مطیع سید: ایک روایت میں آیا ہے کہ کھیتی کا آلہ دیکھ کر آپﷺ نے فرمایاکہ جس گھر میں یہ آجائے، وہ ذلیل ہو جاتاہے۔1
عمارناصر: اس کا ایک خاص تناظر ہے جو بعض دوسری روایتوں میں زیادہ وضاحت سے آیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ صحابہ کی جماعت پر جو جہاد کی ایک ذمہ داری ڈالی گئی تھی، اس میں یہ کھیتی باڑی سے اشتغال خاص طورپر رکاوٹ بن سکتا تھا۔ تبوک میں آپ نے دیکھا کہ نکلنا کتنا دشوار تھا اور منافقین نے تو حیلے بہانے سے جان ہی چھڑا لی۔ اس تناظر میں یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ آپﷺ نے یہ کہا کہ میرے بعد جب تک تم جہاد کرتے رہوگے، غلبہ پاؤ گے اور جب تم گایوں کی دم پکڑ لو گے اور کھیتی باڑی میں مشغول ہو جاو گے یعنی جہاد ترک کر دو گے تو عزت اور سرفرازی سے محروم ہو جاو گے۔ تو یہ اس کا اصل تناظر ہے، ایسا نہیں کہ اس میں فی نفسہ کاشت کاری کی کوئی مذمت کی گئی ہے۔
مطیع سید: مزارعت کے بارے میں صحیح بخاری میں دونوں طرح کی روایات ہیں 2۔ 3یہ دونوں باہم مخالف ہونے کے باوجود کیسے صحیح ہو سکتی ہیں؟
عمار ناصر: صحیح ہونے کا مطلب تو محدثین کے نزدیک یہ ہے کہ سند کے اعتبار سے دونوں ثابت ہیں۔ جہاں تک مضمون میں کسی ظاہری ٹکراو کا تعلق ہے تو اس سے روایت کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا، کیونکہ وہ سوال پھر روایت کی تشریح اور تطبیق سے متعلق ہو جاتا ہے۔ جمہور اہل علم کا کہنا ہے کہ مزارعت میں فی نفسہ قباحت نہیں ہے۔ ممانعت یا تو بعض خاص شکلوں کی، کی گئی تھی جن میں خرابی پائی جاتی تھی۔ مثلاً یا تو آپﷺ نے یہ دیکھتے ہوئے کہ اس طرح کے معاملوں پر بعد میں جھگڑا ہو جاتاہے، اس پہلو سے ممانعت فرمائی، یا یہ کہ آپﷺ نے اس بات کو زیادہ ترجیح دی کہ مالک اگر خود زمین کو کاشت نہیں کرناچاہ رہا تو پھر اپنے کسی بھائی کو دےدے تاکہ وہ کاشت کر لے اور پھر اس سے فصل میں حصہ وصول نہ کرے۔ یہ دو تین توجیہات ہیں۔ البتہ اس میں امام ابو حنیفہ کی رائے مختلف ہے، وہ اس کو فی نفسہ درست نہیں سمجھتے۔
مطیع سید: امام صاحب کس بنیاد پر اس کو فی نفسہ درست نہیں سمجھتے؟
عمار ناصر: ان کا استدلال یہ ہے کہ اس میں چونکہ زمین کی فصل کا ہی ایک حصہ بطور کرایہ طے کیا جاتا ہے اور اس کی مقدار معلوم نہیں تو اس طرح ایک طرح کا غرر کا پہلو آ جاتا ہے۔ بعض روایات میں اس طرح کے معاملے کے لیے ربا کی تعبیر بھی آئی ہے۔
مطیع سید: زمین کرایے پر دینے پر اختلاف ہے۔ صحابی فرماتے ہیں کہ حضرت ابو بکر اور امیر معاویہ کے دور تک ہم کرایے پر دیتے رہے ہیں۔ جب حضرت معاویہ نے منع کر دیا تو حضرت عبد اللہ بن عمر نے اعتراض کیا کہ اگر چہ وہ اس بات کا برامانیں لیکن یہ ایسا ہی ہے کہ ہم کرایے پر دیتے آئے ہیں۔4 اس کی ممانعت کیا کسی انتظامی بنیادپر کی گئی؟
عمارناصر: شاید وہ روایتیں جن میں مزارعت سے منع کیا گیاہے، ان کے سامنے وہ ہوں گی۔
