اسرائیل کا ظلم،اُس خوف کا برہنہ اظہار ہے جو روزِ اوّل سے اس کے رگ و پے میں سرایت کیے ہوئے ہے۔بنی اسرائیل کے لیے عالم کے پروردگار کا یہ فیصلہ ہے کہ ذلت ومسکنت تاقیامت ان پر مسلط رہے گی۔
یہود کی تاریخ،خدا کے ساتھ بے وفائی کی ایک طویل داستان ہے۔ان کا آخری بڑا جرم اپنی ہی قوم سے اٹھنے والے اللہ تعالیٰ کے ایک جلیل القدر رسول سیدنا مسیح ؑ کواپنے تئیں مصلوب کرنا تھا۔یہ الگ بات کہ اللہ نے ان کو محفوظ رکھا۔انہی جرائم کی بنا پر انہیں منصب ِ امامت سے معزول کرتے ہوئے، ذریتِ ابراہیم کی ایک دوسری شاخ بنی اسماعیل کو اس پر فائز کر تے ہوئے،اس کے ایک عالی مرتبت فرزند،سید نامحمد ﷺ کو منصبِ رسالت و امامت عطاکر دیا گیا۔سیدنا عیسیٰ ؑ کے انکار اور ان کو مصلوب کرنے کی ناکام کوشش کے بعد،یہود کے بارے میں یہ طے کر دیا گیا کہ وہ قیامت تک بطور سزا،حضرت مسیح ؑ کے ماننے والوں کے رحم وکرم پر رہیں گے۔(آلِ عمران:55)۔
اسرائیل،امریکہ،برطانیہ اوریورپ کی تائید اور نصرت سے قائم ہے۔یہ سب مسیحی اقوام ہیں۔برطانیہ نے اس کے قیام میں بنیادی کردار ادا کیا۔امریکہ نے پھراس کوگود لے لیا۔حماس کے حملے کے بعد،اسرائیل نے عام فلسطینیوں کو جس طرح نشانہ بنایا،اس میں اسرائیل کو امریکہ کی مکمل تائید حاصل رہی ہے۔اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں جب حماس کے حملے کی مذمت کے ساتھ،اسرائیل کو جنگ بندی کے لیے کہا گیا تاکہ عام متاثرین کو انسانی بنیادوں پر امداد فراہم کی جا سکے تو امریکہ نے اس کو ویٹو کر دیا۔اپناجدید ترین طیارہ بردار جنگی جہاز’جیرالڈ فورڈ‘ کو اسرائیل کی مدد کے لیے سمندر میں اتارا۔اسرائیل کے دفاعی نظام ’آئرن ڈوم‘ کو مضبوط بنانے کے لیے اسلحے سے لدا ایک اور جہاز بھیجا۔ پہلے وزیر خارجہ اور پھرامریکی صدر، اسرائیل کے ساتھ اظہارِ یک جہتی کے لیے پہنچ گئے۔
امریکہ نے،جس طرح اسرائیل کی مسلسل حمایت کی،اس کی داستان چشم کشاہے۔مارچ میں شائع ہونے والی امریکی کانگریس کی ایک رپورٹ یہ بتاتی ہے کہ 1948ء سے آج تک، امریکہ نے اسرائیل کو دو سو ساٹھ ارب ڈالر کی امداد دی،جس میں سے نصف عسکری ہے۔اقوام متحدہ میں امریکہ نے اسی(80) بار ویٹو کا حق استعمال کیا اور یہ حق،کم و بیش چالیس بار، اسرائیل کے دفاع میں کیا گیا۔
کیا امریکہ یہ سب یہودیوں کی محبت میں کر رہا ہے؟کیا اسرائیل کی حمایت اس لیے ہے کہ وہ ایک صیہونی ریاست ہے؟مجھے ان سوالات کے جواب اثبات میں نہیں ملے۔امریکہ کی یہودیوں سے محبت کی کوئی وجہ دکھائی نہیں دیتی۔یہودی سیدنا مسیح ؑ کو پیغمبر تو دور کی بات،ایک جائز اولاد نہیں مانتے۔یہ تو قرآن ہے جس نے دنیا کے سامنے سیدہ مریم ؑ کی پاک دامنی کی شہادت دی۔یہ اعلان بھی کیا کہ سیدہ کو دنیا کی تمام عورتوں میں سے منتخب کیاگیااور انہیں سب خواتین پرپرفضیلت دی گئی ہے۔ (آل عمران:42)۔ کوئی ایسا تاریخی سبب بھی موجود نہیں جو اس اتحاد کو سندِ جواز فراہم کر سکے۔
اس کی صرف ایک وجہ سمجھ میں آتی ہے اور وہ ان قوتوں کا مفاد ہے جن کی سلطنتیں،بیسویں صدی کے اوائل میں ختم ہو رہی تھیں۔اُس دور میں زمانے نے جو کروٹ لی، اس میں استعمار کی پرانی صورتوں کا باقی رہنا ممکن نہیں تھا جس کا ایک مظہر’سلطنت‘ تھی۔دنیا بھر میں آزادی کی تحریکیں اٹھ رہی تھیں اورقومی ریاستیں وجود میں آ رہی تھیں۔ان اقوام کو اگراب دنیا پر اپنا تسلط قائم رکھنا تھا تو اس کے لیے کوئی نئی صورت تلاش کرنا ضروری تھا۔ جنگِ عظیم اوّل کے بعد عالمی قیادت کی دوڑ میں کچھ نئی قوتیں بھی شریک ہوگئیں جن میں ایک امریکہ بھی تھا۔ان سب نے مل کر دنیا کو’لیگ آف نیشنز‘ کا تصور دیا۔
