اردو ترجمہ: محمد جان اخونزادہ
(ڈاکٹر شیر علی ترین کی کتاب Defending Muhammad in Modernity کا بارہواں باب)
فقہ وتصوف کی دوگانہ تقسیم
فیصلۂ ہفت مسئلہ میں حاجی صاحب نے تخلیقی انداز میں متعدد مصادر علم سے استفادہ کیا ہے۔ ان مصادر میں فقہ، تصوف اور ذاتی تجربہ شامل ہیں۔ یہ کسی صوفی کی جانب سے مصلح فقیہوں کے غیظ وغضب کے خلاف عوامی عرف اور رسوم کا دفاع نہیں، جس طرح فقہ/تصوف کی دوگانہ تقسیم کی طرف سطحی مراجعت فرض کرتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس متن کا ایک سرسری مطالعہ یہ واضح کرنے کے لیے کافی ہے کہ حاجی صاحب اپنے ارادت مند علما بالخصوص علماے دیوبند کے اس متشددانہ رویے کو ناپسند کرتے تھے، جس سے وہ ہندوستان میں رائج میلاد جیسی رسموں کو تنقید کا نشانہ بنا رہے تھے۔ تاہم اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے وہ اس بابت محتاط تھے کہ فقہی اصول وضوابط کے مطابق استدلال کرکے اپنے موقف کو جواز اور استناد فراہم کریں۔حاجی صاحب نے فقہ یا اس کے تقاضوں کو ترک نہیں کیا بلکہ انھوں نے ایک ایسا تعبیری منہج اپنایا، جس میں فقہ وتصوف دونوں باہم یک جا تھے، اور دونوں مل کر قانونِ الہی اور انسانی تعلقات کے درمیان استحکام کو توازن بخش رہے تھے۔
جیسا کہ میں نے پہلے کہا تھا، حاجی صاحب کے پروجیکٹ کا لبِّ لُباب انسانی رشتوں کا تحفظ واستحکام تھا۔ ان کی خواہش تھی کہ شدید اختلافات کے درمیان بھی سماجی تعلقات کے ادب آداب اور رسوم کو نقصان نہ پہنچایا جائے۔ وہ علما اور عوام کے درمیان احترام کا رشتہ برقرار رکھنے کے بارے میں بھی بہت حساس تھے۔ مناظروں اور نہ ختم ہونے والے اختلافی جھگڑوں کے ماحول میں ان کے لیے سب سے زیادہ پریشان کن بات یہ تھی کہ یہ علما اور عوام کے درمیان احترام واعتماد کے رشتے کو کمزور کرتا ہے۔ یہ بات حتمی ہے کہ چاہے علما کا تعلق جس مسلک سے بھی ہو، ان کے متحارب دھڑوں کے بے لچک رویے ان کی مجموعی ساکھ اور وقعت کے لیے نقصان دہ ہیں۔ کیوں کہ جب مختلف دھڑوں کے درمیان مناظرے اور گالم گلوچ کی آگ بھڑکتی ہے، تو مخالف کیمپ کے پیروکار علما پر کیچڑ اچھالنے میں آزادی محسوس کرتے ہیں۔ حاجی صاحب نے اپنے علما مریدوں کو تنبیہ کی کہ اگر وہ اپنے مخالفین سے مناظرہ جیتنے میں کامیاب بھی ہو جائیں، لیکن اس دوران مناظرانہ جدل وجدال کی آگ بے قابو ہو جائے، تو یہ عوام کی نظروں میں ان کی دینی ساکھ کے پورے محل کو راکھ کا ڈھیر بنا دے گی۔ اس مناظرانہ آگ کے شعلوں کو کم کرنے کے لیے اہل علم اور ان عوام کالانعام کے درمیان روایتی فاصلہ برقرار رکھنا ضروری ہے، جن کی رہ نمائی کا کام علما کا منصب ہے۔
عوام اور علما کے درمیان فرق مراتب، مختلف فیہ اعتقادی مسائل پر حاجی صاحب کے نظریات کی ایک اساس بھی ہے۔ مثلاً خدا کے جھوٹ بولنے کے امکان (امکانِ کذب) اور نبی ﷺ کی نظیر پیدا کرنے کے امکان (امکانِ نظیر) پر بحث کرتے ہوئے انھوں نے علما کو نصیحت کی کہ ان حساس موضوعات پر زیادہ قیل وقال میں کمی لائیں۔ اگر وہ بہر صورت علمی طبع آزمائی کا شوق فرماتے ہیں، تو انھیں چاہیے کہ کتابیں اور رسائل چھاپنے کے بجاے ایک دوسرے سے خط وکتابت کے ذریعے تبادلۂ خیال کیا کریں۔ لیکن اگر کتابیں اور رسائل لکھنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں، تو پھر صرف عربی میں لکھا کریں۔ یہ دقیق مسائل عوام کی سمجھ سے بالا ہیں، اور اس وجہ سے ان کے پڑھنے سے وہ خراب ہو سکتے ہیں۔حاجی صاحب نے تاکید سے کہا کہ عوام کو ان مسائل پر بحث ومباحثہ سے باضابطہ طور پر روکا جائے (13)۔
غور کیجیے کہ یہ روک کسی حد تک ان کے اس موقف کے خلاف ہے، جس میں وہ کہتے ہیں کہ عوام کو ایسی کسی رسم میں شرکت سے نہ روکا جائے، جو اصلاح وتصحیح کا متقاضی ہو۔ حاجی صاحب اعتقادی مسائل میں لچک دکھانا یا خطرات مول لینا چاہتے تھے۔ ان کی کوشش یہ تھی کہ تمام اعتقادی بارودی سرنگوں سے بچا جائے، تاکہ مُحکم علمی اور سماجی اقدار کو ناقابل تلافی نقصان پہچنے سے بچایا جائے۔
اصولی زاویے سے دیکھا جائے تو فیصلۂ ہفت مسئلہ میں ایک طرف حاجی صاحب نے بنیادی فرائض کو تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کی ہے، جب کہ دوسری طرف انھوں نے رائج الوقت رسمی اعمال کے لیے شرعی گنجائش پیدا کی ہے۔ یہ معتدل موقف پیش کرتے وقت حاجی صاحب نے اپنے آپ کو ایک محتاط اور حقیقت پسند شخص کی روپ میں پیش کیا ہے۔ انھوں نے ببانگ دہل واضح کیا کہ کسی غیر واجب عمل کو واجب سمجھنا بدعت ہے۔ علاوہ ازیں انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ دوسروں پر غیرواجبات کے سلسلے میں دباو نہ ڈالا جائے۔ یہ احساس نہایت عمدگی سے ان کے اس بیان میں سمویا گیا ہے: "بار بار اور غیر ضروری اصرار سے ایک مستحب عمل بھی گناہ میں بدل جاتا ہے" (5)۔ تاہم ان کے اندر جو حقیقت پسندی تھی، اس نے فوراً ان کو اس اضافے پر آمادہ کیا کہ اگر یہ مسئلہ نہ ہو، تو کسی عمل کو بدعت نہیں قرار دیا جا سکتا۔
ان کے موقف میں کلیدی حیثیت فرد کی نیت کو حاصل تھی۔ اگر کسی فرد کی نیت کسی اختیاری شرعی عمل کو اپنے لیے یا دوسروں کے لیے واجب بنانا نہ ہو، تو پھر وہ جائز رہتا ہے۔ تاہم اگر کوئی کسی اختیاری رسم کو ضروری سمجھنے پر اصرار کرے، تو یہ اصرار ناجائز ہے۔ اپنے پیروکاروں کو یہ تنبیہ کرتے ہوئے کہ لوگوں کے ظاہری اعمال کی بنیاد پر ان پر بدعت وگمراہی کے فتوے نہ لگائیں، حاجی صاحب نے لوگوں کی نیتوں کے متعلق جلد بازانہ فیصلوں پر بھی اپنی ناراضی کا اظہار کیا۔ اپنے مریدوں کے لیے ان کا پیغام سادہ اور واضح تھا: دوسروں کی نیتوں کے متعلق مفروضے اخذ نہ کریں۔ آپ کسی کی نیت کو اپنے ظن وتخمین سے معلوم نہیں کر سکتے۔ اپنے دیوبندی مریدوں کے برعکس، جو طویل عرصے سے رائج عادات اور رسوم کی اصلاح یا خاتمہ چاہتے تھے، حاجی صاحب زیادہ حقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے ایسے کسی انقلابی پروجیکٹ کے مشکلات کو سمجھتے تھے۔ ان کا مطمح نظر یہ تھا کہ قانونِ الہی کی تنفیذ وتبلیغ انسانی رشتوں میں دراڑ پیدا کرنے کا سبب نہ بنے ۔
کچھ اس اختلاف کی ذاتی نوعیت ایسی تھی، اور کچھ فیصلۂ ہفت مسئلہ میں حاجی صاحب کی تعبیر وتشریح کی ایسی کئی تشریحات وتوجیہات ہو سکتی تھیں، جن کی بنا پر یہ اختلاف پیدا ہو گیا کہ فیصلۂ ہفت مسئلہ میں حاجی صاحب کا اصل موقف کیا تھا۔ فیصلۂ ہفت مسئلہ نے بھی ایک بڑی کش مکش کو جنم دیا۔ دیوبند کے مخالفین نے کہا کہ یہ اپنے ہی شیخ کی جانب سے ان کے مسلک کی واضح تردید ہے۔ جب کہ اکابرین دیوبند نے داخلی اختلافات کے ایسے کسی تاثر کو مسترد کرکے بتایا کہ یہ کتاب سراسر ان کے اصلاحی پروجیکٹ کی تائید میں ہے۔ اس کے باوجود فیصلۂ ہفت مسئلہ نے جو تناو پیدا کیا تھا، وہ واضح ہے۔ دیوبندی اس تناو سے کس طرح نمٹے، یہ شیخ ومرید کے درمیان رشتے کی تفہیم، حفاظت اور حدود کی ایک دلچسپ داستان ہے۔ فیصلۂ ہفت مسئلہ کی اشاعت کے فورًا بعد جو ماحول پیدا ہوا، میں اب اس کی چند جھلکیاں پیش کرتا ہوں۔ ذیل میں، میں جن دیوبندی اختلافات اور تنازعات کی تحقیق پیش کرنے جا رہا ہوں، وہ واضح کرتا ہے کہ کسی شیخ سے بیک وقت اختلاف اور ارادت کو کیسے قائم رکھا جا سکتا ہے۔ اور جیسا کہ میں بتاؤں گا، دیوبندی اکابر نے آخر کار حاجی صاحب کو ایسے رنگ میں ڈھال لیا، جو ان کے اصلاحی لباس سے سب سے زیادہ ہم آہنگ تھا۔
مصنف کون ہے؟
یہ عجیب بات ہے کہ فیصلۂ ہفت مسئلہ کی اشاعت کے ابتدائی سالوں میں یہ بنیادی اختلاف پیدا ہوا کہ اس کا مصنف کون ہے۔ حتی کہ حاجی صاحب کی زندگی میں ہی شمالی ہندوستان میں بڑے پیمانے پر یہ افواہ پھیل گئی کہ فیصلۂ ہفت مسئلہ اصلاً ان کے من چلے مرید مولانا اشرف علی تھانوی کی تصنیف ہے، بلکہ کافی عرصے تک یہ رسالہ مولانا تھانوی کی تصنیف کردہ کتابوں کی فہرست میں رہا۔ اس مسئلے کی سنگینی کو ہندوستان میں حاجی صاحب کے ایک مرید حاجی سید نورالحسن کی حکایت سے جانچا سکتا ہے، جس میں وہ حاجی صاحب سے اپنی ملاقات کے احوال بیان کرتے ہیں:
ہندوستان میں (ضلع بلند شہر) کے خورجہ نامی گاؤں میں ایک بار میں اتفاقاً ایک خان صاحب سے گفت وشنید کر رہا تھا۔ جب فیصلۂ ہفت مسئلہ کا ذکر آیا، تو انھوں نے بتایا کہ یہ مضمون حاجی صاحب کا نہیں، بلکہ کسی اور نے لکھ کر بعد میں ان کی طرف منسوب کیا ہے۔ان کی اس بات کی وجہ سے میرے دل میں شک وشبہ پیدا ہوا۔ اس لیے میں حج کے لیے مکہ روانہ ہوا، اور اپنے ساتھ فیصلۂ ہفت مسئلہ کا ایک نسخہ لیا۔ میں نے مصمم ارادہ کیا تھا کہ جب میں حاجی صاحب سے ملوں گا، تو ان کے سامنے اس مضمون کا ایک ایک لفظ سناؤں گا، اور ان سے تصدیق کراؤں گا کہ کیا یہ سب ان کا لکھا ہوا ہے۔ میری روانگی سے قبل میں مولوی محمد سابق سے ملا۔ وہ بھی حج کے لیے مکہ مکرمہ کی طرف عازم سفر تھے۔ میں نے ان سے اپنے ارادے کا ذکر کیا۔ وہ بھی خوش ہوئے اور ہم دونوں نے فیصلہ کیا کہ حاجی صاحب کی زیارت کے لیے اکٹھے جائیں گے۔ جب ہم مکہ پہنچے تو حاجی صاحب کے گھر گئے، اور میں اپنے ساتھ یہ مضمون بھی لے گیا۔ جس وقت ہمیں ان کی قدم بوسی کی سعادت حاصل ہوئی، انھوں نے فوراً اپنی نگاہ مولوی محمد سابق پر جمالی اور ان سے کہا: "میاں محمد سابق! ہندوستان کے لوگ عجیب وغریب تنازعات میں پڑ گئے ہیں۔ میں نے یہ بھی سنا ہے کہ بہت سے لوگ فیصلۂ ہفت مسئلہ کے متعلق یہ شبہات اٹھا رہے ہیں کہ یہ فقیر کی تصنیف نہیں۔ لیکن افسوس کہ اس کے مصنف کے متعلق اندازے لگانے کے بجائے وہ اس حقیقت پر کیوں توجہ نہیں کرتے، جو اس میں موجود ہے"1۔