مطیع سید: زمین کرایے پر نہیں دی جاسکتی، لیکن سونے چاندی کے عوض دی جاسکتی ہے۔ بات تو ایک ہی بن جاتی ہے۔
عمارناصر: نہیں، کرایے میں تھوڑی سی نوعیت بدل جاتی ہے۔ آ پ زمین کسی کو دیں دیں اور اس کی فصل ہی کا ایک حصہ بطور کرایہ لیں تو اس کو مزارعت کہتے ہیں۔ آپ فصل نہ لیں، بلکہ الگ سے سونا یا چاندی کی صورت میں کرایہ وصول کر لیں تو یہ مزارعت نہیں ہے۔ ان دونوں میں فرق ہے۔ پہلی صورت میں تو آپ کو پتہ نہیں کہ آپ نے کتنا کرایہ وصول کرنا ہے، یعنی فصل کی مقدار معلوم نہیں جو آپ کو کرایے کے طور پر ملے گی۔ جو فصل ہوگی، اسی میں آپ تناسب طے کر سکتے ہیں۔ جبکہ سونے چاندی کی صورت میں آپ کو ملنے والی رقم پہلے سے متعین ہوتی ہے۔
مطیع سید: جیسے ہمارے ہاں ایک ایکڑ چالیس پچاس ہزار سالانہ کرایے پر دیتے ہیں۔
عمارناصر: جی، اس کے جواز کے سب قائل ہیں۔
مطیع سید: حمیٰ کون سا علاقہ ہےجسے کہا گیاکہ یہ اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہے؟5
عمارناصر: حمیٰ کا مطلب ممنوعہ علاقہ ہو تا ہے، یعنی جس کو کسی مقصد کے لیے مخصوص کر لیا جائے۔ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ کسی علاقے کو اس طرح کسی شخص یا کسی مقصد کے لیے مخصوص قرار دینے کا اختیار صرف اللہ اور رسول کو ہے، لوگ اپنے طور پر یہ تخصیص نہیں کر سکتے۔ عرب میں یہ ہوتاتھا کہ یہ حق سر دار کو دیاجاتا تھا کہ وہ کسی خاص جگہ کے متعلق کہہ دیتا تھا کہ یہ میری ہے، اس میں کوئی دوسرا شریک نہیں ہوگا۔ جب ریاست بن گئی تو آپﷺ نے فرمایا کہ اب یہ حق صرف ریاست کے پاس ہوگا۔ یعنی مقامی سرداروں کو جو حق تھا، وہ اب ریاست کو منتقل ہو گیا ہے۔
مطیع سید: اسے وقف کہہ سکتے ہیں؟
عمارناصر: نہیں، یہ وقف نہیں ہے۔ اس کا مطلب ہے انتظامی طور پر کسی مقصد کے لیے علاقے کو خاص کر دینا۔ اس کو بعد میں بدلا بھی جا سکتا ہے۔ وقف کی نوعیت مستقل ہوتی ہے، اس کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔
مطیع سید: خیاِرِ بیع میں حدیث تو اختیار دیتی ہے کہ جب تک مجلس بر خاست نہیں ہوجاتی آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ مجھے یہ سودا منظور نہیں ہے۔6 لیکن احناف کہتے ہیں کہ جب عقد ہو گیا اور آپ نے کہہ دیا کہ میں نے یہ چیز لے لی توپھر آپ کو بیع فسخ کرنے کا اختیار نہیں ہے۔
عمارناصر: بعض احناف تو اس اختیار کو بالکل رد کر دیتے ہیں لیکن امام ابو یوسف کہتے ہیں کہ یہ اصل میں قانون کا بیان نہیں ہے۔ یہ اچھے برتاؤ کی ترغیب ہے۔ یعنی اگر چہ عقد ہو چکا ہے، لیکن شریعت آپ کو ترغیب دیتی ہے کہ اسی مجلس میں اگر دونوں میں کوئی فرق چاہے تو معاملے کو ختم کر سکتا ہے۔
مطیع سید: انہی پہلوؤں سے مجھے یہ احساس ہوتا ہے کہ بعض اوقات حدیث کے ظاہرپر عمل کرنے میں آسانی ہوتی ہے لیکن فقہا خوامخواہ اس کی گہرائی میں جاکر بات کو الجھا دیتے ہیں۔
عمارناصر: جی، بعض جگہ ایسا ہی محسوس ہوتا ہے۔
مطیع سید: آپﷺ نے تر اور خشک کھجور کا آپس میں تبادلہ کرنے سے منع فرمایا اور صرف عرایا میں اس کی اجازت دی۔7 یہ عرایا کیا چیز ہے؟
