صنف وجنس اور اس میں تغیر (۲)

مولانا مشرف بيگ اشرف

جنس کی تعیین کا پیمانہ: علم جینیات کی روشنی میں

ہماری موجود ہ گفتگو میں کلیدی کردار اس بحث کا ہے کہ کسی جنس کا تعین کیسے ہوتا ہے؟ظاہر ہے کہ ہم یہاں شرعی نقطہ نگاہ سے بات کر رہے ہیں، اس لیے ہمیں کتاب وسنت اور فقہا کے اجتہاد کی روشنی میں چیزوں کو دیکھنا ہے۔ تاہم اس سارے عمل میں موجودہ انسانی علم کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ جنس کے تعین کے حوالے سےچار  امکانات ہیں:

۱: جنسی اعضا ووظائف،

۲: کروموسومز اور

۳: ہارمونز

۴: نفسیاتی کیفیت

یہاں پہلے تینوں امور کا تعلق انسان کی عضویاتی ووظائفی جہت (فیزیولوجی اورآنٹولوجی)سے ہے اور آخری کا تعلق نفسیاتی جہت سے۔

سر دست ہم پہلے تین امور پر غور کریں گے!

اس وقت انسان کی جنس وظاہری اعضا سے متعلق معیاری علم جینیات کا ہے۔ اس علم کے مطابق انسان خلیوں سے بنا ہوا ہے اور ہر خلیے میں کروموسومز ہیں جو کسی بھی انسان کے جسمانی خصائص کی ہدایات کے حامل ہیں۔

ہر انسانی خلیے میں کروموسومز کے تئیس جوڑے ہوتے ہیں، یعنی چھیالیس کروموسومز۔ ان میں سے  پہلے بائیس جوڑے عضوی غیر جنسی کروموسومز کہلاتے ہیں. انہیں ایک سے بائیس تک نمبر دیے جاتے ہیں۔ جبکہ تئیسواں جوڑا انسانی جنس سے متعلق ہدایت کا حامل ہے ۔ عام طور سے، عورت  میں یہ جوڑا ایکس ایکس (XX) سے مل کر بنتا ہے جبکہ مرد میں ایکس وائے (XY) سے۔ عورت کے بیضے سے ہمیشہ ایکس آتا ہے جبکہ مرد کی منی سے ایکس بھی آ سکتا ہے اور وائے بھی۔ اس لیے، کہا جاتا ہے کہ جنسی ساخت  کا تعین باپ کی طرف سے ہوتا ہے۔

 یہ کروموسومز دراصل ایک دھاگے کی ہیئت میں ہوتے ہیں جن میں  انسان کا ڈی این اےگندھا ہوا ہوتا ہے  ۔ جینز پر مبنی نظریے کے مطابق انسان کے جسمانی اعضا دراصل اسی "ڈی این کے "کے مطابق تشکیل پاتے اور وظائف ادا کرتے  ہیں۔ آگے بڑھنے سے پہلے دو اصطلاحات پر غور کرتے ہیں:

جینوٹائپ(Genotype): جینز کا یہ سارا مجموعہ جو انسان کی ساخت سے متعلق ہدایات کا حامل ہے، اسے جینوٹائپ یا جینوم کہتے ہیں۔

فینوٹائپ(Phenotype): اس کے برعکس وہ ساخت واعضا جو اس جینوم سے وجود میں آتی ہے اسے فینوٹائپ کہتے ہیں۔یہاں لفظ "فینو" دراصل یونانی لفظ ہے جس کا مطلب چمکنا، آشکار ہونا، ظاہر ہونا ہے۔اور اسی لیے جینز کے نتیجے میں جس طرح انسان کی عضویاتی تشکیل ہوتی ہے اور اس کے اعضا نمو دار ہوتے ہیں اور عمل کرتے ہیں، اسے فینوٹائپ کہتے ہیں۔چناچہ کسی انسان کی آنکھ کا رنگ جو ہمیں نظر آتا ہے وہ حقیقت میں فینوٹائپ ہے جبکہ اس کے متوازی ہدایت جو انسان کے جینز میں موجود ہے وہ جینوٹائپ ہے۔یہ انسانوں کا معاملہ ہے جبکہ تتلی وغیرہ بعض پرندو ں میں  اور چھپکلی (ریپٹائل)کی نسل سے وابستہ بعض اقسام میں معاملہ برعکس ہے۔ نر میں یکساں جنسی کروموسومز ہوتے ہیں جنہیں زیڈ زیڈ (ZZ) سے ظاہر کیا جاتا ہے جبکہ مادہ میں مختلف ہوتے ہیں جنہیں زیڈ ڈبلیو (ZW) سے ظاہر کیا جاتاہے۔

یونانی زبان میں گٹھلی،خلیے کو  کیرنیو (karyon ) کہتے ہیں۔ وہی سے انسان کے کروموسومز کی مکمل تصویر سازی کو Karyotype کہا جاتا ہے۔

بہر حال، اس نظریے کے مطابق انسان کے فینوٹائپ  اور جینوٹائپ میں باہمی رشتہ ہے (وہ سببیت کا ہے یا محض زمانی ہم آہنگی  کا یہ فلسفہ سائنس کا موضوع ہے)۔ اس لیے، انسان کی عضویاتی تشکیل، اس میں کسی قسم کی کمی یا زیادتی یا بعض لوگوں میں پائے جانے والی استثنائی حالتوں (سنڈروم) کی تفسیر جینوٹائپ سے ہو گی۔اور خاص طور پر، جنسی کروموسوم سے انسانی اعضا میں  تفاوت رونما ہوتا ہے(Sex-linked)

جنیز کے علم میں جنس (سیکس) دراصل جنسی  فینوٹائپ کی طرف اشارہ ہوتا ہے۔ چناچہ مشہورجینیات کے استاد " بینجمن اے پیئرس "  اپنے کتاب  " Genetics: A Conceptual Approach"میں رقم طراز ہیں:

The term sex refers to sexual phenotype. Most organisms have two sexual phenotypes: male and female. The fundamental difference between males and females is gamete size: males produce small gametes, and females produce relatively large gametes Sex: Sexual phenotype: male or female.
….
We define the sex of an individual organism in reference to its phenotype

مفہوم: جنس   کی اصطلاح جنسی  جسمانی خصائص  اور ان کے وظائف کے  لیے برتی جاتی ہے۔ اکثر زندہ کائنات میں دو  طرح کے خصائص ہوتے ہیں: نر ومادہ۔ نرومادہ میں بنیادی فرق جرثومی خلیے کے حجم کا ہے: نر میں یہ چھوٹے ہوتے ہیں جب کہ  مادہ میں قدرے بڑے۔

جنس =جنسی ظاہری ساخت  ووظیفہ(فینو ٹائپ) = نر + مادہ

ہم(علم جینیات میں) کسی جاندار کی جنس اس کے ظاہری ساخت واعضا ووظائف سےطے کرتے ہیں۔

