انیسویں صدی میں جنوبی ایشیا میں مذہبی شناختوں کی تشکیل (۱۴)

ڈاکٹر شیر علی ترین

اردو ترجمہ: محمد جان اخونزادہ

(ڈاکٹر شیر علی ترین کی کتاب  Defending Muhammad in Modernity کا ساتواں باب)



ایجاد کب بدعت بن جاتی ہے؟ بدعت کی تعبیر وتشریح کے اصول

شاہ محمد اسماعیل اور دیوبند کے پیش روؤں کے لیے نہ صرف نبی اکرم ﷺ کا عمل اور عہد مقدس ہے، بلکہ اس کے ساتھ سلف صالحین، یعنی تمام صحابہ کرام، تابعین اور تبع تابعین واجب الاتباع اور تنقید سے ماورا ہیں1۔ اگر چہ سنت کا معنی رسول اللہ ﷺ کا اسوۂ حسنہ ہے، لیکن جب اسے بدعت کے مقابلے میں استعمال کیا جائے تو اس کا حقیقی معنی وہ تمام اعمال واقدار ہیں جو اسلام کی ابتدائی تین نسلوں (قرونِ ثلاثہ) کی پیدا کردہ اور منظور کردہ ہیں۔ دیوبند کے پیش روؤں نے بتایا کہ نبی اکرم ﷺ، ان کے صحابہ کرام، ان کے تابعین اور تبع تابعین کا تعلق ایک ہی زمانی عمارت سے ہے۔ 

ان کا کہنا یہ تھا کہ کوئی بھی عمل یا رواج جو عہد صحابہ یا تابعین وتبع تابعین کے دور میں رائج اور عام تھا، یہ ممکن ہی نہیں کہ اس کے پیچھے رسول اللہ ﷺ کے قول، فعل اور تقریر کی صراحت یا استدلال نہ ہو2۔ اس لیے عربی زبان کے قواعد اور لغت کی تدوین، قرآن کریم کے اعجاز کا اثبات، اصول فقہ اور قواعد فقہیہ کی تشکیل؛ بظاہر یہ تمام وہ نئی چیزیں ہیں جن کا اضافہ رسول اللہ ﷺ کی دنیا سے رحلت فرمانے کے بعد دین میں کیا گیا، لیکن سنت کی مخالفت کرنے کے بجاے ان مابعد کی ایجادات نے درحقیقت اس کی شرعی قدر وقیمت میں اضافہ کیا، یا اس کی تشریح وتوضیح کی، اس لیے انھیں بدعات نہیں کہا جا سکتا۔

دیوبند کے پیش روؤں نے بتایا کہ بدعتِ حسنہ اور بدعتِ سیئہ کی اصطلاحوں کے درمیان عام طور پر جو فرق کیا جاتا ہے، وہ غیرضروری ہے۔ ان کی نظر میں بدعت ہمیشہ سے ان ناجائز اعمال پر دلالت کرتی آئی ہے جو رسول اللہ ﷺ کے اسوۂ حسنہ کے مد مقابل ہیں۔انھوں نے کہا کہ غلط طور پر موسوم کی گئی بدعتِ حسنہ کے لیے سنت کا الحاق (ملحق بالسنۃ) کی اصطلاح دی استعمال کرنی چاہیے۔ ایسا اس لیے ہونا چاہیے کہ یہ اضافہ جات کوئی نئی شرعی نظیر قائم نہیں کرتے، بلکہ پہلے سے موجود ایک نظیر کی تشریح وتوضیح کرتے ہیں3۔ آئیے، اس نکتے کو  مزید واضح کرتے ہیں۔

علماے دیوبند کے نزدیک رسول اللہ ﷺ کا اسوۂ حسنہ ان عقائد واعمال اور عادات واطوار سے عبارت تھا جو اسلام کی پہلی تین صدیوں میں بغیر کسی اختلاف کے رائج (شائع بلا نکیر) تھے۔ ایسا نہیں کہ تاریخ کے اس مثالی دور میں برے اعمال سرے سے موجود نہیں تھے۔ اس دور میں لوگ جھوٹ بولتے، دھوکا دیتے اور تمام قسم کے جرائم کا ارتکاب کرتے تھے۔ تاہم ان گناہوں کا دائرہ محدود تھا اور ان پر تنقید کی جاتی تھی۔ دیوبندیوں کے فقہی تخیل میں اس لیے بدعت کا تصور ہر اس نئی چیز پر دلالت نہیں کرتا جو مادی طور پر ابتدائی تین صدیوں میں موجود تھی۔ اس کے بجاے اس کا مطلب ان سنتوں کی روح سے انحراف یا مخالفت ہے جو اس بابرکت دور میں رائج تھیں۔ مولانا اشرف علی تھانوی نے بہت عمدہ طریقے سے اس اصول کی وضاحت بیان کی ہے۔

تھانوی کی نظر میں اسلام کی ابتدائی تین صدیوں کے بعد دو قسم کی نئی چیزیں سامنے آئیں4۔ پہلی قسم کی نئی چیزیں وہ تھیں جو اپنی شکل وصورت اور اپنے وجود کے بنیادی مقصد (سببِ داعی) دونوں کے اعتبار سے نئی تھیں۔ مزید برآں یہ نئی چیزیں واجب دینی اعمال کی تکمیل کے لیے ضروری تھیں۔ مثلاً‌ دینی کتابوں کی لکھائی اور ان کی فہرست سازی، دینی مدارس اور خانقاہوں کی تعمیر اور عربی قواعد کی تشکیل وہ تمام نئی چیزیں تھیں جو رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں موجود نہیں تھیں، اور اس سے بھی اہم بات یہ کہ ان کی موجودگی کی ضرورت بھی اس دور میں نہ تھی۔

تاہم وقت گزرنے کے ساتھ یہ نئی چیزیں دینی فرائض کی تکمیل کے لیے ضروری بن گئیں۔ کیوں؟ اس بنیادی سوال کا جواب دینے کے لیے تھانوی نے ایک کہانی بیان کی کہ کس طرح دین کی ترویج وحفاظت کے لیے انسانی صلاحیتوں میں عمومی زوال پیدا ہوا، جس کی وجہ سے دین اپنے ابتدائی دور کی شکل سے زیادہ دور چلا گیا، اور جس نے ایسے آلات اور ایجادات کی پیداوار کی ضرورت پیدا کی جو اس عمل میں معاونت فراہم کر سکیں۔ مولانا تھانوی نے بتایا کہ اسلام کی پہلی تین صدیوں میں ابتدائی معاشرہ دین کو تمام نقصانات سے تحفظ فراہم کرنے میں اتنا آگے اور ماہر تھا کہ اس کام میں انھیں کسی بیرونی وسیلے یا طریق کار کی ضرورت ہی نہ تھی۔ مثلاً اس زمانے کے لوگوں کا حافظہ غلطی سے پاک تھا۔ وہ ہر وہ چیز یاد کر لیتے تھے جو وہ سن لیتے۔ وہ مذہب اور اس کی باریکیوں کو اس قدر گہرائی سے سمجھتے تھے کہ انھیں ایسے نکات سمجھانے یا سکھانے کی ضرورت نہیں تھی۔ اسی طرح احادیث نبویہ اور علوم سیرت کے حفظ وتدوین کا ایک پورا ماحول عروج پر تھا5۔