انھوں نے اس امر کی تصدیق کی کہ اس رسالے کے مصنف وہی ہیں۔ اس کے بعد انھوں نے فیصلۂ ہفت مسئلہ کے پہلے مسئلے سے لے کر ساتویں مسئلے تک تمام مواد ومضامین کی تفصیلی وضاحت کی۔ نور الحسن کے اپنے الفاظ میں:
"(انھوں نے فیصلۂ ہفت مسئلہ کی) وضاحت ایسے اطمینان بخش اور جامع طریقے سے کی کہ ان کے سامنے رسالے کے لفظ بلفظ پڑھنے کی ضورت ہی ختم ہو گئی۔ حاجی صاحب کی وضاحت سننے کے بعد ہم سکون سے ان کے گھر سے واپس لوٹے، اور میں نے مولوی محمد سابق سے کہا: 'کام ہو گیا۔ ہماری اس قدر تشفی ہو گئی کہ ہمیں سوال پوچھنے کی ضروت بھی محسوس نہیں ہوئی۔ اس پر خدا کا شکر ہے"2۔
یہ حکایت فیصلۂ ہفت مسئلہ کی اشاعت کے بعد اس کی متنازعہ حیثیت کو نمایاں کرتی ہے۔ لیکن مصنف سے زیادہ اس کا متن اور بالخصوص یہ امکان کہ حاجی صاحب نے مختلف شرعی مسائل پر اپنے دیوبندی مریدوں کی مخالفت کی ہے، اس تنازع کا مرکزی نکتہ تھا۔ مولانا تھانوی اور مولانا گنگوہی نے، جن میں سے ایک کم سن اور دوسرے معمر تھے، لیکن دونوں دیوبندی سلسلے کی قد آور شخصیات تھیں، اپنے اور اپنے شیخ کے درمیان تنازع کی اہمیت کو گھٹانے کی کوشش کی۔ اس کے برعکس انھوں استدلال کیا (ان کے استدلال کو میں تفصیل سے زیر بحث لاؤں گا) کہ فیصلۂ ہفت مسئلہ نے درحقیقت ان کے موقف کی تصدیق وتائید کی ہے۔لیکن اختلاف کے تمام آثار کو مٹانے کے لیے ان کی تمام تر کوششوں کے باوجود دوسرے وقتوں میں یہ اختلافات بالکل واضح تھے۔ مثلاً مولانا گنگوہی کے سوانح تذکرۃ الرشید میں مولانا عاشق الہی بتاتے ہیں کہ جس وقت فیصلۂ ہفت مسئلہ سے متعلق شور وغل اپنے عروج پر تھا، مولانا گنگوہی نے رسالے کی شہرت کے حوالے سے اپنی جھنجھلاہٹ کا اظہار کچھ اس طرح سے کیا: "ہندوستان میں سب کچھ اچھا ہے، اور کسی چیز کے متعلق کوئی پریشانی نہیں ہے"۔ آگے وہ ایک درپردہ طنز کے ساتھ کہتے ہیں: "لیکن آج کل ہمیں عربستان سے طرح طرح کی عجیب وغریب خبریں پہنچ رہی ہیں"3۔
ذیل میں، میں زیادہ گہرائی سے ان مخصوص اختلافی نکات کا تجزیہ کروں گا، جن کا تعلق حاجی صاحب اور ان کے بزرگ دیوبندی مریدوں کے ساتھ ہیں، اور جو فیصلۂ ہفت مسئلہ کی اشاعت کے فوراً بعد زیر بحث آئے۔ ان کے درمیان یہ اختلافی نکات اور مباحث نہ صرف دیوبند کے ابتدائی سالوں میں شریعت کی حدود پر ان کے مواقف کے دقیق لیکن نمایاں اندرونی تنوع کو بھی ظاہر کرتے ہیں، بلکہ ایک ایسی روایت کو بھی ظاہر کرتے ہیں، جس میں محبت، وفاداری اور ارادت کے ہوتے ہوئے کانٹے دار مسائل پر اختلافات سے نمٹنے کے لیے مکالمے اور بحث ومباحثے کی ایک حیرت انگیز وسعت تھی۔
شیخ اور مرید کے درمیان اختلاف کی حدود
حاجی صاحب اور ان کے دیوبندی مریدوں کے درمیان تناو کا بہتر اندازہ مکاتیب کے اس سلسلے سے ہوتا ہے، جو فیصلۂ ہفت مسئلہ کی اشاعت کے بعد مولانا اشرف علی تھانوی اور ایک نامعلوم دیوبندی سائل کے درمیان وقوع پذیر ہوا۔ سائل نے مولانا تھانوی سے ان مخصوص اشکالات اور اعتراضات کے اطمینان بخش جوابات کا مطالبہ کیا جو دیوبندی مسلک کے مخالفین اٹھاتے ہیں، بالخصوص اکابر علماے دیوبند (بشمول مولانا تھانوی) کے ساتھ حاجی صاحب کے تعلق کی نوعیت بھی واضح کی جائے۔ اپنے آپ کو دیوبندی مسلک کا بہی خواہ ثابت کرتے ہوئے اس سائل نے مولانا تھانوی سے ان دلائل کا مطالبہ کیا، جن کے ذریعے حاجی صاحب اور ان کے دیوبندی مریدوں کے درمیان پرخلوص روحانی تعلق کے بارے میں الزامات کا سد باب ہو سکے۔ اس خط وکتابت کے دوران سائل ایک نکتہ چیں کا کردار ادا کرتے ہوئے ان تمام مخصوص اختلافی نکات کی فہرست اور وضاحت مرتب کرتا ہے جو مولانا تھانوی کو زیر بحث لانے چاہئیں۔
مولانا تھانوی کے نام اپنے پہلے خط میں یہ نامعلوم سائل تین بنیادی سوالات اٹھاتا ہے۔
پہلا اختلافی نکتہ یہ ہے کہ کیا فیصلۂ ہفت مسئلہ میں بیان کیے گئے حاجی صاحب کے بعض عقائد اور خیالات حقیقتاً وہی ہیں، جو ان کا عقیدہ ہے، یا وہ کسی سیاسی مصلحت کی بنیاد پر ہیں، جن کا مقصد مکہ مکرمہ کے سیاسی اشرافیہ اور اکابر کی تشفی ہے؟ اگر ایسا ہو تو یہ تو روافض کی علامت ہے، جو حاجی صاحب کے ظاہری اور باطنی کمالات کے یکسر خلاف ہے۔ اور اگر ان کی تحریر ان کے اعتقاد کے موافق ہے، تو پھر اپنے ان (دیوبندی) مریدوں کے ساتھ ان کے تعلق کی نوعیت کیا ہے، جو ان عقائد واعمال کو بدعت اور گمراہی سمجھتے ہیں؟ ان کے بارے میں لوگ کیا سوچیں گے، اگر ان کا اپنا شیخ ان چیزوں کی مخالفت کرے، جن کی وہ تبلیغ کرتے ہیں؟4
دوسرے سوال نے ایک زیادہ عمومی اور وسیع تر سوال کو موضوع بحث بنایا: کیا شیخ ومرید کے درمیان تعلق کا تقاضا یہ ہے کہ مرید تمام دینی امور میں اپنے شیخ کی اتباع کریں؟ یا ان کے لیے اتنا کافی ہے کہ صرف روحانی اعمال کے دائرے میں اطاعت کا مظاہرہ کریں، مثلاً مراقبہ، ذکر واذکار وغیرہ میں، جبکہ فقہی مسائل میں اپنے علم وفکر پر انحصار کریں؟ سائل نے واضح کیا کہ اس امر کی وضاحت اس لیے ضروری تھی اگر مؤخر الذکر بات درست ہو، اور اس کے باوجود شیخ نے فقہ یا رسمی اعمال کے بارے میں اپنے مرید کی مخالفت کی ہو، تو پھر مرید کے دل میں اپنے شیخ کی عزت برقرار نہیں رہ سکتی۔ اور نتیجتاً شیخ ومرید کا رشتہ پھلے پھولے گا نہیں۔ دوسری طرف اگر مرید یہ محسوس کرے کہ اس کے شیخ کے عقائد واعمال شریعت اور سنت کے خلاف ہیں، تو پھر وہ اپنے شیخ کے ساتھ محبت کا رشتہ برقرار نہیں رکھ سکتا۔ بلکہ محبت کا رشتہ تو کیا، ایسے حالات میں شیخ اس بلند منصب پر متمکن ہونے کا اہل بھی نہیں تصور کیا جا سکتا۔
بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ اگر شیخ اپنے مرید کے ساتھ حق وباطل کے درمیان اور یہ کہ کون سی چیز جائز ہے اور کون سی گمراہی، اس کے مابین فرق پر متفق نہ ہو، تو پھر وہ کس طرح اپنے مرید کو خدا کی طرف لے جانے والے منازل پر چلانے کے قابل بنا سکتا ہے؟ جیسا کہ سائل واضح کرتا ہے: "اگر کوئی یہ تسلیم بھی کرے کہ شرعی احکام سے متعلق اختلاف پرانے زمانے سے واقع ہے، اور طریقت کے معاملات پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا، تو اس کا پہلا جواب یہ ہے کہ یہ اختلاف کوئی معمولی بات نہیں۔دوسرا یہ کہ اس اختلاف سے چشم پوشی کے نتیجے میں یہ مسلّمہ شرط بے حیثیت ہو جائے گی کہ متلاشیانِ حقیقت ایک ایسے شیخ کو تلاش کریں، جو کامل متبعِ سنت ہو" (99 – 100)۔
اس کے بعد سائل اپنے ان تجریدی سوالات کا اطلاق اکابر دیوبند کے ساتھ مخصوص مسائل میں حاجی صاحب کے واضح اختلافات پر کرتا ہے۔ وہ حیرت کے عالم میں کہتا ہے کہ اگر کوئی اس مقدمے کو تسلیم کرتا ہے کہ شیخ اور مرید مکمل ہم خیال، ہم عقید اور ہم عمل ہونے چاہییں، تو پھر حاجی صاحب اور ان کے مریدوں کے درمیان اختلافات کی روشنی میں یہ امر واضح ہے کہ یہ حضرات شیخ ومرید کے درمیان ہم آہنگی کی بنیادی شرط پر پورا نہیں اترتے۔
سائل نے کا اٹھایا ہوا تیسرا اختلافی نکتہ اپنے مریدوں کے ساتھ حاجی صاحب کے تعلق کے اخلاص یا پختگی سے توجہ ہٹا کر اس سوال کی طرف موڑتا ہے کہ حاجی صاحب کے ورثے کے اصلی امین کون ہیں؛ علماے دیوبند جیسے مولانا رشید احمد گنگوہی اور مولانا اشرف علی تھا، یا علماے دیوبند کے مخالفین جیسے مولانا عبد السمیع۔ سائل نے اس مسئلے کو اس طرح سے پیش کیا ہے:
حاجی صاحب کے مریدوں کو دو کیمپوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے، اور یہ دونوں کیمپ علما کے ہیں۔ ایک کیمپ میں ہمیں مولوی احمد حسن صاحب کانپوری اور شاہ عبد الحق مہاجر مکی جیسے لوگ نظر آتے ہیں، جن کے عقائد واعمال حاجی صاحب اور چشتی صابریہ وقدسیہ کے دیگر حضرات کی طرح ہیں۔ دوسرا کیمپ علماے دیوبند جیسے مولوی رشید احمد گنگوہی اور مولوی اشرف علی تھانوی پر مشتمل ہے، جو پہلے گروہ کے عقائد واعمال کو بدعت اور گمراہی قرار دیتے ہیں، اس حد تک کہ بعض اوقات وہ ان پر کفر وشرک کے فتوے لگاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان دونوں کیمپوں میں سے کون سا کیمپ حاجی صاحب کے ورثے کا حقیقی محافظ ہے؟ اور حاجی صاحب کے اس عمل کی کیا تاویل کی جائے کہ انھوں نے ایسے دو متوازی گروہوں کے لوگوں کو کیوں کر بیعت کرایا، جو اپنے عقائد واعمال میں دوسروں سے اس قدر مختلف تھے؟ (101)
