مولانا گیلانی اور شیخ اکبر ابن عربی (۱)

مولانا طلحہ نعمت ندوی

یہ عنوان مختصر ہے لیکن تہ دار اور وسیع المعانی، ایک طرف شیخ اکبر ابن عربی کی جامع ومعرکہ آرا شخصیت، ایک طرف بر صغیر کے نامور عالم دین مولانا مناظر احسن گیلانی، جنہیں خود ان کے رفیق دیرینہ مولانا عبدالباری ندوی نے وقت کاابن عربی قرار دیا تھا، وہ ابن عربی کے عاشق تھے بلکہ عاشق زار، ان کے ذکر پر بے اختیار ہوجاتے، جب جب نام سنتے یا ان کے انتساب سے کسی کا نام ان کے کانوں میں پڑتا تو پھڑک اٹھتے، کاش کہ ان کے سدا بہار وپرفیض قلم سے ابن عربی کے احوال وافکار اور ان کے خیالات وآراء کی توضیح مرتب شکل میں ہوگئی ہوتی، ابن عربی پر اس دور میں برصغیر میں جیسا مطالعہ مولانا کا تھا شاید ہی کسی کا رہا ہوگا۔

اگرچہ ابن عربی کے حوالہ سے ہندوستان بالکل تہی مایہ نہیں رہا ہے، ان کے ابتدائی دور ہی سے ان کے افکارکی خوشبو اس ملک میں آنے لگی تھی، چشتیہ اور قادریہ سلاسل کے اولین بزرگوں میں تو نہیں لیکن اس کے معاً بعد آٹھویں، نویں صدی ہجری میں ان کے افکار یہاں کے صوفیہ کا موضوع بحث بننے لگے تھے، حضرت سید علی ہمدانی اور مخدوم جہانگیر اشرف سمنانی، شیخ ابوالمحاسن شرف الدین دہلوی اور سید محمد گیسو دراز نے ان کو باضابطہ یہاں متعارف کرایا، ان کے آراحضرت مخدوم الملک شرف الدین احمد بن یحییٰ منیری کے یہاں تو ان کا ذکر نہیں ملتا لیکن ان کے سلسلہ کے تیسرے بزرگ اور خلیفۃ الخلیفہ حضرت حسین بن معز بلخی معروف بہ حسین نوشہ توحید نے اپنی تحریروں میں جو کچھ لکھا ہے وہ گرچہ نام نہیں لیتے لیکن ان کے افکار حضرت ابن عربی ہی کے خیالات کا عکس نظر آتے ہیں، بالخصوص جو کچھ انہوں نے اپنی کتاب حضرات خمس میں لکھا ہے، وہ اس باب میں قابل ذکرہے۔ البتہ یہ بات قابل ذکر ہے کہ انہوں نے اپنے شیخ حضرت مظفر شمس بلخی کے ساتھ حجاز میں بھی ایک عرصہ گذارا تھا، لیکن ان کی تحریروں میں ابن عربی کا نام کہیں نظر نہیں آتا۔1

ان کے بعد شیخ محب اللہ الہ آبادی اس ملک میں ابن عربی کے سب سے بڑے ترجمان تھے، پھر تو ایک بڑی تعداد نظرآتی ہے جس نے فصوص الحکم اور فتوحات مکیہ کی شرح وتوضیح میں اپنا زور قلم اور قوت ذہن صرف کی ہے۔2

مولانا گیلانی کو ابن عربی سے ان کے دور آغاز ہی سے دلچسپی ہوگئی تھی اور وہ ان کی کتابوں اور تحریروں کا مطالعہ کرنے لگے تھے، اس مطالعہ کا محرک کیا ہوا، اس کا پتہ تو نہیں چلتا نہ مولانا کی کسی تحریرمیں اس کا اشارہ ملتا ہے، ا لبتہ ایسا لگتا ہے کہ ان کے محبوب استاد علامہ انور شاہ کشمیری جن کی نظر دیگر مصنفین اسلام کے ساتھ ابن عربی پر بھی بہت گہری تھی، ان کی صحبت اور علمی استفادہ اور ابن عربی کے تذکرہ نے ان میں یہ ذوق پیدا کیا ہو، مولانا لکھتے ہیں:

’’بہ ظاہر تصوف اور صوفیا کے متعلق خیال ہوتا تھا کہ اس طبقہ اوران کے علوم ومعارف سے شاہ صاحب کو شاید چنداں دلچسپی نہیں، لیکن وہی بھولے بسرے خیالات جو دماغ میں رہ گئے ہیں ان ہی میں سےدو باتیں میرے اندراس طرح جاگزیں ہوگئی ہیں، کہ تصوف کے نظری وعملی دونوں حصوں کے متعلق بعد کو جو کچھ بھی اس فقیر نے سوچا یا سمجھا زیادہ تر ان ہی دونوں کی روشنی میں سمجھا اور سوچا‘‘۔

پھر وحدت الوجود کا عنوان قائم کرکے لکھتے ہیں:

’’حادث (یعنی کائنات ومخلوقات ) کا قدیم (یعنی خالق جل مجدہ )سے کیا تعلق ہے، شاہ صاحب کے الفاظ میں ربط الحادث بالقدیم، یہی عنوان قائم کرکے اس سلسلہ میں کچھ فرماتے تھے، یہی تصوف کے نظری حصہ کا بنیادی واساسی مسئلہ تھا، پہلی دفعہ شاہ صاحب نے اس مغالطہ کا ازالہ فرمایا کہ عوام الناس خالق ومخلوق کے تعلقات کو صانع ومصنوع یا معمار ومکان کی مثال سے سمجھنا چاہتے ہیں، مصنوع اپنے باقی رہنے میں چوں کہ صانع کا محتاج نہیں رہتا، یعنی مکان کو مثلا بن جانے کے بعد معمار کی ضرورت باقی نہیں رہتی، عوام کی سمجھ میں صحیح طور پر اس لئے نہیں آتا کہ پیدائش میں تو عالم خدا کا محتاج ہےلیکن پیدا ہوجانے کے بعد عالم کو اپنی بقا میں خدا کی کیا ضرورت ہے، صوفیہ اسی وسوسہ کا ازالہ اپنے اس نظریہ سے کرتے ہیں، جو وحدت الوجود وغیرہ ناموں سے مشہور ہے، اور نہ جاننے والوں نے مشہور کررکھا ہے کہ صوفیہ وحدت الوجود کے جو قائل ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کا ایمان وحدت الوجود پر ہے، یعنی سارے موجودات ایک ہیں، حالاں کہ’’الوجود ‘‘ کی وحدت کو ’’الموجود‘‘ کی وحدت سےکیا تعلق؟

خاکسار نے اپنی کتاب الدین القیم میں اس وحدت الوجود کے مسئلہ کی جو تشریح وتفصیل کی ہے، سچی بات یہ ہے کہ بنیادی امور اس کے شاہ صاحب کی تقریر ہی سے ماخوذ ہیں‘‘۔3

نیز تصوف کا ذوق جو ان کے خمیر میں ابتدا ہی سےودیعت کردیا گیا تھا، اس نے بھی شیخ کی ذات وافکار سے انہیں قریب کیا تھا، بقول مولانا غلام محمد شاگرد حضرت گیلانی حضرت والا جذب کی دولت اپنے ساتھ ہی لیتے آئے تھے، اوروہ ’’مجذوب سالک‘‘ تھے۔4 ٹونک کے دور قیام میں ہی ان کو صوفیا کی کتابوں سے دلچسپی ہوگئی تھی، بالخصوص امام غزالی کی احیاء العلوم کے مطالعہ کا آغاز ہوگیا تھا جیسا مولانا کی تحریروں سے پتہ چلتا ہے لیکن ابن عربی سے اس دور میں ہی انہیں دلچسپی ہوگئی ہو اس کا کوئی ذکر نہ ان کی تحریر میں کہیں ملتا ہے نہ کسی اور تحریر سے اس کا علم ہوسکا۔

چنانچہ انہوں نے جب دارالعلوم دیوبند سے تکمیل تعلیم کے بعد وہاں کے ترجمان القاسم کی ادارت سنبھالی تو اس وقت اس میں انہوں نے ابن عربی پر کئی مضامین لکھے تھے، اور ان کی شخصیت سے اردو کے علمی حلقوں کو متعارف کرایاتھا۔5

القاسم میں اس سلسلہ سب سے پہلا مضمون اتحاد وحلول کی تشریح میں ملتاہے، جس کی تمہید میں علامہ شعرانی اور دیگر بزرگوں کے حوالہ سے ابن عربی کی کتابوں میں الحاقات کے اجمالی تذکرہ کے بعد ان کے نظریہ ٔ حلول اور وحدت وجود کی تشریح کی گئی ہے، اور یہ بتایا گیا ہے کہ ان کے قول کا مطلب بس اتنا ہے کہ ہے جس طرح روح کے بارے میں علماء امت کا یہ اختلاف رہا ہے کہ روح جسم میں ہے یا جسم سے باہر ہی رہ کر جسم کو کنٹرول کرتی ہے، شیخ ابن عربی کے بقول ’’روح کو جو تعلق عالم اصغر کے ساتھ وہی تعلق عالم اکبر کے ساتھ خدا کو ہے‘‘۔6

ان کے بقول عام متکلمین روح کے حلول وتجسم کے قائل ہیں لیکن شیخ ابن عربی روح کے تجرد کے قائل ہیں، اسی بنیاد پر انہوں نے خدا کی بھی مثال دی تھی کہ جس طرح روح کا تعلق جسم کے ساتھ ہے اسی طرح خدا کا تعلق اس عالم یعنی عالم اکبر کے ساتھ ہے۔ مولانا نے بھی بتایا ہے کہ روح کے جسم کے تعلق وتجرد پر مسلم ویونانی اور ایرانی فلاسفہ کے سیکڑوں مذاہب ہیں، ’’اور فلاسفہ مغرب نے اپنے اضافوں سے اسے دو چند بنا دیا ہے، افلاطون، ارسطاطالیس، امام غزالی، رازی وغیرہ روح کے تجرد کے قائل ہیں‘‘۔ امام ابن تیمیہ اور امام ابن القیم وغیرہ روح کے تجسم کے قائل ہیں۔7

مولانا مزیدلکھتے ہیں:

’’مسئلہ وحدت الوجود میں جو آئے دن غلط فہمیاں ہوتی رہتی ہیں، وہ زیادہ تر اسی قسم کی دجالانہ ریشہ دوانیوں، حاسدانہ عدواتوں کے نتائج ہیں۔ وحدت الوجود ایک صحیح مسئلہ تھا، عہد تصوف کی ابتدا سے اس کی بنا پڑ گئی تھی، لیکن چرچا اس قدر نہیں ہوا تھا، شیخ محی الدین عربیؒ آئے تو انہوں نے نہایت شاندار، پُر شوکت بیانوں میں اس پر روشنی ڈالی، اپنی مؤلفات کا بیشتر حصہ اسی مسئلے کی نذر کردیا۔ کائنات کے تمام اصول، قوانین کو زیادہ تر اسی پر مبنی کرنے لگے، الغرض مدارج سلوک کے اعتبار سے صوفیا پر جو احوال طاری ہوتے ہیں، شیخ نے بھی اپنی مختلف حالتوں میں اس مسئلہ کی مختلف حیثیتوں سے شرح کی، اور چونکہ اپنے زمانے میں اور بعد میں بھی عام اہل ملت پر پورا اثر تھا، ان کے اعتراف ولایت سے اکثروں کے دل لبریز تھے، ان کے ہر قول و فعل نے وہ رتبہ حاصل کیا تھا کہ بڑے بڑے اکابر علماء بھی بجز تسلیم کے اور کوئی چارہ نہیں پاتے تھے، یہی وہ موقعہ تھا کہ جہاں ان دجالوں کو کھیل کھیلنے کی گنجائش مل گئی۔ وحدت الوجود کا مسئلہ، صوفی کا کلام، ولایت کی دھاک، یہ تین چیزیں ایسی جمع ہو گئیں کہ ان متمردوں سے جو کچھ بھی ہو سکا کر گذرے، حتی کہ آج سمجھا جاتا ہے کہ اتحاد و حلول، وحدت الوجود دونوں ایک چیز ہے، اور یہ بالکل صحیح ہے کہ شیخ قدس سرہ کے بعض کلمات سے اس کا وسوسہ پیدا ضرور ہوتا ہے، حتیٰ کہ ان کی کتابوں میں کبھی ایسے الفاظ بھی ملتے ہیں جو ایک حد تک اتحاد و حلول پر المطابقہ دال ہیں‘‘۔8

مولانا نے ثابت کیا ہے کہ شیخ خود حلول کے سخت منکر ہیں اور ایسا کہنے والے کو مشرک کہتے ہیں اور اخیر میں علامہ شعرانی کے حوالہ سے لکھا ہے کہ حلول کے قائل تو بہت سے مشرکین بھی نہیں چہ جائے کہ شیخ اکبر۔ ان کی طرف اس طرح کی باتیں غلط منسوب کی گئی ہیں۔

انہوں نے القاسم والرشید ہی میں ابن عربی کے بعض نصائح کے ترجمےبھی شائع کیے تھے۔9

کرامت اولیاء کے سلسلہ میں بھی شیخ ابن عربی کے کلام کی تشریح کی ہے، اور اس سے قبل چند سوالات قائم کرکے لکھا ہے کہ معاصر دور کے ان کلامی سوالات کے جوابات شیخ کی اس تحریر میں مل سکتے ہیں۔10

شیخ کے نزدیک کرامت کی دو قسمیں ہیں کرامت حسیہ اور کرامت معنویہ۔ انہوں نے اس کے بعد بتایا ہے کہ شیخ کے نزدیک کرامت معنویہ اصل ہیں، کرامت حسیہ کی بہت زیادہ اہمیت نہیں ہے۔

یہ تمام مضامیں مولانا کے بالکل ابتدائی دور کے ہیں، اس کے بعد چالیس کی دہائی میں انہوں نے ابن عربی پر اپنے معمول کے خلاف عربی میں تقریباً‌ چالیس صفحات کا مفصل مضمون لکھا اور اس میں شیخ کے منہج اور ان کے طریقۂ کار کو پورے تاریخی پس منظر کی تفصیل کے ساتھ بیان کرنے کی کوشش کی، اس میں انہوں نے اپنے اب تک کے مطالعہ کا نچوڑ پیش کردیا ہے، اس کی تفصیل آگے ذکر کی جارہی ہے۔

سوانح اویس قرنی جو ان کی بالکل ابتدائی دور کی کتابوں میں ہے، اور فراغت کے چند سال بعد ہی لکھی گئی ہے، اور القاسم ہی میں شائع ہوئی تھی، اس میں بھی ابن عربی کی فتوحات کے حوالےا وراقتباسات ملتے ہیں، نیز مولانا کی اکثر کتابوں میں کہیں نہ کہیں ابن عربی کا ذکر عام طور پرملتا ہے، مقدمہ تدوین فقہ ہو یا الدین القیم ان سب میں اس کے حوالے موجود ہیں۔

الدین القیم کے بارے میں علامہ سیدسلیمان ندوی علیہ الرحمۃ کے ایک تبصرے پر ان کو ایک مکتوب میں لکھتے ہیں:

’’الدین القیم پر جناب والا کی رائے معارف والی پڑھی، ‘‘صوفیانہ علم کلام’’نام آپ نے خوب رکھا، مجھے اس کا خوف ہے کہ اپنے فطری اسہالی رنگ کے خوف سے پنسل برداشتہ والے اس مسودہ کو اسی اجمال واختصار کی حالت میں شائع کرنا پڑا، اہل بصیرت تو اندازہ کرلیتے ہیں، لیکن عوام بیچارہ کو اس کا صحیح اندازہ لگانا کہ کن کن مسائل میں نئی راہیں اختیار کی گئی ہیں ذرا مشکل ہے، گو بعضوں نے اعتراف کیا ہے کہ تقریبا کتاب کے دو ثلث مسائل ایسے ہیں جن کے دعاوی تو ٹھیٹ قرآن وحدیث سے ماخوذ ہیں۔ لیکن استدلال میں کسی کی تقلید نہیں کی گئی ہے۔ لیکن یہ بات آپ نے صحیح لکھی کہ متکلمین سے ہٹ کر در حقیقت حضرات صوفیہ کی زلہ ربائی کا یہ نتیجہ ہے، میرے پیش رو اس راہ میں شیخ اکبر اور مولانا اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ ہیں‘‘۔11

لیکن اس ذوق کو جلا اس وقت ملی اور یہ دوآتشہ بن گیا جب مولانا حیدرآباد پہنچے اور وہاں مولانا انوار اللہ خاں صاحب کےدرس میں شریک ہوئے اور ان سے استفادہ کیا، مولانا خود لکھتے ہیں:

’’مولانا انواراللہ خاں مرحوم کے یہاں رات کو فتوحات مکیہ کا سبق ہوتا تھا، حیدر آباد کےمشاہیر علماء اصحاب جبہ وعمامہ بڑ ی بڑی داڑھیوں کے ساتھ اس حلقۂ درس میں شریک ہوتے تھے، فقیر تو اسی مکان میں رہتا تھا، حلقہ درس کا ایک رکن میں بھی بن گیا ‘‘۔12

اور پھر بعد میں شیخ ابن عربی کے حالاً وقالاً ترجمان شیخ محمد حسین کی صحبتوں میں مستقل حاضرہوکر استفادہ کرنے لگے یہاں تک کہ ان کے خلیفہ مجاز ہوئے، مولانا منت اللہ صاحب رحمانی نےمکاتیب گیلانی میں ایک جگہ ان کاتعارف کراتے ہوئے لکھا ہے:

’’حضرت مولانا محمد حسین صاحب رحمۃ اللہ علیہ حیدرآباد کے ایک بڑے صاحب حال وقال بزرگ تھے، دوام حضور کا حال مقام بن گیا تھا، حیدرآباد میں گمراہ کن وجودیت کا بہت دور دورہ تھا، لیکن حضرت ممدوح کو جس سلسلہ سے تعلق تھا اس نے اس کی ایک خاص تعبیر وتعلیم اختیار کرکے گمراہیوں کی بڑی اصلاح کردی تھی، اسی کی تعبیر وتعلیم حضرت کا دن رات کاقال ہی نہیں حال تھا، اس کی دوسروں کو تفہیم وتلقین فرماتے رہتے ہیں، اور طریق صوفیا کی عام اذکاری واشغالی تعلیمات کو اس اطلاقی طریقہ کے مقابلہ میں اشغالی عقیدہ فرماتے اور اہل علم کے لئے خصوصاً پسند نہ فرماتے، در اصل یہ حضرت ابن عربی کے خاص فلسفیانہ تصوف وتوحید کا مسلک تھا، اور حضرت گیلانی کوحضرت شیخ سے اتنی خلقی وفطری مناسبت تھی کہ حضرت مولانا عبدالباری صاحب ندوی تو انہیں وقت کا ابن عربی ہی کہا کرتے تھے، یہاں تک کہ تحریری رنگ میں بھی مولانا کو فتوحات کی جھلک دکھائی دیتی تھی‘‘۔13

مولانا عبدالباری ہی کے نام ایک مکتوب میں مولانا گیلانی کے ذوق وجودیت کا اظہار بھی ہوا ہے، لکھتے ہیں:

’’آج کل نہ معلوم کیوں رب العالمین اور ربی الاعلیٰ پر دماغ متوجہ ہے، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ طبیعت، نیچر، فطرت، مادہ یہ شیر کے منہ کے پتھر تھے، ان کو حذف کردینے کے بعد رب اور مربوب میں کیا پردہ رہ جاتا ہے، اورمربوب سے رب کیا جدا ہوسکتا ہے، کیا درخت سے اس کی طبیعت، اس کا مزاج، اس کی صورت نوعیہ جدا ہوسکتی ہے، پرو رش کرنے والی قوت کو جب ’’ربی الاعلیٰ‘‘ کی تعبیر واضافت کےساتھ سونچتا ہوں توپستی میں بڑی بلندی محسوس ہوتی ہے، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اب میں صرف اپنی قوت کا پرستار ہوں، عجب حال ہے اس خودپرستی کا، مربوب اسی قوت مربیہ کا اثر معلوم ہوتا ہے ‘‘۔14

اس پر مولانا عبدالباری صاحب نے حاشیہ میں لکھا ہے ’’مولانا کے خاص مذاق توحیدی کے اشارات‘‘۔

ابن عربی سے ان کی عقیدت کا جو عالم تھا اس کا تذکرہ ان کے شاگرد مولانا غلام محمد نے ان الفاظ میں کیا ہے۔