مولانا تھانوی اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ تین نسلوں تک اغلاط سے مبرا یہ ابتدائی عہد باقی رہنے کے بعد ایک دوسرا مرحلہ شروع ہوا جس میں کئی محاذوں پر تدریجی لیکن گہرے زوال کا مشاہدہ ہونے لگا۔ لوگ دین کی حفاظت میں اس طرح پرجوش نہیں رہے جس طرح وہ پہلے تھے۔ ایک عمومی بےپروائی روزمرہ کا معمول بن گئی۔ اہل بدعت اور ایسے لوگوں کے پاس طاقت واقتدار آگیا جو عقل کو دینی حقائق پر ترجیح دیتے تھے6۔ اس موقع پر مسلمان علما نے یہ جان لیا کہ ان کا دین خطرے کی زد میں ہے، اور اگر وہ اس کا فوری علاج نہ کر سکے تو دین آہستہ آہستہ فنا ہو جائے گا۔ اس لیے انھوں نے ایک شدید بحران کے دور میں دین کی حفاظت کے لیے مخصوص آلات اور طریق ہاے کار ایجاد کیے۔  ان ایجادات میں دینی کتابوں کی اشاعت، علم فقہ، اصول فقہ اور حدیث (جس کی سند اور متن کی کتابی تدوین حضور ﷺ کی وفات کے کافی عرصے بعد کی گئی)  جیسے علوم کی باضابطہ تدوین عمل میں لائی گئی۔ ممتاز اہل علم نے دینی مدارس تعمیر کیے جہاں ان نئے مضامین کی تعلیم وتبلیغ کی جانے لگی۔ اسی طرح اس زمانے کے نامور صوفیا نے خانقاہیں اور تربیتی مراکز بنائے، تاکہ دینی علوم اور استناد کے تسلسل کو قائم رکھ سکیں۔

مولانا تھانوی نے زور دے کر کہا کہ ان پیش رفتوں اور سرگرمیوں کے پیچھے جو بنیادی محرک کار فرما تھا، وہ رسول اللہ ﷺ اور سلف صالحین کے دور میں موجود نہیں تھا۔ یہ تمام نئی پیش رفتیں بظاہر بدعات دکھائی دیتی ہیں، تاہم حقیقت میں یہ وہ ضروری آلات ووسائل ہیں، جو واجبات دین کی تکمیل کے لیے ضروری ہیں۔ تھانوی نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا: اس لیے  فقہی قاعدے کی رو سے کہ واجب کا مقدمہ بھی واجب ہوتا ہے (مقدمة الواجب واجبة)، ان ایجادات کو بھی واجب سمجھنا چاہیے۔

علم کے ان نئے اعمال اور طور طریقوں نے دین کے تسلسل میں کوئی خلل پیدا نہیں کیا۔ اس کے بجاے وہ دین کی بقا کے لیے ناگزیر تھے۔ بالفاظ دیگر یہ بظاہر نئی ایجادات سنت نبوی کے اندر مضمر تھیں جن کا ظہور بعد کے دور میں ہوا۔ اگر چہ وہ اپنے ظاہر کے اعتبار سے نئی تھیں، لیکن اپنے اصلی جوہر کے اعتبار سے وہ براہ راست سنتِ نبوی کی روح سے جڑی ہوئی تھیں۔ یہ ایجادات وہ بنیادی وسائل ہیں جو ایک ایسی دنیا میں جہاں سنت نبوی پر عمل زوال پذیر ہو، اسی سنت کے اندر مضمر  امکانات کو مادی صورت عطا کرتے ہیں7۔

ایجادات کی دوسری قسم وہ ہے جو ان اعمال پر مشتمل ہے جو اپنی صورت میں تو نئی ہیں، لیکن اپنی ابتدا میں کار فرما "بنیادی محرک" کے اعتبار سے نئی نہیں ہوتیں۔ مثلاً رسول اللہ ﷺ کے یومِ ولادت کو منانے کا "بنیادی مُحَرِّک" آپ کے یومِ پیدائش پر خوشی ومسرت کا اظہار ہے۔ یہ بنیادی محرک رسول اللہ ﷺ اور ان کے صحابہ کے عہد میں موجود رہا۔ اگر وہ چاہتے تو وہ بھی حضور ﷺ کے یوم پیدائش کو منا سکتے تھے۔ مولانا تھانوی نے زور دے کر کہا  کہ ایسا نہیں تھا کہ اس رسم کا آغاز رسول اللہ ﷺ اور ان کے صحابہ کرام کے لیے ناقابلِ تصور تھا۔ اس کے باوجود انھوں نے نہ کوئی ایسی محفل منعقد کی نہ اس میں شریک ہوئے۔

مولانا تھانوی کی نظر میں اسلام کی ابتدائی تین صدیوں میں کسی عمل کی غیر موجودگی، باوجود یکہ اس کا محرک اور مُقتَضِی اس دور میں موجود ہو، اس بات کی واضح علامت ہے کہ سنتِ نبوی کی رو سے اس کی اجازت نہیں۔ زیادہ آسان لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر نبی اکرم ﷺ اور ان کے صحابہ کسی عمل کو ایجاد نہ کریں، باوجود یکہ اس کی ایجاد کی وجہ ان کے پاس ہو تو یہ واضح ہے کہ ان کے طرزِ عمل کی رو سے اس عمل کی تائید نہیں ہو سکتی۔ مولانا تھانوی نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا، اس لیے مؤخر الذکر ایجادات بدعت ہیں، کیونکہ یہ دین میں ایک ایسی نئی چیز کو شامل کرتی ہیں جو رسول اللہ ﷺ اور ان کے صحابہ نے شامل نہیں کی، باوجود یکہ وہ ایسا کر سکتے تھے۔ تھانوی نے نتیجہ نکالتے ہوئے ہوئے کہا کہ ایسی ایجادات نہ صرف یہ کہ اپنی ظاہری صورت کے اعتبار سے بلکہ اس سے زیادہ اہم یہ ہے کہ یہ اپنے اصلی جوہر کے اعتبار سے نئی ہیں۔ سنت نبوی سے یہ جوہری علیحدگی سنت کی کاملیت اور حتمیت میں شبہ میں پیدا کرتی ہے۔ یہ سنتِ نبوی کی کاملیت اور حتمیت پر سوال اٹھا کر اس کا حریف بنتی ہے8۔