آئیے اب مولانا تھانوی سے ان تیکھے سوالات کے جوابات سنتے ہیں۔
ان تینوں سوالات کے بارے میں مولانا تھانوی کا سارا جواب اس مقدمے پر مبنی ہے کہ علمی اختلافات کی دو قسمیں ہیں: حقیقی اور اضافی۔پہلی قسم میں وہ اختلافات شامل ہیں جو حتمی ہیں، اور ان میں تطبیق نہیں ہو سکتی، جب کہ دوسری قسم کے اختلافات وہ ہیں، جو وقتی عوامل کی وجہ سے پیدا ہوئے ہوں، جیسے کسی متعلقہ مسئلے پر علم میں عدم مساوات۔ مولانا تھانوی نے واضح کیا کہ اس سیاق میں اختلاف کی نوعیت کو جاننے کے لیے متعلقہ مسائل کی نوعیت کے متعلق بیدار رہنا پڑتا ہے۔ یہاں پر مناقشہ ایسی رسموں کے متعلق ہے، جو اصلاً جائز ہیں، لیکن چند وقتی اور فاسد اثرات کی وجہ سے مکروہ اور ناپسندیدہ بن گئی ہیں۔ مثلاً میلاد اور گیارھویں شریف (صوفی بزرگ کی وفات کے گیارھویں دن ایصالِ ثواب کے لیے تلاوتِ قرآن) جیسے متنازعہ اعمال اس قسم سے تعلق رکھتے ہیں۔ مولانا تھانوی کے نزدیک اس طرح کی رسموں کے بارے میں دو طرح کی آرا ہو سکتی ہیں۔ ایک یہ کہ ایک شخص اس بات سے انکار کرے کہ ان رسموں میں جو فاسد تخصیصات شامل ہو گئی ہیں، وہ ناجائز نہیں ہیں۔ جو یہ شخص ایسی رائے رکھتا ہے، اس کے بدعتی اور گمراہ ہونے میں کوئی شک نہیں۔ مزید برآں اگر یہ حاجی صاحب کی رائے ہوتی، تو پھر علماے دیوبند کے ساتھ ان کا اختلاف حقیقی اور ناقابل مفاہمت ہوتا (102)۔
مولانا تھانوی اپنی بات جاری رکھتے ہوئے لکھتے ہیں: دوسرا طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ ہم ان فاسد تخصیصات کو ناپسندیدہ سمجھیں، اور ان سے ملوث اعمال میں دوسرے لوگوں کو شریک ہونے سے منع کریں، لیکن عوام کے ساتھ اس شک کی وجہ سے حسن ظن سے کام لیں کہ کیا حقیقت میں ان کی رسمیں فاسد ہیں، اور اس طرح انھیں ان اعمال میں شریک ہونے کی اجازت دیں۔ بظاہر یہ اجازت ان لوگوں کے موقف کے خلاف معلوم ہوتی ہے، جو ان اعمال کو جائز قرار نہیں دیتے۔ تاہم مولانا تھانوی متنبہ کیا کہ اس دوسری قسم کا اختلاف جوہری یا حقیقی نہیں۔ اس کے بجاے یہ مذکورہ عوام کی زندگیوں کے متعلق تحقیق یا علم کی کمی کے باعث غلطی کی ایک مثال ہے۔ مولانا تھانوی نے واضح کیا کہ ایسی غلطی علما، اولیا اور یہاں تک کہ نبی ﷺ سے بھی ہو سکتی ہے۔ لیکن اس قسم کی غلطی سے کسی کی عظمت وشان، کمال اور قربِ الہی میں نقص نہیں واقع ہوتا۔ مولانا تھانوی نے استدلال کیا کہ حاجی صاحب اور ان کے دیوبندی مریدوں کے درمیان جو اختلاف ہے، وہ اسی نوعیت کا ہے۔ یہ حقیقی یا جوہری نہیں۔ یہ ہندوستان میں عوام کی صورت حال سے حاجی صاحب کی لاعلمی کا نتیجہ ہے، جس کی وجہ سے وہ ان کی عبادتی زندگی سے متعلق غیر معمولی حد تک حسن ظن سے کام لیتے ہیں (103- 4)۔
مولانا تھانوی نے اپنے استدلال میں ہندوستان میں حاجی صاحب کی فعلاً عدم موجودگی پر زور دیا۔چونکہ حاجی صاحب مکہ میں رہائش پذیر تھے، اور ہندوستان سے کافی عرصے کے لیے باہر تھے، اس لیے ان کے پاس وہ ضروری معلومات نہیں تھیں، جن کی بنیاد پر وہ عام ہندوستانی مسلمانوں کی مذہبی زندگی کا جائزہ لے سکیں۔ چونکہ ان کے نقطۂ نظر میں غلطی کی وجہ مشاہداتی علم کی کمی ہے، اس لیے اس کی وجہ سے ان کی روحانی حیثیت اور اپنے مریدوں کو قربِ الہی کے منازل طے کرانے کی صلاحیت پر کوئی حرف نہیں آتا۔ انھوں نے اپنے استدلال میں مزید بتایا: حتی کہ نبی اکرم ﷺ نے بھی تجربی علم نہ ہونے کی وجہ سے غلطی کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر "فرض کرو کوئی شخص رسول اللہ ﷺ کے کھانے میں زہر ملائے، اور وہ اسے بے خبری میں کھالے تو یہ غلطی صحابہ کے دلوں میں ان کی عظمت کو نہیں گھٹائے گی۔ وہ رسول اللہ ﷺ کو زہر کھانے کی وجہ سے غلط نہیں کہیں گے۔ اس کے بجاے وہ کہیں گے کہ انھوں نے جو غذا کھائی، اس کا کھانا جائز تھا۔ وہ اسے ہرگز نہیں تناول نہ فرماتے، اگر ان کو پتا ہوتا کہ اس میں زہر ملایا گیا ہے (105)۔
مولانا تھانوی قیاس کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر بے توجہی کی کیفیت میں شرعی حکم کی خلاف ورزی صحابۂ کرام کے دلوں میں رسول اللہ ﷺ کی عظمت کو کم نہیں کرتی، تو پھر ہندوستانی عوام کے متعلق حاجی صاحب کا غلط تجزیہ بھی بطور ایک شیخ کے مریدوں کے دلوں میں ان کی شان کو نہیں گھٹاتا۔ لیکن اس امر کی کیا تاویل کی جائے کہ حاجی صاحب بذات خود میلاد جیسی رسموں میں شریک ہوتے تھے، جن کے علماے دیوبند سخت مخالف تھے؟ یہاں بھی مولانا تھانوی کا جواب انھی بنیادوں پر استوار ہے۔ مولانا تھانوی دعوی کرتے ہیں کہ حاجی صاحب صرف ان رسموں میں شرکت کرتے تھے، جن میں خرابیاں نہیں ہوتی تھیں۔ مزید برآں مولانا تھانوی نے تجویز کیا کہ حاجی صاحب کا اپنا طرز عمل بہت صاف اور بے داغ تھا، اور اسی وجہ سے وہ دوسرے لوگوں سے حسن ظن سے کام لیتے تھے۔ ہو سکتا ہے ان کا حسن ظن کسی مقام پر درست ہو، لیکن زیادہ مواقع پر وہ بے جا تھا۔ لیکن حاجی صاحب کا نرم موقف اپنے دیوبندی مریدوں کے سخت گیر موقف سے کیوں متاثر نہیں ہوا، اگر وہ حقیقت میں ان کے اتنے قریب تھے؟ بلکہ اس سے بھی زیادہ اہم یہ کہ اگر اکابر دیوبند ایسے اعمال سے روکتے تھے، جن میں حاجی صاحب شریک ہوتے تھے، تو کیا نتیجتاً یہ ان کی اپنے شیخ پر تنقید کے برابر نہیں؟
ان سوالات کا جواب دیتے ہوئے (جو سائل نے بھی اٹھائے تھے)، مولانا تھانوی نے دوبارہ ایک اہم فرق وضع کیا۔ انھوں نے بتایا کہ ایک عمل اصلًا اور بالذات ناجائز ہوتا ہے، اور ایک عمل فاسد تخصیصات کی وجہ سے وقتی طور پر بدعت بن جاتا ہے۔ ان دونوں کے درمیان فرق ہے۔ انھوں نے یاد دہانی کرائی کہ جب علماے دیوبند میلاد کو بدعت کہتے ہیں، تو وہ نفس عمل کو تنقید کا نشانہ نہیں بناتے، بلکہ ان کی تنقید اس سے جڑی فاسد تخصیصات پر ہوتی ہے۔ مولانا تھانوی نے باصرار بتایا کہ حاجی صاحب ان تخصیصات پر عمل پیرا نہیں تھے، نہ ہی ان کے نزدیک اس کی اجازت یا گنجائش تھی۔اس لیے حاجی صاحب اور ان کے دیوبندی مریدوں کے مواقف میں کوئی حقیقی تضاد نہیں۔
مولانا تھانوی نے اپنے استدلال کو ایک مفید تقابلی بیان کے ساتھ سمیٹا: "حاجی امداد اللہ صاحب کے قول وفعل کا لبِّ لباب یہ ہے کہ رسمی اعمال جائز ہیں، اگر وہ خرابیوں سے خالی ہوں، اور علماے دیوبندی کے شرعی موقف کا خلاصہ یہی ہے کہ یہ اعمال ناجائز ہیں، اگر یہ فاسد تخصیصات سے خراب ہو جائیں" (104)۔ مولانا تھانوی نے تسلیم کیا کہ "جہاں تک یہ سوال ہے کہ اکثر مثالوں میں یہ خرابیاں حقیقتاً موجود ہوتی ہیں یا نہیں، تو اس صورت میں اختلاف موجود ہے" (104)۔ لیکن مولانا تھانوی نے پرزور انداز میں واضح کیا کہ یہ اختلاف محض مشاہدے کا اختلاف ہے جس کی وجہ سے حاجی صاحب پر کیچڑ اچھالنا جائز نہیں، نہ یہ اکابر دیوبند کا اپنے موقف پر سمجھوتا ہے، اور نہ ہی ان کے اپنے شیخ سے تعلق کی پاکیزگی یا مضبوطی پر کوئی شبہ اٹھاتا ہے۔ مولانا تھانوی کی دفاعی حکمتِ عملی کا ایک نمایاں پہلو ان کے استدلال کا قطعی انداز ہے؛ اگر حاجی صاحب کو زمینی حقائق کا اسی طرح علم ہوتا، جو اکابر دیوبند کو ہے، تو وہ بھی اسی نتیجے تک پہنچتے، جس نتیجے تک علماے دیوبند پہنچے ہیں۔ مزید برآں مولانا تھانوی نے فیصلۂ ہفت مسئلہ میں حاجی صاحب کی متعلقہ آرا پر بحث کو جس انداز سے پیش کیا ہے، وہ خاص طور پر بہت اہم ہے۔ فیصلۂ ہفت مسئلہ میں حاجی صاحب کے دلائل کی جزئی تفصیلات پر ارتکاز کے بجاے انھوں نے لوگوں کی توجہ ان دلائل کے مشاہداتی بنیادوں کی طرف مبذول کرائی۔ اس طرح سے انھوں نے اس بحث کی شرائط کو ایک اور شکل دی، تاکہ وہ علماے دیوبند کے موقف کے زیادہ موافق بن جائیں۔ کس لیے؟ اس لیے کہ اگر زمینی حقائق کے مطابق شرائط کا مشاہدہ کسی استدلال کا جائزہ لینے کے لیے معیار بن جائے، تو پھر تو اکابر دیوبند کا موقف بآسانی اپنے شیخ کے موقف پر فتح یاب ہو جائے گا، کیوں کہ وہ ہندوستان میں بیٹھے تھے، اور ان کے شیخ یہاں سے بہت دور مکہ میں تھے۔
ایک 'حقیقی' مرید کی علامات
یہ سوال کہ کون حاجی صاحب کے 'حقیقی' ارادت مند ہیں، دیوبندی یا ان کے مریدوں میں سے ان کے مخالفین؟ مولانا تھانوی نے ایک طنزیہ نوٹ سے اس کا جواب شروع کیا: "میں حاجی صاحب کے تمام مریدوں کی اصلاح کا ذمہ دار نہیں ہوں" (106)۔ وہ ایک پرتجسس اور مبہم انداز میں مذمت کرتے ہوئے لکھتے ہیں: "کئی اہل علم" حاجی صاحب کے اعتقادی مسلک کو غلط طرح سے سمجھتے ہیں، یا اس کی غلط توجیہ کرتے ہیں، کیوں کہ وہ ان کی زبان سے غلبۂ حال میں نکلے ہوئے الفاظ کو ہو بہو لے لیتے ہیں۔ مولانا تھانوی کے نزدیک پیچیدہ مسائل کے حوالے سے بیان کی گئی آرا کو، بالخصوص جب وہ غلبۂ حال میں زبان سے نکل جائیں، ان کے لفظی معنوں میں نہیں لینا چاہیے۔ اس کے بجاے ایسی صورتوں میں شارح کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ زیادہ باریکی سے کام لیتے ہوئے بظاہر واضح بیانات کے داخلی پہلوؤں کی تحقیق کرے (107)۔ مولانا تھانوی نے یہ تعیین نہیں کی کہ کیا حاجی صاحب کی آرا غلبۂ حال میں ان سے صادر ہوئی ہیں یا نہیں۔ لیکن اپنے شیخ کے غلبۂ کو موضوع بحث بنا کر انھوں نے ایک تیر سے دو شکار کیے: فیصلۂ ہفت مسئلہ اپنے کسی ناپسندیدہ قول کا غلبۂ حال کا نتیجہ قرار دینا، اور اپنے مخالفین کی تشریحی مہارت اور رویے کی کمزوری جتلانا۔