’’قادری چشتی ہونے کی وجہ سے اپنے اکابر سلسلہ سے حضرت گیلانی کو جو تعلق تھا وہ تو تھا ہی، مگر شیخ اکبر حضرت محی الدین ابن عربی قدس سرہ کے تو وہ بالکل شیدائی تھے، حالت یہ تھی کہ مولانا ابوالحسن علی ندوی مدظلہ کا سفرنامہ مشرق وسطی جب جریدۂ صدق (لکھنؤ )میں چھپا مگر شہر دمشق کے تذکرہ میں شیخ اکبر ؒ کا کوئی ذکر نہ تھا، اس پر حضرت گیلانی نےفوراًایک خط میں بڑے سوز وحسرت سے اس مفہوم کا جملہ فرمایا تھا کہ، ’’یہ بھی تو مولانا نے لکھا ہوتا کہ ہمارے شیخ اکبر کےنام لیوابھی ابھی وہاں کچھ باقی ہیں یا نہیں‘‘۔15

مولانا کو ابن عربی سے جس قدر دلچسپی تھی اس کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ انہیں اپنے مشہور ہم وطن بزرگ مخدوم الملک حضرت شیخ شرف الدین احمد بن یحییٰ منیری کی ذات سے بھی عقیدت تھی، اور ان کے علوم پر عالمانہ نظر بھی، انہوں نے اس علاقہ سے نکلنے والے ایک ماہنامہ رسالہ فطرت (راجگیر، بہارشریف )کے پہلے شمارہ کے لئے مدیر مجلہ کی طلب پر فتوحات مکیہ کی طرح ’’فتوحات مخدومیہ‘‘ کے عنوان سے ایک اہم مضمون لکھا جو اس کے پہلے اور دوسرے شمارہ میں شائع ہوا، پہلاشمارہ جو ۱۹۳۳ء کے کسی مہینہ میں شائع ہوا تھا مجھے نہیں مل سکا، اس میں مولانا نے اپنے نام کی صراحت کے بجائے رمز استعمال کیا تھا، لیکن اس مضمون کی دوسری قسط راقم کی نظر سے گذری ہے، وہ حضرت مخدوم کے ایک اہم مجموعۂ ملفوظات’’معدن المعانی‘‘ کے اہم مباحث کی تشریح پر مشتمل ہے۔

تصوف واحسان کے مباحث پر مولانا کی معرکہ آرا کتاب’’مقالات احسانی‘‘ جس میں وہ صوفیہ کے زبردست وکیل نظر آتے ہیں، اس کا بیشتر حصہ بھی ابن عربی ہی کے افکار وعلوم کی شرح وتوضیح پر مشتمل ہے۔ وہ ابن عربی پر ایک مستقل تصنیف کا عزم کرچکے تھے، اور ان کی بڑی تمنا تھی کے ان کے حالات وافکار کی تشریح کرتے، لیکن افسوس کہ یہ ارادہ پورا نہ ہوسکا، ایک جگہ بہت حسرت سے لکھتے ہیں:

’’بجائے خود یہ ایک مستقل مضمون ہے، تفصیلات کے لئے دعا فرمائیے کہ شیخ اکبر رحمۃ اللہ علیہ کے علوم اور ان کے حالات پر عنفوان شباب سے ایک کتاب ہی کے لکھنے کی نیت کرچکا ہوں، لیکن خدا ہی جانتا ہے، اس پرانی آرزو کی تکمیل کا موقع ملتا بھی ہے یا نہیں۔ شیخ اکبر رضی اللہ عنہ جیسا کہ معلوم ہے، خاص اندلس (یورپ )سے وطنی تعلق رکھتے تھے، اندلس کے مشرقی ساحل پر اب بھی مرسیہ نامی شہر پایا جاتا ہے، جو خاص مسلمانوں کا آباد کیا ہوا شہر ہے، عربوں نے صحرائے عرب کی مشہور راجدھانی تدمیر کے پر اس یورپین شہر کانام بھی تدمیر ہی رکھا تھا، لیکن چلا نہیں، مرسیہ ہی کے نام سے مشہور ہوا، یہ علاقہ اندلس کا باغ سمجھا جاتا تھا، شیخ رحمۃ اللہ علیہ جس زمانہ میں پیدا ہوئے یہی وہ وقت ہے جب مسلمانوں کی سیاسی قوت کا یہ انتشار عیسائیوں کے لئے نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوا، بے حمیت امراء اندلس کی عیسائی حکومتوں سالانہ خراج ادا کرتے تھے، ان ہی میں مرسیہ کا نواب مرونیش بھی تھا، شیخ اسی خاندان کے عہد حکومت میں مرسیہ کے ایک علمی گھرانے میں رورنق افروز ہوئے، ابتدائی تعلیم کے بعد اشبیلیہ اندلس کے مغربی علاقے میں چلے گئے، وہاں کے تعلیمی مرکزوں سے مستفید ہوتے رہے، اندلس سے مسلمان اس زمانے میں مسلسل ہجرت کرکر کے افریقہ اور ایشیا یعنی مشرقی ممالک کی اسلامی حکومتوں میں پناہ لے رہے تھے، بارادۂ حج اندلس کو خیر باد کیا، اور مشرقی ممالک ہی میں گھومتے رہے، تاایں کہ دمشق میں وفات ہوئی‘‘۔16