مولانا تھانوی کے لیے اسلام میں بدعت کی حدود پر اس سارے مناقشے میں اساسی موضوع سنتِ نبوی اور اس کی توسیع کے طور پر قانونِ الہی کی مطلق حاکمیت ہے۔ وہ بتاتے ہیں: "بدعت کا مرتکب درپردہ مدعیِ نبوت ہے"۔ شریعت میں کسی نئی چیز کو شامل کرکے ایسا شخص بالواسطہ شریعت کو ناقص اور نامکمل ہونے کا دوش دیتا ہے۔ علاوہ ازیں وہ بالواسطہ اس بات پر اتراتا ہے کہ وہ نئی چیزوں کا اضافہ کرکے شریعت کے نقائص کو دور کرنے کے لیے حاکمیتِ مطلقہ رکھتا ہے"9۔ مولانا تھانوی نے جو اگلا قیاس پیش کیا ہے، وہ اس نکتے کو زیادہ صراحت کے ساتھ واضح کرتا ہے۔ "مثلاً کسی شخص نے گورنمنٹ (تھانوی نے یہاں انگریزی زبان کا لفظ استعمال کیا ہے) کے آئین کی نقل شائع کی، اور اس دستاویز کے آخر  میں اپنی طرف سے کسی شق کا اضافہ کیا۔ اگر چہ یہ اضافی شق ملک اور حکومت کے لیے کتنی مفید کیوں نہ ہو، لیکن آئین پر ایسی غیر منظور شدہ دست درازی جرم کہلائے گی، اور اس کے مرتکب کو سخت سزا دی جائے گی"۔ وہ بات جاری رکھتے ہوئے کہتے ہیں: "اس لیے اس دنیا کے قانون میں ایک غیر منظور شدہ شق کو شامل کرنا جرم ہے، تو قانون الہی میں اس طرح کے اضافے سے کیسے چشم پوشی کی جا سکتی ہے؟"10

مولانا تھانوی نے مزید وضاحت کی کہ ایجادات کی ان دونوں قسموں میں بنیادی فرق  زیادہ صراحت کے ساتھ اس ارشاد نبوی سے سمجھ میں آتا ہے: "جو ہمارے اس امر میں کوئی ایسی ایجاد کرتا ہے، جو اس میں سے نہ ہو تو وہ مسترد ہے" (من أحدث في أمرنا هذا ما ليس منه فهو ردٌّ)11۔ بدعات کی پہلی قسم جو فرائض دینیہ کی تکمیل کے لیے ضروری ہیں، ان کا تعلق حدیث کے اس حصے سے ہے جو دین میں شامل (منه) ہے۔ اس کے برعکس ایجادات کی دوسری قسم وہ ہے جو نبی اکرم ﷺ اور ان کے صحابہ کرام کی سنتوں کے مخالف ہے، تو ان کا تعلق حدیث کی رو سے اس حصے سے ہے جو دین میں شامل نہیں (ما ليس منه) ہے۔

مولانا تھانوی نے تجویز کیا کہ اس فرق کو یاد رکھنے کے لیے دین کے لیے ایجاد (احداث للدین) اور دین میں ایجاد (احداث فی الدین) کو یاد رکھیں12۔ احداث فی الدین بظاہر ایجاد ہو جاتی ہے لیکن معنی کے اعتبار سے وہ سنت نبوی ہی کی اتباع ہے۔ اس کے برعکس احداث فی الدین نہ صرف یہ کہ اپنی ظاہری ہیئت میں ایجاد ہوتی ہے، بلکہ وہ رسول اللہ کے اسوۂ حسنہ کے بنیادی مقصد میں تغیر پیدا کرتی ہے۔ نتیجتاً جہاں احداث للدین  شریعت کے بنیادی ماخذ اور اسوۂ کاملہ کی حیثیت سے رسول اللہ ﷺ کے مقام ومرتبے کو مزید مضبوطی عطا کرتی ہے، وہیں احداث فی الدین اخروی نجات کے پروگرام کی کاملیت اور حتمیت کو للکار کر نبی اکرم ﷺ کے شرعی مقام کو گھٹاتی ہے۔

بدعت بحیثیت تجاوز اور بدنظمی

مولانا اشرف علی تھانوی کے نزدیک بدعت بدنظمی کا دوسرا نام تھا۔ انھوں نے بدنظمی کا مطلب ضابطے کی خلاف ورزی لیا۔ انھوں نے اس کو ایک مثال سے واضح کیا ہے: فرض کرو ایک شخص ظہر کی فرض نماز چار رکعات کے بجاے پانچ رکعات پڑھے۔ اس صورت میں چونکہ اس نے ایک عبادتی سرگرمی کے پہلے سے چلے والے نظم میں اضافہ اور اس طرح سے اس نظم میں خلل پیدا کیا، اس لیے اس کی پوری نماز فاسد ہوئی؛ اور اسے اپنی پہلی چار رکعتوں پر بھی کوئی اجر وثواب نہیں ملے گا۔ اب ہو سکتا ہے کہ ایسے شخص کو اس تجاوز میں کسی قسم کی بدعت نظر نہ آئے؛ کیونکہ وہ  کہہ سکتا ہے کہ نماز جیسی پاکیزہ عبادت میں تجاوز کا اظہار کیسے غلط ہو سکتا ہے؟ مولانا تھانوی نے بتایا کہ اس سلسلے میں جس بنیادی گناہ کا ارتکاب کیا گیا، وہ پہلے سے شریعت کے ایک قائم نظم کی خلاف ورزی ہے۔ تھانوی نے نظم اور تجاوز کے درمیان فطری تضاد کو واضح کرنے کے لیے ایک دقیق قیاس کیا جو ایک بار پھر جدید استعمار کے ٹیکنالوجیکل تناظر کی اساس پر تھا: "اگر کوئی شخص کسی ایسے لفافے پر ایک روپے کی ٹکٹ لگائے جس کےلیے 80 پیسے کی ٹکٹ درکار ہے (سو پیسے = ایک روپے)، تو ڈاک والے اس لفافےکو آگے نہیں بھیجیں گے۔ ایسا اس لیے ہے کہ بھیجنے والے نے غلط ٹکٹ چسپاں کرکے  ضابطے کی خلاف ورزی کی"13۔

