہیں کھاتے۔ آدرش پرستی اور معروض پرستی کی دو انتہاؤں کے بیچ آدرش و معروض کا سنگم بنے رہنا سنی فقہی روایت  کی نمایاں پہچان ہے۔ یہی وہ توازن و اعتدال ہے جو اہل سنت کی علمی روایت کے ماتھے کا جھومر ہے۔

دستیاب معروضی حالات میں  دینی آدرشوں اور لازمانی و ماورائی اقدار  کے لیے  نہ صرف گنجائش بنائے رکھنا بلکہ انہیں غالب رکھتے ہوئے  تاریخی معروض کو ان کے سانچے میں ڈھالتے رہنا اور تہذیب کو مرکزِ تہذیب (ذاتِ رسالت مآب ﷺ  اور آپ کے زمانِ خیریت نشان)  سے  مربوط رکھنا سنی فقہی روایت کا طرۂ امتیاز رہا ہے۔ وہ معروض کو ماورائی حق و قدر سے ایسے جوڑے رکھتی ہے کہ وہ تاریخی و ارضی معروض من وجہ لازمان و ماورا کا آئینہ دار بن جاتا ہے۔نہ تو رومانوی ردعمل کو سندِ جواز دے کر بے دھیانی میں دشمن کی آلہ کار بنتی ہے  اور نہ ہی حاضر و موجود سے ساز باز کر کے اس پر ’’اسلامی “ کا ٹھپا لگاتی ہے۔ قدر اور معروض کے ارتباط پر مبنی فقہی روایت کے اسی طرزِ عمل کے باعث  قدر  تاریخ اورمعاشرے کی زندہ حقیقت بنتی ہے۔ اسی روشِ کار کو حکیم الامت علامہ  محمداقبال اسلام کی خصوصیت قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں:

With Islam the ideal and the real are not two opposing forces which cannot be reconciled…… The life of the ideal consists, not in a total breach with the real…….but in the perpetual perpetual endeavour of the ideal to appropriate the real with a view eventually to absorb it, to convert it into itself.12

’’اسلام میں  آدرش اور معروض دو متحارب قوتیں نہیں ہیں کہ جن میں مفاہمت ممکن نہ ہو۔۔۔۔ آدرش کا زندہ رہنا معروض سے کلی انفصال پر منحصر نہیں ہے۔۔۔۔ بلکہ معروضی دنیا کو اس مطمح نظر کے ساتھ مسخر کر لینے کی مسلسل کاوش پر منحصر ہے کہ مآل کار وہ  آدرش اس دنیا کو خود میں سمو لے، اسے اپنے سانچے ڈھال لے۔“

یہی وہ مزاحمت یا نبرد آزمائی پر مبنی تعامل ہے جو جدیدیت اوراستعمار کی تشکیل کردہ دنیا کے رو بہ رو اپنانا ناگزیر ہے۔ اس مزاحمانہ طرزِ عمل کے اولین نقوش  جیسا کہ بیان ہوا  فقہی روایت سے حاصل ہوتے ہیں۔البتہ یہ بھی امرِ واقعہ ہے کہ فقہ و شریعت قضا کے ادارے کے بغیر نہ صرف بے اثر  ہوتی ہے، بسا اوقات آلاتی بھی بن جاتی ہے۔ بنا بریں یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ صورت حال سے نمٹنے کا اولین تقاضا نظامِ  قضا  کی بحالی ہے۔  قضا کی  بحالی شریعت کی بالادستی کی ضمانت ہے13۔اس سے نہ صرف ’’فتوی“ مؤثر،معقول اور آزاد14  ہو گا بلکہ جدید ریاست کی وجودیات کی  تقلیب بھی ہو جائے گی۔  ریاستی بند و بست کی یہی قلبِ ماہیت دینی اقدار کے لیے  سکڑتی ہوئی گنجائش کو پھر سے کشادہ کر دینے کی نوید ثابت ہو گی۔ اسی سےنظم اجتماعی میں پائے جانے والے بگاڑ کی روک تھام کے لیے مؤثر اقدام کیا جا سکے گا۔جدید دہشت گردانہ ذہنیت کی بیخ کنی  بھی قضا کی بحالی سے ہی مشروط ہے کیوں کہ  تاریخی طور پر اس ذہنیت کے فروغ کا ایک بڑا محرک قضا کے ادارے کی عدم موجودگی بھی ہے15۔

