پیغامِ پاکستان اور میثاقِ وحدت

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

گزشتہ روز ادارہ تحقیقاتِ اسلامی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے زیراہتمام ’’پیغامِ پاکستان‘‘ کے حوالے سے منعقد ہونے والے قومی سیمینار میں حاضری کی سعادت حاصل ہوئی اور مختلف مکاتبِ فکر کے بزرگوں اور دوستوں کے ساتھ ملاقات کے علاوہ ایک قومی فریضہ کی ادائیگی میں شریک ہونے کا موقع بھی مل گیا، فالحمد للہ علیٰ ذٰلک۔

قیامِ پاکستان کے بعد سے ملک کے تمام مکاتبِ فکر کے علماء کرام اور دینی راہنماؤں کا اس پر اجماع چلا آ رہا ہے کہ پاکستان میں اس کے مقصدِ قیام کے مطابق شریعتِ اسلامیہ کا مکمل اور عملی نفاذ ناگزیر مِلّی تقاضہ اور ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے جس کی دستورِ پاکستان میں بھی صراحت موجود ہے، مگر اس کے لیے کسی مسلح جدوجہد کی بجائے پُرامن سیاسی جدوجہد اور جمہوری عمل ہی واحد راستہ ہے جس پر اب تک مجموعی طور پر عمل ہو رہا ہے۔ جہادِ افغانستان کے نتیجے میں افغانستان سے سوویت یونین کی پسپائی کے بعد پاکستان کے کچھ حلقوں میں یہ تصور ابھرا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں نفاذِ شریعت کے لیے بھی مسلح راستہ اختیار کرنا چاہیے مگر ملک کے جمہور علماء نے اسے قبول نہیں کیا اور اس عمل کو خروج اور بغاوت قرار دیتے ہوئے ایسا کرنے والوں سے دوٹوک طور پر کہا کہ نفاذِ شریعت کے لیے ان کا جذبہ، قربانی اور محنت قابلِ قدر ہے مگر مسلح جدوجہد کا طریق کار قطعی طور پر غلط اور غیر شرعی ہے، جس کا اظہار چند سال قبل ’’پیغامِ پاکستان‘‘ کے عنوان سے ایک متفقہ قومی دستاویز کی صورت میں کر دیا گیا۔ مگر اس کے بعد بھی مختلف اطراف سے اس کے بارے میں شکوک و شبہات اور تحفظات ابھی تک سامنے لائے جا رہے ہیں اس لیے اس امر کی ضرورت محسوس ہو رہی تھی کہ اس ’’قومی موقف‘‘ کا ایک بار پھر اظہار کیا جائے۔ چنانچہ ادارہ تحقیقاتِ اسلامی نے ۲۳ جنوری کو فیصل مسجد اسلام آباد کے علامہ اقبال آڈیٹوریم میں اس کا اہتمام کیا جس کی کاروائی اور تفصیلات مختلف اخبارات اور سوشل میڈیا کے ذریعے سامنے آ چکی ہیں۔ اس بروقت اقدام پر بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی بالخصوص ادارہ تحقیقاتِ اسلامی اور اس کے سربراہ ڈاکٹر ضیاء الحق شکریہ اور تبریک کے مستحق ہیں۔

کانفرنس میں شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم کا خطاب اس اجتماع کا حاصل اور علماء پاکستان کے دوٹوک موقف کا اظہار تھا، جبکہ اس کے ساتھ مولانا مفتی منیب الرحمٰن، مولانا مفتی عبد الرحیم، مولانا پروفیسر ساجد میر، مولانا قاری محمد حنیف جالندھری، اور مولانا قاضی نیاز حسین نقوی کے خطابات اس مسئلہ پر امت کی وحدت او رہم آہنگی کی واضح علامت تھے۔ راقم الحروف نے بھی چند گزارشات پیش کیں اور آج کے اہم ترین قومی و مِلی تقاضے کی بروقت تکمیل پر اطمینان کا اظہار کیا۔