بینجمن مزید واضح کرتے ہیں کہ جنس کی اصطلاح اس فن میں انسانی ساخت (Anatomy) کے لیے کہی جاتی ہے۔ چناچہ عام طور سے، مردانہ ساخت کے پیچھے ایکس وائے(XY) ہوتے ہیں اور زنانہ ساخت کے پس پشت ایکس ایکس(XX)۔ لیکن بعض شاذ ونادر حالات میں مردانہ ساخت کے پس پشت ایکس ایکس ہوتے ہیں۔اس لحاظ سے، ایسا جاندار جینیاتی طور پر اگرچہ "مادہ "ہے لیکن ساخت کے لحاظ سے "نر" ۔تاہم ان شاذ ونادر حالات میں بھی (ایکس ایکس نر)وائے کروموسومز کا ایک ذرہ کسی دوسرے کروموسومز سے نتھی ہوتا ہے۔بینجمن کی سنیں:

For instance, the cells of human females normally have two X chromosomes, and the cells of males have one X chromosome and one Y chromosome. A few rare individuals have male anatomy although their cells each contain two X chromosomes. Even though these people are genetically female, we refer to them as male because their sexual phenotype is male. (As we see later in the chapter, these XX males usually have a small piece of the Y chromosome that is attached to another chromosome.)

مفہوم: مثلا انسانی مادہ کے خلیے میں عام طور سے دو ایکس کروموسومز ہوتے ہیں جبکہ نر میں ایک ایکس اور ایک وائے۔ کچھ شاذ ونادر صورتوں میں انسان کی ساخت نر کی ہوتی ہے لیکن اس کے خلیوں میں دونوں کروموسومز ایکس ہی ہوتے ہیں۔ اگرچہ یہ لوگ جینیاتی طور سے مادہ ہیں، لیکن ہم انہیں نر ہی شمار کرتے ہیں کیونکہ ان کی جنسی ساخت واعضا ووظائف  نر کے ہیں۔(آگے اسی باب میں ہم دیکھیں گے  کہ ان "ایکس ایکس" نر میں عام طور سے وائے کروموسومز کا ایک ٹکڑا کسی دوسرے کروموسوم سےلٹکا ہوا ہوتا ہے)۔

نیز  مصنف کے مطابق  ایسا بہر کیف ہوتا ہے کہ انسانی جینیاتی کروموسومز میں وائے نہ ہو، لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ اس میں ایکس نہ ہو۔ اور ان کا کہنا ہے کہ غالبا اس طرح کے جنین گر جاتے ہیں۔

اس کے بعد، مصنف جنس اور صنف کا فرق واضح کرتے ہیں کہ جنس دراصل کسی شخص  کی ساختیاتی وعضویاتی   ووظائفی جہت ہے جبکہ صنف کسی انسان کی سماجی جہت کی عکاس ہے۔  مثلا ایک انسان ساختیاتی وعضویاتی طور سے مرد ہے لیکن وہ ساڑھی پہننا ، مہندی لگانا، سینڈل پہننا پسند کرتا ہے۔ان کی دوبارہ سنتے ہیں:

Gender is not the same as sex. Biological sex refers to the anatomical and physiological phenotype of an individual. Gender is a category assigned by the individual or others based on behavior and cultural practices. One’s gender need not coincide with one’s biological sex.

مفہوم: صنف جنس سے الگ ہے۔ حیاتیاتی جنس کسی جاندار فرد کی ساختیاتی ووظائفی جہت کی طرف اشارہ ہے۔ کسی فرد ووغیرہ کی طرف سے رویے اور سماجی مظاہر  کی بنیاد پر جو عنوان اختیار کیا جاتا ہے، اسے صنف کہتے ہیں۔ ایک جاندار کی صنف کا اس کی حیاتیاتی جنس سے ہم آہنگ ہونا ضروری نہیں۔

اگرچہ یہ بات درست ہے کہ جنسی کروموسومز انسانی جنس کی تشکیل کے ذمے دار ہیں تاہم غیر جنسی کروموسومز بھی اس میں ذیلی کردار ادا کرتے ہیں۔اسی طرح، انسان میں جنس کی تشکیل کے لیے جو جین ذمے دار ہے اسے "ایس آر وائے"(SRY) کہا جاتا ہے جو عام طور سے، وائے کروموسوم پر پایا جاتا ہے۔اسی لیے، انسانی جنس کی تشکیل میں وائے کروموسوم کلیدی حیثیت رکھتا ہے اور جینیاتی استثنائی مظاہر(سنڈرومز) سے یہ بات مزید واضح ہو جاتی ہے۔ہم ذیل میں ان مظاہر کو سرسری طور سے دیکھتے ہیں۔ اور یہ ساری تفصیل بینجمن سے لی گئی ہے:

ٹرنر استثنائی مظہر (Turner Syndrome):

بعض اوقات زنانہ ساخت واعضا کے حامل انسان  میں (جسے ہم مادہ یا عورت کہتے ہیں) صرف ایک ایکس ہوتا ہے جبکہ دوسرا ایکس غیر موجود ہوتا ہے۔ اسے، "ایکس او"(XO)سے ظاہر کیا جاتا ہے۔نیز مندرجہ ذیل مخفف بھی اس کے لیے استعمال ہوتے ہیں:

45, X

45, XO

 "او" سے مقصود صرف کروموسوم کی عدم موجودگی کا اظہار ہے۔اس کا نام ڈاکٹر ہنری ٹرنر کے نام پر رکھا گیا جنہوں نے ۱۹۳۸ ءمیں پہلی مرتبہ طبی ادب میں اس کا تذکرہ کیا۔یہ مظہر تین ہزار میں سے ایک انسانی مادہ میں پایا جاتا ہے۔(واضح رہے کہ یہ مقدار دراصل ان لوگوں کے لحاظ سے ہے جن کا ریکارڈ محفوظ ہوا۔ ورنہ ظاہر ہے کہ ہر بندے کی یہ تفصیل محفوظ ہونا ضروری نہیں)۔ان کا قد عام طور سے، میانہ،بال پیشانی کی طرف معمول سے زیادہ بڑھے ہوئے ہوتے ہیں۔ یہ عام طور سے بانجھ ہوتی ہیں تاہم عقلی صلاحیتیں ان میں معمول کے مطابق ہوتی ہیں۔اسی مظہر کے تحت، بعض حالات ایسے بھی پائے گئے ہیں جن میں انسانی مادہ کے "کچھ "خلیے معمول کے مطابق ایکس ایکس کے حامل ہوتے ہیں۔ ایسی صورت حال، جہاں مختلف خلیوں کے جنسی کروموسومز میں  اختلاف ہو"جینیاتی پچی کاری" (Genetic mosaicism)کے نام سے یاد کیا جاتاہے۔

کلائن فیلٹر  استثنائی مظہر:

بعض اوقات مردانہ ساخت واعضا کے حامل انسان  میں (جسے ہم نر یا مرد کہتے ہیں) ایک سے زیادہ ایکس کروموسوم ہوتا ہے۔ ہزار لڑکوں میں سے ایک میں یہ مظہر پایا جاتاہے۔ اس کا نام مشہور امریکی ماہر ہارمونیات پر ہے جنہوں نے ۱۹۴۰ء کی دہائی میں اسے دریافت کیا۔ اسے (XXY 47)سے ظاہر کیا جاتا ہے۔تاہم یہ اس کی ایک مشہور صورت ہے۔ ورنہ  بعض حالات میں تین بلکہ چار تک ایکس بھی ہوتی ہیں۔ نیز بعض اوقات دو وائے بھی پائے جاتے ہیں۔ انہیں ذیل میں ظاہر کیا جا رہا ہے:

XXXY, XXXXY, XXYY

یہ عام طورسے بانجھ ، لمبوتڑے ، ان کے خصیے چھوٹے  جبکہ چہرے اور زیر ناف بال  کم ہوتے ہیں۔ان کی عقلی صلاحیتیں معمول کے مطابق ہوتی ہیں۔

تین ایکس  یا متعدد ایکس استثنائی مظہر:

بعض اوقات زنانہ ساخت واعضا کے حامل انسان  میں (جسے ہم مادہ یا عورت کہتے ہیں)  تین ایکس کروموسومز ہوتے ہیں۔اس کے لیے کوڈ  " 47XXX" استعمال ہوتا ہے۔  ان میں کوئی خاص مسئلہ نہیں ہوتا۔بس یہ ذرا چھریرے بدن کی حامل ہوتی ہیں۔ ان میں کچھ بانجھ بھی ہوتی ہیں لیکن اکثر کو حیض معمول سے آتا ہے۔اسی طرح، ذہنی صلاحیتیں بھی معمول کے مطابق ہوتی ہیں۔ تاہم انتہائی شاذ ونادر حالات میں بعض خواتین میں تین سے بھی زیادہ ایکس ہوتے ہیں اور اسی وجہ سے اسے "متعدد ایکس" کے نام سے بھی یاد کیا جاتاہے۔ایسی عورتیں ذہنی طور سے معذور اور ان میں دیگر مسائل بھی ہوتے ہیں۔ ایکس جوں جوں تین سے زیادہ ہوتے ہیں، ذہنی وجسمانی مسائل ظاہر ہونا شروع ہوتے ہیں۔

ایکس وائے وائے نر:

بعض اوقات مردانہ ساخت واعضا کے حامل انسان  میں (جسے ہم نر یا مرد کہتے ہیں) ایک اضافی وائے کروموسوم ہوتا ہے۔یہ ہزار میں سے ایک مرد میں ہوتا ہے۔ان کا قد قدرے لمبا ہوتا ہے۔ تاہم ان میں کوئی اور مسئلہ نہیں۔ بعض تحقیقات کا اس طرف اشارہ ہے کہ ان میں سیکھنے کی صلاحیت   ذرا کمزور ہوتی ہے۔

ایکس ایکس نر:

طبی تاریخ میں ایک دلچسپ صورت حال یہ پیش آئی کہ ایک مردانہ ساخت واعضا کے حامل انسان میں ایکس ایکس کروموسومز ہیں۔ یہ ماہرین کے لیے ایک معمہ بنا رہا۔کئی عرصے کی تحقیق کے بعد، یہ آشکار ہوا کہ ان لوگوں میں وائے کروموسومز کا ذرہ ایک دوسرے کروموسوم سے ٹنگا ہوا ہوتاہے۔اور اسی تحقیق سے جینز سے متعلق ہمارا تصور مزید نکھارا کہ "نر" ہونے میں بنیادی کردار پورے وائے کروموسوم کا نہیں بلکہ اس کروموسوم میں ایک "جین "کا  ہے جو اگر مثلا وائے کروموسوم میں بھی پائی جائے، تو ایک "نر" کو جنم دیتی ہے۔

جنسی کروموسومز کی فعالیت وکردار:

اس ساری گفتگو سے ہمیں ،مندرجہ ذیل امور کا علم ہوتا ہے:

۱: انسانی نشو ونما کے لیے ایک ایکس ضروری ہے۔ اس لیے، یہ مرد وزن دونوں کا مشترک اثاثہ ہے۔

۲: وہ جین جو مرد کو تشکیل دیتا ہے اس کاٹھکانا وائے کروموسوم ہے۔

۳: اگر ایک بھی وائے (Y)ہو، تو اس سے ایک انسانی نر کی ساخت واعضا وجود میں آتے ہیں۔

۴: وائے (Y)کی عدم موجودگی، انسانی مادی کی ساخت واعضا کو ظہور پذیر کرتی ہے۔

۵: انسان کے تناسل کی صلاحیت سے متعلق جینز  ایکس اور وائے دونوں پر پائی جاتی ہیں۔ مادہ کو عام طور سے، دو ایکس کروموسومز درکار ہیں قرار حمل کے لیے۔

۵: ایکس کروموسومز جوں جوں بڑھتے ہیں، ذہنی  اور جسمانی نقائص پیدا ہونا شروع ہوتے ہیں۔

قرار حمل سے "جنس" بننے تک:

قرار حمل کے بعد، انسانی جنین میں جب تناسلی غدے بنتے ہیں، وہ نر یا مادہ کے ساتھ خاص نہیں ہوتے اور ان میں دونوں میں سے کسی ایک کی طرف جانے کی صلاحیت ہوتی ہے۔اس طرح، اس میں نر ومادہ دنوں کی نالیاں وجود میں آتی ہیں۔تقریبا چھ ماہ کے بعد، وائے کروموسوم میں سویا ہوا ایک "جین" جاگتا ہے اور ان غدوں کو خصیوں میں بدلنے کا عمل شروع کرتا ہے۔اور ان خصیوں سے دو قسم کے ہارمونز نکلتے ہیں  جو مادہ  والی نالی کو ختم کرنا شروع کر دیتے ہیں اور وہ  جنین "نر" بننا شروع ہوجاتا ہے۔ اگر یہ "جین" موجود ہی نہ ہو، تو پھر مادہ وجود میں آتی ہے۔اسی اہم ترین جین کو "ایس آر وائے جین" (SRY) کہتے ہیں جیسا کہ  اس  کی طرف اشارہ کلام کے آغاز میں ہوا۔ تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ انسانی جنس کے تعین میں اس کے علاوہ کوئی دوسری جین کردار ادا نہیں کرتی۔

اس پوری گفتگو سے جو بات واضح ہوئی ہے وہ یہ   کہ:

۱:جینیاتی علم میں انسانی جنس کے تعین میں اس کی ساخت واعضا  ووظائف (Phenotypical Aspects) بنیادی حیثیت کے حامل ہیں۔

