(اس سلسلے کا پہلا حصہ اگست ۲۰۲۲ء میں شائع ہوا تھا)
مطیع سید: ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم قضائے حاجت کے لیے نکلے اور ایک اوٹ میں بیٹھ گئے۔بعض مشرکین نے دیکھا تو کہا کہ یہ عورتوں کی طرح بیٹھے ہوئے ہیں۔آپ نے فرمایا کہ بنی اسرائیل میں ایک شخص تھا، اس کو بھی بھلی بات سے روکنے پر عذاب ہوا۔بنی اسرائیل میں اگر بدن پر کہیں پیشاب لگ جاتا تو وہ بدن کا وہ حصہ چھیل دیتے تھے، تو ان کے ساتھی نے ان کو اس سے منع کیا جس پر اسے عذاب دیا گیا1۔ اس حدیث سے یوں لگتا ہے کہ یہ پہلی شریعت کا حکم تھا، لیکن یہ تو کوئی معقول بات نہیں لگتی۔جسم کا کوئی حصہ چھیل دینا، اس طرح کی سختی کیوں تھی؟
عمار ناصر: ایک بات تو یہ ہے کہ حدیث میں نجاست آلود کپڑے کو کاٹنے کا ذکر ہے، جسم کو چھیلنے کا نہیں۔اگر کپڑے پر پیشاب لگ جاتا تو اس کو دھو کر استعمال کرنے کی اجازت بنی اسرائیل کو نہیں تھی۔بہرحال اس میں بھی ایک سختی نظر آتی ہے۔ایک بات تو یہ ہے کہ اس طرح کی پابندیاں لگانے کی حکمتیں اللہ تعالی ہی بہتر سمجھتا ہے، لیکن بنی اسرائیل کے باب میں کچھ اسباب نصوص میں ذکر ہوئے ہیں کہ ان پر اتنی سخت پابندیاں کیوں لگائی گئیں۔وہ ایک سرکش قوم تھی اور ان کی بعض بد اعمالیوں کی وجہ سے کچھ حلال چیزیں بھی ان پر حرام کر دی گئیں، کچھ پابندیاں لگا دی گئیں۔تو کچھ خاص اسباب ہیں جن کی وجہ سے بنی اسرائیل پر پابندیاں لگائی گئیں۔ان میں سے ایک پابندی یہ بھی ہو سکتی ہے۔جیسے وہ لوگ نماز معبد میں ہی جا کر پڑھ سکتے تھے اور مال غنیمت ان کو جلانا پڑتا تھا، استعمال میں نہیں لا سکتے تھے۔حلال جانوروں کی چربی نہیں کھا سکتے تھے۔
مطیع سید: قرآن مجید میں وضو کا طریقہ اللہ تعالیٰ نے بڑے سادہ انداز میں بیان کر دیا ہے، لیکن جب ہم احادیث میں دیکھتے ہیں تو اس میں بڑی تفصیلات و جزئیات ہیں۔ایسے لگتا ہے کہ جیسے قرآن مجید بہت باریکیوں میں نہیں جانا چاہتا اور وہ کہتا ہے کہ بس ایسے کر لیں، جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تفصیلات میں جانا چاہتے ہیں۔میرا سوال یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اتنی تفصیلات میں کیوں جا رہے ہیں؟ آپﷺ سادہ طریقے پر کیوں نہیں رہے؟
عمار ناصر: اس میں ایک تو قرآن مجید کے اسلوب کا معاملہ ہے۔خاص طور پر احکام کے اندر قرآن مجید بہت اجمال کے ساتھ بات بیان کرتا ہے اور بس اس کا ایک ڈھانچہ سا بنا دیتا ہے، تفصیلات میں نہیں جاتا۔یہ قرآن مجید کا اسلوب ہے، اور ظاہر ہے کہ اس کے پیچھے بھی حکمت ہے۔بعض جگہوں پر تفصیلات میں نہ جانے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وسعت رہے، بعض جگہ اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ جس طرح کی تفصیلات چاہییں، وہ عمل سے متعلق ہیں تو ان کو بیان کرنا، قرآن کے عمومی اسلوب و مزاج سے مختلف ہے۔بعض دفعہ یہ ہوتا ہے کہ قرآن مجید ایک بنیادی بات بیان کرتا ہے اور اس بنیادی بات کے پس منظر میں یہ بات ہوتی ہے کہ اس پر عمل کر کے دکھانے کے لیے پیغمبر موجود ہے۔تو وضو کا جو اسوہ ہے جس میں طہارت کا احساس پیدا ہو، اس کا مکمل نمونہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کر کے دکھایا۔آپ دیکھیں کہ یہ جو ساری تفصیلات ہیں، ان کا تعلق عمل سے ہے۔اگر قرآن ان کو بھی الفاظ میں بیان کرنے لگے تو پھر قرآن بھی فقہ کی کتاب بن جائے گی۔
مطیع سید: ہم بعض دفعہ فقہاء پر اعتراض کرتے ہیں کہ یہ بہت باریکیوں میں چلے جاتے ہیں اور جزئیات میں چلے جاتے ہیں،اصل مسئلہ بہت سادہ ہوتا ہے۔تو فقہاء کی جو موشگافیاں ہیں، کیا ان کو اس سے جوڑا جا سکتا ہے؟ ظاہر ہے کہ انہوں نے راہنمائی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی لی ہے۔
