جدید اسرائیل کے قیام کی تاریخ صہیونی تحریک کے بغیر نامکمل ہے اور اس میں صہیونی تحریک کے بانی تھیوڈور ہرزل کی کتاب ’’یہودی ریاست“ (The Jewish State) بنیادی دستاویز ہے جس میں یہودیوں کے سامنے اس تصور کو سیاسی اور تاریخی طور پر ایک قابل فہم اور قابل عمل تصور بنا کر پیش کیا گیا ہے، یعنی ایک باقاعدہ مقدمہ پیش کیا گیا ہے کہ یہودی ریاست کا قیام یہودیوں کی اور خود یورپی اقوام کی ایک ناگزیر تاریخی وسیاسی ضرورت ہے اور موجودہ حالات میں پوری طرح قابل عمل ہے۔
یہودی ریاست کے خواب کو روبہ عمل کرنے کے سلسلے میں ہرزل کے ذہن میں جو منصوبہ تھا، اس کا بنیادی خاکہ یہ تھا کہ یورپی اقوام کی تائید اور سرپرستی سے دنیا کے کسی خطے میں یہودی زمین کا ایک ٹکڑا خرید کر اپنی ایک آزاد ریاست قائم کر لیں اور دنیا بھر میں جہاں بھی یہودیوں کو نفرت اور جبر کا سامنا ہے، ان کو وہاں سے لا کر اس خطے میں آباد کر دیا جائے اور وہ اپنی محنت اور لیاقت سے خود بھی ترقی کریں اور اس خطے کی ترقی میں بھی مددگار بنیں۔
ہرزل مذکورہ کتاب میں لکھتا ہے:
’’اگر عالمی طاقتیں ایک غیر جانب دار علاقے پر ہماری خود مختاری کے خیال کے ساتھ اتفاق کی خواہش کا اعلان کرتی ہیں تو پھر جیوش سوسائٹی اس سرزمین پر قبضہ حاصل کرنے کے لیے مذاکرات منعقد کرے گی۔ یہاں دو علاقے زیر غور آتے ہیں: فلسطین اور ارجنٹائن۔ دونوں ملکوں میں نوآبادیات کے حوالے سے اہم تجربے کیے جا چکے ہیں، اگرچہ ایسا یہودیوں کی تدریجی در اندازی کے غلط اصول پر کیا گیا۔ در اندازی کا انجام آخر کار برا ہوتا ہے۔ یہ اس ناگزیر لمحے تک ہی جاری رہ سکتی ہے جب تک مقامی آبادی خود کو خطرے سے دوچار محسوس نہ کرے اور حکومت کو مجبور کر دے کہ وہ یہودیوں کی مزید آمد پر پابندی عائد کرے۔ چنانچہ جب تک ہمیں ہجرت کو جاری رکھنے میں خود مختاری حاصل نہ ہوجائے، یہ عمل نتیجے کے لحاظ سے بے فائدہ ہے۔
اگر یورپی طاقتیں اس منصوبے کے ساتھ دوستانہ رویہ اختیار کرتی ہیں تو ان کی زیر حفاظت سوسائٹی آف جیوز زمین کے موجودہ مالکوں سے معاملہ کرے گی۔ ہم انہیں بے بہا فائدوں کی پیش کش کر سکتے ہیں، عوامی قرضے کا ایک حصے کی ادائیگی اپنے ذمے لے سکتے ہیں، ٹریفک کے لیے نئی سڑکیں بنا سکتے ہیں جو کہ اس ملک میں ہماری موجودگی کی بنا پر لازمی ہو جائے گا، اور دیگر بہت سے کام کر سکتے ہیں۔ ہماری ریاست کا قیام پڑوسی ممالک کے لیے بھی فائدہ مند ثابت ہوگا کیونکہ زمین کی ایک پٹی کو زرخیز بنانے سے اس کے ارد گرد کے علاقوں کی قدروقیمت میں بھی ان گنت طریقوں سے اضافہ ہو جاتا ہے۔
ہمیں فلسطین کا انتخاب کرنا چاہیے یا ارجنٹائن کا؟ ہمیں جو علاقہ بھی مل جائے اور یہودی رائے عامہ جس کا بھی انتخاب کرے، ہم اسے لے لیں گے۔ دونوں نکات کا فیصلہ سوسائٹی کرے گی۔
ارجنٹائن دنیا کے زرخیز ترین خطوں میں سے ایک ہے، ایک وسیع رقبے پر پھیلا ہوا ہے، بے حد کم آبادی اور معتدل آب وہوا رکھتا ہے۔ جمہوریہ ارجنٹائن اپنے علاقے کا ایک حصہ ہمارے سپرد کر کے معقول فوائد حاصل کر سکتی ہے۔ یہودیوں کی موجودہ در اندازی نے یقینا کچھ بے اطمینانی پیدا کی ہے اور جمہوریہ کو ہماری نئی تحریک کے داخلی فرق کے بارے میں واضح طور پر آگاہ کرنا ہوگا۔