۲: نیز  انسانی فینوٹائپ ان کے جینو ٹائپ پرفیصل وحکم ہے۔

۳: تاہم اگرچہ ایک عام مرد میں ایکس وائے اور ایک عام عورت میں ایکس ایکس جنسی کروموسومز ہوتے ہیں، لیکن بعض حالات میں اس کے برعکس بھی ہوتا ہے جیساکہ ہم نے جینیاتی استثنائی مظاہر (سینڈرومز) میں ملاحظہ کیا۔ ہم نے دیکھا کہ نر یا مادہ ہونے کا فیصلہ ظاہری اعضا نے کیا ۔  "ایکس ایکس نر" کی صورت میں ہم نے دیکھا کہ بعض اوقات ظاہری خصائص (فینوٹائپ) اگرچہ جینوٹائپ سے ہم آہنگ نہیں دکھتے، مگر جینوم میں کچھ ایسا موجود ہوتا ہے جو اس عضو کی تشکیل کی تفسیر کرتا ہے اگرچہ ماہرین کو اس کی دریافت میں وقت لگے۔ اس لیے، صرف جینیاتی ڈھانچہ دیکھ کر یہ فیصلہ نہیں ہو سکتا کہ کوئی نر ہے یا مادہ۔ بلکہ اصل فیصلہ اعضائے تناسل سے کیا جائے گا۔اور یہی وہی امر ہےجس کی بنیاد پر صدیوں سے لوگ نومولود کی جنس کا فیصلہ کرتے آئے ہیں اور آج بھی اس کا فیصلہ اسی پرہوتا ہے کیونکہ انسان وہی ہے، اس کی ساخت وہی ہے۔ اس میں کوئی ارتقا، کم از کم، معلوم تاریخ میں نہیں ہوا۔

اس آخری نقطے کے لیے ہم  دومثالیں پیش کر کے بات ختم کریں گے۔

۱: انڈیپنڈنٹ میں ایک خبر چھپی جس کی سرخی تھی: "جینیاتی طور سے پچانوے فیصد مرد، عورت نے جڑواں بچوں کو جنم دیا۔"

ان خاتون کی صورت حال یہ تھی کہ ان میں پچانوے فیصد مردانہ کروموسومز تھے۔لیکن ان کی ساخت واعضا بالکل زنانہ تھے۔ خاتون نے ایک مرد سے شادی بھی کی۔ان میں بیضہ دان(ovary) تھا، نہ کبھی حیض آیا۔

اطبا نےاس کے رحم کا علاج معالجہ کر کے  کسی دوسری عوت کا بیضۃ  ان میں رکھا۔ خاتوں کے ہاں، جڑواں پیدا ہوئے۔اور اطبا کو عمل جراحی کرنا پڑا۔

۲: اسی طرح، سپین کی ایک خاتون ماہر ریاضیات جو اولمپکس میں بھی شریک رہیں، اپنے آپ کو عورت سمجھتی تھیں، ساخت واعضا سب کچھ زنانہ ۔ لیکن ایک مرتبہ ایک کھیل میں شرکت کے لیے جب ان کی جانچ ہوئی تو معلوم ہوا کہ ان میں ایکس وائے کروموسومز ہیں۔اس پر انہیں نا اہل کر دیا گیا کہ  عورت نہیں ہیں ۔اس پر معاشرے میں انہیں تضحیک کا نشانہ بنایا گیا کہ ایک مرد عورت کا روپ دھار کر اس کھیل میں شریک ہوا۔ تاہم خاتون نے مقدمہ کیا کہ صرف کروموسومز سے جنس کا تعین نہیں ہوتا اور وہ مقدمہ جیت گئیں۔ یہ مثال، بعض نسوی تحریک  والے جنس کی تعیین  کے لیے کوئی واقعی پیمانہ نہ ہونے کے لیے پیش کرتے ہیں۔ سٹینفرڈ کے انسائیکلوپیڈا میں، "جنس وصنف سے متعلق نسوی تحریک کے نقطہ نظر" پر  موجود مقالے میں اس  پر موجود تبصرہ ملاحظہ کیجیے:

To illustrate further the idea-construction of sex, consider the case of the athlete Maria Patiño. Patiño has female genitalia, has always considered herself to be female and was considered so by others. However, she was discovered to have XY chromosomes and was barred from competing in women's sports (Fausto-Sterling 2000b, 1–3). Patiño's genitalia were at odds with her chromosomes and the latter were taken to determine her sex. Patiño successfully fought to be recognised as a female athlete arguing that her chromosomes alone were not sufficient to not make her female.

مفہوم: جنس کی تصور سازی کیسے ہوتی ہے، اس کی مزید وضاحت کے لیے ماریہ  کی صورت حال ملاحظہ کیجیے جو ایک ایتھلیٹ تھی۔ ماریہ کے اعضائے تناسل زنانہ تھے، اس نے ہمیشہ اپنے آپ کو مادہ سمجھا۔ اسی طرح دوسروں نے بھی۔تاہم بعد میں انکشاف ہوا کہ اس  کے خلیوں میں ایکس وائے کروموسومز ہیں اور اسے زنانہ کھیلوں میں شرکت سے روک دیا گیا۔ماریہ کے کروموسومز اس کے اعضائے تناسل سے ہم آہنگ نہ تھے اور بنیاد کروموسومز کو بنایا گیا۔پر ماریہ نے اس پابندی کے خلاف مقدمہ اس بنیاد پر جیتا کہ کروموسومز اسے "مادہ" بنانے کے لیے کافی نہیں۔

"سویر ا استثنائی مظہر" (Swyer syndrome):

اسے دراصل " سویر ااستثنائی مظہر "کہتے ہیں۔ابھی ہم نے اوپر دیکھا کہ وائے کروموسومز میں "ایس  آر وائے"جین" موجود ہے جس کا ہونا یا نہ ہونا مرد یا زن ہونے کا فیصلہ کرتا ہے۔چناچہ اس طرح کی صورتوں کا ماہرین نے تجزیہ کیا اور ان کا کہنا تھا کہ پندرہ فیصد لوگوں میں وہ جین موجود تھا تاہم ان کا وائے کروموسوم بالکل ناکارہ تھا جس کہ وجہ سے صرف "ایکس" نے اپنا کام کیا ، وائے نے اپنا کردار ادا  نہیں کیا اور اس طرح، جنین "مادہ" بن گیا۔تاہم یہ بات اوپر گزری کہ اگرچہ جین میں "ایس آر وائے" کا مرکزی کردار ہے لیکن اس میں دوسرے جینز کا بھی حصہ ہے۔ اس لیے، اس مادہ میں نقائص رہ جاتے ہیں۔

غور طلب بات یہ ہے کہ جینز پر مبنی نظریے کی روشنی میں ، یہاں بھی فیصلہ ظاہری اعضا پر ہوا اور تحقیق سے اندازہ ہوا کہ اگرچہ مردانہ کروموسومز موجود ہیں لیکن کالعدم ہیں۔ اور ویسے بھی جب نظریے نے یہ تسلیم کر لیا کہ ظاہری ساخت واعضا  ووظائف (فینو ٹائپ) دراصل جینوٹائپ کے مظاہر ہیں، تو اس کے بعد، اگر کوئی ایسی صورت آتی ہے جس میں یہ ہم آہنگی محسوس نہ ہو، تو آیا نظریہ بدلے گا یا اس کی تفسیر اس چوکھٹے میں ہوگی اور یہ علم ومنہج کے بنیادی مسلمات میں سے ہے۔