اس موقع پر اس موقف کے بارے میں تحفظات و اشکالات کا اظہار کرنے والے دوستوں سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ یہ موقف آج کا نہیں بلکہ یہ ہمارے ماضی اور دینی جدوجہد کے تسلسل کا ایک اہم باب ہے جس کے لیے اس تاریخی حقیقت کو ہر وقت پیشِ نظر رکھنا ضروری ہے کہ مسلم حکمرانوں سے مختلف ادوار میں علماء امت کو شکایات رہی ہیں جن کا کھلم کھلا اظہار کیا گیا ہے، احتجاج و اضطراب کی مختلف صورتیں اختیار کی گئی ہیں، اور مسلم حکمرانوں کو اپنے غلط فیصلوں اور طرزِ عمل سے رجوع بھی کرنا پڑا ہے، مگر ہمارے اسلاف و اکابر نے یہ سارے کام ہتھیار اٹھائے بغیر کیے ہیں اور پُرامن جدوجہد کے ذریعے منکرات و فواحش کے خلاف جدوجہد کی ہے۔ اکبر بادشاہ کے نام نہاد دینِ الٰہی اور شریعت میں اس کی تحریفات سے بڑے ’’منکر‘‘ کا سامنا شاید کسی اور دور میں امت کو نہ کرنا پڑا ہو، اس کا مقابلہ علماء امت نے حضرت مجدد الف ثانیؒ کی قیادت میں پوری جرات کے ساتھ کیا اور مغل بادشاہت کو بالآخر اس نام نہاد ’’دینِ الٰہی‘‘ سے دستبرداری اختیار کرنا پڑی۔ حضرت مجدد الف ثانیؒ نے اس دور میں شریعت کی عملداری کو وقت کی سب سے بڑی دینی ضرورت قرار دیا اور اسے سب سے بڑی عبادت بتایا مگر ہتھیار اٹھائے بغیر اس مہم کو سر کیا اور اس کے لیے بے پناہ قربانیاں دیں۔

ہمارے اکابر نے جہاد اور بغاوت کا فتوٰی ایسٹ انڈیا کمپنی کے تسلط کے بعد غیر ملکی حکمرانوں سے نجات حاصل کرنے کے لیے دیا تھا جیسا کہ افغانستان میں روسی فوجوں کے تسلط اور پھر امریکی فوجوں کی یلغار کے موقع پر علماء افغانستان نے جہاد کا فتوٰی دیا اور مسلح جنگ لڑی جو بلاشبہ جہاد تھی۔ پاکستان کے علماء کرام نے بھی اس کی تائید کی اور دنیا بھر کے مسلمانوں کی طرح ہزاروں پاکستانیوں نے عملاً اس جہاد میں شریک ہو کر یہ مقدس فریضہ سرانجام دیا۔ تحدیثِ نعمت کے طور پر عرض کروں گا کہ میں نے خود اس جہاد میں مختلف حوالوں سے شرکت کی ہے اور جہادی مراکز کے علاوہ مورچوں میں بھی وقت گزارا ہے جسے اپنے لیے باعثِ نجات سمجھتا ہوں، مگر غیرملکی قوتوں کے خلاف جہاد پر کسی مسلم ریاست کے اندر مسلم حکمرانوں کے خلاف بغاوت کو قیاس نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی یہ ہمارے اکابر و اسلاف کی روایت رہی ہے۔

اس لیے تمام متعلقہ دوستوں سے ایک بار پھر گزارش ہے کہ وہ اپنے موقف اور طرزعمل پر نظرثانی کریں اور اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ’’علماء پاکستان‘‘ کے اس اجماع و اتفاق کا احترام کرتے ہوئے اپنی جدوجہد کو دستورِ پاکستان کے دائرے میں لے آئیں، یہی آج کے دور کا شرعی اور دینی تقاضہ ہے جو پاکستان کے تمام اہلِ دین کی ذمہ داری بنتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کی وحدت، سلامتی، استحکام، اسلامی تشخص، اور شریعتِ اسلامیہ کے نفاذ و ترویج کے لیے صحیح رخ پر محنت کرنے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

پیغامِ پاکستان میثاقِ وحدت

آج کے اس اجتماع میں پاکستان بھر سے ان جید اور مستند علماء کرام اور مشائخ عظام نے شرکت کی جن کی اکثریت نے ”پیغام پاکستان“ کے قومی بیانیے کو جاری کیا تھا۔ دینی قیادت کے اس اجتماع نے موجودہ حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے، قومی وحدت اور وطن عزیز کی سالمیت کو دہشت گردی، انتہا پسندی اور نفرت انگیزی جیسے چیلنجز کو مد نظر رکھتے ہوئے، 16 جنوری،2018ء کو جاری کردہ قومی بیانیہ اور فتوی ”پیغام پاکستان“ کے تسلسل میں حسب ذیل اعلامیہ جاری کیا۔