مولانا تھانوی کے نزدیک روزمرہ کی زندگی گزارنے کے لیے نظم برقرار رکھنا بنیادی اہمیت کا حامل ہے، حتی کہ نبی اکرم ﷺ کی اتباع میں بھی یہ ضروری ہے۔ انھوں نے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ کی ذاتی زندگی کی تمام تفصیلات پر عمل کرنا بھی اس وقت تک قابل تعریف ہے، جب تک یہ فرائض دینیہ کی تکمیل میں نہ خلل پیدا نہ کرے اور  نہ انھیں کمزور کرے۔ انھوں نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کے اسوۂ حسنہ کے دو پہلو ہیں: فعلی اور قولی۔ فعلی پہلو آپ کی روزمرہ زندگی کی مخصوص عادات سے عبارت ہے۔ مثلاً آپ کیا کھاتے تھے، پگڑی کیسے باندھتے تھے، چھڑی کیسے پکڑتے تھے، اپنا گھر کیسے رکھتے تھے وغیرہ وغیرہ۔ بالفاظِ دیگر یہ پہلو ذاتی عادات پر مشتمل ہے۔ مولانا تھانوی نے بتایا کہ آپ کے بعد مسلمانوں پر یہ فرض نہیں کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی تمام عادات کو جزئیات سمیت اپنی زندگی میں روبعمل کریں۔ دوسری طرف ان کے اسوہ کے قولی پہلو میں وہ اعمال شامل ہیں جو واضح طور پر اہم عبادات ہیں۔ ان کے اسوۂ حسنہ کے فعلی پہلو کے برعکس، ان احکام پر عمل لازمی ہے جو آپ کے اقوال کی رو سے لازم قرار دیے گئے ہیں، اگر چہ انسانوں کو ایک قابل ذکر حد تک آزادی دی گئی ہے کہ وہ ان حدود کے اندر اپنے مزاج کے مطابق انتخاب کریں۔

مولانا تھانوی نے ان لوگوں کو نبی اکرم ﷺ کے عُشّاق قرار دیا جو باوجود لازم نہ ہونے کے رسول اللہ ﷺ کی حیاتِ طیبہ کے ہر لمحے کی پیروی کی دوہری مشقت اٹھاتے ہیں۔ تھانوی کے نزدیک عام لوگ ایسے عشاق کی راہ پر نہیں چل سکتے۔ جیسا کہ ان کا کہنا ہے: "رسول اللہ ﷺ کے ہر عمل کی اتباع کا منشا محبت ہے۔ان عشاق میں یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ اپنی پوری زندگی کو رسول اللہ ﷺ کے اسوۂ حسنہ پر تشکیل دیتے ہیں؛ وہ ٹھیک اسی طریقے سے کھاتے، پیتے اور پہنتے ہیں، جس طریقے سے رسول اللہ ﷺ نے یہ اعمال کیے۔ لیکن ہم جیسے عام لوگوں کے لیے یہ پابندیاں لازمی نہیں، تاکہ ہم نبی اکرم ﷺ کے اسوۂ حسنہ کی عمومی قولی حدود کے اندر رہیں"14۔ وہ بات جاری رکھتے ہوئے کہتے ہیں: "تمام معاملات میں پوری  چابک دستی سے شریعت کی حدود کی پاس داری کرنی چاہیے۔ ہر شے کو اپنی حد پر رہنا چاہیے"15۔

مولانا تھانوی نے متنبہ کیا کہ سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ کوئی شخص رسول اللہ ﷺ کی عادات کی اتباع میں اس قدر غلو نہ کرے جس سے فرائضِ دینیہ پر کوئی سمجھوتا ہوتا ہو۔ بلکہ ایسی اتباع کو مسترد کرنا چاہیے جو کسی فرض عمل کی تکمیل کے رستے میں کاوٹ بن جائے۔ مثال کے طور پر تھانوی نے واضح کیا کہ  رسول اللہ ﷺ ہر رات تہجد کی آٹھ رکعات پڑھا کرتے تھے۔ اس غیر واجب عمل کی اتباع قابل تعریف ہے، اگر کسی شخص میں اس کے لیے مطلوبہ استعداد اور شوق ہو۔ لیکن ایک ایسی صورت فرض کریں جس میں ایک شخص ساری رات تہجد کے نوافل پڑھے، اور نتیجتاً فجر کے وقت فرض نماز کے لیے اٹھنے سے قاصر ہو جائے تو یہ غلط ہوگا۔ ایسی صورت میں اس شخص پر لازم تھا کہ وہ تہجد کی نماز کو ایک طرف رکھ دے، بروقت سوئے، اور فجر کی فرض نماز کی ادائیگی کے لیے صبح بروقت جاگ جائے۔ رسول اللہ ﷺ کی حیاتِ مبارکہ کے ہر ہر لمحے کی اتباع صرف اس صورت میں قابل تعریف ہے جب وہ فرض عبادات کی اولیت کے لیے خطرہ نہ بنے۔ جب دینی جذبہ فرائض کے لیے خطرہ بن جائے تو  پھر اس جذبے کو اعتدال میں لانا چاہیے یا اسے فنا کرنا چاہیے۔ مولانا تھانوی امت کے بعض افراد میں پائے جانے والے غلبۂ عشق کو تسلیم کرتے ہیں، اور اسے قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ تاہم رسول اللہ ﷺ سے محبت کے اظہار میں  ایسے عاشقانہ تجاوز کو جو نظم کی کمزوری کا سبب بنے، ناقابل برداشت سمجھتے ہیں۔

فرائض کے تقدس کا تحفظ

مولانا تھانوی کے تعبیری منہج کی بنیاد وہ فقہی اصول ہے جو غیر واجب اعمال کو واجب میں بدلنے کو حرام قرار دیتا ہے۔ تھانوی کے نزدیک مباحات بھی ناجائز قرار پاتے ہیں، اگر عوام ان اعمال کو واجباتِ دین فرض کرنے لگیں، بلکہ اگر کسی مستحب عمل کو واجب کا درجہ دیا جائے تو اس کا چھوڑنا لازم ہو جاتا ہے۔ تھانوی نے بتایا کہ یہ فقہ حنفی کا معیاری اصول ہے۔

اس بحث میں مولانا تھانوی نے بہ تکرار انیسویں صدی کے بااثر حنفی عالم محمد امین ابن عابدین شامی (م 1836) کا حوالہ دیا ہے، جنھوں نے وسیع پیمانے پر اپنی مقبولِ عام کتاب 'رد المحتار' میں علی الترتیب غیر واجب اعمال کو واجب اعمال کا رتبہ دینے کے خلاف تنبیہات کی ہیں۔ مثلاً ابن عابدین نے واضح کیا کہ وترکی نماز میں تین قرآنی سورتوں یعنی سورۃ الاعلی، سورۃ الکافرون اور سورۃ الاخلاص کا پڑھنا رسول اللہ ﷺ کی سنتوں میں سے ہے۔ تاہم اگر کوئی شخص وتر کی نماز میں قرآن کی دیگر سورتوں کو چھوڑ کر صرف ان تین سورتوں کے پڑھنے پر اصرار کرے تو یہ اصرار اس مستحب عمل کو ناجائز عمل میں بدل دے گا۔ کیوں؟ اس لیے کہ اس طرح کی تخصیص کسی غیر واجب عمل کو واجب عمل کی حیثیت دے دیتا ہے۔ اس لیے ابن عابدین کے نزدیک کسی کو نمازوں کے دوران رکعتوں میں سورتوں کے انتخاب کے لیے کسی قسم کے تعین سے گریز کرنا چاہیے16۔