عمارناصر: عرایا کی تشریح میں فقہا کی مختلف تشریحات ہیں۔ امام مالک اس صورت یہ متعین کرتے ہیں کہ ایک شخص نے اپنے باغ کا کوئی درخت کسی شخص کو بیچا ہو، لیکن پھر اس کے وقت بے وقت باغ میں آ کر پھل اتارنے سے دقت محسوس کرے اور اس سے بچنے کے لیے اسے پیش کش کرے کہ پھل کٹنے تک درخت پر جتنا پھل لگے گا، اس کا اندازہ کر کے تم مجھ سے وصول کر لو اور باغ میں نہ آیا کرو۔ امام مالک کے نزدیک ایسا کرنا درست ہے اور وہ حدیث میں بیان ہونے والی رخصت کو عام قانون سے ایک استثنا قرار دیتے ہیں۔ احناف کی تشریح اس سے کچھ مختلف ہے۔
مطیع سید: احناف کی کیا تشریح ہے؟
عمارناصر: وہ یہ ہے کہ باغ کا مالک اپنے باغ کے کچھ درخت کسی غریب خاندان کو دے دیتا تھا کہ یہ تمھارے استعمال کے لیے ہیں۔ اب پھل تو درخت پر لگا ہوا ہے، اس لیے وہ اپنی ضرورت کے تحت کبھی دن کو کبھی شام کو کھجور اتارنے کے لیے آ جاتے ہیں جس سے مالک کو تنگی ہوتی ہے۔ اس میں آپﷺ نے رخصت دی کہ اگر درخت کا مالک درخت پر لگے ہوئے پھل کے بدلے میں انھیں اندازے سے اتاری ہوئی کھجوریں دے دے تاکہ وہ بار بار نہ آئیں تو یہ درست ہے۔ اس میں چونکہ کوئی کاروباری لین دین نہیں ہو رہا جس میں مقدار کی کمی بیشی سے کسی کا حق مارا جائے، اس لیے اس کا جواز ہے۔
مطیع سید: اگر کوئی آدمی مفلس ہو جائے اور بائع اس کے پاس اپنا مال دیکھے تو وہ اس کا زیادہ حق دار ہے۔8 یہ بات سمجھ میں نہیں آئی۔
عمارناصر: اس کی صورت یہ ہے کہ ایک آدمی ہے، اس کے ذمے لوگوں کے بہت سے واجبات ہیں، لیکن وہ دیوالیہ ہوگیا۔ اس کا سامان تجارت ڈوب گیا یا بر باد ہوگیا اور وہ دیوالیہ ہوگیا۔ اب حق دار آئیں گے اور جو کچھ بھی اس کے پاس پڑا ہوا ہے، اس میں سے اپنا حق وصول کریں گے۔ ان حق داروں میں سے وہ ایک دکاندار بھی ہے جس نے اس کوکوئی چیز بیچی تھی، لیکن ابھی رقم وصول نہیں کی تھی۔ اگر اس کی و ہ چیز بعینہ ویسے ہی موجود ہے تو حدیث میں کہا گیا ہے کہ اس پر بیچنے والے کا پہلا حق ہے، وہ اپنی چیز واپس لے سکتا ہے۔ اس چیز کو سارے حق داروں میں مشترک نہیں سمجھا جائے گا۔
مطیع سید: آپ ﷺ نے پچھنے لگانے والی کی کمائی کو برا کہا، لیکن خود لگوائے تو اس کی اجرت بھی ادا کی بلکہ جو طے ہوئی تھی اس سے زیادہ دی۔9 اس کا کیا مطلب ہے؟
عمارناصر: اصل میں پچھنے لگاتے ہوئے منہ سے خون چوسنے کا جو کام کرنا پڑتاتھا، اس سے گھن محسوس ہوتی ہے۔ اس کو آپﷺ نے طبعاً ناپسند فرمایا کہ یہ کام کرکے کوئی پیسے کمائے، لیکن بہرحال ایک پیشےکے طور پر یہ جائز تو ہے اور اگر آپ نے کسی سے پچھنے لگوائے ہیں تو اس کی اجرت تو دینی ہے۔
مطیع سید: بلی کی تجا رت آپﷺ نے کیوں منع فرمائی؟10 اسی طرح ایک موقع پر کتوں کو مارنے کا حکم بھی دیا۔11 صحابہ نے کہا کہ پھر ہم نے کوئی کتا نہیں چھوڑا سوائے چند ایک کے۔