عمار ناصر: آپ دو طرح کی موشگافیاں کہہ سکتے ہیں۔ایک تو تکلف کا پہلو اس سے پیدا ہو جاتا ہے کہ ایک عمل آپ ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں تو وہ چیز آپ کو فطری لگتی ہے اور اسی چیز کو آپ لفظوں میں بیان کرنا شروع کر دیں اور قاعدوں ضابطوں میں ڈھالنا شروع کر دیں تو وہ غیر فطری لگتی ہے۔ آپ احادیث میں کسی عمل کی تفصیلات کو پڑھیں تو گویا ایک زندہ عمل کو دیکھ رہے ہیں۔ایک واقعہ بیان ہو رہا ہوتا ہے جو آپ کو عجیب نہیں لگتا۔لیکن اسی کو اگر آپ فقہ میں قانون اور ضابطے کے انداز میں بیان کریں تو وہ ایک مصنوعی سی چیز لگے گی۔تو ایک تو یہ ہوا ہے کہ جو چیزیں فطری ہیں، فقہ میں ان کو قاعدے کے سانچے میں ڈھال دیا گیا ہے۔موشگافیوں کا دوسرا دائرہ وہاں شروع ہو جاتا ہے جب فقہاء قیاساً اس میں مزید تحدیدات شامل کرنا شروع کرتے ہیں تو اس سے مزید ایک تکلف کی صورت پیدا ہو جاتی ہے۔
مطیع سید: یہاں ایسے لگتا ہے کہ کچھ مزاج بھی ایسے ہوتے ہیں جن کو تفصیل میں جانے سے روکا نہیں جا سکتا۔مثلاً چہرہ دھونا ہے، اس میں یہ سوال ہوتا ہے کہ کہاں تک دھونا ہے؟ اور پھر اگر کوئی بال خشک رہ گیا تو کیا ہوگا؟ اسی طرح بھنوؤں کے اندر پانی جانا چاہیے کہ نہیں؟ تو کچھ اذہان اس طرح کے ہوتے ہیں جو اس طرح کے سوال پیدا کر دیں گے، تو خود بخود ایسی چیزیں پیدا ہو جائیں گی۔
عمار ناصر: ایسا ہی ہے۔ایک تو فقہ ایسی چیز ہے کہ احکام جہاں پر بھی ہوں، أوامر اور نواہی جہاں بھی ہوں، ان کو آپ جب ایک ضابطے کی شکل دینا شروع کرتے ہیں تو اس کی نیچر ایسی ہے کہ آپ کو اسے لکھنا پڑتا ہے۔پھر کچھ اذہان کا بھی مسئلہ ہوتا ہے۔یعنی کچھ تفصیلات تو اس عمل کا اپنا تقاضا ہوتی ہیں، پھر کچھ اذہان جب اس مزاج کے اس میں آجاتے ہیں تو اس کو وہ مزید سخت بنا دیتے ہیں۔
مطیع سید: شریعت میں جنابت کے بعد جو غسل کا حکم ہے، اس کی حکمت کیا ہو سکتی ہے؟ اگر اس کی حکمت احساسِ طہارت ہے وہ تو ہم وضو سے بھی حاصل کر سکتے ہیں، تو الگ سے ایک مشقت رکھنے کا کیا فائدہ ہے؟
عمار ناصر: اس میں دراصل درجے کا فرق ہے۔طہارت کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے،اگر آپ اسے شاہ ولی اللہ کے ہاں دیکھیں تو وہ اس کو روحانی پہلو سے بیان کرتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ جب آپ نے پیشاب یا پاخانہ کیا تو روحانی طور پر آپ کے اندر ایک ایسی کیفیت پیدا ہو گئی جس کو دور کرنے کے لیے طہارت کی ضرورت ہے۔ نجاست سے جسم کا تلوث ہوا ہے، نجاست آپ کے جسم سے نکلی ہے،آپ نے اس کو دھویا ہے، تو یہ پورا عمل آپ کے اندر ایک روحانی ناپاکی کا احساس پیدا کرتا ہے۔اس کو پھر طہارت سے دور کیا جاتا ہے۔جنابت میں وہ عمل اس سے ایک مرحلہ آگے ہوتا ہے۔خاص طور پر اگر آپ نے ہم بستری کی ہے تو وہ بالکل ایک حیوانی عمل ہے، اس میں شرم و حیا ایک طرف رہ جاتی ہے۔تو اس میں ناپاکی کا زیادہ احساس ہوتا ہے۔شریعت کہتی ہے کہ یہ احساس ہونا چاہیے کہ تلوث ہو گیا ہے اور اس معنوی ناپاکی سے نکلنے کے لیے پورے جسم کو طہارت حاصل کرنی چاہیے۔
مطیع سید: نبی صلی اللہ علیہ وسلم دائیں ہاتھ سے ہر کام کرنا پسند کرتے تھے جہاں تک ممکن ہوتا تھا2، مثلاً کھانا کھانا اور لباس پہننا وغیرہ۔اس میں کیا حکمت ہے؟
عمار ناصر: بس یہ ایک مابعد الطبیعیاتی نسبت ہے، اس کی کوئی عقلی توجیہ نہیں ہے۔بس یہ ہے کہ اللہ تعالی کو دائیں جانب پسند ہے۔جیسے وتر ہے، اللہ تعالی کو طاق تعداد پسند ہے۔تو چونکہ یہ اللہ تعالیٰ کو پسند ہے اور اس نے دائیں جانب نیک لوگوں کے لیے رکھی ہوئی ہے، تو ہم بھی اس کی پیروی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
مطیع سید: عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ آپ مجھے میری قوم کا امام بنا دیجیے۔آپ نے فرمایا کہ تو اپنی قوم کا امام ہے، لیکن امامت کرتے ہوئے ایسے شخص کی رعایت کرنا جو سب سے ضعیف اور ناتواں ہے، اور ایسے موذن کو مقرر کرنا جو اذان پر اجرت نہ لے3۔سوال یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں تو ان چیزوں مثلاً اذان کی اجرت کا تصور بھی پیدا نہیں ہوا ہوگا، یہ چیزیں تو بہت بعد میں آئی ہیں۔