اس ساری گفتگو کا نچوڑ یہ ہے کہ جینیاتی طور سے بھی اصل بنیاد انسان کے اعضائے تناسل ہیں اور جنس کا فیصلہ اسی کی بنیاد پر ہو گا۔ اور اگر کسی صورت میں ایک انسان کے جینوم کا ڈھانچہ ایسا آتا ہے جو اس کے ظاہری اعضا وساخت سے بے جوڑ ہو،  تو فیصلہ کن کردار ظاہری اعضا وساخت ہی  ادا کریں گے اور بچے کو نر، مادہ یا خنثی اسی کی بنیاد پرقرار دیا جائے گا۔

اب ہم ، تعیین جنس کے پہلے تین امکانات کی طرف آتے ہیں۔

۱: ظاہری اعضا اور کروموسومز: اس پوری گفتگو میں واضح ہوا کہ انسانی ساخت واعضا ووظائف(فینوٹائپ) اور جینوٹائپ دراصل ایک تصویر کے دو  رخ ہیں۔اسی لیے، ہم نے انہیں اکھٹا ایک عنوان کے تحت کر دیا۔ جینیاتی نظریے کے مطابق ، ہر ظاہری خصوصیت کسی جینیاتی  ہدایت کی عکاس ہے۔ قطع نظر اس بات سے کہ کسی خاص حالت میں  ہم اسے دریافت نہ کر سکیں۔ تاہم کسی انسان میں صرف نر یا صرف مادے کے اعضائے تناسل کا وجود میں آجانا ہی اس بات کی کافی علامت ہے کہ وہ نریا مادہ ہے اگرچہ ہمیں اس کے جینوم میں کوئی استثنائی کیفیت نظر آئے۔اور اگر کسی میں دونوں اعضا کی افرائش ہو  یا ابہام ہو، تو وہ خنثی ہے۔

۲: ہارمونز: اسی گفتگو سے، یہ بھی واضح ہو گیا کہ ہارمونز خود ایک ثانوی امر ہے۔ جینوٹائپ سے فینوٹائپ کی تشکیل میں یہ ایک کردار ادا کرتے ہیں لیکن ان کی بنیاد پر کوئی فیصلہ نہیں ہو سکتا۔

اس لیے، جینیات کی روشنی میں بھی انسان کی جنس کا تعین اور اس کے خنثی ہونے یا نہ ہونے کی فیصلہ اس کے ظاہری جنسی اعضا اور ان کے وظائف سے وابستہ ہے۔اور اس فن کی علمیت نے بھی کچھ ایسا فراہم نہیں کیا جس کی بنیاد پر جنس کی تعیین کا روایتی پیمانہ متاثر ہو۔بس اس نے انسان  کے ظاہری اعضا ووظائف کے لیے ایک جدید تفسیر فراہم کی۔

اس کے بعد، ہم نفسیات کی بنیاد پر جنس وصنف  کو دیکھنے کی کوشش کریں گے۔

 جنس کی تعیین : انسانی نفسیات کی روشنی میں

دراصل یہ وہ صورت حال ہے جس پر ہمارے اس ماحول میں بحث ہو رہی ہے اور بعض لوگوں کا خیال ہے کہ انسانی جنس ، صنف ، جنسی رجحان اور سماجی مظاہر، وسماجی کردار کی، جنہیں روایتی تہذیب نے ایک  ڈور سے باندھ دیا ہے ، گرہ کھول دی جائے۔اس لیے، ان کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ  جینز، ظاہری اعضا وغیرہ میں سے  ہر ایک پر کچھ سوال اٹھا کر انہیں غیر معتبر شمار کیا جائے اور اس حوالے سے وہ مختلف شاذ واقعات کا بھی حوالہ دیتے ہیں۔ اب جب ان سے یہ سوال ہوتا کہ یہ سب معیارات کالعد م ٹھہرے ،تو جنس آخر طے کیسے ہو گی؟

ان کا دو ٹوک جواب یہ ہوتا ہے کہ جنس  کے طے کرنے سے مقصود جنسی رجحان (Sexual Orientation)، سماجی مظاہر  (Gender Expression)اور سماجی کردار (Gender Role)کو طے کرنا ہے کہ مثلا ایک مرد اپنا جنسی تعلق کس سے قائم کرنا پسند کرتا ہے(جنسی رجحان)، ایک مرد اپنے لیے زنانہ نام پسند کرتا ہے یا مردانہ (سماجی مظہر)، ایک عورت گھر یلو خاتون بننا پسند کرتی ہیں یا  کسی ادارے میں نوکری(سماجی کردار)۔ ان سب امور میں اصل انسان کا اپنا رجحان ہے۔ وہ جس طرف جانا چاہے جائے۔ اس کے بعد، تم کسی کی جنس کو جو بھی سمجھو، اس سے فرق نہیں پڑتا۔اور یہی اندر کے احساس پر مبنی تصور ہے جسے "صنفی شناخت" (Gender Identity)  کہا جاتاہے۔اسی سے "متبدل صنف " کا تصور وابستہ ہے  جسے ٹرانس جینڈر کہا جاتا ہے (Transgender)۔ یعنی ایک انسان کے ساتھ اس کی پیدائش سے جو صنف جوڑ دی گئی، وہ اس سے مطئمن نہیں، بلکہ اپنے آپ کو دوسری صنف سے وابستہ سمجھتا ہے۔

متبدل صنف (ٹرانس جینڈر) اور "شناخت":

لگے ہاتھ، ہم صنفی شناخت پر بھی تفصیل سے گفتگو کر لیں۔

شناخت دراصل انسان  کا اپنی ذات کے بارے میں تصورو خیال ہے کہ اس کا کس صنف سے تعلق ہے، وہ مرد ہے یا عورت، قطع نظر اس سے کہ وہ اپنے اعضا کے لحاظ سے نر ہے یا مادہ۔جدید مغربی ادییات  میں شناخت کا جنسی رجحان یا سماجی مظاہر سے کوئی لازمی تعلق نہیں ۔ یہ بس کسی انسان کے احساس کا نام ہے۔اس لیے،عمرانیات میں شناخت کو باقی دو سے الگ رکھا جاتا ہے۔

یہی سے علم عمرانیات کے شعبہ جنسیات وصنفیات میں  "متبدل صنف " کا تصور ہے جسے Transgender کہا جاتا ہے۔ یہاں تبدیلی سے مقصود صرف یہ ہے کہ کسی انسان کو بوقت پیدائش میں جو صنف دی گئی، وہ اس سے مطئمن نہیں ۔ لیکن اس کا لازمی مطلب یہ نہیں کہ وہ  اپنے جنسی رجحانات بھی بدل دے۔ اسی طرح، یہ بھی ضروری نہیں کہ وہ سماجی مظاہر کو بدلے۔ زیادہ تر ایسا ہوتا ہے کہ ایسا انسان اپنا لباس تبدیل کر لے۔ مثلا مرد زنانہ لباس پہننے لگے۔ (لیکن یہاں یہ وضاحت ضروری  ہے ہر لباس تبدیل کرنے والا “متغیر صنف” نہیں ہوتا۔ ایک مرد اپنے آپ کو مرد سمجھتے ہوئے بھی زنانہ لباس اختیارکر سکتا ہے۔  بس اہم بات اس  "دستور "میں  یہ ہے کہ کسی  کے جنسی رجحان  اور صنفی شناخت کے حوالے سے کوئی مفروضہ نہیں قائم کیا جا سکتا ۔ یہ ہر انسان کا ذاتی حق ہے اور وہ اسے کسی بھی وقت بدل سکتا ہے۔)