فلسطین ہمارا ناقابل فراموش تاریخی وطن ہے۔ فلسطین کا نام ہی ہمارے لوگوں کو ایک معجزانہ طاقت کے ساتھ اپنی طرف کھینچ لے گا۔ اگر عزت مآب سلطان ہمیں فلسطین عنایت کر دیں تو ہم بدلے میں ترکی کے تمام مالیاتی امور کی ذمہ داری اٹھا سکتے ہیں۔ وہاں ہمیں ایشیا کے مقابلے میں یورپ کے لیے ایک حفاظتی فصیل قائم کرنی ہوگی، جو تہذیب سے نابلد خطے میں گویا ایک دورافتادہ تہذیب کا نمائندہ ہوگا۔ ایک غیر جانب دار ریاست کی حیثیت سے ہمیں سارے یورپ سے تعلقات رکھنا ہوں گے جو ہمارے وجود کی ضمانت دے گا۔“ (باب دوم)
اپنی کتاب کا اختتام ہرزل نے اس پرتیقن امید پر کیا ہے کہ
’’اگر ہم اپنے منصوبے پر عمل کا محض آغاز کر دیں تو سامی مخالف تحریک فوراً ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گی کیونکہ امن کا نتیجہ اسی صورت میں نکلا کرتا ہے۔
جیوش کمپنی کے قیام کی خبر ٹیلی گراف کی برق رفتار تاروں کے ذریعے سے زمین کے دور دراز کناروں تک ایک ہی دن میں پہنچ جائے گی اور اس کے بعد فوری طور پر ہمیں سکھ کا سانس لینے کا موقع مل جائے گا۔……
ہمارے منصوبے کی کام یابی کے لیے ہماری عبادت گاہوں اور گرجوں میں دعائیں کی جائیں گی کیونکہ اس کے نتیجے میں ہم اس پرانے بوجھ سے سبک دوش ہوں گے جس کی تکلیف ہم سب کو اٹھانی پڑی ہے۔لیکن پہلے ہمیں لوگوں کے ذہنوں میں روشن خیالی پیدا کرنا ہوگی۔ اس خیال کا نفوذ ان نہایت دور دراز اور بدحال علاقوں تک ہونا چاہیے جہاں ہمارے لوگ سکونت پذیر ہیں۔ وہ اپنی یاس زدہ گہری سوچوں سے بیدار ہوں گے کیونکہ ان کی زندگیوں میں ایک نئی اہمیت آ جائے گی۔ ہر شخص کو بس اپنی فکر کرنی ہوگی اور یوں تحریک ایک وسیع دھارے کی شکل اختیار کر لے گی۔ اور اس مشن کے لیے بے غرض ہو کر جدوجہد کرنے والوں کے لیے جو شان اور جو مرتبہ منتظر کھڑے ہیں، ان کی عظمت کا اندازہ کون کر سکتا ہے!
اس بنا پر مجھے یقین ہے کہ یہودیوں کی ایک حیران کن نسل وجود میں آ جائے گی۔ مکابی دوبارہ اٹھ کھڑے ہوں گے۔ مجھے اجازت دیں کہ میں اپنے ابتدائی کلمات کو یہاں دوبارہ دہرا سکوں: ”یہودی جو اپنی ریاست کے آرزومند ہیں، اس کو حاصل کر لیں گے۔ آخر کار ہم بھی اپنی سرزمین پر ایک آزاد قوم کی حیثیت سے رہ سکیں گے اور اپنے گھروں میں چین کے ساتھ مر سکیں گے۔“
ہماری آزادی سے دنیا کو آزادی نصیب ہوگی، ہماری دولت سے اس کی ثروت میں اضافہ ہوگا اور ہماری عظمت سے اس کی عظمت میں چار چاند لگ جائیں گے۔ اپنے ملک میں ہم اپنی بہبود کے حصول کے لیے جو بھی کوششیں کریں گے، ان کا اثر انسانیت کی فلاح پر نہایت طاقت ور اور بے حد فائدہ مند ہوگا۔“ (خاتمہ بحث)
یہودیوں کے قومی وطن کے قیام کے لیے ہرزل نے امکانی طور پر فلسطین اور ارجنٹائن کا ذکر کیا ہے۔ منصوبے کے مطابق ہرزل نے سلطنت عثمانیہ کا سفر کیا اور خلیفہ عبد الحمید ثانی سے فلسطین کا علاقہ یہودیوں کے سپرد کر دینے کی درخواست کی جسے خلیفہ نے مسترد کر دیا۔ اس کے بعد ارجنٹائن کے علاوہ یوگنڈا بھی صہیونی قائدین کے ہاں زیرغور رہا، لیکن ۱۹۰۶ء میں بیسل (سوئٹزر لینڈ) میں منعقدہ ساتویں صہیونی کانگریس نے متفقہ طور پر یہ طے کر لیا کہ یہودی ریاست صرف اور صرف فلسطین میں ہی قائم کی جائے گی۔