عمارناصر: پیغمبر کی جو نفیس طبیعت ہوتی ہے، اس کے لحاظ سے کچھ چیزیں اس کو ناگوار گزرتی ہیں۔ اس پہلو سے بعض اوقات وہ لوگوں سے بھی کہہ دیتا ہے کہ ایسا نہ کرو، لیکن اس کو شریعت کا عام حکم نہیں بنا یاجاسکتا۔
مطیع سید: لیکن جو کتوں کو مارنے کا حکم فرمایا، اس کی کیا وجہ تھی؟ کیا ان کے کلچر میں یہ با ت عام ہو گئی تھی کہ وہ کتوں کو بہت زیادہ پسند کر نے لگے تھےجیسے آج کل یورپ میں ہے؟
عمارناصر: اس کے تو مختلف پس منظر قیاس کیے جا سکتے ہیں۔ البتہ اصولی بات یہ ہے کہ یہ حکم کوئی عمومی حکم نہیں ہے کہ آپ ہر جگہ اس کو لاگو کر دیں۔ یعنی انسانوں کے ماحول میں کتے نہ ہوں اور آپ کو نظر نہ آئیں، یہ شریعت کا منشا نہیں ہے۔ کوئی خاص وجہ تھی جس کے تحت آپﷺ نے کتے رکھنے سے منع کیا اور عبوری طور پر ان کو مار دینے کا بھی حکم دیا، پھر اس میں آہستہ آہستہ تخفیف کردی۔ اب وہ وجہ کیاتھی، یہ ہمارے قیاسات ہیں۔ بعض شارحین کہتے ہیں کہ کتے تعداد میں بہت زیادہ ہوگئے تھے۔ تو ایسی صورت میں ہم بھی یہی کرتے ہیں۔ جب آوارہ کتے زیادہ ہوجاتے ہیں تو ان کو مار دیا جاتا ہے۔ بعض دفعہ جانور کسی وبا کو پھیلانے کا سبب بن جاتے ہیں، جیسے چوہوں سے طاعون پھیل جاتا تھا۔ ممکن ہے، ایسی کوئی بات ہو۔ تو مختلف قیاسات ہو سکتے ہیں۔
مطیع سید: سیاہ کتے کے بارےمیں نبیﷺ نے خصوصی تاکید فرمائی کہ اس کو ضرور قتل کرو، یہ شیطان ہے۔12 سیاہ رنگ کے کتے سے شیطان کا کیا تعلق ہے؟
عمارناصر: بعض جانوروں کے ساتھ جنات اور شیاطین کی خاص مناسبت بھی ہوتی ہے۔ تو اگرا س طرح کا ماحول ہے کہ کتے گھر کے اندر اور باہر ہر جگہ آجا رہے ہیں تو اس تناظر میں آپﷺ نے اگر یہ فرمایا کہ ان کے ساتھ شیاطین کا بھی آنا جانا ہے، اس لیے ان کو خاص طور پر مار دو تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے۔
مطیع سید: حضرت جابر فرماتےہیں کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر سے واپس آ رہا تھا۔ میرا اونٹ تیز نہیں چل رہاتھا۔ آپﷺ نے وہ اونٹ مجھ سے خرید لیا، لیکن مدینہ پہنچ کر وہ مجھے واپس دےد یا اور اس کی قیمت کے پیسے بھی دے دیے، بلکہ کچھ رقم عطا فرمائی جو میں نے برکت اور نشانی کے طور پر سنبھال کر رکھ لی۔ پھر وہ رقم واقعہ حرۃ میں کوئی چھین کر لے گیا۔13 اس سے تو لگتا ہے کہ واقعہ حرہ میں نہ صرف مدینے میں قتل وغارت ہوئی بلکہ لوٹ مار بھی خوب ہوئی کہ عموماً َایسی قیمتی چیزوں کو گھر کےاندر ہی کہیں چھپا کر رکھا جاتا ہے۔
عمارناصر: جی، ایسا ہی ہوا۔ چونکہ مدینہ کے لوگوں نے یزید کی بیعت توڑ دی تھی، اس لیے ان کو باغی قرار دیا گیا۔ پھر فوج آکر باغیوں کی جان ومال کو بھی مباح کر لیتی ہے اور سب کچھ تہس نہس کر دیتی ہے۔ اسی طرح اس موقع پر بھی ہوا۔ نمازیں بھی لوگ کئی دن تک چھپ کر اور انفرادی طور پر پڑھتے رہے۔
مطیع سید؛ جانور ادھار لے کر اس کے بدلے میں بعد میں دوسرا جانور دے دیا جائے، اس کا حدیث میں جواز آتا ہے14 لیکن احناف اسے جائزقرا ر نہیں دیتے۔