عمار ناصر: آپ کے دور میں یہ تصور تو پیدا نہیں ہوا ہوگا، لیکن اس کا تصور تو کیا جا سکتا تھا۔اذان ایک ذمہ داری اور پابندی ہے۔مدینے میں تو حضرت بلال اور حضرت عبداللہ ابن ام مکتوم تھے، یہ ان کی ڈیوٹی تھی، اور اس پر ان کے لیے کوئی وظیفہ نہیں تھا۔اس وقت نماز پڑھانے کے لیے بھی وظیفے کا کوئی تصور نہیں تھا۔تو اس وقت ان چیزوں کا رواج اور تصور نہیں تھا، لیکن یہ دیکھا جا سکتا تھا کہ اگر ان چیزوں پر کسی کو مامور کیا جائے تو اس کے دل میں طلب پیدا ہو سکتی ہے۔جیسے یہ عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ ثقفی ہیں، یہ نو مسلم ہیں، تو وہ کہہ سکتے ہیں کہ میری یہ ذمہ داری لگائی گئی ہے تو میرے لیے کچھ وظیفہ مقرر کر دیا جائے۔اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پسند نہیں فرمایا۔اصولاً یہی بات بہتر ہے کہ عبادات میں یعنی نماز پڑھانے کے لیے یا اذان دینے کے لیے کسی ایسے آدمی کی ڈیوٹی نہ لگائی جائے جو صرف اس لیے یہ کام کرے کہ اسے اس پر وظیفہ دیا جائے گا۔
مطیع سید: ایسے لگتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بعض باتوں کو ناپسند فرماتے تھے، لیکن ان کی سوسائٹی بہت سادہ تھی، ابھی معاشرہ بہت پیچیدہ نہیں ہوا تھا، لیکن بعد میں صورتحال بدل گئی۔
عمار ناصر: جی بالکل ایسے ہی ہے،لیکن اس میں ترجیح کا اظہار ہو جاتا ہے کہ دین کی ترجیح کیا ہے۔لیکن جیسا کہ آپ نے کہا، جب سوسائٹی پیچیدہ ہو جاتی ہے تو پھر انتظامی مصلحتوں کو مقدم کرنا پڑتا ہے، اور اس طرح کی لطیف مصلحتیں پیچھے کرنی پڑتی ہیں، ورنہ پھر نظام نہیں چلتا۔
مطیع سید: ایک روایت میں حضرت عبدالرحمن بن سمرہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے سمرہ کے بیٹے! امارت کی طلب نہ کرنا۔اگر تم نے امارت مانگی اور تمہیں مل گئی تو پھر ساری ذمہ داری تمہارے اوپر ہوگی، اور اگر بن مانگے ملی تو اس سے عہدہ برآ ہونے کے لیے اللہ تعالیٰ تمہاری مدد کرے گا۔4 اس میں سوال یہ ہے کہ یوسف علیہ السلام نے بھی امارت طلب کی تھی اور ظاہر ہے کہ وہ اپنے آپ کو اس لائق سمجھتے تھے۔تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کس پہلو سے اس کو پسند نہیں فرما رہے؟
عمار ناصر: اس کو دو لحاظ سے سمجھ سکتے ہیں۔ایک تو یہ ہے کہ امارت کی خواہش پیدا ہونا یہ فطری ہے، یعنی اس میں دیانت داری کے ساتھ بھی کوئی انسان سمجھ سکتا ہے کہ مجھے یہ عہدہ ملنا چاہیے۔بعض طبیعتوں کے اندر اختیار رکھنے اور استعمال کرنے کا فطری رجحان ہوتا ہے۔اس پہلو سے حدیثوں میں آتا ہے کہ اس کا پیدا ہونا اور پھر اس کے لیے تگ و دو کرنا، یہ انسان کی روحانی شخصیت کے لیے ٹھیک نہیں ہے۔یہ کوئی قانونی بات نہیں ہو رہی ہے، آپ علیہ السلام ایک آدمی کو نصیحت فرما رہے ہیں۔اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ ایسے لوگوں کو واپس لوٹا دیا جن کے اندر طلب ہے لیکن وہ ذمہ داری کو صحیح طرح سے ادا نہیں کر سکتے تھے۔آپﷺ نے ان سے فرمایا کہ جو خود مانگتا ہے، ہم اسے منصب نہیں دیتے۔تو بنیادی بات اس میں یہ ہے کہ اگر انسان کے اندر خواہش ہو تو وہ اس کے لیے خود تگ و دو نہ کرے۔اگر اس شخص کی اہلیت کو دیکھ کر وہ ذمہ داری اس کو دی جائے گی تو اس میں اللہ کی توفیق بھی شامل ہوگی، اس کو لینے سے گریز نہیں کرنا چاہیے۔