سیاسی تسلط کو قائم رکھنے کے لیے زمین کے مادی وسائل پر قبضہ لازم تھا۔اُس وقت توانائی کا سب سے اہم ماخذ تیل تھا جس کے سب سے بڑے ذخائر مشرقِ وسطیٰ میں تھے۔ان پرقبضے کے لیے مشرقِ وسطیٰ کی سیاست پر کنٹرول ضروری تھا۔اقوام ِ متحدہ کے قیام کے بعد،دوسرے علاقوں پر طاقت کے زور پر اُس طرح قبضہ ممکن نہیں تھا جس طرح سلطنتوں کے دور میں ہوتا تھا۔ نئی صورت یہ تھی کی ان خطوں کی سیاست کو اپنے ہاتھ میں لیا جا ئے۔
مشرقِ وسطیٰ پر اپنا تسلط قائم رکھنے کی سب سے اچھی صورت، یہاں ایک ایسی ریاست کاقیام تھا جو ان اقوام کی نمائندگی اور ان کے مفادات کا تحفظ کرے۔ہٹلر نے یہودیوں کے ساتھ جو سلوک کیا تھا،اس کو ان اقوام نے جواز بناکر،بظاہر یہودیوں کی دل جوئی کے لیے ان کی ایک ریاست کا تصور پیش کیا۔اس کے لیے یہودیوں کے مذہبی جذبات کواستعمال کیا گیا۔اُن کو بتایا گیا کہ یہ ان کی مذہبی پیش گوئیوں کے پورا ہونے کا وقت ہے اور وہ دوبارہ اپنا مذہبی مرکز حاصل کر سکیں گے۔یہودیت کی ایک سیاسی تعبیر صیہونیت (Zionism) کے نام سے موجود تھی جس نے دنیا بھر کے یہودیوں کو یہاں جمع کردیا۔
یہ ریاست قائم ہوگئی لیکن اس سے یہودیوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔وہ آج بھی بقا کے خوف میں مبتلا ہیں۔حماس کے وسائل کا اگر اسرائیل کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو ایک اور سو کی نسبت بھی نہیں بنتی۔اسرائیل کے خوف کا مگر یہ عالم ہے کہ حماس کے مقابلے کے لیے بھی اسے امریکی امداد کی ضرورت ہے۔ آج امریکہ اور دوسرے مغربی ممالک،عربوں کے لیے اسرائیل کو اور اسرائیل کے لیے عربوں کو استعمال کرتے ہیں۔عربوں کا سارا اسلحہ امریکہ کا دیا ہوا ہے اور اسرائیل تو ہے ہی ’میڈ ان امریکہ‘۔
اسرائیل کی کوئی حیثیت اس کے سوا نہیں کہ وہ مشرقِ وسطیٰ میں امریکہ مفادات کا محافظ ہے۔یہودیوں کے حصے میں کیا آیا؟ایک مسلسل خوف اور امریکہ پر مستقل انحصار۔ ایک طرف انہیں یہ خوف لاحق ہے امریکہ میں کوئی ایسی حکومت قائم نہ ہو جائے جو اسرائیل مخالف ہو۔۔اس لیے وہ امریکہ میں اپنا اثرو رسوخ قائم رکھنے کے لیے اربوں ڈالر خرچ کر تے ہیں۔یہ خوف ایسا بے بنیاد بھی نہیں۔جولائی2022ء میں ہونے والے ایک سروے کے مطابق،60 سے 65 سال کے امریکی،اسرائیل کے بارے میں مثبت رائے رکھتے ہیں۔18سے9 2 سال میں یہ شرح کم ہو کر41 فیصد رہ گئی ہے۔دوسری طرف یہ احساس کہ وہ چاروں طرف سے عربوں میں گھرے ہیں۔اگر امریکہ نے سرپرستی چھوڑ دی تو وہ جئیں گے کیسے؟
چالیس سال پہلے امریکی سیکریٹری خارجہ الیگزنڈر ہیگ نے کہا تھا:”اسرائیل امریکہ کا سب سے بڑا طیارہ بردار جنگی جہاز ہے جو ڈوب نہیں سکتا۔اس پر کوئی امریکی سوار نہیں۔یہ ایک ایسے خطے میں موجود ہے جو امریکہ کی قومی سلامتی کے لیے بہت اہم ہے“۔ اسرائیل کی سلامتی اگر ہر امریکی انتظامیہ کی ترجیح ہے تو اس کی وجہ یہودی نہیں،امریکہ کے اپنے مفادات ہیں۔
یہ طاقت کا کھیل ہے جس میں یہودی استعمال ہو رہے ہیں۔اس کھیل سے مگر قرآن مجید کی یہ پیش گوئی ایک ناقابلِ تردید حقیقت کے طور پرثابت ہو رہی ہے کہ بنی اسرائیل،خدا کے ساتھ کیے گئے عہد کو توڑنے کے جرم میں، قیامت تک،حضرت مسیح کے نام لیواؤں کے رحم و کرم پر رہیں گے۔آج وہ ایک طرف خوف میں مبتلا ہیں اوردوسری طرف ساری دنیا کی ملامت کا ہدف۔ یہی ان کی سزاہے۔صدق اللہ العظیم۔
(بشکریہ روزنامہ دنیا)