اکتوبر ۲۰۲۳ء

اخروی نجات اور مواخذہ کے ضابطے

― محمد عمار خان ناصر

سورہ مائدہ کی آیت ۱۹ میں اہل کتاب سے خطاب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ: یَـٰأَهلَ ٱلكِتَـٰبِ قَد جَاءَكُم رَسُولُنَا یُبَیِّنُ لَكُم عَلَىٰ فَترَة مِّنَ ٱلرُّسُلِ أَن تَقُولُوا مَا جَاءَنَا مِن بَشِیر وَلَا نَذِیر فَقَد جَاءَكُم بَشِیر وَنَذِیر وَٱللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَیء قَدِیر (المائدہ، آیت ۱۹)۔ ’’اے اہل کتاب، تحقیق تمھارے پاس ہمارا رسول آیا جو تمھارے سامنے حق کو واضح کرتا ہے، رسولوں کے آنے میں ایک انقطاع (یا ایک طویل وقفے) کے بعد، تاکہ تم یہ نہ کہہ سکو کہ ہمارے پاس تو کوئی خوشخبری دینے اور ڈرانے والا نہیں آیا۔ سو اب...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۰۵)

― ڈاکٹر محی الدین غازی

(431) شَہِدَ شَاہِدٌ مِنْ أَہْلِہَا: شھد شاھد کا ترجمہ کچھ لوگوں نے فیصلہ کرنا اور زیادہ تر لوگوں نے گواہی دینا کیا ہے۔ وَشَہِدَ شَاہِدٌ مِنْ أَہْلِہَا۔ (یوسف: 26)۔ ”اس کے قبیلے میں سے ایک فیصلہ کرنے والے نے فیصلہ کیا“۔ (فتح محمد جالندھری)۔ ”اس عورت کے اپنے کنبہ والوں میں سے ایک شخص نے (قرینے کی) شہادت پیش کی“۔ (سید مودودی)۔ ”اور عورت کے گھر والوں میں سے ایک گواہ نے گواہی دی“۔ (احمد رضا خان)۔ ”اور عورت کے قبیلے ہی کے ایک شخص نے گواہی دی“۔ (محمد جوناگڑھی)۔ شھد کے معنی فیصلہ کرنے کے نہیں آتے، گواہی دینے کے آتے ہیں لیکن اس شخص نے مشاہدہ نہیں کیا...

حب نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مختلف ذوق

― مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

بعد الحمد والصلوۃ۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت ہمارے ایمان کا تقاضہ ہے، اس کے بغیر ایمان مکمل نہیں ہوتا کیونکہ ایمان کا معیار ہی حبِ رسول ؐہے۔ جناب نبی کریمؐ کے ساتھ جیسی محبت ہوگی ویسا ہی ایمان ہو گا۔ محبت ایمان کی علامت ہے اور تذکرہ محبت کا تقاضا ہے۔ ’’من احب شیئا اکثر ذکرہ‘‘ فطری بات ہے کہ جس کو جس سے محبت زیادہ ہوتی ہے اس کا تذکرہ بھی زیادہ کرتا ہے۔ چنانچہ دنیا بھر میں پورا سال کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جس میں لاکھوں کروڑوں مرتبہ حضور نبی کریمؐ کا ذکر مبارک نہ ہو رہا ہو۔ ماہِ ربیع الاول میں آپؐ کا تذکرہ باقی دنوں سے زیادہ...

مذہبی انقلابی جماعتوں کی سماجیات اور نفسیات

― پروفیسر راؤ شاہد رشید

'مذہبی انقلابی جماعتوں کی سماجیات اور نفسیات' — یہ کسی نہایت سنجیدہ اور وقیع علمی مقالے کا عنوان لگتا ہے۔ لیکن مجھے اب یہ لگنے لگا ہے کہ بہت مربوط اور منظم تحقیقی اور تجزیاتی مضامین سچائیوں کے کسی رخ کو اگر بے نقاب کرتے بھی ہیں تو کچھ اور، شاید زیادہ اہم، پہلوؤں کو چھپا بھی لیتے ہیں۔ چونکہ انسان اور انسانی صورت حال منطق اور تجزیے سے ورا ہے۔ منطق اور تجزیہ خود انسانی ذہن ہی کی product ہے۔ لیکن انسان صرف ذہن نہیں ہے۔ اسی لیے تجزیاتی مقالات کی بجائے بعض اوقات داستان گو، کہانی نویس اور شاعر، فطرتِ انسانی کے کسی سربستہ راز سے اچانک پردہ اٹھا دیتے...

عصرِ حاضر کے فساد کی فکری بنیادیں

― مولانا محمد بھٹی

گزشتہ پون صدی سے مسلم دنیا دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے۔ تخریب کاری کا یہ جدید مظہر اپنی سنگینی،آشوب ناکی اور حشر سامانی میں ماضی کے تمام مظاہر کو پیچھے چھوڑ چکا ہے۔ خوارج اور باطنی اپنی تمام تر فساد مآبی کے ساتھ اس نوخارجیت کے آگے ہیچ نظر آتے ہیں۔اس عفریت سے عملی سطح پر دو دو ہاتھ کرنے کے ساتھ ساتھ فکری سطح پر نمٹنا بھی ازحد ضروری ہے۔مگر صد حیف کہ اس ضمن میں ہمارا طرزِ فکر اتھلے پن کا منتہائی اظہار بن کر رہ گیا ہے اور اس کی وجہ ہمارے کارِ علمی کی عمومی صورت حال ہے۔ ہمارے ہاں عمومی رجحان یہی ہے کہ اشیا کو کما ھی دیکھنے کی زحمت گوارا نہیں کی جاتی...

انیسویں صدی میں جنوبی ایشیا میں مذہبی شناختوں کی تشکیل (۲۱)

― ڈاکٹر شیر علی ترین

بارھواں باب: اندرونی اختلافات: ایک بار مولانا رشید احمد گنگوہی مکہ مکرمہ میں اپنے شیخ حاجی امداد اللہ مہاجر کی زیارت کرنے گئے۔ حسن اتفاق سے اس وقت حاجی صاحب کے پڑوس میں محفل میلاد جاری تھی۔ حاجی صاحب نے مولانا گنگوہی سے محفل میلاد میں شرکت کی درخواست کی۔ مولانا گنگوہی نے درخواست سنتے ہی اسے پرزور انداز میں رد کیا اور کہا: "حاجی صاحب! میں میلاد میں کیسے شریک ہو سکتا ہوں، جب کہ میں ہندوستان میں دوسرے لوگوں کو اس بری محفل میں شرکت سے روکتا ہوں"۔ یہ جواب سنتے ہی حاجی صاحب مسکرائے اور مولانا گنگوہی سے کہنے لگے: "اللہ آپ کو جزاے خیر دے۔ میں میلاد میں...

تلاش

Flag Counter