آخری سوال یہ تھا کہ حاجی صاحب نے مسلکی اعتبار سے اس قدر متضاد اور متحارب گروہوں کو کیوں اپنی ارادت میں لیا۔ اس کا جواب دیتے ہوئے مولانا تھانوی نے وہی مشاہدے والا موقف دوبارہ اختیار کیا۔ انھوں نے بتایا کہ حاجی صاحب نے علماے دیوبند کے ان مخالفین سے بھی تعلقات استوار کیے، جو مشکوک عقائد واعمال کے حامل ہیں، اس لیے کہ ان کے پاس ان کے بارے میں مطلوبہ مشاہداتی علم نہیں تھا۔ اس غلطی کی وجہ علمی الجھن یا نقص نہیں (107)۔ لیکن مولانا تھانوی نے اس سوال سے کوئی تعرض نہیں کیا کہ علم کی اسی کمی کے باوصف انھوں نے اکابر دیوبند کو کیوں کر اپنی ارادت میں داخل کیا۔
یہ ابہامات ایک طرف لیکن مولانا تھانوی اور دیوبندی سائل کے درمیان یہ تبادلۂ خیال اکابرِ دیوبند کی اس خواہش کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ حاجی صاحب کے علمی ورثے کو ایک ایسے انداز میں پیش کرنا چاہتے تھے، جس سے وہ ان کے اصلاحی ایجنڈے سے بالکل ہم آہنگ ہو۔ ان کے تعلق میں دراڑ پیدا کرنے والے کسی بھی شبہے کو زائل کرنے کے لیے مولانا تھانوی کی ان تھک کوششوں سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ حاجی صاحب کے ورثے کو دیوبندی تحریک کے بیانی مفادات کے مطابق ڈھالنے کے لیے کس قدر غیر معمولی فکر مند تھے۔
خوابوں کا سلسلہ
فیصلہ ہفت مسئلہ کے متعلق شاید سب سے زیادہ دلچسپ انداز وہ منامی حکایت ہے، جو علماے دیوبند نے اپنے اصلاحی پروگرام کو اپنے ہی شیخ کے لاحق کردہ ممکنہ خطرے سے بچانے کے لیے بیان کی۔ یہ خواب مولانا رشید احمد گنگوہی کے ایک قریبی معاون مولانا حافظ احمد نے بیان کیا ہے، جو اس رسالے کی اشاعت کے وقت مدرسہ دیوبند کے مہتمم تھے۔ اس خواب میں رسول اللہ ﷺ نے اس مسئلے میں ثالثی کی، اور مولانا گنگوہی اور علماے دیوبند کے حق میں فیصلہ فرمایا۔ مولانا تھانوی کی تاویلی مشق کے بجائے اس منامی حکایت نے حاجی صاحب کی آرا کو ان کے دیوبندی مریدوں سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش نہیں کی، بلکہ اس کے بجائے اس نے اول الذکر کو مؤخر الذکر کے ذریعے منسوخ کیا۔ میں حافظ احمد کے اس یادگار خواب کا خلاصہ پیش کرکے بتانا چاہتا ہوں کہ یہ مقصد کیسے حاصل کیا گیا۔ حافظ صاحب بیان کرتے ہیں:
میں خواب میں ایک بڑا ہال دیکھ رہا ہوں، جس میں حاجی صاحب تشریف فرما ہیں، اور میں بھی، اور ہم دونوں فیصلۂ ہفت مسئلہ پر بحث کر رہے ہیں۔ حاجی صاحب کہتے ہیں: "علماے دیوبند اس مسئلے میں اس قدر انتہا پر کیوں ہیں؟ اس میں لچک کی گنجائش ہے"۔ اس کے جواب میں میں کہتا ہوں: "حضرت! اس میں گنجائش نہیں ہو سکتی، اگر ہو تو عقائد کی حدود پامال ہو جائیں گی"۔ وہ جواب میں کہتے ہیں: "یہ صراحتاً عدمِ برداشت ہے"۔ میں نے انتہائی ادب سے عرض کیا: "حضرت! آپ جو فرماتے ہیں، وہ درست ہے لیکن حضرت! فقہا ان (عوام کی فاسد رسموں) کی مخالفت کرتے ہیں"۔ تناو سے بھرپور اس گفتگو کے آخر میں حاجی صاحب نے کہا: "چلیں اس بحث کو سمیٹے ہیں۔ اگر شارع خود اس اس مسئلے میں فیصلہ سنا دیں؟" میں نے کہا: "ٹھیک ہے، ان کے فیصلے کے بعد کس کو اختلاف کی مجال ہے؟" حاجی صاحب نے کہا: "تو اب اسی جگہ شارع بذات خود آکر میرے اور تمھارے درمیان فیصلہ کریں گے"۔ میں نے جب یہ سنا تو بے حد خوش ہوا کہ آج مجھے رسول اللہ ﷺ کی زیارت کی سعادت نصیب ہوگی۔ کچھ دیر بعد حاجی صاحب نے کہا: "تیار ہو جاؤ، حضور ﷺ تشریف لا رہے ہیں"۔ چند منٹوں میں میں نے ایک جم غفیر دیکھا جو ہال کے سامنے جمع ہو گیا۔ جوں ہی مجمع قریب آیا، میں نے حضور ﷺ کو آگے اور ان کے پیچھے سب صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو دیکھا۔ اور اس بھیس میں رسول اللہ ﷺ کا جو شان وشکوہ تھا، وہ بعینہ مولانا رشید احمد گنگوہی کی طرح تھا۔ وہ بغیر کسی بنیان کے ایک لمبی اور بہت باریک قمیص کا کرتا زیب تن کیے ہوئے تھے۔ اور انھوں نے بالکل علماے دیوبند کی طرح پانچ کونوں کی ایک ٹوپی پہنی تھی۔ جب حضور ﷺ ہال میں داخل ہوئے، تو حاجی صاحب ہال کے ایک کونے میں ادب سے کھڑے ہوگئے۔ اور میں بھی اسی طرح ادب سے ان کے مخالف جانب ہال کے ایک کونے میں ہاتھ باندھے کھڑا ہو گیا (91 – 93)۔
رسول اللہ ﷺ سب سے گزر کر میرے بہت قریب آئے، اپنے ہاتھ میرے کاندھے پر رکھے، اور پھر بآواز بلند فرمانے لگے: "یہ لڑکا جو کچھ کہہ رہا ہے، وہ ٹھیک ہے"۔جب میں نے یہ سنا تو میری خوشی کا کوئی ٹھکانا نہ رہا۔ اور اس کے ساتھ حاجی صاحب کا مقام ومرتبہ بھی مجھے سمجھ میں آیا۔ میں نے اپنے دل میں کہا: "خدا نے ہمارے روحانی مشائخ کو کتنے بلند مقام پر سرفراز کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ ان کے ہاں اس قدر اتفاقاً تشریف لاتے ہیں، اور ان سے بات کرتے ہیں"۔ جب میں نے رسول اللہ ﷺ کی محبت وشفقت کو دیکھا تو میں نے ان سے یہ سوال پوچھنے کی جرات کی: "حضور! احادیث میں ہم نے آپ کی ہیئتِ مبارکہ کے بارے میں جو پڑھا ہے، وہ اس سے مختلف جو آپ اب پہنے ہوئے ہیں۔ حضور ﷺ نے جواب دیا: "یہ مولانا گنگوہی کا لباس ہے۔ میرا اصلی لباس وہی ہے جس کے بارے میں آپ نے پڑھا ہے، لیکن اس وقت میں نے مولانا گنگوہی کی ہیئت اس لیے اختیار کی ہے، کیوں کہ مجھے پتا ہے کہ آپ کو ان سے کتنی محبت ہے"۔ اس جواب سے مولانا گنگوہی سے میری محبت اور ارادت کئی گنا بڑھ گئی۔ قربِ الہی میں ہمارے مشائخ کا بلند مقام اظہر من الشمس ہو گیا۔ اس کے ساتھ رسول اللہ ﷺ اپنے صحابۂ کرام کے ساتھ اسی راستے سے واپس چلے گئے، جس سے آئے تھے، اور میں نیند سے جاگ گیا (94)۔
حافظ احمد کے اس خواب میں متعدد نکات قابل توجہ ہیں۔ پہلے لفظ 'شارع' کے استعمال پر غور کریں۔ شریعت تو قانونِ الہی کا نام ہے، لیکن یہاں پر حضور ﷺ کے لیے یہ لفظ مجازاً استعمال کیا گیا ہے۔ اس پر بھی غور کیجیے کہ اس خواب میں ایک تیر سے دو شکار کیے گئے ہیں: یہ خواب بیک وقت نبی اکرم ﷺ سے حاجی صاحب کے قرب کو تسلیم کرتا ہے، اور اس کے ساتھ فیصلۂ ہفت مسئلہ میں حاجی صاحب کے علمی افکار کو بے اعتبار بھی ثابت کرتا ہے۔ اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ حاجی صاحب کے دینی استناد کے ذریعے ہی ان کے استناد کو کمزور کیا گیا ہے۔ زمین پر رسول اللہ ﷺ کا نزول حاجی صاحب کی وجہ سے ممکن ہوا، یا زیادہ معین انداز میں ان کے روحانی مقام ومرتبے کی وجہ سے، جس کے باعث وہ انتہائی اونچے درجے کی دعوت دینے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ لیکن یہ دعوت قبول کرنے اور منظر پر پہنچنے کے بعد نبی اکرم ﷺ حاجی صاحب کے خلاف اور علماے دیوبند کے حق میں فیصلہ کرتے ہیں۔ گویا حاجی صاحب نے اپنی قبر خود اپنے ہاتھوں سے کھودی۔
یہ بھی اہم ہے کہ رسول اللہ ﷺ تنہا ظاہر نہیں ہوئے۔ ان کی جلو میں ان کے تمام صحابہ کرام بھی تھے، جو سنی تصور جہاں میں شرعی استناد کے ایک مکمل نظام کی تائید پر مہر تصدیق ثبت کرتا ہے۔ جیسا کہ میں نے ساتویں باب میں ذکر کیا ہے، سنتِ نبوی کی روایتی سنی تفہیم میں صحابہ کرام کو بنیادی حیثیت حاصل ہے، اور ان کی تقلید بھی ایک مرکزی مقام کا حامل ہے۔اس خواب میں رسول اللہ ﷺ کو افادیت پسندانہ انداز میں ہندوستانی لباس میں ڈھالنے پر بھی غور کیجیے۔ اس بات کو واضح کرنے کے لیے کہ رسول اللہ ﷺ علماے دیوبند کے قریب ہیں، نہ صرف انھوں نے ان کے موقف کی تائید کی، بلکہ ان کا لباس بھی زیبِ تن کیا۔ قریبی تعلق کا یہ اشارہ اس بات کو واضح کرتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ دیوبندی تحریک کے مکمل حامی تھے۔ انھوں نے اپنے موقف اور ہیئت دونوں سے دیوبندی موقف کی تائید کی۔ تاہم دلچسپ امر یہ ہے کہ یہ خواب اتباع کے شرعی نظام کو الٹ پلٹ کرتا ہے۔ چاہیے یہ تھا کہ علماے دیوبند رسول اللہ ﷺ کی تقلید کریں، لیکن یہاں رسول اللہ ﷺ علماے دیوبند بلکہ زیادہ تخصیص کے ساتھ مولانا گنگوہی کی تقلید کر رہے ہیں۔
سرد، تاریک، طلسمات سے آزاد دنیا؟