یہ منصوبہ سوچتے ہوئے جس سوال کو قطعی طور پر نظر انداز کیا گیا، وہ یہ تھا کہ فلسطین صدیوں پہلے چاہے یہودیوں کا قومی وطن رہا ہو اور یہودیوں نے یہاں واپسی کے خواب کو نسل در نسل زندہ رکھا ہو، بحالت موجودہ یہ پوری دنیا کے یہودیوں کا وطن نہیں تھا ۔ چنانچہ اس منصوبے کو رو بہ عمل کرنا پرامن سیاسی ذرائع سے ممکن نہیں تھا اور اس کے لیے لازم تھا کہ مغربی اقوام کی استعماری پشت پناہی اور تائید حاصل کی جائے۔ خود ہرزل کو بھی پوری طرح اس کا احساس تھا کہ یورپی طاقتوں کی سرپرستی کے بغیر یہاں یہودی ریاست کا قیام بھی ممکن نہیں ہوگا اور یہ ریاست اپنی بقا کے لیے بھی مسلسل اس سرپرستی کی محتاج رہے گی۔
یہودی ریاست کے قیام کی کوششیں جیسے جیسے آگے بڑھتی گئیں، یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی چلی گئی۔ چنانچہ اسرائیل کے پہلے وزیر اعظم ڈیوڈ بن گوریان نے، جن کو اسرائیل کی خارجہ اور دفاعی پالیسی کا بنیادی معمار مانا جاتا ہے، واضح طور پر کہا کہ اسرائیل اگرچہ شرق اوسط میں قائم ہوا ہے، لیکن یہ ایک جغرافیائی حادثہ ہے، کیونکہ ہم بنیادی طور پر یورپی لوگ ہیں۔ بن گوریان نے کہ ’’ہمارا عربوں کے ساتھ کوئی رشتہ نہیں۔ ہماری ریاست، ثقافت اور تعلقات اس خطے کے اندر سے نہیں پھوٹے۔ ہمارے درمیان نہ کوئی سیاسی رشتہ ہے اور نہ کوئی بین الاقوامی تعلق۔“ اس پہلو سے بن گوریان نے یہودی ریاست کے تحفظ کی جو حکمت عملی وضع کی اور جو آج تک اسرائیل کی دفاعی پالیسی کا بنیادی پتھر مانی جاتی ہے، وہ یہ تھی کہ امریکا کو یہ باور کرایا جائے کہ اسرائیل اس کے لیے اس خطے میں ایک تزویراتی اثاثے کی حیثیت رکھتا ہے۔*
یہودی ریاست کے قیام کا صہیونی منصوبہ چاہے یہودیوں کی کتنی ہی ہمدردی اور خیر خواہی سے سوچا گیا ہو، تاریخی طور پر صہیونی تحریک نے یہودیوں کو جو کچھ دیا ہے، اس کا حاصل یہی ہے کہ یورپی قوموں میں یہودیوں کے لیے پائی جانے والی نفرت کو مسلم دنیا میں منتقل کر دیا جائے جہاں تاریخ میں کبھی بھی مذہبی یا نسلی بنیادوں پر یہودیوں کو نفرت کا سامنا نہیں رہا، بلکہ مسلم علاقے ہمیشہ ان کے لیے بطور اقلیت اور بطور اہل کتاب، پناہ گاہ بنے رہے ہیں۔ صہیونی حلقوں میں تھیوڈور ہرزل کو ’’موسیٰ ثانی“ کا مقام دیا جاتا ہے جس نے دوبارہ یہودیوں کو فلسطین میں جمع کرنے کا عمل شروع کیا۔ آج اس کوشش کے نتائج دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ وہ یہودیوں کے لیے موسیٰ نہیں، بلکہ بخت نصر دوم اور اہل فلسطین کے لیے فرعون ثابت ہوا جس نے لاکھوں یہودیوں کو بھی دنیا بھر سے اکٹھا کر کے اسرائیل کے جہنم میں لا پھینکا اور پورے خطے کو بھی نفرت، دشمنی اور انسانیت سوزی کی آماج گاہ بنا دیا۔ صہیونی منصوبہ ڈھائی ہزار سال سے جاری یہودی قوم کی اس تقدیر کا تسلسل ہے کہ وہ دنیا کی مختلف قوموں کے ہاتھوں ذلت ومسکنت کا عذاب چکھیں اور درمیان میں امن کے جو وقفے ملیں، ان میں بھی کبھی کردہ اور کبھی ناکردہ گناہوں پر اتنی نفرتیں جمع کریں تاکہ جب دوبارہ خدا کا عذاب آئے تو ان کے ساتھ ہمدردی محسوس کرنے والا بھی کوئی نہ ہو۔