  1. پاکستان بھر کے تمام مسالک کے نمائندہ علماء و مشائخ کا یہ اجتماع سمجھتا ہے کہ ”پیغام پاکستان“ جو کہ 16جنوری،2018ء کو ایوان صدر سے جو قومی بیانیہ جاری ہو ا تھا وہ قرآن و سنت، دستور پاکستان اور پاکستان قوم کی اجتماعی سوچ کی عکاسی کرتا ہے، یہ بیانیہ ہمارے مسائل کا تجزیہ کرتے ہوئے ایسا عملی لائحہ عمل پیش کرتا ہے جس پر عمل کرنے سے نہ صرف قیام پاکستان کے مقاصد حاصل ہو سکتے ہیں بلکہ پاکستان میں ایک ایسا مضبوط، متحد اسلامی اور جمہوری معاشرہ قیام کیا جاسکتا ہے جو اسلامی تہذیب و تمدن کی روحانیت، عدل و انصاف، مساوات، اخوت، باہمی رواداری و برداشت اور حقوق و فرائض میں توازن جیسی خصوصیت سے ہی مزین ہو۔ اس بیانیہ پر عمل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اسے قومی اسمبلی اور سینٹ سے پاس کروایاجائے اور پورے ملک میں بطور پالیسی نافذ کیا جائے۔
  2. علماء کا یہ اجتماع سمجھتا ہے کہ کسی بھی نام نہاد دلیل کی بنا پر اسلامی جمہوری پاکستان کی اسلامی حیثیت اور اسلامی اساس کا انکار درست نہیں۔ لہذا اس کی بنا پر ملک یا اس کی حکومت، فوج یا دوسری سیکیورٹی ایجنسیوں کے اہلکاروں کو غیر مسلم قرار دینے اور ان کے خلاف مسلح کارروائی شریعت و قانون کی خلاف ورزی ہے اور ایسا عمل اسلامی تعلیمات کی رو سے بغاوت کا سنگین جرم قرار پاتا ہے۔
  3. علماء کرام اور مشائخ عظام کا یہ نمائندہ اجتماع سمجھتا ہے کہ نفاذ شریعت کے نام پر طاقت کا استعمال، ریاست کے خلاف مسلح محاذ آرائی، تخریب و فساد اور دہشت گردی کی تمام صورتیں، جن کا ہمارے ملک کو سامنارہاہے،قطعی حرام ہیں، شریعت کی رو سے ممنوع ہیں اور بغاوت کے زمرے میں آتی ہیں۔یہ ریاست ملک و قوم اور وطن عزیز کو کمزور کرنے کا سبب بن رہی ہیں اور ان کا تمام تر فائدہ اسلام دشمن اور ملک دشمن قوتوں کو پہنچ رہا ہے۔ لہذا ریاست نے ان کو کچلنے کے لیے جو آپریشن کیے تھے اورقومی اتفاق رائے سے جو لائحہ عمل تشکیل دیا تھا وہ درست ہے اور اس پر عمل درآمد جاری رکھنا چاہیے، مزید یہ کہ اگر دہشت گردی ختم کرنے کے لیے مزید اس قسم کے اقدامات کی ضرورت ہو تو وہ بھی کیے جائیں۔
  4. دہشت گردی کے خلاف جنگ میں علماء کرام اور مشائخ عظام سمیت زندگی کے تمام شعبوں کے طبقات ریاست، مسلح افواج، پولیس، امن و امان قائم کرنے والے تمام اداروں اور عوام الناس کے ساتھ کھڑے ہیں اور پوری قوم قومی بقاء کی اس جنگ میں افواج پاکستان اور پاکستان کے دیگر سیکیورٹی اداروں کے ساتھ مکمل اور غیر مشروط تعاون کا اعلان کرتی ہے۔
  5. یہ اجتماع پیغام پاکستان کی تجدید کرتے ہوئے یہ عہد دہراتا ہے کہ لسانی، علاقائی، مذہبی اور مسلکی شناختوں کے نام پر جو مسلح گروہ ریاست کے خلاف مصروف عمل ہیں، یہ سب شرعی احکامات کی مخالفت کر رہےہیں ، لہذار یاستی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ ان تمام گروہوں کے خلاف ایسی بھرپور کارروائی کی جائےجس کے بعد یہ لوگ پھر سے سر نہ اٹھا سکیں، نیز ان گروہوں کے سدباب کے لیے فوری، دیرپا،پائیدار اور سنجیدہ کوششیں کی جانی چاہییں۔
  6. علماء کرام اور مشائخ عظام کا یہ نمائندہ اجتماع یہ سمجھتا ہے کہ طاقت کے بل پر اپنے نظریات کو دوسروں پر مسلط کرنے کی روش شریعت کے احکام کی مخالفت اور فساد فی الارض ہے، نیز اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور و قانون کی رو سے ایک سنگین جرم ہے لہذا اس قسم کے رویوں کا ہر سطح پر مقابلہ کیا جانا چاہیے اور ان کا سد باب کرنے کے لیے تزویراتی، اقدامی، دفاعی، سماجی اور اقتصادی اقدامات کیے جانے چاہییں۔