دیوبندی تراث میں اور بھی کئی مثالیں ہیں، جن میں ہمیں ایسے خواب ملتے ہیں، جن میں رسول اللہ ﷺ کو ہندوستانی قالب میں دکھایا جاتا ہے، اور ان خوابوں سے رسول اللہ ﷺ کی علماے دیوبند سے محبت کا اثبات کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر اپنی مشہور مناظرانہ کتاب البراہین القاطعہ (جس کے کئی نکات اس کتاب میں زیر بحث لائے گئے ہیں) نامور دیوبندی عالم مولانا خلیل احمد سہارن پوری نے ایک حکایت بیان کی ہے، جس میں ایک دیوبندی عالم (عالم کا نام مذکور نہیں) کو خواب میں رسول اللہ ﷺ کی زیارت ہوتی ہے، اور آپ ﷺ ان سے اردو میں بات کرتے ہیں۔ اس بات سے اس عالم پر حیرت طاری ہوتی ہے، اور وہ پوچھتا ہے: "حضرت! میرا خیال تھا کہ آپ عرب ہیں۔ آپ اردو کیسے بول رہے ہیں"5؟ رسول اللہ ﷺ جواب میں فرماتے ہیں: "میں نے یہ زبان علماے دیوبند سے گہرے تعلق کی وجہ سے سیکھی ہے"6۔
ایسی منامی حکایات سے استفادہ ثابت کرتا ہے کہ اگر چہ علماے دیوبند کو عام طور سخت گیرعقلیت پرست اور ظاہریت پسند سمجھا جاتا ہے، لیکن ان کے مباحث وافکار میں خواب اہم مقام رکھتے ہیں۔ پوری اسلامی تاریخ میں دینی دلائل کی ترتیب وتشکیل میں خوابوں نے نمایاں عوامل کا کردار ادا کیا ہے۔ وہ روحانی بصیرت کے لیے ایک اہم ظرف کا کردار بھی ادا کرتے ہیں، جو انسانی روح کی سلامتی اور بیماری دونوں پر دلالت کرتے ہیں7۔ خوابوں کی اس طویل المیعاد روایت میں علماے دیوبند نے بھی اپنا حصہ ڈالا۔ انھوں نے منامی تخیلات سے استفادہ کرتے ہوئے اپنے مخالفین پر اپنے اعتقادی موقف کی برتری ثابت کی۔ اس مسابقتی عمل اور جدید صورت حال کے باوجود انھیں خوابوں کی اہمیت کے متعلق کسی قسم کے جدید اور عقلیت پسندانہ خدشات لاحق نہ تھے، اور وہ خواب میں رسول اللہ ﷺ کی زیارت اور اس سے دینی استدلال کرنے میں کوئی باک نہیں رکھتے تھے۔
منامی تخیلات کو قبول کرنے کی جو دیوبندی روایت ہے، اس پر مؤرخ فرانسس روبنسن کا یہ دعوی ٹھیک طرح سے نہیں بیٹھتا کہ دیوبند جیسے جدید ہندوستانی مدرسوں نے "پگڑی والے فضلا کا ایک کمزور حلقہ تیار کیا، جو دنیا کو محض وحی کے چشمے سے دیکھنے کے قابل تھا"8۔ روبنسن پوری قطعیت کے ساتھ علماے دیوبند جیسے جدید ہندوستانی مسلمان مصلحین کے بارے میں کہتا ہے: "خالص اسلام کے ان داعیوں نے اولیا اور آباؤ اجداد کے ان عظیم سلاسل کو خیر باد کہنا شروع کیا، جن کے ذریعے وہ کبھی خدا کے قریب آئے تھے۔ ایسا لگتا ہے کہ ان مسلمانوں کو دنیا ایک سرد، تاریک، طلسمات سے آزاد (disenchanted) جگہ نظر آ رہی ہے"9۔ میں جنوبی ایشیائی اسلام کے بارے میں رابنسن کے علم ودانش کا اعتراف کرتا ہوں اور ان سے مستفید بھی ہوتا ہوں۔ تاہم یہاں پر میں احترام بلکہ پوری شدت کے ساتھ ان سے اختلاف کرتا ہوں۔ ان کے یہ بیانات غیرمعمولی حد تک پریشان کن ہیں۔
آئیے ایک لمحے کے لئے دیوبندی 'علماء' کے لئے "پگڑی والے فضلا" (سیکولر یونیورسٹیوں کے بغیر پگڑی والے فضلا کے مقابلے میں پگڑی والے فضلا) کی نامناسب اصطلاح کے انتخاب کو ایک طرف رکھتے ہیں۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ علمائے دیوبند کے تصورِ جہاں کو "سرد، تاریک اور طلسمات سے آزاد" قرار دینا اس حقیقت کو نظر انداز کرتا ہے کہ ان میں سے سخت ترین لوگوں نے بھی معجزات، جنات اور دیگر مافوق الفطرت عناصر کے وجود کو رد نہیں کیا، اور ان کا یہ رویہ طلسمات سے آزاد (disenchanted) تصور جہاں سے پوری طرح ہم آہنگ نہیں ہے۔ لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ طلسمات سے آزاد یا مقید دنیا (disenchanted/enchanted world) کی تقابلی تقسیم (binary) دیوبندیوں بلکہ بریلویوں کی مذہبی اصلاح کے تصورات کی داخلی منطق اور پیچیدگیوں کو سمجھنے کے لیے بطور خاص کارآمد نہیں ہے10۔
جیسا کہ میں نے اس پوری کتاب میں یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے، جدید جنوبی ایشیا میں مسلم اصلاحی فکر کو خالص اسلام کے داعیوں کے طلسمات سے آزاد دنیا اور صوفیوں کے طلسمات سے مقید دنیا کے مابین روایتی مسابقت کی داستان کے ذریعے پیش کرنا ایک ہی وقت میں غلط اور علمی اعتبار سے پسپا شدہ تصور ہے۔ اکابرینِ دیوبند دنیا کو وحی کی عینک سے آگے دیکھنے اور متعدد علمی مصادر اور روایات سے استفادہ کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ یہ نظریہ کہ وحی کسی نہ کسی پہلو سے صوفیا کے سلاسل کے مخالف ہوتی ہے، اس غیر معقول مفروضے پر قائم ہے کہ تصوف اور وحی میں باہمی تضاد ہے۔ یہ تقابل یا تضاد وحی/فقہ اور تصوف کے درمیان نہیں، بلکہ توحید، نبوت، اور رسمی اعمال کے مابین تعلق کی ایسی متحارب تفہیمات میں ہے، جو بریلوی دیوبندی تنازعات جیسے بین المسالک اختلاف میں بنیادی حیثیت رکھتی ہیں۔مافوق الفطرت عناصر سے آزاد/مافوق الفطرت عناصر میں مقید دنیا کی دوگانہ تقسیم فقہ/تصوف کی دوگانہ تقسیم کی طرح جتنی پرکشش ہے، اتنی یہ ایک پیچیدہ داستان کو آسان بناتی ہے۔ لیکن یہ مسلم علمی روایات اور مباحثوں کے سمجھنے کے لیے بنیادی طور پر ایک گمراہ کن طریقہ ہے۔
لبرل سیکولر اعتدال پسندی پر سوال
اس باب کے اختتام پر فیصلۂ ہفت مسئلہ کے نتائج واثرات پر مختصر انداز میں غور کرنا مفید ہوگا۔ کیا حاجی صاحب اس مقصد کو حاصل کرنے میں کامیاب رہے جو انھوں نے خود متعین کیا تھا؟ یعنی ہندوستان میں 'علماء' کے مختلف طبقات کے درمیان اس تناؤ اور شدت کو کم کرنا، جس کے ساتھ اکابر دیوبند نے مخصوص اعمال کو ممنوع قرار دیا تھا؟ اگرچہ اس سوال کا حتمی طور پر جواب دینا مشکل ہے ، لیکن دستیاب شواہد اس بات کی نشان دہی کرتے ہیں کہ اس کا جواب نفی میں ہے۔ 1894 میں فیصلۂ ہفت مسئلہ کی اشاعت کے بعد کی دہائیوں میں بریلوی دیوبندی تنازعہ مزید شدت اختیار کر گیا۔
اور اکابرینِ دیوبند جیسے مولانا تھانوی اور مولانا گنگوہی اسی جذبے اور شدت کے میلاد جیسے اعمال سے منع کرتے رہے۔ اس لیے ایک خاص معنی میں کوئی فیصلۂ ہفت مسئلہ کو ایک المیہ متن قرار دیا سکتا ہے، جو ان مقاصد کے حصول میں ناکام رہا جن کی اس سے توقع اور امید تھی۔ لیکن جیسا کہ میں نے اس پورے باب میں واضح کرنے کی کوشش کی ہے، اس کی المیاتی نوعیت کے باوجود، شاید اس کا سب سے قابل ذکر پہلو وہ انداز ہے جس میں اس نے مفاہمت کے اصول تشکیل دیے، جو بیک وقت فقہ، تصوف اور روزمرہ کے مصالح جیسے متعدد استدلالی نظاموں میں مستفاد تھے۔ فیصلۂ ہفت مسئلہ سراسر ایک متنوع متن تھا۔
اس کے علاوہ، اور یہ ایک نکتہ ہے جس کو میں تاکیداً واضح کرنا چاہتا ہوں۔ فیصلۂ ہفت مسئلہ مذہب کو "اعتدال پسند" بنانے کی لبرل سیکولر کارروائی کا حصہ نہیں تھا، تاکہ مذہب زیادہ پرامن یا روادار بن سکے۔ اعتدال پسند مذہب کے مطالبے کو، جو آج اکثر اسلام اور مسلمانوں سے کیا جاتا ہے، لبرل سیکولر گورننس کی اس خواہش سے الگ نہیں کیا جاسکتا ہے کہ مذہب کو انتہائی سازگار طریقے سے کنٹرول اور منظم کیا جائے۔ جیسا کہ آنندا ابیسیکارا نے ہمیں عمدگی سے یاد دلایا ہے کہ انگریزی میں 'اعتدال پسندی' کے لیے moderate کا لفظ مستعمل ہے، جو لاطینی لفظ moderare سے ماخوذ ہے، جس کا مطلب ہے "قابو پانا،" "کنٹرول،" "محدود کرنا،" اور "روکنا"11۔ معتدل مذہب وہی ہے جو کافی حد تک قابو میں لایا گیا اور سدھایا گیا ہو، تاکہ اس سے جدید ریاست (چاہے وہ بالکل مذہبی ہو یا سیکولر) کی خودمختاری کو کوئی خطرہ لاحق نہ ہو جائے۔ اعتدال پسندی کی ضرورت ایک لاینحل تضاد سے پیدا ہوتی ہے، اور یہ تضاد جدید ریاست کی خودمختاری کی بنیادی دلیل کو متاثر کرتا ہے۔ لبرل ریاست کی شناخت کی تشکیل کرنے والے بنیادی عناصر جیسے تنوع اور تکثیریت ہی اس کی شناخت کے لیے خطرہ ہیں۔تمام شہریوں کی آزادی اور خودمختاری کا وعدہ ایک مرکزی اصول ہے جو لبرل سیکولر ریاست کو استحکام بخشتا ہے۔ تاہم تکثیریت اور اختلاف اسی آزادی کی بقا کے لئے خطرہ ہیں12۔
اس لاینحل تضاد کی وجہ سے مسلسل سر پر منڈلاتے ہوئے بحران کے پیش نظر، مذہب اور مذہبی زندگی کو معتدل بنانا بحران کے حل کی ایک صورت کے طور پر ابھر کر سامنے آتا ہے۔ لیکن اس طرح کے بحران کو جدید لبرل ریاست کے جوہری متضاد کردار کی وجہ سے حل نہیں کیا جاسکتا، جس کا کام ہے کہ وہ مذہبی اختلافات اور عدم مساوات (جو تمام شہریوں سے کیے گئے آزادی اور مساوات کے وعدے کو مسلسل خطرے میں ڈالتے ہیں) کا ازالہ کرے، اور اس کے ساتھ ساتھ مذہب اور مذہبی اختلافات کے متعلق غیر جانب دار بھی رہے۔ جیسا کہ صبا محمود نے سوال اٹھایا ہے: "ایک ایسی ریاست جو مذہبی عدم مساوات کو ختم کرنے کی کوشش کرتی ہے، وہ مذہبی اختلافات کو اپنی سیاسی لغت کا حصہ بنائے بغیر ایسا کیسے کر سکتی ہے؟"13 یہ سوال سیاسی سیکولرازم اور جدید ریاست کی خودمختاری کی غیر معمولی صورتِ حال کو گہری توجہ کا توجہ کا مرکز بناتا ہے۔ یہ ایک ایسی لاینحل صورت حال ہے، جسے مذہبی اعتدال پسندی، برداشت اور رواداری جیسے اقدامات سے حل نہیں کیا جاسکتا۔ بلکہ اعتدال پسندی کی لکیر پیٹنا خود مسئلے کی سنگینی کی علامت ہے۔ مذہب کو معتدل بنانے کا مطلق العنان سیکولر مطالبہ سیکولرازم اور جدید خودمختاری کی حدود اور لاینحل تضادات پر دلالت کرتا ہے۔ میں نے ایک اور مقام پر بھی سیکولرازم کے تضادات اور معتدل اسلام کی فکر کے درمیان تعلق کے اس استدلال کو پوری تفصیل سے واضح کیا ہے14۔ یہاں پر میں مذہبی اعتدال پسندی اور رواداری کے لبرل سیکولر ڈسکورسز اور فیصلۂ ہفت مسئلہ میں کارفرما بین المسالک مفاہمت کی منطق کے درمیان ایک اہم تضاد کی نشان دہی کرنے کے لیے اس کا خلاصہ پیش کرتا ہوں۔