 چنانچہ   مندرجہ ذیل مثال پر غور کیجیے:

۱: ٹونی پیدائشی طور سے نر ہے۔ لیکن جب وہ بالغ ہوا تو اسے یہ احساس دامن گیر ہوا کہ وہ عورت ہے۔ لیکن اس کا جنسی جھکاو  بھی عورتوں ہی کی طرف ہے۔ اسی طرح، وہ اپنا نام بھی نہیں بدلتا، یہ مطالبہ بھی نہیں کرتا کہ گفتگو میں اس کے لیے تانیث کی ضمائر برتی جائیں وغیرہ۔ بس اس کے اندر کا احساس ہے۔

۲: نومی پیدائشی طور سے مرد ہے۔ اسے بھی یہ احساس دامن گیر ہوا کہ وہ  عورت ہے۔ اس کا بھی جنسی جھکاو عورتوں ہی کی طرف رہتا ہے۔ تاہم  وہ یہ مطالبہ کرتا ہے کہ سماجی مظاہر میں اس کے ساتھ عورتوں کا سلوک کیا جائے۔ وہ اپنا نام نومی سے عینی کردیتا ہے۔ اپنے لیے، مونث کی ضمائر استعمال کروانا پسند کرتا ہے۔اب روایتی نقطہ نظر سے یہ مخالف جنس رجحان کا حامل ہے (Heterosexual)  لیکن اپنے احساس کے تحت وہ موافق جنس رجحان (Homosexual) والا ہے۔ اس کا اندازہ آپ اس سے لگائیں کہ خنثی (Intersex)اور متغیر جنس (Transgender) متبادل اصطلاحات نہیں۔

خنثی اور متغیر صنف میں فرق:

خنثی سے مقصودطبی اصطلاح میں  وہ لوگ ہیں جن کے جنسی خصائص، نظام تولید، ہورمونز، یا کروموسومز نہ خالص مردانہ ہوتے ہیں نہ خالص زنانہ، روایتی تناظر میں۔[روایتی تناظر اس وجہ سے کہا کہ ٹرانس سے متعلقات تحریکات اسے ہی ختم کرنا چاہتی ہیں کہ کسی کو معیار بنا کر دوسرے کو اس پر پرکھا جائے۔]

چنانچہ کئی متغیر جنس لوگ ایسے ہیں جو خنثی نہیں ہوتے۔ اور کئی خنثی اپنے آپ کو  متغیر جنس (Transgender)شمار نہیں کرتے۔اسی طرح، اسی حوالے سے بھی اختلاف ہے کہ آیا خنثی کو ایل جی بی ٹی (LGBT)  میں شمولیت کرنی چاہیے یا نہیں۔چناچہ عمرانیات کی ایک مشہور نصابی کتاب میں آتا ہے جسے  اوپن سٹیک نے متعدد اساتذہ  فن کے اشتراک سے شائع کیا:

Intersex and transgender are not interchangeable terms; many transgender people have no intersex traits, and many intersex people do not consider themselves transgender. Some intersex people believe that intersex people should be included within the LGBTQ community, while others do not.

ترجمہ:خنثی اور متبدل صنف دو الگ الگ اصطلاحات ہیں، ہر موقع پر ، ایک دوسرے کی جگی نہیں لے سکتی۔ کئی ٹرانس لوگوں میں خنثی کی خصوصیات نہیں ہوتیں اور کئی خنثی اپنے آپ کو ٹرانس نہیں گردانتے۔ نیز خنثی برادری کے کچھ لوگوں کاخیا ل ہے کہ انہیں   ایل جی بی ٹی کیو(LGBTQ) میں شامل کیا جانا چاہیے جبکہ دوسرے ایسا نہیں سمجھتے۔۱۲

ایل جی بی ٹی کیو دراصل جنسی رجحانات (Sexual Orientation)کے حوالے سے استعمال کیا جانے والا مخفف ہے جو مخصوص جنسی رجحانات کے حامل لوگوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والے استعمال کرتے ہیں:

۱: ایل(L): وہ عورت  جو عورت کی طرف جنسی جھکاو رکھے۔

۲: جی(G): وہ مرد جو مرد کی طرف جنسی جھکاو رکھے۔

۳: بی (B): وہ انسان جو دونوں جنسوں کی طرف جھکاو رکھے

۴: ٹی(T): متبدل صنف یعنی ٹرانس جینڈر

۵: کیو (Q): یہ ایک عام لفظ ہے جس سے مقصود "سماج کے مارےہوئے "  ان لوگوں کی طرف اشارہ ہے  جو روایتی صنفی وجنسی رجحانات سے ہم آہنگ نہیں تاہم وہ اوپر کے چاروں میں بھی نہیں سماتے۔ اس لیے، اس سے اشارہ عجیب وغریب (Queer)کی طرف بھی ہو سکتا ہے اور "پوچھنے" (Questioning) کی طرف بھی کہ خود سے کچھ فرض کرنے کے بجائے پوچھ لیا جائے۔

انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا میں جنسی شناخت کے حوالے سے آتا ہے:

gender identity, an individual’s self-conception as a man or woman or as a boy or girl or as some combination of man/boy and woman/girl or as someone fluctuating between man/boy and woman/girl or as someone outside those categories altogether. It is distinguished from actual biological sex—i.e., male or female. For most persons, gender identity and biological sex correspond in the conventional way. Some individuals, however, experience little or no connection between sex and gender; among transgender persons, for example, biological sexual characteristics are distinct and unambiguous, but the affected person identifies with the gender conventionally associated with the opposite sex.

ترجمہ:صنفی شناخت ایک انسان کا اپنے حوالےسے ذاتی تصور ہے کہ وہ نر ہے یا مادہ، مرد ہے یا عورت، یا انکے بیچ میں کہیں یا وہ بالکل ان تصورات میں آتا ہی نہیں۔ صنفی شناخت حیاتیاتی جنس  نر ومادہ سےجداگانہ تصور ہے۔ عام طور سے، صنفی شناخت اور جنس  ہم آہنگ ہوتے ہیں۔تاہم کچھ افراد کو اپنی صنفی شناخت اور جنسی شناخت    کے درمیان  تعلق بالکل یا بڑی حد تک اپرا اور اجنبی لگتا ہے۔مثلا ٹرانس اشخاص میں حیاتیاتی جنسی خصائص بالکل واضح اور غیر مبہم ہوتے ہیں، لیکن اس کے باوجود متاثرہ شخص اپنے آپ کو جنس مخالف سے وابستہ صنف سے وابستہ کرتا ہے۔