دوسرا نکتہ جو اس ضمن میں نہایت اہم ہے قضا کی بحالی کے پہلو بہ پہلو تصوف کے ادارے کی فعالیت ہے۔گزارش ہے کہ قدر کی جمالیاتی جہت تصوف پر ہی استوار ہے۔ اسی سے قلب میں حق مستحضر رہتا ہے، نفسِ انسانی دین و شریعت پر ریجھتا ہے اور بندگی وجودی حال بن جاتی ہے۔ جدیدیت کے رو بہ رو مزاحمت کی دو شروط میں سے ایک عملِ صالح کی قوت بھی تصوف کے اسی عملِ مردم سازی پر موقوف ہے۔ مزید براں، انفکاکیت، بے گانگی اور نابودیت جیسے نفسی و وجودی احوال، جو دہشت گردی یا الحاد کی اور لپکنے کا باعث ہوتے ہیں، دراصل قدری بحران کے غماز ہیں۔ تصوف کے روایتی کردار کا احیا ہی اس بحران کا مداوا ہے۔   خیال رہے کہ ضابطہ نما شریعت کے استعماری تصور پر قائم  منفک از سماج جدید اصلاحی تحریکیں اور جماعتیں تصوف کی قائم مقام نہیں ہو سکتیں۔ تصوف اور ان تحریکوں کے مابین چھتیس کا آنکڑہ ہے۔ تصوف ایک سماجی ادارہ ہےجو داخلِ فرد میں حق اور قدر کی دروں کاری کر کے شریعت و فقہ کے سماجی پہلو کو  زندہ رکھتا ہے۔مزید براں، یہ انسانی عمل کو میکانکی بنائے بغیر، ارادے کی آزادانہ فعلیت کو برقرار رکھتے ہوئے انفس میں قدر کو رچاتا اور انہیں شریعت کے سانچے میں ڈھالتا ہے۔ یوں  نہالِ قدر شاداب رہتاہے اور نتیجتاً‌ انسان اپنی آدمیت سے سرشار رہتا ہے۔

اس کے برعکس، جدید اصلاحی تحریکیں سماج سے منقطع وجود کی حامل ہیں۔ جمالیات سے عاری ضابطہ بند شریعت کی مبلغ ہیں۔ باطن سے پہلو تہی کر کے ظاہر پر زور آزماتی ہیں۔ چنانچہ نہ تو حق کی دروں کاری ہوتی ہے نہ ہی اس کا خارجی نتیجہ (مبنی بر قدر معاشرت) سامنے آتا ہے۔ تاہم یہ بھی سچ ہے کہ فی زمانہ تصوف کے ادارے میں بہت سی خامیاں نہ صرف راہ پا گئی ہیں بلکہ جڑ پکڑ چکی ہیں۔ اور جو ان خامیوں سے مامون ہیں وہ اپنے عصر کے اخلاقی امراض اور نفسی احوال کےراست ادراک سے  ہی قاصر ہیں، الا ما شاء اللہ۔ بہرحال ان سب امور کو نگاہ میں رکھتے ہوئے تصوف کو پھر سے فعال کرنے کی ضرورت ہے تا کہ  ایمان و شریعت سیاسی نظریے اور استعماری ضابطے کی بجائے انفس کا حال بنیں،شریعت کی سماجی و اخلاقی جہت بحال ہو اور میکانکیت اور دہشت گرد نابودیت سے خلاصی کا سامان ہو۔ واللہ المستعان۔