عمارناصر: اس مضمون کی بعض احادیث بھی ہیں جن کی صحت مختلف فیہ ہے۔ احناف ان پر بنیاد رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ احناف یہ نکتہ بھی پیش کر سکتے ہیں کہ جو آپ نے جانور لیا ہے، اس کے بدلے میں بعد میں جو جانور واپس کریں گے، وہ ظاہر ہے مقدار میں بعینہ ویسا تو نہیں ہوگا۔ اس لیے اس میں ربا کا شبہ پیدا ہو جاتا ہے۔
مطیع سید: جو عصر کے بعد کوئی چیز بیچے یا جھوٹی قسم کھائے، اس کے لیے وعید وارد ہوئی ہے۔15 جھوٹی قسم تو سمجھ میں آتی ہے، لیکن یہ عصر کے بعد قسم کھانے کا کیا مطلب ہے؟
عمارناصر: بعض دفعہ عملی صورت حال کوسامنے رکھتے ہوئے کوئی بات کہہ دی جاتی ہے، یہ کوئی قید نہیں ہوتی۔ عام طورپر عصرکے بعد لوگوں کی کوشش ہوتی ہے کہ کام سمیٹیں اور نمٹا کر گھر نکلیں۔ تو دن کے وقت ایمانداری سے کام کر لیا، لیکن عصرکے وقت سامان وغیرہ سمیٹنا ہے تو کچھ غلط بیانی سے کام لے کر یا قسم وغیرہ کھا کر سامان بیچنے کا داعیہ پیدا ہو سکتا ہے۔ اس صورت حال کو سامنے رکھ کر حدیث میں وعید بیان کی گئی ہے۔
حواشی
- صحیح البخاری، کتاب الحرث و المزارعۃ، باب من ما یحذر من عواقب الاشتغال بآلۃ الزرع او مجاوزۃ الحد الذی امر بہ، رقم الحدیث: 2321، ص: 599
- صحیح البخاری، کتاب الحرث والمزارعۃ، باب فضل الزرع والغرس اذا اكل منہ، رقم الحدیث: 2320، ص: 599
- صحیح البخاری، کتاب الحرث و المزارعۃ، باب من ما یحذر من عواقب الاشتغال بآلۃ الزرع او مجاوزۃ الحد الذی امر بہ، رقم الحدیث: 2321، ص: 599
- صحیح البخاری، كتاب الحرث والمزارعۃ، باب ما كان من اصحاب النبی صلى الله عليہ وسلم يواسی بعضہم بعضا فی الزراعۃ والثمرة، رقم الحدیث: 2343، ص: 604
- صحیح البخاری، کتاب الشرب والمساقاۃ، باب لا حمى الا لله ولرسولہ صلى الله عليہ وسلم، رقم الحدیث: 2370، ص: 611
- صحیح البخاری، كتاب البیوع، باب البيعان بالخيار ما لم يتفرقا، رقم الحدیث: 2111، ص: 550
- صحیح البخاری، كتاب البیوع، باب تفسير العرايا، رقم الحدیث: 2192، ص: 565
- صحیح البخاری، كتاب فی الاستقراض، باب اذا وجد مالہ عند مفلس، رقم الحدیث: 2402، ص: 618# صحیح البخاری، كتاب فی الاستقراض، باب من اجرى امر الامصار على ما يتعارفون بینہم فی البيوع والاجارة، رقم الحدیث: 2210، ص: 568
- صحیح مسلم، كتاب المساقاۃ، باب تحريم ثمن الكلب وحلوان الكاہن ومہر البغی والنہی عن بيع السنور، رقم الحدیث: 1569، جلد: 3، ص: 1199
- صحیح البخاری، كتاب بدء الخلق، باب اذا وقع الذباب فی شراب احدكم فليغمسہ، رقم الحدیث: 3323، ص: 845
- صحیح مسلم، كتاب الصلاۃ، باب قدر ما يستر المصلی، رقم الحدیث: 510، جلد: 1، ص: 365
- صحیح مسلم، كتاب المساقاۃ، باب بيع البعير واستثناء ركوبہ، رقم الحدیث: 1599، جلد: 3، ص: 1222
- صحیح مسلم، كتاب المساقاۃ، باب من استلف شيئا فقضى خيرا منہ، رقم الحدیث: 1600، جلد: 3، ص: 1224
- صحیح البخاری، کتاب الشرب والمساقاۃ، باب من رأى ان صاحب الحوض والقربۃ احق بمائہ، رقم الحدیث: 2369، ص: 610
(جاری)