حضرت یوسف علیہ السلام کا جو معاملہ ہے، وہ تو صورتحال ہی بالکل مختلف ہے۔وہ عام معاملہ نہیں ہے، وہاں تو ایک ایسی صورتحال ہے جو حضرت یوسف علیہ السلام کے ذریعے ہی آشکارا ہوئی ہے کہ آگے چل کر یہ آفت آنے والی ہے اور اس کا انتظام کرنے کے لیے ایک خاص سطح کی صلاحیت چاہیے۔اس کے لیے حضرت یوسف علیہ السلام اپنے آپ کو پیش کر رہے ہیں، اور اس میں یہ بھی بعید نہیں ہے کہ یہ پیغام انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملا ہو۔چونکہ ان کو نبوت ملی ہوئی تھی اور اللہ تعالیٰ بھی ایک اسکیم بنا رہے تھے کہ ان کے ذریعے سے ان کا سارا خاندان یہاں آ جائے تو اللہ کی راہنمائی بھی یقیناً اس کے اندر شامل ہوگی۔قرآن مجید میں آتا ہے کہ "وكذلك مكنا ليوسف في الارض" تو ممکن ہے، تکوینی بندوبست کے ساتھ ساتھ باقاعدہ ان کو ہدایت بھی کی گئی ہو کہ آپ یہ منصب طلب کریں۔
مطیع سید: "ولقد اتيناك سبعا من المثاني والقرآن العظيم" اس آیت کے بارے میں ایک روایت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرما دیا کہ اس سے مراد سورہ فاتحہ ہے5، اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اس سے سات بڑی سورتیں مراد لیتے ہیں۔فراہی مکتبہ فکر کی ان دو روایتوں کے بارے میں کیا رائے ہے؟ اگر یہ روایت درست ہے تو پھر وہ اس روایت کو کس درجے میں رکھتے ہیں اور کیا توجیہ کرتے ہیں؟
عمار ناصر: مولانا فراہی کی رائے تو مجھے مستحضر نہیں، اس لیے کہ وہ قرآن کی سورتوں کے پانچ گروپ بناتے ہیں۔لیکن مولانا اصلاحی سات گروپوں میں سورتوں کو تقسیم کرتے ہیں، اور انھوں نے ہی اس آیت کا مصداق پورے قرآن کو قرار دیا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ "سبعا من المثانی" سے مراد پورا قرآن ہے اور "والقرآن العظیم" اس کی تشریح ہے، یعنی میں نے تمہیں سات چیزیں دیں جو جوڑا جوڑا ہیں۔مولانا اصلاحی "المثانی" کا ترجمہ بھی مختلف کرتے ہیں، یعنی جوڑا جوڑا ۔مطلب یہ ہوا کہ ہم نے آپ کو سورتوں کے سات گروپ دیے جن کی سورتیں جوڑا جوڑا ہیں اور یہ سارے گروپ مل کر پورا قرآن عظیم ہے۔وہ اس روایت کو رد نہیں کرتے جس میں اس کا مصداق سورہ فاتحہ کو کہا گیا ہے، لیکن وہ کہتے ہیں کہ سورہ فاتحہ میں چونکہ پورے قرآن کا جوہر آگیا ہے تو معنوی طور پر اس کو بھی کہہ سکتے ہیں۔
مطیع سید: یعنی ایک بات کی وضاحت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کر دی ہے، اس کے باوجود وہ اس میں دوسری تفسیر کی گنجائش سمجھتے ہیں؟
عمار ناصر: اس کی وجہ یہ ہے کہ "سبعا من المثانی" کو سورہ فاتحہ پر منطبق کرنے میں وہ روایت اتنی واضح نہیں ہے کہ یہ کہا جائے کہ حتمی طور پر یہی مراد ہے۔مثال کے طور پر اس میں سات آیتوں کا ذکر ہے، لیکن سورۃ فاتحہ کی سات آیتیں ہیں یا نہیں؟ اس میں اختلاف ہے۔بسم اللہ اس کا حصہ ہے یا نہیں؟ اگر بسم اللہ اس کا حصہ نہیں ہے تو پھر وہ سات آیتیں نہیں بنتیں۔یا پھر یہ کہ "صراط الذين انعمت عليهم" کو پوری آیت کہنا پڑے گا، لیکن جو قرآن میں سجع کا طریقہ ہے، اس کے خلاف ہے۔تو ایک ابہام یہاں سے پیدا ہوتا ہے کہ وہ سات آیتیں ہیں یا نہیں؟ دوسرا یہ کہ مثانی کا جو مطلب بیان کیا جاتا ہے کہ بار بار دہرائی جانے والی، اس پر مولانا سوال اٹھاتے ہیں کہ مثنیٰ کا مطلب تو دو دو ہوتا ہے، تو مثانی کا مطلب دو دو یعنی جوڑا جوڑا ہونا چاہیے۔بار بار دہرایا جانا، اس کا یہ لغوی معنی اتنا واضح نہیں ہے۔اس طرح کے اشکالات کی وجہ سے دوسری تفسیر کی گنجائش بن جاتی ہے، جیسا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کے بارے میں آپ بتا رہے ہیں کہ وہ اس سے مراد سات سورتیں لیتے ہیں۔
مطیع سید: آپ سورتوں کی گروپس میں تقسیم کو کیسے دیکھتے ہیں؟