افسوس کہ ان کے قلم سے اس کی شرح وتوضیح نہیں ہوسکی جس کا آغاز باضابطہ انہوں نے کردیا تھا۔ لیکن اس سے قبل بھی وہ بہت سے مضامین ابن عربی پر لکھ چکے تھےجن میں سے کچھ کا ذکر اوپر آچکا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مولانا کی کوئی تحریر عربی میں سوائے ابن عربی کے خیالات وافکار کی تشریح وترجمانی کے نہیں ملتی، اسی سے ان کی عربی انشانگاری کا اندازہ کیا جاسکتا ہے، تقریباً‌ چالیس صفحات کا یہ مفصل مضمون بجائےخود ایک رسالہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ جس میں پورے پس منظر کا جائزہ لینے کےبعد مولانا نے تفصیل سے بتایا ہے کہ ایسی صورت میں شیخ کے لئے اس کے علاوہ کوئی گنجائش نہیں تھی کہ وہ ظاہریت اختیار کریں اور ساتھ ہی وحدت قیومیت کی صدا لگائیں، شیخ نے اپنی تحریروں میں جو کچھ لکھا ہے وہ اس پورے ماحول کو سامنے رکھ کر اور اسلام کی عظمت رفتہ کو بحال کرنے کی خاطر لکھا ہے، انہوں نے بتایا ہے کہ ابن رشد کی وجہ سے اس ثنوی فکر کی ترویج ہورہی تھی، جو مسلمانوں کے درمیان رائج ہونے والے مشائی فلسفہ کی بنیاد تھی، اس لئے ضرورت تھی کہ وحدت قیومیت کی با ت کی جائے۔ یہ شیخ کا اساسی منہج ہے جو ان کی کتابوں میں نظر آتا ہے۔

مولانا نے شیخ کی پوری فکر کا خلاصہ ان الفاظ میں پیش کیا ہے:

  1. پہلا مسئلہ جو شیخ اپنی تصانیف میں با بار ذکر کرتے ہیں، اور اس کی توضیح کرتے ہیں، وہ عقل فکری کی انتہاء اور نظر انسانی کی حد پروازسے متعلق ہے۔
  2. دوسرا مسئلہ رد ثنویت و بت پرستی سےمتعلق ہے، یہی مسئلہ لوگوں کے درمیان وحدت الوجود کے نام سے مشہور ہو گیا ہے۔
  3. تیسرا مسئلہ قرآنی جنت و آخرت کی وہ تصویر کشی ہے جیسی قرآن و حدیث میں موجود ہے۔
  4. چوتھا مسئلہ اسرار تقدیر سے متعلق ہے، بالفاظ دیگر جسے مسئلہ خیر و شر سے تعبیر کیاجاتا ہے۔
  5. پانچواں مسئلہ ذات و صفات کے سلسلہ میں وارد نصوص کو تشبیہ و تنزیہ کے درمیان کی راہ متعین کرنے سے متعلق ہے، اور اس سلسلہ میں فرق ضالہ نے جو دسیسہ کاریاں کی ہیں ان کا ازالہ ہے۔

مولانا کے بقول ’’جاننے والے جانتے ہیں کہ ان میں اکثر مسائل کی اصل مشائی فلسفہ اور اس کے شکوک و شبہات کے دین پر غلط زہریلے اثرات اور باطل نتائج سے بچانے اور اس سےاٹھنے والے فتنہ کو ختم کرنا ہے ‘‘۔17

پھر اس کی توضیح کی ہے، کاش وہ اس پر مزید لکھتے اورانہیں پوری کتاب لکھ کر اس پر تفصیل سے روشنی ڈالنے کا موقع ملتا۔18

انہوں نے اس میں ایک اہم بات کا انکشاف کیا ہے وہ یہ کہ کا نٹ کا فلسفہ حضرت شیخ اکبر ہی سے ماخوذ ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’جس چیز کو دیکھ کرحیرت ہوتی ہے، اورآدمی مبہوت ہو کر رہ جاتاہے، وہ یہ ہے کہ یورپ والےاورجوان یورپ والوں کےطفیلی یاان کی ہاں میں ہاںملانےوالےہیں، ان سبھوں نےاس مسئلہ کی ایجادوتنقیح کاسہراجرمنی کےحکیم کانٹ کےسرباندھتے ہیں، اپنی قوم کےلئےاس چیزکویہ مایۂ فخروفضل بنائےہوئےہیں، لیکن جو لوگ دونوں سے واقف ہیں، اور دونوں پران کی نظر ہے، انہیں یہ کہنے میں تردد نہیں ہوگا، کہ جرمن فلسفی نے اس سلسلہ میں جو حقائق و نکات ذکر کئے ہیں، وہ شیخ کے لطائف و دلچسپ مباحث و نکات کے سامنے ایک سمندرکے قطرہ سے زیادہ نہیں معلوم ہوتے۔ ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گے کہ امام غزالی کی کتابیں اور شیخ ابن عربی کی تصانیف ہی ہیں جنہوں نے اہل یورپ کی اس طرف رہنمائی کی، جس کو انہوں نے معاصر اسلوب اور عصر ی قالب میں ڈھال کر پیش کر دیا۔ اس طرح کے مسائل میں انہوں نے کتنا سرقہ کیا ہے، اس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں، اگر موقع ملا تو اصل کتاب میں اس کی تفصیل و توضیح ذکر کی جائے گی، اور ان کا جائزہ لیا جائے گا، ان شاء اللہ‘‘۔19