حواشی

  1. تخلیص پسندی وہابیت اور تجدد کا نقطۂِ اتصال ہے۔ ہمارے  ہاں وہابیت اور تجدد کو ایک دوسرے کی نقیض باور کروایا جاتا ہے  حالانکہ یہ دونوں اصولی سطح پر ایک ہیں۔ دونوں ہی دین کو روایتی علوم سے ’’پاک“ کر کے ’’خالص“ بنانا چاہتے ہیں۔ سرسید بجا طور پر اپنے آپ کو نیم چڑھا وہابی کہا کرتے تھے۔
  2.  گو کہ تہذیبی اثرات غیر محسوس طور پر منتقل ہوتے ہیں تاہم اس امر کی تصدیق تاریخی قرائن سے بھی ہوتی ہے کہ وہابیت کا تخلیص پسندانہ رویہ مغرب کی پروٹسٹنٹ/ لوتھرن تحریک سے مستعار ہے۔ مولانا مناظر احسن گیلانی وہابی تحریک کو اسلام کا پروٹسٹنٹ فرقہ  قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’شیخ عبدالوہاب نجدی کے متعلق ہمیں معلوم ہے کہ ایک زمانے تک ان کا قیام مشرق و مغرب کی کڑی ملانے والی مشہور تاریخی بندرگاہ بصرہ میں رہا ہے اور بقول ان کے ایک عقیدت مند کے:  بصرہ میں یہ جذبہ (جذبۂ وہابیت) اور تیز ہو گیا“۔ علاوہ ازیں ، پاک و ہند کے تناظر میں، آپ نے ماثر الامراء کے حوالے سے  شاہ جہاں کے دربار میں ملا عبدالحکیم سیالکوٹی سے مناظرے کرنے والے ایک عالم دانشمند خاں سے متعلق آپ نے ماثر الامراء کے حوالے سے درج ذیل حالات نقل کیے ہیں: ’’کہتے ہیں کہ خان صاحب موصوف یعنی دانشمند خاں آخر عمر میں اہل فرنگ کے علم کی طرف مائل ہو گئے تھے اور اہلِ فرنگ کی تحریفات کو دہراتے رہتے تھے۔“ (تذکرۂ شاہ ولی اللہ (مکتبۃ الحسن: لاہور، ۲۰۱۱ء) ص ۱۳، ۱۷)
  3. یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ وہابیت نے سنی روایت سے بغاوت کا صور تو اس کے تنوع سے بیزار ہو کر پھونکا تھا لیکن اب خود انتشارِ محض کا عنوان بن گئی ہے۔ ہر محقق کے اپنے اپنے کئی عدد “قطعی” اور “حتمی” مواقف ہیں۔ تنوع اصول پر مبنی ہوتا ہے جبکہ انتشار اصول کے خاتمے سے عبارت ہے۔ یہ وہی صورت حال ہے جس سے انکارِ مذہب کے بعد مغرب دوچار ہے۔  عمل میں بھی وہابیت اور مغرب دونوں نراجیت کا شکار ہیں جیسا کہ آئندہ سطور میں اس کا ذکر آئے گا۔  بہرکیف اس مقدمے سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ مذہب کی حیثیت بدل دی جائے تو فکر وعمل میں انتشار مقدر ہو جاتا ہے۔
  4. شیخ عبدالقادر الصوفی سلسلہ شاذلیہ قادریہ سے منسلک  صاحبِ ارشاد بزرگ  تھے۔ نسلاً یوروپی تھے، سن ۱۹۶۷ء میں مراکش کے شہر فاس میں مشرف با اسلام ہوئے۔ عقیدۃً سنی اور مذہبا مالکی تھے۔ آپ مغربی تہذیب  بالخصوص اس کی معاشی قوت سرمایہ داری کے زبردست ناقد تھے۔ سنی المذہب ہونے اور جدیدیت کے ناقد ہونے کی بنا پر وہابی دہشت گرد گروہ بھی آپ کی تنقیدی تلوار کی زد پر رہتے تھے۔ آپ جدیدیت کے پیدا کردہ تہذیبی ڈھانچوں کے بالمقابل مسلم اوضاعِ تہذیب کے احیا کے لیے سرگرم رہے۔اس حوالے سے آپ نے  اسلام کے معاشی، سیاسی اور سماجی  پہلوؤں پر بہت سی کتب تصنیف کیں، مقالہ جات لکھے اور محاضرات دیے ہیں۔  یکم اگست ۲۰۲۱ء کو جنوبی افریقہ کے شہر رأس امید میں وفات پائی۔ طاب اللہ ثراہ و جعل الجنۃ مثواہ۔
  5. Shaykh Dr. Abdalqadir as-Sufi, The Salafi Anomaly : https://shaykhabdalqadir.com/the-salafi-anomaly
  6. امام العصر علامہ أنور شاہ صاحب کشمیری کا ارشاد فیض بنیاد ہے: “التوارث والتعامل ھو معظم الدین. وقد أری کثیرا منھم یتعبون الأسانید، ویتغافلون عن التعامل.” (الفوائد المنتقاة من أمالي الإمام العصر محمد أنور شاہ، ص ۱۳۱) ترجمہ: توارث و تعامل دین کی چوٹی ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ بہت سے لوگ اسناد کے پیچھے بھاگتے پھرتے ہیں اور تعامل کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔
  7. Shaykh Dr. Abdalqadir as-Sufi, The Salafi Anomaly :  https://shaykhabdalqadir.com/the-salafi-anomaly
  8. وہابیت کی استعماری جدیدیت سے فکری نسبتیں تو متن میں بیان کر دی گئی ہیں، رہ گیا تاریخی ناتا تو گزارش ہے کہ ایسے تاریخی شواہد موجود ہیں کہ جن سے یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ برصغیر کی تحریک وہابیت کی اٹھان استعماری سرپرستی یا کم ازکم استعماری معاونت کی رہینِ منت تھی۔استعمار وہابیت کے فروغ میں اپنے اقتدار کا دوام دیکھتا تھا۔ استعمار اور وہابیت کے باہمی ربط ضبط کے حوالے سے ایک دلچسپ تاریخی شہادت مولانا جعفر تھانیسری صاحب کی ’’سوانح احمدی“ سے یہ فراہم ہوتی ہے کہ ’’مولانا محمد اسحاق نے دہلی کے کسی مہاجن کی ہنڈوی  مجاہدین کو بھیجی تھی۔ پنجاب میں اس کا روپیہ وصول نہ ہوا تو مولانا صاحب نے انگریزی عدالت میں مہاجن پر دعوی دائر کیا اور ڈکری حاصل کی۔ آگرہ کی عدالتِ بالا سے بھی مہاجن کا مرافعہ خارج ہوا اور اسے ڈکری کی رقم ادا کرنی پڑی“۔  (بحوالہ: سید ہاشمی فرید آبادی، تاریخِ مسلمانانِ پاکستان و بھارت (کراچی: انجمن ترقی اردو، ۲۰۰۳ء) جلد دوم، ص ۳۱۲)
  9. تہذیبی اقدار سے مراد ایسی اقدار ہیں جو معروض میں ظہور پا کر تہذیب کی مقوم و محافظ بنیں؛ جیسے خلافت اور جہاد۔ خلافت کے ادارے کی تہذیبی معنویت یہ ہے کہ یہ دیگر تہذیبی اوضاع کا قِوام ہے اور جہاد کی تہذیبی معنویت اس امر میں مضمر ہے کہ تہذیب کے بقا اور پھیلاؤ میں اس کا مرکزی کردار ہے۔وہابیت تہذیبی اقدار کو رومانوی بنا دیتی ہے جبکہ اخلاقی و سماجی اقدار کو قانون میں ڈھال دیتی ہے۔ اس حوالے سے بھی جدیدیت اور وہابیت ایک صفحے پر ہیں۔
  10.  Shaykh Abdalqadir as-Sufi, Risala to a young man on the edge : https://shaykhabdalqadir.com/risala-to-a-young-man-on-the-edge/
  11.  Shaykh Abdalqadir as-Sufi, On terrorism : https://shaykhabdalqadir.com/on-terrorism/
  12.  Allama Muhammad Iqbal, The Reconstruction of Religious Thought in Islam (ILQA publications: Lahore, 2019), pg. 12.
  13.   بالا دستی اور نفاذ کا فرق ملحوظ خاطر رہے۔ شریعت کا نفاذ شریعت کو  جدید ریاست کا قانونی آلہ بنا دینے کے مترادف ہے جبکہ شریعت کی بالادستی کا مطلب ہے شریعت کا ہر شے پر حکم ہونا حتی کہ مرکزِ طاقت پر بھی۔
  14.  قضا کا سائبان نہ رہے تو فتوی آزاد نہیں رہتا، ہاں بے لگام ضرور ہو جاتا ہے!
  15.  برصغیر میں استعمار کے ہاتھوں سنی حنفی نظامِ قضا کے تعطل کے جہاں اور بہت سے نتائجِ بد برآمد ہوئے، وہیں اس کا ایک شاخسانہ تکفیر کی بے لگامی بھی ہے۔ قاضیوں کو برخاست کرنے والے استعماری فرنگی اس بات سے پوری طرح آگاہ تھے کہ اس کے کیسے کیسے سنگین نتائج برآمد ہو سکتے ہیں، تاہم جیسا کہ پیش ازیں بیان ہوا ان کی  اپنی مصلحت اسی میں تھی اور اسی فتنہ پردازی میں وہ اپنے اقتدار کا دوام دیکھتے تھے۔ ایک انگریزاستعماری افسر تحریر کرتا ہے کہ قاضیوں کی برخاستگی کا دو طرح سے اثر مرتب ہوا ہے، اولاً‌ یہ کہ اس سے پرجوش نیم ملاؤں کی تعداد بڑھ گئی ہے اور ثانیاً‌ یہ کہ مسلمانوں کی زندگی کا اور ان کے مذہب کا قائم رہنا دشوار ہو چلا ہے۔  مراجعت فرمائیے: سید طفیل احمد صاحب منگلوری، مسلمانوں کا روشن مستقبل (دارالکتب: لاہور،۲۰۱۶ء) ص ۱۴۰ ۔

حالات و مشاہدات

(اکتوبر ۲۰۲۳ء)

تلاش

Flag Counter