عمار ناصر: گروپس کی تقسیم تو بالکل استنباطی ہے۔اتنی قطعی نہیں ہے کہ آپ اس سے ہٹ کر تقسیم نہ کر سکیں۔آپ مضمون کے لحاظ سے اور طریقوں سے بھی تقسیم کر سکتے ہیں۔پھر یہ کہ "سبعا من المثانی" کا مصداق سورتوں کے سات گروپس کو قرار دینا مولانا فراہی اور مولانا اصلاحی کے اصول تفسیر پر پورا نہیں اترتا۔وہ أصول یہ ہے کہ جب قرآن ایک تعبیر استعمال کر رہا ہے تو اس کا مصداق مخاطب کو سمجھ میں آنا چاہیے، وہ بعد کے کسی وقت تک موخر نہیں ہونا چاہیے۔اب یہ تو مکے کی آیت ہے اور شاید ابتدائی دور کی ہے۔اس وقت تو ابھی سورتوں کے یہ جوڑے بنے ہی نہیں تھے تو مکے میں یہ آیت سن کر مخاطبین کیسے اس مصداق کو سمجھ سکتے تھے؟ مولانا نے عام تفسیر پرجو سوالات اٹھائے ہیں وہ بھی اہم ہیں کہ اگر ہم اس کا مصداق سورہ فاتحہ کو قرار دیں تو آپ لغوی طور پر کچھ سوالات پیدا ہوتے ہیں، لیکن اس کا جو مصداق مولانا اصلاحیؒ بتا رہے ہیں، اس پر بھی سنجیدہ سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ مولانا فراہی کے اصول پر قرآن ایسی بات نہیں کہتا، جس کا مطلب لوگوں کو سمجھ میں نہ آئے۔یہ بات کہ قرآن قطعی الدلالت ہے اور عربی مبین ہے، اس لحاظ سے بھی ان کی بات محلِ نظر ہے۔
مطیع سید: غامدی صاحب نے بھی البیان میں گروپس کی ایک ترتیب بنائی ہے، اس میں کہیں کہیں ایسا لگتا ہے کہ سورۃ صحیح طرح سے تقسیم میں بیٹھ نہیں رہی۔
عمار ناصر: جی، بعض سورتوں کے متعلق وہ بتاتے ہیں کہ یہاں پر عام ترتیب سے ہٹ کر کسی خاص حکمت کے تحت استثنائی طریقہ اختیار کیا گیا ہے۔
مطیع سید: آپ "سبعا من المثانی" کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں کہ اس سے کیا مراد ہے؟
عمار ناصر: میرے ذہن میں تو اس حوالے سے ابھی تک سوال ہی ہے۔قرآن مجید کا اسلوب بتاتا ہے کہ وہ بظاہر ایک ایسی چیز کا ذکر کر رہا ہے جس کے بارے میں مخاطب کو پہلے سے معلوم ہے۔
مطیع سید: اسی لیے اس کے بارے میں باقاعدہ سوال نہیں کیا گیا۔
عمار ناصر: جی بالکل، یہ بھی دلچسپ بات ہے کہ صحابہ نے بھی اس کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال نہیں کیا کہ اللہ تعالی نے آپ کو "سبعا من المثانی" دی ہیں تو اس کا کیا مطلب ہے۔
مطیع سید: ایک روایت آتی ہے، اس میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے یہ آیت آئی "فاكهة وابّا" تو ان کو ابّا کا مطلب معلوم نہیں تھا۔پھر انھوں نے فرمایا کہ کوئی بات نہیں، یہ جو چیز بھی ہے، کوئی کھانے کی چیز ہی ہو گی۔کیا صحابہ کا یہ بھی مزاج تھا کہ قرآن مجید کی اگر کوئی جزوی بات واضح نہیں اور پوری طرح سمجھ میں نہیں آرہی تو پھر بھی ٹھیک ہے؟
عمار ناصر: امام شاطبیؒ نے اس پر پوری فصل لکھی ہے کہ صحابہ کا مزاج یہ تھا کہ وہ قرآن کی آیت یا کسی حصے کا جو مجموعی پیغام ہے، اس کو اہم سمجھتے تھے، یعنی اللہ تعالیٰ ہمیں اس سورت میں پیغام کیا دینا چاہ رہے ہیں۔اگر صحابہ کو کسی سورت کا مجموعی پیغام سمجھ میں آرہا ہے لیکن اس کے کسی جز کا مطلب واضح نہیں ہو رہا تو اس کے بارے میں جاننے کو صحابہ تعمق اور تکلف سمجھتے تھے۔
مطیع سید: مشہور روایت ہے کہ ایک شخص آیا اور اس نے نماز پڑھی تو آپ علیہ السلام نے اسے بلایا اور فرمایا کہ دوبارہ نماز پڑھو۔اس نے دوبارہ نماز پڑھی تو آپ نے فرمایا کہ تو نے نماز نہیں پڑھی، جاؤ دوبارہ نماز پڑھو۔دو تین دفعہ ایسے ہوا تو اس صحابی نے عرض کیا کہ آپ ہی بتا دیں کہ میں نماز کیسے پڑھوں؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نماز پڑھنے کا طریقہ بتایا6۔اس حدیث کو امام نسائیؒ نے ذکر کیا ہے اور اس کے لیے باب باندھا ہے کہ "باب الرخصة في الترك في الركوع"۔اب حدیث میں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم تعدیلِ ارکان کا بتا رہے ہیں کہ آرام سے اور سکون سے نماز پڑھو، لیکن امام نسائی اس سے استدلال یہ کر رہے ہیں کہ آپ علیہ السلام نے چونکہ انہیں رکوع میں پڑھنے کے لیے کچھ نہیں بتایا، اس لیے رکوع میں کچھ نہ پڑھنے کی بھی رخصت ہے۔
عمار ناصر: اس روایت سے بہت سے محدثین اور بہت سے فقہاء یہ اخذ کرتے ہیں کہ وہ چیزیں واجب نہیں ہیں جن کا اس موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ذکر نہیں کیا، اور ان کی تعلیم نہیں دی۔ امام نسائیؒ بھی اس کو اسی انداز سے دیکھ رہے ہیں کہ آپ اس صحابی کو نماز کا پورا طریقہ بتا رہے ہیں، لیکن یہ چیز نہیں بتا رہے۔میرا خیال ہے کہ یہ کمزور استدلال ہے۔دراصل نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کو نماز کا مجموعی ڈھانچہ تو بتا رہے ہیں، نماز کا پورا طریقہ یعنی صفۃ الصلوۃ نہیں بتا رہے۔خاص طور پر جس چیز کے متعلق وہ صحابی کوتاہی کر رہے تھے، اس کی تعلیم دے رہے ہیں۔