جب مولانا کا یہ مقالہ شائع ہوا تو ان سے اس موضوع پر مزید روشنی ڈالنے کی گذارش کی گئی، چنانچہ انہوں نے اردو میں اس پر تفصیل سے لکھا’’شیخ اکبر ابن عربی کا نظریۂ علم‘‘ کے عنوان سے معارف کی دو قسطوں میں شائع ہوا۔ اس میں مولانا نے شیخ کے اقتباسات کے ذریعہ عقل انسانی کی حد پرواز اور دیگر مباحث پر روشنی ڈالی ہے۔

(جاری)

حواشی

  1. از افادات مولانا شاہ شمیم الدین احمد منعمی عظیم آبادی۔
  2. مولانا سید عبدالحي حسنی نے تاریخ الثقافۃ الاسلامیہ فی الہند میں فصوص الحکم کی شروح کا ذکر کیا ہے، جو حسب ذیل ہیں، شرح الفصوص شیخ علی ہمدانی کشمیری، فارسی، شرح حضرت گیسو دراز، مشروع الخصوص شرح الفصوص، شخ علی مہائمی، عین الفصوص شیخ شرف الدین دہلوی، عربی، نقش الفصوص شیخ شمس الدین دہلوی، شرح الفصوص حضرت جہانگیر اشرف کچھوچھوی، شرح الفصوص شیخ عبدالنبی شطاری، شرح ترجمۃ الفصوص شیخ عبدالنبی مذکور، شرح الفصوص شیخ محب اللہ الہ آبادی، عربی، انہیں کی دوسری فارسی شرح، شرح عبدالکریم سلطان پوری، شرح شیخ عبدالنبی نقشبندی سیام چوراسی، شخوص الحکم شیخ غلام مصطفیٰ تھانیسری دہلوی فارسی، شرح الفصوص علی وفق النصوص شیخ محمد افضل الہ آبادی، الطریق الامم شرح فصوص الحکم شیخ نورالدین گجراتی، شرح الفصوص شیخ علی اصغر قنوجی صدیقی، شرح شیخ طاہر بن یحییٰ عباسی الہ آبادی، تاویل المحکم شیخ محمد حسن امروہوی، شرح شیخ جمال الدین گجراتی، تایید الہمم فی شرح اربع کلما ت من فصوص الحکم شیخ محمد افضل الہ آبادی۔ (الثقافۃ الاسلامیہ فی الہند، ص۱۶۸، موسسۃ ہنداوی مصر ۲۰۱۲)، ان کے علاوہ شرح شیخ عبدالقدوس گنگوہی، سید عبدالاول دولت آبادی کی شرح، ملا عبدالعلی بحرالعلوم کی شرح، ان کے علاوہ شیخ عبدالکریم لاہوری اور مولانا احمد حسن کانپوری کی فارسی شرحیں قابل ذکر ہیں، اردو میں سب سے پہلے اس موضوع پر کس نے کام کیا اس کا صحیح علم نہیں، مولوی عبدالغفور دوستی بہاری، مولوی سید مبارک علی اور مولوی عبدالقدیر حیدرآبادی کے فصوص الحکم کے اردو ترجمےاس سلسلہ کی اولین کوشش کہے جاسکتے ہیں۔ تفصیل کے لئے دیکھئے خلیق احمد نظامی کا مضمون ابن عربی اور ہندوستان، شائع شدہ ماہنامہ برہان دہلی جنوری ۱۹۵۰ء۔ موصوف نے اس میں مذکورہ بالا شرحوں میں سے اکثر کا ذکر کیا ہے، اور شیخ علی ہمدانی کشمیری کی کوشش کو اس سلسلہ کی اولین کوشش قرار دیا ہے، گرچہ ان کے بقول ان سے قبل شیخ شمس الدین عارف کے یہاں سب سے پہلے شیخ ابن عربی کی تصانیف کا حوالہ ملتا جو حضرت شیخ بہاء الدین زکریا ملتانی کے متوسلین میں تھے۔ مولانا عبدالحی کی ذکر کردہ شروح کے علاوہ جو نام ہیں وہ اسی مذکورہ بالا مضمون سے ماخوذ ہیں۔ مزید جن کتابوں کا علم ہوا ان میں حاشیہ فصوص الحکم از شاہ عاشق علی عظیم آبادی، فارسی میں ہے، اور خانقاہ شاہ ارزاں میں موجود ہے۔ (نعمت ارزاں مقدمہ از شاہ حسین احمد، مطبوعہ خانقاہ شاہ ارزانی پٹنہ ۲۰۲۱ء)۔ شرح فصوص عربی از علیم اللہ بدایونی خلیفہ مولانا محمد اسلم جعفری کاکوی، دست خاص کا نسخہ کتب خانہ خانقاہ مجیبیہ پٹنہ میں موجود ہے۔ ان کاموں کے علاوہ ابن عربی کے فلسفہ بالخصوص فلسفہ وحدت الوجود پر یہاں بہت کام ہوا ہے۔ اس کے لئے خلیق احمد نظامی کامحولہ بالا مضمون ملاحظہ فرمائیے۔ خانقاہ مجیبیہ پٹنہ کے بزرگوں میں اس موضوع پر دو کام قابل ذکر ہیں ایک مواطن التنزیل از مولانا عبدالغنی منعمی اور ملا امر اللہ جعفری کی تحلیل المعضلات لابن عربی۔ الفیض التقی فی حل مشکلات ابن عربی، شاہ انور قلندر کاکوروی، فارسی مطبوعہ مطبع سرکاری رامپور ۱۹۱۲ء۔ اس کا اردو ترجمہ ڈاکٹر مسعود انور علوی کاکوروی کے قلم سے ۱۹۹۹ میں شائع ہوا۔ چودہویں صدی کے مشہور بزرگ شاہ پیر مہر علی گرلڑوی نے بھی فصوص الحکم کی شرح لکھی تھی۔