اسی طرح تھانوی کی نظر میں صحابہ کرام نے بالتصریح مباح اور مستحب اعمال  کو اس اہتمام سے ادا کرنے پر تنبیہ کی ہے جس سے ان اعمال کا واجب ہونا ظاہر ہو۔ اس سلسلے میں مولانا تھانوی نے بطور خاص رسول اللہ ﷺ کے صحابی حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا ایک بیان نقل کیا ہے: "نماز ختم کرنے کے بعد دائیں طرف مُڑنے کو ضروری جان کر اپنی نماز کا ایک حصہ شیطان کو مت دو، کیوں کہ میں نے دیکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ بائیں طرف بھی پھر جایا کرتے تھے"17۔ اس سنتِ نبوی کے مطابق نماز کے بعد دائیں طرف مڑنا ایک مستحب امر تھا۔ تاہم جب لوگوں نے اس عمل کو واجب سمجھنا شروع کیا تو حضرت ابن مسعود نے اس پر روک ٹوک کی اور انھیں یاد دلایا کہ بائیں جانب مڑنے میں کوئی خرابی نہیں۔ دراصل انھوں نے دائیں جانب مڑنے پر اصرار کو "نماز کا ایک حصہ شیطان کو دینا" قرار دیا۔ اس روایت کی شرح کرتے ہوئے علوم حدیث اور فقہ شافعی کے نامور عالم علامہ ابن حجر عسقلانی (م 1448) نے واضح کیا: "مستحب اعمال مکروہ بن جاتے ہیں، اگر انھیں ان کے متعین درجے سے اوپر اٹھایا جائے"18۔

ان مثالوں میں کار فرما بنیادی منطق یہ تھی کہ غیر واجب اعمال، باوجودیکہ رسول اللہ ﷺ نے ان کی اجازت بھی دی  ہو، انھیں کبھی بھی واجب اعمال کی حیثیت نہیں دینی چاہیے۔ تھانوی نے باصرار بتایا کہ یہ وہ بنیادی اصول ہے جس کا لوگ خیال نہیں رکھتے اور الٹا  دیوبندی علما پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ مباح اعمال سے منع کرتے ہیں۔ انھوں  نے پرزور اصرار کرتے ہوئے کہا کہ دیوبندی علما کے خلاف یہ الزام بے انصافی پر مبنی ہے۔ وہ صرف ان اعمال سے منع کرتے ہیں جو ناجائز اعمال کا مقدمہ بنتے ہیں۔ جس طرح واجب کا مقدمہ واجب ہوتا ہے، اسی طرح حرام کا مقدمہ بھی حرام ہوتا ہے (مقدمة الحرام حرام)۔ تھانوی نے تاکید کرتے ہوئے بتایا کہ یہاں جو اہم نکتہ یاد رہنا چاہیے، وہ یہ تھا کہ جب ایک معروف مباح عمل حرام کی طرف لے جانے کا ذریعہ بن جائے تو ایک مباح عمل کی حیثیت سے اس کی رکنیت معطل ہو جاتی ہے، اور یہ بذات خود ایک ناجائز عمل بن جاتا ہے19۔

مولانا تھانوی کے مطابق کسی مخصوص عمل کی اخلاقی اور دینی قدر وقیمت کا انحصار ان حالات پر ہے جن میں یہ عمل وقوع پذیر ہوتا ہے۔حتی کہ  نیکی کا ایک عمل غیر مطلوب بن جاتا ہے، اگر اسے درست شرائط کے ساتھ سرانجام نہ دیا جائے۔ تھانوی نے استدلال کرتے ہوئے کہا کہ مثال کے طور پر،  نماز پڑھنا ایک ایسا عمل ہے جس کی اچھائی پر سب لوگ متفق ہیں۔ تاہم اگر پاخانہ کا تقاضا ہو تو اس وقت نماز مکروہ ہو جاتی ہے20۔ یہی وہ 'راز' ہے جس کی وجہ سے بسا اوقات مباح اعمال بھی حرام ٹھہرتے ہیں۔ لیکن، انھوں نے دل گرفتگی سے کہا کہ، یہ نکتہ عوام کو سمجھ نہیں آتا۔ تھانوی نے  مزاح آمیز نصیحت میں واضح کیا:

جب کبھی میں ان (عوام) کو عید میلاد النبی جیسی رسموں سے روکتا ہوں تو وہ شکایت کرتے ہیں کہ میں انھیں نیکی کے کاموں میں شرکت سے روک رہا ہوں۔ مجھے اس سے اتفاق ہے کہ یہ کام بلا شبہ نیکی کے ہیں۔ اپنے اصل جوہر کے اعتبار سے ان میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ تاہم جس امر کی وجہ سے یہ بدعت کے زمرے میں شامل ہو جاتے ہیں، وہ اجر وثواب کے حصول کے لیے مخصوص پابندیوں کو ضروری جاننا ہے۔ ایسی پابندیوں کو لازمی سمجھنے کی کوئی گنجائش شریعت میں نہیں۔ لیکن اس باریک دلیل کو عوام کیوں کر سمجھیں؟ اس لیے جب میں ان سے بات کرتا ہوں تو میں اپنے دلیل کی تفصیلات بیان نہیں کرتا، بلکہ سیدھا سادہ سختی سے انھیں ان کاموں سے روک لیتا ہوں، جو انھیں نہیں کرنے چاہییں۔ مثلاً‌ ایک بار ایک دیہاتی نے احتجاج کیا: "جمعے کی نماز دیہاتوں میں کیوں نہیں پڑھی جاتی؟" میں نے اسے یہ جواب دے کر خاموش کیا: "پہلے مجھے یہ بتاؤ کہ حج بمبئ میں کیوں نہیں ادا کیا جاتا؟21"