مطیع سید: حکیم سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات پر بیعت کی کہ میں سجدہ نہیں کروں گا مگر کھڑے ہونے کی حالت میں7۔اس روایت کا کیا مطلب ہے؟
عمار ناصر: یہ روایت بھی تعدیل ارکان کے حوالے سے ہے، یعنی وہ کہہ رہے ہیں کہ میں رکوع سے ہی سیدھا سجدے میں نہیں گر جاؤں گا، بلکہ میں سیدھا کھڑا ہوں گا، پھر اس کے بعد سجدہ کروں گا۔
مطیع سید: لیکن حدیث میں ہے کہ میں نے بیعت کی۔یہ چیز تو ویسے بھی بیان کی جا سکتی تھی۔
عمار ناصر: یہ تاکید کے لیے ہے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دیکھا کہ ان چیزوں میں لوگ زیادہ بے پروائی کر رہے ہیں تو اس پر آپ نے توجہ دلائی اور خبردار کیا۔اس پر ممکن ہے، صحابی نے عزم کے اظہار کے ساتھ کہا ہوکہ میں آئنده ایسے ہی نماز پڑھوں گا اور اس پر بیعت کر لی ہو۔
مطیع سید: امام نسائی نے باقاعدہ باب باندھا ہے کہ ایک وتر کیسے پڑھیں8۔احناف ایک وتر کو درست نہیں سمجھتے۔وہ کہتے ہیں کہ کم از کم تین وتر ہونے چاہییں، جبکہ روایتوں میں بڑا واضح آتا ہے کہ آپ علیہ السلام نے ایک رکعت وتر ادا کی۔
عمار ناصر: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جو عمل ملتا ہے، اس میں یہ نہیں ہے کہ آپ نے کسی دن صرف ایک رکعت پڑھی ہو۔آپ تہجد کی نماز کے آخر میں ایک یا تین رکعتیں ملا کر تعداد کو طاق بنا دیتے تھے۔آپ نے صحابہ کو جو اجازت دی، اس میں ایک رکعت کا بھی ذکر ملتا ہے، لیکن آپ علیہ السلام نے خود ایک رکعت نہیں پڑھی۔ابو داؤد کی روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو اجازت دی کہ کوئی چاہے تو سات رکعتیں پڑھ لے، کوئی پانچ پڑھ لے، کوئی تین پڑھ لے اور کوئی چاہے تو ایک پڑھ لے۔صحابہ میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا عمل منقول ہے، اسی طرح اور صحابہ سے بھی منقول ہے کہ وہ بسا اوقات ایک ہی رکعت پڑھ لیتے تھے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ تو دن میں بھی بعض اوقات وقت کی کمی کی وجہ سے صرف ایک رکعت نفل پڑھ لیتے تھے۔ یہ سارے آثار امام ابن ابی شیبہ اور امام عبد الرزاق نے نقل کیے ہیں۔
مطیع سید: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سبتی جوتا پہن کر قبرستان میں جانے سے منع قرار دیا ہے9۔یہ کوئی خاص جوتا تھا؟
عمار ناصر: اس کا پس منظر مذکور نہیں ہے کہ یہ خاص چپل پہن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبرستان جانے سے کیوں منع کیا ہے۔جوتا پہن کر جانے سے منع نہیں کیا، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے جوتے بھی یہی ہوتے تھے اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ ایسے ہی جوتے پہنتے تھے، لیکن ایسے جوتے پہن کر قبرستان جانے سے کیوں منع کیا؟ اس کا پس منظر بیان نہیں ہوا۔
مطیع سید: دوسری روایت میں امام نسائی نے اخذ کیا ہے کہ دوسرے جوتے پہن کر جانے کی اجازت ہے، اور دلیل انہوں نے یہ دی ہے کہ جب مردے کو دفن کر کے لوگ واپس جاتے ہیں تو وہ ان کی جوتیوں کی آواز سنتا ہے10۔
عمار ناصر: جی، امام نسائی بھی یہی بتانا چاہ رہے ہیں کہ قبرستان میں بنیادی طور پر جوتے پہننے کی ممانعت نہیں ہے، اور اگر ان جوتوں سے منع کیا گیا ہے تو اس کی کوئی خاص وجہ ہے۔
مطیع سید: امام نسائی کو کتاب الصیام میں باقاعدہ باب باندھنا پڑا ہے "باب الرخصة في أن يقال لشهر رمضان رمضان11" اس بارے میں رخصت ہے کہ کوئی ماہ رمضان کو صرف رمضان بول دے۔یہ سمجھ میں نہیں آئی۔