حاجی صاحب کی فکر سے جو کچھ ہمیں سمجھ میں آتا ہے، وہ بالکل مختلف ہے۔ انھوں نے انسانی تعلقات کو ہم آہنگ کرنے کی جو کوششیں کیں، ان میں اور ریاست کی مطلق العنان خواہشات اور خدشات میں کوئی نسبت نہیں ہے۔ حاجی صاحب کو سب سے زیادہ جس چیز کی فکر لاحق تھی، وہ اہل علم کی حیثیت ووقار کو پرتشدد تنازعات اور بین العلما عداوت کے خطرے سے تحفظ فراہم کرنا تھا۔ انھوں نے بتایا کہ اس طرح کی بحث جب اپنی حدود سے نکل گئی، تو اس کی وجہ سے نہ صرف علما میں غیر معمولی دھڑے بندی پیدا ہوئی، بلکہ اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ عوام کی نظروں میں ان کا وقار بھی مجروح ہوا۔
غور کیجیے کہ حاجی صاحب مذہبی مساوات کے حصول کے لیے اختلافات میں اعتدال پیدا کرکے مذہب کو معتدل بنانے کے لبرل سیکولر ایجنڈے کو آگے نہیں بڑھا رہے۔اس کے برعکس علما اور ان کے عوام پیروکاروں کے مابین فرق مراتب کو برقرار رکھنے کی ایک غیر لبرل کوشش ان کے مشن میں مرکزی حیثیت رکھتی تھی۔ دینی استناد کے بارے میں اس طرح کا مراتبی تصور پیش کرتے ہوئے حاجی صاحب نے روایتی فارمولے "عوام مویشیوں کے ریوڑ کی طرح ہیں" (العوام کا الانعام) کے ساتھ اپنی وفاداری کا مظاہرہ کیا۔ مزید برآں ان کی فکر میں دینی استناد کے مراتبی تصور کی بازگشت کا مقصد جدید ریاست کے مفادات اور خودمختاری کے تابع ایک لبرل فرد کی افزائش نہیں تھا15۔ بلکہ علما کے اثر ورسوخ کی حفاظت کا تقاضا ان کی اس حیثیت کے ساتھ منسلک تھا کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی سنت کے وارث اور احکام شرعیہ کے ترجمان تھے۔
حاجی صاحب کے مذہبی تصور میں "علماء" کے تقدس کی حفاظت نبی ﷺ سے روحانی رشتے کا احترام اور توحید کے تحفظ کے مترادف ہے۔ جس چیز نے حاجی صاحب کی فکر کے لیے راہ ہموار کی، وہ ایک مفروضہ غیر جانب دار ریاست کے لیے مساوی شہریوں کی تشکیل نہیں تھی۔ اس کے بجاے انھوں نے محتاط انداز میں تشکیل دی گئی حدود اور شرعی مصادر کے اصولوں کے مطابق ایک پاکیزہ سماج تشکیل دینے کی کوشش کی۔ بالفاظِ دیگر ان کی یہ لبرل جستجو نہیں تھی کہ ریاست کی خدمت کے واسطے مذہب کو معتدل بنائے۔ اس کے بجائے ان کا مقصد بین المسالک تنازعات کو بہتر بنانا تھا، تاکہ عقیدے پر مبنی اس بیانیے کا استحکام یقینی بنایا جاسکے کہ علم، طاقت اور سماج کے درمیان ہم آہنگی اور ان کا باہمی تعامل کیسے ہونا چاہیے۔
وسیع تر نکتہ یہ ہے کہ حاجی صاحب کے مفاہمتی اصولوں کو برداشت اور مذہبی اعتدال پسندی کی خاطر صوفیانہ رواداری کی کوشش نہیں سمجھا سکتا، جس طرح ایک اچھے مسلمان/برے مسلمان کی تقابلی تقسیم، جو تصوف کو امن، رواداری اور اعتدال پسند اسلام کے برابر سمجھتی ہے، ہمیں عجلت میں یہ ماننے پر آمادہ کر سکتی ہے۔ اس کے برعکس یہ وہ تقابل ہے، جو ان کی فکر کی روشنی میں غلط اور قابل اعتراض ہے۔ ایسا نہ صرف اہل علم اور عوام کے مابین شرعی تعلق کے بارے میں ان کی غیر لبرل منطق کی وجہ سے تھا، بلکہ ان متنوع طرز ہاے استدلال کی بنا پر بھی تھا، جن کی روشنی میں ان کے دلائل سامنے آئے۔ فیصلۂ ہفت مسئلہ کسی لبرل روادار صوفی کی کاوش نہیں تھی، جس کا مقصد انتہا پسند فقہی مریدوں کو نصیحت کرنا تھا۔ ہم اساسی طور پر غلط ہوں گے اگر ہم فیصلۂ ہفت میں حاجی صاحب کے اپنے دیوبندی مریدوں سے اختلافات یا مسلکی ہم آہنگی کے لیے ان کی کاوشوں کو فقہ اور تصوف کے درمیان اختلاف سمجھیں۔ یہ نقطۂ نظر ان نزاکتوں، ابہامات اور تعبیری پرتوں اور اس متن میں پنہاں المیے کی غلط تفہیم یا مٹانے کا سبب بن سکتا ہے۔ اور یہ وہ کچھ عناصر ہیں، جس کو میں نے اس باب کے گزشتہ صفحات میں تفصیل سے پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔
حاجی صاحب اور علماے دیوبند کا تعلق: ایک آخری بات
یہاں پر زیر بحث آنے والے بین الدیوبندی تعلقات کے متعلق ایک آخری بات عرض کرنی ہے۔ جیسا کہ اس باب میں واضح کیا گیا کہ حاجی صاحب اور دارالعلوم دیوبند کے بزرگوں جیسے مولانا رشید احمد گنگوہی کے درمیان تعلق بسا اوقات کشیدہ اور مبہم رہا۔ تاہم تمام تر اختلافات کے باوجود اس تعلق کی بنیادوں کو کبھی چیلنج نہیں کیا گیا، اور حاجی صاحب دیوبندی تحریک کے اوائل کے لیے ناگزیر رہے۔ مزید یہ کہ بانیان دیوبند اور بعد میں مولانا اشرف علی تھانوی حاجی صاحب کو اپنے کلیدی روحانی شیخ اور اپنی دینی زندگی کا سرچشمہ باور کرتے رہے۔ بلکہ علماے دیوبند کے ساتھ حاجی صاحب کا تعلق شیخ ومرید کے درمیان ایک ایسے تعلق کی بہترین مثال ہے، جس میں اصولی اختلاف سے کوئی دراڑ پیدا نہیں ہوتا۔ مزید برآں حاجی صاحب اور دیوبندی اکابر جیسے مولانا گنگوہی ایک دوسرے سے سو فی صد موافقت کے طالب نہیں تھے۔ عدم موافقت کی قابل برداشت حد ایک ایسی خصوصیت تھی جس نے ہمیشہ ان کے تعلقات میں کار فرما تھی، اور جس پر ان کا باہمی سمجھوتا تھا۔ اور نتیجتاً علماے دیوبند حاجی صاحب کے ساتھ اپنے اختلاف کو اضافی نہ کہ حقیقی سمجھتے تھے۔
حاجی صاحب کی وفات کے بعد ایک شخص نے مولانا تھانوی سے شکایت کے انداز میں پوچھا: "حاجی صاحب بہت لچک دار اور صابر تھے، لیکن آپ بہت سخت ہیں"۔ مولانا تھانوی نے اس کا ایک یادگار جواب دیا۔ انھوں نے کہا کہ میرے اور حاجی صاحب دونوں کا مقصد ایک ہے اور وہ ہے (عوام کی) اصلاح۔ لیکن حاجی صاحب جس قدر بابرکت تھے، میں اتنا نہیں ہوں۔ حرکت اور برکت کے ہم آواز الفاظ کو استعمال کرتے ہوئے مولانا تھانوی نے استدلال کیا کہ مجھ جیسا شخص، جس میں حاجی صاحب کی طرح برکت نہیں، اصلاح کا کام سخت طرز عمل سے ہی کر سکتا ہے۔ انھوں نے اپنے الفاظ میں اس بحث کو یوں سمیٹا ہے: "ہم حرکت سے اصلاح کرتے ہیں، اور حضرت برکت سے اصلاح کرتے ہیں"16۔ ایک ہی وار میں مولانا تھانوی نے اپنے مخصوص انداز میں اپنے شیخ کے روحانی مرتبے کو تسلیم کیا، اس مرتبے کے سامنے اپنی اطاعت ثابت کی، اور اپنے منفرد مزاج اور طریقۂ اصلاح کو جواز بھی فراہم کیا۔
اختتامیہ
اس کتاب میں جو مرکزی نکتہ اٹھایا گیا ہے، وہ یہ ہے کہ بریلوی دیوبندی مناظروں جیسی بین المسلمین رقابتوں کو روایت اور اصلاح کی متحارب تفہیمات کے درمیان اختلاف کے طور پر دیکھا جائے۔ یہ تفہیمات اساسی طور پر کچھ مخصوص ادوار میں نمایاں ہوئیں، جب سنت وبدعت اور شناخت واختلاف پر نصوص کی روشنی میں بحث مباحثہ شروع تھا۔ اس کتاب کے ہر باب میں ان مناہج کو واضح کیا گیا ہے جن کے ذریعے مستند مذہبی کرداروں نے اپنی حکمتِ عملی سے روایت کی حدود پر کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کی۔ انیسویں صدی کے اسلامی ہندوستان میں مسلکی عداوت کے ایک مخصوص سیاق تک محدود رہتے ہوئے میں نے خدائی حاکمیت (توحید)، مقام نبوی اور رسمی اعمال کی حدود کے دو متوازی بیانیوں کا ذکر کیا ہے۔ ان بیانیوں کے حاملین نے اپنے مذہبی استناد کی تشکیل اس طرح سے کی کہ پہلے اپنی بے چینی کے اسباب کی شناخت کی، اور پھر اس بے چینی پر قابو پانے کے لیے ایک اصلاحی پروگرام تجویز کیا۔
شاہ محمد اسماعیل اور اکابر دیوبند نے عوامی دائرے میں رائج ان رجحانات اور اعمال کو اپنی تنقید کا نشانہ بنایا، جو ان کی نظر میں خدائی حاکمیت (توحید) کے لیے ایک فوری خطرہ تھے۔ اس صورتِ حال سے نبٹنے کے لیے انھوں نے اس طرح کے تمام اعمال کو ترک کرنے کا ایک اصلاحی پروجیکٹ پیش کیا، تاکہ خالص توحید کو بحال کیا جائے۔ انھوں نے نبی اکرم ﷺ کے ایک ایسے تصور کی وکالت کی، جس میں ان کی بشریت ہی ان کے شخصی کمال کی علامت تھی۔ اس کے برعکس علامہ فضل حق خیر آبادی اور ان کے بعد مولانا احمد رضاخان نے اسی اصلاحی تصور کا ناطقہ بند کرنے کی کوشش کی۔ انھوں نے طویل عرصے سے چلے آنے والی ان رسموں اور اعمال کا پرجوش انداز میں دفاع کیا، جو ان کی نظر میں روایت کے لیے ناگزیر تھے۔
علاوہ ازیں انھوں نے بتایا کہ شفاعت اور علم غیب جیسی صفات سے رسول اللہ ﷺ کی جس امتیازی حیثیت کی تصدیق ہوتی ہے، اس پر کسی بھی صورت میں سمجھوتا نہیں کیا جا سکتا۔ دراصل خالص توحید کی بقا صرف اس صورت میں ممکن ہے، جب آنحضرت ﷺ کے امتیازی مقام کو قبول کیا جائے۔ توحید اور شان رسالت باہم لازم وملزوم ہیں۔ خلاصہ یہ کہ اس کتاب میں بتایا گیا ہے کہ انیسویں صدی کے مسلم ہندوستان میں روایت واصلاح کے ان حریف بیانیوں کی اساس وہ باہم مخالف سیاسی کلامیات (political theology) ہیں، جن کا تعلق فقہ اور روزمرہ کے شرعی اعمال کی متحارب تفہیمات سے ہے۔ اس استدلال کو پیش کرتے وقت میں نے کوشش کی ہے کہ دیوبندی بریلوی مخاصمت کی ان مشہور تفہیمات پر سوالات اٹھاؤں، جو اس اختلاف کو فقہ اور تصوف، یا 'سخت' اور 'نرم' اسلام کے درمیان تصادم سے تعبیر کرتی ہیں۔ ان مشہور عام تقابلی تقسیمات کے متعلقہ مآخذ ومصادر کی چھان پھٹک کچھ تفصیل سے کی گئی ہے۔