برائی کے سد باب کے لیے اچھائی کی ممانعت: کس کا اختیار ہے اور کیسے؟

مولانا تھانوی نے تاکید سے بتایا کہ ایک مباح عمل کو اس بنیاد پر حرام قرار دینے کا فیصلہ کہ وہ فساد کا سبب بنتا ہے، ہر کسی کا کام نہیں۔ یہ ماہر علما کا کام ہے جن میں یہ جاننے کی صلاحیت ہوتی ہے کہ کیا کسی مباح عمل میں کسی خاص قسم کا فساد اس حد تک سنگین ہو گیا ہے، جو اس عمل کی حرمت کا تقاضا کرتا ہے؟22 لیکن یہ فیصلہ ہوگا کیسے؟ وہ معیار کیا ہے جس کی اساس پر کسی مباح عمل کو احتیاطی بنیادوں پر حرام قرار دیا جائے؟ ان اہم سوالات کو موضوع بحث بناتے ہوئے مولانا تھانوی نے اپنے قارئین کے سامنے غور وفکر کے لیے ایک دلچسپ صورتِ حال رکھ دی ہے۔ انھوں نے درج ذیل فکری تجربہ تجویز کیا ہے۔

 فرض کرو ایک عمل بالذات اچھا اور نیک ہے، لیکن عوام اسے مکروہ اور قابل نفرت سمجھتے ہیں۔ اس لیے اس صورت میں اس بات کا قوی امکان ہے کہ جو کوئی بھی اس عمل کا ارتکاب کرے گا، اسے سماج کی طرف سے لعنت ملامت کا سامنا کرنا ہوگا۔ ایسی صورت میں اس عمل کے متعلق کون سا حکم ہونا چاہیے؟ کیا فقیہ اس عمل کو مباح قرار دے، اور اس تنازع سے صرف نظر کرے، جو اس عمل کے ارتکاب کی وجہ سے پیدا ہوسکتا ہے؟ یا وہ اس عمل کے ترک کرنے کی دعوت دے، تاکہ سماجی سطح پر اس کے ممکنہ نقصان دہ نتائج کا تدارک ہو سکے؟23

مولانا تھانوی نے بتایا کہ اس قسم کے عمل کو نہ تو مطلقاً حرام قرار دیا جا سکتا ہے اور نہ ہی علی الاطلاق مباح۔ یہ  سوال ایک سیدھے سادے جواب کے بجاے شریعت کے مصادر کی روشنی میں ایک پیچیدہ حل کا تقاضا کرتا ہے جو ان فقہا کا کام ہے جو یہ فریضہ سر انجام دے سکتے ہیں۔ تھانوی نے اپنے استدلال کو رسول اللہ ﷺ کی حیاتِ طیبہ کے دو واقعات پر بحث کے دوران واضح کیا جو ان کی راے میں ایسی صورتِ حال میں کسی فقیہ کے لیے دست یاب متعدد امکانات کو بہترین انداز میں بیان کرتا ہے۔ ان دونوں واقعات میں اس مباح عمل کا حکم بھی زیر بحث لایا گیا ہے، جو سماج کی طرف سے شدید تنقید کا سبب بنتا ہے۔ ان صورتوں میں سے ایک صورت میں نبی اکرم ﷺ نے ایک عمل کو چھوڑ دیا تاکہ یہ سماجی تشویش کا سبب نہ بنے۔ تاہم دوسری صورت میں انھوں نے باوجود ممکنہ خطرات کے ایک عمل کا ارتکاب کیا۔ یہی نظریاتی صورت دو مختلف نتائج فراہم کرتی ہے24۔

پہلا واقعہ حطیم کی دیوار کا مشہور مقدمہ ہے  جو مکہ میں خانہ کعبہ کے جنوب مغرب میں واقع ہے ۔ جب مسلمانوں نے 628 عیسوی میں مکہ کو فتح کیا تو رسول اللہ ﷺ کو ایک عمدہ موقع ملا کہ آپ اس دیوار کو خانہ کعبہ کی حدود میں شامل کر دیں۔اس وقت تک یہ دیوار کعبہ کی حدود سے باہر تھی۔ لیکن اس کام میں تعمیرِ نو سے پہلے خانہ کعبہ کو گرانا ضروری تھا۔ باوجود یہ کہ یہ عمل بظاہر اچھا تھا، لیکن نبی اکرم ﷺ نے فیصلہ کیا کہ تعمیرِ نو کے منصوبے کو ملتوی کر دیں۔ انھوں نے دلیل میں فرمایا کہ کعبہ کو گرانا مکہ مکرمہ کے مسلمانوں اور غیر مسلموں دونوں کو برہم کر سکتا ہے، جن کے لیے کعبہ بہت محترم ہے۔ بالفاظِ دیگر نبی اکرم ﷺ کو احساس تھا کہ اس مقام پر اسلام کی نوزائیدگی اور کمزوری کے باعث ممکنہ طور پر ایسے اشتعال انگیز عمل کو شروع کرنا حکمت کا تقاضا نہیں۔ اس لیے اگر چہ کعبے کی تعمیر نو اور اس کے اندر حطیم کی شمولیت درست اور جائز تھی، لیکن رسول اللہ ﷺ نے اس منصوبے کو ترک کرنا پسند کیا، کیوں کہ اس سے دشمنی اور افراتفری پیدا ہونے کا اندیشہ تھا۔

نبوی فیصلے اور خواہشات: اصلاح معاشرہ کی ذمہ داری

دوسرا واقعہ حضور ﷺ کے حضرت زینب بنت جحش (م 633) سے نکاح کا ہے جنھیں رسول اللہ ﷺ کے منہ بولے بیٹے اور اولین دور میں اسلام قبول کرنے والے حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ (م 629)  نے طلاق دی تھی25۔ یہ اسلام کی ابتدائی تاریخ میں ایک انتہائی قابل ذکر واقعہ ہے جو بیک وقت نبوت اور انسانی رشتوں کی قربت کے ایک باریک جال میں الجھا میں ہوا ہے۔ یہ رسول اللہ ﷺ کے ایک سابقہ غلام ( جسے بعد میں آپ نے اپنا منہ بولا بیٹا بنایا) کی بیوی سے نکاح کی خواہش کی ایک کہانی ہے۔  اس واقعے  کے دوران ان کے منہ بولا بیٹا ہونے کی نفی کی گئی اور وہ بیٹے سے ایک عام صحابی میں تبدیل ہوگئے (باوجود یہ کہ وہ  رسول اللہ ﷺ کے مقربین میں رہے)۔ جیسا کہ ڈیوڈ پاورز نے بتایا ہے کہ یہ کہانی اسلام میں نبوت کے تصور کے لیے گہرے مضمرات رکھتی ہے، اس لیے کہ اگر محمد (ﷺ) نے زید کے منہ بولے بیٹے ہونے کی نفی نہ کی ہوتی اور زید آپ ﷺ کے بعد زندہ رہتے تو اس کے نتیجےمیں خاندانِ نبوت کےاندر نبوت  جاری رہنے کا امکان ہوتا26۔ مولانا تھانوی نے حضرت محمد ﷺ، حضرت زینب اور حضرت زید رضی اللہ عنہما کے واقعے کو جس طرح دیکھا ہے، میں پہلے اس کی طرف توجہ کرتا ہوں، اور پھر کہانی کے ان پہلوؤں کو سامنے لاؤں گا جو انھوں نے چھوڑ دیے ہیں، تاکہ اس کے تعبیری منہج میں موجود کچھ ممکنہ ابہامات کو نمایاں کر سکوں۔