عمار ناصر: بعض دفعہ تعبیرات کے حوالے سے لوگوں کے اندر حساسیت پیدا ہو جاتی ہے، جیسے ایک خیال یہ تھا کہ سورتوں کا نام سورۃ کے لفظ کے بغیر نہیں بولنا چاہیے، مثلاً سورۃ البقرہ کو صرف البقرہ نہیں کہنا چاہیے۔شاید امام نسائی کے ماحول میں اسی طرح کی کوئی بحث ہو کہ ماہ رمضان کو صرف رمضان نہیں کہنا چاہیے۔ اس کی وضاحت کر رہے ہیں کہ ایسا کہا جا سکتا ہے۔
مطیع سید: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سفر میں روزہ رکھنا نیکی نہیں ہے12۔ظاہریہ کے نزدیک سفر میں روزہ رکھنا جائز ہی نہیں، بلکہ جو رکھے، اس پر قضا لازم ہو تی ہے۔امام اوزاعیؒ اور اسحاقؒ کے نزدیک روزہ نہ رکھنا بہتر ہے۔یہ مختلف اذہان ہیں، مختلف ذوق و مزاج ہیں جن سے شریعت کی تشریحات ہو رہی ہیں۔لیکن اصل میں شریعت کا مزاج کیا ہے؟ کیا اصل شریعت کا مزاج نبی صلی اللہ علیہ وسلم والا مزاج ہے؟ ان مسائل میں تو بعد میں فقہاء کا مزاج شامل ہوا، جب ہم دین کا اصل مزاج کہہ رہے ہوتے ہیں تو وہ کیا ہوتا ہے؟
عمار ناصر: دین کا اصل مزاج کیا ہے؟ یہ بھی تو ہم شرعی دلائل پر غور کرنے سے ہی اخذ کریں گے۔اس مضمون کی ساری روایتیں آپ دیکھیں تو آپ کو معلوم ہوتا ہے کہ اس میں بندے کو اختیار حاصل ہے۔سفر میں اگر کوئی روزہ رکھنا چاہے تو وہ رکھ سکتا ہے، شریعت نے اس کو ناپسند نہیں کیا۔اس میں اصل اباحت ہے، اور آدمی کو اپنی سہولت دیکھنی چاہیے۔بعض دفعہ روزہ رکھنے میں سہولت ہوتی ہے اور بعض دفعہ روزہ نہ رکھنے میں سہولت ہوتی ہے۔یہ آدمی پر چھوڑا گیا ہے۔جہاں تک اس وعید کا تعلق ہے تو روایات میں مذکور ہے کہ یہ کوئی عمومی بات نہیں ہے۔ایک خاص سفر میں کسی وجہ سے آپ علیہ السلام نے روزہ رکھنے سے منع کیا تھا۔جہاد کے لیے جا رہے تھے تو ایک شخص کو آپ نے دیکھا کہ وہ نقاہت سے بے ہوش ہو رہا ہے، لیکن وہ روزہ نہیں چھوڑ رہا۔ تو جہاں یہ کیفیت ہو جائے، وہاں شریعت یہ بتاتی ہے کہ یہ کوئی نیکی کا کام نہیں ہے۔
مطیع سید: کئی دفعہ غور و فکر کر کے اپنے مزاج کو بھی شامل کر لیا جاتا ہے۔تو کیا اس سے شریعت کے مزاج کے اندر خرابی پیدا ہوگی؟ ظاہریہ کی فقہ کو دیکھیں اور حنفی فقہ کو دیکھیں تو ان میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔
عمار ناصر: فہم اور مزاج اور ذوق، یہ سب شریعت کی تعبیر میں شامل ہو جاتے ہیں، اس سے ہم نکل نہیں سکتے۔اگر اللہ تعالیٰ نے یہ کام انسانوں کے سپرد کیا ہے تو انسانی کمزوریوں کا لحاظ بھی رکھا ہے۔اس میں اگر آپ کی حسن نیت ہے تو پھر معاملہ ٹھیک ہے، کوئی گھبرانے کی بات نہیں۔
مطیع سید: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ اگر تیری قوم کا جاہلیت کا زمانہ قریب نہ ہوتا تو میں کعبے کو گرا کر نئی تعمیر کرتا اور اس کے دو دروازے بنا دیتا13۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سے نئے اقدام کیے جن میں اس بات کا لحاظ نہیں رکھا گیا اور ان کاموں نے سوسائٹی کے اسٹرکچر کو بالکل بدل کر رکھ دیا۔ لیکن یہاں جب کہ پورا عرب مسلمان ہو گیا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جان قربان کرنے والے ہزاروں لوگ ہیں، اب آپ یہ بات کیوں کہہ رہے ہیں کہ اگر میں یہ کام کروں گا تو اس سے نقصان ہوگا۔
عمار ناصر: اس میں یہ دیکھنا پڑتا ہے کہ آپ کس چیز کے تقابل میں کسی چیز کو اہمیت دیں گے یا نہیں دیں گے؟ بت گرانا اور شرک کا خاتمہ کرنا تو آپ کا فرض منصبی تھا، اسی کے لیے تو آپ کو بھیجا گیا تھا۔اس کے مقابلے میں تو اس چیز کو کوئی اہمیت نہیں دی جا سکتی تھی کہ ان لوگوں کے دل ٹوٹیں گے۔لیکن کعبہ کو نئے سرے سے تعمیر کرنا، یہ ظاہر ہے کہ اس طرح کی چیز نہیں تھی۔کعبہ کی جگہ متعین ہے، اس کو محفوظ رکھنا شریعت کا منشا ہے، لیکن کعبہ کی تعمیر کیسے ہوئی ہے؟ اور تعمیر شدہ عمارت کو منہدم کر کے نئے سرے سے بنانے کو اس موقع پر ترجیح دی جائے یا اس بات کو ترجیح دی جائے کہ یہ جو لوگ نئے نئے مسلمان ہوئے ہیں، ان پر اس چیز کا کوئی منفی اثر نہ پڑے؟ یہاں تقابل ان دو چیزوں میں ہے۔یہاں اہم یہ چیز تھی کہ یہ جو لوگ نئے نئے مسلمان ہوئے ہیں، ان کے دلوں میں قومی رقابت کا کوئی جذبہ یا کوئی منفی تاثر پیدا نہ ہو جائے۔