  7. علمائے مشائخ کا یہ اجتماع سمجھتا ہے کہ دہشت گرد اور فرقہ پرست تنظیموں کی طرف سے نام نہاد جہاد کےنام پر بھتہ خوری شریعت و قانون کی شدید خلاف ورزی اور سنگین جرم ہے جس سے ہمارے معاشرے میں کاروباری سرگرمی متاثر ہو رہی ہیں، اس لیے امن و امان قائم کرنے والے اداروں کو ان جرائم کے خلاف سنجیدہ کوششیں کرنی چاہئیں۔
  8. وطن عزیز میں قائم تمام درسگاہوں کا بنیادی مقصد تعلیم و تربیت ہے۔ ملک کی تمام سرکاری ونجی درسگاہوں کا کسی نوعیت کی عسکریت (militancy)، نفرت انگیزی (hatred)، انتہا پسند کی (extremism)، تشدد پسندی (violence) اور علاقائیت پرستی سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے۔ پیغام پاکستان جاری کرنے کے بعد اس ضمن میں نمایاں بہتری آئی ہے اور اب تعلیمی اداروں میں نسبتاً امن و امان کی صورت حال بہتر ہے۔ یہ اجتماع سفارش کرتا ہے کہ اس قسم کے مضر اثرات سے نوجوانوں کو بچانے کے لیے پیغام پاکستان کی روشنی میں بھر پور کوششیں جاری رکھی جانی چاہییں۔
  9. دہشت گردی اور نفرت انگیزی کا فکری رحجان(Mindset)ہماری معاشرتی امن کا دشمن ہے۔ اس رجحان کے خلاف فکری جد وجہد تمام اداروں اور افراد کی قومی ذمہ داری ہے۔
  10. اسلامی تعلیمات اور ملکی قانون کے مطابق کسی بھی شخص، مسلک یا ادارے کے خلاف اہانت ، نفرت انگیزی اور اتہام بازی پر مبنی تحریر و تقریر غیر اسلامی اور غیر قانونی عمل ہے اس جرم کے ارتکاب کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرناضروری ہے۔
  11. مسلمانوں میں مسالک و مکاتب فکر قرون اولی سے چلے آرہے ہیں اور آج بھی موجود ہیں۔ ان میں دلیل و استدلال کی بنیاد پر فقہی اور نظریاتی ابحاث ہمارے دینی اور اسلامی علمی سرمائے کا حصہ ہیں اور رہیں گے ،یہ تعلیم و تحقیق کے موضوعات ہیں ان کو عوام الناس میں انتشار اور تفرقہ بازی کے لیے استعمال کرنادینی تعلیمات کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔
  12. پاکستان علماء و مشائخ کا یہ اجتماع محسوس کرتا ہے کہ دوسرے ممالک میں موجود کچھ نام نہاد علماء کی طرف سے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے خلاف سرگرم عمل دہشت گرد تنظیموں کے بیانیے اور اقدامات کی حمایت میں اور پاکستان کے سیکورٹی اداروں کے خلاف ایسے بیانات دیے گئے ہیں جو شرعی احکام اور بین الا قوامی قانون کے صریحاً خلاف ورزی ہیں، چنانچہ پاکستانی علماء و مشائخ کا یہ نمائندہ اجتماع اس غیر ذمہ دارانہ عمل کی نہ صرف مذمت کرتا ہے بلکہ حکومت سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ اس قسم کے غیر شرعی اور غیر قانونی عمل کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے۔
  13. چند روز قبل سویڈن میں ایک انتہا پسند کی طرف سے قرآن پاک کی بے حرمتی کے گھناؤنے اور شرمناک فعل سے دنیا بھر کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے مذہبی جذبات مجروح ہوئے ہیں، جس کی مذمت کے لیےالفاظ ناکافی ہیں۔ آزادی اظہار کا لبادہ اوڑھ کر مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کی آزادی نہیں دی جاسکتی۔ حکومت پاکستان اور انسانی حقوق کے علمبردار ایسے نفرت انگیز عمل کی روک تھام کے لیے اپنی ذمہ داری نبھائیں۔
  14. سوشل میڈیا کے غیر قانونی اور غیر اخلاقی استعمال کی وجہ سے ہماری سماجی اقدار کو شدید خطرات لاحق ہو گئے ہیں، اس لیے سوشل میڈیا کو وطن دشمنی، فرقہ پرستی، تشدد، نفرت انگیزی اور دہشت گردی کے فروغ کے لیے استعمال کرنے کی حوصلہ شکنی کی جانے چاہیے۔ پیغام پاکستان سے متعلقہ سر گرمیوں کے ذریعے عوام الناس خاص طور پر نوجوانوں کی ذمہ داری کے ساتھ سوشل میڈیا کے استعمال کی تربیت کی جانی چاہیے۔

(مؤرخہ 23 جنوری، 2023ء، ادارہ تحقیقات اسلامی، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، فیصل مسجد، اسلام آباد)

پاکستان ۔ قومی و ملی مسائل

(فروری ۲۰۲۳ء)

تلاش

Flag Counter