تجزیے کا رخ سیاسی کلامیات کی طرف موڑنے سے میں نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ بظاہر علما کے درمیان غیر واضح مناقشوں کی بنیاد میں طاقت، اخلاقیات اور سماجی نظام کے کلیدی سوالات کارفرما تھے۔ کیا میت کے ایصالِ ثواب کے لیے فاتحہ کے دوران کھانے پر ہاتھ اٹھانا جائز ہے؟ کیا میلاد کے موقع پر قیام جائز ہے؟ ہمارے جدید ذہنوں کے لیے سوالات بظاہر اگر معمولی نہیں تو غیرواضح اور خواہ مخواہ کی تکرار ضرور ہیں۔ چند سال پہلے میں نے شمالی ورجینیا میں جنوبی ایشیائی مسلمانوں کے ایک مجمع سے خطاب کیا۔ سوال وجواب کی نشست میں ایک فرد نے حیرت کے انداز میں کہا: "ان (بریلوی اور دیوبندی) علما کے پاس ان جیسے معمولی مسائل پر بحث ومباحثے کے لیے اتنا فارغ وقت کہاں سے تھا؟" مجھے امید نہیں کہ یہ کتاب ایسے افراد کے ان جیسے تشکیکی بیانات کی تشفی کر سکیں گے، تاہم اس نے ان استدلالات، مشارکات اور خدشات کو سمجھانے کی کوشش کی ہے، جن کی وجہ سے اس تنازع نے جنم لیا، اور اس قدر شدت اختیار کی۔
میں نے اس پوری کتاب میں جو کچھ بتانے کی کوشش کی ہے وہ یہ ہے کہ انیسویں صدی میں جنوبی ایشیا کے مسلمان علما کے درمیان عقائد، فقہ اور رسموں پر ہونے والی بحث حاکمیت، علم، قانون، زمنیت اور مادی اظہارات پر بڑے سوالات سے متعلق گہری بے چینیوں اور توقعات میں الجھی ہوئی تھی۔ اس میں ماضی کے مستند مذہبی کرداروں سے ایسے سوالات پوچھنا بھی شامل ہیں، جو ان کے زمانے میں ان سے نہیں پوچھے گئے تھے، تاکہ ان کی فکر کو ان بڑے موضوعات سے مربوط کیا جائے، جو شاید ان کے عہد میں اس قدر نمایاں نہ تھے۔ میرا مقصد یہ رہا ہے کہ جانبین کے دینی دلائل کی جزئی تفصیلات پیش کرنے کے ساتھ ان گہرے نظریاتی اور فلسفیانہ مسائل کی نشان دہی بھی کروں، جنھوں نے ان دلائل کی فوری ضرورت کا احساس دلایا، اور ان میں وزن پیدا کیا۔
روایت کے مطالعے سے سیکولرازم پر سوال
بین المسالک روایات کے مذہبی دلائل کی نظریاتی پہلو سے ہم آہنگ تحقیق یہ امکان پیدا کرتی ہے کہ مذہب کو بنے بنائے خانوں میں تقسیم کرنے کے سیکولر مفروضوں پر سوال اٹھایا جائے، اور انھیں کمزور ثابت کیا جائے۔ گزشتہ چند دہائیوں میں مذہب وسیکولرازم کی تقابلی تقسیم میں خلل کی نشان دہی نے مطالعۂ مذہب کے دائرے میں ایک غالب رجحان کی حیثیت اختیار کی ہے۔ اگر چہ یہ کتاب سیکولر ازم کو براہ راست موضوع بحث نہیں بناتی، لیکن یہاں پر میں بالاختصار ان مناہج کو واضح کرنا چاہتا ہوں، جن کی رو سے یہ کتاب آج کی اصطلاح میں سیکولرازم کے تنقیدی مطالعات (critical secularism studies) کے بعض مسائل پر بحث اٹھاتی ہے۔ مختلف انداز میں ان کاوشوں نے ثابت کیا ہے کہ سیکولر ازم کو مذہب کا مد مقابل سمجھنے کے بجاے ایک ایسی استدلالی اور ادارتی طاقت وحکومت کی حیثیت سے بہتر انداز میں سمجھا جا سکتا ہے، جو مسلسل مذہب کی حدود کی ضابطہ بندی اور تنظیم کی کوشش کرتی ہے۔ زیادہ سادہ لفظوں میں: سیکولر ازم مذہب کی تعریف 'غیر' سے کرکے خود اپنی تعریف وضع کرتی ہے17۔ علاوہ ازیں سیکولر ازم کے ہاتھوں مذہب کی اس طرح سے تشکیل نو کہ اسے بنیادی عقائد اور انفرادی تزکیے تک محدود کیا جائے، مذہب کو اس انداز میں پیش کرنا ہے جو لبرل نظام حکومت کے لیے سب سے زیادہ سازگار ہو۔
سیکولر طاقت کی ان اساسات کی تحقیقات ماہر بشریات پروفیسر طلال اسد کی کاوشوں سے متاثر ہو کر کی گئی ہیں۔ عہد حاضر میں یہ ایک معروف فکر کی حیثیت اختیار کر گئی ہے، لیکن اصل میں اس کی ترویج واشاعت میں اسد کا کردار ایک پیش رو کا ہے کہ مذہب اور سیکولر ازم زندگی کے متضاد دائروں کی نمائندگی کرنے کے بجاے ایک دوسرے پر منحصر ہیں۔ ان کا یہ موقف مذہب کے متعلق ولفرڈ کینٹول سمتھ کے نظریات پر ان کی بصیرت افروز تنقید میں سب سے زیادہ واضح انداز میں نظر آتی ہے: "میں یہ عرض کروں گا کہ 'مذہب' ایک جدید تصور ہے، اس اعتبار سے نہیں کہ یہ اب بنا ہے، بلکہ اپنی ہم عمر اصطلاح 'سیکولرازم' کے ساتھ تقابل کے اعتبار سے۔ جدیدیت میں مذہب نے عملاً زمان ومکان، عملی علوم اور طاقتوں، موضوعی رویوں، حساسیتوں، ضروریات اور توقعات کی نئی تشکیل وترتیب اپنا کردار ادا کیا ہے۔ لیکن یہی کام سیکولرازم نے بھی کیا ہے، جس کا کام یہ رہا ہے کہ اس تشکیلِ نو کو راہ راست پر لائے، اور مجموعی اعتبار سے 'مذاہب' کو (غیر عقلی) عقیدے کی ایک قسم قرار دے"18۔
اسد کی نظر میں کسی بھی مذہب کی طرح سیکولرازم بھی ایسی چند مخصوص اقدار، حساسیتوں اور مادی اظہارات (جو مخصوص قسم کے ماتحتوں اور جذباتی نمائندوں کی افزائش کرتے ہیں) کو تقدس فراہم کرکے اپنے آپ کو معمول کے مطابق بناتا ہے۔ اسد کے نزدیک اہم ترین بات یہ ہے کہ سماج میں مذہب کے کردار کے متعلق یہ سیکولر مفروضے کہ مذہب کا تعلق داخلی عقائد اور خاندان کے ایک 'نجی دائرے' سے ہے، اور سیکولرازم پر مبنی سیاسی نظام انھی مفروضوں کو جواز فراہم کرتا ہے، یہ مفروضے سب کچھ ہو سکتے ہیں، لیکن آفاقی نہیں ہیں۔ بلکہ کسی بھی دوسرے نظریاتی تصور کی طرح سیکولرازم بھی مخصوص تاریخی، ادارتی اور استدلالی قوتوں کے توسط سے تشکیل پانی والی عارضی صورتِ حال سے شہہ پاتا ہے19۔ اسد نے پوری گہرائی اور باریکی سے بطور خاص سیاسی سیکولرازم (وہ عقیدہ جو مذہب اور ریاست کے درمیان علاحدگی کو جواز فراہم کرتا ہے)، سیکولر (ایک نظریاتی طاقت جو خوف ناک لیکن غیرمعمولی طاقت دیتا ہے) اور سیکولیرٹی (وہ نظام زندگی، جذبات اور رویے جو سیکولرازم اور سیکولر کے نتیجے سے تشکیل پاتے ہیں) کے درمیان ربط کا جائزہ لیا ہے۔
اسد کا علمی تراث تجویز کرتا ہے کہ ایک مثالی اقداری تصور کی حیثیت سے سیکولرازم کی طاقت اور اثر ونفوذ اس امر پر منحصر ہے کہ سماج کی مختلف سطحوں پر ان تصورات کی مجموعی کارکردگی اور باہمی تعاون کی صورت کیا ہے۔ سیکولرازم کی اساسات کی شجرہ جاتی (genealogical) تحقیق نے سیکولر جدیدیت کے اس خوش نما بیانیے میں کافی خلل پیدا کیا ہے کہ اس نے روایت اور مذہب کا چراغ گل کر دیا ہے۔ ان تحقیقات نے فرد کی حاکمیت، آزادی اور مذہب وسیاست کی علاحدگی کے لبرل فضائل کی عمومی مفروضہ آفاقیت کے تار وپود بھی بکھیر دیے ہیں۔ حالیہ وقتوں میں اسد کے کام کو بنیاد بناتے ہوئے حسین ارگاما اور صبا محمود جیسے اہل علم نے ثابت کیا ہے کہ سیاسی سیکولر ازم ایک لاینحل تناقض میں قید ہے۔ وہ تناقض یہ ہے کہ سیاسی سیکولرازم ریاست سے کہتی ہے کہ وہ مذہبی عدم مساوات سے نمٹنے کے ساتھ ساتھ مذہب اور مذہبی اختلافات کے بارے میں غیر جانب دار بھی رہے۔ اور غیر جانب داریت کے تمام تر دعووں کے باوجود اکثریتی آبادی کے خلاف تعصب جدید سیکولر ریاست کی ساخت اور تنظیمی منطق کے لیے ناگزیر رہا ہے20۔
اس کتاب میں اسد اور ان کے ہم کلاموں سے ایک ایسے طریقے سے استفادہ کیا گیا ہے، جو سیکولر ازم کی شجرہ جاتی (genealogical) تنقید پیش کرنے سے مختلف ہے۔ اس کے بجاے یہاں پر کوشش کی گئی ہے کہ سیکولر استعماری حکومتوں کی 'مذہب سازی' سے توجہ ہٹا کر مذہب کی حدود پر مقامی استنادی مباحثوں اور مناقشوں کی نمایاں عارضی صورتِ احوال کو مبذول کرائی جائے21۔شجرہ جاتی تنقید ضروری ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ زندگی اور تنقید کے متبادل مناہج بھی سیکولرازم کی فکری بالادستی کی آفاقیت کو چیلنج اور اتھل پتھل کرنے کا نتیجہ دے سکتے ہیں۔ چند دینی عداوتوں (جو استعماری جنوبی ایشیا میں ایک مخصوص استدلالی روایت کے وجود میں آنے کی وجہ بنی ہیں) کی موٹی تفصیلات فراہم کرکے یہ کتاب بجنسہ یہی نتیجہ دے رہی ہے۔ ایسا کرنے سے میں نے دینی استدلال کی ایک ایسی روایت کی کچھ تفصیلات بیان کرنے کی کوشش کی ہے، جو بہرصورت لبرل سیکولر سیاسیات کے ضابطہ جات، توقعات اور اقداری خواہشات کے مطابق سرگرم عمل نہیں تھی۔ استعماری طاقت کے سایے میں سرگرم عمل ہونے کے باوجود علما کے وہ مباحث اور مناقشے جو یہاں پر زیر بحث لائے گئے ہیں، اسی طاقت کے تابع نہیں تھے۔ یہاں پر البتہ ایک تنبیہ ضروری ہے۔ اس فکری موقف کا مطلب سیکولر استعماری استدلالی نظام کی طاقت یا اہمیت کو گھٹانا نہیں۔ بلکہ ہندوستان میں استعمار نے ایسی مذہبی اصلاحی تحریکوں، جن میں سے کچھ کا ذکر اس کتاب میں ہوا، کی افزائش کے امکان کے لیے بنیادی صورت حال کا کام سرانجام دیا۔ علم کے متعلق مولانا منظور احمد نعمانی کے نظریات، جنھیں گیارھویں باب میں زیر بحث لایا گیا، یہ ثابت کرتے ہیں کہ علما کے مباحث اور مذہب کے جدید سیکولر تصورات عموماً کسی مقام پر مل جاتے ہیں۔