مطیع سید: اس میں پیغمبر علیہ السلام کے پاس اتھارٹی بھی تھی، لیکن اس کے باوجود آپ یہ کام نہیں کر رہے۔
عمار ناصر: اصل بات یہ ہے کہ جو ایک روایت چلی آرہی ہو، اس میں اگر تبدیلی بہت زیادہ ضروری نہ ہو تو بہتر یہ ہے کہ اسی کو قائم رکھا جائے۔جیسے حاجیوں کی خدمت اور پانی پلانے کی ذمہ داری، اس حوالے سے جو روایت چلی آرہی تھی، آپ نے اسی کو قائم رکھا، تاکہ ان لوگوں کو جو ذمہ داری ملی ہوئی ہے، نئے دین میں وہ اسی جذبے کے ساتھ اس کو نبھائیں۔اگر آپ اس چیز کو بدل دیتے تو بجائے ایمان میں قوت پیدا کرنے کے، اس چیز سے منفی اثرات پیدا ہو جاتے۔آپ عبداللہ بن ابی کو دیکھیں، اس کی جو شرارتیں تھیں، وہ ایکشن کا تقاضا کرتی تھیں، لیکن آپ نے ان کو گوارا کیا تاکہ پورے قبیلے کے اندر کوئی منفی اثرات پیدا نہ ہوں۔اوس اور خزرج روایتی حریف تھے۔ اگر عبداللہ بن ابی پر ہاتھ ڈالا جاتا تو مخالف قبیلے کے لوگ خوش ہوتے اور طعنہ وغیرہ بھی دے دیتے جیسا کہ بعض مواقع پر ایسا ہوا بھی، تو یہ چیزیں بڑی اہم ہوتی ہیں۔
مطیع سید: یہ عبداللہ بن ابی اوس سے تھا یا خزرج سے؟
عمار ناصر: عبداللہ بن ابی خزرج سے تھا، اسی لیے ایک موقع پر اوس میں سے جب کسی نے بات کی کہ یا رسول اللہ، یہ عبداللہ بن ابی آپ کو ستاتا ہے تو آپ اجازت دیں تاکہ میں اس کی گردن اڑا دوں۔اس موقع پر سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہو گئے کہ اچھا یہ ہمارے قبیلے کا ہے، اس لیے تمہیں اتنا جوش آگیا؟ تمھارے قبیلے کا ہوتا تو دیکھتا۔
مطیع سید: میرے خیال میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد تو اوس اور خزرج کا باہمی مسئلہ نہیں رہا، جس طرح بنو ہاشم اور بنو امیہ کے درمیان باقی رہا۔
عمار ناصر: بعد میں تو بالکل صورت حال ہی بدل گئی اور انصار، ایک سیاسی گروپ کے طور پر باقی نہیں رہے۔اقتدار قریش میں آگیا۔حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور تک انصار کے سیاسی گروپ رہے اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف بھی ان میں رنجش موجود تھی۔حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف جو باغی مدینے میں آئے تھے، اس میں انصار کی بھی معاونت شامل تھی، ورنہ یہ نہیں ہو سکتا تھا۔لوگ حیران ہوتے ہیں کہ یہ کیسے ہو گیا کہ کچھ لوگ ادھر ادھر سے آ کر جمع ہو گئے اور انہوں نے مدینے میں خلیفہ پر حملہ کر دیا۔اصل میں جو انصار تھے، جو مقامی آبادی تھی، ان کی سپورٹ انہیں حاصل تھی۔حضرت عثمان کی شہادت کے بعد پھر دارالخلافہ بدل گیا اور صورت حال تبدیل ہو گئی۔پھر یزید کے دور میں حرہ کا واقعہ رونما ہو گیا۔اس کے بعد انصار کی جو پہلی نسل تھی، وہ رخصت ہو گئی تو پھر اس طرح سے ان کی الگ شناخت برقرار نہیں رہی۔
حواشی
- سنن النسائی،کتاب الطہارۃ،باب البول الی السترۃ،رقم: 30
- کتاب الطہارت،باب التیمن فی الطہور،رقم: 463
- کتاب الاذان،باب اتخاذ الموذن الذی لا یاخذ علی اذانہ اجراََ،رقم: 675
- کتاب آداب القضاۃ، باب النہی عن مسالۃ الامارۃ، رقم ۵۳۹۴
- کتاب الافتتاح، باب تاویل قول عزوجل و لقداتیناک سبعامن المثانی، رقم: 916
- کتاب الافتتاح، باب الرخصة في الترك في الركوع،رقم: 1056
- کتاب الافتتاح،باب كيف يخر لسجود،رقم: 1087
- کتاب قیام اللیل،باب کیف الوتر لواحد،رقم: 996
- کتاب الجنائز،باب کراھیۃ المشی بین القبورفی النعال السبتیۃ،رقم: 2052
- کتاب الجنائز، باب التسھیل فی غیر السبتیۃ، رقم: 2053
- کتاب الصیام، باب الرخصة في أن يقال بشهر رمضان رمضان،رقم: 2113
- کتاب الصیام،باب مایکرہ من الصیام فی السفر،رقم: 1192
- کتاب الحج میں باب بناء الکعبہ،رقم: 2906
(جاری)