مولانا تھانوی نے اپنی بحث کو اس نکتے پر مرکوز رکھا کہ حضرت زید رضی اللہ عنہ سے طلاق ملنے کے بعد رسول اللہ ﷺ نے زینب سے شادی کی (تھانوی ان وجوہات کے بارے میں  بات نہیں کرتے  جو اس طلاق کا سبب بنیں)۔ یہ عمل بدنامی کے اسباب سے بھرپور تھا کیونکہ اس دور کے 'جاہل عوام' اسے یوں خیال کر سکتے تھے کہ نبی اکرم ﷺ اپنی بہو کے ساتھ نکاح کرنے جا رہے ہیں۔ایک بار پھر رسول اللہ ﷺ کو ایک ایسی صورت حال کا سامنا تھا جس میں ایک جائز عمل عوامی تنقید اور تشویش کا سبب بن رہا تھا۔ تاہم حطیم کے واقعے کے برعکس اس صورت میں اللہ تعالی نے نبی اکرم ﷺ کو ہدایت کی کہ اس عمل کو سرانجام دیں، باوجودیکہ اس کے غیر یقینی نتائج ہو سکتے تھے27۔ اس لیے آپ ﷺ نے زینب رضی اللہ عنہا سے نکاح کے ایک جائز لیکن ممکنہ طور پر متنازع فعل کو انجام دیا۔

مولانا تھانوی واضح کرتے ہیں کہ ان دونوں صورتوں کی حرکیات تقریباً‌ یکساں ہیں ۔ دونوں صورتوں میں ایک جائز عمل کی وجہ سے سماج کی طرف سے لعنت وملامت کا امکان تھا۔ تاہم ان دونوں صورتوں میں جو فیصلے تھے، وہ یکسر مختلف تھے۔ ایک صورت میں ایک عمل کے انجام دینے پر تنازع کا امکان اس قدر قوی سمجھا گیا کہ اس کی وجہ سے اس عمل کو بالکل ترک کر دیا گیا، جب کہ دوسری صورت میں عمل کو انجام دے دیا گیا۔ مولانا تھانوی نے بتایا کہ یہاں جو اہم نکتہ یاد رکھنے کے قابل ہے، وہ یہ ہے کہ یہ فیصلہ کرنا کہ کسی جائز عمل کو صرف اس امکان کی بنیاد پر چھوڑا جا سکتا ہے کہ وہ سماج میں تشویش اور بے چینی کا سبب بنے گا، صرف ممتاز اہل علم کا کام ہے۔ بالفاظِ دیگر ایسے عمل سے جڑے ظاہری مصالح کے حصول سے پہلے ممکنہ طور پر کسی سماج میں اس سے پیدا ہونے والے انتشار پر غور وفکر کا سوال ایسا ہے جس کا جواب صرف اور صرف کامل ترین علما دے سکتے ہیں28۔ ایسا اس لیے ہے کہ ان معاملات میں حتمی یا تخمینی رائے موجود نہیں ہوتی، جیسا کہ اپنی اصل میں ان ایک جیسے معاملات میں رسول اللہ ﷺ کے مختلف فیصلوں سے ثابت ہوتا ہے۔

تاہم مولانا تھانوی نے صرف اس تشریح پر اکتفا نہیں کی۔  اپنے منفرد تحقیقی اسلوب میں وہ ایک قدم آگے بڑھ کر یہ قیاس آرائی کرتے ہیں کہ اللہ نے نبی اکرم ﷺ کو حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے شادی کا حکم دیا، جب کہ انھیں کعبہ کے اندر حطیم شامل کرنے سے منع کر دیا۔ دیکھا جائے تو یہ دونوں ایک جیسے جائز اعمال ہیں جن پر سماج کی طرف سے ناراضگی اور دشمنی کا خطرہ ہے۔ اس سوال کا جواب دینے کے لیے پہلے مولانا تھانوی نے خود کو مبارک باد دی کہ اس نے اس مسئلے کا حل تلاش کر لیا ہے۔ انھوں نے لکھا "الحمد للہ ان دونوں صورتوں کے درمیان فرق میرے سامنے واضح ہو گیا ہے"29۔ پھر وہ بتاتے ہیں کہ یہاں یہ سوال پوچھنا بے حد اہم ہے کہ کسی جائز عمل کو اس بنیاد پر ممنوع قرار دینے کا فیصلہ کہ وہ بدنامی اور لعن وطعن کا سبب بن جائے گا، اس بنیاد پر ہونا چاہیے کہ کیا وہ واجبات یا ضروریاتِ دین میں کسی شے کی تکمیل میں معاونت فراہم کرتا ہے یا نہیں۔ اگر  کرتا ہے تو پھر ان سے جڑے منفی نتائج کی پروا کیے بغیر انھیں ترک نہیں کرنا چاہیے۔ اس کے برعکس اگر کوئی عمل واجب نہیں، نہ ہی وہ دین کے ضروری واجبات کو پورا کرنے کا وسیلہ ہے، تو پھر سماج کی طرف سے طنز وتنقید کی روک تھام کو ترجیح ملنی چاہیے اور اس عمل کو ترک کر دینا چاہیے۔

مولانا تھانوی نے واضح کیا کہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے نبی اکرم ﷺ کا نکاح دینی اصلاح کا ایک اہم عمل تھا، جبکہ حطیم کو کعبہ میں شامل کرنا ایسا عمل نہ تھا۔ انھوں نے تاریخیت پر مبنی موقف اپناتے ہوئے کہا کہ اس زمانے میں  کسی کا اپنے منہ بولے بیٹے کی بیوی سے شادی کرنا ناجائز اور حرام سمجھا جاتا تھا۔ علاوہ ازیں یہ بد رسم اس قدر عام اور پختہ تھی جس کی بیخ کنی محض زبانی تنبیہ سے ممکن نہ تھی۔ اس کے لیے عملی اقدام ضروری تھا۔ اصلاحی مقاصد کے حصول کے لیے محض یہ کافی نہ تھا کہ نبی ﷺ زبانی اپنے پیغام کی تبلیغ کریں؛ انھیں اپنی تبلیغ کا عملی نمونہ بھی دکھانے کی ضرورت تھی۔ حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے آپ ﷺ کی شادی اسی طرح کا ایک اقدام ہے۔