بریٹینکا کا یہ اقتباس بہت حد تک واضح کر دیتا ہے کہ کیسے صنف کو جدید ادبیات میں ایک مسلسل اور مائل بہ سیلان (Fluid)  تصور ہے۔ اور اسی طرح، جنس کو بھی قرار دیا گیا ہے۔ اسی وجہ سے، اس سلسلہ تحریر کے آغاز میں کہا گیا تھا کہ جنس وصنف کا روایتی تصور دوٹوک دوئی پر مبنی ہے۔

متغیر صنف کے آثار:

تاہم "متغیر صنف" کے لیے اگرچہ یہ ضروری نہیں کہ وہ اپنی جنس،  سماجی مظاہر میں تبدیلی کروائے کہ یہ محض ایک احساس کا نام ہے، لیکن ان میں کئی ایسے ہیں جو یہ تبدیلی کرواتے ہیں۔اور ان تبدیلیوں کو تین  حصوں میں بانٹا جا سکتا ہے:

۱: طبی: اس میں ظاہری اعضا کی تبدیلی، اسی طرح جنسی خصائص کی تبدیلی شامل ہے۔ مثلا بعض مرد اپنا عضو تناسل کٹوا کر اندام نہانی بنوا لیتے ہیں۔(Neovagina Creation)

۲: قانونی تبدیلی۔

۳: سماجی:اس میں نام، ضمائر کا استعمال ،رشتے خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔ رشتے  سے مقصود یہ ہے کہ ایک شادی شدہ مرد کو  یہ احساس دامن گیر ہوا کہ وہ عورت ہے اور اس نے اپنی بیوی سے علیحدگی اختیار کر کے خود کسی دوسرے کی بیوی بننا پسند کیا۔

چونکہ یہاں بنیاد انسانی احساس وشعور ہے، اس لیے یہ بحث "علم نفسیات" سے جڑتی ہے جو سماجی علوم کی ایک شاخ ہے۔ سماجی علوم میں منہج کے حوالے سے بحث  معروف ہے کہ کیا انسان کے مطالعے کے لیے وہی منہج برتا جا سکتا ہے جو ارادے سے عاری مادے کے مطالعے کے لیے برتا جاتا ہے ؟ تاہم اس وقت جن تحقیقات پر پیسہ صرف ہوتا ہے و ہ اسی منہج کو استعمال کرتی ہیں۔

متغیر صنف کے احساس کی سماجی وقانونی معنویت:

ہم بات آگے بڑھانے سے پہلے، ایک مرتبہ پھر یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ کسی ایک انسان کا دوسرے انسان کی "جنس یا صنف" کا تعین، ایک معاشرے کا یا قانون کا ایسا کرنا کیا معنی رکھتا ہے؟

ظاہر ہے کہ اگر کوئی انسان اپنے اندر کوئی احساس رکھتا ہے، تو دوسرا انسان، سماج یا قانون اسےکچھ نہیں کہتا؟ یہ اس کا اور اس کے رب کا معاملہ ہے۔ اسی وجہ سے اب تک ہم جنس، صنف، جنسی رجحان، سماجی مظاہر اور سماجی کردار کی بات کرتے آئے ہیں لیکن "صنفی شناخت " کو اس فہرست میں نہیں لائے کیونکہ انسان میں ابھرنے والا نرا احساس ایسا نہیں کہ اس پر شریعت کوئی حکم لگائے جب کہ انسان خود اس کی آبیاری نہ کر رہا ہو۔اسی طرح، جہاں انسان کسی احساس کو پکا رہا ہے، وہاں بھی فرد  کی ذات سے متعلق یہ سوال  کسی دوسرے کے لیے اس  وقت معنی خیز ہوتا ہے جب وہ سماجی مظہر بنتا ہے، اس کا ظہور کسی عمل  سے ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے، ایک انسان کی جنس وصنف کا سوال  غیر کے لیے ، مندرجہ ذیل وجوہ سے اہمیت اختیار کرتا ہے: جنسی تعلق قائم کرنا، شادی بیاہ میں بندھنا، معاشرتی کردار ادا کرنا، معاشرتی مظاہر وغیرہ۔اور سوال کچھ یوں بنتا ہے کہ کیا انسانی جذبات واحساسات اور اس کے جبلی رجحانات ان افعال کو جواز بخشنے کے لیے کافی ہیں؟ کیا کسی مرد کا مرد کی طرف رجحان یا زن کا زن کی طرف صرف اس وجہ سے سند جواز یافتہ ہو سکتا ہے کہ اس کے ذہن میں ایسے کیمیائی تفاعلات جنم لے رہے ہیں، جو اسے ان چیزوں پر ابھار رہے ہیں؟

انسانی نفسیات اور اخلاقی ذمے داری:

 اس کے لیے، آپ اس پر غور کیجیے کہ بچے سے زیادتی کرنے کا عادی اور سلسلاتی قاتل (سیریل کلر) کی ذہنی حالت ایسی ہوتی ہے کہ اگر پہلا کسی سے بھی جنسی تعلق قائم کر لیے اسے قرار نہیں آتا جب تک کسی بچے کا شکار نہ کرے اوردوسراجسے بھی قتل کر لے جب تک وہ اپنے طے کیے ہوئے پیمانے کے مطابق قتل نہیں کرتا، تو بے چین رہتا ہے۔ اب طبی آلات کی ترقی کے بعد، ہم کسی بھی انسان کی ایم آر آئی(MRI)  کر کے اس کے ذہن کی ساخت کی تصویر کشی کر سکتے ہیں اور "ایف ایم آر آئی "(FMRI) کے ذریعے  سے، اس کے ذہن کے مختلف حصوں میں جاری  کیمیائی تفاعلات اور توانائی بننے کا عمل (میٹابولزم) دیکھا جا سکتاہے۔ بلاشبہ، اگر ان دونوں کے دماغوں کی تصویریں لی جائیں، تو وہ ایک نامرد سے اور اس مسکین سے جس کے دل  میں مرغی کو ذبح کرنے کے تصور سے ہول اٹھتے ہیں، بہت مختلف ہوگا۔ اور سائنسی مجلا ت میں اس طرح کی مختلف تحقیقات چھپتی رہتی ہیں.مثلا "سائنٹفک امریکا"  میں ایک مضمون اس  موضوع پر چھپا کہ  آیا "ایم آر ائی "کے ذریعے سے کسی انسان کی بابت یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے اندر (دو سے دس سال تک کے )بچوں کی طرف جنسی رجحان ہے تا کہ بچوں کو اس کی پہنچ سے دور رکھاجا سکے؟  یہ ایک بالکل ابتدائی  ناپختہ تحقیق ہے اور اس پر اخلاقی وقانونی سوالات بھی ہیں۔ تاہم یہاں اس کا حوالہ دینے کی وجہ مضمون نگارکا، جس کی تحقیق کا میدان بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے والے  ہیں، مندرجہ ذیل تبصرہ ہے:

Despite the fact that sexual interest in children was once believed to be the result of sexual abuse in childhood, current research suggests that pedophilia is biological as opposed to learned, and apparently immutable due to associated differences in brain structure and function. Furthermore, a recent fMRI study showed that non-offending pedophiles have greater inhibitory control than pedophiles who have offended, which likely explains why some are more successful in avoiding abusing a child.