علاوہ ازیں میں نے علمی اعتبار سے مشکوک 'متبادل جدیدیت' کی کسی مثال کو نمایاں کرنے کی مشق نہیں کی ہے، نہ ہی میں نے 'مقامی کردار' کو استعماری طاقت کے ملبے تلے نکالنے کی کوشش کی ہے۔ بہت سے اہل علم نے اطمینان بخش انداز میں نام نہاد متبادل جدیدیت اور مقامیوں کے کردار کا استعمار سے متاثر ہونے کے استدلال کی فکری تنگنائے کو واضح کیا ہے، جیسا کہ میں نے اس کتاب کے پہلے حصے کے اختتام پر اس کی کچھ تفصیل بھی بیان کی ہے22۔ اس کے بجاے میں نے کوشش کی ہے کہ کسی استدلالی روایت کے ان داخلی پہلوؤں کو واضح کروں جو عموماً سیکولر فکر کے استعماری قواعد کے مطابق وجود میں نہیں آتے۔ اس کتاب میں بیان کیے گئے روایت کے متوازی تصورات کو فقہ/تصوف، معتدل/انتہا پسند، اصلاحی/روایتی، مذہبی/سیکولر، عقیدہ/عمل اور اجتماعی/انفرادی جیسے سیکولر ازم کے بنائے گئے خانوں میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔ باوجود یہ کہ اس روایت کے حاملین استعماری اور سیکولر جدیدیت کی سماجی اور ادارتی صورت احوال میں مقید تھے، تاہم انھوں نے اپنی زندگی ان تقابلی تقسیمات کے مطابق نہیں بسر کی۔ بلکہ ان کی زندگی اور فکر ان تقابلی تقسیمات کی محدودیت کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ روایت واصلاح کے بارے میں ان کے حریف بیانیے ایسے سوالات، توقعات اور اضطرابات پر مبنی تھے، جو لبرل سیکولر فکر یا حکمرانی کے پیمانے پر آسانی سے پورا نہیں اترتے۔مزید برآں وہ کردار جو ان مناقشوں میں شامل تھے، باوجود اپنے شدید اختلافات کے اس امر پر متفق تھے کہ یہ اعمال، موضوعات اور اعتقادات قابلِ بحث ہیں، اور اس وجہ سے یہ حل کا تقاضا کرتے ہیں۔
یہ کردار کسی مخصوص عمل یا واقعے کی تفہیم پر ایک دوسرے سے پوری بے جگری سے لڑے ہوں گے، لیکن جس چیز پر ان کے درمیان کوئی اختلاف نہیں، وہ اخلاقی فضیلت کے حصول کے لیے اس عمل یا موضوع کی اہمیت وضرورت ہے۔ ان کے اختلافات اور تنازعات کے باوجود ان کے درمیان اس امر پر ایک بالواسطہ اتفاق موجود تھا کہ ان اچھائیوں، نیکیوں اور فضائل کی قدر کی جائے، انھیں تحفظ فراہم کیا جائے، اور انھیں ذہن نشین کیا جائے۔
ماہر بشریات ڈیوڈ سکاٹ نے اسے بلیغ انداز میں یوں بیان کیا ہے:
روایت صرف ایک ایسی وراثت کا نام نہیں، جو آپ کو ملتی ہے۔ روایت ماضی اور حال کے درمیان ایک انفعالی اور انجذابی تعلق کا نام بھی نہیں۔ بلکہ روایت ایک فعال تعلق پر دلالت کرتی ہے، جس میں حال ماضی کو پکارتا ہے۔ اس معنی میں روایت سے ہمیشہ اعمال اور اداروں کا ایک ایسا مجموعہ مراد ہوتا ہے، جو براہ راست ان فضائل کو بار بار پیدا کرتا ہے، جو اس روایت میں 'داخلی' سمجھے جاتے ہیں۔ اس معنی میں اصولاً روایت کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ماضی میں کیا ہوا تھا۔ یہ ماضی کی تمنا سے زیادہ ماضی کی یاد ہے، یہ بقا اور بصیرت اور کا ایک ذریعہ ہے23۔
اس کتاب نے (اٹھارویں صدی کے اواخر اور انیسویں صدی کی جنوبی ایشیا میں) ایک استدلالی روایت کی زندگی میں ان مخصوص اداوار کو بیان کیا ہے، جن میں وہ متوازی اعمالِ صالحہ اور شرعی تفہیمات میں الجھی ہوئی تھی۔ ایک بین المسالک اختلافات کی ایک جاری بحث میں جان ڈالنے والی متون اور سیاقات کا مطالعہ کرکے اس کتاب نے کوشش کی ہے کہ جنوبی ایشیا کی مسلم علمی روایات کی پیچیدگوں اور حرکیات کو سامنے لائے۔ ایسا کرتے وقت میں نے کوشش کی ہے کہ ان توقعات، بے چینیوں اور ابہامات کو نمایاں کروں جو جدید جنوبی ایشیا کے علما کی دینی فکر کی شناخت ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ کوئی ان کے اختلافی نکات اور مناہج سے متفق نہ ہو، لیکن ان کے دینی تصورات کی تشکیل کرنے والے استدلالات اور تنازعات کی مختلف پرتیں ان کی فکر کی کافی گہرائی، نزاکت، تضاد اور ابہام کو ظاہر کرتی ہیں۔ اس کتاب نے یہ کوشش کی ہے کہ ان کے استدلالات اور تنازعات کی کچھ تفصیل پیش کرے، اس امید پر کہ انیسویں صدی کے ایک ایسے مناقشے کی وضاحت ہو جائے، جو آج تک جنوبی ایشیا کے اندر اور باہر جنوبی ایشیائی مسلمانوں کی مذہبی زندگی کو متاثر کرتا ہے۔
حواشی
- شیرکوٹی، حیاتِ امداد، 131 – 32۔
- ایضاً۔
- بحوالۂ ایضاً، 133۔
- جمیل تھانوی (مدون)، شرح فیصلۂ ہفت مسئلہ (لاہور: جامعہ ضیاء العلوم، 1971)، 98۔ اس کتاب کے آنے والے تمام حوالہ جات اسی اشاعت سے ہیں، اور متن میں بین القوسین درج ہیں۔
- خلیل احمد سہارن پوری، البراہین القاطعۃ علی ظلام الانوار الساطعہ (کراچی: دارالاشاعت، 1987)، 30۔
- ایضاً۔
- دیکھیے: امیرہ میٹرمائیر، Dreams That Matter: Egyptian Landscapes of Imagination (برکلے: یونیورسٹی آف کیلی فورنیا پریس، 2010)۔
- فرانسس روبنسن، Islam and Muslim History in South Asia (نیو دلی: آکسفرڈ یونیورسٹی پریس، 2000)، 125۔
- ایضاً، 127۔
- طلسم سے آزاد (disenchantment) کی اصطلاح، بالخصوص جب یہ جدید مغرب کی ایک اہم کام یابی کے طور پر استعمال کی جاتی ہے، کی ایک عمدہ تحقیق کے لیے دیکھیے: جیسن جوزیفن سٹورم، The Myth of Disenchantment: Magic, Modernity, and the Birth of the Human Sciences (شکاگو: یونیورسٹی آف شکاگو پریس، 2017)۔
- انندا ابیسیکارا، The Im-possibility of Critique: The Future of Religion’s Memory، ریلجن اینڈ کلچر 11، نمبر 3 (2010): 213 – 46۔
- انندا ابیسیکارا، The Political Postsecular Religion: Mourning Secular Futures (نیو یارک: کولمبیا یونیورسٹی پریس، 2007)۔
- صبا محمود، Religious Difference in a Secular Age: A Minority Report (پرنسٹن، این جے: پرنسٹن یونیورسٹی پریس، 2016)، 74۔
- شیر علی ترین، Islam, Democracy, and the Limits of Secular Conceptuality، جرنل آف لا اینڈ ریلیجن 29، نمبر 1 (2014): 1 – 17۔
- سیما علوی نے فیصلۂ ہفت مسئلہ کے مطالعے سے جو نتیجہ اخذ کیا ہے وہ یہ کہ حاجی صاحب نے "فرد کی اصلاح پر مرتکز ایک وسعت مشربی" کی تشکیل وتجسیم کی، یا یہ کہ انھوں نے "تمام امت کو متحد کرنے کی خواہش کی اور یورپ کی تہذیبی یلغار کا سامنا کیا (علوی، Muslim Comopolitanism، 248، 251)۔ جیسا کہ میں نے ایک اور مقام پر پوری تفصیل کے ساتھ واضح کیا ہے کہ "فیصلۂ ہفت مسئلہ کا بنیادی استدلال فرد کی مرکزیت یا سماجی ترقی نہیں تھا، بلکہ بالکل اس کے الٹ تھا۔ حاجی صاحب کا بنیادی خداشہ علما اور عوام کے درمیان فرق مراتب کی سالمیت کو برقرار رکھنا تھا۔ انھوں نے یہ رسالہ اس شمالی ہندوستان میں بین العلما مناظروں کی اس آگ کو بجھانے کے لکھا، جو ان کو بے چین کیے رکھتا تھا، کیوں کہ ان کی نظر میں یہ مناظرے عوام کی نظروں میں علما کی عزت وقار کے خاتمے کا سبب بن رہے ہیں۔۔۔ ان کا پروجیکٹ جہاں ایک طرف مکمل طور پر شمالی ہندوستان میں بریلوی دیوبندی مناظروں کے سیاق سے مربوط تھا، وہیں وہ عوام کے اوپر علما کی برتری اور استناد کو برقرار رکھنے کا بھی شدت سے داعی تھا"۔ شیر علی ترین، سیما علی کتاب Muslim Cosmopolitanism in an Age of Empire پر تبصرہ، انٹرنیشنل جرنل آف ایشین سٹڈیز 15، نمبر 1 (جنوری 2018): 131۔
- 38۔ تھانوی، ارواحِ ثلاثہ، 132۔
- مثال کے طور پر دیکھیے: چارلس ٹیلر، A Secular Age (کیمبرج، ایم اے: ہارورڈ یونیورسٹی پریس، 2007)؛ اروند منڈیر، Religion and the Specter of the West: Sikhism, India, Postcoloniality and the Politics of Religion (نیویارک: کولمبیا یونیورسٹی پریس، 2009)؛ رسل میک کوچین، They ‘Licked the Platter Clean’: On the Co-dependency of the Religious and the Secular، میتھڈ اینڈ تھیوری این دی سٹڈی آف ریلجن 19 (2007): 173 – 99؛ جان ماڈرن، Secularism in Antebellum America (شکاگو، یونیورسٹی آف شکاگو پریس، 2011)۔
- طلال اسد، Reading a Modern Classic: W. C. Smith’s The Meaning and End of Religion، ہسٹری آف ریلجنز 40، نمبر 3 (فروری 2001): 205 – 21۔
- حسین اگراما، Questioning Secularism: Islam, Sovereignty, and the Rule of Law in Modern Egypt (شکاگو: یونیورسٹی آف شکاگو پریس، 2012)؛ صبا محمود، Religious Difference in a Secular Age: A Minority Report (پرنسٹن، این جے: پرنسٹن یونیورسٹی پریس، 2016)۔
- طلال اسد، Formations of the Secular: Christianity, Islam, Modernity (سٹینفرڈ، سی اے: سٹینفرڈ یونیورسٹی پریس، 2003)۔
- مذہب سازی پر دیکھیے: مارکوس ڈریسلر اور اروند منڈیر، Secularism and Religion Making (نیو یارک: آکسفرڈ یونیورسٹی پریس، 2011)۔
- اس استدلال کی سب سے زیادہ اطمینان بخش مثال کے لیے دیکھیے: ڈیوڈ سکاٹ، Conscripts of Modernity: The Tragedy of Colonial Enlightenment (درہم، این سی: ڈیوک یونیورسٹی پریس، 2004)، 98 – 132۔
- ڈیوڈ سکاٹ، Refashioning Futures: Criticism after Postcoloniality (پرنسٹن، این جے: پرنسٹن یونیورسٹی پریس، 1999)، 115۔
(مکمل)