 اس نکاح کی وجہ سے ایک فاسد رسم کی اصلاح کے لیے عملی نمونہ پیش کرنے سے دین کا ایک بنیادی مقصد پورا ہوا۔ اس لیے تھانوی کی نظر میں نبی ﷺ کو حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے نکاح کی بنیاد پر ممکنہ تنقید کے بارے میں کوئی پریشانی نہیں ہوئی۔ اس عمل سے جڑا اصلاح کا امکان تنقید کے پنہاں خطرے پر بھاری تھا۔ مولانا تھانوی نے جاری رکھتے ہوئے کہا کہ حطیم کو کعبہ میں شامل کرنے سے دین کا کوئی بنیادی مقصد پورا نہیں ہوتا تھا۔ اگرچہ یہ ایک جائز عمل تھا لیکن دین کے تحفظ یا اصلاح کے لیے یہ کسی بھی صورت میں اساسی نہ تھا۔ اس لیے اس صورت میں ایسے اقدام سے اشتعال پیدا ہونے کا جو شدید اندیشہ تھا، وہ اندیشہ ممکنہ فوائد کی بہ نسبت بڑھا ہوا تھا، اور اسی وجہ سے اس عمل کا ترک یا التوا جائز ٹھہرا30۔

مولانا تھانوی نے رسول اللہ ﷺ کی زندگی ایسے کئی دیگر واقعات پیش کیے ہیں جن میں آپ نے کسی عمل کو اس لیے ترک نہیں کیا کہ اس پر سماج کی طرف سے دباو کا سامنا ہو سکتا تھا۔ اس سلسلے میں سب سے جوہری مثال توحید کی طرف رسول اللہ ﷺ کی دعوت تھی۔ آپ کی برادری نے توحید خالص کے پیغام کا جواب شدید اور بے لاگ تردید کے ساتھ دیا، لیکن اس کی وجہ سے آپ نے اپنا پیغام نہیں چھوڑا۔ اسی طرح جب نبی اکرم ﷺ معراج سے واپس آئے تو آپ کی چچا زاد بہن ام ہانی نے، جن کے گھر سے آپ اس سفر پر روانہ ہوئے تھے، آپ سے تقاضا کیا کہ آپ اس واقعے کو اپنی قوم کے سامنے بیان نہ کریں، وگرنہ وہ آپ پر جھوٹ کا الزام لگائیں گے۔ لیکن آپ ﷺ نے ان کے مشورے کو قبول کرنے سے انکار کیا، کیونکہ پیغام نبوت کی تبلیغ کے لیے واقعۂ معراج کی اشاعت ضروری تھی۔ اس لیے جھوٹ کی تہمت اور الزامات کے باوجود، جو اس واقعے کو عوام میں بیان کرنے سے آپ پر لگنے تھے، آپ نے یہ واقعہ بیان کیا، کیونکہ اس سے دین کے ضروری مقاصد کی تکمیل ہوتی تھی اور اس وجہ سے اسے ترک نہیں کیا جا سکتا تھا31۔


حواشی

  1. اسماعیل، ایضاح الحق، 5 – 35۔
  2. خلیل احمد سہارن پوری، البراہین القاطعۃ علی ظلام الانوار الساطعۃ (کراچی: دار الاشاعت، 1987)، 30 – 170۔
  3. اسماعیل، ایضاح الحق، 5 – 35۔
  4. محمد زید ندوی، فقہ حنفی کے اصول وضوابط (کراچی: زم زم، 2003)، 125 – 26۔
  5. ایضاً۔
  6. یہاں پر تھانوی کا اشارہ معتزلہ کی طرف ہے۔
  7. ندوی، فقہ حنفی کے اصول، 125 – 26۔
  8. ایضاً۔
  9. اشرف علی تھانوی، بدعت کی حقیقت اور اس کے احکام ومسائل (لاہور: ادارۂ اسلامیات، 2001)، 62 – 63۔
  10. ایضاً، 43۔
  11. النووی، الاربعین، 5 – 7۔
  12.  اشرف علی تھانوی، بدعت کی حقیقت، 43۔
  13. اشرف علی تھانوی، مقالاتِ حکمت (لاہور: ادارۂ تالیفاتِ اشرفیہ، 1977)، 136۔
  14. ندوی، فقہ حنفی کے اصول، 135۔
  15. اشرف علی تھانوی، الافاضات الیومیۃ، 9 : 98۔
  16. محمد بن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ج 2، باب الوتر والنوافل (بیروت: دار الکتب العلمیۃ، 1994)، 6۔
  17. احمد بن علی بن حجر العسقلانی، فتح الباري شرح صحیح البخاري (بیروت: دار الکتب العلمیۃ، 2003)، 2 : 437۔
  18. ایضاً۔
  19. اشرف علی تھانوی، التبلیغ (دیوبند: ادارۂ تالیفاتِ اولیا، 1901)، 23۔
  20. ایضاً۔
  21. تھانوی، بدعت کی حقیقت، 62۔
  22. التبلیغ، 11 – 15۔
  23. الافاضات الیومیۃ، 9 : 48۔
  24. ایضاً۔
  25. زید کی زندگی اور رسول اللہ ﷺ سے ان کے تعلق کے بارے میں مسلمانوں کے بدلتے روایتی اظہارات کے ایک دلچسپ مطالعے کے لیے دیکھیے: ڈیوڈ پاورز، Zayd: The Little-Known Story of Muhammad’s Adopted Son (فلاڈلفیا: یونیورسٹی آف پینسلوینیا پریس، 2014)۔
  26. ایضاً، 95 – 123۔
  27. یہ قرآن کی آیت 33 : 37 کی طرف اشارہ ہے (سورۃ الاحزاب میں)، جس کے متعلقہ حصے کا ترجمہ کچھ یوں ہے: "پھر جب زید اس سے اپنی حاجت پوری کر چکا تو ہم نے تجھ سے اس (زینب) کا نکاح کر دیا، تاکہ مسلمانوں پر ان کے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں کے بارے میں کوئی گناہ نہ ہو، جب کہ وہ ان سے اپنی حاجت پوری کر لیں"۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے نبی ﷺ کو حضرت زینب سے شادی کا اشارہ دے دیا ہے، اور یہ آیت ان نایاب مواقع میں سے ہے، جہاں مسلمانوں کے ابتدائی معاشرے کے ایک فرد یعنی حضرت زید رضی اللہ عنہ کو نام سے یاد کیا گیا۔
  28. تھانوی، الافاضات الیومیۃ، 48۔
  29. ایضاً۔
  30. ایضاً۔
  31. ایضاً۔


آراء و افکار

(فروری ۲۰۲۳ء)

تلاش

Flag Counter