ترجمہ:اگرچہ یہ سمجھا جاتا تھا کہ بچوں کی طرف  جنسی رجحان رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ ایسے رجحان کے حامل  انسان کے ساتھ خود بچپن میں یہ سانحہ پیش آیا،  تاہم جدید تحقیق سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان رجحانات  کی بنیاد حیاتیاتی وعضویاتی ہے، نہ کہ تجربہ جس سے وہ گزرتا ہے۔ نیز  ذہنی ساخت اور اس کے عمل میں جو فرق ہے ان کی وجہ سے، بظاہر یہ میلان بدلا نہیں جا سکتا ۔مزید بر آں، ایک قریب کی "ایف ایم آر ائی "پر مبنی تحقیق سے یہ سامنے آیا کہ ان جذبات کے حامل غیر جارحانہ   لوگوں کو اپنے آپ پر قابو ان سے زیادہ ہوتا ہے جن کی طبیعت میں جارحیت ہو، اور غالبا اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کیوں بعض ایسے رجحان مند لوگ (اس کے تقاضے پر عمل کر کے) بچے سے زیادتی سے باز رہتے ہیں۔

اسی طرح، علم اعصاب وعلم جرمیات کے امتزاج سے  پھوٹنے والی شاخ "عصبی جرمیات" (نیوروکرائمولوجی) میں جرم اور مجرم کی ذہنی ساخت پر بہت تحقیق ہو رہی ہے۔نیز ان تحقیقات کی بنیاد پر عدالتی فیصلوں پر بھی تنقید ہو رہی ہے، عدالتوں پر دباو  پڑ رہا ہے۔ ہم اس کی مزید تفصیل میں نہیں جانا چاہتے۔ مقصود صرف اشارہ ہے۔

ا ب سوال یہ ہے کہ کیا انسانی ذہن اور اس میں جاری کیمیائی عمل  کسی فعل  کے جواز کے لیے کافی ہے؟

یہاں واضح رہے کہ ہمارا مقصود یہ نہیں کہ انسان کی "اہلیت ادا "کا فقہی وقانونی فیصلے پر اثر نہیں پڑتا۔ بلاشبہ پڑتا ہے۔ چنانچہ مجنوں کے فعل کے احکام الگ ہیں۔ اسی طرح، اگر کسی نے اتنے شدید غصے میں طلاق دی کہ اس حالت کے ڈانڈے جنون سے جا ملتے ہوں، تو اس طلاق کا حکم الگ ہے۔

اصل سوال یہ ہے کہ کیا صرف یہ ثابت ہوجانا کہ بعض لوگوں کے دماغ  کا کسی فعل سے ہم آہنگ ہے اور ان کا رجحان اس طرف پایا جاتا ہے، اس فعل کو "جرم" کی فہرست ہی سے نکال دے گا؟ظاہر ہے شاید ہی کوئی اس کا جواب اثبات میں دے۔ اب اس پر سوال یہ اٹھے گا کہ پھر کس "فعل "  کو جرم مانا جائے اور کسے نہیں؟ ہمارا جواب واضح ہے کہ یہ "تہذیبی قدر " کا سوال ہے۔یہ سائنس کا سوال ہی نہیں جس کا دعوی ہے کہ وہ صرف بیان پر اکتفا کرتی ہے، معیار ی حکم نہیں لگاتی۔

انسانی نفسیات اور انسانی ارادہ:

یہاں پڑھنے والوں کو اندازہ ہوگیا ہو گا کہ یہ بحث دراصل "انسانی ارادے" سے جا ملتی ہے کہ کیا واقعی انسان میں کوئی ارادہ بھی ہے یا نہیں۔ اور پھر اخلاق وقانون کے وجود ہی پر سوال اٹھے گا۔ اس حوالے سے، سماجی علوم میں تحقیق جاری ہے اور جرگہ ابھی بھی بیٹھا ہوا ہے۔ لیکن بات یہ ہے کہ یہ علوم کچھ بھی ثابت کر دیں اور خواہ کتنے ہی تجرباتی ثبوت لے آئیں، جب وہ "چاہیے" کا جملہ تشکیل دیں گے اور "قدر" کا سوال اٹھائیں گے، تو اس وقت وہ کچھ بھی کر رہے ہوں، پر "سائنس " کی حدود سے نکل چکے ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ نوم چومسکی نے ، اپنے مخصوص  انداز میں، اس طرح کی تحقیقات پر بڑا دلچسپ تبصرہ کیا  جب ان سے کسی نے یہی سوال پوچھا کہ جدید اعصاب وغیرہ کی تحقیق سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انسان کے ذہن میں اس کا عمل غیر شعوری طور سے طے ہوچکا ہوتا ہے۔ اس کا یہ سوچنا کہ وہ باارادہ ہے ایک دھوکا ہے۔ چومسکی کا کہنا تھا کہ یہ سب تحقیقات بہت اچھی ہے لیکن یہ ہمیں اس موضوع سے متعلق کچھ نہیں بتاتیں۔ ہم میں ارادہ ہے اور ہم اس کا انکار نہیں کر سکتے۔ لیکن اسے ثابت کرنے کے لیے ہمارے پاس کچھ نہیں۔چومسکی نے ولیم جیمز کی طرف سے نقل کیا کہ جو لوگ انسانی ارادے کو مانتے ہی نہیں، تو یہ دلائل کیوں دے رہے ہیں؟! ان کے نظریے کے مطابق ماننے والے ماننے پر مجبور ہیں۔ ان کے مخالفین بھی نہ ماننے پر مجبور ہیں۔ اس سے بہتر ہے کہ وہ بیٹھ کر کوئی تفریحی پروگرام دیکھ لیں۔ (یہ محض ایک مزاح تھا۔ جس میں اصل بنیاد یہ تھی کہ اگر واقعی انسان میں اپنا ارادہ نہیں، تو کسی انسان کو دلائل کی بنیاد پر قائل کرنا ایک بے معنی عمل ہے کیونکہ دلائل کی بنیاد پر دوسرے کو قائل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ دوسرے کو ذی ارادہ مانتے ہیں)

یہاں پھر واضح کرتا چلوں کہ مقصود یہ نہیں کہ ارادہ ہے یا نہیں۔ مقصود یہ ہے کہ جب انسانی ارادے کا فیصلہ یہ فنون نہیں کر سکتے اور ہم کسی بنیاد پر اسے مانتے ہیں، تو ان علوم سے جو بھی تحقیقات یا ، صحیح الفاظ میں  ، تخمینیں سامنے آتے ہیں، وہ ہماری اقدار کے حوالے سے کوئی خاص رہنمائی نہیں کر سکتے۔

اس لیے، جرگہ اگرچہ بیٹھا ہوا ہے، لیکن کیا اسے حق سماعت بھی ہے؟! ہمارا جواب نفی میں ہے۔ انسانی صنف اور سماجی کردار کا فیصلہ نفسیات اور ذاتی رجحان پر نہیں چھوڑا جا سکتا!

(جاری)


دین و حکمت

(فروری ۲۰۲۳ء)

تلاش

Flag Counter