  3. احاطہ دارالعلوم میں بیتے ہوئے چند دن، ص ۹۳ مطبوعہ ادارہ تالیفات اشرفیہ ملتان، ۱۴۱۸ھ۔
  4. مقالات احسانی، ص، ۱۷، مکتبہ الحق بمبئی ۲۰۰۶ء
  5. ابن عربی پر سب سے پہلے اردو میں کب لکھا گیا اس سلسلہ میں کچھ کہنا مشکل ہے، تمام قدیم مجلات ورسائل کی مراجعت کے بعد ہی کوئی بات کہی جاسکتی ہے، جو آسان نہیں، البتہ دستیاب شواہد کے مطابق انیسویں صدی کے وسط سے اردو میں ابن عربی کے تعارف وتوضیح کا علم ہوتا ہے۔ البتہ جو قدیم تحریریں ملتی ہیں ان میں حسب ذیل قابل ذکر ہیں ۱۸۵۰ میں حیدر آباددکن کے مطبع محبوب شاہی سے شائع شدہ ترجمہ فصوص الحکم از ابن اولاد علی۔ سوانح حضرت شیخ اکبر محی الدین ابن عربی، مطبع کلاں ساڈھورہ پنجاب، ترجمہ فصوص الحکم محمد برکت اللہ لکھنوی مطبع مجتبائی، لکھنؤ، ٍ۱۹۰۹ء، ترجمہ فصوص الحکم از عبدالغفور دوستی بہار۔ فلسفہ ا بن عربی عبداللہ عمادی، تقریبا بیس صفحا ت کا رسالہ، تقریبا بیسویں صدی کے اوائل میں شائع ہوا۔ ترجمہ فتوحات مکیہ شائع از راولپنڈی، راجہ غلام قادر وفضل خاں، اسٹیم پریس لاہور سے ۱۹۲۷ میں شائع ہوا۔ اس کے بعد تو مختلف کتابیں، تراجم اور فلسفہ وحدت الوجود پر مضامین شائع ہوئے، جن کا استقصاء دشوار ہے۔
  6. مسئلہ اتحاد وحلول اور ابن عربی، ماہنامہ القاسم دیوبند، ذی الحجہ، ۱۳۳۴ھ ومحرم ۱۳۳۵ھ۔
  7. حوالہ سابق۔ محرم ۱۳۳۵ھ
  8. حوالہ سابق۔
  9. دیکھئے ماہنامہ القاسم دیوبند، ذی القعدہ وذی الحجہ ۱۳۳۴ھ۔
  10. یہ مضمون ماہنامہ الرشید ردیوبند کے شمارہ بیع الثانی ۱۳۳۵ھ میں شائع ہوا ہے۔
  11. مکاتیب گیلانی، مرتبہ مولانا منت اللہ رحمانی، مطبوعہ خانقاہ رحمانی مونگیر۔ ۱۹۷۲ء۔ ص۳۶۲
  12. احاطہ دارالعلوم میں بیتے ہوئے چند دن۔ ص۲۴۹۔ مطبوعہ ادارہ تالیفات اشرفیہ ملتان، ۱۴۱۸ھ۔
  13. مکاتیب گیلانی، محولہ بالا، ص ۱۲۵
  14. حوالہ سابق، ص ۲۱۳
  15. مقالات احسانی، ص ۱۹، مکتبہ الحق بمبئی ۲۰۰۶ء۔ ۔ یہ خط پرانے چراغ میں موجود ہے، (ص۷۹)، مطبوعہ لکھنؤ، ۲۰۱۰ء
  16. مقالات احسانی، ص ۲۹۷
  17. الشیخ الاکبر وطریقتہ مندرجہ المقالات السنیہ مطبوعہ دائرۃ المعارف حیدر آباد دکن، ۱۹۳۱ء۔
  18. راقم نے اس عربی مضمون کا اردوترجمہ کیا ہے، اور مولاناکی کسی تحریر کے اردو کا ترجمہ کا یہ پہلا اتفاق ہے جس میں ان کےب اسلوب کو اپنانے کی کوشش کی گئی ہے، نہیں معلوم کس حد تک کامیابی ہوسکی۔ اس مضمون میں جابجا انہوں نے اپنی مجوزہ تصنیف کا حوالہ دے کر بحث کو نامکمل چھوڑ دیا ہے، جیسے وہ اس کا پختہ عزم کرچکے تھے، لیکن لگتا ہے کہ مولانا کا دل کہہ رہا تھا کہ یہ کام مکمل نہیں ہوسکے گا۔ ان شاء اللہ یہ مضمون اور ابن عربی پر ان کے سارے مضامین جلد ہی ایک مجموعہ کی شکل میں شائع ہوں گے۔
  19. مقالہ الشیخ الاکبر، محولہ بالا۔ ص ۳۱


شخصیات

(فروری ۲۰۲۳ء)

تلاش

Flag Counter